108/ 1. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَی عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها وَعِنْدَهَا حَسَّانُ ابْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ وَقَالَ:
حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيْبَةٍ
وَتُصْبِحُ غَرْثَی مِنْ لُحُوْمِ الْغَوَافِلِ
فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها: لَکِنَّکَ لَسْتَ کَذَلِکَ قَالَ مَسْرُوْقٌ: فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَأْذَنِيْنَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْکِ وَقَدْ قَالَ اﷲُ تَعَالَی: {وَالَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيْمٌo} [النور، 24:11] فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَی. قَالَتْ لَهُ: إِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3915، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1934، الرقم: 2488، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، والطبراني في المعجم الکبير، 23/ 135، الرقم: 175.
’’حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ رضي اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، درآنحالیکہ ان کے پاس حضرت حسان رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے انہیں اپنے اشعار سنا رہے تھے، حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’وہ پاکیزہ اور دانش مند ہیں ان پر کسی کے عیب جوئی کی تہمت نہیں ہے وہ صبح غافلوں کے گوشت سے بھوکی اٹھتی ہیں (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں)۔‘‘
حضرت عائشہ رضي اﷲ عنہا نے ان سے (اَز راہِ تفنناً) فرمایا: لیکن تم اس طرح نہیں تھے۔ مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی کیوں اجازت دیتی ہیں حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضي اﷲ عنہا نے فرمایا: اندھے پن سے زیادہ اور کون سا بڑا عذاب ہوگا؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دفاع میں کفار کو جواب دیتے تھے، یا ان (کفار) کی ہجو و مذمت کرتے تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
109/ 2. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: جَالَسْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم أَکْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ، فَکَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ، وَيَتَذَاکَرُوْنَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ وَهُوَ سَاکِتٌ (وفي رواية: فَـلَا يَنْهَاهُمْ) فَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سو (100) سے زائد نشستوں میں بیٹھنے کا شرف حاصل کیا ان نشستوں میں اکثر اوقات زمانہ جاہلیت کے امور کاتذکرہ ہوتا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاموش بیٹھے حاضرین مجلس کی باتیں سنتے (جبکہ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو کبھی منع نہ فرماتے) اور کبھی کبھار مسکرا دیتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
2-3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 140، الرقم: 2850، وفي الشمائل المحمدية، 1/ 204، الرقم: 248، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 91، الرقم: 20885، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 278، الرقم: 26062، وابن حبان في الصحيح، 13/ 96، الرقم: 5781، وأبو يعلی في المسند، 13/ 446، الرقم: 7449، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 120، الرقم: 7031، وفي المعجم الکبير، 2/ 229، الرقم: 1948، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 372، والبيهقي في السنن الکبری،10/ 240، الرقم: 20906. 20907.
110/ 3. وفي رواية: عَنْ سِمَاکٍ قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: أَکُنْتَ تُجَالِسُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ طَوِيْلَ الصَّمْتِ، قَلِيْلَ الضَّحِکِ، وَکَانَ أَصْحَابُهُ يَذْکُرُوْنَ عِنْدَهُ الشِّعْرَ وَأَشْيَاءَ مِنْ أُمُوْرِهِمْ فَيَضْحَکُوْنَ وَرُبَّمَا تَبَسَّمَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت سماک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طویل خاموشی والے، کم ہنسنے والے تھے اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس اشعار اور بعض اپنے امور بیان کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہنس پڑتے اور بعض اوقات صرف تبسم فرماتے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
111/ 4. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، فَيَقُوْمُ عَلَيْهِ يَهْجُوْ مَنْ قَالَ فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
4: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5015، والعسقلاني في فتح الباري، 1/ 548، الرقم: 442، والشوکاني في نيل الأوطار، 2/ 169.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کی ہجو (یعنی مذمت) کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک جب تک حسان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتا رہے گا روح القدس (حضرت جبرائیل) بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے مددگار) ہوں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
112/ 5. عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی قُرَظَةَ بْنِ کَعْبٍ وَأَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي اﷲ عنهما فِي عُرْسٍ، وَإِذَا جوَارٍ يُغَنِّيْنَ، فَقُلْتُ: أَنْتُمَا صَاحِبَا رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَمِنْ أَهْلِ بَدْرٍ يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَکُمْ؟ فَقَالَ: اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ، فَاسْمَعَ مَعَنَا. وَإِنْ شِئْتَ اذْهَبْ، قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
5-6: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: النکاح، باب: اللهو والغناء عند العرس، 6/ 135، الرقم: 3383، وفي السنن الکبری، 3/ 332، الرقم: 5565، والحاکم في المستدرک، 2/ 201، الرقم: 2751. 2752، والطيالسي في المسند، 1/ 169، الرقم: 1221، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 289، الرقم: 14469. 14470، والعسقلاني في المطالب العالية، 8/ 371، الرقم: 1680.
’’حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں ایک شادی میں شامل ہوا، جہاں قریظہ بن کعب اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اﷲ عنہما بھی شامل تھے۔ اتفاقاً وہاں (ہبو کی چھوٹی) لڑکیاں گا رہی تھیں، میں نے ان (صحابہ) سے عرض کیا: آپ دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب اور اہلِ بدر میں سے ہیں اور آپ کی موجودگی میں یہ کام ہو رہا ہے۔ تو وہ دونوں اصحاب فرمانے لگے کہ اگر تمہارا جی چاہے تو تم ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو وگرنہ چلے جائو۔ ہمیں شادی میں کھیلنے کی رخصت دی گئی ہے (کیونکہ شادی ایک خوشی ہے اور اس میں مباح کھیل کود کی اجازت ہے، کلام میں اگر حرام چیزیں نہ ہوں تو یہ منع نہیں ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
113/ 6. وفي روایة عنه قال: دَخَلْتُ عَلَی قُرَظَةَ بْنِ کَعْبٍ وَأَبِي مَسْعُوْدٍ وَذَکَرَ ثَالِثًا. قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ: ذَهَبَ عَلِيٌّ وَجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيُغَنِّيْنَ فَقُلْتُ: تُقِرُّوْنَ عَلَی هَذَا وَأَنْتُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم ، قَالُوْا: إِنَّهُ قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي الْعُرْسَاتِ وَالنِّيَاحَةِ عِنْدَ الْمُصِيْبَةِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’اور عامر بن سعد سے ہی مروی ایک روایت میں ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت قرظہ بن کعب اور ابو مسعود رضی اﷲ عنھما اور ایک اور شخص کا نام لیا ان کے پاس گیا، عبدالملک نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے درآنحالیکہ لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پس میں نے کہا: تم اس چیز کو جائز قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شادیوں اور مصیبت میں نوحہ کرنے کے لئے اس چیز کی اجازت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
114/ 7. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: حَضَرْتُ حَرْبًا، فَقَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ ص:
يَا نَفْسِ أَلَا أَرَاکِ تَکْرَهِيْنَ الْجَنَّةَ
أَحْلِفُ بِاﷲِ لَتَنْزِلِنَّهْ
طَائِعَةً أَوْ لَتُکْرِهَنَّهْ
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
7: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الجهاد، باب: القتال في سبيل اﷲ سبحانه وتعالی، 2/ 934، الرقم: 2793، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26066، وفي کتاب الأدب، 1/ 380، الرقم: 413، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 120، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2/ 612.613، الرقم: 258، وإسناده حسن، وابن منصور في السنن، 2/ 340، الرقم: 2835، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 154، الرقم: 18254، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3/ 529، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 899، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 95.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں موجود تھا، تو میں نے حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’اے نفس! میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو جنت میں جانا پسند نہیں کرتا، لیکن خدا کی قسم تجھے ضرور جنت میں جانا ہو گا، چاہے خوشی کے ساتھ جائے یا بغیر خوشی کے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابنِ ابی شیبہ، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو ابن ماجہ ابی شیبہ اور ابو نعیم اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔
115/ 8. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم بَنَی لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يُنْشِدُ عَلَيْهِ الشِّعْرَ.
116/ 9. وفي رواية: يَهْجُوْ عَلَيْهِ الْمُشْرِکِيْنَ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ شَاهِيْنَ وَابْنُ عَدِيٍّ وَوَافَقَهُ ابْنُ تَيْمِيَّةَ وَالذَّهَبِيُّ.
8-9: أخرجه الطحاوي في شرح معاني الاثار، 4/ 298، وابن شاهين في ناسخ الحديث ومنسوخه، 1/ 484، الرقم: 648، وابن عدي في الکامل، 4/ 274، الرقم: 1106، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1/ 214، والذهبي في ميزان الاعتدال، 4/ 300، الرقم: 4913.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بنوا رکھا تھا۔ وہ اس پر (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں) نعت پڑھتے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر کھڑے ہو کر (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دفاع میں) مشرکین کی ہجو کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’(اے حسان!) مشرکین کی ہجو کرو اور حضرت جبرائیل بھی تمہارے ساتھ (اس کام میں مدد گار) ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طحاوی، ابن شاہین اور ابن عدی نے روایت کیا ہے اور ابن تیمیہ اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
117/ 10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي اﷲ عنهما قَالَ: أَقْحَمَتِ السَّنَةُ نَابِغَةَ بَنِي جَعْدَةَ، فَأَتَی عَبْدَ اﷲِ الزُّبَيْرَ رضي اﷲ عنهما وَهُوَ جَالِسٌ بِالْمَدِيْنَةِ فَأَنْشَدَهُ فِي الْمَسْجِدِ.
حَکَيْتَ لَنَا الصِّدِّيْقَ لَمَّا وَلَّيْتَنَ
وَعُثْمَانَ وَالْفَارُوْقَ فَارْتَاحَ مَعْدُوْمُ
وَسَوَّيْتَ بَيْنَ النَّاسِ فِي الْحَقِّ فَاسْتَوَوْ
فَعَادَ صَبَاحًًا حَالِکَ اللَّوْنِ مُظْلَمُ
فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِلَيْکَ أَبَا لَيْلَی فَإِنَّ الشِّعْرَ أَهْوَنُ وَسَائِلِکَ عِنْدَنَا أَمَّا صَفْوَةُ مَالِنَا فَلِآلِ الزُّبَيْرِ وَأَمَّا عَفْوَتُهُ فَإِنَّ بَنِي أَسَدٍ يُشْغِلُهَا عَنْکَ وَتَمِيْمًا وَلَکِنْ لَکَ فِي مَالِ اﷲِ حَقَّانِ حَقٌ لِرُؤْيَتِکَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَحَقٌّ لِشِرْکَتِکَ أَهْلَ الإِسْلَامِ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَأُدْخِلَ دَارَ النِّعَمِ وَأُمِرَ لَهُ بِقَـلَائِصَ سَبْعٍ وَحُمِلَ وَخُيِّلَ وَأُوْقِرَ لَهُ الرِّکَابُ بُرًّا وَتَمْرًا …الحديث.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَالْفَاکِهِيُّ.
10: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18/ 364، الرقم: 933، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 673، الرقم: 989، والفاکهي في أخبار مکة، 1/ 308، الرقم: 636، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4/ 1518، وابن ماکولا في الإکمال، 1/ 488، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 190. 192، والعسقلاني في المطالب العالية، 9/ 606، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 25.
حضرت عبد اللہ بن عروہ بن زبیر سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت نابغہ بنی جعدہ رضی اللہ عنہ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعت خواں صحابی) پر ایک ایسا سال بیتا جس میں انہیں سخت قحط پڑ گیا تو وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما کے پاس مدینہ منورہ تشریف لائے۔ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے تو انہوں نے وہیں مسجد میں ہی انہیں اشعار سنانا شروع کر دیئے:
’’جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی حضرت ابو بکر، عمر فاروق اور عثمان غنی ث (جیسی اصطلاحات و سخاوت کر کے) ان کی حکایات دہرا دیں (یعنی آپ کی سخاوت کے واقعات بھی ان کی طرح زبان زدِ عام ہیں) ایسی (سخاوت کی) حکایات جس سے تنگدست و مفلس انسان راحت محسوس کرے۔ اور آپ نے بھی لوگوں کو (ان کی طرح ہی قوتِ) حق کے ساتھ سیدھا کیا تو وہ بالکل سیدھے ہوگئے، اور دکھوں اور غموں کا مارا سیاہ رنگت والا شخص (خوشحالی اور فرحت سے) روشن چہرے والا ہو گیا۔‘‘
تو حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: اے ابو لیلیٰ! تمہارے لئے ہم تک پہنچنے کے لئے (شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے) اشعار آسان مزین ذریعہ ہے۔ رہا ہمارے مال کا خالص حصہ تو وہ آل زبیر کے لئے ہے، اور اس کا باقی مانندہ حصہ تو وہ بنو اسد اور تمیم لے جاتے ہیں، لیکن تیرے لئے اللہ تعالیٰ کے مال میں دو حق ہیں، ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھنے کا حق (یعنی شرفِ صحابیت) اور دوسرا اہلِ اسلام میں شریک ہونے کا حق، پھر انہوں نے حکم دیا تو آپ کو بیت المال میں داخل کر دیا گیا، اور آپ کے لئے سات اونٹنیاں، گندم اور کھجوروں سے لدی ہوئی سواریاں عطا کیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، طبری اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔
118/ 11. عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ عليه الرحمة قَالَ: کُنَّا نُجَالِسُ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَتَنَاشَدُوْنَ الْأَشْعَارَ وَيَذْکُرُوْنَ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
119/ 12. وفي روایة: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کُنْتُ أُجَالِسُ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مَعَ أَبِي فِي الْمَسْجِدِ، فَيَتَنَاشَدُوْنَ الْأَشْعَارَ، وَيَذْکُرُوْنَ حَدِيْثَ الْجَاهِلِيَّةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
11-12: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف،5/ 273، 278، الرقم: 26023، 26061، وفي کتاب الأدب، 1/ 360، الرقم: 386، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 240، الرقم: 20910، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 540.
’’حضرت ابو خالد والبی علیہ الرحمہ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ ہم بسا اوقات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب کرام کے ساتھ نشست برپا کرتے تھے اور وہ اکثر شعر و شاعری میں مصروف ہوتے اس دوران کچھ جاہلیت کی زمانہ کی باتیں بھی بسبیل تذکرہ چھڑ جاتیں (جس سے ہم سب محظوظ ہوتے)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، پس وہ آپس میں ایک دوسرے کو اشعار سناتے اور زمانہ جاہلیت کی باتوں کا بھی تذکرہ چھڑ جاتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
120/ 13. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: لَمْ يَکُنْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مُنْحَرِفِيْنَ وَلَا مُتَمَاوِتِيْنَ، وَکَانُوْا يَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَيَذْکُرُوْنَ أَمْرَ جَاهِلِيَّتِهِمْ، فَإِذَا أُرِيْدُ أَحَدُهُمْ عَلَی شَيئٍ مِنْ دِيْنِهِ دَارَتْ حَمَالِيْقُ عَيْنَيْهِ کَأَنَّهُ مَجْنُوْنٌ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِسَنَدٍ حَسَنٍ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
13: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 278، الرقم: 26058، 7/ 158، الرقم: 34957، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 195، الرقم: 555، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 540.
’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب با وفا تھے اور وہ کبھی بھی اپنے دین سے منحرف نہ ہوئے اور نہ ہی ان میں کوئی سستی یا کاہلی پائی جاتی تھی بلکہ وہ اکثر اوقات اپنی مجالس میں شاعری کرتے اور جاہلیت کے امور کا بھی تذکرہ کرتے اور جب ان کے (آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے)دین کو کوئی برا بھلا کہتا تو وہ برہم ہوجاتے اور اس برہمی کا اظہار ان کی آنکھوں میں نظر آتا اور غصہ سے ان کی آنکھوں کی پتلیاں گھومنے لگتیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے سند حسن کے ساتھ اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
121/ 14. عَنْ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ کَيْسَانَ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَوَقَفَ عَلَيْهِ إِيَاسُ بْنُ خَيْثَمَةَ قَالَ: أَلاَ أُنْشِدُکَ مِنْ شِعْرِي يَا ابْنَ الْفَارُوْقِ؟ قَالَ: بَلَی وَلَکِنْ لاَ تُنْْشِدْنِي إِلاَّ حَسَنًا فَأَنْشَدَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
’’حضرت خالد بن کیسان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہماکے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس حضرت ایاس بن خیثمہ آئے اور عرض کیا: اے ابن فاروق! کیا میں آپ کو اپنا (شاعرانہ) کلام نہ سناؤں؟ آپ نے جواب میں فرمایا: لیکن مجھے اچھے کلام (شاعری) کے علاوہ نہ سنانا سو ایاس بن خیثمہ نے انہیں (حمد و نعت پر مشتمل) عمدہ کلام سنایا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
122/ 15. وفي رواية: أَتَی ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما شَاعِرٌ فَأَعْطَاهُ دِرْهَمَيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
14.15: أخرجه البخاري فيالأدب المفرد، 1/ 297، الرقم: 856، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 155، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 540.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہماکی خدمت میں ایک شاعر آیا تو آپ نے (بہترین کلام سنانے پر) اسے دو درہم انعام عطا فرمائے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
123/ 16. عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ عليه الرحمة قَالَ: کُنْتُ أَجْلِسُ مَعَ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَلَعَلَّهُمْ لاَ يَذْکُرُوْنَ إِلاَّ الشِّعْرَ حَتَّی يَتَفَرَّقُوْا.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
16: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 274، الرقم: 26027، وفي کتاب الأدب، 1/ 360، الرقم: 387.
’’حضرت ابو خالد والبی علیہ الرحمۃ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام کی محافل میں بیٹھا کرتا تھا تو جب تک مجلس برخاست نہ ہو جاتی حاضرین مجلس ماسوائے شعر کے شاید ہی کسی اور موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
124/ 17. عَنْ خَيْثَمَةَ قَالَ: أَتَی عُمَرَ رضی الله عنه شَاعِرٌ فَقَالَ: أُنْشِدُکَ فَاسْتَنْشَدَهُ، فَجَعَلَ هُوَ يُنْشِدُ وَذَکَرَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم فِي شِعْرهِ، فَقَالَ: غَفَرَ اﷲُ لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم بِمَا صَبَرَ. فَقَالَ: يَقُوْلُ عُمَرُ رضی الله عنه: قَدْ فَعَلَ، قَالَ: ثُمَّ أَبَا بَکْرٍ جَمِيْعًا وَعُمَرَ فَقَالَ: مَا شَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
17: أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1/ 146، الرقم: 125، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26025، وفي کتاب الأدب، 1/ 362، الرقم: 389.
’’حضرت خثیمہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شاعر آیا اور آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: میں آپ کو شعر سنانے کی درخواست کرتا ہو چنانچہ اس نے شعر سنانا شروع کیا اور اس ضمن میں اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر کیا اور کہنے لگا:
’’کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر رحمت فرمائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کی نشرو اشاعت میں مصیبتوں پر صبر کیا۔‘‘
’’حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ (پھر شاعر نے کہا:) اس کے بعد ان کے رفیق غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بلکہ سب جانثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی طرہ امتیاز رہا ہے۔ تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو (یعنی تمام صحابہ منشائِ الٰہی پر ہی راضی رہتے تھے)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
125/ 18. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: اسْتَلْقَي الْبَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ رضی الله عنه عَلَی ظَهْرِهِ ثُمَّ تَرَنَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَنَسٌ رضی الله عنه: اذْکُرُ اﷲَ أَي أَخِي، فَاسْتَوَی جَالِسًا. فَقَالَ: أَي أَنَسُ، أَتَرَانِي أَمُوْتُ عَلَی فِرَاشِي، وَقَدْ قَتَلْتُ مِئَةً مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ مُبَارَزَةً سِوَی مَنْ شَارَکْتُ فِي قَتْلِهِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ چت لیٹے ہوتے تھے پھر کچھ گنگنانے لگے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اے میرے بھائی! اللہ تعالیٰ کو یاد کیجئے، تو اس پر حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: اے انس، کیا تم چاہتے ہو کہ میں اپنے بستر پر (لیٹے لیٹے بیماری کی حالت میں ہی) موت کے حوالے ہو جاؤں، حالانکہ میں نے دورانِ جہاد تقریبا سو افراد مشرکین کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ہے ماسوائے چند جنگوں کے جب میں نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر (جہاد میں انہیں) قتل کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
126/ 19. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی أَخِيْهِ الْبَرَاءُ وَهُوَ مُسْتَلْقٍ، وَاضِعًا إِحْدَی رِجْلَيْهِ عَلَی اْلأُخْرَی يَتَغَنَّی (وفي رواية: هُوَ يَتَغَنَّی وَيُرَنِّمُ قَوْسَهُ. وفي رواية: وَهُوَ يَقُوْلُ الشِّعْرَ) فَنَهَاهُ فَقَالَ: أَتَرْهَبُ أَنْ أَمُوْتَ عَلَی فِرَاشِي وَقَدْ تَفَرَّدْتُ بِقَتْلِ مِائَةٍ مِنَ الْکُفَّارِ سِوَی مَنْ شَرَکَنِي فِيْهِ النَّاسُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
18-19: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 5/ 233، الرقم: 9469، 11/ 6، الرقم: 19742، وابن أبي شيبة في المصنف، 4/ 212، 467، الرقم: 19399، 26026، وفي کتاب الأدب، 1/ 362، الرقم: 390، والحاکم في المستدرک، 3/ 330، الرقم: 5272، والطبراني في المعجم الکبير، 1/ 245، الرقم: 691.692، 2/ 26.27، الرقم: 1178. 1179، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 350، وابن سعد في الطبقات الکبری، 7/ 16، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1/ 153، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 324، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/ 198.
’’ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے بھائی حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس گئے درآنحالیکہ وہ چت لیٹے، اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھے گنگنا رہے تھے (ایک روایت میں ہے کہ گنگناتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنی کمان بھی بجا رہے تھے، اور ایک روایت میں ہے کہ شعر پڑھ رہے تھے) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا تو انہوں نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں اپنے بستر پر ہی (بیماری سے) مرجاؤں حالانکہ میں نے خود سو کفار کو (دورانِ جہاد) قتل کیا، وہ قتل اس کے علاوہ ہیں جو میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ (اجتماعی طور پر شامل جہاد) ہو کر کئے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
127/ 20. عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں دیکھا جو کہ علمِ شعر، علم الفرائض (یعنی علم المیراث) اور اسی طرح علم فقہ کا بھی ماہر ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
128/ 21. وفي رواية: عَنْ هِشَامٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ: تَرَکْتُهَا يَعْنِي عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَبْلَ أَنْ تَمُوْتَ بِثَـلَاثِ سِنِيْنَ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِکِتَابِ اﷲِ وَلَا بِسُنَّةٍ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا فَرِيْضَةٍ مِنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
20-21: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 276، الرقم: 26048، وفي کتاب الأدب، 1/ 365، الرقم: 395، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 49، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4/ 1883، والمزي في تهذيب الکمال، 35/ 234، والذهبي في تذکرة الحفاظ، 1/ 28، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 2/ 32، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 12/ 463، وفي الإصابة، 8/ 18.
’’اور ایک روایت میں حضرت ہشام (بن عروہ) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیا ن کیا ہے کہ میں نے اپنے والد (حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ) سے سنا وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہما کو ان کی وفات سے تین سال قبل اس حال میں چھوڑا تھا کہ میں نے کتاب اﷲ، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت، علم اشعار اور علم الفرائض (یعنی علم میراث) کا ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
129/ 22. عَنْ عِکْرِمَةَ يَقُوْلُ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيئٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَنْشَدَ شِعْرًا مِنْ أَشْعَارِهِمْ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے قرآن پاک میں سے کوئی چیز پوچھی جاتی، تو وہ اس (کی تشریح اور وضاحت کے لئے) عربوں کے اشعار میں سے کوئی شعر پڑھتے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
130/ 23. وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: {يَوْمَ يَکْشَفُ عَنْ سَاقٍ} ]القلم، 68:42[ قَالَ: إِذَا خَفِيَ عَلَيْکُمْ شَيئٌ مِنَ الْقُرْآنِ فَابْتَغُوْهُ فِي الشِّعْرِ فَإِنَّهُ دِيْوَانُ الْعَرَبِ…الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے جب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اور جس دن ساق (یعنی اَحوال قیامت کی ہولناک شدت) سے پردہ اٹھایا جائے گا؟‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن کریم میں سے کوئی چیز تم پر واضح نہ ہو رہی ہو تو تم اسے عربوں کے اشعار میں تلاش کرو، کیونکہ شعر عربوں کا دیوان ہےالحدیث۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے، اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
131/ 24. وفي رواية: عَنِ عِکْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: إِذَا قَرَأَ أَحَدُکُمْ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ فَلَمْ يَدْرِ مَا تَفْسِيْرُهُ، فَلْيَلْتَمِسْهُ فِي الشِّعْرِ، فَإِنَّهُ دِيْوَانُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَقَالَ: هَذَا هُوَ الصَّحِيْحُ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص قرآن کریم میں سے کوئی چیز پڑھے، اور اس کی تفسیر نہ جان سکے، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے عربوں کے اشعار میں تلاش کرے، کیونکہ شعر عربوں کا دیوان ہےالحدیث۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہی درست ہے۔
132/ 25. وفي رواية: عَنِ عِکْرِمَةَ أَنَّهُ (يعني ابن عبّاس رضي اﷲ عنهما) کَانَ يَرْوِي الشِّعْرَ وَيَسْتَخْرِجُ الآيَاتِ مِنَ الْقُرْآنِ وَکَانَ يَرْوِي شِعْرًا حَسَنًا فِيْهِ هَجَاءٌ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
22-25: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 276، الرقم: 26049، وفي کتاب الأدب، 1/ 366، الرقم: 396، والحاکم في المستدرک، 2/ 542، الرقم: 3845، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 678، الرقم: 994، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 241، الرقم: 20913، وفي شعب الإيمان، 2/ 258، الرقم: 1683، والسيوطي في الدر المنثور، 8/ 254.
’’اور ایک روایت میں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ وہ (یعنی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما) شعر روایت کرتے تھے، اور قرآن کریم سے آیات کا استخراج کرتے تھے، اور آپ عمدہ شعر روایت کرتے تھے، جس میں (حمد و نعت کے ساتھ ساتھ کفار و مشرکین کی) ہجو بھی ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
133/ 26. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: مَا سَمِعْتُ بِشِعْرٍ أَحْسَنَ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ رضی الله عنه وَلَا تَمَثَّلْتُ بِهِ إِلَّا رَجَوْتُ لَهُ الْجَنَّةَ، قَوْلُهُ لِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ:
هَجُوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
أَتَشْتِمُهُ وَلَسْتَ لَهُ بِکُفْئٍ
فَشَرُّکُمَا لِخَيْرِکُمَا الْفَدَاءُ
لِسَانِي صَارِمٌ لَا عَيْبَ فِيْهِ
وَيَجْرِي لَا تُکَدِّرُهُ الدَّلاَّءُ
فَقِيْلَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ، أَلَيْسَ هَذَا لَغْوًا؟ قَالَتْ: لَا، إِنَّمَا اللَّغْوُ مَا قِيْلَ عِنْدَ النِّسَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.
26: أخرجه الطبري في جامع البيان، 18/ 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 274، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 158، والمزي في تهذيب الکمال، 35/ 39.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شعر نہیں سنا کہ جو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شاعری سے بہتر ہو اور میں نے جب بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا تو ان کے لئے جنت کی آرزو کی۔ (بالخصوص) ان کا وہ شعر جو کہ ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب (ہجو میں) انہوں نے کہا تھا:
’’تو نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مذمت کی تو میں تجھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے اس مذمت کا جواب دیتا ہوں اور یہ کہ اس جواب کی جزاء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاؤں گا، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرے والد اور میرے دادا اور میری شرافت اور ناموس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ناموس و شرافت کو تم سے بچانے والی (ڈھال) ہے۔ تمہاری مجال کیسے ہوئی کہ تم (ہمارے آقا) محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (سبُّ و شتم) کرو جبکہ تم تو خود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مقدس نعلین کے برابر بھی نہیں گردانے جاتے۔ بس پھر یہ بات ٹھہری کے تمہارا شر تمہارے خیر پر قربان ہو گیا میری زبان تو (گستاخِ رسول کے خلاف) تیزی سے کاٹ کرنے والی ہے اور اِس میں کوئی عیب اور دوہرا معیار نہیں (یعنی ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دفاع میں ہم ساری مصلحتیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں) اور یہ زبان آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائی میں ہمیشہ محو رہی ہے اور آئندہ بھی اسی ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت گوئی میں ہی مصروف رہے گی۔ اور کوئی پلیدی اسے گدلا نہیں کرسکے گی۔‘‘
تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ اے اُمّ المؤمنین! کیا یہ لغو بات نہیں؟ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: نہیں، بلکہ فضول باتیں وہ ہیں جو عورتوں کے ہاں بطور تغزل کہی جاتی ہیں۔ (جبکہ یہ تو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
134/ 27. عَنْ هِشَامٍ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ مَحَمَّدًا (يعني ابن سيرين) وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَالرَّجُلُ يُرِيْدُ أَنْ يُصَلِّيَ أَيَتَوَضَّأُ مَنْ يُنْشِدُ الشِّعْرَ وَيُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ: وَأَنْشَدَهُ أَبْيَاتًا مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ذَلِکَ الدَّقِيْقِ ثُمَّ افْتَتَحَ الصَّـلَاةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ نَحْوَهُ.
’’حضرت ہشام سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ مسجد میں تشریف فرما تھے اس وقت ایک سائل نے جو کہ نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا ان سے سوال کیا کہ جو شخص مسجد میں شعر گنگناتا ہے کیا وہ شخص (نماز پڑھنے سے پہلے دوبارہ) وضو کرے؟ تو راوی بیان کرتے ہیں کہ امام ابن سیرین نے (اس شخص کو مسئلہ سمجھانے کے لئے اسی وقت) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار میں سے کچھ (نہایت عمدہ اور) معنی خیز شعر سنائے پھر (بغیر دوبارہ وضو کئے) نماز کا آغاز فوراً کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے بھی اس طرح روایت کیا ہے۔
135/ 28. وفي رواية: عَنْ جَرِيْرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيْرِيْنَ تَوَضَّأَ ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لِيُصَلِّيَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ أُخْتِهِ يُوْسُفُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْحَارِثِ: يَا خَالِي، أَنِّي سَمِعْتُ نَاسًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ الشِّعْرَ يَنْقُضُ الْوُضُوْءَ قَالَ: فَأَنْشَدَ مُحَمَّدٌ عَشَرَةَ أَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه مِنْ هَجَائِهِ ثُمَّ کَبَّرَ مُحَمَّدٌ لِلصَّـلَاةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
27-28: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26064، وفي کتاب الأدب، 1/ 380، الرقم: 412، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 275، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 149، الرقم: 92.
’’اور ایک روایت میں حضرت جریر بن حازم علیہ الرحمہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لائے، تو ان کے بھانجے حضرت یوسف بن عبد اللہ بن حارث نے ان سے دریافت کیا: ماموں جان! میں نے لوگوں کو مسجد میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ شعر کہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے (یعنی امام ابن سیرین نے بھانجے کو مسئلہ سمجھانے کے لئے پہلے) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے وہ دس اشعار پڑھے جو انہوں نے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اور) کفار و مشرکین کی ہجو میں کہے تھے، پھر انہوں نے (بغیر نیا وضو کیے) نماز کے لیے تکبیر کہی (اور نماز پڑھنا شروع کردی)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔
136/ 29. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّهَا تَمَثَّلَتْ بِهَذَا الْبَيْتِ وَأَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه يَقْضِي:
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
رَبِيْعُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: ذَاکَ وَاﷲِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
29: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 7، الرقم: 26، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26067، 6/ 535، الرقم: 31967، وفي کتاب الأدب، 1/ 381، الرقم: 414، وابن سعد في الطبقات الکبري، 3/ 198، والمروزي في مسند أبي بکر، 1/ 91، الرقم: 39، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 272، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5/ 158.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ وہ یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ (ان شعار کے بارے) فیصلہ فرماتے تھے:
وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر سن کر فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی قسم! اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات والا صفات ہی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
137/ 30. عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم يَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ عِنْدَ الْبَيْتِ أَوْ حَوْلَ الْبَيْتِ لَا أَعْلَمُ إِلاَّ قَالَ مُحْرَمِيْنَ. شَکَّ إِبْرَاهِيْمُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کے پاس یا اس کے ارد گرد ایک دوسرے کو اشعار سنا رہے تھے اور شاید انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حالت احرام میں تھے ابراہیم راوی کو شک گزرا ہے (کہ آپ نے ایسا کہا تھا یا نہیں)۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
138/ 31. وفي رواية: عَنْ سُفْيَانَ عَنْ رَجُلٍ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ رضي اﷲ عنهما کَانَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ وَهُوَ يَطُوْفُ بِالْبَيْتِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’اور ایک روایت میں حضرت سفیان ایک (ثقہ) آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اشعار پڑھتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
139/ 32. وفي رواية: عَنْ أمِّ خِدَاشٍ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وََأَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ عُمَرَ بْنُ حَبِيْبٍ: وَأَنَا أَشُکُّ فِي أَحَدِ هَذَيْنِ: ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما وَأَبِي هُرَيْرَةَ، يَتَحَدَّثُوْنَ فِي الطَّوَافِ، وَيَتَنَاشَدُوْنَ الْأَشْعَارَ. رَوَاهُ الْفَاکِهِيُّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت اُمّ خِداش رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس، ابو سعید خدری اور جابر بن عبد اﷲ کی زیارت کی۔ (راوی) عمر بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ مجھے ان دونوں یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں کسی کی ایک کے بارے میں شک گزرا (کہ انہوں نے کس کا نام لیا تھا)، وہ سب دورانِ طواف میں آپس میں بات چیت کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو اشعار سنا رہے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام فاکہی نے روایت کیا ہے۔
140/ 33. وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ وَهَمْ يَطُوْفُوْنَ.
رَوَاهُ الْفَاکِهِيُّ وَالذَّهَبِيُّ.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام حالتِ طواف میں بھی ایک دوسرے کو (شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مشتمل) اشعار سناتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام فاکہی اور ذہبی نے روایت کیا ہے۔
141/ 34. وفي رواية: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ بَرَکَةَ عَنْ أُمِّهِ قَالَتْ: کُنْتُ مَعَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فِي الطَّوَافِ، فَتَذَاکَرُوْا حَسَّانَ ص، فَوَقَعُوْا فِيْهِ فَنَهَتْهُمْ عَنْهُ، فَقَالَتْ: أَلَيْسَ هُوَ الَّذِي يَقُوْلُ:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَتِي وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
رَوَاهُ ابْنُ جُبَيْرٍ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ.
30-34: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 281، الرقم: 26080، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 240، الرقم: 20908، والفاکهي في أخبار مکة، 1/ 306.307، الرقم: 632.633، وابن جبير في حديث المصيصي لوين، 1/ 52، الرقم: 28، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 396، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 20، والذهبي في ميزان الاعتدال، 7/ 50، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 10/ 426.
’’اور ایک روایت میں محمد بن سائب بن برکہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ میں طواف کے دوران حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ تھی کہ بعض لوگوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور انہیں برا بھلا کہا، تو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ان لوگوں کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا اور فرمایا: کیا وہ (یعنی حضرت حسان) نہیں ہیں جو (اپنے اشعار میں) یہ کہتے رہے ہیں:
’’تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، تو میں ان کی طرف سے تجھے جواب دیتا ہوں، اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کام کا اجر و ثواب ہے، اور بے شک میرے والد، اور والدہ اور میری عزت، تم سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت کو بچانے کے لئے ڈھال ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن جبیر نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے، اس کے علاوہ ابن عساکر اور مزی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
142/ 35. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْمَدِيْنَةَ … فَتَلَقَّی النَّاسَ وَالْعَوَاتِقَ فَوْقَ الْجَاجِيْرِ، وَالصِّبْيَانُ وَالْوَلَائِدُ يَقُوْلُوْنَ:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَ
مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَ
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعِ
وَأَخَذَتِ الْحَبَشَةُ يَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ لِقُدُوْمِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَرَحًا بِذَلِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَمُحِبُّ الدِّيْنِ الطَّبَرِيُّ.
35: أخرجه ابن حبان في الثقات، 1/ 131، وابن عبد البر في التمهيد، 14/ 82، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 261، 8/ 129، والعيني في عمدة القاري، 17/ 60، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1/ 480.
’’حضرت عبید اﷲ بن عائشہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چھتوں پر پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تھے:
’’ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہرہ والضحیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) طلوع ہوگیا، اور ہم پر اس وقت تک شکر واجب ہوگیا جب تک کوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا دعوت دے رہا ہے۔ (یعنی جب تک کوئی بھی خدا کا نام لینے والا باقی رہے گا)۔‘‘
’’اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ کے لوگ اپنے آلات حرب کے ساتھ رقص کرتے رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں، ابن عبد البر، عسقلانی اور محب طبری نے روایت کیا ہے۔
143/ 36. عَنْ مِطْرَفِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الشَّخِيْرِ قَالَ: صَحَبْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما مِنَ الْکُوْفَةِ إِلَی الْبَصْرَةِ، فَمَا أَتَی عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلاَّ أَنْشَدَنَا فِيْهِ شِعْرًا. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’حضرت مطرف بن عبد اﷲ بن شخیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں کوفہ سے بصرہ تک کے سفر میں حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہما کے ساتھ سفر کیا پس کوئی دن ایسا نہ گزرا جس میں انہوں نے ہمیں کوئی شعر نہ سنایا ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن ابی شیبہ، بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں، اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
144/ 37. وفي رواية عنه قال: صَحَبْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَی مَکَّةَ، وَکَانَ يُنْشِدُنِي کُلَّ يَوْمٍ ثُمَّ قَالَ لِي: إِنَّ الشِّعْرَ کَـلَامٌ وَإِنَّ مِنَ الْکَـلَامِ حَقًّا وَبَاطِـلًا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
36-37: أخرجه الطبری في تهذيب الآثار، 2/ 638، الرقم: 943، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 275، الرقم: 26037، وفي کتاب الأدب، 1/ 352، الرقم: 375، والبخاري فيالأدب المفرد، 1/ 305، الرقم: 885، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 106، الرقم: 201، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 240، الرقم: 20911، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 130.
اور ایک روایت میں ان ہی سے مروی ہے کہ بصرہ سے مکہ تک میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہما کے ساتھ سفر کیا اور آپ مجھے ہر روز شعر سناتے تھے، پھر مجھے فرماتے: ’’بے شک شعر کلام ہوتا ہے، اور بے شک کلام حق بھی ہوتا ہے اور باطل بھی۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
145/ 38. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ عُمَرُ رضی الله عنه يَتَمَثَّلُ بِهَذَا الْبَيْتِ.
إِلَيْکَ تَغْدُوْ قَلِقًا وَضِيْنُهَ
مُعْتَرِضًا فِي بَطْنِهَا جَنِيْنُهَ
مُخَالِفًا دِيْنَ النَّصَارَی دِيْنُهَ
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
38: أخرجه ابن أبي شيبة فيالمصنف، 5/ 275، الرقم: 26041، وفي کتاب الأدب،1/ 355، الرقم: 379.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
’’اور وہ دبلی پتلی اونٹنی تیزی سے تیری طرف دوڑتی ہے، درآنحالیکہ اس کا بچہ اس کے پیٹ میں نمایاں ہے، اور اس کا دین عیسائیوں کے دین کے خلاف ہے۔‘‘
(اس کے دین سے مراد شاعر کا اپنا دین ہے، کیونکہ اونٹنی کا کوئی دین نہیں ہوتا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
146/ 39. عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها کَانَتْ تَتَمَثَّلُ بِهَذَيْنِ الْبَيْتَيْنِ مِنْ قَوْلِ لَبِيْدٍ:
ذَهَبَ الَّذِيْنَ يُعَاشُ فِي أَکْنَافِهِمْ
وَبَقِيْتُ فِي خَلْفٍ کَجِلْدِ الْأَجْرَبِ
يَتَأَکَّلُوْنَ مُشِيْحَةً وَخِيَانَةً
وَيُعَابُ قَائِلُهُمْ وَإِنْ لَمْ يَشْغَبِ
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
39: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 275، الرقم: 46040، وفي کتاب الأدب، 1/ 354، الرقم: 378، والخطابي في العزلة، 1/ 69، وفي غريب الحديث، 2/ 586.
’’حضرت عروہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اکثر لبید بن ربیعہ (عرب شاعر) کے یہ دو اشعار پڑھا کرتی تھیں:
’’وہ لوگ چلے گئے جن کے سائے تلے جیا جاتا تھا، اور میں خارش زدہ شخص کی جلد کی طرح باقی رہ گیا، وہ احتیاط اور خیانت کرنے کے باوجود بوسیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اور اُن کے قائل کو عیب لگایا جاتا ہے، اگرچہ وہ فتنہ و فساد پھیلانے والا نہ ہی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
147/ 40. عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: کَانَ قَتَادَةُ يَسْتَنْشِدُنِي الشِّعْرَ فَأَقُوْلُ لَهُ: أُنْشِدُکَ بَيْتًا وَتُحَدِّثْنِي بِحَدِيْثٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
40: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 680، الرقم: 999، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 271، الرقم: 354، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7/ 154، والتميمي في أدب الإملاء والاستملاء، 1/ 71، والرامهرمزي في المحدث الفاضل، 1/ 593، والذهبي في تذکرة الحفاظ، 1/ 196، وفي سير أعلام النبلاء، 7/ 212.
حضرت شعبہ سے مروی ہے کہ حضرت قتادہ شعر سنا کرتے تھے تو میں اُن سے عرض کیا کرتا کہ میں آپ کو شعر سناؤں گا اور آپ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بیان فرمائیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن ابی الدنیا اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
148/ 41. عَنْ أَبِي الْعُرْيَانِ قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْکَةَ عليه الرحمة يُنْشِدُ الشِّعْرَ وَغُـلَامُهُ يَقُوْلُ: ’’سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَاﷲُ أَکْبَرُ‘‘ فَيَقُوْلُ ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَعُوْدُ إِلَی الشِّعْرِ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
41: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 678، الرقم: 993.
’’حضرت ابو عریان سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے امام ابن ابی ملیکہ علیہ الرحمہ کو شعر پڑھتے ہوئے سنا جبکہ ان کا غلام (ان کے اشعار سُن کر فرحت و مسرت سے) کہہ رہا تھا: (سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَاﷲُ أَکْبَرُ) تو ابن ابی ملیکہ بھی یہی کہتے جا رہے تھے پھر اپنے اشعار سنانے لگے۔‘‘
اسے امام طبری نے بیان کیا ہے۔
149/ 42. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيْرِيْنَ أَنْشَدَ شَابًّا شِعْرًا قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: تُنْشِدُهُ قَالَ: إِنَّهُ عَرُوْسٌ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
42: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 680، الرقم: 998.
’’حضرت قتادہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ کو ایک نوجوان کو شعر سناتے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا: آپ اس نوجوان کو شعر سنا رہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں کیونکہ یہ ایک دولہا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
150/ 43. عَن شُعْبَةَ قَالَ: کَانَ سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ رضی الله عنه إِذَا کَانَ لَهُ إِلَی عَامِلٍ حَاجَةٌ مَدَحَهُ بَيْتَيْنِ فَقَضَی حَاجَتَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
43: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 680، الرقم: 1000.
حضرت شعبہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ کو جب کسی (ایماندار) عامل سے کوئی حاجت ہوتی تو آپ دو شعروں سے اس کی تعریف کر دیتے تھے بس وہ آپ کی حاجت پوری کر دیتا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
151/ 44. عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: کُنْتُ أَرَی عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ عُمَيْرٍ وَمَعْبَدَ بْنَ خَالِدٍ رضي اﷲ عنهما يُنْشِدَانِ الشِّعْرَ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَهُمَا قَاعِدَانِ فِي الْمَسْجِدِ قَبْلَ صَـلَاةِ الصُّبْحِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
44: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 679، الرقم: 997.
’’امام شعبہ علیہ الرحمہ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضرت عبد الملک بن عمیر اور حضرت معبد بن خالد رضی اللہ عنہما کو اقامتِ نماز کے وقت شعر پڑھتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ نمازِ فجر سے پہلے مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
152/ 45. عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَأَلْتُ شُعْبَةَ عليه الرحمة قُلْتُ: مَا تَرَی فِي الشِّعْرِ الرَّقِيْقِ؟ قَالَ: أَنْشَدَنِي ابْنُ عَوْنٍ شِعْرًا رَقِيْقًا. قَالَ: وَأَخْبَرَنِي قَتَادَةُ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی ابْنِ سِيْرِيْنَ وَهُوَ فِي السِّجْنِ فَإِذَا هُوَ يُکَتِّبُ رَجُـلًا شِعْرًا رَقِيْقًا. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
45: أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 678، الرقم: 995.
’’امام حجاج بن محمد علیہ الرحمہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت کیا اور پوچھا کہ حضرت آپ شفاف اور اچھے (یعنی حمد و نعت پر مشتمل) شعر کو کیسے دیکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ابن عون نے مجھے بہت شفاف اور با معنی شعر سنایا اور فرمایا کہ مجھے حضرت قتادہ نے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ امام ابن سیرین علیہ الرحمہ کے پاس گئے جبکہ وہ جیل میں تھے تو کیا دیکھا کہ وہ ایک آدمی کو شعر رقیق (یعنی دل کو نرم کر دینے والے اشعار) لکھوا رہے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔
153/ 46. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيْهِ سَمِعَ رَجُـلًا يَتَغَنَّی بِفُـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَقَالَ: الْغِنَاءُ مِنْ زَادِ الرَّاکِبِ أَوْقَالَ: مِنْ زَادِ الْمُسَافِرِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
’’حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے کسی ویران زمین میں کسی آدمی کو گاتے ہوئے سنا، تو انہوں نے فرمایا: غنا سوار کا زادِ راہ ہے، یا فرمایا: مسافر کا زادِ راہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
154/ 47. وفي رواية: عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ زَادُ الرَّاکِبِ الْغِنَاءُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مسافر کا بہترین زادِ راہ غنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
155/ 48. وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اﷲِ بْنَ الْأَرْقَمِص رَافِعًا عَقِيْرَتُهُ يَتَغَنَّی. قَالَ عَبْدُ اﷲِ: وَلَا، وَاﷲِ، مَا رَأَيْتُ رَجُـلًا قَطُّ مِمَّنْ رَأَيْتُ وَأَدْرَکْتُ أَرَاهُ قَالَ: کَانَ أَخْشَی ِﷲِ مِنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْأَرْقَمِص. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عتبہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن ارقم رضی اللہ عنہ کو بلند آواز میں گنگناتے ہوئے سنا۔ حضرت عبد اﷲ (راوی) نے بیان کیا کہ اﷲ کی قسم! میں نے کبھی بھی، ان لوگوں میں جنہیں میں نے دیکھا ہے اور جن سے میں ملا ہوں، کسی شخص کو حضرت عبد اﷲ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
156/ 49. وفي رواية: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهَ رَأَی أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَث وَاضِعًا إِحْدَی رِجْلَيْهِ عَلَی الْأُخْرَی يَتَغَنَّی النَّصْبَ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
’’اور ایک روایت میں امام محمد بن نوفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی ہے اور وہ سریلی آواز میں گنگنا رہے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق، بیہقی اور ابن عبد البر نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
157/ 50. وفي رواية: عَنِ الْعُجَاجِ قَالَ: أَنْشَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ:
طَافَ الْخَيَالَانِ فَهَاجَا تَغَنِّیً
خَيَالُ خَيَالٍ تُکَنَّی تُکْتَمَ
فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ: قَدْ کُنَّا نُنْشِدُ مِثْلَ هَذَا عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَـلَا يُعَابُ عَلَيْنَا. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عجاج روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ شعر سنایا:
’’دو خیال خواب میں آئے اور گنگنانے کے اعتبار سے ان میں اشتعال پیدا ہوگیا، خیال کا خیال سے کنایہ لیا جاتا ہے اور چھپایا جاتا ہے۔‘‘
تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اس طرح کے اشعار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے، اور ہمیں برا بھلا نہیں کہا جاتا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
158/ 51. وفي رواية: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَتی عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍص زَائِرًا، فَسَمِعَهُ يَتَغَنَّی. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
46.51: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11/ 5، الرقم: 19739، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 68، الرقم: 8964، 10/ 224.225، الرقم:20804، 20806، وابن عبد البر في الاستذکار، 8/ 240، 241، وفي التمهيد، 22/ 197.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں گنگناتے ہوئے سنا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
159/ 52. عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه شَاعِرًا وَکَانَ عُمَرُ رضی الله عنه شَاعِرًا وَکَانَ عَلِيُّص شَاعِرًا. وفي رواية: وَکَانَ عَلِيُّ رضی الله عنه أَشْعَرُ الثَّـلَاثَةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
52: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 274، الرقم: 26028، وفي کتاب الأدب، 1/ 346، الرقم: 366، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42/ 520، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 1225، الرقم: 1999.
’’امام شعبی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، عمر اور علی ث شاعر تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تینوں احباب میں بڑھ کر شاعر تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن عساکر اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
160/ 53. عَنْ أَبِي الضُّحَی أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی الله عنه اسْتَنْشَدَ مَعَدِيْکَرِبَ فَأَنْشَدَهُ وَقَالَ: مَا اسْتَنْشَدْتُ فِي الإِْسْـلَامِ أَحَدًا قَبْلَکَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
53: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 274، الرقم: 26030، 7/ 267، الرقم: 35955، وفي کتاب الأدب، 1/ 348، الرقم: 368، وابن سعد في الطبقات الکبری، 6/ 57.
’’حضرت ابو ضحی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت معدیکرب رضی اللہ عنہ کو شعر سنانے کے لئے کہا تو انہوں نے آپ کو شعر سنایا اور حضرت ابوبکر نے فرمایا: میں نے تجھ سے پہلے کسی سے شعر سنانے کے لئے نہیں کہا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
161/ 54. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: قَالَ أَبُوْبَکْرٍ: رُبَّمَا قَالَ الشَّاعِرُ الْکَلِمَةَ الْحَکِيْمَةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
54: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 274، الرقم: 26031، وفي کتاب الأدب، 1/ 348، الرقم: 369، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 540.
’’حضرت عبد اﷲ بن عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بعض اوقات شاعر حکمت پر مبنی کلمہ کہہ دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
162/ 55. عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ: کُنْتُ أَسِيْرُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما وَنَحْنُ مُنْطَلِقُوْنَ إِلَی عَرَفَاتٍ، فَکُنْتُ أُنْشِدُهُ الشِّعْرَ، وَهُوَ يَفْتَحُهُ عَلَيَّ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
55: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 275، الرقم: 26036، وفي کتاب الأدب، 1/ 352، الرقم: 374.
’’حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ساتھ چلا کرتا تھا، جبکہ ہم عرفات کی طرف جا رہے ہوتے، تو میں انہیں شعر سناتا جاتا تھا اور وہ میرے لئے شعر کی ابتدا کرتے تھے (پھر میں اسے مکمل طور پر سناتا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
163/ 56. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ عَنْ کَثِيْرِ بْنِ أَفْلَحَ قَالَ: کَانَ آخِرُ مَجْلِسٍ جَلَسْنَا فِيْهِ مَعَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه مَجْلِسًا تَنَاشَدْنَا فِيْهِ الشِّعْرَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
56: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 275، الرقم: 26038، وفي کتاب الأدب، 1/ 353، الرقم: 376.
’’امام محمد بن سیرین، حضرت کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ ہماری آخری مجلس وہ تھی جس میں ہم حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے اور ایک دوسرے کو شعر سنائے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا۔
164/ 57. عَنِ الْحَکَمِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَيص أَنْشَدَ شِعْرًا فِي الْمَسْجِدِ وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيْمُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرِيُّ.
’’حضرت حکم سے روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ نے مسجد میں شعر پڑھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور طبری نے روایت کیا ہے۔
165/ 58. وفي رواية: عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه کَانَ يُنْشِدُ شِعْرًا فِي الْمَسْجِدِ وَحَدَّثَهُمْ بِهِ بِالْْيَمَنِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
57-58: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 276، الرقم: 26043، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 660،الرقم: 996، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 59/ 415.
’’اور ایک روایت میں ہے حضرت عروہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ مسجد میں شعر سناتے تھے، انہوں نے یہ بات یمن میں بیان کی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
166/ 59. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ يَسِيْرُ مَعَ عُمَرَ رضی الله عنه فِي طَرِيْقِ مَکَّةَ فِي خِـلَافَتِهِ، وَمَعَهُ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ، فَتَرَنَّمَ عُمَرُص بِبَيْتٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ: لَيْسَ مَعَهُ عَرَاقِيٌّ غَيْرُهُ غَيْرُکَ فَلْيَقُلْهَا يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، فَاسْتَحْيَا عُمَرُ رضی الله عنه مِنْ ذَلِکَ، وَضَرَبَ رَاحِلَتَهُ حَتَّی انْقَطَعَتْ مِنَ الْمَوْکِبِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
59: أخرجه البيهقي فيالسنن الکبری، 5/ 69، الرقم: 8966.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے دور خلافت میں مکہ کے ایک راستے پر جا رہے تھے، اور ان رضی اللہ عنہ کے ساتھ انصار و مہاجرین بھی تھے، پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شعر گنگنایا، تو اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے ان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس کے ساتھ آپ کے اور اس کے علاوہ کوئی عراقی نہیں ہے، پس اے امیر المومنین! اسے چاہئے کہ وہ اسے کہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس سے حیا آئی، انہوں نے اپنی سواری کو ٹھوکر ماری، یہاں تک وفد سے الگ ہو گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
167/ 60. عَنْ خَوَاتِ بْنِ جُبَيْرٍ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَْنَا حُجَّاجًا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: فَسِرْنَا فِي رَکْبٍ، فِيْهِمْ أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: فَقَالَ الْقَوْمُ غَنِّنَا مِنْ شِعْرِ ضَرَّارٍ، فَقَالَ عُمَرُ: دَعُوْا أَبَا عَبْدِ اﷲِ يَتَغَنَّی مِنْ بِنْيَاتِ فُؤَادِهِ، يَعْنِي مِنْ شِعْرِهِ قَالَ: فَمَا زِلْتُ أُغَنِّيَهِمْ، حَتَّی إِذَا کَانَ السَّحْرُ فَقَالَ عُمَرُ: ارْفَعْ لِسَانَکَ يَا خَوَاتُ، فَقَدْ أَسْحَرْنَا … قَالَ: فَتَنَحَّيْتُ وَأَبُوْ عُبَيْدَةُ فَمَا زِلْنَا کَذَلِکَ حَتَّی صَلَّيْنَا الْفَجْرَ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
60: أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 5/ 69، الرقم: 8967، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2/ 457، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 25/ 483، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 347.
’’حضرت خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کے لئے نکلے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک قافلہ کے ساتھ چلے جس میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہما بھی تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے مجھے کہا: ہمیں ضرار کے اشعار میں سے کچھ سناؤ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت ابو عبیدہ کو اپنے اشعار سنانے دو۔ بیان کرتے ہیں کہ میں انہیں طلوع فجر تک شعر سناتا رہا، پس جب سحر کا وقت تھا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے خوات! اپنی آواز بلند کرو کیونکہ ہم نے صبح کر لی ہے…راوی بیان کرتے ہیں کہ پس میں اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں سے دور چلے گئے، اور ہم اسی طرح ایک دوسرے سے شعر سنتے سناتے رہے یہاں تک کہ ہم نے فجر کی نماز ادا کی۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی، ابن عبد البر اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
168/ 61. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِيْرِ بْنِ أَفْلَحَ قَالَ: إِنَّ آخِرَ مَجْلِسٍ جَالَسْنَا فِيْهِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه مَجْلِسٌ تَنَاشَدْنَا فِيْهِ الشِّعْرَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت محمد بن کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخری بار جب ہم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجلس کی تو وہ ایسی مجلس تھی جس میں ہم نے ایک دوسرے کو اشعار سنائے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
169/ 62. وفي رواية: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ: کَانَ شُعَرَاءُ أَصْحَابِ مُحََمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم عَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍث. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
61-62: أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 10/ 240.241، الرقم: 20909. 20912، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 93، 50/ 192، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/ 525.
’’اور ایک روایت میں امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شعراء صحابہ کرام میں حضرت عبد اﷲ بن رواحہ، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک ث شامل تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
170/ 63. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضی الله عنه قَالَ: قِيْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما: قَدْ قَدِمَ حَسَّانُ اللَّعِيْنُ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما: مَا هُوَ بِلَعِيْنٍ، قَدَ جَاهَدَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِنَفْسِهِ وَلِسَانِهِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ جُبَيْرٍ.
63: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 400، وابن جبير في حديث المصيصي لوين، 1/ 52، الرقم: 27، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 21، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 2/ 216، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/ 518.
’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے کہا گیا کہ (معاذ اللہ) حسان لعین آیا ہے، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: حضرت حسان رضی اللہ عنہ لعین نہیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معیت میں اپنی جان اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر اور ابن جبیر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved