قرآن و سنت سے جشنِ میلادالنبی ﷺ پر تفصیلی دلائل پیش کرنے کے بعد باب ھٰذا میں ہم اُن اَئمہ کرام کے حوالہ جات دیں گے جنہوں نے اِنعقادِ جشنِ میلاد کے اَحوال بیان کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں ان کے یہ تذکرے متعدد اسلامی اَدوار اور بلادِ اِسلامیہ سے متعلق ہیں۔ یہ کہنا مطلقاً غلط اور خلافِ حقیقت ہے کہ میلاد پر منعقد کی جانے والی تقریبات بدعت ہیں اور ان کی ابتداء برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تقاریبِ میلادالنبی ﷺ کا اِنعقاد ہندوستان کے مسلمانوں کی اختراع ہے نہ یہ کوئی بدعت ہے۔ جشن میلادالنبی ﷺ کا آغاز حالیہ دور کے مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک ایسی تقریب سعید ہے جو حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورے عالم عرب میں صدیوں سے اِنعقاد پذیر ہوتی رہی ہے۔ بعد ازاں وہاں سے دیگر عجمی ملکوں میں بھی اِس تقریب کا آغاز ہوا۔ ذیل میں ہم اَکابر اَئمہ و محدثین کے حوالہ سے جشنِ میلادالنبی ﷺ کے آغاز و اِرتقاء کا تذکرہ کرتے ہیں:
حجۃ الدین اِمام ابو عبد الله محمد بن عبد الله بن ظفر المکی (1104۔ 1170ء) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے:
وقد عمل المحبون للنبي ﷺ فرحاً بمولده الولائم، فمن ذلک ما عمله بالقاهرة المعزّية من الولائم الکبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قُفل قدّس الله تعالي سره، شيخ شيخنا أبي عبد الله محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبلُ جمال الدين العجمي الهمذاني. وممن عمل ذلک علي قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر، وقد رأي النبي ﷺ وهو يحرّض يوسف المذکور علي عمل ذلک.
’’اہلِ محبت حضور ﷺ کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس الله تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو (خواب میں) دیکھا کہ آپ ﷺ یوسف حجار کو عملِ مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 363
شیخ معین الدین ابو حفص عمر بن محمد بن خضر اِربلی موصلی المَ. . لّا کے لقب سے معروف تھے۔ آپ موصل کی نہایت صالح، زاہد و عالم شخصیت تھے۔
وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشيخ عمر بن محمد المَ. لّا أحد الصالحين المشهورين، وبه اقتدي في ذلک صاحب إربل وغيره رحمهم الله تعالي.
’’اور شہر موصل میں سب سے پہلے میلاد شریف کا اِجتماع منعقد کرنے والے شیخ عمر بن محمد مَلّا تھے جن کا شمار مشہور صالحین میں ہوتا تھا۔ اور شاہِ اِربل و دیگر لوگوں نے اُنہی کی اِقتداء کی ہے۔ الله اُن پر رحم فرمائے۔‘‘
1. أبوشامة، الباعث علي إنکار البدع والحوادث: 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 365
علامہ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی بن جوزی (1116۔ 1201ء) کثیر کتب کے مصنف تھے۔ اُنہوں نے میلادالنبی ﷺ پر دو کتب تالیف کیں:
1. بيان الميلاد النبوي ﷺ
2. مولد العروس
علامہ ابن جوزی بیان المیلاد النبوي ﷺ میں فرماتے ہیں:
لا زال أهل الحرمين الشريفين والمصر واليمن والشام وسائر بلاد العرب من المشرق والمغرب يحتفلون بمجلس مولد النبي ﷺ ، ويفرحون بقدوم هلال شهر ربيع الأول ويهتمون اهتمامًا بليغًا علي السماع والقراة لمولد النبي ﷺ ، وينالون بذالک أجرًا جزيلاً وفوزًا عظيمًا.
’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی ﷺ کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، بيان الميلاد النبوي ﷺ: 58
علامہ ابن جوزی مولد العروس میں فرماتے ہیں:
وجعل لمن فرح بمولده حجابًا من النار وسترًا، ومن أنفق في مولده درهمًا کان المصطفيٰ ﷺ له شافعًا ومشفعًا، وأخلف الله عليه بکل درهم عشرًا.
فيا بشري لکم أمة محمد لقد نلتم خيرًا کثيرًا في الدنيا وفي الأخري. فيا سعد من يعمل لأحمد مولدًا فيلقي الهناء والعز والخير والفخر، ويدخل جنات عدن بتيجان درّ تحتها خلع خضرًا.
’’اور ہر وہ شخص جو آپ ﷺ کے میلاد کے باعث خوش ہوا، الله تعالیٰ نے (یہ خوشی) اس کے لیے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنادی۔ اور جس نے مولدِ مصطفیٰ ﷺ کے لیے ایک درہم خرچ کیا تو آپ ﷺ اُس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے۔ اور الله تعالیٰ ہر درہم کے بدلہ میں اُسے دس درہم عطا فرمائے گا۔
’’اے اُمتِ محمدیہ! تجھے بشارت کہ تونے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کی۔ پس جو کوئی احمد مجتبیٰ ﷺ کے میلاد کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ خوش بخت ہے اور وہ خوشی، عزت، بھلائی اور فخر کو پالے گا۔ اور وہ جنت کے باغوں میں موتیوں سے مرصع تاج اور سبز لباس پہنے داخل ہوگا۔‘‘
ابن جوزي، مولد العروس: 11
علامہ ابن جوزی شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
لولم يکن في ذلک إلا إرغام الشيطان وإدعام أهل الإيمان.
’’اِس نیک عمل میں سوائے شیطان کو ذلیل و رُسوا کرنے اور اہل ایمان کو تقویت پہنچانے کے کچھ نہیں۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 363
مراد یہ کہ محافلِ میلاد کا اِنعقاد شیطان کو رُسوا اور ذلیل و خوار کرتا ہے جب کہ اس سے مومنین کو تقویت ملتی ہے۔
قاضی القضاۃ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر بن خلکان اپنی کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان (3: 448۔ 450)‘‘ میں حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) کے سوانحی خاکہ میں لکھتے ہیں:
کان من أعيان العلماء، ومشاهير الفضلاء، قدم من المغرب، فدخل الشام والعراق، واجتاز بإربل سنة أربع وستمائة، فوجد ملکها المعظم مظفر الدين بن زين الدين يعتني بالمولد النبوي، فعمل له کتاب ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ وقرأه عليه بنفسه، فأجازه بألف دينار. قال: وقد سمعناه علي السلطان في ستة مجالس، في سنة خمس وعشرين وستمائة.
’’ان کا شمار بلند پایہ علماء اور مشہور محققین میں ہوتا تھا۔ وہ مراکش سے شام اور عراق کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔ 604ھ میں ان کا گزر اِربل کے علاقے سے ہوا جہاں ان کی ملاقات عظیم المرتبت سلطان مظفر الدین بن زین الدین سے ہوئی جو یوم میلادالنبی ﷺ کے انتظامات میں مصروف تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ کتاب لکھی۔ انہوں نے یہ کتاب خود سلطان کو پڑھ کر سنائی۔ پس بادشاہ نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار بطور انعام پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے 625ھ میں سلطان کے ساتھ اسے چھ نشستوں میں سنا تھا۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 44، 45
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 200
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 236، 237
شیخ القراء حافظ شمس الدین محمد بن عبد الله الجزری الشافعی (م 1262ء) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں:
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ فقال: في النار، إلا أنه يخفّف عني کل ليلة اثنين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء بقدر هذا. وأشار برأس إصبعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي ﷺ و بإرضاعها له.
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القرآن بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي ﷺ يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب ميں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمت محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے محبوب ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 260، 261
5. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366، 367
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237، 238
آپ مزید لکھتے ہیں:
من خواصه أنه أمان في ذلک العام، وبشري عاجلة بنيل البغية والمرام.
’’(محافلِ میلاد شریف کے) خواص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 365، 366
شارحِ صحیح مسلم اِمام نووی (631۔ 677ھ / 1233۔ 1278ء) کے شیخ امام ابو شامہ عبد الرحمان بن اسماعیل (1202۔ 1267ء) اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں لکھتے ہیں:
ومن أحسن ما ابتدع في زماننا من هذا القبيل ما کان يفعل بمدينة إربل، جبرها الله تعالي، کل عام في اليوم الموافق ليوم مولد النبي ﷺ من الصدقات والمعروف وإظهار الزينة والسرور، فإن ذالک مع ما فيه من الإحسان إلي الفقراء مُشعِر بمحبة النبي ﷺ ، وتعظيمه وجلالته في قلب فاعله وشکر الله تعالي علي ما مَنّ به من إيجاد رسوله الذي أرسله رحمةً للعالمين ﷺ وعلي جميع الأنبياء والمرسلين.
’’اور اِسی (بدعتِ حسنہ) کے قبیل پر ہمارے زمانے میں اچھی بدعت کا آغاز شہر ’’اِربل‘‘ خدا تعالیٰ اُسے حفظ و امان عطا کرے۔ میں کیا گیا۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلادالنبی ﷺ کے موقع پر اِظہارِ فرحت و مسرت کے لیے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف غرباء و مساکین کا بھلا ہوتا ہے وہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اِظہارِ شادمانی کرنے والے کے دل میں اپنے نبی ﷺ کی بے حد تعظیم پائی جاتی ہے اور ان کی جلالت و عظمت کا تصور موجود ہے۔ گویا وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہے کہ اس نے بے پایاں لطف و احسان فرمایا کہ اپنے محبوب رسول ﷺ کو (ان کی طرف) بھیجا جو تمام جہانوں کے لیے رحمتِ مجسم ہیں اور جمیع انبیاء و رُسل پر فضیلت رکھتے ہیں۔‘‘
1. ابوشامه، الباعث علي إنکار البدع والحوادث: 23، 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 365
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1: 84
4. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 53
5. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 233
شیخ ابو شامہ شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کیے جانے کے بارے میں اُس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مثل هذا الحسن يُندب إليه ويُشکر فاعله ويُثني عليه.
’’اِس نیک عمل کو مستحب گردانا جائے گا اور اِس کے کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور اِس پر اُس کی تعریف کی جائے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 363
قاضیء مصر صدر الدین موہوب بن عمر بن موہوب الجزری الشافعی فرماتے ہیں:
هذه بدعة لا بأس بها، ولا تُکره البِدع إلا إذا راغمت السُّنة، وأما إذا لم تراغمها فلا تُکره، ويُثاب الإنسان بحسب قصده في إظهار السرور والفرح بمولد النبي ﷺ .
وقال في موضع آخر: هذا بدعة، ولکنها بدعة لا بأس بها، ولکن لا يجوز له أن يسأل الناس بل إن کان يَعلمْ أو يغلب علي ظنه أن نفس المسؤول تَطِيب بما يعطيه فالسؤال لذلک مباح أرجو أن لا ينتهي إلي الکراهة.
’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور انسان حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی حسبِ توفیق اور حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔
’’اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 365، 366
اِمام ظہیر الدین جعفر بن یحیٰ بن جعفر التزمنتی الشافعی (م 1283ء) کہتے ہیں:
هذا الفعل لم يقع في الصدر الأول من السلف الصالح مع تعظيمهم وحبهم له إعظاماً ومحبة لا يبلغ جَمعُنا الواحدَ منهم ولا ذرّة منه، وهي بدعة حسنة إذا قصد فاعلها جمع الصالحين والصلاة علي النبي ﷺ وإطعام الطعام للفقراء والمساکين وهذا القدر يثاب عليه بهذا الشرط في کل وقت.
’’محافلِ میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پہلی صدی ہجری میں شروع نہیں ہوا اگرچہ ہمارے اَسلاف صالحین عشقِ رسول ﷺ سے اس قدر سرشار تھے کہ ہم سب کا عشق و محبت ان بزرگانِ دین میں سے کسی ایک شخص کے عشقِ نبی ﷺ کو نہیں پہنچ سکتا۔ میلاد کا انعقاد بدعتِ حسنہ ہے، اگر اس کا اہتمام کرنے والا صالحین کو جمع کرنے، محفلِ درود و سلام اور فقراء و مساکین کے طعام کا بندوبست کرنے کا قصد کرتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ جب بھی یہ عمل کیا جائے گا موجبِ ثواب ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 364
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں:
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي ﷺ وتعظيمًا. و الله قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي ﷺ عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور الله تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی ﷺ کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم: 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول الله ﷺ ، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم ﷺ کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم: 406
امام ابو عبد اللہ ابن الحاج محمد بن محمد بن محمد المالکی (م 1336ء) اپنی کتاب ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں میلادالنبی ﷺ کی فضیلت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں:
أشار عليه الصلاة والسلام إلي فضيلة هذا الشهر العظيم بقوله للسائل الذي سأله عن صوم يوم الاثنين، فقال له عليه الصلاة والسلام: ذلک يوم ولدت فيه.
فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذي ولد فيه، فينبغي أن نحترمه حق الاحترام ونفضله بما فضل الله به الأشهر الفاضلة، وهذا منها لقوله عليه الصلاة والسلام: أنا سيد ولد آدم ولا فخر. ولقوله عليه الصلاة والسلام: آدم ومن دونه تحت لوائي.
وفضيلة الأزمنة والأمکنة بما خصَّها الله تعالي من العبادات التي تفعل فيها، لما قد علم أن الأمکنة والأزمنة لا تتشرف لذاتها، وإنما يحصل لها التشريف بما خصّت به من المعاني. فانظر رحمنا الله وإيّاک إلي ما خصَّ الله تعالي به هذا الشهر الشريف ويوم الاثنين. ألا تري أن صوم هذا اليوم فيه فضل عظيم لأنه ﷺ ولد فيه؟
فعلي هذا فينبغي إذا دخل هذا الشهر الکريم أن يکرَّم ويعظَّم ويحترم الاحترام اللائق به وذلک بالاتّباع له ﷺ في کونه کان يخصّ الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيها وکثرة الخيرات. ألا تري إلي قول البخاري: کان رسول الله ﷺ أجود الناس بالخير، وکان أجود ما يکون في رمضان. فنمتثل تعظيم الأوقات الفاضلة بما امتثله علي قدر استطاعتنا.
فإن قال قائل: قد التزم عليه الصلاة والسلام في الأوقات الفاضلة ما التزمه مما قد علم، ولم يلتزم في هذا الشهر ما التزمه في غيره. فالجواب: أن المعني الذي لأجله لم يلتزم عليه الصلاة والسلام إنما هو ما قد عُلم من عادته الکريمة في کونه عليه الصلاة والسلام يريد التخفيف عن أمته، والرحمة لهم سيّما فيما کان يخصّه عليه الصلاة والسلام.
ألا تري إلي قوله عليه الصلاة والسلام في حق حرم المدينة: اللّهم! إن إبراهيم حرّم مکة، وإني أحرّم المدينة بما حرّم به إبراهيم مکة ومثله معه؟ ثم إنه عليه الصلاة والسلام لم يشرّع في قتل صيده ولا في قطع شجره الجزاء، تخفيفاً علي أمته ورحمة لهم، فکان عليه الصلاة والسلام ينظر إلي ما هو من جهته. . . وإن کان فاضلاً في نفسه يترکه للتخفيف عنهم.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے (اپنی ولادت کے) عظیم مہینے کی عظمت کا اِظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اُسے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔‘‘
’’پس اس دن کی عظمت سے اُس ماہِ (ربیع الاول) کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کا کما حقہ احترام کریں اور اِس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس چیز کے ساتھ الله تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اِسی حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔‘‘ اور آپ ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: ’’روزِ محشر آدم علیہ السلام سمیت سب میرے پرچم تلے ہوں گے۔‘‘
’’زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان (مہینوں) میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان و مکاں کی خود اپنی کوئی عظمت و رفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات و امتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پر غور کریں، الله تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطا کی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسولِ معظم ﷺ کی ولادت اس روز ہوئی۔
’’لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر تکریم و تعظیم اور ایسی توقیر و اِحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور یہ آپ ﷺ کے اُس اُسوۂ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ ﷺ خصوصی (عظمت کے حامل) دنوں میں کثرت سے نیکی اور خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو (حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما سے) اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا: حضور نبی اکرم ﷺ بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ رمضان میں آپ ﷺ بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ ﷺ فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرماتے تھے ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات (جیسے ماہِ ربیع الاول) کی بہ قدرِ اِستطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
’’اگر کوئی کہے: حضور نبی اکرم ﷺ نے فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرمائی جو آپ ﷺ نے فرمائی جیسا کہ اوپر جانا جا چکا ہے لیکن آپ ﷺ نے خود اس ماہ کی جس میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس طرح عزت افزائی نہیں کی جس طرح آپ ﷺ دوسرے مہینوں کی کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو اُمت کے لیے تخفیف اور آسانی و راحت کا بہت خیال رہتا تھا بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں جو آپ ﷺ کی اپنی ذات مقدسہ سے متعلق تھیں۔
’’کیا تو نے حرمتِ مدینہ کی بابت آپ ﷺ کا قول نہیں دیکھا: ’’اے الله ! بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو اُنہی چیزوں کی مثل حرم قرار دیتا ہوں جن سے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘ لیکن آپ ﷺ نے اپنی اُمت کے لیے تخفیف اور رحمت کے سبب مدینہ منورہ کی حدود میں شکار کرنے اور درخت کاٹنے کی کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے۔‘‘
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه
علي کثير من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2: 2 - 4
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد: 57 - 59
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 203، 204
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 371، 372
ابن الحاج مالکی ایک جگہ لکھتے ہیں:
فإن قال قائل: ما الحکمة في کونه عليه الصلاة والسلام خصّ مولده الکريم بشهر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه علي الصحيح والمشهور عند أکثر العلماء، ولم يکن في شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن، وفيه ليلة القدر، واختص بفضائل عديدة، ولا في الأشهر الحرم التي جعل الله لها الحرمة يوم خلق السموات والأرض ولا في ليلة النصف من شعبان، ولا في يوم الجمعة ولا في ليلتها؟
فالجواب من أربعة أوجه:
الوجه الأول: ما ورد في الحديث من أن الله خلق الشجر يوم الاثنين. وفي ذلک تنبيه عظيم وهو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواکه والخيرات التي يتغذي بها بنو آدم ويحيون، ويتداوون وتنشرح صدورهم لرؤيتها وتطيب بها نفوسهم وتسکن بها خواطرهم عند رؤيتها لاطمئنان نفوسهم بتحصيل ما يبقي حياتهم علي ما جرت به العادة من حکمة الحکيم سبحانه وتعالي فوجوده ﷺ في هذا الشهر في هذا اليوم قرّة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبرکة الشاملة لأمته صلوات الله عليه وسلامه.
الوجه الثاني: أن ظهوره عليه الصلاة والسلام في شهر ربيع فيه إشارة ظاهرة لمن تفطن إليها بالنسبة إلي اشتقاق لفظة ربيع إذ أن فيه تفاؤلاً حسنًا ببشارته لأمته عليه الصلاة والسلام والتفاؤل له أصل إشار إليه عليه الصلاة والسلام. وقد قال الشيخ الإمام أبو عبد الرحمن الصقلي: لکل إنسان من اسمه نصيب.
الوجه الثالث: أن فصل الربيع أعدل الفصول وأحسنها.
الوجه الرابع: أنه قد شاء الحکيم سبحانه وتعالي أنه عليه الصلاة والسلام تتشرف به الأزمنة والأماکن لا هو يتشرف بها بل يحصل للزمان والمکان الذي يباشره عليه الصلاة والسلام الفضيلة العظمي والمزية علي ما سواه من جنسه الا ما استثني من ذلک لأجل زيادة الأعمال فيها وغير ذلک. فلو ولد ﷺ في الأوقات المتقدم ذکرها لکان ظاهره يوهم أنه يتشرف بها.
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه
علي کثير من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2: 26 - 29
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد: 67، 68
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 207
4. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 238
’’اگر کوئی کہنے والا کہے: حضور نبی اکرم ﷺ کی ربیع الاول میں اور پیر کے دن ولادتِ مبارکہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ان کی ولادت رمضان المبارک جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور جس میں لیلۃ القدر رکھی گئی ہے یا دوسرے مقدس مہینوں یا 15 شعبان المعظم اور جمعہ کے دن میں کیوں نہ ہوئی؟
’’اس سوال کا جواب چار زاویہ ہائے نظر سے دیا جاسکتا ہے:
1۔ ذخیرۂ احادیث میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کے دن د رختوں کو پیدا کیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ مضمر ہے۔ وہ یہ کہ پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے غذا، رزق، روزی اور پھلوں اور دیگر خیرات کی چیزوں کو پیدا فرمایا جن سے بنی نوع انسان غذا حاصل کرتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اور ان کو بہ طور علاج بھی استعمال کرتا ہے اور انہیں دیکھ کر انہیں شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے (دلی خوشی ہوتی ہے)۔ اور ان کے ذریعے ان کے نفوس کو خوشی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ان کے دلوں کو سکون میسر آتا ہے کیوں کہ (ان کے ذریعے) نفوس اس چیز کو حاصل کرکے جس پر ان کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ مطمئن ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے (کہ اس نے جانوں کو انہی چیزوں کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے) پس آپ ﷺ کا وجودِ اَطہر اس مبارک مہینہ میں اس مبارک دن میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے بسبب اس کے کہ (آپ ﷺ کی ولادت کے سبب) آپ ﷺ کی امت کو خیر کثیر اور عظیم برکتوں سے نوازا گیا۔
2۔ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کا ربیع کے مہینہ میں ظہور اس میں واضح اشارہ ہے ہر اس کے لیے جو لفظ ربیع کے اشتقاق، معنی و مفہوم پر غور کرے کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک شگون پایا جاتا ہے۔ اس میں نیک شگون یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کو آپ ﷺ کی بشارت دی گئی۔ اور نیک شگونی کی کوئی نہ کوئی اصل ہوتی جس کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا۔ ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخض کے لیے اس کے نام میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر مرتسم ہوتے ہیں۔
3۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع (بہار) تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم ﷺ کی شریعت تمام شرائع میں انتہائی پر اعتدال اور آسان ترین ہے۔
4۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چاہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان شرف حاصل کریں نہ کہ آپ ﷺ اُن سے شرف پائیں۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براہِ راست آپ ﷺ کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے اس زمان و مکاں کے جن کا اس لیے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے اور اس کے علاوہ باقی اسباب کی وجہ سے۔ پس اگر آپ ﷺ ان اوقات میں تشریف لاتے جن کا ذکر (اوپر اعتراض میں) گزر چکا ہے تو وہ بہ ظاہر اس وہم میں ڈال دیتے کہ آپ ﷺ ان سے متشرف ہوئے ہیں۔‘‘
اِمام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (1274۔ 1348ء) کا شمار عالمِ اسلام کے عظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اُصولِ حدیث اور اَسماء الرجال کے فن میں بھرپور خدمات سرانجام دیں اور کئی کتب تالیف کی ہیں، مثلا تجرید الاصول فی احادیث الرسول، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، المشتبۃ فی اسماء الرجال، طبقات الحفاظ وغیرہ۔ فنِ تاریخ میں اُن کی ایک ضخیم کتاب تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام موجود ہے۔ اَسماء الرجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب سیر اعلام النبلاء میں رُواۃ کے حالاتِ زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب علمی حلقوں میں بلند پایہ مقام رکھتی ہے۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری (م 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف و تحسین کی ہے۔ بادشاہ ابو سعید کوکبری بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ اُنہوں نے دائمی بیماروں اور اندھوں کے لیے چار مسکن تعمیر کروائے اور ہر پیر و جمعرات کو ان سے ملاقات و دریافت اَحوال کے لیے جاتے۔ اِسی طرح خواتین، یتیموں اور لاوارث بچوں کے لیے الگ الگ گھر تعمیر کروائے تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کے لیے باقاعدگی سے ہسپتال جاتے تھے۔ اَحناف اور شوافع کے لیے الگ الگ مدارس بنوائے اور صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر کروائی تھیں۔ اِمام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ سنی العقیدہ، نیک دل اور متقی تھا۔ اُنہوں نے یہ واقعہ اپنی دو کتب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ میں بالتفصیل درج کیا ہے۔
اِمام ذہبی ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں:
و أما احتفاله بالمَوْلِد فيقصر التعبير عنه؛ کان الخلق يقصدونه من العراق والجزيرة . . . و يُخْرِجُ من البَقَر والإبل والغَنَم شيئاً کثيراً فَتُنْحَر وتُطْبَخ الألوان، ويَعْمَل عِدّة خِلَع للصُّوفية، ويتکلم الوُعّاظ في الميدان، فينفق أموالاً جزيلة. وقد جَمَعَ له ابن دحية ’’کتاب المولد‘‘ فأعطاه ألف دينار. وکان مُتواضعًا، خيراً، سُنّ. يّاً، يحب الفقهاء والمحدثين. . . . وقال سِبط الجوزي: کانَ مُظفّر الدِّين ينفق في السنة علي المولد ثلاث مائة ألف دينار، وعلي الخانقاه مائتي ألف دينار. . . . وقال: قال من حضر المولد مرّة عددت علي سماطه مائة فرس قشلميش، وخمسة آلاف رأس شوي، و عشرة آلاف دجاجة، مائة ألف زُبدية، و ثلاثين ألف صحن حلواء.
’’اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ ﷺ منانے کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے ’’میلادالنبی ﷺ ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا، فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں: شاہ مظفر الدین ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 16: 274، 275
2. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 - 630ه)، 45: 402 - 405
اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر الادفوی (1286۔ 1347ء) ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں:
حکي لنا صاحبنا العدل ناصر الدين محمود بن العماد أن أبا الطيب محمد بن إبراهيم السبتي المالکي نزيل قوص، أحد العلماء العاملين، کان يجوز بالمکتب في اليوم الذي ولد فيه النبي ﷺ ، فيقول: يا فقيه! هذا يوم سرور، اصرف الصبيان، فيصرفنا.
وهذا منه دليل علي تقريره وعدم إنکاره، وهذا الرجل کان فقيهاً مالکيّا متفنّناً في علوم، متورّعاً، أخذ عنه أبو حيان وغيره، مات سنة خمس وتسعين وستمائة.
’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے: اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔
’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زُہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 66، 67
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 238
اِمام تقی الدین ابو الحسن علی بن عبد الکافی السبکی (1284۔ 1355ء) کے بارے میں شیخ اِسماعیل حقی (1063۔ 1137ھ) فرماتے ہیں:
وقد اجتمع عند الإمام تقي الدين السبکي جمع کثير من علماء عصره، فأنشد منشد قول الصرصري في مدحه عليه السلام:
قليل لمدح المصطفي الخط بالذهب
علي ورق من خط أحسن من کتب
وإن تنهض الأشراف عند سماعه
قياما صفوفا أو جثيا علي الرکب
1. اِسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9: 56
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، 1: 84
’’اِمام تقی الدین سبکی کے ہاں اُن کے معاصر علماء کا ایک کثیر گروہ جمع ہوتا اور وہ سب مل کر مدحِ مصطفیٰ ﷺ میں اِمام صرصری حنبلی کے درج ذیل اشعار پڑھتے:
(حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح میں چاندی کے ورق پر سونے کے پانی سے اچھے خوش نویس کے ہاتھ سے نہایت خوبصورت انداز میں لکھنا بھی کم ہے، اور یہ بھی کم ہے کہ دینی شرف والے آپ ﷺ کے ذکر جمیل کے وقت صفیں بنا کر کھڑے ہوجائیں یا گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں۔)
اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر (1301۔ 1373ء) ایک نام وَر مفسر، محدث، مؤرّخ اور فقیہ تھے۔ آپ کی تحریر کردہ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ایک مستند تفسیر ہے۔ آپ نے ’’جامع المسانید والسنن‘‘ میں اَحادیث کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تاریخ کے میدان میں آپ کی ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کے نام سے ایک ضخیم تصنیف موجود ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے شاہِ اِربل ابو سعید المظفر کے جشنِ میلاد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول الله ﷺ ورضاعہ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی تالیف کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
أول ما أرضعته ثويبة مولاة عمّه أبي لهب، وکانت قد بشرت عمه بميلاده فأعتقها عند ذلک، ولهذا لما رآه أخوه العباس بن عبد المطلب بعد ما مات، ورآه في شرّ حالة، فقال له: ما لقيت؟ فقال: لم ألق بعدکم خيراً، غير أني سقيت في هذه. وأشار إلي النقرة التي في الإبهام. بعتاقتي ثويبة.
وأصل الحديث في الصحيحين.
فلما کانت مولاته قد سقت النبي ﷺ ، من لبنها عاد نفع ذلک علي عمه أبي لهب، فسقي بسبب ذلک، مع أنه الّذي أنزل الله في ذمّه سورة في القرآن تامة.
’’سب سے پہلے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ اُس نے آپ ﷺ کے اِس چچا کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوش خبری دی تو اُس نے (اِس خوشی میں) اُسی وقت اُسے آزاد کر دیا۔ پس جب اُس کے مرنے کے بعد اُس کے بھائی حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے اُسے خواب میں بری حالت میں دیکھا تو پوچھا: تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا: تم سے بچھڑنے کے بعد مجھے کوئی سکون نہیں ملا۔ اور اپنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔ سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے اِس سے پانی پلایا جاتا ہے۔ ’’اصل حدیث ’’صحیحین‘‘ میں ہے۔
’’پس جب اُس کی خادمہ نے دودھ پلایا تو اُس کے دودھ پلانے کے نفع سے الله تعالیٰ نے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کو محروم نہ رکھا، بلکہ اِس وجہ سے (اُس پر فضل فرماتے ہوئے) ہمیشہ کے لیے اُس کی پیاس بجھانے کا اِنتظام فرما دیا حالاں کہ اِسی چچا کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی تھی۔‘‘
ابن کثير، ذکر مولد رسول الله ﷺ ورضاعه: 28، 29
شاہ ابوسعید المظفر (م 630ھ) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی تھے۔ سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی ﷺ کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی ﷺ کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں:
الملک المظفر أبو سعيد کوکبري بن زين الدين علي بن تبکتکين أحد الأجواد والسادات الکبراء والملوک الأمجاد، له آثار حسنة وقد عمر الجامع المظفري بسفح قاسيون، وکان قد همّ بسياقة الماء إليه من ماء برزة فمنعه المعظم من ذلک، واعتل بأنه قد يمر علي مقابر المسلمين بالسفوح، وکان يعمل المولد الشريف في ربيع الأول ويحتفل به احتفالاً هائلاً، وکان مع ذلک شهماً شجاعاً فاتکاً بطلاً عاقلاً عالماً عادلاً رحمه الله وأکرم مثواه. وقد صنّف الشيخ أبو الخطاب بن دحية له مجلداً في المولد النبوي سمّاه ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه علي ذلک بألف دينار، وقد طالت مدته في الملک في زمان الدولة الصلاحية، وقد کان محاصراً عکا وإلي هذه السنة محمود السيرة والسريرة. قال السبط: حکي بعض من حضر سماط المظفر في بعض الموالد کان يمد في ذلک السماط خمسة آلاف رأس مشوي. وعشرة آلاف دجاجة، ومائة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلوي.
’’شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں۔ اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی۔ وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے۔ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی ﷺ کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ اس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھا۔ سبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9: 18
2. محبي، خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر، 3: 233
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 42. 44
4. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 200
5. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 53، 54
اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
وکان يحضر عنده في المولد أعيان العلماء والصوفية فيخلع عليهم ويطلق لهم ويعمل للصوفية سماعًا من الظهر إلي العصر، ويرقص بنفسه معهم، وکانت له دار ضيافة للوافدين من أي جهة علي أي صفة. وکانت صدقاته في جميع القرب والطاعات علي الحرمين وغيرهما، ويتفک من الفرنج في کل سنة خلقًا من الأساري، حتي قيل إن جملة من استفکه من أيديهم ستون ألف أسير، قالت زوجته ربيعة خاتون بنت أيوب. وکان قد زوجه إياها أخوها صلاح الدين، لما کان معه علي عکا. قالت: کان قميصه لا يساوي خمسة دراهم فعاتبته بذلک، فقال: لبسي ثوبًا بخمسة وأتصدق بالباقي خير من أن ألبس ثوبًا مثمنًا وأدع الفقير المسکين، وکان يصرف علي المولد في کل سنة ثلاثمائة ألف دينار، وعلي دار الضيافة في کل سنة مائة ألف دينار. وعلي الحرمين والمياه بدرب الحجاز ثلاثين ألف دينار سوي صدقات السر، رحمه الله تعالي، وکانت وفاته بقلعة إربل، وأوصي أن يحمل إلي مکة فلم يتفق فدفن بمشهد علي.
’’میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے: میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں۔ اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی ﷺ پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ الله تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9: 18
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 44
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 200
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 362، 363
5. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 236
شاہِ اِربل تقریباتِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ امام ابن کثیر نے اتنی خطیر رقم میلادالنبی ﷺ پر خرچ کرنے کی تحسین کی ہے اور ایک لفظ بھی تنقید اور اِعتراض کے طور پر نہیں لکھا۔ یاد رہے کہ ایک دینار دو پاؤنڈ کے برابر تھا اور اس طرح میلاد پر خرچ کی گئی رقم چھ لاکھ پاؤنڈ تک جا پہنچی تھی۔ دینار اور پاؤنڈ کا یہ موازنہ آج کے دور کا نہیں بلکہ آج سے آٹھ سو (800) سال قبل کا ہے۔ اگر آج کے زمانہ سے تقابل کیا جائے تو اُن دنوں ایک دینار کم و بیش ایک چوتھائی تولہ سونے کے برابر ہوتا تھا جو آج پاکستانی کرنسی میں قریباً چار ہزار روپے (4,000) روپے بنتا ہے اور اگر ایک دینار کی اُسی حساب سے قدر نکالی جائے تو یہ آج تقریبًا چالیس (40) پاؤنڈ بنتی ہے۔ اور اگر حساب کرتے ہوئے چالیس (40) کو تین لاکھ (300,000) سے ضرب دی جائے تو یہ رقم ایک اَرب بیس کروڑ (1,200,000,000) پاکستانی روپے کے لگ بھگ ہوگی۔ اور یہ محض ایک تخمینہ ہے۔
اِمام برہان الدین ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی (1325۔ 1388ء) ایک نام وَر قاضی و مفسر تھے۔ آپ نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر لکھی۔ ملا علی قاری (م 1014ھ)
’’المورد الروی فی مولد النبوی ونسبہ الطاھر‘‘ میں آپ کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں:
فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم جماعة لما کان بالمدينة النبوية. علي ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحية. کان يعمل طعاماً في المولد النبوي، ويطعم الناس، ويقول: لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدا.
’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی ﷺ کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے: اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر: 17
علامہ زین الدین عبد الرحمان بن اَحمد بن رجب حنبلی (1336۔ 1393ء) فقہ حنبلی کے معروف عالم اور کثیر التصانیف محقق تھے۔ اپنی کتاب لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف میں اُنہوں نے مختلف اِسلامی مہینوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال و وظائف مفصل بیان کیے ہیں۔ ماہِ ربیع الاوّل کے ذیل میں تین فصول قائم کی ہیں، جن میں سے دو فصول حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت اور واقعاتِ نبوت کے بیان پر مشتمل ہیں، جب کہ تیسری فصل میں آپ ﷺ کے وصال مبارک کے واقعات کا ذکر ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل کے واقعات پر مشتمل باب کا آغاز ہی اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد سے متعلق مختلف روایات سے کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
خرّج الإمام أحمد من حديث العِرْباض بن سَارِيَةَ السُّلَمِي رضي الله عنه عن النبي ﷺ ، قال: إنّي عِند الله في أُمّ الکتاب لَخاتمُ النّبِيّين، وإنّ آدم لَمُنجدلٌ في طينتهِ، وَسوف أنبئکم بتأْويل ذلک: دعوة أبي إبراهيم، (1) وبشارة عيسي قومه، (2) ورؤْيا أمّي الّتي رأت أنه خرج منها نورٌ أضاءت له قصور الشام، وکذلک أمهات النببين يَرَيْنَ. (3)
’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘
(1) البقرة، 2: 129
(2) الصف، 61: 6
(3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 127، 128، رقم: 17190، 17191، 17203
2. ابن حبان، الصحيح، 14: 312، رقم: 6404
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2: 656، رقم: 4174
4. طبراني، المعجم الکبير، 18: 253، رقم: 631
5. طبراني، مسند الشاميين، 2: 340، رقم: 1455
6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 149
7. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان: 512، الرقم: 2093
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 223
9. عسقلاني، فتح الباري، 6: 583
10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 321
بعد ازاں اُنہوں نے اِسی موضوع سے متعلق دیگر روایات ذکر کی ہیں، (1) جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے واقعات بیان کرنا ایک جائز، مستحسن اور عملِ خیر ہے۔
(1) ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف: 158. 216
امام ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبد الرحیم بن حسین العراقی (1361۔ 1423ء) ایک نام وَر محدث و فقیہ تھے۔ اُن سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ محفلِ میلاد منعقد کرنا مستحب ہے یا مکروہ؟ یا اِس کے بارے میں کوئی باقاعدہ حکم موجود ہے جو قابلِ ذکر ہو اور اس کی پیروی کی جاسکتی ہو؟ آپ نے جواب دیا:
إطعام الطعام مستحب في کل وقت، فکيف إذا انضم لذالک السرور بظهور نور النبوة في هذا الشهر الشريف، ولا نعلم ذالک من السلف، ولا يلزم من کونه بدعة کونه مکروهاً، فکم من بدعة مستحبة بل واجبة.
’’کھانا کھلانا ہر وقت مستحب ہے۔ اگر کسی موقع پر ربیع الاول شریف کے مہینے میں ظہورِ نبوت کی یادگار کے حوالے سے خوشی اور مسرت کے اِظہار کا اِضافہ کر دیا جائے تو اس سے یہ چیز کتنی بابرکت ہوجائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اَسلاف نے ایسا نہیں کیا اور یہ عمل بدعت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مکروہ ہو کیوں کہ بہت سی بدعات مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہوتی ہیں۔‘‘
علي بن إبراهيم، تشنيف الآذان بأسرار الآذان: 136
حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب ’’مورد الصادی فی مولد الھادی‘‘ میں لکھتے ہیں:
وقد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الاثنين، لإعتاقه ثويبة سروراً بميلاد النبي ﷺ .
’’یہ بات ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر سوموار کو ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔‘‘
پھر انہوں نے درج ذیل شعر پڑھے:
إذا کان هذا کافرًا جاء ذمه
وتبّت يداه في الجحيم مخلّداً
أتي أنه في يوم الاثنين دائماً
يخفّف عنه للسرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طول عمره
بأحمد مسرورًا ومات موحدًا
1۔ جب ابولہب جیسا کافر جس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے اور جس کی مذمت میں قرآن مجید کی پوری سورت تَبَّتْ يَدَا۔ نازل ہوئی۔
2۔ باوُجود اس کے جب سوموار کا دن آتا ہے تو احمد مجتبیٰ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں ہمیشہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔
3۔ پس کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جس نے تمام عمر حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا جشن منانے میں گزاری اور توحید کی حالت میں اُسے موت آئی!
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 66
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 367
4. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 54
5. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 238
شارحِ صحیح البخاری حافظ شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی (1372۔ 1449ء) نے عید میلادالنبی ﷺ کی شرعی حیثیت واضح طور پر متحقق کی ہے اور یوم میلادِ مصطفیٰ ﷺ منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں:
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه: قال:
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من: ’’أن النبي ﷺ قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا: هو يوم أغرق الله فيه فرعون، ونجي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معين من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي ﷺ الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
وعلي هذا فينبغي أن يتحري اليوم بعينه، حتي يطابق قصة موسي عليه السلام في يوم عاشوراء.
ومن لم يلاحظ ذلک لا يبالي بعمل المولد في أيّ يوم في الشهر، بل توسَّع قوم حتي نقلوه إلي يوم من السنة. وفيه ما فيه. فهذا ما يتعلق بأصل عمل المولد.
وأما ما يُعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم الشکر ﷲ تعالي من نحو ما تقدم ذکره من التلاوة، والإطعام، والصدقة، وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحرکة للقلوب إلي فعل الخيرات والعمل للآخرة.
’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا:
’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن الله تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
’’ الله تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر الله کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔
’’اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔
’’اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔
’’جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 63، 64
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 54
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237
امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان سخاوی (1428۔ 1497ء) اپنے فتاوی میں میلادالنبی ﷺ منانے کے بارے میں فرماتے ہیں:
وإنما حدث بعدها بالمقاصد الحسنة، والنية التي للإخلاص شاملة، ثم لا زال أهل الإسلام في سائر الأقطار والمدن العظام يحتفلون في شهر مولده ﷺ وشرف وکرم بعمل الولائم البديعة، والمطاعم المشتملة علي الأمور البهية والبديعة، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون المسرات ويزيدون في المبرات، بل يعتنون بقرابة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم عميم، بحيث کان مما جرب کما قال الإمام شمس الدين بن الجزري المقري، أنه أمان تام في ذالک العام وبشري تعجل بنيل ما ينبغي ويرام.
’’(محفلِ میلادالنبی ﷺ ) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادالنبی ﷺ قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات الله تعالیٰ کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماہِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔‘‘
1. ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر:
12، 13
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 362
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1: 84
4. إسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9: 56، 57
5. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 53
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 233
امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی (1445۔ 1505ء) کا شمار ان جلیل القدر محققین و مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے میلادالنبی ﷺ کے تناظر میں بیش بہا معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب اِمام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اور کتاب ’’الحاوی للفتاوی‘‘ کا حصہ ہے۔ اِس حصہ میں نقلی و عقلی دلائل کے ساتھ تقریبِ میلاد کا شرعی جواز دینے کے علاوہ میلاد کی تاریخی، مذہبی، فقہی اور شرعی حیثیت کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں اور کئی ائمہ کرام کے اِرشادات نقل کیے گئے ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کے چند اہم اقتباسات درج کیے جاتے ہیں:
1. إن أصل عمل المولد الذي هو اجتماع الناس، وقراء ة ما تيسر من القرآن، ورواية الأخبار الواردة في مبدأ (أمر) النبي ﷺ ، وما وقع في مولده من الآيات، ثم يُمدّ لهم سماطاً يأکلونه، وينصرفون من غير زيادة علي ذلک من البدع (الحسنة) التي يثاب عليها صاحبها؛ لما فيه من تعظيم قدر النبي ﷺ ، وإظهار الفرح والاستبشار بمولده ( ﷺ ) الشريف.
’’رسولِ معظم ﷺ کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں کے جمع ہو کر بہ قدرِ سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپ ﷺ کے بارے میں منقول ہیں، آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعتِ حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضور ﷺ کی تعظیم اور آپ ﷺ کے میلاد پر اِظہارِ فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد: 41
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 199
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 367
4. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 236
2. إن ولادته ﷺ أعظم النعم علينا، ووفاته أعظم المصائب لنا، والشريعة حثّت علي إظهار شکر النعم والصبر والسکون والکتم عند المصائب، وقد أمر الشرع بالعقيقة عند الولادة وهي إظهار شکر وفرح بالمولود، ولم يأمر عند الموت بذبح ولا بغيره. بل نهي عن النياحة وإظهار الجزع، فدلّت قواعد الشريعة علي أنه يحسن في هذا الشهر إظهار الفرح بولادته ﷺ دون إظهار الحزن فيه بوفاته.
’’بے شک آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمیٰ ہے اور آپ ﷺ کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیبت پر صبر و سکون کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 54، 55
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 203
3. وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي ﷺ عقّ عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عقّ عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي ﷺ إظهارًا للشکر علي إيجاد الله تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’يوم میلادالنبی ﷺ منانے کے حوالے سے ایک اور دلیل جو مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب آپ ﷺ کی پیدائش کے ساتویں روز آپ ﷺ کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اور عقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی چیز پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺ کا دوبارہ اپنا عقیقہ کرنا آپ ﷺ کا شکرانے کا اِظہار تھا اس بات پر کہ الله تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین اور آپ ﷺ کی اُمت کے شرف کا باعث بنایا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 263، 264
5. نبهاني، حجة الله علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237
صاحبِ ’’ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری‘‘ امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ابی بکر قسطلانی (1448۔ 1517ء) میلادالنبی ﷺ منانے کے متعلق لکھتے ہیں:
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ فقال: في النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل ليلة اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار برأس أصبعه. وأن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي ( ﷺ ) وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي: فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحّد من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبّته ﷺ ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات النعيم.
ولا زال أهل الإسلام يحتفلون بشهر مولده عليه السلام، ويعملون الولائم، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون السرور ويزيدون في المبرات. ويعتنون بقراء ة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم.
ومما جُرّب من خواصه أنه أمان في ذالک العام، وبشري عاجلة بنيل البغية والمرام، فرحم الله امرءًا اتّخذ ليالي شهر مولده المبارک أعيادًا، ليکون أشد علة علي من في قلبه مرض وأعيا داء.
’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جزری کہتے ہیں: پس جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے، تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔
’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض یاب ہوتا ہے۔
’’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ میلادالنبی ﷺ کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منا کر اس کی شدتِ مرض میں اضافہ کیا جس کے دل میں (بغضِ رسالت مآب ﷺ کے سبب پہلے ہی خطرناک) بیماری ہے۔‘‘
1. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 147، 148
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 260. 263
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 233، 234
اِمام قسطلانی کی مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل میں محافلِ میلاد منعقد کرنا، واقعاتِ میلاد پڑھنا، دعوتیں کرنا اور کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات کرنا، اَعمالِ صالحہ میں زیادتی کرنا اور خوشی و مسرت کا اِظہار کرنا ہمیشہ سے سلف صالحین کا شیوہ رہا ہے۔ اور ان اُمور کے وسیلہ سے الله تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
شیخ نصیر الدین بن طباخ کہتے ہیں:
ليس هذا من السنن، ولکن إذا أنفق في هذا اليوم وأظهر السرور فرحاً بدخول النبي ﷺ في الوجود واتخذ السماع الخالي عن اجتماع المردان وإنشاد ما يثير نار الشهوة من العِشقيات والمشوّقات للشهوات الدنيويّة کالقدّ والخدّ والعين والحاجب، وإنشاد ما يشوّق إلي الآخرة ويزهّد في الدنيا فهذا اجتماع حسَن يُثاب قاصد ذلک وفاعله عليه، إلا أن سؤال الناس ما في أيديهم بذلک فقط بدون ضرورة وحاجة سؤالٌ مکروه، واجتماع الصلحاء فقط ليأکلوا ذلک الطعام ويذکروا الله تعالي ويصلّوا علي رسول الله ﷺ يضاعف لهم القربات والمثوبات.
’’یہ عمل سنن میں سے تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس دن مال خرچ کرتا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کے ظہور پذیر ہونے کی خوشی مناتا ہے اور سماع کی محفل منعقد کرتا ہے جو کہ ایسا اجتماع نہ ہو جس میں لغویات جیسے شہوت انگیز گیت، دنیاوی عشق پر مبنی شاعری جس میں محبوب کے رُخساروں، آنکھوں، ابروؤں کا ذکر ہوتا ہے بلکہ ایسے اشعار ہوں جو کہ آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا میں زُہد و تقوی اختیار کرنے کی طرف رغبت دلائیں تو ایسا اجتماع اچھا ہے اور ایسے اجتماع کرنے والا اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ مگر اس اجتماع میں لوگوں کا بغیر حاجت اور ضرورت کے سوال کرنا مکروہ ہے اور اس اجتماع میں صالح لوگوں کا جمع ہونا۔ تاکہ وہ یہ ضیافت کھائیں اور اللہ کا ذکر کریں اور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجیں۔ اُن کے اجر و ثواب اور قربتِ الٰہیہ میں مزید اِضافہ کا موجب ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 364
اِمام جمال الدین بن عبد الرحمٰن بن عبد الملک کتانی لکھتے ہیں:
مولد رسول الله ﷺ مبجّل مکرّم، قدّس يوم ولادته وشرّف وعظم وکان وجوده ﷺ مَبدأ سبب النجاة لمن اتبعه وتقليل حظّ جهنم لمن أعدّ لها لفرحه بولادته ﷺ وتمَّت برکاتُه علي من اهتدي به، فشابَه هذا اليومُ يوم الجمعة من حيث أن يوم الجمعة لا تُسَعّر فيه جهنم، هکذا ورد عنه ﷺ فمن المناسب إظهار السرور وإنفاق الميسور وإجابة من دعاه ربُّ الوليمة للحضور.
’’حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کا دن بڑا ہی مقدس، بابرکت اور قابل تکریم ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اَقدس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اور آپ ﷺ کو ماننے والا آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی منائے تو وہ نجات و سعادت حاصل کرلیتا ہے، اور اگر ایسا شخص خوشی منائے جو مسلمان نہیں اور دوزخ میں رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہو تو اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے اور آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق چلنے والوں پر آپ ﷺ کی برکات مکمل ہوتی ہیں۔ یہ دن یوم جمعہ کے مشابہ ہے، اس حیثیت سے کہ یوم جمعہ میں جہنم نہیں بھڑکتی جس طرح کہ حضور ﷺ سے مروی ہے۔ اس لیے اس دن خوشی اور مسرت کا اظہار اور حسبِ توفیق خرچ کرنا اور دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا بہت ہی مناسب ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 364
علامہ ابن ظفر بیان فرماتے ہیں کہ یوسف بن علی بن زُریق شامی۔ جو کہ اَصلاً مصری ہیں اور مصر کے شہر حَجّار میں پیدا ہوئے، جہاں وہ اپنے گھر میں میلادالنبی ﷺ کی محفل کا انعقاد کرتے تھے۔ نے کہا:
رأيت النبي ﷺ في المنام منذ عشرين سنة، وکان لي أخ في الله تعاليٰ يقال له: الشيخ أبوبکر الحجّار، فرأيت کأنني وأبا بکر هذا بين يدي النبي ﷺ جالسين، فأمسک أبوبکر لحية نفسه وفرَقها نصفين، وذکر للنبي ﷺ کلاماً لم أفهمه. فقال النبي ﷺ مجيباً له: لولا هذا لکانت هذه في النار. ودار إليّ، وقال: لأضْربنک. وکان بيده قضيب، فقلت: لأيّ شيء يا رسول الله ؟ فقال: حتي لا تُبطل المولد ولا السّنن.
قال يوسف: فعملته منذ عشرين سنة إلي الآن.
قال: وسمعت يوسف المذکور، يقول: سمعت أخي أبابکر الحجار يقول: سمعت منصورا النشار يقول: رأيت النبي ﷺ في المنام يقول لي: قل له: لا يُبطله. يعني المولد ما عليک ممن أکل وممن لم يأکل. قال: وسمعت شيخنا أبا عبد الله بن أبي محمد النعمان يقول: سمعت الشيخ أبا موسي الزرهُوني يقول: رأيت النبي ﷺ في النوم فذکرت له ما يقوله الفقهاءُ في عمل الولائم في المولد. فقال ﷺ: من فَرِح بنا فرِحْنا به.
’’میں نے بیس سال قبل حضور نبی اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت کی، شیخ ابو بکر حجار میرا دینی بھائی ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے میں اور ابو بکر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہیں۔ چنانچہ ابو بکر حجار نے خود اپنی داڑھی پکڑی اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور حضور ﷺ سے کوئی کلام کیا جو میں نہ سمجھ پایا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا تو یہ آگ میں ہوتی اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: میں تمہیں ضرور سزا دوں گا۔ اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، پس میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس وجہ سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تاکہ نہ میلاد شریف کا اِہتمام ترک کیا جائے اور نہ سنتوں کا۔
’’یوسف کہتے ہیں کہ (اس خواب کے باعث) میں گزشتہ بیس سالوں سے آج کے دن تک مسلسل میلاد مناتا آرہا ہوں۔
’’(ابن ظفر) کہتے ہیں کہ میں نے انہی یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میں نے اپنے بھائی ابوبکر حجار سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے منصور نشار کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ ﷺ مجھے فرما رہے تھے کہ میں اسے (یعنی یوسف بن علی) کو کہوں کہ وہ یہ عمل (میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام) ترک نہ کرے، کوئی اس میں کچھ کھائے یا نہ کھائے تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ (اِبن ظفر) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ ابو عبد اللہ بن ابی محمد نعمان کو سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ ابو موسیٰ زرہونی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے وہ تمام باتیں ذکر کر دیں جو کہ فقہاء میلاد کی ضیافت کے بارے میں کہتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو ہم سے خوش ہوتا ہے ہم اس سے خوش ہوتے ہیں۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 363
اِمام ابو عبد الله محمد بن یوسف بن علی بن یوسف صالحی شامی (م 1536ء) نے سیرتِ طیبہ کی معروف و ضخیم کتاب ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ ‘‘ کی پہلی جلد میں میلاد شریف منانے، اِجتماع منعقد کرنے اور اِس بابت علماء و ائمہ کے اَقوال و طریقہ کے بیان پر مشتمل پورا ایک باب قلم بند کیا ہے۔ ہم نے باب ھذا میں مختلف جگہوں پر ان کی کتاب کے حوالہ جات بھی دیے ہیں۔
اِمام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی (1503۔ 1566ء) سے پوچھا گیا کہ فی زمانہ منعقد ہونے والی محافلِ میلاد اور محافلِ اَذکار سنت ہیں یا نفل یا بدعت؟ تو اُنہوں نے جواب دیا:
الموالد والأذکار التي تفعل عندنا أکثرها مشتمل علي خير، کصدقة، وذکر، وصلاة وسلام علي رسول الله ﷺ ومدحه.
’’ہمارے ہاں میلاد و اَذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں وہ زیادہ تر نیک کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں، مثلاً ان میں صدقات دیئے جاتے ہیں (یعنی غرباء کی اِمداد کی جاتی ہے)، ذِکر کیا جاتا ہے، حضور ﷺ پر درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور آپ ﷺ کی مدح کی جاتی ہے۔‘‘
هيتمي، الفتاوي الحديثية: 202
ابن حجر ہیتمی مکی نے میلاد شریف پر ’’مولد النبی ﷺ ‘‘ نامی ایک رِسالہ بھی تالیف کیا ہے۔ اِس میں آپ لکھتے ہیں:
أول من أرضعته ثويبة مولاة عمّه أبي لهب، أعتقها لما بشرته بولادته فخفّف الله عنه من عذابه کل ليلة اثنين جزاء لفرحه فيها بمولده ﷺ .
’’سب سے پہلے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب اُس (ثویبہ) نے اُسے (ابو لہب کو) آپ ﷺ کی ولادت کی خوش خبری سنائی تو اُس نے اُسے آزاد کر دیا۔ پس الله تعالیٰ نے ہر سوموار کی رات ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی اس لیے کہ اُس نے حبیبِ خدا ﷺ کی ولادت کا سن کر خوشی کا اِظہار کیا تھا۔‘‘
هيتمي، مولد النبي ﷺ: 27
اِمام جمال الدین محمد جار الله بن محمد نور الدین بن ظہیرہ قرشی حنفی (م 1587ء) ’’الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واھلھا وبناء البیت الشریف‘‘ میں اہلِ مکہ کا جشنِ میلادالنبی ﷺ منانے کا معمول یوں بیان کرتے ہیں:
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّأ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بإزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفًا بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علمًا بذالک.
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے نمازِ عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صاحبانِ فراش کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کی تاریخ کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
ابن ظهيره، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف: 201، 202
علامہ قطب الدین حنفی نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت الله الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی ﷺ مناتے رہے ہیں:
يزار مولد النبي ﷺ المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفًا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور نبی اکرم ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعدازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام في تاريخ مکة المشرفة: 355، 356
نام وَر حنفی محدّث اور فقیہ، ’’شرح الشفا‘‘ اور ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ کے مصنف ملا علی بن سلطان ہروی قاری (م 1606ء) نے بھی میلادالنبی ﷺ پر ایک گراں قدر کتاب ’’المورد الروي فی مولد النبي ﷺ ونسبہ الطاھر‘‘ مرتب کی ہے۔ اِس میں میلادالنبی ﷺ کے جواز اور عالم عرب و عجم میں اِنعقاد محافلِ میلاد کو اسلامی و تاریخی تناظر میں انتہائی مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں ایک مقام پر ملا علی قاری لکھتے ہیں:
وفي قوله تعالي: لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ(1) إشعار بذلک وإيماء إلي تعظيم وقت مجيئه إلي هنالک. قال: وعلي هذا فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم الشکر ﷲ تعالي من نحو ما ذکر، وأما ما يتبعه من السماع واللهو وغيرهما فينبغي أن يقال ما کان من ذلک مباحًا بحيث يعين علي السرور بذلک اليوم فلا بأس بإلحاقه، وما کان حرامًا أو مکروها فيمنع. وکذا ما کان فيه خلاف، بل نحسن في أيام الشهر کلها و لياليه يعني کما جاء عن ابن جماعة تمنيه فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم بن جماعة لما کان بالمدينة النبوية علي ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحيّة کان يعمل طعامًا في المولد النبوي ويطعم الناس ويقول: لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدًا.
قلت: وأنا لما عجزت عن الضيافة الصورية کتبت هذه الأوراق لتصير ضيافة معنوية نورية مستمرة علي صفحات الدهر غير مختصة بالسنة والشهر وسميته: بالمورد الروي في مولد النبي ﷺ .(2)
’’فرمانِ باری تعالی۔ بے شک تمہارے پاس (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ میں یہی خبر و اشارہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے وقت کی تعظیم بجا لائی جائے اور اس لیے ضروری ہے کہ اظہارِ تشکر میں مذکورہ صورتوں پر اکتفا کیا جائے۔ جہاں تک سماع اور کھیل کود کا تعلق ہے تو کہنا چاہیے کہ اس میں سے جو مباح اور جائز ہے اور اس دن کی خوشی میں ممدو معاون ہے تو اُسے میلاد کا حصہ بنانے میں کوئی حرج نہیں اور جو حرام اور مکروہ ہے اس سے منع کیا جائے۔ یونہی جس میں اختلاف ہے بلکہ ہم تو اس مہینے میں تمام شب و روز میں یہ عمل جاری رکھتے ہیں جیسا کہ ابن جماعہ نے فرمایا۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد، قدوہ، معمر ابو اسحاق ابراہیم بن عبدالرحیم بن ابراہیم بن جماعہ جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلادِ نبوی کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے اور فرماتے: اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔
’’میں کہتا ہوں: جب میں ظاہری دعوت و ضیافت سے عاجز ہوں تو یہ اَوراق میں نے لکھ دیے تاکہ میری طرف سے یہ معنوی و نوری ضیافت ہو جائے جو زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ باقی رہے، محض کسی سال یا مہینے کے ساتھ ہی خاص نہ ہو۔ اور میں نے اس کتاب کا نام ’’المورد الروي في مولد النبي ﷺ ‘‘ رکھا ہے۔‘‘
التوبة، 9: 128
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر: 17
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ فقال: في النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل ليلة اثنتين، فأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار إلي رأس أصابعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي ﷺ وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي: فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ ، فما حال المسلم الموحد من أمته يُسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات النعيم.
’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جوزی (510۔ 579ھ) کہتے ہیں: پس حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں جب اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبه الطاهر: 42، 43
امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1564۔ 1624ء) اپنے ’’مکتوبات‘‘ میں فرماتے ہیں:
نفس قرآں خواندن بصوتِ حسن و در قصائد نعت و منقبت خواندن چہ مضائقہ است؟ ممنوع تحریف و تغییر حروفِ قرآن است، والتزام رعایۃ مقامات نغمہ و تردید صوت بآں، بہ طریق الحان با تصفیق مناسب آن کہ در شعر نیز غیر مباح است. اگر بہ نہجے خوانند کہ تحریفِ کلمات قرآنی نشود. . . چہ مانع است؟
’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟‘‘
مجدد الف ثاني، مکتوبات، دفتر سوم، مکتوب نمبر: 72
اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی بن عمر بن برہان الدین حلبی قاہری شافعی نہایت بلند رُتبہ عالم اور مقبول و مشہور مشائخ میں سے ہیں۔ اُن کے مدلل علم کی وجہ سے اُنہیں امام کبیر اور علامۂ زماں کہا گیا ہے۔ اُن کے معاصرین میں سے کوئی ان کے پائے کا نہ تھا۔ آپ بہت سی بلند پایہ و مقبول کتب کے مصنف و شارح ہیں۔ آپ کی عظیم ترین کتاب سیرتِ طیبہ پر ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ ہے جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اُنہوں نے اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
والحاصل أن البدعة الحسنة متّفق علي ندبها، وعمل المولد واجتماع الناس له کذلک أي بدعة حسنة.
’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ بدعتِ حسنہ کا جواز و اِستحباب متفقہ ہے (اس میں کوئی اِختلاف نہیں) اور اِسی طرح میلاد شریف منانے اور اس کے لیے لوگوں کے جمع ہونے کا عمل ہے، یعنی یہ بھی بدعتِ حسنہ (جائز اور مستحب) اَمر ہے۔‘‘
حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1: 84
عارِف ب الله قدوۃ المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1551۔ 1642ء) نے اپنی کتاب ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ايّام السَّنَۃ میں ہر مہینہ اور اس میں خاص خاص شب و روز کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال مفصل بیان کیے ہیں۔ اُنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اور بارہ (12) ربیع الاول کو حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ خاص ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ قال: في النار، إلا أنه خُفّف کل ليلة اثنتين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار إلي رأس إصبعيه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي ﷺ وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي: فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ ، فما حال المسلم من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري! إنما کان جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
ولا يزال أهل الاسلام يحتفلون بشهر مولده ﷺ ويعملون الولايم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور ويزيدون في المبرّات ويعتنون بقراءة مولده الکريم ويظهر عليهم من مکانه کل فضل عميم.
ومما جرّب من خواصه أنه أمان في ذلک العام وبشري عاجل بنيل البغية والمرام، فرحم الله امرأ اتخذ ليالي شهر مولده المبارک أعياداً ليکون أشد غلبة علي من في قلبه مرض وعناد.
’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور. اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ. میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) کہتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔
’’اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اِظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔
’’میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفلِ میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ الله تعالیٰ اُس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلادالنبی ﷺ کی شب بہ طور عید مناتا ہے، اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔‘‘
عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة: 60
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے میلادالنبی ﷺ منانے کے اَحوال اور درج بالا واقعات سیرتِ طیبہ پر فارسی زبان میں لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’مدارج النبوۃ (2: 18، 19)‘‘ میں بھی بیان کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک میلاد شریف منانا کس قدر مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب اَمر تھا۔
اِمام ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف المالکی الزرقانی (1645۔ 1710ء) سیرتِ طیبہ کی معروف کتاب المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ کی شرح میں فرماتے ہیں:
استمرّ أهل الإسلام بعد القرون الثلاثة التي شهد المصطفي ﷺ بخيريتها، فهو بدعة. وفي أنها حسنة، قال السيوطي: وهو مقتضي کلام ابن الحاج في مدخله فإنه إنما ذم ما احتوي عليه من المحرمات مع تصريحه قبل بأنه ينبغي تخصيص هذا الشهر بزيادة فعل البرّ وکثرة الصدقات والخيرات وغير ذلک من وجوه القربات. وهذا هو عمل المولد مستحسن والحافظ أبي الخطاب بن دحية ألف في ذالک ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه الملک المظفر صاحب إربل بألف دينار، واختاره أبو الطيب السبتي نزيل قوص وهؤلاء من أجلّة المالکية أو مذمومة وعليه التاج الفاکهاني وتکفل السيوطي، لردّ ما استند إليه حرفاً حرفاً والأول أظهر، لما اشتمل عليه من الخير الکثير.
يحتفلون: يهتمون بشهر مولده عليه الصلوة والسلام ويعملون الولائم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور به، ويزيدون في المبرات ويعتنون بقراء ة قصة مولده الکريم ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عميم.
’’اہلِ اِسلام ان ابتدائی تین اَدوار (جنہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے خیرالقرون فرمایا ہے) کے بعد سے ہمیشہ ماہِ میلادالنبی ﷺ میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ عمل (اگرچہ) بدعت ہے مگر ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے (جیسا کہ) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، اور ’’المدخل‘‘ میں ابن الحاج کے کلام سے بھی یہی مراد ہے اگرچہ انہوں نے ان محافل میں دَر آنے والی ممنوعات (محرمات) کی مذمت کی ہے، لیکن اس سے پہلے تصریح فرما دی ہے کہ اس ماہِ مبارک کو اَعمالِ صالحہ اور صدقہ و خیرات کی کثرت اور دیگر اچھے کاموں کے لیے خاص کر دینا چاہیے۔ میلاد منانے کا یہی طریقہ پسندیدہ ہے۔ حافظ ابو خطاب بن دحیہ کا بھی یہی مؤقف ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب التنویر فی المولد البشیر والنذیر تالیف فرمائی جس پر مظفر شاہِ اِربل نے انہیں ایک ہزار دینار (بطور انعام) پیش کیے۔ اور یہی رائے ابوطیب سبتی کی ہے جو قوص کے رہنے والے تھے۔ یہ تمام علماء جلیل القدر مالکی ائمہ میں سے ہیں۔ یا پھر یہ (عمل مذکور) بدعتِ مذمومہ ہے جیسا کہ تاج فاکہانی کی رائے ہے۔ لیکن امام سیوطی نے ان کی طرف منسوب عبارات کا حرف بہ حرف رَدّ فرمایا ہے۔ (بہرحال) پہلا قول ہی زیادہ راجح اور واضح تر ہے۔ بایں وجہ یہ اپنے دامن میں خیر کثیر رکھتا ہے۔
’’لوگ (آج بھی) ماہِ میلادالنبی ﷺ میں اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور اس کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کثرت کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں اور مولود شریف کے واقعات پڑھنے کا اِہتمام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی خصوصی برکات اور بے پناہ فضل و کرم اُن پر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 261، 262
قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم دہلوی فرماتے ہیں:
کنت أصنع في أيام المولد طعاماً صلة بالنبي ﷺ ، فلم يفتح لي سنة من السنين شيء أصنع به طعاماً، فلم أجد إلا حمصًا مقليا فقسمته بين الناس، فرأيته ﷺ وبين يديه هذا الحمص متبهجاً بشاشا.
’’میں ہر سال حضور ﷺ کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ ﷺ خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔‘‘
شاه ولي الله ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين ﷺ: 40
برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے۔
شیخ اِسماعیل حقی بروسوی (1652۔ 1724ء) ’’تفسیر روح البیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
ومن تعظيمه عمل المولد إذا لم يکن فيه منکر. قال الإمام السيوطي قُدّس سره: يستحب لنا إظهار الشکر لمولده عليه السلام.
’’اور میلاد شریف منانا آپ ﷺ کی تعظیم میں سے ہے جب کہ وہ منکرات سے پاک ہو۔ اِمام سیوطی نے فرمایا ہے: ہمارے لیے آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت پر اِظہارِ شکر کرنا مستحب ہے۔‘‘
اِسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9: 56
قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703۔ 1762ء) اپنے والد گرامی اور صلحاء و عاشقان کی راہ پر چلتے ہوئے میلادالنبی ﷺ کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي ﷺ في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي ﷺ ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحداة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، و الله أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذه المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة.
’’اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ ﷺ کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، الله ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘
شاه ولي الله ، فيوض الحرمين: 80، 81
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسی ہستی کا یومِ میلاد کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ہونے والی محفلِ میلاد میں شرکت کرنا محفلِ میلاد کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کرتا ہے۔ ثانیاً اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حرمین شریفین میں بھی محافلِ میلاد منعقد ہوتی رہی ہیں۔ اگر آج وہاں اِعلانیہ طور پر ایسی محافل منعقد نہیں ہوتیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں کبھی ایسی محافل ہوئی نہیں تھیں۔ اہلِ عشق و محبت تو آج بھی وہاں محبتِ اِلٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کے ترانے الاپ رہے ہیں۔
خاندان ولی الله کے آفتابِ روشن شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی (1745۔ 1822ء) اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں:
وبرکة ربيع الأول بمولد النبي ﷺ فيه ابتداء وبنشر برکاته ﷺ علي الأمة حسب ما يبلغ عليه من هدايا الصلٰوة والإطعامات معا.
’’اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم ﷺ کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ ﷺ کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ ﷺ کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔‘‘
عبد العزيز محدث دهلوي، فتاوٰي، 1: 163
غیر مقلدین کے بانی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی (1115۔ 1206ھ / 1703۔ 1791ء) کی کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسول ﷺ ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اُس کا بیٹا عبد الله بن محمد اپنی کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسول ﷺ ‘‘ میں میلاد شریف کی بابت لکھتا ہے:
وأرضعته ﷺ ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشّرته بولادته ﷺ . وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ فقال: في النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار برأس أصبعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي ﷺ وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي: فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحد من أمته يُسر بمولده.
’’اور ابو لہب کی باندی ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا اور جب اُس نے آپ ﷺ کی پیدائش کی خبر سنائی تو ابولہب نے اُسے آزاد کر دیا۔ اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر سوموار کو (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں)، اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جوزی کہتے ہیں: پس جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ہر شبِ میلاد اُس ابولہب کو بھی جزا دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو آپ ﷺ کی اُمت کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے۔‘‘
عبد الله ، مختصر سيرة الرسول ﷺ: 13
شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت تھے۔ اُنہوں نے مدینہ منورہ میں وفات پائی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفون ہیں۔ آپ اپنے رسالہ ’’اثبات المولد والقیام‘‘ میں لکھتے ہیں:
أيها العلماء السائلون عن دلائل مولد الشريف لنبينا وسيدنا ﷺ ! فاعلموا أن محفل المولد الشريف يشتمل علي ذکر الآيات والأحاديث الصحاح الدالة علي جلالة قدره وأحوال ولادته ومعراجه ومعجزاته ووفاته ﷺ . کلما ذکره الذاکرون وکلما غفل عن ذکره الغافلون. فإنکارکم مبني علي عدم استماعه.
’’ہمارے نبی و آقا ﷺ کے میلاد شریف کے دلائل کے بارے میں پوچھنے والو اے علماء! جان لو کہ محفلِ میلاد شریف ایسی آیات و صحیح احادیث کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں آپ ﷺ کی کمالِ شان پر دلالت ہوتی ہے اور آپ ﷺ کی ولادت باسعادت، معراج، معجزات اور وصال کے واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا ذکر کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کی سنت رہی ہے اور صرف غافلین نے آپ ﷺ کے ذکر سے غفلت برتی ہے۔ پس تمہارا اِنکار ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔‘‘
’’علم الفرائض،‘‘ ’’علم الصیغۃ‘‘ اور ’’نقشہ مواقع النجوم‘‘ جیسی کئی کتب کے مصنف مفتی محمد عنایت احمد کاکوروی (1813۔ 1863ء) ’’تواریخِ حبیب اِلٰہ یعنی سیرت سید المرسلین ﷺ ‘‘ جو اُردو زبان میں سیرتِ طیبہ پر پہلی کتاب ہے۔ میں لکھتے ہیں:
’’ماہِ ربیع الاول روز دو شنبہ کو آپ ﷺ کے سبب سے شرفِ عظیم حاصل ہوا۔ حرمین شریفین اور اکثر بلادِ اِسلام میں عادت ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں محفلِ میلاد شریف کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت درود کی کرتے ہیں، اور بطور دعوت کے کھانا یا شیرینی تقسیم کرتے ہیں۔ سو یہ اَمر موجبِ برکاتِ عظیمہ ہے اور سبب ہے اِزدیادِ محبت کا ساتھ جناب رسول الله ﷺ کے۔ بارہویں ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں یہ متبرک محفل مسجد نبوی شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکانِ ولادتِ آنحضرت ﷺ میں۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين ﷺ: 14، 15
مفتی کاکوروی نے شاہ ولی الله محدث دہلوی کا وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے جو ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کو چاہیے کہ بمقتضائے محبتِ آنحضرت ﷺ محفل شریف کیا کریں اور اس میں شریک ہوا کریں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بہ نیت خالص کیا کریں، ریا اور نمائش کو دخل نہ دیں۔ اور بھی اَحوالِ صحیح اور معجزات کا حسبِ روایاتِ معتبرہ بیان ہو کہ اکثر لوگ جو محفل میں فقط شعر خوانی پر اِکتفاء کرتے ہیں یا روایاتِ واہیہ نامعتبر سناتے ہیں خوب نہیں۔ اور بھی علماء نے لکھا ہے کہ اِس محفل میں ذکر وفات شریف کا نہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ محفل واسطے خوشی میلاد شریف کے منعقد ہوتی ہے۔ ذکرِ غم جانکاہ اِس محفل میں نازیبا ہے۔ حرمین شریفین میں ہرگز عادتِ ذکرِ قصۂ وفات کی نہیں ہے۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين ﷺ: 15
مفتی کاکوروی ابو لہب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو لہب کو بعد موت کے خواب میں دیکھا اور حال پوچھا، اُس نے کہا کہ عذابِ شدید میں مبتلا ہوں مگر ہمیشہ شب دو شنبہ کو درمیانِ انگشتِ شہادت اور وسطیٰ سے۔ کہ اشارے سے اُن کے میں نے ثویبہ کو بسبب پہنچانے بشارتِ ولادتِ محمد مصطفیٰ ﷺ کے آزاد کیا تھا۔ کچھ پانی چوسنے کو مل جاتا ہے کہ اس سے ایک گونہ عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔
’’علمائے محدثین نے بعد لکھنے اِس روایت کے لکھا ہے کہ جب ابو لہب سے کافر کو جس کی مذمت قرآن شریف میں بتصریح وارِد ہے بسببِ خوشیء ولادت شریف کے تخفیفِ عذاب ہوئی تو جو مسلمان خوشی ولادت شریف سے ظاہر کرے خیال کرنا چاہیے کہ اُس کو کیسا ثوابِ عظیم ہوگا اور کیا کیا برکات شاملِ حال اُس کے ہوں گے۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين ﷺ: 16
مولانا احمد علی محدّث سہارن پوری دیوبندی میلاد شریف کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
إن ذکر الولادة الشريفة لسيدنا رسول الله ﷺ بروايات صحيحة في أوقات خالية عن وظائف العبادات الواجبات وبکيفيات لم تکن مخالفة عن طريقة الصحابة وأهل القرون الثلاثة المشهود لها بالخير، وبالاعتقادات التي موهمة بالشرک والبدعة وبالآداب التي لم تکن مخالفة عن سيرة الصحابة التي هي مصداق قوله عليه السلام: ما أنا عليه وأصحابي وفي مجالس خالية عن المنکرات الشرعية موجب للخير والبرکة بشرط أن يکون مقرونًا بصدق النية والإخلاص واعتقاد کونه داخلاً في جملة الأذکار الحسنة المندوبة غير مقيد بوقت من الأوقات. فإذا کان کذلک لانعلم أحد من المسلمين أن يحکم عليه يکونه غير مشروع أو بدعة.
’’سیدنا رسول الله ﷺ کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایت سے ان اوقات میں جو عباداتِ واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان اہلِ قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت ( ﷺ ) نے دی ہے، ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں، ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت ( ﷺ ) کے اِرشاد ما انا علیہ واصحابی۔ کی مصداق ہے ان مجالس میں جو منکراتِ شرعیہ سے خالی ہوں سببِ خیر و برکت ہے۔ بشرطیکہ صدقِ نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جاوے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اَذکارِ حسنہ کے ذکرِ حسن ہے، کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ پس جو ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔‘‘
سهارن پوري، المهند علي المفند: 61، 62
سید اَحمد بن زینی دحلان حسنی ہاشمی قرشی مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ مکہ مکرمہ کے مفتی تھے اور اپنے معاصر علمائے حجاز میں بلند رتبہ پر فائز تھے۔ آپ نے قریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور 35 سے زائد کتب و رسائل لکھے۔ آپ نے ’’السیرۃ النبویۃ (1: 53، 54)‘‘ میں ائمہ و علماء کے اَقوال نقل کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ میلادالنبی ﷺ کی خوشی منانے پر تو ایک کافر بھی جزا سے محروم نہیں رہتا، توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا۔ میلاد شریف منانے والے کے نیک مقاصد اور دلی خواہشات جلد پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں۔
مولانا ابو الحسنات محمد عبد الحی فرنگی محلی لکھنوی (1848۔ 1886ء) میلادالنبی ﷺ منانے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ ﷺ کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
عبد الحي، مجموعه فتاويٰ، 2: 282
محفلِ میلاد کے اِنعقاد کے لیے دن اور تاریخ متعین کرنے کے بارے آپ لکھتے ہیں:
’’جس زمانے میں بہ طرزِ مندوب محفل میلاد کی جائے باعثِ ثواب ہے اور حرمین، بصرہ، شام، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاول کا چاند دیکھ کر خوشی اور محفلِ میلاد اور کارِ خیر کرتے ہیں اور قرات اور سماعت میلاد میں اہتمام کرتے ہیں۔ اور ربیع الاول کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ان ممالک میں میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں اور یہ اعتقاد نہ کرنا چاہیے کہ ربیع الاول ہی میں میلاد شریف کیا جائے گا تو ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔‘‘
عبد الحي، مجموعه فتاويٰ، 2: 283
غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی میلاد شریف منانے کی بابت لکھتے ہیں:
’’اِس میں کیا برائی ہے کہ اگر ہر روز ذکرِ حضرت ( ﷺ ) نہیں کر سکتے تو ہر اُسبوع (ہفتہ) یا ہر ماہ میں اِلتزام اِس کا کریں کہ کسی نہ کسی دن بیٹھ کر ذکر یا وعظِ سیرت و سمت و دل و ہدی و ولادت و وفات آنحضرت کا کریں۔ پھر ایامِ ماہِ ربیع الاول کو بھی خالی نہ چھوڑیں اور اُن روایات و اخبار و آثار کو پڑھیں پڑھائیں جو صحیح طور پر ثابت ہیں۔‘‘
بهوپالي، الشمامة العنبرية من مولد خير البرية: 5
آگے لکھتے ہیں:
’’جس کو حضرت ( ﷺ ) کے میلاد کا حال سن کر فرحت حاصل نہ ہو اور شکر خدا کا حصول پر اِس نعمت کے نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔‘‘
بهوپالي، الشمامة العنبرية من مولد خير البرية: 12
علمائے ہند کے عظیم شیح بالخصوص مدرسہ دیوبند کے نام وَر عالم و فاضل بزرگ حاجی اِمداد الله مہاجر مکی (1817۔ 1899ء) ہندوستان سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئے اور مکہ میں درس دیتے رہے، پھر وہیں ان کی وفات ہوئی اور جنت المعلیٰ میں مدفون ہیں۔ (1) حاجی اِمداد الله مہاجر مکی چاروں سلاسلِ طریقت میں بیعت کرتے تھے، اور دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (1248۔ 1297ھ / 1833۔ 1880ء) اور دار العلوم دیوبند کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہی (1244۔ 1323ھ / 1829۔ 1905ء) آپ کے مرید و خلفاء تھے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی (1275۔ 1356ھ / 1859۔ 1937ء)، مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ / 1863۔ 1943ء)، مولانا محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ / 1920ء) اور کئی دیگر علماء و مشائخ کا شمار حاجی اِمداد الله مہاجر مکی کے خلفاء میں ہوتا تھا۔
(1) مصنف کو اُن کی آخری آرام گاہ پر حاضری کی سعادت بچپن میں 1963ء میں حاصل ہوئی۔ اُس وقت ان کا مدفن ایک حجرے میں تھا۔
’’شمائمِ اِمدادیہ‘‘ کے صفحہ نمبر 47 اور 50 پر درج ہے کہ حاجی اِمداد الله مہاجر مکی نے ایک سوال میلادالنبی ﷺ کے اِنعقاد کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے؟ کے جواب میں فرمایا:
’’مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے۔ اور حضرت رسالت پناہ ﷺ کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا ہے! البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اِختراع کی ہیں نہ چاہئیں۔ اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں، مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔‘‘
1. اِمداد الله ، شمائم اِمداديه: 47
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی یہ عبارت ’’اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف الاخلاق (ص: 52، 53)‘‘ میں نقل کی ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں۔ تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں۔ جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں؟ اور ہمارے واسطے اِتباعِ حرمین کافی ہے۔ البتہ وقتِ قیام کے اِعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے۔ اگر اِہتمام تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں کیوں کہ عالم خلق مقید بہ زمان و مکان ہے لیکن عالم اَمر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں۔‘‘
1. اِمداد الله ، شمائم امداديه: 50
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی یہ عبارت ’’اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف الاخلاق (ص: 58)‘‘ میں نقل کی ہے۔
حاجی اِمداد الله مہاجر مکی کے مذکورہ بالا بیان کے مطابق حرمین شریفین میں میلاد کی تقریبات کا ہونا اس بات کی حتمی و قطعی دلیل ہے کہ اس پر اہل مدینہ اور اہل مکہ میں دو آراء نہیں تھیں، وہ سب متفقہ طور پر میلاد کا اہتمام کرتے تھے۔ اور میلاد کے جواز پر اِس قدر حجت ہمارے لیے کافی ہے جو کہ اِنکار کرنے والوں کے لیے برہانِ قاطع ہے۔
حاجی اِمداد الله مہاجر مکی نے اِعتقادی نوعیت کے سات سوالات کے جواب میں اپنی کتاب ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ (1) لکھی۔ کسی نے اُن سے دریافت کیا کہ میلاد کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ اور معمول ہے؟ تو اِس پر اُنہوں نے جواب دیا:
(1) دیوبندی مسلک کے بعض علماء ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کے بارے کہتے ہیں کہ یہ حضرت اِمداد الله مہاجر مکی کی تحریر نہیں، حالاں کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’اشرف السوانح (3: 355، 356)‘‘ میں تصریح کی ہے کہ یہ حضرت اِمداد الله مہاجر مکی کی تحریر ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے ’’فتاویٰ رشیدیہ (ص: 130، 131)‘‘ میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے یہ رسالہ کسی سے لکھوایا اور سُن کر اس میں اِصلاحات کروائیں۔ گویا اِس میں جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت کا مسلک و مشرب ہے۔ علاوہ ازیں دیوبند مسلک کے کتب خانوں سے شائع ہونے والے حضرت اِمداد الله مہاجر مکی کے دس رسالوں کے مجموعہ. ’’کلیاتِ اِمدادیہ‘‘. میں بھی ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ شامل ہے؛ جیسا کہ کتب خانہ اشرفیہ، راشد کمپنی، دیوبند (بھارت) نے طبع کیا تھا، اور ادارہ اِسلامیات، لاہور نے بھی شائع کیا ہے۔
’’فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں، بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف اور لذت پاتا ہوں۔‘‘
اِمداد الله ، فيصله هفت مسئله: 7
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’رہا یہ عقیدہ کہ مجلسِ مولود میں حضور پُر نور ﷺ رونق افروز ہوتے ہیں، تو اس عقیدہ کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ یہ بات عقلاً و نقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر واقع ہو بھی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ حضرت ﷺ کو کیسے علم ہوا، آپ کئی جگہ کیسے تشریف فرما ہوئے، تو یہ شبہ بہت کمزور شبہ ہے۔ حضور ﷺ کے علم و روحانیت کی وسعت کے آگے۔ جو صحیح روایات سے اور اہلِ کشف کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ یہ ادنیٰ سی بات ہے۔‘‘
اِمداد الله ، فيصله هفت مسئله: 6
جو لوگ محفلِ میلاد کو بدعتِ مذمومہ اور خلافِ شرع کہتے ہیں، اُنہیں کم اَز کم اپنے شیخ و مرشد کا ہی لحاظ کرتے ہوئے اِس رویہ سے گریز کرنا چاہیے۔
مشہور غیر مقلد عالم دین علامہ نواب وحید الزماں (م 1920ء) میلاد شریف کے بارے میں لکھتے ہیں:
وکذلک من يزجر الناس بالعنف والتشدد علي سماع الغناء أو المزامير أو عقد مجلس للميلاد أو قراء ة الفاتحة المرسومة ويفسقهم أو يکفرهم علي هذا.
’’ایسے ہی لوگوں کو سماع، غناء یا مزا میر یا محفلِ میلاد منعقد کرنے یا مروّجہ فاتحہ پڑھنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے یا اُن کے فسق یا اُن کے کفر پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور تشدد کرنا نیکی کی بجائے گناہ حاصل کرنا ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدي من الفقه المحمدي: 118، 119
عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل بن یوسف نبہانی نے ’’حجۃ الله علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ﷺ ‘‘ میں اجتماع الناس لقراءۃ قصۃ مولد النبی ﷺ کے عنوان سے ایک فصل قائم کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف ائمہ و علماء کے اَقوال نقل کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ محفل میلاد شریف کا اِنعقاد صحیح اور مطلوب عمل ہے۔ ایک دوسری کتاب ’’الانوار المحمدیۃ من المواھب اللدنیۃ‘‘ میں اِمام نبہانی لکھتے ہیں:
وليلة مولده ﷺ أفضل من ليلة القدر. وولد ﷺ في مکة في الدار التي کانت لمحمد بن يوسف. وأرضعته ﷺ ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشّرته بولادته عليه الصلاة والسلام.
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له: ما حالک؟ فقال: في النار، إلا أنه خُفّف عنّي في کل ليلة اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار برأس إصبعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي ﷺ وبإرضاعها له.
قال ابن الجزري: فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحّد من أمته يُسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات النعيم.
ولا زال أهل الإسلام يحتفلون بشهر مولده عليه السلام، ويعملون الولائم، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون السرور ويزيدون في المبرات. ويعتنون بقراء ة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم.
ومما جرب من خواصه أنه أمان في ذالک العام، وبشري عاجلة بنيل البغية والمرام، فرحم الله امرءًا اتخذ ليالي شهر مولده المبارک أعيادًا.
نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية: 28، 29
’’اور شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہے۔ اور آپ ﷺ مکہ کے اُس گھر میں پیدا ہوئے جو محمد بن یوسف کی ملکیت ہے۔ اور ابو لہب کی باندی ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا اور جب اُس نے آپ ﷺ کی پیدائش کی خبر سنائی تو ابولہب نے اُسے آزاد کردیا۔
’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد ( ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جزری کہتے ہیں: پس جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کو بھی جزا دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔
’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض یاب ہوتا ہے۔
’’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ میلادالنبی ﷺ کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منایا۔‘‘
شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اِقبال (1877۔ 1938ء) فرماتے ہیں:
’’منجملہ ان مقدس اَیام کے جو مسلمانوں کے لیے مقدس کیے گئے ہیں ایک میلادالنبی ﷺ کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک انسانوں کی دماغی و قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہوا وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے اِسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اُسوۂ رسول ﷺ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔ ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں:
1۔ پہلا طریق تو درود و صلوٰۃ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہوچکا ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے موقع نکالتے ہیں۔ عرب کے متعلق میں نے سنا کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑ پڑتے ہیں اور تیسرا بہ آوازِ بلند اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيّدِنَا وَبَارِکْ وَسَلِّمْ پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے، اور متخاصمین ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فوراً باز آجاتے ہیں۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے۔
2۔ پہلا طریق اِنفرادی دوسرا اِجتماعی ہے۔ یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضور آقائے دو جہاں ﷺ کے سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو، آپ ﷺ کی سوانح زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔ اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔
3۔ تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے لیکن بہ ہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یادِ رسول ﷺ اِس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلؤں کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرورِ عالم ﷺ کے وجودِ مقدس سے ہویدا تھی، وہ آج بھی تمہارے قلوب کے اندر پیدا ہو جائے۔
غلام دستگير رشيد، آثارِ اِقبال: 306، 307
مولانا اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر عالم دیوبند تھے۔ آپ حاجی اِمداد الله مہاجر مکی چشتی کے ہاتھ پر بیعت تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب نشر الطیب فی ذکرالنبی الحبیب ﷺ عشق و محبتِ نبوی ﷺ میں ڈوبی ہوئی تحریر ہے، جس کا آغاز ہی آپ نے مشہور حدیثِ جابر بیان کرتے ہوئے نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق کے باب سے کیا ہے۔ بعد ازاں اِس نوع کی دیگر روایات بیان کی ہیں۔ اِسی طرح میلادالنبی ﷺ پر آپ کے خطبات کا مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔ مجالسِ موالید پر خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’میرا کئی سال تک یہ معمول رہا کہ یہ جو مبارک زمانہ ہے جس کا نام ربیع الاول کا مہینہ ہے، جس کی فضیلت کو ایک عاشق ملا علی قاری نے اس عنوان سے ظاہر کیا ہے:
لهذا الشهر في الإسلام فضل
منقبته تفوق علي الشهور
ربيع في ربيع في ربيع
ونور فوق نور فوق نور
(اِسلام میں اس ماہ کی بڑی فضیلت ہے اور تمام مہینوں پر اس کی تعریف کو فضیلت ہے۔ بہار اندر بہار اندر بہار ہے اور نور بالائے نور بالائے نور ہے۔)
’’تو جب یہ مبارک مہینہ آتا تھا تو میں حضور ﷺ کے وہ فضائل جن کا خاص تعلق ولادتِ شریفہ سے ہوتا تھا مختصر طور پر بیان کرتا تھا مگر اِلتزام کے طور پر نہیں کیوں کہ التزام میں تو علماء کو کلام ہے۔ بلکہ بدوں اِلتزام کے دو وجہ سے:
’’ایک یہ کہ حضور ﷺ کا ذکر فی نفسہ طاعت و موجبِ برکت ہے۔
’’دوسرے اس وجہ سے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو مجالسِ موالید کی ممانعت کرتے ہیں تو وہ ممانعت نفسِ ذکر کی وجہ سے نہیں۔ نفسِ ذکر کو تو ہم لوگ طاعت سمجھتے ہیں بلکہ محض منکرات و مفاسد کے اِنضمام کی وجہ سے منع کیا جاتا ہے ورنہ نفسِ ذکر کا تو ہم خود قصد کرتے ہیں۔
’’یہ تو ظاہری وجوہ تھیں۔ بڑی بات یہ تھی کہ اس زمانہ میں اور دنوں سے زیادہ حضور ﷺ کے ذکر کو جی چاہا کرتا ہے اور یہ ایک امر طبعی ہے کہ جس زمانہ میں کوئی امر واقع ہوا ہو اس کے آنے سے دل میں اس واقع کی طرف خود بخود خیال ہوا جاتا ہے۔ اور خیال کو یہ حرکت ہونا جب امر طبعی ہے تو زبان سے ذکر ہوجانا کیا مضائقہ ہے۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي ﷺ: 190
اِسی خطاب میں آگے ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’تو میرا جو معمول تھا کہ اِس ماہِ مبارک میں حضور ﷺ کے فضائل بیان کیا کرتا تھا، وہ دوام کے حد میں تھا، التزام کے طور پر نہ تھا۔ چنانچہ چند سال تک تو میں نے کئی وعظوں میں فضائلِ نبوی ﷺ کا ذکر کیا جن کے نام سب مقفی ہیں: النور، الظھور، السرور، الشذور، الحبور وہاں ایک ذکر رسول ﷺ جوکہ اسی سلسلہ میں ہے مقفی نہیں۔ پھر کئی سال سے اس کا اتفاق نہیں ہوا کچھ اسبابِ طبعیہ ایسے مانع ہوئے جن سے یہ معمول ناغہ ہوگیا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ اس معمول سے التزام کا خیال نہ کریں جوکہ خلافِ واقع ہے کیوں کہ میرے اس معمول کی بڑی وجہ صرف یہ تھی ان ایام میں حضور ﷺ کے فضائل اور دنوں سے زیادہ یاد آتے تھے نہ کہ اس میں شرعی ضرورت کا اعتقاد یا عمل تھا۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي ﷺ: 198، 199
فضل اور رحمت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور ﷺ کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور ﷺ کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور ﷺ سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور ﷺ کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطباتِ ميلاد النبي ﷺ: 64، 65
مولانا اشرف علی تھانوی کے مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُن کا عقیدہ ہرگز مجالسِ میلاد کے قیام کے خلاف نہیں تھا۔ وہ صرف اِس کے لیے وقت معین کرنے کے حامی نہیں تھے۔ بہ ہر حال میلاد شریف منانا اُن کے نزدیک جائز اور مستحب اَمر تھا۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1922ء) تحریر کرتے ہیں:
’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی ﷺ کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ ﷺ کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
لدهيانوي، اَحسن الفتاويٰ، 1: 347، 348
مفتی محمد مظہر الله دہلوی لکھتے ہیں:
’’میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو، یہ دونوں جائز ہیں۔ ان کو ناجائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے۔ مانعین کے پاس اس کی ممانعت کی کیا دلیل ہے؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز اَمر کو کسی کا نہ کرنا اس کو ناجائز نہیں کر سکتا۔‘‘
فتاويٰ مظهري: 435، 436
عظیم سیرت نگار و مؤرخ شیخ محمد رضا مصری نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’محمد رسول الله ﷺ ‘‘ میں تمام عالم اسلام کے تناظر میں اِنعقادِ میلاد کے بارے میں تاریخی جائزہ لیا ہے اور دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی تقریباتِ میلاد کے اَحوال تین صفحات پر رقم کیے ہیں۔ ان صفحات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’امام نووی (631۔ 677ھ / 1233۔ 1278ء) کے شیخ اِمام ابو شامہ (599۔ 665ھ / 1202۔ 1267ء) فرماتے ہیں کہ ہمارے دور کا نیا مگر بہترین عمل حضور نبی اکرم ﷺ کے یوم ولادت کا جشن منانے کا عمل ہے جس میں اس مبارک خوشی کی مناسبت سے صدقہ و خیرات، محفلوں کی زیبائش و آرائش اور اظہار مسرت کیا جاتا ہے۔ یہ مبارک تقریبات فقراء سے حسنِ سلوک کے علاوہ اُمتیوں کی حضور ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت اور اہلِ محفل کے دل میں آپ ﷺ کی فضیلت و عظمت کی پختگی اور آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجنے والے کے قلبی شکر و امتنان کا احساس دلاتی ہیں۔
’’امام سخاوی (831۔ 902ھ / 1428۔ 1497ء) فرماتے ہیں: میلاد شریف کا رواج تین صدی بعد ہوا ہے۔ اس کے بعد سے تمام ممالک و اَمصار میں مسلمانانِ عالم عید میلادالنبی ﷺ مناتے چلے آرہے ہیں، وہ ان دنوں میں خیرات و صدقات کرتے اور میلادالنبی ﷺ کی مجالس منعقد کرتے ہیں جن کی برکتوں سے ان پر حق تعالیٰ کا عام فضل و کرم ہوتا ہے۔
’’علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) فرماتے ہیں کہ میلاد شریف کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے سال بھر اَمن و عافیت رہتی ہے اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔
’’سلاطینِ اسلام میں اس طریقہ کو رائج کرنے والے سب سے پہلے شاہِ اِربل سلطان مظفر ابوسعید تھے جن کی فرمائش پر حافظ ابن دحیہ نے اس موضوع پر ایک کتاب ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ تالیف کی تھی۔ اس پر شاہ نے خوش ہو کر مؤلف کو ایک ہزار دینار انعام عطا فرمایا تھا۔ اسی سلطان نے سب سے پہلے جشن میلادالنبی ﷺ منعقد فرمایا تھا، وہ ہر سال ماہِ ربیع الاول میں یہ جشن انتہائی اہتمام کے ساتھ بہت اعلیٰ پیمانے پر منایا کرتے تھے۔ وہ طبعاً نہایت سخی، جواں مرد، شیر دل، فیاض طبع، نہایت زیرک و دانا اور منصف مزاج تھے۔ کہا گیا ہے کہ وہ ہر سال جشنِ میلاد پر تین لاکھ (300000) دینار خرچ کیا کرتے تھے۔
’’شاہِ تلمسان سلطان ابو حمو موسیٰ (723۔ 791ھ / 1323۔ 1389ء) بھی عید میلادالنبی ﷺ کا عظیم الشان جشن منایا کرتے تھے جیسا کہ ان کے زمانہ میں اور ان سے قبل مغرب اقصیٰ و اندلس کے سلاطین بھی منایا کرتے تھے۔ سلطان ابو حمو کے جشن کی تفصیل حافظ سید ابو عبد الله تونسی تلمسانی نے اپنی کتاب راح الارواح فیما قالہ مولی ابوحمو من الشعر وقیل فیہ من الامداح (سلطان ابو حمو اور دوسروں کے فرمودہ منقبتی اَشعار میں اَرواحِ انسانی کے لیے راحت و سکون ہے) میں بیان کی ہے۔ مؤلف نے بیان کیا ہے کہ سلطانِ تلمسان صاحبِ رائے معززین کے مشورہ سے شبِ میلادالنبی ﷺ ایک عام دعوت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے جس میں بلااستثناء ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ اس محفل میں اعلیٰ قسم کے قالینوں کا فرش اور منقش پھول دار چادریں بچھائی جاتیں۔ سنہرے کارچوبی غلافوں والے گاؤ تکیے لگائے جاتے تھے۔ ستونوں کے برابر بڑے بڑے شمع دان روشن کیے جاتے تھے۔ بڑے بڑے دسترخوان بچھائے جاتے تھے۔ بڑے بڑے گول اور خوش نما نصب شدہ بخور دانوں میں بخور سلگایا جاتا تھا، جو دیکھنے والوں کو پگھلایا ہوا سونا معلوم ہوتا تھا۔ پھر تمام حاضرین کے سامنے اَنواع و اَقسام کے کھانے چنے جاتے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ موسم بہار میں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں، ایسے کھانے جن کی طرف دل کو رغبت ہو اور جنہیں دیکھ کر آنکھیں لذت اندوز ہوں۔ ان محفلوں میں اعلیٰ قسم کی خوشبوئیں بسائی جاتی تھیں جن کی مہک سے فضاء معطر ہو جاتی تھی۔ مہمانوں کو حسب مراتب ترتیب وار بٹھایا جاتا تھا، یہ ترتیب جشن کی مناسبت سے دی جاتی تھی۔ حاضرین پر عظمتِ نبوت کا جلال و وقار چھایا رہتا تھا۔ انعقادِ محفل کے بعد سامعین حضور ﷺ کے مناقب و فضائل اور ایسے پاکیزہ خیالات و نصائح سنتے جو انہیں گناہوں سے توبہ کی طرف راغب کرتے۔ خطباء اسلوب بیان کے مد و جزر اور خطاب کے تنوعات سے سامعین کے قلوب کو گرماتے اور سامعین کو لذت اندوز کرتے تھے۔
’’ہمارے زمانہ میں بھی مسلمانان عالم اپنے اپنے شہروں میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ مصر کے علاقوں میں یہ محفلیں مسلسل منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں برابر میلاد نبوی ﷺ سے متعلق واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ فقراء و مساکین کو خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ خاص طور پر قاہرہ میں اس روز ظہر کے بعد ایک پیادہ جلوس کمشنر آفس کے سامنے سے گزرتا ہوا عباسیہ میدان کی طرف روانہ ہوتا ہے جو پولیس کے حفاظتی دستوں کے ساتھ سڑکوں سے گزرتا ہے۔ یہ جلوس مقاماتِ غوریہ، اشراقیہ، کوئلہ بازار اور حسینیہ سے گزرتا ہوا عباسیہ میدان پر ختم ہوتا ہے۔ ان راستوں پر ہجوم بڑھتا جاتا ہے، جلوس کے آگے پولیس کے سوار دستے ہوتے ہیں اور دونوں طرف فوج کے کچھ افسر ہوتے ہیں۔ مصر میں یہ مبارک دن حکومت کی طرف سے منایا جاتا ہے۔ چنانچہ عباسیہ میں وزراء و حکام کے لیے شامیانے نصب کیے جاتے ہیں اور خود شاہِ وقت یا ان کے نائب جلسہ گاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ شاہ کے پہنچنے پر فوج سلامی دیتی ہے، پھر وہ شامیانے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر صوفیاء اور مشائخ طریقت اپنے اپنے جھنڈے لیے وہاں حاضر ہو کر ذکر میلادالنبی ﷺ سماعت فرماتے ہیں۔ ختم محفل پر حاکمِ مصر میلاد کا بیان کرنے والے کو شاہانہ خلعت عطا فرماتے ہیں، پھر حاضرین میں شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور شربت پلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد توپوں کی گونج میں شاہانہ سواری مراجعت فرما ہوتی ہے، پھر شام کے وقت خیموں پر نصب شدہ قمقمے روشن کیے جاتے ہیں۔ بہترین آتش بازی چھوڑی جاتی ہے۔ اس دن تمام دفاتر میں تعطیل ہوتی ہے۔ نیز بمقام مشہد حسینی کمشنر مصر کی موجودگی میں سیرت النبی ﷺ کا بیان ہوتا ہے۔ آج کل مذہبی علماء اور بے دار مغز حکام کی توجہات و مساعی جمیلہ سے بیشتر مروجہ بدعتوں کو دور کیا جا رہا ہے۔
’’یہ جشن میلادالنبی ﷺ کے اہتمام کا بیان کیا گیا ہے، ساتھ ہی ہم حکامِ وقت سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہر برائی جو دین کے خلاف ہے اور وہ تمام غیر ضروری باتیں جو ان مبارک مجالس کے موقعوں پر رواج پاگئی ہیں انہیں سختی سے روک دیا جائے کیوں کہ یہ باتیں اسلام کی خوبیوں کو داغ دار بنا دیتی ہیں اور مجالسِ میلاد کے انعقاد کے پاکیزہ مقاصد کو مفاسد سے آلودہ کر دیتی ہیں۔‘‘
محمد رضا، محمد رسول الله ﷺ: 26. 28
حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے اِختلافی و اِعتقادی نوعیت کے چھبیس (26) مختلف سوالات پوچھے تو 1325ھ میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری (1269۔ 1346ھ) نے اِن سوالات کا تحریری جواب دیا، جو ’’المھند علی المفند‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اِن جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نام وَر علمائے دیوبند نے اپنے قلم سے کی، جن میں مولانا محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ)، مولانا احمد حسن امروہوی (م 1330ھ)، مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن (م 1347ھ)، مولانا اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) اور مولانا عاشق اِلٰہی میرٹھی بھی شامل ہیں۔ اِن چوبیس (24) علماء نے صراحت کی ہے کہ جو کچھ ’’المھند علی المفند‘‘ میں تحریر کیا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشائخ کا عقیدہ ہے۔
کتاب مذکورہ میں اِکیسواں سوال میلاد شریف منانے کے متعلق ہے۔ اس کی عبارت ہے:
أتقولون أن ذکر ولادته ﷺ مستقبح شرعًا من البدعات السيئة المحرمة أم غير ذلک؟
’’کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور ﷺ کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ، حرام (معاذ الله ) ہے یا اور کچھ؟‘‘
علمائے دیوبند نے اِس کا متفقہ جواب یوں دیا:
حاشا أن يقول أحد من المسلمين فضلاً أن نقول نحن أن ذکر ولادته الشريفة علية الصلاة والسلام، بل وذکر غبار نعاله وبول حماره ﷺ مستقبح من البدعات السئية المحرمة. فالأحوال التي لها أدني تعلق برسول الله ﷺ ذکرها من أحب المندوبات وأعلي المستحبات عندنا سواء، کان ذکر ولادته الشريفة أو ذکر بوله وبزاره وقيامه وقعوده ونومه ونبهته، کما هو مصرح في رسالتنا المسماة بالبراهين القاطعة في مواضع شتي منها.
’’حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ ﷺ کے نعلین اور آپ ﷺ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم ﷺ سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ ﷺ کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے۔‘‘
سهارن پوري، المهند علي المفند: 60، 61
اِس سارے لٹریچر کی موجودگی میں اِسلامی تاریخ سے لاعلمی اور جہالت ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اِنگلستان، امریکہ، یورپ اور عرب دنیا میں نام نہاد دانش وَر اور مقررین اپنی تقریروں کے ذریعے نئی نسل کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ اِنعقادِ میلاد کی کوئی حیثیت نہیں، یہ ایک بدعت ہے جس کا وجود صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہے، اس کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو اسلامی تاریخ کی تمام نام وَر علمی شخصیات جن کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں بدعتی قرار پاتی ہیں۔ اس میں ان کے متبعین کو بھی بدعتی کا لقب ملے گا۔ پھر پوری اِسلامی تاریخ میں بدعت کے فتویٰ سے کوئی نہیں بچے گا اور پورے اسلام پر بدعت کی اِس اِلزام تراشی کی زَد سے کوئی محفوظ نہیں ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved