ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی پورا عالمِ اِسلام میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی میں اِنعقادِ تقریبات کا آغاز کر دیتا ہے۔ ہر اسلامی ملک اپنی ثقافت اور رسم و رواج کے مطابق محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ مہینہ مناتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ میلادِ مصطفیٰ ﷺ آج کے مسلمان ہی نہیں مناتے بلکہ ماضی بعید اور قریب میں بھی انتہائی گرم جوشی اور اہتمام کے ساتھ یہ دن منایا جاتا رہا ہے۔
علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) فرماتے ہیں :
لا زال أهل الحرمين الشريفين والمصر واليمن والشام وسائر بلاد العرب من المشرق والمغرب يحتفلون بمجلس مولد النبي ﷺ ، ويفرحون بقدوم هلال شهر ربيع الأول ويهتمون إهتماما بليغا علي السماع والقراءة لمولد النبي ﷺ ، وينالون بذالک أجرا جزيلا وفوزا عظيما.
’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی ﷺ کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، بيان الميلاد النبوي ﷺ : 58
اِمام سخاوی (831۔ 902ھ / 1428۔ 1497ء)، اِمام قسطلانی (851۔ 923ھ / 1448۔ 1517ء)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ / 1551۔ 1642ء) اور اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) فرماتے ہیں :
وإنما حدث بعدها بالمقاصد الحسنة، والنية التي للإخلاص شاملة، ثم لا زال أهل الإسلام في سائر الأقطار والمدن العظام يحتفلون في شهر مولده ﷺ وشرف وکرم بعمل الولائم البديعة، والمطاعم المشتملة علي الأمور البهية والبديعة، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون المسرات ويزيدون في المبرات، بل يعتنون بقرابة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم عميم.
’’(محفلِ میلادالنبی ﷺ ) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہل اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادالنبی ﷺ قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات الله تعالیٰ کے بہت بڑے فضل کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔‘‘
1. ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر
: 12، 13
2. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 148
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1 : 362
4. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
5. عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 60
6. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 261، 262
7. إسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9 : 57
8. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
9. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ : 233، 234
10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 29
مفتی محمد عنایت احمد کاکوروی (1228۔ 1279ھ / 1813۔ 1863ء) لکھتے ہیں :
’’حرمین شریفین اور اکثر بلادِ اِسلام میں عادت ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں محفلِ میلاد شریف کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت درود کی کرتے ہیں، اور بہ طور دعوت کے کھانا یا شیرینی تقسیم کرتے ہیں۔ سو یہ اَمر موجبِ برکاتِ عظیمہ ہے اور سبب ہے اِزدیادِ محبت کا ساتھ جناب رسول الله ﷺ کے۔ بارہویں ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں یہ متبرک محفل مسجد نبوی شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکانِ ولادتِ آنحضرت ﷺ میں۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين ﷺ : 14، 15
مجموعی طور پر محافلِ میلاد کے مراکز کے ذکر کے بعد ذیل میں ہم چند ایک خاص اِسلامی مراکز کا تذکرہ کر رہے ہیں جس سے اِسلامی معاشروں میں مولد النبی ﷺ منانے کی روایت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے :
اِمام سخاوی (831۔ 902ھ / 1428۔ 1497ء) فرماتے ہیں :
وأما أهل مکة معدن الخير والبرکة فيتوجهون إلي المکان المتواتر بين الناس أنه محل مولده، وهو في ’’سوق الليل‘‘ رجاء بلوغ کل منهم بذالک المقصد، ويزيد اهتمامهم به علي يوم العيد حتي قلَّ أن يتخلف عنه أحد من صالح وطالح، ومقل وسعيد سيما ’’الشريف صاحب الحجاز‘‘ بدون توارٍ وحجاز. وجود قاضيها وعالمها البرهاني الشافعي إطعام غالب الواردين وکثير من القاطنين المشاهدين فاخر الأطعمة والحلوي، ويمد للجمهور في منزله صبيحتها سماطاً جامعاً رجاء لکشف البلوي، وتبعه ولده الجمالي في ذالک للقاطن والسالک.
’’اور اہلِ مکہ خیر و برکت کی کان ہیں۔ وہ سوق اللیل میں واقع اُس مشہور مقام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ کی جائے ولادت ہے۔ تاکہ ان میں سے ہر کوئی اپنے مقصد کو پا لے۔ یہ لوگ عید (میلاد) کے دن اس اہتمام میں مزید اضافہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نیک یا بد، سعید یا شقی اس اہتمام سے پیچھے رہ جائے۔ خصوصاً امیرِ حجاز بلاتردّد (بہ خوشی) شرکت کرتے ہیں۔ اور مکہ کے قاضی اور عالم ’’البرہانی الشافعی‘‘ نے بے شمار زائرین، خدام اور حاضرین کو کھانا اور مٹھائیاں کھلانے کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور وہ (امیر حجاز) اپنے گھر میں عوام کے لیے وسیع و عریض دسترخوان بچھاتا ہے، یہ امید کرتے ہوئے کہ آزمائش اور مصیبت ٹل جائے۔ اور اس کے بیٹے ’’جمالی‘‘ نے بھی خدام اور مسافروں کے حق میں اپنے والد کی اتباع کی ہے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 15
ملا علی قاری (م 1014ھ / 1606ء) اِس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت : أما الآن فما بقي من تلک الأطعمة إلا الدخان، ولا يظهر مما ذکر إلا بريح الريحان، فالحال کما قال :
أما الخيام فإنها کخيامهم
وأري نساء الحي غير نسائهم
’’میں کہتا ہوں : اب ان کھانوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے دھوئیں کے۔ اور نہ ہی مذکورہ بالا اشیاء میں سے پھلوں کی خوشبو کے سوا کچھ رہا۔ اب تو حال شاعر کے اس شعر کے مطابق ہے :
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 15
(خیمے تو ان کے خیموں کی طرح ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس قبیلے کی عورتیں ان عورتوں سے بہت مختلف ہیں)۔‘‘
محمد جار الله بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ / 1587ء) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّأ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بإزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفًا بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علما بذالک.
ابن ظهيره، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے نمازِ عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صاحبانِ فراش کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت الله الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی ﷺ مناتے رہے ہیں۔
يزار مولد النبي ﷺ المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ / 1703۔ 1762ء) مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي ﷺ في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي ﷺ ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحدة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، و الله أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذا المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة.
’’اس سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے دن میں ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ ﷺ کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار وتجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، الله ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘
شاه ولي الله ، فيوض الحرمين : 80، 81
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ پیدائش کے موقع پرمکہ میں بڑی خوشی منائی جاتی ہے۔ اسے ’’عید یوم ولادت رسول الله ﷺ ‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز جلیبیاں بہ کثرت بکتی ہیں۔ حرم شریف میں حنفی مصلہ کے پیچھے مکلف فرش بچھایا جاتا ہے۔ شریف اور کمانڈر حجاز مع اسٹاف کے لباسِ فاخرہ زرق برق پہنے ہوئے آ کر موجود ہوتے ہیں اور رسول الله ﷺ کی جائے ولادت پر جا کر تھوری دیر نعت شریف پڑھ کر واپس آتے ہیں۔ حرم شریف سے مولدالنبی ﷺ تک دو رویہ لالٹینوں کی قطاریں روشن کی جاتی ہیں اور راستے میں جو مکانات اور دکانیں واقع ہیں ان پر روشنی کی جاتی ہے۔ جائے ولادت اس روز بقعہ نور بنی ہوتی ہے۔ جاتے وقت ان کے آگے مولود خوان نہایت خوش اِلحانی سے نعت شریف پڑھتے چلتے جاتے ہیں۔ 11 ربیع الاول بعد نمازِ عشاء حرم محترم میں محفلِ میلاد منعقد ہوتی ہے۔ 2 بجے شب تک نعت، مولد اور ختم پڑھتے ہیں اور رات مولد النبی ﷺ پر مختلف جماعتیں جا کر نعت خوانی کرتی ہیں۔
11 ربیع الاول کی مغرب سے 12 ربیع الاول کی عصر تک ہر نماز کے وقت 21 توپیں سلامی کے قلعہ جیاد سے ترکی توپ خانہ سر کرتا ہے۔ ان دنوں میں اہل مکہ بہت جشن کرتے، نعت پڑھتے اور کثرت سے مجالسِ میلاد منعقد کرتے ہیں۔
ماهنامه ’’طريقت‘‘ لاهور
2۔ 11 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کے در و دیوار عین اُس وقت توپوں کی صدائے بازگشت سے گونج اٹھے جب کہ حرم شریف کے مؤذن نے نماز عصر کے لیے الله اَکْبَرُ الله اَکْبَر کی صدا بلند کی۔ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کو عید میلادالنبی ﷺ کی مبارک باد دینے لگے۔ مغرب کی نماز ایک بڑے مجمع کے ساتھ شریف حسین نے حنفی مصلہ پر ادا کی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سب سے پہلے قاضی القضاۃ نے حسبِ دستور شریف کو عیدِ میلاد کی مبارک باد دی، پھر تمام وزراء اور اَرکانِ سلطنت ایک عام مجمع کے ساتھ جس میں دیگر اَعیانِ شہر بھی شامل تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے مقامِ ولادت کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ شاندار مجمع نہایت انتظام و احتشام کے ساتھ مولد النبی ﷺ کی طرف روانہ ہوا۔ قصر سلطنت سے مولدالنبی ﷺ تک راستے میں دو رویہ اعلیٰ درجے کی روشنی کا انتظام تھا اور خاص کر مولد النبی ﷺ تو اپنی رنگ برنگ روشنی سے رشکِ جنت بنا ہوا تھا۔
زائرین کا یہ مجمع وہاں پہنچ کر مؤدب کھڑا ہو گیا اور ایک شخص نے نہایت مؤثر طریقے سے سیرتِ احمدیہ ﷺ بیان کی جس کو تمام حاضرین نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ سنتے رہے۔ اور ایک عام سکوت تھا جو تمام محفل پر طاری تھا۔ ایسے متبرک مقام کی بزرگی کسی کو حرکت کرنے اجازت نہیں دیتی تھی اور اس یوم سعید کی خوشی ہر شخص کو بے حال کیے ہوئے تھی۔ اس کے بعد نائب وزیر خارجہ شیخ فواد نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عالم انسانی کے اس انقلاب عظیم پر روشنی ڈالی جس کا سبب وہ خلاصۃ الوجود ذات تھی۔ ۔ ۔ ۔ آخر میں قابل مقرر نے ایک نعتیہ قصیدہ پڑھا جس کو سن کر سامعین بہت محظوظ ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر سب نے مقام ولادت کی ایک ایک کر کے زیارت کی، پھر واپس ہو کر حرم شریف میں نماز عشاء ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سب حرم شریف کے ایک دالان میں مقررہ سالانہ بیانِ میلاد سننے کے لیے جمع ہو گئے۔ یہاں بھی مقرر نے نہایت خوش اسلوبی سے اخلاق و اوصافِ نبی اکرم ﷺ بیان کیے۔
عیدِ میلاد کی خوشی میں تمام کچہریاں، دفاتر اور مدارس بھی 12 ربیع الاول کو ایک دن کے لیے بند کر دیے گئے اور اس طرح یہ خوشی اور سرور کا دن ختم ہو گیا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اسی سرور اور مسرت کے ساتھ پھر یہ دن دکھائے۔ آمین
1. ماخوذ از اخبار ’’القبله‘‘ مکه مکرمه
2. ماهنامه ’’طريقت‘‘ لاهور
نوٹ : یہ اقتباسات ہم نے اِمروز میگزین کے 21 اکتوبر 1988ء کے ایڈیشن سے لیے ہیں۔ اس پر ہم میگزین انچارج جناب سعید بدر کے خصوصی ممنون ہیں۔
ايں دعا اَز من و اَز جملہ جہاں آمين باد
مندرجہ بالا اقتباسات ہمیں ماضی قریب کی یاددہانی کراتے ہیں جب مکہ مکرمہ میں جشنِ میلادالنبی ﷺ پوری عقیدت و محبت سے منایا جاتا تھا اور اتنا اہتمام کیا جاتا تھا جس کا تذکرہ کتب و رسائل میں محفوظ ہے۔ لیکن افسوس! یہی امت آج اس مقدس دن کے موقع پر جواز اور عدمِ جواز کی بحث میں پڑی ہوئی ہے۔
ولأهل المدينة. کثرهم الله تعالي. به احتفال وعلي فعله إقبال وکان للملک المظفر صاحب ’’أريک‘‘ بذالک فيها أتم العناية واهتمامًا بشأنه جاوز الغاية، فأثني عليه به العلامة أبو شامة أحد شيوخ النووي السابق في الاستقامة في کتابة الباعث علي البدع والحوادث. وقال مثل هذا الحسن : يندب اليه ويشکر فاعله ويثني عليه. زاد ابن الجزري : ولو لم يکن في ذالک إلا إرغام الشيطان وسرور أهل الإيمان.
قال يعني الجزري : وإذا کان أهل الصليب اتخذوا ليلة مولد نبيهم عيداً أکبر فأهل الإسلام أولي بالتکريم وأجدر.
’’اہل مدینہ۔ الله انہیں زیادہ کرے۔ بھی اسی طرح محافل منعقد کرتے ہیں اور اس طرح کے امور بجا لاتے ہیں۔ بادشاہ مظفر شاہِ اریک اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دینے والا اور حد سے زیادہ اہتمام کرنے والا تھا۔ علامہ ابو شامہ (جو امام نووی کے شیوخ میں سے ہیں اور صاحب استطاعت بزرگ ہیں) نے اپنی کتاب الباعث علی البدع والحوادث میں اس اہتمام پر اس (بادشاہ) کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس طرح کے اچھے امور اسے پسند تھے اور وہ ایسے افعال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتا تھا۔‘‘ امام جزری اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان امور کی بجا آوری سے صرف شیطان کی تذلیل اور اہل ایمان کی شادمانی و مسرت ہی مقصود ہو۔ آگے مزید فرماتے ہیں کہ جب عیسائی اپنے نبی کی شبِ ولادت بہت بڑے جشن کے طور پر مناتے ہیں تو اہل اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ ﷺ کے یومِ ولادت پر بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کریں۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 15، 16
ملا علی قاری (م 1014ھ / 1606ء) اِمام برہان الدین بن جماعہ شافعی (725۔ 790ھ / 1325۔ 1388ء) کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں :
فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم جماعة لما کان بالمدينة النبوية علي ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحية کان يعمل طعاماً في المولد النبوي، ويطعم الناس، ويقول : لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدا.
’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی ﷺ کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 17
فأکثرهم بذلک عناية أهل مصر والشام، ولسلطان مصر في تلک الليلة من العام أعظم مقام، قال : ولقد حضرت في سنة خمس وثمانين وسبعمائة ليلة المولد عند الملک الظاهر برقوق بقلعه الجبل العلية. فرأيت ما هالني وسرني وما ساء ني، وحررت ما أنفق في تلک الليلة علي القراء والحاضرين من الوعاظ والمنشدين وغيرهم من الأتباع والغلمان والخدام المترددين بنحو عشرة آلاف مثقال من الذهب ما بين خلع ومطعوم ومشروب ومشموم وشموع وغيرها ما يستقيم به الضلوع. وعددت في ذلک خمساً وعشرين من القراء الصيتين المرجو کونهم مثبتين، ولا نزل واحد منهم إلا بنحو عشرين خلعة من السلطان ومن الأمراء الأعيان.
قال السخاوي : قلت : ولم يزل ملوک مصر خدام الحرمين الشريفين ممن وفّقهم الله لهدم کثير من المناکير والشين، ونظروا في أمر الرعية کالوالد لولده، و شهروا أنفسهم بالعدل، فأسعفهم الله بجنده ومدده.
’’محافلِ میلاد کے اہتمام میں اہلِ مصر اور اہلِ شام سب سے آگے ہیں اور سلطانِ مصر ہر سال ولادت باسعادت کی رات محفلِ میلاد منعقد کرنے میں بلند مقام رکھتا ہے۔ فرمایا کہ میں 785ھ میں سلطان ظاہر برقوق کے پاس میلاد کی رات الجبل العلیۃ کے قلعہ میں حاضر ہوا۔ وہاں وہ کچھ دیکھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور بہت زیادہ خوش کیا اور کوئی چیز مجھے بری نہ لگی۔ میں ساتھ ساتھ لکھتا گیا جو بادشاہ نے اس رات تقسیم کیا۔ قراء اور موجود واعظین، نعت خواں (شعراء) اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں، بچوں اور مصروف خدام کو تقریباً دس ہزار مثقال سونا، خلعتیں، انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات، خوشبوئیں، شمعیں اور دیگر چیزیں دیں جن کے باعث وہ اپنی معاشی حالت درست کر سکتے تھے۔ اس وقت میں نے ایسے 25 خوش الحان قراء شمار کیے جو اپنی مسحورکن آواز سے سب پر فائق رہے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو سلطان اور اَعیانِ سلطنت سے 20 کے قریب خلعتیں لیے بغیر سٹیج سے اترا ہو۔
’’امام سخاوی کہتے ہیں کہ میرا مؤقف یہ ہے کہ مصر کے سلاطین جو حرمین شریفین کے خدام رہے ہیں ان لوگوں میں سے تھے جنہیں الله تعالیٰ نے اکثر برائیاں اور عیوب ختم کرنے کی توفیق عطا کر رکھی تھی۔ اور انہوں نے رعیت کے بارے میں ایسا ہی سلوک کیا جیسا والد اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ اور انہوں نے قیامِ عدل کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ الله تعالیٰ اس معاملہ میں انہیں اپنی غیبی مدد سے نوازے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 13
حجۃ الدین اِمام ابو عبد الله محمد بن عبد الله بن ظفر مکی (497۔565ھ / 1104۔1170ء) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے :
وقد عمل المحبون للنبي ﷺ فرحاً بمولده الولائم، فمن ذلک ما عمله بالقاهرة المعزّية من الولائم الکبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قُفل قدس الله تعالي سره، شيخ شيخنا أبي عبد الله محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبلُ جمال الدين العجمي الهمداني. وممن عمل ذلک علي قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر، وقد رأي النبي ﷺ وهو يحرّض يوسف المذکور علي عمل ذلک.
’’اہلِ محبت حضور ﷺ کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافت کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن ہیں جو کہ ابن قفل قدس الله تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں جو کہ ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ اور یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ یوسف حجار کو عملِ مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1 : 363
اِمام کمال الدین الادفوی (685۔ 748ھ / 1286۔ 1347ء) ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں :
حکي لنا صاحبنا العدل ناصر الدين محمود بن العماد أن أبا الطيب محمد بن إبراهيم السبتي المالکي نزيل قوص، أحد العلماء العاملين، کان يجوز بالمکتب في اليوم الذي ولد فيه النبي ﷺ ، فيقول : يا فقيه! هذا يوم سرور، اصرف الصبيان، فيصرفنا.
وهذا منه دليل علي تقريره وعدم إنکاره، وهذا الرجل کان فقيهاً مالکيّا متفنّناً في علوم، متورّعاً، أخذ عنه أبو حيان وغيره، مات سنة خمس وتسعين وستمائة.
’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔
’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہر فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زُہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66، 67
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ : 238
و أما ملوک الأندلس والغرب فلهم فيه ليلة تسير بها الرکبان يجتمع فيها أئمة العلماء الأعلام، فمن يليهم من کل مکان وعلوا بين أهل الکفر کلمة الإيمان، وأظن أهل الروم لا يتخلفون عن ذلک، اقتفاء بغيرهم من الملوک فيما هنالک.
’’سلاطینِ اندلس اور شاہانِ بلادِ مغرب (یومِ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ پر) رات کے وقت قافلے کی صورت میں نکلتے جس میں بڑے بڑے ائمہ و علماء شامل ہوتے۔ راستے میں جگہ جگہ سے لوگ ان کے ساتھ ملتے چلے جاتے اور یہ سب اہلِ کفر کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے۔ میرا غالب گمان ہے کہ اہلِ روم بھی ان سے کسی طرح پیچھے نہیں تھے اور وہ بھی دوسرے بادشاہوں کی طرح محافلِ میلاد منعقد کرتے تھے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 14
وبلاد الهند تزيد علي غيرها بکثير کما أعلمنيه بعض أولي النقد والتحرير. وأما العجم فمن حيث دخل هذا الشهر المعظم والزمان المکرم لأهلها مجالس فِخام من أنواع الطعام للقراء الکرام وللفقراء من الخاص والعام، وقراء ات الختمات والتلاوات المتواليات والإنشادات المتعاليات، وأنواع السرور وأصناف الحبور حتي بعض العجائز. من غزلهن ونسجهن. يجمعن ما يقمن بجمعه الأکابر والأعيان وبضيافتهن ما يقدرون عليه في ذلک الزمان. ومن تعظيم مشايخهم وعلمائهم هذا المولد المعظم والمجلس المکرم أنه لا يأباه أحد في حضوره، رجاء إدارک نوره وسروره.
وقد وقع لشيخ مشايخنا مولانا زين الدين محمود الهمداني النقشبندي. قدس الله سره العلي. أنه أراد سلطان الزمان وخاقان الدوران همايون بادشاه تغمده الله وأحسن مثواه أن يجتمع به ويحصل له المدد والمدد بسبه فأباه الشيخ، وامتنع أيضًا أن يأتيه السلطان استغناء بفضل الرحمن فألح السلطان علي وزيره بيرم خان بأنه لا بد من تدبير للاجتماع في المکان، ولو في قليل من الزمان. فسمع الوزير أن الشيخ لا يحضر في دعوة من هناء وعزاء إلا في مولد النبي عليه السلام تعظيمًا لذلک المقام. فأنهي إلي السلطان، فأمره بتهيئة أسبابه الملوکانية في أنواع الأطعمة والأشربة ومما يتمم به ويبخر في المجالس العلمية. ونادي الأکابر والأهالي.
وحضر الشيخ مع بعض الموالي فأخذ السلطان الإبريق بيد الأدب ومعاونة التوفيق، والوزير أخذ الطشت من تحت أمره رجاء لطفه ونظره وغسلا يدا الشيخ المکرم، وحصل لهما ببرکة تواضعها ﷲ ولرسوله ﷺ المقام المعظم والجاه المفخم.
’’جیسا کہ بلند پایہ نقاد، علماء اور اہل قلم حضرات نے مجھے بتایا ہے ہندوستان کے لوگ دوسرے ممالک کی نسبت بڑھ چڑھ کر ان مقدس اور بابرکت تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ اور عجم میں جونہی اس ماہ مقدس اور بابرکت زمانے کا آغاز ہوتا لوگ عظیم الشان محافل کا اہتمام کرتے جن میں قراء حضرات اور عوام و خواص میں فقراء منش لوگوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانوں کا انتظام کیا جاتا۔ مولود شریف پڑھا جاتا اور مسلسل تلاوتِ قرآن کی جاتی، بآواز بلند نعتیہ ترانے (قصیدے) پڑھے جاتے اور فرحت و انبساط کا متعدد طریقوں سے اظہار کیا جاتا حتی کہ بعض عمر رسیدہ خواتین سوت کات اور بن کر رقم جمع کرتیں جس سے اپنے دور کے اکابرین اور زعماء کی حسبِ استطاعت ضیافت کرتیں۔ میلادالنبی ﷺ کی اس بابرکت و مکرم مجلس کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ اس دور کے علماء و مشائخ میں سے کوئی بھی اس میں حاضر ہونے سے انکار نہ کرتا، یہ امید کرتے ہوئے کہ اس میں شریک ہو کر نور و سرور اور تسکینِ قلب حاصل کریں۔
’’ایک دفعہ شہنشاہِ دوراں، سلطانِ زماں، ہمایوں بادشاہ ( الله تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے اور اچھا ٹھکانہ دے) نے ارادہ کیا کہ وہ ہمارے شیخ المشائخ زین الدین محمود ہمدانی نقشبندی قدس سرہ العزیز کے ہمراہ مجلس منعقد کرے اور ان کے لیے (مالی) اعانت کا اہتمام کرے۔ اور یہ مدد اس (بادشاہ) کے واسطہ سے ہو تو شیخ نے آنے سے انکار کر دیا حتی کہ سلطان کو اپنے پاس بھی آنے سے روک دیا کیوں کہ وہ بفضلہ تعالیٰ اس سے مستغنی تھے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر بیرم خان سے اصرار کیا کہ اجتماع کی لازماً کوئی تدبیر کی جائے اگرچہ وہ محدود وقت کے لیے ہی ہو۔ وزیر نے سنا کہ شیخ محفل میلادالنبی ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی خوشی یا غمی کی محفل میں شریک نہیں ہوتے۔ پس اس (وزیر) نے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ شاہانہ کھانے اور مشروبات تیار کیے جائیں اور ایک مجلسِ علمی کے انعقاد کے تمام اسباب بہم پہنچائے جائیں۔ تمام اکابرین اور کارکنانِ سلطنت کو مدعو کیا گیا۔
’’شیخ اپنے بعض مریدین کے ساتھ تشریف لائے۔ سلطان نے نہایت ادب سے لوٹا پکڑا اور وزیر نے شیخ کی طرف نظرِ لطف و کرم کی امید کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں طشت اٹھائی۔ یوں دونوں نے شیخ کے ہاتھ دھلوائے۔ دونوں کو الله اور اُس کے رسول ﷺ کے حضور اپنی عاجزی و اِنکساری کی وجہ سے بڑا مقام و درجہ حاصل ہوا۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر : 14، 15
اِس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادالنبی ﷺ کے حوالے سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مصر، شام، قرطبہ اور غرناطہ (اسپین) حتی کہ بلادِ ہند اور عجم کے رہنے والوں کا یہ عالم تھا کہ وہ بارہ ربیع الاول کے دن محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام مداومت سے کرتے چلے آئے ہیں، اور یہ ایک تاریخی عمل تھا جو وہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بلادِ اسلامیہ کے یہ لوگ بریلوی نہیں رہے نہ ہی مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور مصر و شام کے کوئی لوگ بریلوی مکتبِ فکر کے تھے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ اِسلامی تاریخ سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے اور ان کا مسلک شکوک و شبہات اور فتنہ و فساد پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں وہ اِسلام کی مسلّمہ تعلیمات کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلامی ماخذ تاریخ تک ان کی رسائی نہیں جس کی وجہ سے وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ایمانی حقائق کو مسخ کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ محض جہالت کا پرچار کرتے ہیں، تقریباتِ میلاد کے حق میں ماضی کی کتابوں کا انہوں نے کبھی مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved