گزشتہ باب میں قرآن حکیم کی آیات اور ان کی تفاسیر کی روشنی میں جشنِ میلادالنبی ﷺ منانے کے حوالہ سے مفصل گفتگو ہوچکی ہے۔ باب ہٰذا میں جشنِ میلاد کی مشروعیت اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کی جائے گی، اور کتبِ اَحادیث کی رُو سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت پر خوشی و مسرت منانے کے شرعی پہلو کا جائزہ لیا جائے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ عالمِ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے جیسا کہ احادیثِ صومِ عاشورہ سے واضح ہے۔ اِظہارِ تشکر کے کئی طریقے ہیں: انفرادی طور پر بندہ رب کریم کا شکر ادا کرنے کے لیے نفلی عبادات اور خیرات و عطیات کو ذریعہ اظہار بناتا ہے مگر جو فضل و احسان امت پر اجتماعی سطح پر ہوا ہو اس کا اظہارِ تشکر بھی اجتماعی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ چوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور فضل عمیم ہے اس لیے اس نعمتِ عظمیٰ پر الله عزوجل کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے۔ اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی ﷺ ثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبی ﷺ کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے اور اس کا اِستدلال سابقہ امتوں کے مماثل رویوں سے منسلک ہے۔ درج ذیل مطالعہ اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں احادیثِ یومِ عاشورہ سے جشنِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا اِستدلال پیش کیا جا رہا ہے:
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔
جب حضور ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما بیان کرتے ہیں:
قدم النبي ﷺ المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال: فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه.
’’حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا: یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 704،
رقم: 1900
2. احمد بن حنبل، المسند، 1: 291، رقم: 2644
3. ابو يعليٰ، المسند، 4: 441، رقم: 2567
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 92
2۔ ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
لما قدم النبي ﷺ المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا: هذا اليوم الذي أظفر الله فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول الله ﷺ: نحن أولي بموسي منکم. ثم أمر بصومه.
’’حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي
ﷺ حين قدم المدينة، 3: 1434، رقم: 3727
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 795، رقم: 1130
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2: 326، رقم: 2444
3۔ ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اِس طرح منقول ہے:
فقالوا: هذا يوم عظيم، أنجي الله فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول الله ﷺ: فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول الله ﷺ ، وأمر بصيامه.
’’انہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 796،
رقم: 1130
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول الله تعالي: وهل أتاک حديث موسي، 3: 1244،
رقم: 3216
3. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1: 552، رقم: 1734
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 336، رقم: 3112
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے الله کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت الله کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے الله کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر الله تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا۔
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 132، رقم: 3209
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی ﷺ کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ ﷺ اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.
’’اور (یہ رسول ﷺ ) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے ( اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
الأعراف، 7: 157
حضور نبی اکرم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ ﷺ کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ الله رب العزت نے آپ ﷺ کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء ﷺ کی ولادت ہوئی اور آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں۔
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور ﷺ کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ ﷺ سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی ﷺ منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔
بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی ﷺ کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔
قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ (1) جب حضور نبی اکرم ﷺ ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے:
(1) اِس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں آئیں گی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي ﷺ: فصوموه أنتم.
’’یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا: تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 704، 705، رقم: 1901
2۔ اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول الله ﷺ: صوموه أنتم.
’’یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء،
رقم: 1131
2. نسائي، السنن الکبري، 2: 159، رقم: 2848
3. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 133، رقم: 3217
4. بيهقي، السنن الکبري، 4: 289، رقم: 8197
اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔
3۔ اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے:
کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول الله ﷺ: فصوموه أنتم.
’’اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا: تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 796،
رقم: 1131
2. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3: 212، رقم: 2575
3. إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3: 722، رقم: 337
4. عسقلاني، فتح الباري، 4: 248
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ:
1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔
2۔ عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔
3۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔
4۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی ﷺ کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی ﷺ کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ ﷺ نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ ﷺ نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی ﷺ پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ ﷺ منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں:
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه: قال:
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من: ’’أن النبي ﷺ قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا: هو يوم أغرق الله فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي ﷺ الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 63
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 54
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237
’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا:
’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن الله تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
’’ الله تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر الله کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘
جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی ﷺ منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص: 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کے لیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کے روزے مسلمانوں پر واجب تھے۔ (1) جب ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو ان کا وجوب منسوخ ہوگیا۔ (2) بعض ذہنوں میں یہ اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ صومِ عاشورہ کا وجوب تو منسوخ ہوگیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہیں، لیکن اس سے صومِ عاشورہ کی حِلّت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس روزہ کے حکم وجوبیت کی منسوخی کے بعد آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار نہیں) جس طرح روزہ رکھتے وقت آپ ﷺ نے نحن احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہیں) فرمایا تھا، حالاں کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا۔
1. طحاوي، شرح معاني الآثار، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 129.
132
2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11: 120
(2) اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں:
کان رسول الله ﷺ أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان، کان من شاء صام ومن شاء أفطر.
’’رسول اکرم ﷺ یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، تاہم جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو جو چاہتا یہ روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 704، رقم: 1897، 1898
صومِ عاشورہ کا وجوب منسوخ ہونے کے باوجود اَحادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں۔ اس دن کے روزے کی جو فضیلت پہلے تھی وہ اب بھی ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے صومِ عاشورہ کی منسوخی کا حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے اِستدلال پر کوئی اثر نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو پھر بھی جشنِ میلادالنبی ﷺ کے لیے اِس سے اِستدلال پر فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیادہ خوشی لامحالہ اُن لوگوں کو ہوگی جنہیں اُمتِ موسوی کے افراد ہونے کا دعویٰ تھا۔ حضور ﷺ کا اس روزہ سے صرف اُمت کو یہ توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی فتح پر شکر ادا کرتے ہیں تو تمہیں بھی ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے۔ مگر طبعِ غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو، بلکہ خود ہی حضور ﷺ پیر کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی جب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ اس لیے کہ بغیر اِستفسار کے بیان کرنا بھی طبعِ غیور کے مناسبِ حال نہ تھا۔
امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر الله تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہود سے حضور نبی اکرم ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی غرقابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا:
وهذا يوم استَوَتْ فيه السفينة علي الجُودِي، فصامه نوح وموسي شکرًا ﷲ تعالي.
’’اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اورموسی علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أنا أحق بموسي، وأحق بصوم هذا اليوم.
’’میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 359، 360، رقم: 8702
2. عسقلاني، فتح الباري، 4: 247
پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے یوم عاشورہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی جماعتِ مومنین کی بقاء دراصل عالم انسانیت کی بقاء اور فروغِ نسلِ اِنسانی کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن کو آپ کی قوم نے یاد رکھا اور بارگاہِ خداوندی میں ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہر وہ واقعہ جس سے مومنین کی اِجتماعی نجات، آزادی اور بقاء وابستہ ہے اس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت و اِنبساط اِسلامی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم ﷺ کی ولادت باسعادت کا مبارک دن بھی اَبد تک اہلِ ایمان کے لیے یومِ عید ہے۔
دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں:
کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول الله ﷺ يصومه.
’’زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم ﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2: 704،
رقم: 1898
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3: 1393، رقم: 3619
3. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2: 792، رقم: 1125
4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء،
3: 127، رقم: 753
جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ان کا یہ معمول حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ ﷺ نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
2۔ اِمام بخاری (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں:
کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض الله رمضان، قال رسول الله ﷺ: من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه.
’’اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول الله: جعل الله الکعبة
البيت الحرام، 2: 578، رقم: 1515
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7: 278، رقم: 7495
3. بيهقي، السنن الکبري، 5: 159، رقم 9513
4. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7: 204
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها.
’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3: 455
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه.
’’یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 4: 246
ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5: 138، رقم: 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں:
ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة.
’’یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 187
2. عسقلاني، فتح الباري، 4: 248
3. عسقلاني، فتح الباري، 7: 276
کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کے لیے باعثِ خلجان بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم اور خود حضور نبی اکرم ﷺ کا اس دن کا احترام کرنا چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت چودہ سو سال قبل ہوئی، پھر آپ ﷺ کی بعثت ہوئی، آپ ﷺ نے بحیثیتِ رسولِ خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ یہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ ﷺ کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشنِ عید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ ﷺ کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ رسول معظم ﷺ کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوئہ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلادالنبی ﷺ کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہلِ عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم و تکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کو اگرچہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا اور ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور ﷺ نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یومِ ولادت کو منانا اور اس پر اِظہارِ مسرت و فرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل کسی دن کو منانے کی سنتِ مصطفیٰ ﷺ سے ثابت ہے۔
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت. (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ)۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی ﷺ کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے:
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: إن رجلا من اليهود قال له: يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال: أي آية؟ قال: (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر: قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي ﷺ ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا: کون سی آیت؟ اس نے کہا: (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه،
1: 25، رقم: 45
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4: 1600، رقم: 4145
3. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله: اليوم أکملت لکم دينکم، 4: 1683، رقم:
4330
4. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6: 2653، رقم: 6840
5. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4: 2313، رقم: 3017
6. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5: 250، رقم: 3043
7. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8: 114، رقم: 5012
اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه.
’’ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔‘‘
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ صنے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں:
عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة.
’’میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 1: 105، رقم: 45
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کون سی آیت ؟ میں نے کہا:
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا.
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
المائدة، 5: 3
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إني لأعرف في أي يوم أنزلت: (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
’’میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی: جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 1: 253، رقم: 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1: 105، رقم: 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 14
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔
3. اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما نے آیت۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا)۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا:
لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا.
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا:
فإنها نزلت في يوم عيدين: في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة،
5: 250، رقم: 3044
2. طبراني، المعجم الکبير، 12: 184، رقم: 12835
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6: 82
4. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1: 352، رقم: 354
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 14
6. ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2: 169
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم ﷺ خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم ﷺ کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے:
فإنها نزلت في يوم عيدين: في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک ﷺ کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل
يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1: 275، رقم: 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2: 88، رقم: 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1: 345، رقم:
1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي ﷺ يوم الجمعة، 3: 91، رقم:
1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي ﷺ يوم الجمعة، 1: 519،
رقم: 1666
6. دارمي، السنن، 1: 445، رقم: 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2: 253، رقم: 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1: 216، رقم: 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3: 248، رقم: 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1: 372، رقم: 634
11. هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1: 146، رقم: 550
جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں:
1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إن هذا يوم عيد، جعله الله للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم
الجمعة، 1: 349، رقم: 1098
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7: 230، رقم: 7355
3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1: 286، رقم: 1058
2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.
’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 303، 532، رقم: 8012، 10903
2. ابن خزيمه، الصحيح، 3: 315، 318، رقم: 2161، 2166
3. ابن راهويه، المسند، 1: 451، رقم: 524
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1: 603، رقم: 1595
4. اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں:
کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال: إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال: ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول الله ﷺ يقول: لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا: آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 8: 375، رقم: 3610
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فيه خلق آدم.
’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشادگرامی ہے:
فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:
يا رسول الله ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
إن الله عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل
يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1: 275، رقم: 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2: 88، رقم: 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1: 345، رقم:
1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي ﷺ يوم الجمعة، 3: 91، رقم:
1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي ﷺ يوم الجمعة، 1: 519،
رقم: 1666
6. دارمي، السنن، 1: 445، رقم: 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2: 253، رقم: 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1: 216، رقم: 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3: 248، رقم: 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1: 372، رقم: 634
11. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1: 146، رقم: 550
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا: آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ پس اس نے کہا:
أتدري أين صليت؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام.
’’پس اس نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘
1. نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1: 222، رقم:
450
2. طبراني، مسند الشاميين، 1: 194، رقم: 341
درج ذیل کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
3. بزار، البحر الزخار (المسند)، 8: 410، رقم: 3484
4. طبراني، المعجم الکبير، 7: 283، رقم: 7142
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1: 73
6. عسقلاني، فتح الباري، 7: 199
اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی ﷺ (وہ مکان جہاں حضور ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی ﷺ کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور ﷺ کی ولادت ہوئی واجب التعظیم، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا۔
جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم ﷺ نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خود صحابہ کرام ث کو اپنے یومِ میلاد پر الله تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔ آپ ﷺ اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ ﷺ کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے:
اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أن رسول الله ﷺ سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال: ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
’’حضور نبی اکرم ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام
من کل شهر، 2: 819، رقم: 1162
2. بيهقي، السنن الکبري، 4: 286، رقم: 38182
درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں:
3. نسائی، السنن الکبری، 2: 146، رقم: 2777
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 296، 297، رقم: 22590، 22594
5. عبد الرزاق، المصنف، 4: 296، رقم: 7865
6. أبويعلي، المسند، 1: 134، رقم: 144
7. بيهقي، السنن الکبري، 4: 300، رقم: 8259
پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور ﷺ خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ ﷺ کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ الله اور رسول ﷺ کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ ہم گزشتہ باب میں شکر بجا لانے کی مختلف صورتوں کے ذیل میں اس پر بحث کر چکے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
1۔ بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
إن النبي ﷺ عقّ عن نفسه بعد النبوة.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 9: 300، رقم: 43
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5: 205، رقم: 1833
3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2: 557، رقم: 962
4. عسقلاني، فتح الباري، 9: 595
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5: 340، رقم: 661
6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16: 32، رقم: 3523
2۔ ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
أن النبي ﷺ عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5: 205، رقم: 1832
2. طبراني، المعجم الأوسط، 1: 298، رقم: 994
3. روياني، مسند الصحابة، 2: 386، رقم: 1371
3۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا:
لمّا ولد النبي ﷺ عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
’’جب حضور ﷺ کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3: 32
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1: 128
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1: 134
2۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ہی سے روایت ہے:
أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ ﷺ (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد،
21: 61
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1: 51
3. ابن حبان، الثقات، 1: 42
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2: 100
5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1: 81
اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور ﷺ کا عقیقہ آپ ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ ﷺ چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4: 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة،
رقم: 1522
2. أبوداؤد، السنن، 3: 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم: 2837
3. ابن ماجه، السنن، 2: 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم: 3165
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ ﷺ نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص: 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی ﷺ کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي ﷺ إظهارًا للشکر علي إيجاد الله تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’یوم میلادالنبی ﷺ منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب آپ ﷺ کی پیدائش کے ساتویں روز آپ ﷺ کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺ نے اپنے آپ کو الله کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 263، 264
5. نبهاني، حجة الله علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237
اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ ﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ ﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم ﷺ کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی الله عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ ﷺ کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
القرآن، النساء، 4: 22
مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی ﷺ منانا الله تعالیٰ، حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (1) آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند الله اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (2)
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9: 145
2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95
اِس بابت قرآن حکیم فرماتا ہے:
1. مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
’’جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اُس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم اُن کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ اِسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور اُنہیں اِس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتیo یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اَکارت ہوگئے جو اُنہوں نے دنیا میں اَنجام دیے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیوں کہ ان کا حساب پورے اَجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے، اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)o‘‘
هود، 11: 15، 16
2. وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِO
’’اور کافروں کے اَعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس آتا ہے تو اُسے کچھ (بھی) نہیں پاتا، (اِسی طرح اُس نے آخرت میں) اللہ کو اپنے پاس پایا مگر اللہ نے اُس کا پورا حساب (دنیا میں ہی) چکا دیا تھا، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہےo‘‘
النور، 24: 39
3. وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًاO
’’اور (پھر) ہم اُن اَعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) اُنہوں نے (زندگی میں) کیے تھے تو ہم اُنہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گےo‘‘
الفرقان، 25: 23
(2) اِس ضمن میں قرآن حکیم فرماتا ہے:
1. يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَO الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌO
’’وہ اللہ کی (تجليّاتِ قُرب کی) نعمت اور (لذّاتِ وصال کے) فضل سے مسرور رہتے ہیں اور اِس پر (بھی) کہ اللہ اِیمان والوں کا اَجر ضائع نہیں فرماتاo جن لوگوں نے زخم کھا چکنے کے بعد بھی اللہ اور رسول ( ﷺ ) کے حکم پر لبیک کہا، اُن میں جو صاحبانِ اِحسان ہیں اور پرہیزگار ہیں، اُن کے لئے بڑا اَجر ہےo‘‘
آل عمران، 3: 171، 172
2. وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَO وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO
’’اور ہم نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں کرتےo اور یقیناً آخرت کا اَجر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقویٰ پر گامزن رہےo‘‘
يوسف، 12: 56، 57
3. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاًO
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً ہم اُس شخص کا اَجر ضائع نہیں کرتے تو نیک عمل کرتا ہےo‘‘
الکهف، 18: 30
4. وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَO
’’اور نیک اَنجام پرہیزگاروں کے لیے ہےo‘‘
1. الأعراف، 7: 128
2. القصص، 28: 83
اب ہم اِمام بخاری کی بیان کردہ اُس روایت کی طرف آتے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی الله تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور ﷺ کے مخالفین میں سرِفہرست تھا۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ الله تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا:
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَO سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍO
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نےo عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گاo‘‘
اللهب، 111: 1 - 3
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی الله عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود ( ﷺ ) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد ﷺ ) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له: ما ذا لقيت؟ قال أبولهب: لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا: کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم،
5: 1961، رقم: 4813
2. عبد الرزاق، المصنف، 7: 478، رقم: 13955
3. عبد الرزاق، المصنف، 9: 26، رقم: 16350
4. مروزي، السنة: 82، رقم: 290
5. بيهقي، السنن الکبري، 7: 162، رقم: 13701
6. بيهقي، شعب الإيمان، 1: 261، رقم: 281
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1: 149
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 108
9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص: 154، رقم: 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
10. بغوي، شرح السنة، 9: 76، رقم: 2282
11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1: 62
12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3: 98، 99
13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3: 168
14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67: 171، 172
15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 229، 230
16. عسقلاني، فتح الباري، 9: 145
17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95
18. شيباني، حدائق الأنوار، 1: 134
19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1: 41
20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4: 278
یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
(1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلق ’’قال رسول الله ﷺ کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ ﷺ (رسولِ خدا ﷺ نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ ﷺ کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔
1. ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث: 38
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث: 48
3. ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر: 36، 37
4. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1: 272
(2) ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث: 39
(3) 1. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1: 273
2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث: 48
3. عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث: 42، 43
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص: 37)‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول الله ﷺ نے شہادت دی۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی ﷺ کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے:
1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد الله جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں:
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي ﷺ به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي ﷺ يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته ﷺ ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من الله الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 260، 261
5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366، 367
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237، 238
2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں:
قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي ﷺ .
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی ﷺ کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے:
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا
أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 66
3. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 238
3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت ﷺ سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت ﷺ و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت ﷺ جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
عبد الحق، مدارج النبوة، 2: 19
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں:
’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ ﷺ کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2: 282
5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں:
’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی ﷺ کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ ﷺ کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1: 347، 348
اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی ﷺ کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے الله تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا ﷺ سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ الله تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہیں۔
وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں:
1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ ﷺ میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ ﷺ کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے:
وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
بيهقي، شعب الإيمان، 1: 261، رقم: 281
2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں:
هذا خاص به إکرامًا له ﷺ .
’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ ﷺ کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
بغوي، شرح السنة، 9: 76
3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے:
قال: مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال: مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال: ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول الله ﷺ ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له: أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد الله ؟ فقل لها: اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
’’ابو لہب نے کہا: میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا: میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا: میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول الله ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا: کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی الله عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد الله (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا: جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3: 98، 99
4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں:
هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی ﷺ کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95
5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں:
يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول ﷺ مخصوصا من ذالک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق الله تعالیٰ کے رسول ﷺ کے ساتھ ہو۔‘‘
کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19: 79
6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں:
يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي ﷺ مخصوصا من ذلک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ ﷺ سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20: 95
7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں:
فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي ﷺ .
’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم ﷺ کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
شيباني، حدائق الأنوار، 1: 134
اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی الله تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔
بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ:
1۔ جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی ﷺ پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔
2۔ اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔
3۔ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ ﷺ منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔
مذکورہ بالا واقعہ سے ایک طرف تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خاطر کیا جانے والا معمولی سا عمل بھی بارگاہِ ایزدی میں باعثِ اَجر ہے خواہ وہ کسی کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف مومنین کے لیے وعید ہے کہ مومن زندگی بھر کروڑوں نیک عمل کرتا رہے لیکن اگر اس سے حضور نبی اکرم ﷺ کی کوئی ایک معمولی سی بے ادبی سرزد ہو جائے تو مومن ہوتے ہوئے بھی اُس کے سارے اَعمال غارت کردیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ.
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کونبیء مکرّم ( ﷺ ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ بات کرتے ہو۔‘‘
الحجرات، 49: 2
یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اِحتیاط سے اپنی آوازوں کو پست رکھا کریں اور آپس میں بات کرتے ہوئے اپنی آواز اتنی بلند نہ کیا کریں کہ وہ حضور ﷺ کے تبسم شعار لبوں سے نکلی ہوئی شیریں آواز سے اونچی ہو جائے۔ بارگاہِ نبوت کا یہ ادب خود الله رب العزت سکھا رہا ہے۔ بصورتِ دیگر واضح الفاظ میں حکم فرما رہا ہے کہ میرے باز رکھنے کے باوجود اگر نہیں سمجھو گے اور بے احتیاطی سے کام لو گے تو سن لو:
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
’’(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo‘‘
الحجرات، 49: 2
یہاں توحید کے اِنکار کا ذکر ہے نہ سنت کے انکار کا، نبوت و رسالت کے انکار کا ذکر ہے نہ آخرت کے اِنکار کا، نماز روزے سے اِنحراف کا ذکر ہے نہ حج و زکوٰۃ کے اِنکار کا ذکر ہے۔ صرف آواز ہی حضور نبی اکرم ﷺ کی آواز سے بلند ہوگئی تو نتیجتاً پوری زندگی کے نیک اَعمال برباد ہو جانے کی کڑی وعید سنائی جا رہی ہے۔
اِس بحث کی روشنی میں یہ تصور ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ایک طرف کروڑوں عمل ہوں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں معمولی سی بے ادبی ہو جائے تو آخرت میں ان تمام اَعمال کی جزا سے محروم کر دیا جائے گا، اور دوسری طرف اگر کافر و دشمنِ اِسلام اور توحید و رسالت کا منکر شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد اور تعظیم میں ایک عمل بھی کر دے تو اسے اس عمل کی جزا عالمِ برزخ اور آخرت دونوں میں دی جائے گی۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اَصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اَحمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1: 135
تمام اِنسانی اَعمال کی عظمت و قبولیت اُسی عمل کے سبب سے ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں کیا جائے اور اگر دل محبتِ رسول سے خالی ہے تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ خداوندی میں باعثِ اَجر و ثواب نہیں ہوگا۔ اِسی لیے اہلِ دل حضور ﷺ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ای کریمی کہ اَز خزانہ غیب
گبر و ترسا وظیفہ خور داری
دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
سعدی، کلیات (گلستان): 66
(اے جود و سخا کے پیکرِ اَتم! آپ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے کہ اِس خرمنِ جود و سخا سے کوئی بت پرست و آتش پرست بھی محروم نہیں۔ آپ اپنے عاشقوں کو کیسے اپنے کرم سے محروم رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ کی نظرِ شفقت تو دشمنوں پر بھی ہے۔)
اِس باب میں دی گئی روایات و اَبحاث سے واضح ہوجاتا ہے کہ آمدِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی منانا حضور ﷺ کے قول و فعل دونوں سے ثابت ہے۔ آپ ﷺ کی آمد کی خوشی منانا کوئی غیر شرعی فعل نہیں بلکہ منشائے خدا و رسول ﷺ کے عین مطابق اور تقاضائے اِسلام ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا جشن منانے پر کفار بھی اَجر سے محروم نہیں رہتے۔ لہٰذا جب گنہگار اُمتی ایسا کریں گے تو وہ کیسے اُخروی نعمتوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved