50. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: أُنْبِئْتُ: أَنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أَتَي النَّبِيَّ ﷺ وَ عِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لأُمِّ سَلَمَةَ: مَنْ هَذَا؟ أَوْ کَمَا قَالَ. قَالَ: قَالَتْ: هَذَا دِحْيَةُ. قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: ايْمُ اللهِ! مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَّاهُ، حَتَّي سَمِعْتُ خُطْبَةَ نَبِيِّ اللهِ ﷺ يُخْبِرُ عَنْ جِبْرِيْلَ أَوْ کَمَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي عُثْمَانَ: مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ: مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے رہے پھر چلے گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے دریافت فرمایا: یہ کون تھے؟ یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے جواب دیا کہ دحیہ تھے، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے انہیں دحیہ قلبی ہی سمجھا تھا، لیکن میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران خطبہ بتایا کہ وہ حضرت جبرائیل تھے، یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، معمر کے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عثمان سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کس سے سنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
الحديث رقم 50: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1330، الرقم: 3435، وفي کتاب: فضائل القرآن، باب: کيف نزول الوحي، 4 / 1905، الرقم: 4695، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أم سلمة، 4 / 1906، الرقم: 2451، و البزار في المسند، 7 / 55، الرقم: 2602.
51. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثاً وَ قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِکِ عَلٰى أَهْلِکِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، وَ إِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے نکاح کرنے کے بعد ان کے پاس تین دن رہے پھر فرمایا: تمہاری اہمیت اور چاہت اپنے شوہر کی نظروں میں ہرگز کم نہیں ہوئی، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس ایک ہفتہ قیام کر لوں اور اگر میں تمہارے پاس ایک ہفتہ رہا تو میں اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 51: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الرضاع، باب: قدر ما تستحقه البکر و الثيب من إقامة الزوج عندها عقب الزفاف، 2 / 1083 الرقم: 1460، وأبوداود في السنن، کتاب: النکاح، باب: في المقام عند البکر، 2 / 240، الرقم: 2122، و ابن حبان في الصحيح، 10 / 10، الرقم: 4210، و الدارمي في السنن، 2 / 194، الرقم: 2210.
52. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عِنْدَهَا فِي بَيْتِهَا ذَاتَ يَوْمٍ فَجَاءَوتِ الْخَادِمُ، فَقَالَتْ: عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ بِالسَّدَّةِ، فَقَالَ: تَنَحِّي لِي عَنْ أَهْلِ بَيْتِي فَتَنَحَّتْ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ فَدَخَلَ عَلِيٌّ، وَ فَاطِمَةُ، وَ حَسَنٌ، وَ حُسَيْنٌ فَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ وَ أَخَذَ عَلِيًا بِإِحْدَي يَدَيْهِ فَضَمَّهُ إِلٰىهِ وَ أَخَذَ فَاطِمَةَ بِالْيَدِ الْأُخْرَي فَضَمَّهَا إِلٰىهِ وَ قَبَّلَهُمَا وَ أَغْدَفَ عَلَيْهِمْ خَمِيْصَةً سَوْدَاءَ ثُمَّ قَالَ: الَّلهُمَّ، إِلٰىکَ لَا إِلٰى النَّارِ، أَنَا، وَ أَهْلُ بَيْتِي، قَالَتْ: فَنَادَيْتُهُ، فَقُلْتُ: وَ أَنَا، يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: وَ أَنْتِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ان کے پاس ان کے گھر تشریف فرما تھے پس خادم آیا اور عرض کیا: حضرت علی اور فاطمہ رضی الله عنہما (گھر کی) دہلیز پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے میرے گھر والوں کے راستے سے ہٹ جایا کرو (یعنی ان کو بلا اجازت گھر آنے دیا کرو) پس وہ خادم گھر کے ایک کونے میں چلا گیا، پس حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھم اندر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسوں کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا ایک دست مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رکھا اور ان کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنا دوسرا دست اقدس حضرت فاطمہ رضی الله عنہا پر رکھا اور انہیں بھی اپنے ساتھ ملایا اور ان دونوں کو چوما اور پھر ان سب پر اپنی کالی کملی بچھا دی پھر فرمایا: اے الله! تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف، میں اور میرے اہل بیت، حضرت امّ سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر عرض کیا: اور میں بھی یا رسول الله! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم بھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 52: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم: 32104، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 296، الرقم: 26582، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 393، الرقم: 939، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 166.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved