1/ 1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اﷲَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اﷲِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُوْنَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِّيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
1: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي علی النبي صلی الله عليه واله وسلم ثم يسأل اﷲ له الوسيلة، 1/ 288، الرقم: 384، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: في فضل النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 586، الرقم: 3614، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: مايقول إذا سمع المؤذن، 1/ 144، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب: الأذان، باب: الصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم بعد الأذان، 2/ 25، الرقم: 678، وفي السنن الکبری، 1/ 510، الرقم: 1642، 6/ 16، الرقم: 9873، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 168، الرقم: 6568، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 218، الرقم: 418، وابن حبان في الصحيح، 4/ 588، 590، الرقم: 1690، 1692.
’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2/ 2. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم رَجُـلًا يَدْعُوْ فِي صَـلَاتِهِ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : عَجِلَ هَذَا، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيْدِ اﷲِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ثُمَّ لِيُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ لِيَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَا نَعْرِفُ لَهُ عِلَّةً.
2: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 517، الرقم: 3477، وأبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: الدعاء، 2/ 76، الرقم: 1481، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 18، الرقم: 23982، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709.710، وابن حبان في الصحيح، 5/ 290، الرقم: 1960، والحاکم في المستدرک، 1/ 401، الرقم: 989، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 791، 793، وابن عبد البر في الاستذکار، 2/ 320.
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود نہ بھیجا، اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرہِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہوگی۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ہم نے اس حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں دیکھی۔
3/ 3. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: بَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّی فَقَالَ: اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : عَجِلْتَ، أَيُهَا الْمُصَلِّي، إِذَا صَلَّيْتَ، فَقَعَدْتَ، فَاحْمَدِ اﷲَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، وَصَلِّ عَلَيَّ، ثُمَّ ادْعُهُ قَالَ: ثُمَّ صَلَّی رَجُلٌ أخَرُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَحَمِدَ اﷲَ وَصَلَّی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم . فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَيُهَا الْمُصَلِّي، اُدْعُ تُجَبْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ رُشْدَيْنُ بْنُ سَعْدٍ حَدِيْثُهُ فِي الرِّقَاقِ مَقْبُوْلٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5/ 516، الرقم: 3476، والنسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: التمجيد والصلاة علی النبي صلی الله عليه واله وسلم في الصلاة، 3/ 44، الرقم: 1284، وفي السنن الکبری، 1/ 380، الرقم: 1207، وابن خزيمة في الصحيح، 1/ 351، الرقم: 709، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 307، الرقم: 792، 794.795، وفي الدعاء، 1/ 46، الرقم: 89.90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 319، الرقم: 2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 155.
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی: ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! تو نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو (سکون سے) بیٹھ جایا کرو، پھر اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام منذری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
4/ 4. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ أَوْ أَبِي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ لِيَقُلْ: اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ الرَّازِيُّ: قَالَ أَبُوْ زُرْعَةَ: عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي أُسَيْدٍ کِـلَاهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم أَصَحٌّ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ: إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ نُدْبًا مُؤَکَّدًا أَوْ وُجُوْبًا عَلَی النَّبِيّ صلی الله عليه واله وسلم لَأَنَّ الْمَسَاجِدَ مَحَلُّ الذِّکْرِ وَالسَّـلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم مِنْهُ.
4: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1/ 126، الرقم: 465، وابن ماجه في السنن، کتاب: المساجد والجماعات، باب: الدعاء عند دخول المسجد، 1/ 254، الرقم: 772، والدارمي في السنن، 1/ 377، الرقم: 1394، وابن حبان في الصحيح، 5/ 397، الرقم: 2048، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 441. 442، الرقم: 4115، 4117، وفي السنن الصغری، 1/ 302، الرقم: 508. 509، والحاکم في شعار أصحاب الحديث، 1/ 59، الرقم: 76، والطبراني في الدعاء، 1/ 150، الرقم: 426، وأبو عوانة في المسند، 1/ 414، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 301، الرقم: 1188، والمناوي في فيض القدير، 1/ 336، والرازي في علل الحديث، 1/ 178، الرقم: 509.
’’حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو حمید الانصاری رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سلام بھیجے پھر کہے: اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے: اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو حاتم الرازی نے بیان کیا کہ امام ابو زرعہ نے فرمایا: حضرت ابو حمید اور ابو اسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے استحبابًا، تاکیدًا اور وجوبًا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا چاہئے کیونکہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔‘‘
5/ 5. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ: إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ يَقُوْلُ لَکَ: کَيْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ: اﷲُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
5: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 8/ 175، الرقم: 3382، وأبو يعلی في المسند، 2/ 522، الرقم: 1380، والخلال في السنة، 1/ 262، الرقم: 318، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 405، الرقم: 7176، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 439، وفي مجمع الزوائد، 8/ 254، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 712، والمناوي في فيض القدير، 1/ 98، والأندلسي في تحفة المحتاج، 1/ 306، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي، 2/ 70، الرقم: 1211، والسمعاني في أدب الاملا والاستملاء، 1/ 52، والهندي في کنز العمال، 1/ 2278، الرقم: 31891.
’’حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جبریل میرے پاس آئے اور عرض کیا: تحقیق میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے تو جبریل نے عرض کیا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔‘‘
اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
6/ 6. عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ:
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَهَذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
6: أخرجه البخاري في التاريخ الصغير، 1/ 13، الرقم: 31، وابن حبان في الثقات، 1/ 42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 41، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 160، وابن عبد البر في الاستيعاب، 9/ 154، والعسقلاني في الإصابة، 7/ 235، وفي فتح الباري، 6/ 555، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 32.33، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 1/ 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 526، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 134، والزرقاني في شرحه علي الموطأ، 4/ 557، والعظيم آبادي في عون المعبود، 3/ 189.
’’حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے:
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد مصطفی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے ’التاریخ الصغیر‘ میں، امام ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
7/ 7. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَمَّا اقْتَرَفَ ٰآدَمُ الْخَطِيْئَةَ قَالَ : يَا رَبِّ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِي فَقَالَ اﷲُ: يَا آدَمُ، وَکَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ: يَا رَبِّ، لِأَنَّکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِکَ، وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوْحِکَ، رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْکَ، فَقَالَ اﷲُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، اُدْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
وذکر العـلامة ابن تيمية: عَنْ مَيْسَرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی کُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اﷲُ الْأَرْضَ، وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَخَلَقَ الْعَرْشَ، کَتَبَ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ. وَخَلَقَ اﷲُ الْجَنَّةَ الَّتِي أَسْکَنَهَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، فَکَتَبَ اسْمِي عَلَی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِيَامِ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، فَلَمَّا أَحْيَاهُ اﷲُ تَعَالَی، نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ، فَرَأَی اسْمِي، فَأَخْبََرَهُ اﷲُ أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِکَ، فَلَمَّا غَرَّهُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ.
7: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 672، الرقم: 4228، والبيهقي في دلائل النبوة، 5/ 489، والقاضي عياض في الشفا، 1/ 227، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 150، وفي قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة: 84، وابن کثير في البداية والنهاية، 1/ 131، 2/ 291، 1/ 6، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 6، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1/ 130، الرقم: 206.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا ہے کہ مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت تک حضرت آدم ں ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اورمعافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے نام کا وسیلہ اختیار کیا۔‘‘
8/ 8. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ: يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ، يَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وذکر العـلامة ابن تيمية: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : وَلَمَّا أَصَابَ آدَمَ الْخَطِيْئَةُ، رَفَعَ رَأْسَهَ فَقَالَ: يَا رَبِّ، بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلاَّ غَفَرْتَ لِي، فَأُوْحِيَ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: يَارَبِّ، إِنَّکَ لَمَّا أَتْمَمْتَ خَلْقِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَإِذَا عَلَيْهِ مَکْتُوْبٌ: لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ أَکْرَمُ خَلْقِکَ عَلَيْکَ، إِذْ قَرَنْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَهُوَ آخِرُ الأَنْبِيَاءِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُکَ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 182، الرقم: 992، وفي المعجم الأوسط، 6/ 313، الرقم: 6502، ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2/ 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11/ 94.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم ں نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم سے (نادانستگی میں) خطا سرزد ہوگئی، تو انہوں نے (توبہ کے لیے) اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی طرف وحی کی: محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کی: مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا: ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ ;تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں اور میں نے (اُن کے وسیلے سے بخشش مانگنے پر) تمہاری مغفرت فرما دی ہے اور وہ تمہاری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
9/ 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
9: أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4/ 271، الرقم: 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7/ 437.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدمں ہند میں نازل ہوئے اور (نزول کے بعد) انہوں نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرائیلں نازل ہوئے اور اذان دی: اَﷲُ أَکْبَرُ، اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدمں نے دریافت کیا: محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
10/ 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، قُلْتُ: فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي، أَيْنَ کُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ حَتَّی بَدَتْ ثَنَايَاهُ (وفي رواية: نَوَاجِذُهُ) ثُمَّ قَالَ: کُنْتُ فِي صُلْبِهِ وَ رُکِبَ بِي السَّفِيْنَةَ فِي صُلْبِ أَبِي نُوْحٍ، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ، لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ قَطُّ عَلَی سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلِ اﷲُ تَعَالَی يَنْقُلُنِي مِنَ الْأَصْلَابِ الْحَسَنَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ، صِفَتِي مَهْدِيٌّ لَا يَتَشَعَّبُ شَعْبَانِ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا قَدْ أَخَذَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِالنُّبُوَّةِ مِيْثَاقِي، وَبِالإِسْلَامِ عَهْدِي. وَبُشِّرَ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيْلِ ذِکْرِي. وَبَيَنَ کُلُّ نَبِيٍّ صِفَتِي. تُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُوْرِيِ. وَالْغَمَامُ لِوَجْهِي. وَعَلَّمَنِي کِتَابَهُ وَرَوَی بِي سَحَابَهُ، وَشَقَّ لِي اسْمًا مِنْ أَسْمَائِهِ: فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَوَعَدَنِي يُحِبُّوْنِي بِالْحَوْضِ وَالْکَوْثَرِ، وَأَنْ يَجْعَلَنِي أَوَّلَ شَافِعٍ، وَأَوَّلَ مُشَفَّعٍ، ثُمَّ أَخْرَجَنِي مِنْ خَيْرِ قَرْنٍ لِأُمَّتِي، وَهُمُ الْحَمَّادُوْنَ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.
10: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 408، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 332، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 258، والمناوي في فيض القدير، 3/ 437.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اس وقت کہاں تھے، جب حضرت آدم جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تبسم کناں ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا: میں ان (یعنی حضرت آدم ں) کی پشت میں تھا، اور اپنے باپ حضرت نوح کی پشت میں مجھے کشتی پر سوار کیا گیا، اور حضرت ابراہیم ں کی پشت میں (میرا نور) ڈالا گیا۔ میرے والدین (آباء و اجداد) کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ تورات و انجیل میں میرے ذکر کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نبی نے میری صفات بیان کیں۔ میرے نور کی وجہ سے صبح روشن ہوئی، اور بادل میری وجہ سے سایہ فگن ہیں، اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے نام عطا کیا، سو وہ عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں، اور (اﷲ تعالیٰ نے) حوض کوثر کا میرے لئے وعدہ فرمایا، اور یہ کہ مجھے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بنایا، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنی امت کے بہترین زمانے میں پیدا فرمایا، میری امت کے لوگ اﷲ کی ثناء بیان کرنے والے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
11/ 11. عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ: أَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اﷲَ فَاذْکُرْ إِلَی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم ، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَهُ مَکْتُوْبًا عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ، فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلَی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلَی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبَی، وَعَلَی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی، وَعَلَی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَهُ، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُهُ فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّيُوْطِيُّ.
11: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 12.
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم نے فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
12/ 12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما فِي قوْلِهِ تَعَالَی: {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ}، [ألم نشرح، 94: 4]، قَالَ: يَقُوْلُ لَهُ: لَا ذُکِرْتُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي فِي الْأَذَانِ، وَالإِقَامَةِ، وَالتَّشَهُدِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی الْمَنَابِرِ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ الْأَضْحَی، وَأَيَامَ التَّشْرِيْقِ، وَيَوْمَ عَرَفَةَ، وَعِنْدَ الْجِمَارِ، وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَفِي خُطْبَةِ النِّکَاحِ، وَفِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا، وَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا عَبَدَ اﷲَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، وَصَدَّقَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَکُلِّ شَيئٍ، وَلَمْ يَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، لَمْ يَنْتَفِعْ بِشَيئٍ، وَکَانَ کَافِرًا. أَخْرَجَهُ الْقَرْطَبِيُّ وَنَحْوَهُ الْبَغَوِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَغَيْرُهُمْ.
12: أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20/ 106، والبغوي في معالم التنزيل، 4/ 502، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1/ 58، والسيوطي في الدر المنثور، 8/ 547.549، والصنعاني في تفسير القرآن، 3/ 380، والثعلبي في الجواهر الحسان، 4/ 424، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، وابن الجوزي في زاد المسير، 9/ 163، والشوکاني في فتح القدير، 5/ 463، والواحدي في الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 2/ 1212، والالوسي في روح المعاني، 30/ 169، والسيوطي في الإتقان، 1/ 128، 2/ 536.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا: (اے حبیب!) اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، جمعہ کے دن منبروں پر، عیدالفطر کے دن، (خطبوں میں) ایام تشریق میں، عرفہ کے دن، مقام جمرہ پر، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور اﷲ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ کے رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلق کافر (کا کافر) ہی رہے گا۔‘‘
اسے امام قرطبی اور اسی کی مثل امام بغوی، طبری وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
13/ 13. وَقَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا يُسْتَتَابُ، وَيُقْتَلُ لِأَنَّ اﷲَ قَدْ فَضَّلَهُ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اﷲِ ل قَالَ: لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَيَرْوِي فِي قَوْلِهِ: {لَعَمْرُکَ}، ]الحجر، 15: 72[، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ.
رَوَاهُ ابْنُ يَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234.311ه) وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
13: أخرجه الخلال في السنة، 1/ 273، الرقم: 273.
’’حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے، اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی، اور اسے قتل کیا جائے گا، کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیائِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی: (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں حضرت آدم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اسے امام ابن یزید خلال (234۔ 311ھ) نے ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved