محبوبِ ربّ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یومِ ولادت باسعادت پر اِظہارِ مسرت کرنا، محافلِ میلاد منعقد کرنا اور جشنِ عید منانا ایک مومن کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے، مگر شومیء قسمت کہ بعض لوگ اس عظیم سعادت کو خلافِ شریعت عمل قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگ اس کے عدمِ جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جشنِ میلاد قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کے عمل سے ثابت نہیں، اس کا آغاز بعد کے اَدوار میں ہوا ہے۔ نیز یہ کہ حضور ختمی مرتبت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وِصال مبارک کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جشنِ میلاد کیوں نہ منایا؟ زیرِ نظر باب میں ہم اُس دور کے معروضی حالات کی روشنی میں اِس کے اَسباب کی توضیح بیان کریں گے۔
حضور رحمتِ عالم ﷺ کی ولادتِ باسعادت مسلمانانِ عالم کے لیے دنیا کی تمام خوشیوں اور مسرتوں سے بڑھ کر ہے۔ قرنِ اَوّل کے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے بالخصوص اِس دنیائے آب و گل میں حضور ﷺ کی تشریف آوری سے بڑی اہم خبر اور کیا ہو سکتی تھی! صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو حضور ﷺ کے عاشق اور جاں نثار تھے ان سے بڑھ کر اس نعمتِ عظمیٰ کا قدردان اور کون ہو سکتا تھا! اس پر اِظہارِ فرحت و مسرت جس طرح وہ کر سکتے تھے آج کے دور کے مسلمان اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد اگر انہوں نے آپ ﷺ کا یومِ ولادت تزک و اِحتشام سے نہیں منایا تو اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ کا یومِ ولادت آپ ﷺ کے وصال کا دن بھی تھا، سرکارِ دوجہاں ﷺ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر غم و آلام کا ایک کوہِ گراں ٹوٹ گیا، اس لیے جب ان کی زندگی میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے صدمے تلے ولادت کی خوشی دب جاتی اور جدائی کا غم اَز سرِ نو تازہ ہو جاتا۔ آقائے دوجہاں ﷺ کی زندگی کی یادوں کے جَلَو میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو خوشی و غم کی کیفیتیں مل جاتیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وصالِ محبوب ﷺ کو یاد کر کے صدمہ زدہ دلوں کے ساتھ خوشی کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔ سو وہ ولادت کی خوشی میں جشن مناتے نہ وصال کے غم میں اَفسردہ ہوتے۔
روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی گھر میں کسی عزیز کی وفات ہو جائے جب کہ چند دنوں کے بعد اسی گھر میں شادی کی تقریب بھی منعقد ہونے والی ہو تو عام دستور یہی ہے کہ اُس غم کے باعث شادی ملتوی کردی جاتی ہے۔ اگر شادی کی تقریب ملتوی نہ بھی کی جائے تو نہایت سوگوار ماحول میں سادگی کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اسی گھر میں اگر اس سوگوار واقعہ کے پانچ، دس سال بعد شادی ہو تو بالعموم یہی دیکھا گیا ہے کہ شادی کا اہتمام رسم و رواج کے مطابق دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور اس موقع پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چند سال پہلے ان کا والد فوت ہوا تھا اب وہ دھوم دھام سے شادی کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق ایک عرصہ تک غم و اندوہ کا پہلو صبر و ضبط پر غالب رہتا ہے اور جوں جوں زمانہ بیت جاتا ہے صدمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے جس کے باعث حالات معمول پر آتے ہی زندگی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔
بشری تقاضوں کے مطابق قرنِ اَوّل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی جدائی کے غم کا پہلو زیادہ اثر آفریں تھا۔ ولادت اور وفات کا دن ایک ہونے کے باعث جب یومِ میلاد آتا تو ان پر غم کی کیفیات خوشی کی نسبت بڑھ جاتی تھیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایثار و قربانی کی ایک زندہ و تابندہ مثال تھے۔ وہ اپنے آقا ﷺ کی جنبشِ اَبرو پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ معیارِ ایمان حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس سے غایت درجہ محبت تھی۔ حضور ﷺ کا یومِ وصال ان کے لیے سب سے عظیم سانحہ تھا۔ حضور ﷺ کے وصال کی اَلم ناک خبر کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر قیامت بن کر ٹوٹی ہوگی، لمحاتِ غم کی شدت میں غلاموں نے کس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ وہ تو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے آقا کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضور ﷺ سے اُن کے جذباتی اور عشقی تعلق کی کیفیت یہ تھی کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیاتِ مبارکہ سے پردہ فرما گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری اور قوی دل صحابی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکنے کے باعث خود پر قابو نہ رکھ سکے۔
صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنھم کے لیے حضور ﷺ کے وصال مبارک کی خبر اندوہ ناک اور ہوش رُبا تھی کیوں کہ ان کا محبوب ان سے جدا ہو گیا تھا۔ اپنی محبوب ترین ہستی کے بچھڑ جانے پر جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ ردِ عمل ایک فطری اَمر تھا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولا ﷺ کے لیے اپنا وطن، عزیز و اَقارب، مال و دولت، بیوی بچے، الغرض سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب وہ اپنے آقا ﷺ کو اپنے درمیان ظاہری طور پر نہ دیکھتے تھے تو ان کی کیفیت دگرگوں ہو جاتی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا کاری زخم بھی لگ سکتا ہے۔ حضور ﷺ کے وصال کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جن جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ان کی ایک جھلک ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد اِمامِ عشاقانِ مصطفیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر وقت اپنے محبوب کے ہجر میں تڑپتے تھے، اور آپ کی وفات کا سبب بھی محبوب ﷺ کی جدائی کا غم تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنھما روایت کرتے ہیں :
کان سبب موت أبي بکر موت رسول الله ﷺ ما زال جسمه يجري حتٰي مات.
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم ﷺ کے وِصال (کا غم) تھا، یہی وجہ ہے کہ فراق میں آپ کا جسم نہایت ہی کمزور ہو گیا تھا حتی کہ آپ کا اِنتقال ہو گیا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 63، 64، رقم : 4410
2. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 263
3. سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 631
حضرت زیاد بن حنظلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان سبب موت أبي بکر الکمد علي رسول الله ﷺ .
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم ﷺ کے وِصال پر ہونے والا حزن و اَلم تھا۔‘‘
سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 632
حضور ﷺ کے وصال مبارک کی خبر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی مضبوط قوتِ اِرادی کی حامل جری و بہادر شخصیت کے خرمنِ ہوش پر بجلی کی طرح گری۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور شدتِ غم سے کہنے لگے : ’’اگر کسی نے کہا کہ حضور ﷺ وصال فرما گئے ہیں تو میں اُس کا سر قلم کر دوں گا۔‘‘(1) اِس موقع پر اُنہوں نے جن جذبات کا اِظہار کیا کتبِ سیر و تاریخ میں اس کے اَلفاظ یوں وارِد ہوتے ہیں :
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 233
إن رجالاً من المنافقين يزعمون : أن رسول الله ﷺ قد توفي، وإن رسول الله ﷺ ما مات، ولکنه ذهب إلي ربه کما ذهب موسي بن عمران، فقد غاب عن قومه أربعين ليلة، ثم رجع إليهم بعد أن قيل : مات، وو الله ! ليرجعَنّ رسول الله ﷺ کما رجع موسي، فليقطعن أيدي رجال و أرجلهم زعموا : أن رسول الله ﷺ مات.
’’منافق گمان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ وفات پاگئے ہیں، حالاں کہ آپ ﷺ نے وفات نہیں پائی بلکہ آپ ﷺ اُسی طرح اپنے رب کی طرف چلے گئے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام گئے تھے۔ وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے، پھر وہ ان کی طرف اس حال میں لوٹے کہ ان کے وصال کی خبر پھیلا دی گئی تھی۔ خدا کی قسم! رسول اکرم ﷺ بھی اسی طرح لوٹ آئیں گے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے۔ پھر آپ ﷺ ضرور اُن لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے جنہوں نے یہ گمان کیا ہوگا کہ رسول اکرم ﷺ کی موت واقع ہوگئی ہے۔‘‘
1. ابن اسحاق، السيرة النبوية : 713
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 196، رقم : 13051
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 588، رقم : 6620
4. ابن هشام، السيرة النبوية : 1134
5. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 270
6. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 2 : 187
7. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 4 : 443
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 2 : 377
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ردِ عمل اگرچہ جذباتی تھا لیکن اسے ہرگز غیر فطری نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ اپنی جان سے زیادہ محبوب ہستی کی جدائی کے صدمہ میں وقتی طور پر کسی انسان کا جذبات سے مغلوب ہو جانا ایک فطری اَمر ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے عہدِ خلافت میں رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں کو گشت کیا کرتے تھے۔ اس طرح آپ آخرت میں جواب دہی کا احساس اپنے اندر ہر وقت زندہ رکھتے تھے۔ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ایک رات آپ عوام کی خدمت کے لیے رات کو نکلے تو آپ نے دیکھا کہ ایک گھر میں چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھی خاتون اُون کاتتے ہوئے ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہی ہے :
علي محمد صلاةُ الأبرار
صلي عليک المصطفون الأخيار
قد کنتَ قَواماً بکي الأسحار
يا ليتَ شِعري والمنايا أطوار
هل تَجمَعني وحَبِيبِي الدَّار
1. ابن مبارک، الزهد : 362، 363، رقم : 1024
2. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي ﷺ ، 2 : 569
3. ملا علي قاري، شرح الشفا، 2 : 42، 43
(محمد مصطفیٰ ﷺ پر صالحین کا درود ہو۔ منتخب اور بہترین لوگوں نے اُن پر درود بھیجا (اور بھیج رہے ہیں)۔ آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور آخرِ شب (یادِ اِلٰہی میں) آنسو بہانے والے تھے۔ ہائے افسوس! اَسبابِ موت متعدد ہیں، کاش! مجھے یقین ہوجائے کہ روزِ قیامت مجھے آقا ﷺ کا قرب نصیب ہوسکے گا۔)
یہ اَشعار سن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے بہادر انسان کی آنکھیں بھی اَشک بار ہوگئیں۔ یادِ رسول ﷺ تڑپانے لگی۔ اِمامِ اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ) کے شاگرد، اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کے اُستاد اور امیر المؤمنین فی الحدیث ’’اِمام عبد الله بن مبارک (118۔ 181ھ)‘‘ لکھتے ہیں :
فجلس عمر يبکي فما زال يبکي حتي قرع الباب عليها، فقالت : من هذا؟ قال : عمر بن الخطاب. فقالت : ما لي ولعمر؟ وما يأتي بعمر هذه الساعة؟ فقال : افتحي، رحمکِ الله ، ولا بأس عليک، ففتحت له، فدخل. وقال : ردّي علي الکلمات التي قلت آنفا، فردّته عليه، فلما بلغت آخره، قال : أسألکِ أن تدخلني معکما. قالت : وعمر، فاغفرله يا غفار. فرضي عمر ورجع.
’’پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ کر رونے لگے، اور روتے رہے یہاں تک کہ اُنہوں نے دروازہ پر دستک دی۔ خاتون نے پوچھا : کون ہے؟ آپ نے کہا : عمر بن خطاب۔ خاتون نے کہا : میرا عمر کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ رات کے اِن اَوقات میں عمر کو یہاں کیا کام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، تو دروازہ کھول، تجھے کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ تو اس نے آپ کے لیے دروازہ کھولا، آپ اندر داخل ہوگئے اور کہا : جو اَشعار تو ابھی پڑھ رہی تھی انہیں دوبارہ پڑھ۔ پس اس نے دوبارہ وہ اَشعار پڑھے اور جب آخر پر پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ان دونوں کے ساتھ مجھے بھی شامل کرلے۔ اُس نے کہا : اے غفار! تو عمر کی بھی مغفرت فرما۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اِس پر راضی ہوگئے اور واپس لوٹ آئے۔‘‘
1. ابن مبارک، الزهد : 362، 363، رقم : 1024
2. خفاجي، نسيم الرياض في شرح شفاء القاضي عياض، 4 : 428، 429
بقول قاضی سلیمان منصور پوری سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کے بعد چند دن تک صاحبِ فراش رہے(1) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔
منصور پوري، رحمة للعالمين ﷺ ، 2 : 343
خاتونِ جنت، سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سلام الله علیھا کو یہ لازوال اعزاز حاصل ہے کہ وہ حضور رحمتِ عالم ﷺ کی لختِ جگر تھیں۔ انہیں آپ ﷺ سے بے حد محبت تھی اور آپ ﷺ نے بھی انہیں اپنی جان کا حصہ قرار دیا۔ حضور ﷺ کے وصال پر سیدہ کائنات سلام الله علیھا کی بے قراری و سوگواری کے واقعات تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں :
(1) حضرت مسور بن مخرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
فاطمة بضعة منّي.
’’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب قرابة رسول الله
، 3 : 1361، رقم : 3510
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب فاطمة، 3 : 1347، رقم : 3556
3. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فاطمة بنت النبي، 4 : 1903، رقم : 2449
1۔ سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء سلام الله علیہا کا وِصال حضور نبیء اکرم ﷺ کے بعد اہلِ بیت میں سے سب سے پہلے ہوا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ اِس بارے میں مختلف روایات ہیں : سیدۂ کائنات سلام الله علیہا کا وِصال حضور نبیء اکرم ﷺ کے وِصال مبارک کے چھ (6) ماہ بعد ہوا۔ بعضوں نے آٹھ (8) ماہ کہا ہے، بعضوں نے سو (100) دن اور بعضوں نے (70) دن کہا ہے، جب کہ صحیح قول چھ (6) ماہ کا ہی ہے۔ وِصال کے وقت سیدۂ کائنات سلام الله علیہا کی عمر مبارک اُنتیس (29) سال تھی۔ آپ نے منگل کی رات 3 رمضان المبارک 11ھ کو وفات پائی۔ سیدۂ کائنات سلام الله علیہا کی اِتنی کم عمری میں وفات کا سبب یہ ہے کہ آپ اپنے ابا جان تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی جدائی کا غم برداشت نہ کر سکیں، آپ اکثر غمگین رہتیں اور حضور نبیء اکرم ﷺ کے وِصال کے بعد کبھی آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور حق بھی یہی تھا۔
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 176، رقم : 4761
2. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 101
3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 8، 9
4. ابن اثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
(2) 1. دولابي، الذرية الطاهرة : 111، رقم : 212
2. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 103
3. ابن اثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
4. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 214
2۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں بیان کی گئی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ کائنات سلام الله علیھا کو اپنے والد گرامی کی جدائی اتنی شاق گزری کہ بے ساختہ پکار اٹھیں :
يا أبتاه! أجاب رباً دعاه
يا أبتاه! مَن جنةُ الفردوس مأواه
يا أبتاه! إلي جبريل ننعاه
’’اے ابا جان! آپ نے (اپنے) رب کا بلاوا قبول فرمایا۔ اے ابا جان! آپ جنت الفردوس میں قیام پذیر ہیں۔ اے ابا جان! میں اس غم کی خبر جبرئیل علیہ السلام کو سناتی ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي ﷺ ووفاته، 4
: 1619، رقم : 4193
2. أحمد بن حنبل، 3 : 197، رقم : 13054
3. دارمي، السنن، 1 : 41، رقم : 88
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 416، رقم : 1029
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 254
3۔ ابن ماجہ (209۔ 273ھ) کی السنن میں بیان کی گئی روایت کے مطابق سیدہ فاطمہ سلام الله علیھا نے حضور ﷺ کے وصال پر درج ذیل اَشعار کہے :
وا أبتاه! إلي جبرائيل أنعاه
وا أبتاه! مِن ربه ما أدناه
وا أبتاه! جنة الفردوس مأواه
وا أبتاه! أجاب رباً دعاه
’’ہائے اباجان! میں اس غم کی خبر جبرئیل علیہ السلام کو سناتی ہوں۔ ہائے اباجان! آپ اپنے رب کے کتنے نزدیک ہوگئے۔ ہائے اباجان! آپ جنت الفردوس میں قیام پذیر ہیں۔ ہائے اباجان! آپ نے (اپنے) رب کا بلاوا قبول فرما لیا۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه ﷺ ،
2 : 103، رقم : 1630
2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علي الميت، 4 : 12، رقم : 1844
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 591، 592، رقم : 6622
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1408
5. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 61، رقم : 4396
6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 311
7. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 : 562
4۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور رحمتِ عالم ﷺ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے تو سیدہ فاطمہ سلام الله علیھا فرطِ رنج و اَلم سے بے ساختہ اُن سے کہنے لگیں :
يا أنس! أطابت أنفسکم أن تحثوا علي رسول الله ﷺ التراب.
’’اے انس! کیا تمہارے دلوں نے اِس بات کو گوارا کر لیا کہ تم رسول الله ﷺ پر مٹی ڈالو؟‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي ﷺ ووفاته، 4
: 1619، رقم : 4193
2. أبو يعلي، المسند، 6 : 110، رقم : 3379
3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 402، رقم : 1364
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1408
5. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 416، رقم : 1029
6. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 409، رقم : 6519
5۔ اِمام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) المسند میں روایت کرتے ہیں کہ سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام الله علیھا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ کہا :
يا أنس! أطابت أنفسکم أن دفنتم رسول الله ﷺ في التراب ورجعتم.
’’اے انس! کیا تمہارے دلوں نے اس بات کو گوارا کر لیا کہ تم رسول الله ﷺ کو مٹی میں دفن کرکے واپس چلے آؤ۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 204، رقم : 13139
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 254
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 3 : 493
حضرت حماد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور مشہور تابعی حضرت ثابت البنانی رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے تو :
بکي حتي تختلف أضلاعه.
’’وہ اتنا روتے کہ ان کی پسلیاں اپنی جگہ سے ہل جایا کرتی تھیں۔‘‘
ابن جوزي، الوفاء بأحوال المصطفيٰ ﷺ : 803
6۔ اِمام طبرانی (260۔ 360ھ) المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں :
فلما انصرف الناس قالت فاطمة لعليّ رضی الله عنه : يا أبا الحسن! دفنتم رسول الله ﷺ ؟ قال : نعم. قالت فاطمة رضي الله عنها : کيف طابت أنفسکم أن تحثوا التراب علي رسول الله ﷺ ؟ أما کان في صدورکم لرسول الله ﷺ الرحمة؟ أما کان معلم الخير؟ قال : بلي، يا فاطمة! ولکن أمر الله الذي لا مرد لهز فجعلت تبکي وتندب، وهي تقول : يا أبتاه! الآن انقطع جبريل عليه السلام، وکان جبريل يأتينا بالوحي من السماء.
’’جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (حضور ﷺ کی تدفین کے بعد) واپس آئے تو سیدہ فاطمہ سلام الله علیھا نے حضرت علی کرم الله وجہہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : تمہارے دلوں نے کیسے گوارا کر لیا کہ تم رسول الله ﷺ پر مٹی ڈالو؟ کیا تمہارے دلوں میں رسول الله ﷺ کے لیے رحمت نہیں تھی؟ کیا وہ بھلائی کی تعلیم دینے والے نہیں تھے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فاطمہ! کیوں نہیں (آپ ﷺ تو تمام خوبیوں کا جامع تھے)، لیکن خدا کا حکم کوئی نہیں ٹال سکتا۔ پس سیدہ فاطمہ سلام الله علیھا نے رونا شروع کر دیا، آپ کی ہچکی بندھ گئی، اور یہ کہتے جاتی تھیں : اے ابا جان! اب جبریل علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ہے جو آسمان سے وحی لے کر اترتے تھے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 64، رقم : 2676
2. ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 4 : 79
7۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وِصال کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بالعموم مغموم رہتے، حتی کہ بعض نے مسکرانا ہی ترک کر دیا۔ حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سیدہ عالم حضرت فاطمۃ الزہراء رضي الله عنھا کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
ما رأيت فاطمة رضي الله عنها ضاحکة بعد رسول الله ﷺ .
’’میں نے آپ ﷺ کے وِصال مبارک کے بعد کبھی بھی حضرت فاطمۃ الزہراء رضي الله عنھا کو مسکراتے نہیں دیکھا۔‘‘
ابن جوزي، الوفاء بأحوال المصطفيٰ ﷺ : 803
8۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ سلام الله علیھا آقائے دوجہاں ﷺ کے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو آپ کی کیفیت اس طرح ہوتی کہ
أخذت قبضة من تراب القبر، فوضعته علي عينيها، فبکت وانشأت تقول :
ماذا ممن شم تربة أحمد
أن لا يشم مدي الزمان خواليا
صبت عليّ مصائب لو أنها
صبت علي الأيام صرن لياليا
’’قبرِ اَنور کی مٹی مبارک اُٹھا کر آنکھوں پر لگا لیتیں اور حضور ﷺ کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں :
(جس شخص نے آپ ﷺ کے مزارِ اَقدس کی خاک کو سونگھ لیا ہے اسے زندگی میں کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہیں۔ آپ ﷺ کے وِصال کی وجہ سے مجھ پر جتنے عظیم مصائب آئے ہیں اگر وہ دنوں پر اُترتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔)
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 134
2. ابن قدامة، المغني، 2 : 213
اِس غم ناک صورت حال میں جب سیدہ کائنات سلام الله علیہا کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے موت کو خوش دلی سے قبول کیا کیونکہ موت انہیں ربِ ذُوالجلال اور اپنے ابا جان سے ملانے والی تھی۔ اس کیفیت کا ذکر اَئمہ و محدثین نے یوں کیا ہے :
عن أم سلمة رضي الله عنها قالت : اشتکت فاطمة سلام الله عليها شکواها التي قبضت فيه، فکنت أمرضها فأصبحت يوما کأمثل ما رأيتها في شکواها تلک، قالت : وخرج عليّ لبعض حاجته، فقالت : يا أمه، اسکبي لي غسلاً، فسکبت لها غسلاً فاغتسلت کأحسن ما رأيتها تغتسل، ثم قالت : يا أمه، أعطيني ثيابي الجدد، فأعطيتها فلبستها، ثم قالت : يا أمه، قدمي لي فراشي وسط البيت، ففعلت واضطجعت واستقبلت القبلة وجعلت يدها تحت خدها، ثم قالت : يا أمه، إني مقبوضة الآن وقد تطهرت، فلا يکشفني أحد فقبضت مکانها، قالت : فجاء عليّ فأخبرته.
’’حضرت ام سلمیٰ رضي الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدۂ فاطمہ سلام الله علیہا اپنی مرضِ موت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔ مرض کے اس پورے عرصہ کے دوران میں جہاں تک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے۔ سیدہ نے کہا : امی جان! میرے غسل کرنے کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی، آپ نے اچھی طرح غسل کیا۔ پھر فرمایا : امی جان! مجھے نیا لباس دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسے آپ نے زیبِ تن فرمایا اور قبلہ رُخ ہو کر لیٹ گئیں، ہاتھ مبارک رُخسار مبارک کے نیچے کر لیا، پھر فرمایا : امی جان! اب میری وفات ہوگی، میں پاک ہو چکی ہوں، لہٰذا کوئی مجھے (غسل دینے کے لیے) بے پردہ نہ کرے۔ پس اسی جگہ آپ کی وفات ہوگئی۔ حضرت اُم سلمیٰ کہتی ہیں : بعد ازاں حضرت علی کرم الله وجہہ تشریف لائے اور میں نے انہیں سیدہ کے وِصال کی اطلاع دی۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 461، 462، رقم : 27656
2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 629، 725، رقم : 1074، 1243
3. دولابي، الذرية الطاهرة : 113
4. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 211
5. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 2 : 250
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 103
7. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
اَصحابِ سیر و تاریخ نے لکھا ہے کہ سیدۂ کائنات سلام الله علیہا کی وفات مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ہوئی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو رات کے وقت دفن کیا گیا اور سیدنا علی، سیدنا عباس اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنھم نے آپ کو لحد میں اتارا۔ یوں آپ اپنے ابا حضور ﷺ سے جا ملیں۔
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 177، 178، رقم : 4763
- 4765
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 31، رقم : 11826
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 25، رقم : 33938
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 31
5. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 175، 176
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربيٰ : 104
7. شيباني، الآحاد والمثاني، 5 : 355، رقم : 2937
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 29
9. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 2 : 8
10. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة ث، 7 : 221
جب محبوبِ خدا ﷺ کی جدائی پر غم و اندوہ اور اِضطرابِ دل کی یہ کیفیت ہو اور یہی دن آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا بھی ہو تو کس کے اندر اتنی تاب ہو سکتی تھی کہ وہ جشن ولادت منانے کا سوچے؟
حضرت اَنس رضی اللہ عنہ دس سال تک حضور ﷺ کی خدمت پر مامور رہے، پیغمبرِ انسانیت ﷺ کی سیرت و کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہر وقت عشقِ رسول ﷺ کی فضائے کیف و سرور میں گم رہتے۔ جب تاجدارِ کائنات ﷺ کا وصال ہوا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی۔ جس شفیق ہستی کا ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا دل پر شاق گزرتا تھا، اس عظیم ہستی کی یاد میں آنکھیں اَشک بار رہتیں۔ حضور ﷺ کے تبرکات کی زیارت کرتے تو دل کو اطمینان ہوتا۔ ذکرِ نبی ﷺ کی محفل سجاتے، خود بھی تڑپتے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے۔
ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم ﷺ کا حلیہ مبارک بیان فرما رہے تھے، حضور ﷺ کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :
ولا مَسِسْتُ خزّة ولا حريرَة ألين من کف رسول الله ﷺ ، ولا شَمِمْتُ مسکة ولا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول الله ﷺ .
’’اور میں نے آج تک کسی دیباج اور ریشم کو مَس نہیں کیا جو رسول الله ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کہیں ایسی خوشبو سونگھی جو رسول الله ﷺ کے جسمِ اَطہر کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب ما يذکر من صوم النبي ﷺ
وأفطاره، 2 : 696، رقم : 1872
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب طيب رائحة النبي ﷺ ولين مسه والتبرک بمسحه، 4 :
1814، رقم : 2330
3. دارمي، السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ ، 1 : 45، رقم : 61
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 107
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اکثر خواب میں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی۔ مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سنا :
ما من ليلة إلاّ وأنا أري فيها حبيبي، ثم يبکي.
’’(آپ ﷺ کے وِصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جس میں میں اپنے حبیب ﷺ کی زیارت نہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 20
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 403
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ میں آمد اور وصال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
لما کان اليوم الذي دخل فيه رسول الله ﷺ المدينة أضاء منها کل شيء، فلما کان اليوم الذي مات فيه أظلم منها کل شيء.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری پر اُس کی ہر شے روشن ہو گئی، لیکن جس روز آپ ﷺ کا وصال ہوا تو مدینہ کی ہر شے (میرے لیے) تاریک ہوگئی۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ
، 6 : 13، رقم : 3618
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه ﷺ ، 1 : 522، رقم : 1631
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 268، رقم : 13857
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 601، رقم : 6634
5. أبو يعلي، المسند، 6 : 51، 110، رقم : 3296، 3378
6. مقدسي، الأحاديث المختارة، 4 : 418، 419، رقم : 1592، 1593
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یوں محسوس کیا کہ وہ شہر جس میں ہم صبح و شام آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا کرتے تھے، اب آپ ﷺ کی زیارت نہ ہونے کے باعث تاریک نظر آنے لگا۔
شیخ اِبراہیم بیجوری حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
استنار من المدينة الشريفة کل شيء نوراً حسياً ومعنوياً، لأنه ﷺ نور الأنوار والسراج الوهاج ونور الهداية العامة ورفع الظلمة التامة، وقوله : أظلم منها کل شيء، أي لفقد النور والسراج منها فذهب ذالک النور بموته.
’’آپ ﷺ کی برکت سے مدینہ کی ہر شے نورِ ظاہری اور نورِ باطنی سے روشن ہوگئی، کیوں کہ آپ ﷺ کی ذات اقدس تمام انوار کا سرچشمہ، روشن چراغ، تمام عالم کے لیے نورِ ہدایت اور تمام ظلمات کے رفع کرنے کا مرکز ہے۔ چونکہ آپ ﷺ کے وصال کی وجہ سے (کائنات کا) نور اور چراغ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا لہٰذا تمام روشنی تاریکی میں بدل گئی۔‘‘
بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمدية : 287
مؤذنِ رسول و عاشق حضور ﷺ ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی فراقِ محبوب ﷺ کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے شام کے شہر حلب کی طرف چلے گئے، کہ شہر رسول ﷺ میں رہتے ہوئے انہیں آقائے دوجہاں ﷺ کی معیت میں گزرے ہوئے شب و روز یاد آجاتے اور گلی کوچوں میں آقائے دوجہاں ﷺ کے خرام ناز کے مناظر بے اختیار آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے، جس کی وہ تاب نہ لا سکتے تھے۔
شارحِ صحیح البخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب آقائے دوجہاں ﷺ کا وصال مبارک ہوا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے قلبِ مضطر کی وجہ سے شہر مدینہ چھوڑنے کاارادہ کر لیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اس ارادے کا علم ہوا تو آپ نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ پہلے کی طرح مسجد نبوی ﷺ میں اذان دیتے رہیں۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا :
إني لا أريد المدينة بدون رسول الله ﷺ ولا أتحمل مقام رسول الله ﷺ خالياً عنه.
’’رسول الله ﷺ کے بغیر اب مدینہ میں جی نہیں لگتا اور نہ ہی مجھ میں ان خالی و افسردہ مقامات کو دیکھنے کی قوت ہے جن میں حضور ﷺ تشریف فرما ہوتے تھے۔‘‘
کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 15 : 24
صحیح البخاری میں آپ رضی اللہ عنہ کا جواب ان الفاظ میں منقول ہے :
يا أبا بکر! إن کنت إنما اشتريتني لنفسک فأمسکني، وإن کنت إنما اشتريتني ﷲ فدعني.
’’اے ابوبکر! اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا تھا تو مجھے روک لیں، اور اگر اللہ کی رضا کی خاطر خریدا تھا تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب مناقب بلال بن
رباح ص، 3 : 1371، رقم : 3545
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 396، رقم : 32336
3. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 337، رقم : 1010
4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 238
5. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي ﷺ من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 10 : 132،
133
6. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 2 : 24
7. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 481
موسیٰ بن محمد بن حارث تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
لمّا توفي رسول الله ﷺ أذن بلال ورسول الله ﷺ لم يقبر، فکان إذا قال : أشهد أن محمداً رسول الله انتحب الناس في المسجد. قال : لما دفن رسول الله ﷺ قال له أبوبکر : أذن، فقال : إن کنت إنما أعتقتني لأن أکون معک فسبيل ذلک، وإن کنت اعتقتني ﷲ فخلني ومن أعتقتني له، فقال : ما أعتقتک إلا ﷲ. قال فإني لا أؤذن لأحد بعد رسول الله ﷺ .
’’جب رسولِ خدا ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اُس وقت اذان کہی کہ جب رسول خدا ﷺ دفن بھی نہ ہوئے تھے۔ جب انہوں نے اشھد ان محمدا رسول الله کہا تو لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ رسولِ خدا ﷺ دفن کر دیے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا : اذان کہیں۔ اُنہوں نے کہا : اگر آپ نے مجھے اس لئے آزاد کیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں تو اس کا راستہ یہی ہے، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے اور اُسے چھوڑ دیجیے جس کے لئے آپ نے مجھے آزاد کیا ہے۔ تو اُنہوں نے کہا : میں نے تمہیں محض اللہ کے لئے آزاد کیا ہے۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا : تو پھر میں رسولِ خدا ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہ کہوں گا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 419، رقم : 1828
2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 236، 237
3. أزدي، الجامع، 11 : 234
4. أبونعيم، حلية الأوليا وطبقات الأصفياء، 1 : 150، 151
5. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 439
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 10 : 361
اِس رِوایت کو عربی زبان کی معروف لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کے مؤلف یعقوب فیروز آبادی (729۔ 817ھ) کامل سند کے ساتھ ذِکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
کذا ذکره ابن عساکر في ترجمة بلال رضی الله عنه، وذکره أيضاً في ترجمة إبراهيم بن محمد بن سليمان بسند آخر إلي محمد بن الفيض، فذکره سواء، وابن الفيض روي عن خلائق، وروي عنه جماعة، منهم : أبو أحمد بن عدي وأبو أحمد الحاکم، وأبوبکر ابن المقري في معجمه وآخرون.
’’جیسا کہ یہ روایت ابن عساکر نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حالات میں ذکر کی ہے اور اسے ابراہیم بن محمد بن سلیمان کے حالات میں ایک اور سند کے ساتھ بیان کیا اور وہ سند مشہور محدث محمد بن فیض تک جا پہنچتی ہے۔ ابن فیض نے یہ روایت کثیر محدثین سے نقل کی اور آگے ابن الفیض سے روایت کرنے والے بھی کثیر محدثین ہیں، جیسے : ابو احمد بن عدی، ابو احمد الحاکم، ابو بکر بن المقری اور دیگر محدثین۔‘‘
فيروز آبادي، الصلات و البشر في الصلاة علیٰ خير البشر : 187، 188
چنانچہ یہ کہہ کر کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، آپ شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد خواب میں آپ ﷺ کی زِیارت نصیب ہوئی تو آپ ﷺ فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! أما آن لک أن تزورني؟
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا کیوں چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر ’’لبیک یا سیدي یا رسول الله ‘‘ کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ ﷺ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ ﷺ کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آ کر مل جاؤ، غلام حلب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر اَنوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے : بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا ﷺ کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیوں کہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول الله کہتے وقت آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ ﷺ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مشورہ کیا کہ حسنین کریمین رضی الله عنھما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
يا بلال! نشتهي نسمع أذانک الذي کنت تؤذن به لرسول الله ﷺ في المسجد.
’’اے بلال! آج ہم آپ سے وُہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول ﷺ کو اِس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اُسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور ﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
فلما أن قال : الله أکبر، الله أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا الله ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول الله ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول الله ﷺ فما رُئي يوم أکثر باکياً ولا باکية بالمدينة بعد رسول الله ﷺ من ذالک اليوم.
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بہ آوازِ بلند) الله اَکْبَرُ الله اَکْبَرُ کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اِضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا الله کے کلمات ادا کئے تو گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ الله کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رِقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا)۔ لوگوں نے کہا : رسول خدا ﷺ تشریف لے آئے ہیں۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔‘‘
1. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام ﷺ : 39، 40
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7 : 97
3. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، 3 : 204، 205
4. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 358
5. فيروز آبادي، الصلات و البشر في الصلاة علي خير البشر ﷺ : 187
6۔ ھیتمی نے ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم (ص : 27)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ واقعہ جید سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔
7. سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة : 221
8۔ شامی نے ’’سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ (12 : 359)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ واقعہ ابن عساکر نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، 2 : 308، 309
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اَذانِ بلال کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اذاں اَزل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اِک بہانہ بنی
اِقبال، کلیات (اُردو)، بانگِ درا : 81
کتب احادیث و سیر میں ان کے حوالے سے ایک روایت ہے :
ما ذکر ابن عمر رسول الله ﷺ إلا بکي، و لا مرّ علي ربعهم إلا غمض عينيه.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما جب بھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتے رو پڑتے، اور جب بھی آپ ﷺ کے ٹھکانوں پر گزرتے آنکھیں بند کر لیتے تھے۔‘‘
1. بيهقي، المدخل إلي السنن الکبري، 1 : 148، رقم : 113
2. عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 4 : 187
3. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 1 : 38
حضرت عبداللہ بن زیدص کے بارے میں منقول ہے کہ جب انہیں ان کے بیٹے نے حضور ﷺ کے وصال مبارک کی خبر دی تو اُس وقت وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے وصال کی خبر سن کر غمزدہ ہوگئے اور بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر اُنہوں نے اُسی وقت یہ دعا مانگی :
اللهم! أذهب بصري حتي لا أدري بعد حبيبي محمداً أحداً.
’’اے اللہ! میری بینائی اُچک لے کیونکہ میں اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعد کسی کو دیکھنا نہیں چاہتا۔‘‘
1. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 3 : 279
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية، 9 : 84، 85
پس اُس صحابی کی دعا قبول ہوئی اور ان کی بینائی لے لی گئی۔
حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن رجلاً من أصحاب محمد ذهب بصره فعادوه.
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے ایک صحابی کی بینائی (فراقِ رسول ﷺ میں) جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لئے گئے۔‘‘
جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تو وہ کہنے لگے :
کنتُ أريدهما لأنظر إلي النبي ﷺ ، فأما إذا قُبض النبي، فو الله ما يسّرني أن بهما بظبي من ظباء تبالة.
’’میں ان آنکھوں کو فقط اس لئے پسند کرتا تھا کہ ان کے ذریعے مجھے نبی اکرم ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ اب چوں کہ آپ ﷺ کا وصال ہوگیا ہے اس لئے اگر مجھے چشمِ غزال (ہرن کی آنکھیں) بھی مل جائیں تو کوئی خوشی نہ ہو گی۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 188، رقم : 533
1۔ امام آلوسی نقل کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جب حضور ﷺ کی یاد تڑپاتی تو وہ آپ ﷺ کے دیدار فرحت آثار کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور آپ ﷺ کو مبارک حجروں میں تلاش کرتے۔
فجاء إلي ميمونة رضي الله عنها، فأخرجت له مرأته، فنظر فيها، فرأي صورة رسول الله ﷺ ولم ير صورة نفسه.
’’پھر وہ حضرت میمونہ رضي الله عنھا کے ہاں آ جاتے۔ پس وہ آپ ﷺ کا ذاتی آئینہ اُس صحابی رضی اللہ عنہ کو دے دیتیں (جو آپ ﷺ کی زیارت کرنا چاہتا)۔ جب وہ صحابی رضی اللہ عنہ اُس آئینہ مبارک میں دیکھتا تو اسے اپنی صورت کی بجائے اپنے محبوب رسول ﷺ کی صورت نظر آتی۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 22 : 39
2۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے بارے منقول ہے :
أنه کان إذا سمع الحديث أخذه العويل والزويل.
’’جب حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث سنتے تو ان کی حالت غیر ہو جاتی اور چیخ چیخ کر روتے۔‘‘
(3) قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي ﷺ ، 2 : 598
3۔ ایک روایت میں ہے :
أن امرأة قالت لعائشة : اکشفي لي قبر رسول الله ﷺ ، فکشفته لها، فبکت حتي ماتت.
’’ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا سے کہا : مجھے رسولِ خدا ﷺ کی قبر اَنور کا دروازہ کھول دیں، (میں مزارِ اَقدس کی زیارت کرنا چاہتی ہوں)۔ پس سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا نے اس کے لیے کھول دیا، وہ عورت (ہجرِ رسول ﷺ کے صدمے سے) بہت روئی حتی کہ واصل بہ حق ہوگئی۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي ﷺ ، 2 : 570
2. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 2 : 204، رقم : 203
3. ملا علي قاري، شرح الشفا، 2 : 44
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اِسی سوز و گداز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قوتِ قلب و جگر گردد نبی
اَز خدا محبوب تر گردد نبی
اِقبال، کلیات (اَسرار و رموز) : 113
(حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی دل و جگر کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور شدت اختیار کرکے خدا سے بھی زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔)
سوزِ صدیق و علی اَز حق طلب
ذرۂ عشق نبی اَز حق طلب
اِقبال، کلیات (پیامِ مشرق) : 203
(تو حق تعالیٰ سے عشق کی وہ تڑپ مانگ جو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور مولا علی شیرِ خدا کرم الله وجہہ میں تھی۔ تو حق تعالیٰ سے آپ ﷺ کے عشق کا ذرّہ طلب کر۔)
4۔ قاضی عیاض (476۔ 544ھ) لکھتے ہیں :
لقد کان عبد الرحمٰن بن القاسم يذکر النبي ﷺ فينظر إلي لونه کأنه نزف منه الدم، وقد جف لسانه في فمه هيبة لرسول الله ﷺ .
’’(حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے) عبد الرحمٰن بن قاسم جب حضور ﷺ کا ذِکر مبارک سنتے تو اُن کے جسم کا رنگ اِس طرح زرد پڑ جاتا جیسے اُس سے خون نچوڑ لیا گیا ہو اور آپ ﷺ کے ذِکر کی ہیبت کی وجہ سے اُن کی زبان ان کے منہ میں خشک ہو جاتی۔‘‘
قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي ﷺ ، 2 : 36
تاجدارِ کائنات ﷺ کے وصال مبارک پر اِنسان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو ایک طرف رہے، جانور بھی ہجر و فراق کا صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ اس کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وناقۂ آنحضرت علف نمیخورد وآب نمی نوشید تاآنکہ مُرد۔ از جملہ آیاتی کہ ظاہر شد بعد از موتِ آنحضرت آں حماری کہ آنحضرت گاہی براں سوار میشد چنداں حزن کرد کہ خود را در چاہی انداخت۔
’’آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کی اونٹنی نے مرتے دم تک کچھ کھایا نہ پیا۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد جو عجیب کیفیات رونما ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جس دراز گوش پر آپ ﷺ سواری فرماتے تھے وہ آپ ﷺ کے فراق میں اتنا مغموم ہوا کہ اس نے ایک کنویں میں چھلانگ لگا دی اور اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔‘‘
1. عبد الحق محدث دهلوي، مدارج النبوة، 2 : 444
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، 3 : 433
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور میں جب بھی ولادت کا دن آتا تو جہاں اُنہیں حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی ہوتی، وہاں غم و اندوہ کی کیفیات بھی زخمِ جدائی کو ہرا اور ماحول کو افسردہ کر دیتیں جس کے باعث ان کے لیے دھوم دھام سے جشنِ ولادت کا اہتمام کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی کیفیات تابعین اور تبع تابعین کے اَدوار میں بھی رہیں، تابعین نے اگرچہ حضور نبی اکرم ﷺ کے شب و روز کا اَز خود مشاہدہ نہ کیا تھا مگر اس کاتذکرہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سنا اور پھر ان سے تبع تابعین نے سنا۔
جب تبع تابعین کا دور گزر گیا تو بعد میں آنے والوں نے چوں کہ ولادت اور صحبتِ مصطفیٰ ﷺ کے اَحوال کو دیکھا تھا نہ وصال کے غم و ہجر کا مشاہدہ کیا تھا۔ اِمتدادِ زمانہ سے رفتہ رفتہ خوشی کا پہلو غم پر غالب آتا چلا گیا اور وقت کے ہاتھ نے جدائی کے زخم پر مرہم رکھ دیا۔ اَفرادِ اُمت اس نعمتِ عظمی کی خوشی کے مقابلے میں غم بھول گئے اور انہیں یقین آگیا کہ آپ ﷺ کی حیات اور وفات دونوں اُمت کے لیے سراپا خیر ہے۔ دوسرے حیات النبی ﷺ کا تصور ان کے لیے موجبِ راحت و طمانیت تھا۔
اُمت کے حق میں حضور ﷺ کی ولادت اور رِحلتِ اَطہر دونوں باعثِ رحمت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
حياتي خير لکم تحدثون ونحدث لکم، ووفاتي خير لکم، تعرض علي أعمالکم، فما رأيت من خير حمدت الله عليه، وما رأيت من شر استغفرت الله لکم.
’’میری حیات تمہارے لیے باعثِ خیر ہے کہ تم دین میں نئی نئی چیزوں کوپاتے ہو اور ہم تمہارے لئے نئی نئی چیزوں کو پیدا کرتے ہیں۔ اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیر ہے، مجھے تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ پس جب میں تمہاری طرف سے کسی اچھے عمل کو دیکھتا ہوں تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور جب کوئی بری چیز دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ واضح کرتی ہے کہ حضور ﷺ کا وصال مبارک بھی اسی طرح امت کے حق میں رحمت ہے جس طرح آپ ﷺ کی ظاہری حیاتِ طیبہ سارے عالم کے لیے دائمی رحمت ہے۔
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925
2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘
میں روایت کیا ہے۔
3۔ حکيم ترمذي، نوادر الاصول في احاديث الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 4 : 176
4۔ دیلمی نے ’’الفردوس بماثور الخطاب (1 : 183، رقم : 686)‘‘ میں اسے حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
5۔ قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 : 19
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے
روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257
8۔ زین الدین ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
قدرے اِختلافِ اَلفاظ کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل محدثین نے بھی نقل کی ہے :
9. ديلمي، الفردوس بما ثور الخطاب، 2 : 137، 138، رقم : 2701
10. عجلوني، کشف الخفاء و مزيل الإلباس، 1 : 442، رقم : 1178
بکر بن عبد الله مزنی سے مرسلاً اس روایت کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے :
11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 194
12. ابن إسحاق، فضل الصلاة علي النبي ﷺ ، 1 : 38، 39، رقم : 25، 26
13. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 34
14۔ احمد بن عبد الہادی نے ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی (ص : 266، 267)‘‘
میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اور بکر ثقہ تابعین میں سے ہے۔
15۔ محدث ابن الجوزی نے بکر بن عبد الله اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت
’’الوفا باحوال المصطفیٰ (ص : 826، رقم : 1564، 1565)‘‘ میں بیان کی ہے۔
16۔ امام جلال الدین سیوطی نے ’’کفایۃ الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب (2 : 491)‘‘ اور
’’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 3)‘‘ میں لکھا ہے کہ ابن ابی اسامۃ نے اپنی
’’مسند‘‘ میں بکر بن عبد الله المزنی اور بزار نے اپنی’’مسند‘‘ میں عبد الله بن مسعود
سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے۔
17۔ اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی قاری نے ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ
ﷺ ‘‘ کی شروحات ’’نسیم الریاض (1 : 102)‘‘ اور ’’شرح الشفا (1 : 45)‘‘ میں بالترتیب
کی ہے۔
18. عجلوني، کشف الخفاء ومزيل الإلباس، 1 : 442، رقم : 1178
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے وصال کی حکمت ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
إن الله عزوجل إذا أراد رحمة أمة من عباده، قبض نبيها قبلها، فجعله لها فرطاً وسلفاً بين يديها، وإذا أراد هلکة أمة، عذبها، ونبيها حي، فأهلکها وهو ينظر، فأقر عينه بهلکتها حين کذّبوه وعصَوا أمره.
’’جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر اپنا خاص کرم کرنے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اس امت کے نبی کا وصال کر کے اس امت کی شفاعت کا سامان کر دیتا ہے۔ اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے حکم کی نافرمانی کے باعث اس کی ظاہری حیات میں ہی اُنہیں عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیتا ہے۔ اور اس امت کی ہلاکت کے ذریعے اپنے نبی کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرماتا ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إذا أراد الله رحمة أمة
قبض نبيها قبلها، 4 : 1791، 1792، رقم : 2288
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 22، رقم : 6647
3. بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 154، رقم : 3177
4. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 315، رقم : 4306
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 11، 12
مذکورہ حدیث میں لفظ فرط کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری (م 1014ھ) لکھتے ہیں :
أصل الفرط هو الذي يتقدم الواردين ليهيئ لهم ما يحتاجون إليه عند نزولهم في منازلهم، ثم استعمل للشفيع فيمن خلفه.
’’فرط کسی مقام پر پہنچنے والوں کی ضروریات کو اُن کی آمد سے پہلے مہیا کرنے والے شخص کو کہا جاتا تھا، پھر یہ لفظ اپنے بعد آنے والے کی سفارش کرنے والے کے لیے اِستعمال ہونے لگا۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفاء، 1 : 45
اِس اُمت پر اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی عنایت ہے کہ آخرت میں پیش ہونے سے پہلے ہی اپنے حبیب ﷺ کو اُمت کے لیے بہ طور شفیع اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا وصال بھی تمہارے لیے رحمت ہے۔ لہٰذا یہ بات طے پاگئی کہ امت کے حق میں آپ ﷺ کی حیات و وفات دونوں رحمت و نعمت ہیں۔ آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اُمت کے حق میں پہلی نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اس کے ذریعے ہی دوسری نعمت حاصل ہوئی۔
الله کی نعمت کے حصول پر خوشی کا اِظہار اور شکر بجا لانا اللہ رب العزت کا حکم ہے جس کی تفصیل گزشتہ َابواب میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی سابقہ غم پر شکر بجا لاتے ہوئے غم و اندوہ اور افسوس کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ایسا کرنا تو نعمت کی ناقدری کے مترادف ہوگا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا :
وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo
’’اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘
ابراهيم، 14 : 7
غم اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی نعمت ختم ہو جائے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد بھی ختم ہو جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا سلسلہ بھی بند ہو جائے مثلاً کسی کے ہاں بیٹا ہوا اور وہ فوت ہوگیا۔ اب اس کے مرنے پر تو اسے غم ہوسکتا ہے کہ بیٹے کی نعمت اس سے چھن گئی لیکن پھر بھی شکرگزار مومنین کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ مال و دولت اور اولاد کی محرومی پر خدا سے شکوہ کریں، کیوں کہ یہ آزمائشیں تو آتی رہتی ہیں اور الله تعالیٰ ایک نعمت چھن جانے پر اس کا نعم البدل عطا فرما دیتا ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کے وصالِ مبارک کے موقع پر سوگ منانا اور غم کرنا اُمتِ مسلمہ کا وطیرہ اور شیوہ نہیں اس لیے کہ سوگ نعمت کے خاتمے پر کیا جاتا ہے۔
آقائے دوجہاں ﷺ ہر وقت امت کے سر پر سایہ فگن ہیں، غم تب منایا جائے جب حضور ﷺ کا سایہ رحمت اُمت کے سر سے اٹھ گیا ہو یا رابطہ اور تعلق منقطع ہوچکا ہو۔ حضور ﷺ تو آج بھی اُمت کے اَحوال سے با خبرہیں اور قدم قدم پر دست گیری فرماتے ہیں۔ چودہ سو سال گزرنے کے باوُجود نہ تو حضور ﷺ کی عنایات میں کمی آئی، نہ آپ ﷺ کی شفقتوں اور مہربانیوں میں کوئی فرق آیا، نہ آپ ﷺ کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور نہ آپ ﷺ کے تصرف و کمال میں کمی واقع ہوئی۔ جب آپ ﷺ کے حسن و جمال، مرتبہ نبوت و رسالت، ختم نبوت اور آپ ﷺ کی فیوضات و توجہات سب کچھ اسی طرح موجود ہیں تو غم کس بات کا؟ بے شک حضور ﷺ نے بھی بہ تقاضائے حکم اِلٰہی۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ (ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے)(1)۔ اَجل کا ذائقہ چکھا لیکن وہ موت تو آپ ﷺ کی حیاتِ اَبدی کا پیش خیمہ تھی۔ جب ایک عام مومن اور کافر کی موت میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک کے مصداق حضور ﷺ کی وفات اور عام انسانوں کی موت میں کیا نسبت ہو سکتی ہے؟
1. القرآن، الأنبياء، 21 : 35
2. القرآن، العنکبوت، 29 : 57
حضور ﷺ ظاہری دنیا سے پردہ فرما کر عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ خواص و صالحین تو آج بھی حضور ﷺ کو عالم بے داری میں دیکھتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) جیسے اہل اللہ بھی تھے جنہوں نے زندگی میں کم و بیش پچھتر (75) بار عالمِ بے داری میں حضور ﷺ کی زیارت کی۔
شعراني، الميزان الکبريٰ، 1 : 44
قارئین کرام! آپ جب روضہ اقدس پر حاضری کے لیے جاتے ہیں تو کیا اسی طرح جاتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی کی قبر پر جایا جاتا ہے؟ حضور ﷺ کا روضۂ اَقدس تو زیرِ فلک ایسی ادب گاہ ہے جہاں جنید و بایزید جیسی ہستیاں بھی دم بخود حاضری دیتی تھیں بلکہ وہاں وہی آداب ملحوظ رکھنا فرض ہیں جو آپ ﷺ کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں تھے۔ یہ ہماری کوتاہ اندیشی ہے کہ ہمیں حضور ﷺ کے بارے میں حقیقتِ حال کا علم نہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں جب کہ مردانِ حق وفات پاکر بھی زندہ ہیں۔ حضور ﷺ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہمارا سلام سن کر اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں(1) مگر ہم یہ جواب سننے سے قاصرہیں کیوں کہ ہر کان سزاوارِ سماعت ہے نہ ہر آنکھ قابلِ دیدار۔ لہٰذا اُمتِ مسلمہ پر خوشی و مسرت کا اِظہار لازم ہے، اِظہارِ غم و اَفسوس کا کوئی محل نہیں۔
1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 : 175،
رقم : 2041
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 527
3. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 84، رقم : 3116
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 245
5. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 217، رقم : 1581
6. ابو نعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 6 : 349
7. منذري، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 2 : 362، رقم : 2573
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10 : 162
9. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي ﷺ من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 11 : 59
10. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام ﷺ : 19، رقم : 20
11. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع ﷺ : 156
اللہ تعالیٰ نے جو کلمہ مسلمانوں کو عطا فرمایا اس کے الفاظ۔ لَآ إِلٰهَ اِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)۔ ہی اس حقیقت پر پختہ شہادت ہیں کہ حضور ﷺ کی نبوت قیامت تک اُسی طرح جاری و ساری رہے گی جس طرح آپ ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں تھی۔
اب کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ’’محمد ﷺ اللہ کے رسول تھے،‘‘ وہ یہی کہے گا کہ ’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اگر کوئی ایسا نہ کہے تو وہ بالاتفاق کافر کی موت مرے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا کہ آپ ﷺ کی رسالت کو ابد الآباد تک کے لیے مانا جائے۔ یہ بنیادی تقاضائے ایمان ہے کہ اللہ نے آپ ﷺ کے ماضی میں رسول سمجھے جانے کے تصور کو سرے سے ختم کر دیا اور ماضی کا صیغہ استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی۔ ختمِ نبوت کی حقیقت سے یہ واضح کر دیا کہ نبی آئے اور چلے گئے، چوں کہ ان کی رسالت عارضی تھی اس لیے نئے نبی بھی آتے رہے مگر حضور ﷺ خاتم النبیین و خاتم الرسل ہیں لہٰذا اب قیامت تک کوئی نیا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت ہر زمانے میں جاری ہے اور قیامت تک رہے گی۔ اس لیے یہ عقیدہ رکھنا فرض ہے کہ حضور ﷺ اب بھی اسی طرح اللہ کے رسول ہیں جس طرح صحابہ کے لیے تھے اور جس طرح ہمارے لیے ہیں اسی طرح تاقیامِ قیامت بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تریسٹھ (63) برس تک آپ ﷺ کو ہر کوئی سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا مگر وصالِ مبارک کے بعد خال خال کسی خوش نصیب ہی کو آپ کی زیارت بہ حالتِ خواب نصیب ہوتی ہے۔ جس کا بخت یاوری کرے وہ نہ صرف خواب میں بلکہ بے داری میں بھی حضور ﷺ کی زیارت کر لیتا ہے۔ الغرض حضور ﷺ اپنے مخلص غلاموں پر آج بھی شفیق ہیں، ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، انہیں دل اور سر کی آنکھوں سے شرفِ دیدار بھی بخشتے ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو اُن کی روحوں کے استقبال کے لیے بھی تشریف لاتے ہیں۔
حصولِ نعمت پر خوشی منانا ایک فطری تقاضا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اس کی مثال اس شادی والے گھر کی سی ہے جہاں مرگ کے فوراً بعد شادی ہو تو غم تازہ ہونے کی وجہ سے شادی کا اِنعقاد سوگ وار ماحول میں کیا جاتا ہے۔ اور اگر اسی گھر میں اس سانحے کے چند سال بعد شادی ہو تو اس پر حسبِ روایت خوشی کا اظہار کیا جاتاہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ غم ختم ہوگیا یا یہ کہ خوشی منانے والے کے دل میں اپنے پیاروں کی یاد نہیں رہی۔ بلکہ یہ حیاتِ انسانی کے مشاہدات میں سے ہے کہ ایک عرصہ تک ماحول افسردہ اور اِحساسِ غم زندہ رہتا ہے مگر رفتہ رفتہ جب عرصہ بیت جاتا ہے تو وقت اس صدمے کے زخم کو مندمل کر دیتا ہے اور دلِ زار کو قرار آجاتا ہے۔
جلیل القدر اَئمہ اسلام نے تصریح کی ہے کہ حضور رحمتِ عالم ﷺ کی ولادت و بعثت پر دھوم دھام سے خوشی کا اظہار عین شرعی اور فطری تقاضوں کی بجا آوری ہے، جب کہ آپ ﷺ کے وصال پر غم کا اِظہار خلافِ شریعت اور اِسلام کے اَبدی اصول کے منافی ہے۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) اس حوالے سے اُصولِ شریعت بیان کرتے ہیں :
إن ولادته ﷺ أعظم النعم علينا، ووفاته أعظم المصائب لنا، والشريعة حثّت علي إظهار شکر النعم والصبر والسکون والکتم عند المصائب، وقد أمر الشرع بالعقيقة عند الولادة وهي إظهار شکر وفرح بالمولود، ولم يأمر عند الموت بذبح ولا بغيره. بل نهي عن النياحة وإظهار الجزع، فدلّت قواعد الشريعة علي أنه يحسن في هذا الشهر إظهار الفرح بولادته ﷺ دون إظهار الحزن فيه بوفاته.
’’بے شک آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمی ہے اور آپ ﷺ کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیب پر صبر و سکون کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 54، 55
حضور ﷺ کا وصال مسلمانوں سے اس اَمر کا متقاضی نہیں کہ وہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ ﷺ کا فیضانِ نبوت تاقیامت جاری ہے اور آپ ﷺ برزخی زندگی میں دنیاوی زندگی سے بڑھ کر حیات کے مالک ہیں۔ ملا علی قاری (م 1014ھ) نے آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بارے میں کیا خوب کہا ہے :
ليس هناک موت ولا فوت بل انتقال من حال إلي حال وارتحال من دار إلي دار.
’’یہاں نہ موت ہے اور نہ وفات بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقلی ہے اور ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف سفر کرنا ہے۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 45
میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے ہم نے اس بات کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے کہ قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے اس موقع پر اِظہارِ مسرت سے کیوں گریز کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کی صحبت میں زندگی کا ایک حصہ گزارا تھا، حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بھی 12 ربیع الاول کا دن آتا تو خوشی کے ساتھ ساتھ انہیں حضور ﷺ کے ساتھ گزارے ہوئے تمام مناظر یاد آجاتے اور ان پر حزن و ملال کی کیفیت غالب آجاتی۔ صدیوں کے بعد وہ کیفیت باقی نہ رہی تو امت کے اندر خوشی کا پہلو فطری طور پر غالب آتا چلا گیا اور انہوں نے فطری تقاضوں کے مطابق جشن منانے کا آغاز کیا اور آج تک مناتے چلے آرہے ہیں۔ اِس بابت مفتی محمد مظہر الله دہلوی لکھتے ہیں :
’’میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو، یہ دونوں جائز ہیں۔ ان کو ناجائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے۔ مانعین کے پاس اس کی ممانعت کی کیا دلیل ہے؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز اَمر کو کسی کا نہ کرنا اس کو ناجائز نہیں کر سکتا۔‘‘
مظهر الله دهلوي، فتاوي مظهري : 435، 436
اُردو زبان میں سیرتِ طیبہ پر لکھی جانے والی پہلی کتاب کے مصنف مفتی محمد عنایت احمد کاکوروی (1228۔ 1279ھ) کا قول ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد پر منعقد ہونے والی محفل اِظہارِ مسرت کے لیے ہوتی ہے، اس میں غم کا اِظہار کرنا مناسب نہیں۔ آپ لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کو چاہیے کہ بہ مقتضائے محبتِ آنحضرت ﷺ محفل شریف کیا کریں اور اس میں شریک ہوا کریں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بہ نیت خالص کیا کریں، ریا اور نمائش کو دخل نہ دیں۔ اور بھی اَحوالِ صحیح اور معجزات کا حسبِ روایاتِ معتبرہ بیان ہو کہ اکثر لوگ جو محفل میں فقط شعر خوانی پر اِکتفاء کرتے ہیں یا روایاتِ واہیہ نامعتبر سناتے ہیں خوب نہیں۔ اور بھی علماء نے لکھا ہے کہ اِس محفل میں ذکر وفات شریف کا نہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ محفل واسطے خوشی میلاد شریف کے منعقد ہوتی ہے۔ ذکرِ غم جانکاہ اِس محفل میں نازیبا ہے۔ حرمین شریفین میں ہرگز عادتِ ذکرِ قصۂ وفات کی نہیں ہے۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين ﷺ : 15
لہٰذا یومِ میلاد پر جشن منانا بدعت نہیں بلکہ عین تقاضائے فطرت ہے۔ اس سے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے تو چنداں غلط نہ ہوگا کہ محافلِ میلاد کا انعقاد اسلامی ثقافت کا جزو لاینفک بن گیا ہے۔
میلاد شریف کو بطور جشن منانا حضور نبی اکرم ﷺ سے قلبی تعلق کا ایک ثقافتی اِظہار ہے۔ تاریخ اسلام کی روشنی میں جائزہ لیں تو قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک ہر دور میں حیات انسانی کے مختلف شعبوں میں کئی اعتبار سے طرزِ بود و باش، معاشرتی میل جول، خوشی و غمی، جذبات و احساسات کے اظہار کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے وقت کے ساتھ ساتھ رُونما ہونے والی تبدیلیوں کی چند مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں :
کتب تواریخ و سیر میں مذکور ہے کہ جب اہلِ مدینہ کو آپ ﷺ کے عازمِ ہجرت ہونے کی اطلاع ملی تو وہ سب سخت گرمی کے موسم میں روزانہ نمازِ فجر کے بعد آپ ﷺ کے استقبال کے لیے مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر باہر مقام ’حرہ‘ پر جمع ہو کر آپ ﷺ کا انتظار کرتے، تیز دھوپ میں جب سایہ بھی ختم ہو جاتا تو بجھے دلوں کے ساتھ گھروں کو لوٹتے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عویم بن ساعدہ اَنصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :
لما سمعنا بمخرج رسول الله ﷺ من مکة، وتوکفنا قدومه، کنا نخرج إذا صلينا الصبح، إلي ظاهر حَرّتنا، ننتظر رسول الله ﷺ ، فو الله ! ما نبرح حتي تغلبنا الشمس علي الظلال، فإذا لم نجد ظلاً دخلنا، وذلک في أيام حارة.
’’جب ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کے مکہ سے باہر نکلنے اور مدینہ کی طرف تشریف لانے کی خبر سنی تو ہم صبح نماز پڑھ کر باہر نکل آتے اور دن چڑھے تک کھلے میدان میں آپ ﷺ کا انتظار کرتے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت تک انتظار کرتے رہتے جب تک کہ سورج ہمارے سایوں پر غالب نہ آجاتا۔ جب ہم سورج کی تپش سے بچنے کے لیے سایہ نہ پاتے تو اپنے گھروں میں آجاتے، اور یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے۔‘‘
1. ابن هشام، السيرة النبويه : 423
2. طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 571
3. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 : 331
4. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 196
5. خزاعي، تخريج الدلالات السمعية علي ما کان في عهد رسول الله ﷺ من الحرف : 446
جب آقائے دوجہاں ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساکنانِ مدینہ خوشی سے جھوم اٹھے، انہوں نے اس قدر دھوم دھام سے خوشی و مسرت کا اظہار کیا کہ سارا شہر استقبالِ نبی ﷺ کے لیے مدینہ کی حدود سے باہر امڈ آیا۔ معصوم بچیوں نے دف پر خوشی کے گیت گا کر محبوبِ خدا ﷺ کا استقبال کیا۔ خیر مقدمی نعرے لگائے گئے اور لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ جلوس کی شکل میں گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں آپ ﷺ نے قیام فرمایا۔
ہجرت، تاریخِ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ یہی ہجرت اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد بنی اور اسلام ایک غالب قوت بن کر ابھرا۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کون سا موقع ہو سکتا تھا مگر آنے والے سالوں میں اہل مدینہ نے حضور ﷺ کے اس یوم ہجرت پر خوشی کا اہتمام نہ کیا اس لیے کہ اُس دور کے کلچر اور مزاج میں یہ چیز شامل نہ تھی۔ لیکن آقائے دوجہاں ﷺ کی آمد کے موقع پر آپ ﷺ کا شاندار اور والہانہ استقبال اور اظہارِ مسرت عین فطرتِ انسانی کے مطابق تھا، جس سے کم از کم اس بات کا جواز ضرور ملتا ہے کہ اسلام میں کسی عظیم خوشی کے موقع پر جشن کا اہتمام کرنا اور دھوم دھام سے اظہارِ مسرت کرنا اَمرِ جائز اور فطری تقاضا ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق انسان کی فطرت اور دلی جذبات سے ہے، اس میں کوئی بات شریعت کے منافی نہیں۔ لہٰذا بدعت کہہ کر اس کا انکار ایک مخصوص قلبی کیفیت کا غماز ہے جو محض ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے انصار و مہاجرین کی مشاورت سے یہود کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا، تاریخِ اسلام میں یہ عظیم معاہدہ ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی اور حضور ﷺ ریاست مدینہ کے آئینی حکمران بنے۔ مسلمانوں کے لیے یہ موقع عظیم خوشی کا تھا، مگر مسلمانوں نے یوم میثاقِ مدینہ منانے کا کوئی اہتمام اس لیے نہ کیا کہ ایسا کرنا اُس زمانے کے کلچر میں شامل نہ تھا۔
ہجرت کے بعد مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی خوشی کا دن یومِ بدر تھا جب حق و باطل کے درمیان معرکہ میں باطل کو شکست ہوئی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو الله رب العزت نے فتح و کامرانی سے ہم کنار کیا۔ اِس سے مسلمانوں کو حوصلہ اور ولولۂ تازہ ملا۔ قرآن حکیم نے اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ قرار دیا ہے. یہ دن بھی دورِ صحابہ میں سال بہ سال بار بار آتا رہا مگر اس دن کو منانے کا ان کے ہاں کوئی رواج نہیں تھا۔
الأنفال، 8 : 41
اِسی طرح ہجرتِ مدینہ کے بعد فتحِ مکہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم واقعہ تھا جس سے اسلام جزیرہ نمائے عرب میں ایک غالب قوت بن کر اُبھرا۔ یہ وہ دن تھا جب آپ ﷺ ایک فاتح کی حیثیت سے دس ہزار سربکف جاں نثار صحابہ کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے دوبارہ شہر مکہ میں داخل ہوئے۔ یہ وہی شہرِ مکہ تھا جہاں سے کفار کے ظلم و ستم اور معاندانہ سلوک کی وجہ سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس دن کو قرآن مجید نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے۔ اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ مگر قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے فتح مکہ کا دن نہیں منایا کیوں کہ اُس دور کی ثقافت میں یہ چیز شامل نہ تھی۔
الفتح، 48 : 1
ستائیس (27) رمضان المبارک کی شب وہ مبارک رات ہے جس میں نزولِ قرآن ہوا، آپ ﷺ پر وحی کا آغاز ہوا۔ الله رب العزت نے اس عظیم الشان رات احسانِ عظیم فرمایا اور قیامت تک رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ قرآن مجید عطا فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے شبِ قدر منانے کا کبھی اِہتمام نہیں کیا کیوں کہ اُس دور کی ثقافت میں یہ عنصر نہ تھا۔
ہم اگر موجودہ دور کے تہذیبی و ثقافتی پس منظر پر عمیق نظر ڈالیں تو نہ صرف یہ کہ ہم مذکورہ بالا مہتم بالشان ایام مناتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور دن بھی دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اور بہت سے قومی تہواروں کو ایام مسرت کے طور پر مناتے ہیں۔
اِس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں اہم ملّی اور مذہبی اہمیت کے دن بطور تہوار منانے کا کوئی رواج نہیں تھا، اور اس وقت کی ثقافت میں ایسی کوئی روایت کارفرما نہ تھی جس کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یومِ نزولِ قرآن، یومِ بدر اور یومِ فتحِ مکہ مناتے۔ قطع نظر اس سے کہ ان ایام کی اَہمیت تاریخ اسلام میں کسی اعتبار سے کم نہیں۔ آج اہلِ پاکستان دیگر اسلامی ممالک کی طرح اپنا یومِ آزادی اور دیگر قومی اَیام بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں کیوں کہ ایسا کرنا آج کی ثقافتی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک میں اُن کے حکمران اپنی تخت نشینی کا دن بہ طور عید مناتے ہیں، ا ور یہ دن اُن کے ہاں ’’العید الوطنی‘‘ کہلاتا ہے۔ اِس طرح ہر ملک و قوم اپنے قومی تہواروں کے اِنعقاد کے ذریعے اپنے نظریات و قومی تشخص اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ پس بدلتے ہوئے ان حالات کے تقاضوں کی روشنی میں آج محافلِ میلاد کا انعقاد بھی ہماری ثقافتی اور مذہبی ضرورت بن چکا ہے جس سے کوئی صاحبِ فکر و نظر اِنکار نہیں کر سکتا۔ محافلِ میلاد کے اِنعقاد کے ذریعے ہم اپنے اور اپنی اگلی نسلوں کے قلوب و اَذہان میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی شمع بہ آسانی روشن کرسکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر مسلمان اپنے نبی ﷺ سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرسکتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved