قدرت نے مختلف اَشیاء کو ایک دوسرے کے مقابل اِنفرادی طور پر شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا ہے۔ مختلف جہات و حیثیات سے بعض علاقے دوسرے علاقوں پر اور بعض دن دوسرے دنوں پرجدا جدا امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اسی طرح الله تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بھی بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے۔ انبیاء و رُسل میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور امتیاز بخشا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘
البقرة، 2 : 253
الله رب العزت نے بعض ایام کو دیگر ایام پر، بعض مہینوں کو دوسرے مہینوں پر اور بعض ساعتوں کو بھی دوسری ساعتوں پر شرف و اِمتیاز عطا کیا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی وجہ فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 185
اسی ماہِ مبارک کی ایک رات (لیلۃ القدر) کو شبِ نزولِ قرآن ہونے کی بناء پر دیگر راتوں پر فوقیت عطا فرمائی۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔‘‘
القدر، 97 : 1
اِسی طرح دوسرے مقدس مقامات کے باوجود صرف شہر مکہ کی قسم کھاتے ہوئے اُسے دوسرے شہروں پر فضیلت دی، کیوں کہ حضور ﷺ کی حیاتِ مقدسہ کا بیشتر حصہ اس شہر میں گزرا۔ ارشاد فرمایا :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO
’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ ‘‘
البلد، 90 : 1، 2
اِسی طرح ایمان اور اسلام کے بعد انسانی معاشرے میں عزت وتکریم اور ایک دوسرے پر فضیلت و برتری کا معیار تقویٰ کو قرار دیا۔ ارشاد فرمایا :
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.
’’بے شک الله کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 13
الغرض قرآن حکیم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات اور اشیاء کے تقدس کا اظہار اور ان کی فضیلت کی مختلف وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ جس طرح لیلۃ القدر ہزار راتوں سے افضل ہے اور رمضان المبارک دیگر مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے، اُسی طرح ماہِ ربیع الاول کے امتیاز اور شانِ علو کی وجہ صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم نے مومنین پر احسان فرمایا اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کو دنیا میں بھیجا۔ لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے طفیل ربیع الاول سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں نمایاں فضیلت و امتیاز کا حامل بن گیا ہے۔ اسے اگر ماہِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے موسوم کیا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔
قرآن مجید الله تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام اور اس کی صفت ہونے کے اعتبار سے شانِ یکتائی رکھتا ہے۔ اس کا نزول انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے انسانیت کو ایسا نور عطا ہوا جس سے جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور اِنسان شرف و تکریم کے اُجالوں میں اپنے اصل مقام کا نظارہ کرنے لگا۔ قرآن ہمیں برگزیدہ اور مکرّم ہستی کے ذریعے عطا ہوا۔ اللہ کی اس کتاب نور کو ایک نور لے کر آیا۔ ارشاد فرمایا :
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔ ‘‘
المائده، 5 : 15
جب قرآنی علم کے ذریعے انسان کو الله تعالیٰ نے لامتناہی عظمتیں عطا کی ہیں تو اس ہستی کی عظمتوں کا عالم کیا ہوگا جس پر اس کتابِ زندہ کا نزول ہوا اور جس کی تجلیات و تعلیمات سے عالمِ انسانیت کو یہ عظیم ذخیرۂ علم و حکمت اور مصدرِ ہدایت عطا کیا گیا، جس کا قلبِ اطہر وحیء الٰہی کا مہبط بنا اور حسنِ صورت و سیرت قرآنِ ناطق قرار پایا۔ آپ ﷺ کے علوِ مقام کا ادراک کون کر سکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید حضور ﷺ کے اُسوۂ کامل اور آپ ﷺ کے فضائل و خصائل کے ذکرِ جمیل کا ہی مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں جھانک کر انسان اپنے بگڑے ہوئے خدوخال کو سنوار سکتا ہے۔ بقول اِقبال رحمۃ اللہ علیہ :
زِ قرآن پیش خود آئینہ آویز
دگرگون گشتۂ از خویش بگریز
اِقبال، کلیات (فارسی)، اَرمغانِ حجاز : 816
(اے بندۂ خدا! قرآن کے آئینے میں اپنے کردار کو دیکھ، تیری حالت بگڑ چکی ہے۔ خود کو اپنی اس دگرگوں حالت سے نکال اور اس کردار کی طرف لوٹ جا جس کا نقشہ تجھے آئینۂ قرآن میں نظر آرہا ہے۔)
لہٰذا قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت پر ہدیۂ تشکر بجالانا قرآن پر ایمان اور اس سے محبت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے۔ لیکن نعمتِ قرآن پر شکر بجا لانا اس وقت تک ممکن ہے نہ وہ الله جل مجدہ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکتا ہے جب تک اُس ذاتِ اَقدس کی ولادتِ باسعادت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا جائے جن کی وساطت سے الله تعالیٰ نے اِنسانیت کو قرآن جیسی نعمت سے فیض یاب فرمایا۔ اِس لیے جب ہم نزولِ قرآن کی رات جشنِ نزولِ قرآن کے طور پر بڑے اہتمام سے مناتے اور اس میں قرآن حکیم کے فضائل و تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں؛ تو جس ہستی کی بہ دولت یہ عظیم نعمت ہمیں میسر آئی اُس کی ولادت باسعادت کی رات بہ درجۂ اولیٰ زیادہ اِہتمام کے ساتھ منائی جائے گی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ، خلقِ عظیم اور اَوصافِ جمیلہ کاذکر کرنے والی کتاب قرآنِ مجید کے نزول کے سبب ماہِ رمضان المبارک کی صرف ایک رات کو ہزار مہینوں سے بھی افضل قرار دیا گیا۔ جس مبارک رات میں کلامِ الٰہی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ’’لیلۃ القدر‘‘ کی صورت میں بلندئ درجات کا وسیلہ اور تمام راتوں کی پیشانی کا جھومر بنا دیا۔ تو جس رات صاحبِ قرآن یعنی مقصودِ کائنات ﷺ کا ظہور ہوا اور بزمِ عالم کے اس تاجدار ﷺ نے زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سے منوّر فرمایا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس رات کی قدر و منزلت کیا ہوگی! اس کا اندازہ انسانی شعور کے لیے ناممکن ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے جب کہ نزولِ قرآن سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کے قلبِ اَطہر پر ہوا۔ اگر حضور ﷺ نہ ہوتے تو قرآن نازل ہوتا نہ شبِ قدر ہوتی اور نہ یہ کائنات تخلیق کی جاتی۔ دَر حقیقت یہ ساری فضیلتیں میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا صدقہ ہیں۔ پس اگر کہا جائے کہ شبِ میلادِ رسول ﷺ شبِ قدر سے بھی افضل ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ باری تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دے کر اس کی فضیلت کی حد مقرر فرما دی جب کہ شبِ میلادِ رسول ﷺ کی فضیلت حدِ اِدراک سے ماوراء ہے۔ یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ اگرچہ شبِ میلاد کی فضیلت زیادہ ہے تاہم شبِ قدر میں کثرت کے ساتھ عبادات بجا لانی چاہییں کیوں کہ اِس رات بجا لائی جانے والی عبادات پر زیادہ اَجر و ثواب کی نوید ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
ائمہ و محدثین نے راتوں کی فضیلت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ مثلاً شبِ نصف شعبان، شبِ قدر، شبِ یوم الفطر، شبِ یوم العرفہ وغیرہ۔ ان میں شبِ میلاد النبی ﷺ کا ذکر بھی آیا ہے۔ بہت سے اَئمہ و محدثین اور اہلِ علم و محبت نے شبِ میلاد کو شبِ قدر سے افضل قرار دیا ہے۔
امام قسطلانی (851۔ 923ھ)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ)، امام زرقانی (1055۔ 1122ھ) اور امام نبہانی (م1350ھ) نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شبِ میلادِ رسول ﷺ سب سے افضل ہے۔
1۔ امام قسطلانی (851۔ 923ھ) اس حوالہ سے لکھتے ہیں :
إذا قلنا بأنه عليه الصلاة والسلام ولد ليلاً، فأيما أفضل : ليلة القدر أو ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ؟ أجيب : بأن ليلة مولده عليه الصلاة والسلام أفضل من ليلة القدر من وجوه ثلاثة :
أحدها : أن ليلة المولد ليلة ظهوره صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة القدر معطاة له، وما شرف بظهور ذات المشرف من أجله أشرف مما شرف بسبب ما أعطيه، ولا نزاع في ذلک، فکانت ليلة المولد. بهذا الاعتبار. أفضل.
الثاني : أن ليلة القدر شرفت بنزول الملائکة فيها، و ليلة المولد شرفت بظهوره صلي الله عليه وآله وسلم فيها. وممن شرفت به ليلة المولد أفضل ممن شرفت به ليلة القدر، علي الأصح المرتضي (أي عند جمهور أهل السنة) فتکون ليلة المولد أفضل.
الثالث : ليلة القدر وقع التفضل فيها علي أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة المولد الشريف وقع التفضل فيها علي سائر الموجودات، فهو الذي بعثه الله تعالٰي رحمة للعالمين، فعمّت به النعمة علي جميع الخلائق، فکانت ليلة المولد أعم نفعاً، فکانت أفضل من ليلة القدر بهذا الاعتبار.
1. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 145
2. عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 59، 60
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 255، 256
4. نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 424
’’جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول ﷺ افضل ہے یا لیلۃ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے :
(1) آپ ﷺ کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ لیلۃ القدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ ﷺ کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
(2) اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور ﷺ ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔
(3) شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ ﷺ کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور ﷺ ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔‘‘
2۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (239۔ 321ھ) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں :
أن أفضل الليالي ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم ليلة القدر، ثم ليلة الإسراء والمعراج، ثم ليلة عرفة، ثم ليلة الجمعة، ثم ليلة النصف من شعبان، ثم ليلة العيد.
’’راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔‘‘
1. ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار،
2 : 511
2. شرواني، حاشية علي تحفة المحتاج بشرح المنهاج، 2 : 405
3. نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 426
3۔ امام نبہانی (م1350ھ) اپنی مشہور تصنیف ’’الانوار المحمدیۃ من المواہب اللدنیۃ (ص : 28)‘‘ میں لکھتے ہیں :
وليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من ليلة القدر.
’’اور شبِ میلادِ رسول ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔‘‘
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے :
1۔ اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔
2۔ شام سے صبح تک تجلی باری تعالیٰ آسمانِ اَوّل پر ہوتی ہے۔
3۔ لوحِ محفوظ سے آسمانِ اَوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہوا ہے۔
اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلیء اُمتِ محمدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ‘‘
القدر، 97 : 3
اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ منشا نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیوں کہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ جب تک نصِ قطعی نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔ مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔‘‘
عبد الحی، مجموعه فتاویٰ، 1 : 86، 87
شبِ قدر کو فضیلت اس لیے ملی کہ اِس میں قرآن حکیم نازل ہوا اور اِس میں فرشتے اترتے ہیں؛ جب کہ ذاتِ مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت کا یہ عالم ہے آپ پر قرآن نازل ہوا اور روزانہ ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو آپ ﷺ کے مزارِ اَقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں ہدیۂ درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کا شرف پالیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔ (1) فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ ﷺ کے خادم اور جاروب کش ہیں۔ وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا انسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔ آقا ﷺ کی آمد کی رات اور آپ ﷺ کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ باقی انسانیت اس سے محروم رہتی ہے مگر حضور ﷺ کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔
1. ابن مبارک، الزهد : 558، رقم : 1600
2. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 94
3. قرطبي، التذکرة في أمور أحوال الموتي وأمور الآخرة : 213، 214، (باب في بعث النبي
صلي الله عليه وآله وسلم من قبره)
4. نجار، الرد علي من يقول القرآن مخلوق : 63، رقم : 89
5. ابن حبان، العظمة، 3 : 1018، 1019، رقم : 537
6. أزدي، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 92، رقم : 101
7. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 492، 493، رقم : 4170
8. أبونعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 5 : 390
9. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم : 833، رقم : 1578
10. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم
: 68، رقم : 129
11. سمهودي، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 559
12. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 625
13. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 2 : 376
14. صالحي، سبل الهديٰ و الرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 12 :
452، 453
15. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 12 : 283، 284
پہلی اُمتوں کو بھی الله رب العزت نے اپنی نعمتوں سے نوازا جس پر وہ الله کے حضور شکر بجا لاتے اور حصولِ نعمت کا دن بطورِ عید مناتے تھے۔ جیسے خوانِ نعمت ملنے کا دن جشنِ عید کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اِس مثال سے مقصود یہ باور کرانا ہے کہ سابقہ اُمتیں اپنی روایات کے مطابق مخصوص دن مناتی چلی آرہی ہیں اور قرآن نے ان کے اس عمل کا ذکر بھی کیا ہے۔
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
المائدة، 5 : 114
’’اے الله ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اُترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
لہٰذا جب سابقہ اُمتیں معمولی سی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں تو اُمت مسلمہ پر بہ درجۂ اَتم لازم آتا ہے کہ وہ اپنے آقا ﷺ کی آمد کی خوشی منا کر اس عظیم ترین نعمت کا شکر شرحِ صدر کے ساتھ بجا لائے، کیوں کہ ایسا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) الله کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی پس تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
بلاشبہ یہ الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے حبیب ﷺ کے ذریعے بندوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان کو ایک دوسرے کا غم خوار بنا دیا۔ ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروّتوں سے بدل دیا۔ حقیقتاً یہ نعمت حضور ﷺ کی بعثت کے تصدق سے عالمِ انسانیت کو نصیب ہوئی، اس نعمت کا مبداء و مرجع بھی حضور ﷺ کی ذات اَقدس ہے۔ آپ ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں کا آپ ﷺ پر ایمان لاکر حلقہ بگوش ہونا اور خون کے پیاسوں کا باہم شیر و شکر ہونا اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم رحمتِ دوعالم ﷺ کے میلاد کے موقع پر بارگاہِ خداوندی میں سراپا تشکر بن جائیں۔
الله تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے ان پر شکر بجا لانا صرف اُمتِ محمدی ﷺ ہی پر واجب نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی یہی حکم تھا۔ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ اِنعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اُس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی۔ ‘‘
البقرة، 2 : 47
اسی طرح دیگر آیات میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے اِحسانات گنوائے ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا :
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 49
قرآن حکیم کی محولہ بالا آیاتِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ قومی آزادی بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہونے پر الله تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ قومی آزادی بلا شبہ ایک نعمتِ خداوندی ہے اور اس کے حصول پر شکر بجا لانا حکمِ ایزدی کی تعمیل ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا برطانوی اِستعمار کے تسلط سے آزاد ہونا اور ایک نئی اسلامی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آنا الله تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ جب ہم ہر سال 14 اگست کو نعمتِ آزادی کے حصول پر خوشی مناتے ہیں تو یہ قرآن حکیم کے حکمِ تشکر کے حوالے سے بھی ہم پر لازم آتا ہے۔
اِسی طرح نصِ قرآنی سے یہ اَمر بھی واضح ہوگیا کہ قومی آزادی کے موقع پر ہر سال اس کی یاد منانا اور مختلف طریقوں سے شکر بجا لانا محض دنیوی اور سیاسی نہیں بلکہ دینی اور شرعی فعل ہے اور اِسے نہ ماننا حکمِ الٰہی سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہر زمانے، ہر صدی اور ہر دور کا ایک عالمی کلچر ہوتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنے اپنے تاریخی حوالوں سے ایامِ تشکر یا ایامِ مسرت مناتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں کے رہنے والے لوگ مذہبی تہوار یا کوئی نہ کوئی قومی تہوار نہ مناتے ہوں۔ یہودی، عیسائی، بدھ، ہندو حتیٰ کہ ملحد قومیں بھی اپنے اپنے ثقافتی پس منظر اور روایات سے ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے خوشی کے دن مناتی ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے ایام اللہ عنایت فرمائے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس ہماری زندگی کے لیے ہدایت و شریعت اور تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔ آج کے عالمی کلچر کے پیشِ نظر حضور ﷺ کا جشنِ میلاد اِسلامی ثقافت کے اِبلاغ کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
مذکورہ بالا آیات میں جہاں تک تذکیرِ نعمت کا حکم ہے تو یہ واضح ہے کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے۔ لیکن شکر بجا لانے کا تقاضایہ ہے کہ الله تعالیٰ کی نعمت ہر وقت یاد رہے اور اسے کسی لمحے بھی دل و دماغ سے محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ ہر گھڑی بندے کا دل الله کے شکر کی کیفیت سے معمور رہے۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سال بھر یاد رکھنے کے باوجود جب گردشِ ایام کے نتیجے میں وہی دن اور وہی وقت پلٹ کر آتا ہے تو وہ خوشی خود بخود غیر شعوری طور پر کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کا طبعی و فطری تقاضا اور ثقافتی لازمہ ہے کہ عین اُس وقت بطورِ خاص اُس نعمت کو یاد کیا جائے اور خوشی و مسرت میں اس کا ذکر کثرت و تواتر کے ساتھ کیا جائے۔ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی اور اِہتمام سے خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اس لیے لازم ہے کہ آئندہ نسلوں کو وہ نعمت یاد رہے اور اس دن کی اہمیت ان پر واضح ہو سکے۔ تاریخ کے اوراق میں ایک زندہ و پائندہ قوم کی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنا تہذیب و ثقافت کے تسلسل ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِحسانات پر شکر ادا نہیں کر سکتے اور اپنی تاریخ کے اہم واقعات کو اچھی روایات کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل نہیں کر سکتے تو بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں الله کے ان احسانات سے بے خبر ہو جائیں اور ان کی نظروں سے اس دن حاصل ہونے والی نعمت کی قدر و منزلت بھی محو ہو جائے۔ لہٰذا حکمِ اِلٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ سال بھر تو الله تعالیٰ کا عام شکر بجا لایا جاتا رہے لیکن جب وہ دن آئے۔ جس دن الله تعالیٰ نے آزادی کی نعمت اَرزانی فرمائی۔ تو خصوصی طور پر خوشیوں کا اِظہار کیا جائے تاکہ وہ دن جشن کی حیثیت اختیار کر جائے اور آئندہ نسلوں پر اس دن کی حقیقت کھل کر واضح ہو جائے۔ پس اگر آزادی کی نعمت پر شکر منانا قرآن سے ثابت ہے تو اُس ذاتِ اَقدس کی آمد کی خوشی منانا کیوں جائز و مستحسن نہ ہوگا جو وجہ تخلیقِ کائنات ہیں اور جن کے توسل اور تصدّق سے تمام نعمتیں عطا کی گئیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب الله رب العزت کی بارگاہ میں اپنی اُمت کے لیے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں عرض کیا :
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
’’اے الله ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
المائده، 5 : 114
قرآن مجید نے اس آیت میں نبی کی زبان سے یہ تصور دیا ہے کہ جس دن الله تعالیٰ کی نعمت اُترے اس دن کو بطور عید منانا اس نعمت کے شکرانے کی مستحسن صورت ہے۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘ کے کلمات اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نزولِ نعمت کے بعد جو امت آئے اس کے دورِ اوائل میں بھی لوگ ہوں گے اور دور اواخر میں بھی، سو جو پہلے دور میں ہوئے انہوں نے عید منائی اور جو رہتی دنیا تک آخر میں آئیں گے وہ بھی یہی وطیرہ اپنائے رکھیں۔
آیت میں مذکور اَلفاظ۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘۔ میں کلمہ ’’نَا‘‘ اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نعمت کی خوشیاں وہی منائے گا جو اس نعمت کے شکر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا، اور جو اس خوشی میں ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کا عید منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں قرآن نے لوگوں کے دلوں کے اَحوال پرکھنے کے لیے ایک معیار دے دیا ہے۔ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی اور یہ آقائے دوجہاں ﷺ کی امت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ مائدہ کی عارضی نعمت تھی اور یہاں ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کی دائمی نعمت ہے لیکن یہاں ہمارے لیے بھی وہی معیار ہے کہ جب ماہِ ربیع الاول میں حضور ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کا دن آئے اور عید میلادالنبی ﷺ کی سعید ساعتیں ہم پر طلوع ہوں تو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون اپنے دلوں کو خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو ’’اَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا‘‘ میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اس کے برعکس میلادِ مصطفیٰ ﷺ پر کسی کادل خوشی سے لبریز نہ ہو بلکہ دل میں ہچکچاہٹ، شکوک و شبہات اور کینے کی سی کیفیت پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔ کیوں کہ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے اور اس سے اجتناب دولتِ ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ کا نام لیوا اور اُمتی ہو کر بھی آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشیاں نہ منائے۔
میلاد مبارک پر دلائل طلب کرنا اور اس کے عدمِ جواز پر بحث و مناظرہ کرنا حضور ﷺ سے محبت کے تقاضوں کے منافی ہے، محبت کبھی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب سرکارِ دو عالم ﷺ کی ولادت باسعادت کا مبارک مہینہ آئے تو ایک مومن کی قلبی کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ خوشیاں منانے کے لیے اُس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہو جائے، اسے یوں لگے کہ اس کے لیے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلادِ رسول ﷺ کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ وہ محسوس کرے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے مسرت و شادمانی کا اور کون سا موقع ہوگا، وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
الله تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے! یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ ‘‘
يونس، 10 : 58
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا رُوئے خطاب اپنے حبیب ﷺ سے ہے کہ اپنے صحابہ اور ان کے ذریعے پوری اُمت کو بتا دیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہو سکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اور جس دن حبیبِ خدا ﷺ کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت اُنہیں عطا کی گئی اسے شایانِ شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصولِ نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چوں کہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی مناؤ، اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہٰذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یومِ ولادتِ رسول اکرم ﷺ کو ’’عیدِ میلاد النبی ﷺ ‘‘ کے طور پر منائیں۔ اس ضمن میں چند قابلِ ذکر نکات درج ذیل ہیں :
قرآن حکیم میں الله تعالیٰ نے کہیں براہ راست لوگوں کو مخاطب کیا جیسے ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ‘‘ اور ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ‘‘ وغیرہ، اور کہیں بعض حقائق اور اَحکامات صادر کرتے ہوئے لفظ ’’قُلْ‘‘ استعمال کیا، جس سے حضور ﷺ کی ذات گرامی کے واسطہ جلیلہ سے اعلان کرانا مقصود تھا۔ قُلْ اَمر کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے : ’’کہہ دے۔‘‘ اُصول یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کلمہ ’’قُلْ‘‘ سے کسی اَمر کی نشاندہی کی گئی ہے وہ دین کے بنیادی اور اَہم ترین حقائق سے متعلق ہے، مثلاً جب الله تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت کا اِعلان اور توحید کا صحیح تصور واضح فرمانا چاہا تو فرمایا :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
’’(اے نبیء مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ الله ہے جو یکتا ہے۔ ‘‘
الاخلاص، 112 : 1
اِسی طرح الله تعالیٰ نے جب مقصودِ بندگی یعنی محبتِ الٰہی کے حصول کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی اتباع کا حکم دیا تو یہاں بھی آپ ﷺ کی زبان اقدس سے کہلوایا :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں محبوب بنا لے گا۔‘‘
آل عمران، 3 : 31
پھر کامل اظہارِ عبودیت و بندگی کا مرجع، موت و حیات، عبادات اور ہر قسم کی قربانی کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے واضح کیا کہ یہ سب کچھ الله ہی کے لیے ہے۔ فرمایا :
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت الله کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ ‘‘
الأنعام، 6 : 162
قرآن حکیم کے اس طرزِ بیان کے فلسفہ و حکمت کی درج ذیل توجیہات ہماری توجہ اور غور و فکر کی متقاضی ہیں :
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن کلام الٰہی ہے جس کا ہر ہر لفظ زبان نبوت سے ادا ہوا لیکن اس کے باوجود توحید خداوندی، محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور دیگر متعدد عقائد و اعمال پر مبنی احکام کا اعلان لفظ ’’قُل‘‘ کے ذریعے کرایا گیا کہ ’’اے محبوب! آپ اپنی زبان سے فرمائیں‘‘ تاکہ لوگ آپ سے سن کر میرے خالق و مالک اور واحد و یکتا ہونے پر ایمان لے آئیں۔ میری ہستی اور اُلوہیت و وحدانیت کا صحیح ادراک صرف آپ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ تو پھر مناسب یہی ہے کہ میری وحدانیت کا اعلان بھی آپ ہی کریں تاکہ لوگ آپ کی زبانِ اَقدس سے سن کر میری توحید پر ایمان لائیں اور اس ایمان سے پہلے وہ آپ کی رسالت پر ایمان لائیں۔ پس اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے بغیر الله کو ماننا چاہے تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مسلمان و مومن نہیں ہوسکتا۔ دائرۂ اِسلام میں داخل ہونے کے لیے ایمان بالرسالت کے واسطہ سے ایمان بالله ضروری ہے۔ ایسا دعوٰیء ایمان کہ جس میں فقط اُلوہیت ہی کا اقرار ہو اور نبوت و رسالت کا اِنکار تو یہ بذاتِ خود کفر ہے۔ لہٰذا لفظ ’’قُلْ‘‘ میں یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کو معرفتِ خداوندی کا واحد ذریعہ گردانتے ہوئے عرفانِ توحید کے لیے دہلیز نبوت پر اِطاعت و محبت رسول ﷺ میں اپنی پیشانی خم کر دیں، کیوں کہ کسی اور واسطہ یا ذریعہ سے ذاتِ حق تک رسائی کا تصور بھی ناممکن ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
اِقبال، کلیات (اُردو)، اَرمغانِ حجاز : 691
(دین سارے کا سارا درِ مصطفیٰ ﷺ پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس دَر تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
کلامِ اِلٰہی حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے انسانیت تک پہنچا ہے۔ اِس میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کسی حکم کی اَہمیت اور فضیلت کے پیشِ نظر لوگوں کو اس کی طرف بہ طور خاص راغب اور متوجہ کرنا ضروری تھا۔ اِس کے لیے لفظ ’’قُلْ‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ علاوہ ازیں قرآن کے وہ مقامات جہاں قُلْ کہہ کر بات شروع کی گئی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ توسل کی ناگزیریت پر دال ہیں۔ اس نکتے سے یقیناً آیات قرآنی میں لفظ ’’قُلْ‘‘ کے استعمال میں کار فرما حکمتیں بھی سمجھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً محولہ بالا آیت۔ (قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ)۔ پر غور کریں تو اس میں بے شمار حکمتیں پنہاں نظر آتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں الله تعالیٰ لفظ ’’قُلْ‘‘ کے بغیر حکم فرما سکتا تھا کہ ’’لوگو! الله کے فضل اور اس کی رحمت کے حصول پر خوشیاں مناؤ۔‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا بلکہ اسلوب بیان یہ ہے : ’’محبوب! یہ بات آپ اپنی زبان سے ان لوگوں سے فرما دیں۔‘‘
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ نعمت عطا کرنے والا تو اللہ رب العزت خود ہے اور خوشی منانے والے اس کے بندے ہیں۔ وہ اپنے بندوں کو یہ حکم خود بھی دے سکتا تھا، مگر اس نے ایساکیوں نہ فرمایا کہ ’’میرے بندو! میری اس نعمت پر خوشی مناؤ۔‘‘ جیسا کہ اس نے سابقہ امتوں سے براہ راست مخاطب ہو کر نعمت کو یاد کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ یہاں خوشی منانے کا حکم حضور ﷺ کی زبان اقدس سے کیوں دلوایا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ آیت خود دے رہی ہے کہ اے محبوب! آپ کی ذات ستودہ صفات ہی کائنات کی تمام نعمتوں کا سبب ہے اور چونکہ اس نعمت کا باعث ہی آپ ہیں اس لیے آپ ہی بتا دیں کہ لوگو! یہ نعمت جو میرے وجود، میری بعثت اور میری نبوت و رسالت کی صورت میں الله نے تمہیں عطا فرمائی ہے، اس پر جتنی بھی خوشی مناؤ کم ہے۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں دو چیزوں یعنی اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں فضل اور رحمت کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا اور ان سے کیا مراد ہے؟
قرآن حکیم کے اسالیبِ بیان میں سے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ جب فضل اور رحمت کا ذکر ہو رہا ہو تو اس سے حضور ﷺ کی ذات گرامی مراد ہوتی ہے۔ اس کی مزید شہادت تو بعد میں بیان کی جائے گی، پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟
زیرنظر آیہ کریمہ میں دو چیزیں مذکور ہیں :
1۔ الله کا فضل
2۔ الله کی رحمت
ان دونوں کے درمیان واؤ عاطفہ ہے۔ عام اصول کے مطابق چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح فضل اور رحمت کا ذکر جدا جدا ہوا، اُن دونوں کے لیے بیان کردہ حرفِ اشارہ۔ ذٰلِکَ (وہ) ۔ بھی اُسی طرح تثنیہ کا ہوتا۔ لیکن یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا گیا (یعنی یوں نہیں کہا گیا : ’’ان کی خاطر خوشیاں مناؤ، ‘‘ بلکہ فرمایا : ’’اس کی خاطر‘‘)۔ گرامر کی رُو سے یوں کہا جاتا ہے : ’’زید اور بکر کمرے میں آئے۔‘‘ نہ کہ اس طرح : ’’زید اور بکر کمرے میں آیا۔‘‘ آنے والے جب دو ہیں تو صیغہ بھی دو کا استعمال ہونا چاہیے۔ اسی طرح عربی زبان میں ذٰلک اِشارۂ واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جب تثنیہ یا جمع کا ذکر آئے تو اس کے لیے اشارہ بھی بالترتیب ذٰنک یا اُولٰئِک بولا جاتا ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھ کر اگر مذکورہ آیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد واحد اشارہ ذٰلِکَ لایا گیا ہے۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ کیا قرآن نے اپنے بیان میں قواعد کو بدل دیا ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تو ماننا پڑے گا کہ صیغۂ واحد اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اس مقام پر فضل اور رحمت سے مراد بھی کوئی ایک ہی وجود ہے۔ اس اُسلوبِ بیان سے اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ لوگ کہیں الله کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش کرنے نہ لگ جائیں بلکہ اچھی طرح یہ نکتہ سمجھ لیں کہ الله نے اپنا فضل اور رحمت درحقیقت ایک ہی ذات میں جمع کر دیئے ہیں۔ لہٰذا اس ایک ہی مبارک ہستی کے سبب سے شکر ادا کیا جائے اور خوشیاں منائی جائیں۔
اگر ہم مذکورہ آیت کی تفسیر بالقرآن کرتے ہوئے بعض دیگر مقاماتِ قرآنی پر نظر ڈالیں تویہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مصطفیٰ ﷺ ہی کی ذاتِ گرامی اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ لفظ رحمت کی تفسیرسورۃ الانبیاء کی اُس آیت سے ہوتی ہے جس میں حضور ختمی مرتبت ﷺ کا ایک صفاتی لقب رحمۃ للعالمین بیان ہواہے۔ الله تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور ﷺ کو رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘
الأنبياء، 21 : 107
حضور ﷺ کو تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت بنایا گیا ہے جس میں صرف عالمِ اَرضی ہی نہیں بلکہ دیگر سارے عوالم بھی شامل ہیں اور آپ ﷺ کا دائرہ رحمت تمام انسانیت کو محیط ہے۔ آپ ﷺ کی ذات گرامی کا مجسم رحمت بنایا جانا جملہ بنی نوع انسان کی رُشد و ہدایت کے لیے ہے اور اسی لیے آپ ﷺ کو معبوث فرمایا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت رسولِ مکرم ﷺ کی صورت میں متشکل ہو کر منصہ عالم پر جلوہ گر ہوئی۔
قرآن حکیم نے حضور ﷺ کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت قرار دیتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
2. فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر الله کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتے۔ ‘‘
البقره، 2 : 64
درج ذیل آیہ کریمہ بھی حضور ﷺ کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے :
3. وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اور (اے مسلمانو!) اگر تم پر الله کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔ ‘‘
النساء، 4 : 83
اس مقام پر اللہ رب العزت کا رُوئے خطاب عام مومنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف ہے۔ اس نے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی آمد اور بعثت کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس میرے حبیب تشریف نہ لاتے تو تم میں سے اکثر لوگ شیطان کے پیروکار ہو چکے ہوتے اور کفر و شرک اور گمراہی و تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہوتی۔ پس میرے محبوب پیغمبر کا تمہاری طرف مبعوث ہونا تم پر اللہ کا فضل بن گیا کہ اس کی آمد کے صدقے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی اور تم شیطان کی پیروی اور گمراہی سے بچ گئے۔
یہ محض الله کا کرم ہے کہ اس نے راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب ﷺ مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔ اس رسول معظم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے :
4. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا جو اُن پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘
آل عمران، 3 : 164
بعثتِ مصطفیٰ ﷺ سے قبل پورا عالم انسانی گمراہی و ضلالت میں مبتلا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے میں اپنے محبوب ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو تلاوتِ آیات اور کتاب وحکمت کی تعلیم کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکالا، ان کے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کی جانوں اور روحوں کو نبوی تعلیم و تربیت کی بدولت تمام دنیوی آلائشوں سے پاک اور صاف کیا۔ یہ عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل اور رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنے اِحسانِ عظیم کے طور پر ذکر کیاہے۔ حضور ﷺ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے اس مصداق پر اہلِ اِسلام جتنی بھی خوشی منائیں کم ہے۔ یہ خوشی صرف محسوس ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا کھلا اظہار ہونا بھی ضروری ہے۔
دوسرے مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ کی مذکورہ بالا صفات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :
5. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( ﷺ ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘
الجمعة، 62 : 2
یہ آیۂ کریمہ بتلا رہی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی وہ رسول ہیں جنہوں نے آ کر ان کفر و ضلالت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو الله تعالیٰ کی آیات سنائیں اور اپنے اعجاز نظر سے ان کے باطن کے میل کچیل کو دور کیا اور ان کے من کی دنیا کو صاف ستھرا فرمایا۔ آپ ﷺ نے ہی انہیں کتاب کی تعلیم دی اور حکمت کا نور عطا فرمایا جس کی بدولت لوگ معرفت و ہدایتِ الٰہی جیسی نعمتوں سے مستفیض ہوئے، ورنہ قبل ازیں تو یہ دنیائے انسانیت کھلی گمراہی کا شکار تھی۔ آمدِ مصطفیٰ ﷺ ہی ہدایتِ الٰہی کے نور کے اظہار کا پیش خیمہ بنی اور یہی اللہ کا فضل اور رحمت ہے جس کے حصول پر اہلِ ایمان پر یہ لازم ہے کہ وہ ہدیہ تشکر بجا لائیں اور اس کا اظہار جشنِ مسرت منا کر کریں۔
اس سے اگلی آیات میں الله تبارک و تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کو بھی آپ ﷺ کے اس فیضِ رسالت میں شامل کر لیا، اور بعثتِ مصطفیٰ ﷺ کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا :
6. وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُO ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
’’اور ان میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول ﷺ کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اُن لوگوں سے نہیں ملے (جو اِس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ یہ (یعنی اس رسول ﷺ کی آمد اور اِن کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ ‘‘
الجمعه، 62 : 3، 4
سورۃ الجمعۃ کی مذکورہ بالا آیات میں الله تعالیٰ نے حضور ﷺ کو پہلے رسول کہا اور بعد ازاں اس نعمتِ رسالت کو اپنے فضل سے تعبیر فرمایا۔ اِن آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو ہر دور میں آنے والی مخلوق کے لیے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا اور اس میں کسی نسل، مقام اور زمانے کا استثنا نہیں۔ آپ ﷺ کی صحبت سے براہِ راست فیض یاب ہونے والے لوگ الاولین کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے درمیان آپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ سورۃ الجمعۃ کی تیسری آیت میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کا ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ ﷺ کی حیات ظاہری کے بعد ہوں گے۔ ان میں دوسری تمام قوموں اور معاشروں کے لوگ بھی شامل ہیں جو آپ ﷺ کے دین میں داخل اور آپ ﷺ کی امت میں شامل ہوتے رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں، جنہوں نے نہ تو آپ ﷺ کو دیکھا اور نہ کبھی شرفِ ملاقات سے بہرہ ور ہوئے، وہ زمانی اعتبار سے آپ ﷺ سے مختلف اَدوار میں ہوں گے اور ان کا شمار متاخرین میں ہوگا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت و بعثت کا ذکر کرنے کے بعد سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 3 میں ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ فرمایا۔ اِس سے مراد ذاتِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : میرے حبیب کی ولادت و بعثت اور بعد ازاں اس کی معرفت میرا فضل ہے، جس پر چاہوں کروں۔ تو جو کوئی میرے حبیب کی محبت سے سرشار ہے، اور جو تعظیم مصطفیٰ کرتا ہے اس پر میرا فضل ہوتا ہے۔ جس طرح میں نے دورِ نبوی کے لوگوں کو اپنی رحمت اور فضل سے نوازا اسی طرح تم پر بھی اپنے فضل و رحمت کی دولت نچھاور کرتا ہوں۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی مزید تشریح و توضیح سے پہلے ضروری ہے کہ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے مفاہیم خوب سمجھ لیں۔ ذیل میں ہم اِسی آیت کی تفسیر و تعبیر بیان کریں گے :
اِس کا لفظی معنی ہے : ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا خالق ہے، تمام بزرگیوں اور عظمتوں کا مالک ہے، وہ اپنے فضل میں بھی عظیم ہے۔ تمام فضل پر اسی کا تصرف اور اسی کی حکمرانی ہے۔ یہ انتہائی معنی خیز بات ہے جسے سمجھنا ضروری ہے کہ وہ تمام فضل کا مالک کیسے ہے، وہ خود فضل کیوں نہیں ہے؟ اس کی مثال اس طرح ہے کہ کسی مکان کے حوالے سے پوچھا جائے کہ یہ مکان کس کا ہے تو کہنے والا کہے گا کہ یہ مکان فلاں صاحب کا ہے۔ اسی طرح جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا تم پر احسان ہے یعنی میں صاحبِ اِحسان ہوں۔ جب کہ زیادہ احسان کرنے والے کے لیے ذوالاحسان کا لفظ بولا جائے گا۔ اگر آپ عربی لغت کے قواعد دیکھیں تو واضح ہوگا کہ اس میں مضاف اور مضاف الیہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک شخص مضاف ہوتا ہے اور دوسرا مضاف اِلیہ ہوتا ہے، جیسے صاحب الکتاب، ذوالکتاب اور ذوالفضل میں مضاف اور مضاف الیہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ دونوں ایک ہی شخص ہوں۔ اس کی ایک مثال ’’رَسُوْلُ اللهِ‘‘ ہے جس میں ’’رسول‘‘ مضاف ہے اور لفظ ’’اللہ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ پس اس قاعدہ کی رُو سے رسول، اللہ نہیں ہو سکتا اور اللہ، رسول نہیں ہو سکتا۔
اس نکتہ کی تفہیم کے بعد ہم دوبارہ قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے کہا گیا ہے : وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (اور الله بڑے فضل والا ہے)۔ ’’ذُو الْفَضْلِ‘‘ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے مضاف اور مضاف اِلیہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ فَضل اور ذُو الْفَضْلِ بھی دو جدا جدا ہستیاں ہیں۔ الله تعالیٰ اُس فضل کا مالک ہے۔ وہ بذاتِ خود فضل نہیں، کیوں کہ فضل وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوگا کہ وہ خود فضل نہیں تو فضل کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فضل رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جملہ انسانیت کے لیے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا اور جس کا نامِ نامی محمد ﷺ ہے۔ ذیل میں ہم اسی موقف کی تائید میں چند نام وَر تفاسیر کی عبارات نقل کریں گے تاکہ کوئی اِبہام باقی نہ رہے :
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ) الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی مراد یوں بیان کرتے ہیں :
(وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ) المن (الْعَظِيْمِ) بالإسلام والنبوة علي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، و يقال : بالإسلام علی المؤمنين، ويقال : بالرسول والکتاب علی خلقه.
’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ ﷺ اور نزولِ قرآن کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘
فيروز آبادي، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس : 471
2۔ علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) نے بیان کرتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا وهو أن يکون نبي أبناء عصره، و نبي أبناء العصور الغوابر، هو (فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ).
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا فرمایا اور وہ آپ ﷺ کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔ یہی اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔‘‘
زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل فی وجوه التأويل، 4 : 530
3۔ علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :
(وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’وہ اُس اِحسانِ عظیم والا ہے جو اُس نے اپنی مخلوق پر بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے کیا۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 : 429
یعنی رسولِ محتشم ﷺ کا دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا جانا الله تعالیٰ کا عظیم تر فضل اور احسان ہے۔
4۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :
(وَاللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے ہوا۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 : 260
یعنی رسولِ معظم ﷺ کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری اور بعثت الله کا بہت بڑا فضل (الفضل العظیم) اور انعام ہے۔
5۔ امام نسفی (م 710 ھ) فرماتے ہیں :
(ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا. . . وهو أن يکون نبي أبناء عصره ونبي أبناء العصور الغوابر.
’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو عطا فرمایا۔ اور وہ آپ ﷺ کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔‘‘
نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 5 : 198
حضور نبی اکرم ﷺ کا ظہور اور بعثت مبارکہ اُن سب کو اپنے دامنِ رحمت میں لیے ہوئے ہے جو آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے تھے اور جو آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ یعنی آپ ﷺ سے پہلے زمانوں میں آنے والے اور بعد میں آنے والے تاقیامِ قیامت آپ کے فیوضاتِ رسالت سے مستفیض ہوں گے۔ یہ ہے ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ‘‘ کی تفسیر جس میں امام نسفی نے دونوں معانی کا اِحاطہ کیا ہے۔ ’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ‘‘ میں وہ لوگ شامل ہیں جو آپ ﷺ کے بعد پیدا ہوں گے اور انہوں نے آپ ﷺ کو نہ دیکھا ہوگا۔ آپ ﷺ ان کے بھی رسول ہوں گے اور ان کا شمار بھی اس زمرے میں ہو گا جن کے لیے ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘کا حکم اِلٰہی وارِد ہوا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشیاں منائیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ظہور اس عالم ارضی میں ان کے لیے مژدۂ عظیم بن کر آیا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کی صدیوں میں آتے رہے یا آتے رہیں گے۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
6۔ امام خازن (678۔ 741ھ) ’’الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أي علي خلقه حيث أرسل فيهم رسوله محمدا صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر فضل ہے جو اس نے اپنے رسول محمد ﷺ کو بھیج کر فرمایا۔‘‘
خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 4 : 265
7۔ ابو حیان اندلسی (682۔ 749ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و (ذٰلِکَ) إشارة إلی بعثته عليه السلام.
’’ذٰلِکَ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 8 : 265
8۔ امام ابن کثیر (701۔ 774ھ) تفسیر کرتے ہیں :
يعني ما أعطاء الله محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم من النبوة العظيمة، وما خص به أمته من بعثته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس سے مراد وہ نبوتِ عظیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو عطا فرمائی، اور (اس سے مراد) وہ خصائص ہیں جن سے آپ ﷺ کی بعثت کے ذریعے اُمت کو نوازا گیا۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 364
پس حضور نبی اکرم ﷺ کا ورودِ مسعود اور نبوت دونوں فی الحقیقت الله تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔
9۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
(ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ) النبي صلي الله عليه وآله وسلم ومن ذکر معه.
’’(ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ) میں فضل سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھ مذکور لوگ ہیں۔‘‘
سيوطي، تفسير الجلالين : 553
10۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
(ذٰلِکَ) إشارة إلي ما تقدم من کونه عليه الصلاة والسلام رسولا في الأميين ومن بعدهم معلمًا مزکيا، وما فيه من معني البعد للتعظيم أي ذٰلِک الفضل العظيم.
’’ذٰلِکَ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سورت کی ابتداء میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اُمیوں اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان انہیں تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کے لیے معبوث فرمائے گئے ہیں، اور اِشارۂ بعید۔ ذٰلِکَ۔ تعظیم کے لیے ہے یعنی بے شک وہ فضل عظیم ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفيسر القرآن العظيم والسبع المثاني، 28 : 94، 95
11۔ شیخ احمد مصطفیٰ مراغی (1300۔ 1372ھ) مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أي وإرسال هذا الرسول إلي البشر مزکيا مطهرًا لهم، هاديا معلما، فضل من الله ، و إحسان منه إلي عباده.
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول ﷺ کو عالم انسانیت کی طرف تزکیہ کرنے والا، پاک کرنے والا، ہدایت دینے والا اور علم دینے والا بنا کر بھیجنا اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و اِحسان ہے۔‘‘
احمد مصطفي، تفسير القرآن الکريم، 10!28 : 96
12۔ عصر حاضر کے ایک نام وَر مصری مفسر شیخ طنطاوی جوہری (م 1359 ھ) لکھتے ہیں :
(وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) فإذا کان محمد قد أرسلته إليکم أيها الأميون وإلي من يأتي بعدکم.
’’اور الله بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ میرا یہ فضل تم پر اُس وقت ہوا جب میں نے اے اُمّیو (اَن پڑھ لوگو)! اپنے نبی محمد ( ﷺ ) کو تمہاری طرف اور تمہارے بعد آنے والوں کی طرف بھیجا۔‘‘
طنطاوي جوهري، الجواهر في تفسير القرآن الکريم، 24 : 175
آیت کریمہ کی متذکرہ بالا تفاسیر سے واضح ہوگیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ بلااِستثناء سب کے لیے فضل ہیں۔ لہٰذا جب نصِ قطعی سے یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد حضور ﷺ ہیں تو یہ اَمر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ اس رحمت اور فضل کے حصول پر ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے حکم کے تحت عید میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانا بھی عین مدعائے قرآن اور منشائے حکمِ اِلٰہی ہے۔
گزشتہ صفحات میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر بالقرآن کے تحت سورۃ الجمعۃ کی آیات کی تفسیر و توضیح کے بعد اب ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :
1۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما کا قول نقل کرتے ہیں :
إن فضل الله : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن عباس.
’’ضحاک نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک ’’فضل الله ‘‘ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔‘‘
ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 4 : 40
2۔ ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ) ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں :
وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه : الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ضحاک نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم (یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔‘‘
ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 5 : 171
3۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے :
وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي الله عنهما في الآية، قال : فضل الله : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. قال الله تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ)(1) - (2)
’’ابو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل الله سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘
(1) الأنبياء، 21 : 107
(2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330
4۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) بیان کرتے ہیں :
و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم، وأخرج الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة والسلام.
’’ابو شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی الله عنہما سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔‘‘
آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 : 141
مذکورہ تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما فضل سے مراد العلم لیتے ہیں اور العلم سے مراد قرآن حکیم ہے جس کی تائید درج ذیل آیت سے ہوتی ہے :
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ ‘‘
النساء، 4 : 113
اگر فضل سے مراد علم یا قرآن حکیم لیں تو پھر بھی اس کا ضمنی مفہوم حضور نبی اکرم ﷺ ہیں جن کے واسطے سے ہمیں قرآن مجید ملا۔ امام المفسرین جلیل القدر صحابی حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کا یہ قول۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی الله کا فضل اور سر تا پا اس کی رحمت ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکورہ اَلفاظ۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ کے مفہوم کو جشنِ میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے اُجاگر کرتا ہے۔ جشنِ میلاد کو عید مسرت کی حیثیت سے منانے کو الله کے فضل و رحمت پر خوشی و مسرت کے اظہار کا ذریعہ گردانا گیا ہے اور اس کا ذکر اس قرینے اور شدّ و مد سے کیا گیا ہے کہ کوئی صاحبِ فکر مسلمان اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا عباراتِ تفاسیر نے فضل و رحمت کے معانی اس طرح کھول کر بیان کر دیے ہیں کہ اس کے اَسرار و رموز بالکل عیاں ہوگئے ہیں، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ الله تعالیٰ کے فضل و رحمت پر مسرتوں اور شادمانیوں کی صورت میں جشنِ عید منانا منشائے خداوندی ہے۔
علامہ طبرسی (م 548 ھ) نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
ومعني الآية قل لهؤلاء الفرحين بالدنيا المعتدين بها الجامعين لها إذا فرحتم بشيء فافرحوا بفضل الله عليکم ورحمته لکم بإنزال هذا القرآن وارسال محمد إليکم فإنکم تحصلون بهما نعيمًا دائمًا مقيمًا هو خير لکم من هذه الدنيا الفانية. . . . عن قتادة ومجاهد وغيرهما قال أبو جعفر الباقر عليه السلام : (فَضْلُ اللهِ) رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اس آیت کا معنی ہے کہ الله تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر ﷺ سے ارشاد فرما رہا ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں جو دنیا کی خوشیوں میں مگن اور اس کے ذریعے (دوسروں پر) ظلم و زیادتی کرنے والے اور ہر وقت اس کو جمع کرنے والے ہیں کہ اگر تم کوئی خوشی منانا ہی چاہتے ہو تو الله کے فضل اور اس کی رحمت پر جشنِ مسرت مناؤ جو نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ ﷺ کی صورت میں تمہیں عطا ہوئے ہیں۔ پس بے شک تم ان دونوں (نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ ﷺ پر خوشی منانے) کے بدلے میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمت (جنت) حاصل کروگے جو تمہارے لیے اِس فانی دنیا سے بہت بہتر ہے۔ ۔ ۔ ۔ حضرت قتادہ اور مجاہد کے علاوہ دوسرے علماء سے بھی روایت ہے کہ امام ابو جعفر محمد الباقر علیہ السلام نے فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔‘‘
طبرسي، مجمع البيان في تفسير القرآن، 5 : 177، 178
تفاسیر میں بیان کیے گئے تمام معانی، ان کے رموز اور ضمنی تشریحات و تعبیرات سے یہی مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ الله بزرگ و برتر نے جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت جو اُس کے فضل اور رحمت کی صورت میں نازل ہوئی وہ قرآن اور محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جشنِ مسرت و شادمانی منانے کے قابل صرف دو چیزیں ہیں : ایک قرآن کا نزول اور دوسرا ولادتِ محمد مصطفیٰ ﷺ جس پر فرمان اِلٰہی۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حجت ہے۔ اگر کوئی خوشی منانی ہے تو اس رسولِ محتشم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے دن سے زیادہ اور کوئی دن اس کا حق دار و سزاوار نہیں۔
یہاں ضمنًا دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ) کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کر لینا زیر نظر موضوع کی وضاحت کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ رحمت اور فضل سے مراد حضور ﷺ ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا موصوف نے بجا طور پر اپنی تقاریر سے مرتب شدہ کتاب ’’میلاد النبی ﷺ ‘‘ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ بلااِختلاف حضور ﷺ الله تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور اس کا کامل ترین فضل ہیں۔ اس لیے اس آیہ کریمہ سے بدلالۃ النص یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یہاں رحمت اور فضل سے مراد حضور ﷺ ہیں جن کی ولادت پر الله تعالیٰ خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں۔ پھر اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ جو نعمت تمام دنیوی اور دینی نعمتوں کی اصل اور ان کا سر چشمہ ہے وہ حضور ﷺ کی تشریف آوری ہے۔ (1)
(1) مولانا اشرف علی تھانوی متذکرہ بالا آیات قرآنی میں فضل اور رحمت کی اصل مراد قرآن کو قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
’’اب قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں لفظوں (فضل اور رحمت) سے کیا مراد ہے؟ تو جاننا چاہیے کہ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ بکثرت آتے ہیں۔ کہیں دونوں سے ایک معنی مراد ہیں اور کہیں جدا جدا۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
’’پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتے۔‘‘
البقره، 2 : 64
’’یہاں اکثر مفسرین کے نزدیک فضل اور رحمت سے مراد حضور ﷺ کا وجود باجُود مراد ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔‘‘
النساء، 4 : 83
’’اور یہاں بھی بقول اکثر مفسرین حضور نبی اکرم ﷺ ہی مراد ہیں۔
’’بعض آیات میں فضل سے مراد ہے : رحمتِ دنیوی اور رحمت سے رحمتِ دینی مراد ہے۔ پس مجموعہ تمام تفاسیر کا دنیوی رحمتیں اور دینی رحمتیں ہوا۔
مولانا اشرف علی تھانوی مزید لکھتے ہیں :
’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور ﷺ کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور ﷺ کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور ﷺ سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔‘‘
اشرف علي تهانوي، خطبات ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 63 - 65
اگرکسی نے فضل اور رحمت الٰہی کو صورۃً اور تمثیلاً دیکھنا ہو تو وہ حضور نبی مکرم ﷺ کو دیکھ لے جن کو اللہ نے اپنا سراپائے فضل اور رحمت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ رحمت اور فضل ایک ہی ذات، ذاتِ محمدی ﷺ میں مرتکز ہوگئے ہیں جو بلاامتیازِ زمان و مکان سب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فَلْیَفْرَحُوْا کاحکم سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ انہیں آپ ﷺ کے ورودِ مسعود پر جشنِ مسرت و شادمانی منانا چاہئے اور اس موقع پر شرعی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہوئے جس قدر بھی خوشی کی جائے جائز ہوگی۔
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے نزول پر خوشی منانے کا حکم کیوں فرمایا؟ وہ کیا سبب ہے جس کی بناء پر اللہ رب العزت نے اس فضل و رحمت کے میسر آنے پر خوشی و مسرت منانے کا حکم فرمایا ہے؟ اس کا جواب جاننے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ فضل اور رحمت کے الفاظ ایک خاص تناظر میں بیان ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے اس پس منظر کومتعدد آیات میں بیان فرمایا ہے جن کاتذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔
الله سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر تم پر میرے حبیب ﷺ کی تشریف آوری کی صورت میں میرا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے اکثر لوگ ماسوائے قلیل تعداد کے گمراہ ہو جاتے اور شیطان کے پیروکار بن کر تباہ ہو جاتے۔ اگر رسول معظم ﷺ کو عالم انسانیت کی طرف مبعوث نہ کیا جاتا تو لوگوں کو ضلالت وگمراہی اور کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر اُلوہی حق و صداقت اور ہدایت کی روشنی سے کون مستفیض کرتا؟ اگر ہادیء برحق ﷺ مبعوث نہ ہوتے تو لوگوں کو ظلم، بداَمنی اور لاقانونیت کی چکی سے کون نکالتا اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت کون فراہم کرتا؟ وہ ذات گرامی جو اندھیروں میں بھٹکنے والی انسانیت کو ہدایت اِلٰہی کی روشنی میں لائی اس کے ظہور پر بنی نوع انسان کو خوشی منانے کا حکم دیاگیا ہے کہ ان کی اس دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف آوری اللہ کے فضل اور رحمت کا نتیجہ ہے، جس پر خوشی و شادمانی منانا تقاضائے محبت و ایمان ہے۔
آیت مذکورہ میں ’’فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے معنوی رموز کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فخر المفسرین امام رازی (543۔ 606ھ) نے ان الفاظ کے حصر اور اختصاص و امتیاز کو یوں واضح کیا ہے :
قوله : (فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا) يفيد الحصر، يعني يجب أن لايفرح الإنسان إلا بذالک.
’’ الله تعالیٰ کا فرمان۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حصر کا فائدہ دے رہا ہے یعنی واجب ہے کہ اِنسان صرف اِسی پرخوشی منائے۔‘‘
رازي، مفاتيح الغيب (التفسيرالکبير)، 17 : 117
امام رازی نے آیت مبارکہ میں معنوی حصر و اختصاص کو شرح و بسط سے بیان کرتے ہوئے فرح یعنی خوشی و مسرت کے اظہار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لفظ کے دامن میں وہ سب خوشیاں اور مسرتیں سمٹ آئی ہیں جو نہ صرف جائز ہیں بلکہ اَز رہِ حکم اس کے منانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اور فرمایا گیا کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو اور اس پر خوب خوشیاں مناؤ۔
قارئین کرام! یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ اللہ رب العزت نے ایسی خوشیاں منانے سے منع فرمایا ہے جن میں خود نمائی اور دکھاوا ہو۔ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ لوگ کسی دنیاوی نعمت پر اس قدر خوشی کا اظہار کریں کہ وہ آپے سے باہر ہوجائیں اور شائستگی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے انپے آپ سے بھی بیگانہ ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَO
’’بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
القصص، 28، : 76
لیکن اس کے برعکس جب اپنے فضل اور رحمت کی بات کی تو اپنے اس حکم میں استثناء (exception) کا اعلان فرما دیا کہ اگر میرا فضل اور رحمت نصیب ہو جائے تو پھر میرا ہی حکم ہے : فَلْيَفْرَحُواْ، یعنی کہ خوب خوشیاں منایا کرو۔ اور وَ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کے ذریعہ یہ بتلا دیا کہ جو لوگ جشنِ میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لیے قمقمے لگاتے ہیں، گل پاشیاں کرتے ہیں، قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں، جلسے جلوس اور محافل و اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں، لنگر بانٹنے کے لیے کھانا پکاتے ہیں یعنی دھوم دھام سے اِظہار خوشی کے لیے جو کچھ انتظامات کرتے ہیں وہ سب کچھ حبِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ لہٰذا ان کے یہ اَخراجات مال و دولت کے انبار لگانے اور انہیں جمع کرنے سے کہیں بہتر ہیں۔ چنانچہ جونہی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے پوری دنیا میں غلامانِ رسول آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ وار مگن ہو جاتے ہیں، ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کائنات کی ساری خوشیاںجملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پر ہی قربان ہو جائیں تو بھی اس یومِ سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواز نصِ قرآن سے ثابت ہے اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ مندرجہ بالا ارشادِ قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس نعمتِ عظمی پر خوشی منانے کا حکم دیا۔
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.
’’فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) الله کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔‘‘
يونس، 10 : 58
اگر قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ کہا جاتا تو بھی اس آیت میں مضمون اور مدعائے بیان مکمل تھا، لیکن ’’فَبِذَلِكَ‘‘ لا کر تکرار پیدا کیا گیا تاکہ کہیں باعثِ مسرت کسی اور چیز کو نہ ٹھہرا لیا جائے اور دھیان کسی اور طرف نہ چلا جائے۔ اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اُن کی ولادت کے سبب سے جو نعمتِ کبریٰ تمہیں نصیب ہوئی ہے، خوشیاں منانے کا حکم دیتے ہوئے ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ میرا شکر صرف سجدے کرکے بجا لاؤ، صرف روزوں کی صورت میں بجا لاؤ، صدقات و خیرات کر کے میری نعمت کا شکر بجا لاؤ۔ یہ سب طریقے بجا ہیں مگر یہ طریقے تو عام نعمتوں کے شکرانے کے لیے ہیں۔ اس پیکر رحمت کا تمہارے پاس آنا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس نعمت کے توسط سے ہی تو ہم نے انسانیت کو ساری نعمتیں عطا کیں، لہٰذا اس نعمتِ عظمیٰ کے ملنے کے موقع پر تم چراغاں بھی کرو، جشن بھی مناؤ، کھانے پکا کر غرباء و مساکین کو بھی کھلاؤ غرضیکہ جائز طریقے سے ہر وہ خوشی کرو جو دنیا میں کسی بھی مسرت کے موقع پر کر سکتے ہو۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اپنے حبیب ﷺ کی نعمت کے عطا ہونے پر عید اور جشن کا ایسا سماں دیکھنا چاہتی ہے جو یہ ثابت کر دے کہ امت مسلمہ اپنے عظیم المرتبت نبی ﷺ کی ولادت باسعادت اِنتہائی جوش و خروش اور اِہتمام کے ساتھ منا رہی ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا قومی آزادی حاصل ہو اور فتح و نصرت کا دن آئے تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہم یہ سب خوشیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر مناتے ہیں۔ الله تعالیٰ ہم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ جب اس نعمتِ عظمیٰ ﷺ کے ملنے کا دن آئے تو اتنی فرحت و مسرت کا اہتمام کیا جائے کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خوشیاں و جشن منانے، چراغاں کرنے اور کھانے پکا کر تقسیم کرنے پر مال و دولت خرچ ہوتا ہے۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ان کاموں پر مال خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟ اس سے بہتر تھا کہ یہ رقم کسی محتاج، غریب، نادار کو دے دی جاتی، کوئی مسجد بنا دی جاتی، کسی مدرسے میں جمع کرا دی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس طرح کے کئی شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ کاموں پر خرچ کرنا اپنی جگہ بالکل درست، صحیح اور بجا ہے مگر باری تعالیٰ نے اس خیال کو بھی رد کر دیا کیوں کہ اس موقع پر اُمت کی اجتماعی خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ الله تعالیٰ کسی کو صدقات و خیرات سے منع تو نہیں کرتا، ہر کوئی غرباء و مساکین اور مستحقین کی خدمت اپنی استطاعت کے مطابق کرے مگر جب حبیب مکرّم ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا موقع آئے تو یہ بہانہ بنا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو اپنا مال کسی اور نیک کام میں صرف کر دیں گے؛ بلکہ فرمایا : ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ انہیں چاہئے کہ وہ میرے حبیب کی خاطر خوشی منائیں۔ اور ’’هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ‘‘ کہہ کر واضح کر دیا کہ اِس خوشی پر خرچ کرنا کسی بھی اور مقصد کے لیے جمع کرنے سے افضل ہے۔
قرآن حکیم میں کوئی حکم بیان کرنے کا یہ طریقہ بہت ہی کم اختیار کیا گیا ہے جو جشنِ میلاد النبی ﷺ کے بیان پر مشتمل اس آیت میں اپنایا گیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں ہمیں واضح طور پر دس (10) تاکیدیں نظر آتی ہیں :
1۔ قُلْ : قُلْ کہہ کر بات شروع کرنا تاکید کی ایک قسم ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمہ تن گوش ہو جاؤ۔
2۔ بِفَضْلِ اللّهِ : ’’اللہ کے فضل کی وجہ سے۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل کی وجہ سے کیا؟ یہ استفہام پیدا کرنا بھی طریقۂ تاکید ہے کہ گویا ابھی اصل بات کو چھپایا جا رہا ہے۔
3۔ وَبِرَحْمَتِهِ : ’’اللہ کی رحمت کی وجہ سے۔‘‘ یہاں پھر استفہام پیدا کر دیا کہ رحمت کی وجہ سے کیا؟ یہ تیسری تاکید ہے۔
4۔ فضل اور رحمت کا اِجتماع : فضل کے بعد رحمت کا ذکر کرنا بھی تاکید ہے۔
5۔ فا کی حکمت : ذَلِكَ پر فا کا اضافہ کیا گیا ہے۔ فا عربی قواعد میں تاکید کے لیے آتی ہے۔
6۔ بِذَلِكَ : فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد اِشارۂ بعید لانا بھی تاکید ہے۔
7۔ فَلْيَفْرَحُواْ : لِیَفْرَحُوْا پر پھر فا کا اضافہ کیا گیا جس سے تاکید پیدا ہو رہی ہے۔
8۔ فَلْيَفْرَحُواْ : یَفْرَحُوْا پر عزوجل بھی تاکید کے لیے ہے۔
9۔ هُوَ خَيْرٌ : ھُوَ تاکید کے لیے ہے۔
10۔ مِّمَّا يَجْمَعُونَ : یہ بھی تاکیدی کلام ہے۔
آیتِ مذکورہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے 10 تاکیدوں کے ساتھ جو حکم دیا وہ یہ ہے : فَلْيَفْرَحُواْ (خوشیاں مناؤ، جشن مناؤ) کیوں کہ فَبِذَلِكَ محبوب جو آ گیا ہے۔ اگر انسانی معاملہ ہو تو اتنی تاکیدوں سے مضمون بوجھل ہونے لگتا ہے مگر یہاں چونکہ محبوب کی بات ہونے والی ہے اور کلام بھی خدا کا ہے اس لیے اس میں مزید حسن اور نکھار پیدا ہو گیا ہے۔ دس (10) تاکیدوں کے بعد مضمون یہاں آ کر ختم کرنا۔ کہ یہ خوشیاں منانا جمع کرنے سے بہتر ہے۔ خوشی منانے کی اہمیت کو بدرجہ اتم واضح کر رہا ہے۔
تاکیدوں کے تکرار سے کلام میں کیا اثر پیدا ہوتا ہے؟ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ جس طرح کسی بچے کو اس کا باپ کوئی کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہے : ’’فلاں کام کیا کرو۔‘‘ اب سمجھ دار اولاد کے لیے باپ کا اتنا کہنا کافی ہوتا ہے لیکن باپ جب اس حکم کے ساتھ یہ بھی کہے : ’’بیٹا! میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ فلاں کام کرو۔‘‘ اب بیٹے کے کان کھڑے ہو جائیں گے کیوں کہ اب تاکید بڑھ گئی۔ وہ جان جائے گا کہ والد مجھے جس کام کے لیے حکم دے رہے ہیں وہ کوئی خاص کام ہوگا، لیکن اگر اس بچے کا والد اس سے بھی زیادہ سخت حکم دیتے ہوئے کہے : ’’بیٹا! سن لو میں تمہیں بطور خاص کہہ رہا ہوں کہ فلاں کام ضرور بالضرور کرو۔‘‘ اب باپ کے حکم میں چار تاکیدیں آگئیں اور اگر ان تاکیدوں کے ساتھ باپ اسے یہ بھی کہہ دے کہ بیٹا! کچھ اور کرو نہ کرو ایسا ضرور کرو ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا، تو اب بھلا حکم عدولی کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟
ترکِ فعل اور مخالفت تو پہلے بھی خلافِ ادب تھی مگر اتنی تاکیدات کے ساتھ حکم دینے کا تو یہی مطلب بنتا ہے کہ ’’بیٹا! میں فقط تم سے اس حکم کی تعمیل چاہتا ہوں۔‘‘ اب کوئی انتہائی بدبخت بیٹا ہی ہوگا جو اس حکم کی بجا آوری سے پہلو تہی کرے گا۔ یہ مثال صرف سمجھانے کے لیے تھی، وگرنہ باپ کا حکم کہاں اور رب ذوالجلال کا حکم کہاں! چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک کے مصداق وہ رب تو اپنے پیارے رسول ﷺ کی زبان حقیقت بیان سے ہی کہلوا رہا ہے : محبوب! آپ میری طرف سے لوگوں کو حکم فرما دیں کہ ان پر جو الله کا فضل اور رحمت اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر نبی آخر الزمان کے وجود اقدس کی صورت میں انہیں نصیب ہوئی ہے اس کے شکرانے پر خوب خوشیاں مناؤ، اور یہ بات میں تاکیدات کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے صرف ایک قانون برقرار رکھا : عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ، یعنی حضور ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس تصور کے ساتھ شرعی حدود کے اندر رہ کر جتنی خوشیاں منائی جائیں جائز ہیں، لیکن ان کی کوئی حد نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے خوشیاں منانے کی کوئی حد مقرر نہیں کی تو کوئی انسان کیسے کر سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ اگر میری منشاء و حکم کے مطابق خوشی مناؤ گے تو اس پر کتنا اَجر و ثواب ملے گا، اس کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ تم جو کچھ بھی توشۂ آخرت کے طور پر تیار کررہے ہو اس سے تمہارا یہ خوشی منانا بہرحال میرے نزدیک زیادہ باعثِ اَجر و ثواب ہوگا۔ فرمایا :
هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
يونس، 10 : 58
یہ بات واضح فرما دی کہ اگر تم نے میرے اس فضل اور رحمت کی آمد پر خوشی نہ کی تو بے شک تم عبادت و ریاضت کے ڈھیر لگا دو تو مجھے اُن سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ مجھے تو اپنے محبوب کی آمد پر تمہارا خوش ہونا ان عبادتوں سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ بے شک ان عبادات کا حکم بھی میں نے ہی دیا ہے مگر اس نعمت کے شکرانے پر تم عبادات کے علاوہ خوشی بھی مناؤ۔
آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ الله کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا جمع کرکے رکھنے سے بہتر ہے۔ سوال یہ کہ کیا چیز جمع ہو سکتی ہے؟ دو چیزیں ہی جمع کی جاسکتی ہیں :
1۔ دنیا کے حوالے سے جمع کرنا چاہیں تو مال و اَسباب اور دولت وغیرہ جمع کی جاسکتی ہے۔ اور
2۔ اگر آخرت کے حوالے سے جمع کرنا ہو تو اَعمالِ صالحہ مثلًا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ جمع ہو سکتے ہیں۔ مگر قرآن حکیم نے یہاں نہ مال و دولت کی تخصیص کی ہے اور نہ ہی اَعمالِ صالحہ اور تقویٰ وغیرہ کی نشان دہی کی ہے۔ بلکہ آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کلمہ مَا عام ہے جواپنے اندر عمومیت کا مفہوم لیے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو حاوی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں نکات ذہن نشین رکھ کر دیکھا جائے تو اس آیت سے مراد ہوگا : لوگو! تم اگر دنیا کے مال و دولت جمع کرتے ہو، جائیدادیں، کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے ہو غرضیکہ انواع و اقسام کی دولت خواہ نقد صورت میں ہو یا کسی جنس کی صورت میں، میرے حبیب کی آمد اور ولادت پر خوشی منانا تمہارے اس قدر مال و دولت جمع کرنے سے بہ ہر حال بہتر ہے۔ اور اگر آخرت کے حوالے سے سجود، رکوع، قیام و قعود کا ذخیرہ کر لو، نفلی عبادات جمع کر لو، فرائض کی بجا آوری سے اجر و ثواب کا ذخیرہ کرلو، غرضیکہ نیکی کے تصور سے جو چاہو کرتے پھرو لیکن اس نعمت پر شکرانے کے لیے جشن منانا اور اس پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا، یہ تمہارے اَعمالِ صالحہ کے ذخیرے سے زیادہ گراں اور زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے اس نعمتِ عظمیٰ کی آمد پر خوشی نہ کی تو تم نے اَعمالِ صالحہ کی بھی قدر نہ کی۔ چونکہ سب اعمال تو تمہیں اسی کے سبب سے نصیب ہوئے؛ قرآن اسی کے سبب سے ملا، نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی کے توسط سے عطا کیے گئے، ایمان و اسلام بھی اسی کے ذریعے سے ملے، دنیا و آخرت کی ہر نیکی اور عزت و مرتبہ بھی اسی کے سبب سے ملا، بلکہ نیکی، نیکی اِنتخابِ مصطفیٰ ﷺ سے بنی اور برائی، برائی اِجتنابِ مصطفیٰ ﷺ سے قرار پائی۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے والے رب العزت کی معرفت تمہیں اسی کے سبب سے ملی۔ پس اس ہستی کے عطا کیے جانے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کر کے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا یہ عمل سب سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔
خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان پربے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے ہیں۔ اس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ کھانے پینے اور دیگر سامانِ آرام و آسائش اور زینت و آرائش سے نوازا۔ ہمارے لیے دن رات کا نظام مرتب کیا۔ سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا مگر اس نے کبھی اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤف و رحیم نے ہمیں اپنی پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائکہ بنایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسے پیارے رشتے عطا کیے۔ غرضیکہ اَنفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہمارے حیطۂ ادراک سے بھی باہر ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں، لیکن بطور خاص کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس لیے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنا احسان بھی نہیں جتلاتا۔ لیکن ایک نعمتِ عظمیٰ ایسی تھی کہ الله تعالیٰ نے جب اسے حریمِ کبریائی سے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور کائنات کو اس نعمت سے سرفراز فرمایا تو نہ صرف اس کا ذکر کیا بلکہ تمام نعمتوں میں سے فقط اس کا احسان جتلایا اور اس کا اظہار عام الفاظ میں نہیں بلکہ دو تاکیدوں۔ لَ اور قَدْ۔ کے ساتھ کیا۔ ارشاد فرمایا :
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ.
’’بے شک الله تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا اِحسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا۔‘‘
آل عمران، 3 : 164
آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ الله رب العزت فرما رہا ہے : اے لوگو! تم پر میرا یہ بہت بڑا احسان اور کرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدل دیں، بگڑے ہوئے حالات سنوار دیے اور تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عز و شرف سے ہم کنار کر دیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانۂ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو اب ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امتِ مصطفوی اسے عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر و منزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کردے اور میرے اس احسانِ عظیم کی ناشکری کرنے لگے۔ اس احسان جتلانے میں بھی اُمت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا اور قرآن حکیم نے اس واضح حکم کے ذریعے ہر فرزندِ توحید کو آگاہ کر دیا کہ وہ کبھی الله کے اس عظیم احسان کو فراموش نہ کرے بلکہ اس نعمتِ عظمیٰ پر شکرانہ ادا کرتے ہوئے جشنِ مسرت منائے۔
الله تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے بندگی ہے مگر قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کی ایک اور حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌO
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘
ابراهيم، 14 : 7
نعمتوں پر شکر بجا لانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے، یعنی الله تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے لیکن کفرانِ نعمت اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس لیے دیگر اِنعاماتِ اِلٰہی کا مستحق قرار پانے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کی صورت میں میسر آنے والی نعمتِ عظمیٰ پر شکر بجالانا ضروری ہے۔
اِس باب کے آخر میں ہم بالاختصار نعمتوں پر شکر بجا لانے کی مختلف صورتیں بیان کریں گے جن کی سند بھی قرآن حکیم نے ہی فراہم کی ہے۔ نعمتِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا شکرانہ ادا کرتے وقت بھی یہی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں :
قرآن حکیم نے نعمتوں کا شکر بجالانے کی ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نعمت کو یاد رکھا جائے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔‘‘
البقره، 2 : 47
یہی مضمون سورۃ آل عمران کی اس آیت میں بھی ضمناً آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو حکم دیا کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ ﷺ کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور ﷺ کا ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ ﷺ کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔ ‘‘
الضحیٰ، 93 : 4
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔ ‘‘
الإنشراح، 94 : 4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ ﷺ کے میلاد مبارک کے موقع پر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔ اِمام اَحمد رضا خان (1272۔ 1340ھ) نے کیا خوب کہا ہے :
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
کا ھے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 18
الله کی نعمتوں کا شکر اُس کی عبادت و بندگی کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادات کے علاوہ دیگر نفلی عبادات سب الله کی نعمتوں پر شکرانے کی بہترین صورتیں ہیں۔
علاوہ ازیں صدقات و خیرات دے کر غریب، بے سہارا اور یتیم لوگوں کی پرورش و نگہداشت کر کے بھی الله تعالیٰ کی دی گئی نعمت پر شکر بجا لانا اَمرِ مستحب ہے۔
نعمت کا شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت پر اُس کا خوب اِظہار کرے۔ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کرے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا ہے :
وَ اَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْo
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔ ‘‘
الضحیٰ، 93 : 11
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ آیاتِ قرآنی میں ذکرِ نعمت کا حکم ہے جس سے مراد ہے کہ نعمت کو دل سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا چرچا کیا جائے لیکن وہ ذکر لوگوں کے لیے نہیں بلکہ الله کے لیے ہو۔ مذکورہ بالا آیت میں تحدیثِ نعمت یعنی کھلے بندوں اس نعمت کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کے سامنے نعمت کا خوب چرچا کیا جائے۔ چنانچہ ذکر اور تحدیثِ نعمت میں بنیادی فرق یہ ہوا کہ ذکر اللہ کے لیے ہوتا ہے جب کہ تحدیث کا تعلق زیادہ تر مخلوق کے ساتھ ہے یعنی لوگوں میں چرچا کرنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کرو۔ ‘‘
البقره، 2 : 152
یہاں ذکر سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہے، لیکن تحدیثِ نعمت سے مراد ہے کہ خالی ذکر ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت کا ایسا اظہار کیا جائے کہ اسے خلقِ خدا بھی سنے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان کیا جائے جو کہ منشائے الٰہی ہے۔
تحدیثِ نعمت کے بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نعمتِ خداوندی کے نزول کا علم زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا تک پہنچے اور لوگ کثرت کے ساتھ اس ادائے شکر میں شریک ہوں۔ لہٰذا اب ذکر اور تحدیث میں دوسرا بڑا اور واضح فرق یہ ہوا کہ ذکر تنہا شکر بجا لا کر بھی ہوسکتا ہے مگر تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ اسے بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات میں خلقِ خدا تک پہنچایا جائے۔ اس کے شکرانے کے لیے اس کی نعمت کے شایانِ شان عظیم محافل و مجالس اور اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ان محافل میں اس نعمتِ کبریٰ کا تذکرہ کیا جائے۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب اُمتِ مسلمہ اپنے آقا ﷺ کی ولادت جیسی عظیم ترین نعمت کے صلہ میں تحدیثِ نعمت کے فریضہ سے عہدہ برآ ہوگی تو تذکارِ نعمت میں کبھی حضور ﷺ کی نعت پڑھی جائے گی، کبھی صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے گا، کبھی حضور ﷺ کے فضائل و شمائل کا ذکر ہوگا، کبھی آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کی بات ہو گی اور کبھی آپ ﷺ کے حسنِ سیرت کا ذکر چھیڑا جائے گا۔ کوئی آپ ﷺ کے حسن صورت اور دل رُبا اداؤں کا تذکرہ کرے گا اور کوئی آپ ﷺ کی پیاری پیاری اور کریمانہ عادات مبارکہ بیان کرے گا۔ یہ سب چیزیں وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کی تفسیر میں ہیں اور اس نعمت کبریٰ کی یاد کی مختلف صورتیں ہیں جو ذکرِ نعمت کے ذیل میں آتی ہیں۔ اگر تھوڑا سا بھی غور کر لیا جائے تو تمام محافلِ میلاد کی عام صورت حال یہی ہوتی ہے اور ان ہی چیزوں کے بیان کو ان محافل میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔
یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ حضور ﷺ کے ذکر میلاد میں ان کا ذکر کس طرح کیا جائے، اس کی حدود و قیود کیا ہونی چاہئیں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہم حضور ﷺ کی یاد میں ان کی مدح سرائی کس طرح کریں؟ تو ان تمام التباسات کے جواب میں نعت گویانِ رسول ﷺ کے اِمام، قافلہ عشق کے سرخیل امام شرف الدین بوصیری (608۔ 696ھ) نے چند اشعار میں بڑے صاف اور واضح انداز میں اس سلسلے میں پیش آمدہ ذہنی اشکالات کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
1. دع ما ادعَتْه النصاري في نبيّهم
واحکم بما شئت مدحًا فيه واحتکم
2. فانسب إلي ذاته ما شئت من شرف
وانسب إلي قدره ما شئت من عِظم
3. فإن فضل رسول الله ليس له
حدٌّ فيعرب عنه ناطقٌ بفم
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ یہاں ایک احتیاط کا ذکر کر رہے ہیں کہ
1۔ ’’نصاریٰ (عیسائیوں) نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ دعویٰ الوہیت کیا ہے (اور انہیں خدا کا بیٹا وغیرہ بنا کر غلو اور کفر کا ارتکاب کیا ہے) وہ چھوڑ دو۔ حضور ﷺ کی تعریف میں ایسے خطرناک غلو اور زیادتی سے بچتے ہوئے جو کچھ تمہار ا جی چاہے کہو اور پورے یقین اور اذعان کے ساتھ سرکارِ دوجہاں ﷺ کی خوب مدح سرائی کیا کرو۔
2۔ ’’پس ذاتِ اقدس ﷺ کی بزرگی اور بڑائی کا اظہار کرو اور جن جن عظمتوں کو چاہو حضور ﷺ کی ذات گرامی کے بلند مرتبہ سے منسوب کرو۔
3۔ ’’کیوں کہ بے شک سرکار رسالت مآب ﷺ کے فضل و شرف اور بزرگیء مرتبہ کی کوئی حد و نہایت ہی نہیں کہ کوئی مدح کرنے والا اسے بیان کر سکے۔‘‘
بنا بریں حضور ﷺ کی یاد میں اُن کی تعریف و نعت ہر طرح سے جائز و مستحسن ہے۔ تاہم مقامِ اُلوہیت اورمقامِ نبوت میں حفظِ مراتب کا خیال رکھنا بہرحال فرض اور شرطِ ایمان ہے۔
ذکرِ نعمت اور تحدیثِ نعمت کے علاوہ الله کی نعمتوں اور اس کی عنایات کریمانہ پر شکر کے اظہار کا ایک طریقہ اور صورت یہ بھی ہے کہ اس خوشی و مسرت کا اِظہار جشن اور عید کے طور پر کیا جائے۔ پہلی امتوں کا بھی ادائے شکر کے حوالے سے یہی وطیرہ تھا، جس کا ذکر گزشتہ اَوراق میں ہو چکا ہے۔ اور یہ سنتِ انبیاء ہے کہ جس دن الله کی کوئی خاص نعمت میسر آئے اس دن کو بطور عید منایا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام الله رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.
’’اے الله ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘
المائده، 5 : 114
یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت کے حصول پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید منانے کا ذکر کرتے ہیں چنانچہ اسی کے پیش نظر عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔
نزولِ مائدہ کی نعمت کو ہمارے آقا و مولا حضور سرور کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے ؟ کہاں وہ ایک عارضی خوانِ نعمت اور کہاں وہ دائمی اور ابدالاباد بلکہ دونوں جہانوں میں جاری رہنے والی نعمت جو حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کی صورت میں نوعِ انسانی کو نصیب ہوئی! ان دونوں کا آپس میں تقابل و موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس ابدی و دائمی نعمت پر کماحقہ اظہار تشکر کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہاں نزولِ مائدہ اور ولادتِ مصطفیٰ ﷺ میں تقابل قطعاً مقصود نہیں، سردست ایک تاریخی حقیقت پر مبنی اہم اور توجہ طلب پہلو کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی اُس وقت سے لے کر آج تک اتوار کے روز یہ خوشی مناتے چلے آئے ہیں کیوں کہ اتوار کے دن ہی ان پر مائدہ کی نعمت اتری تھی۔ سابقہ امتیں تو مائدہ جیسی نعمت کے شکرانے پر عیدیں مناتی رہی ہیں جس کا ذکر قران نے بھی محفوظ رکھا ہے کیوں کہ یہ بھی رضائے الٰہی کے حصول کی ایک صورت ہے اور سنت انبیاء ہے۔ تو جب عمومی نعمتوں کے حصول اور ان کے نزول پر عید منانا انبیاء علیہم السلام کی سنت اور الله کے حکم کی پیروی قرار پائی تو پھر میلادِ مصطفیٰ ﷺ جیسی نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر۔ کہ جس کے توسط سے کائنات ہست و بود کو ساری نعمتیں عطا ہوئی ہیں۔ یہ امت عید اور جشن کیوں نہ منائے۔
گزشتہ صفحات میں دی گئی تفصیلات سے یہ اَمر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جشنِ میلاد النبی ﷺ منانا نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ اِس پر کسی قسم کا اِعتراض و اِبہام پیدا کرنا قرآنی تعلیمات سے عدم آگہی کے مترادف ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آقا ﷺ کے میلاد پر خوشی منانے کے جائز اور مستحسن اَمر کو باعثِ نزاع بنانے کی بجائے اِس خوشی میں دل و جان سے شریک ہوکر اُلوہی نعمتوں اور نبوی فیوضات سے سیراب ہوا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved