اعتزازه رضي الله عنه بکونه ثاني اثنين
97. عن أنس، عن أبي بکر رضي الله عنه قال : قلت للنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا في الغار : لو أنّ أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا، فقال : ’’ما ظنّک يا أبا بکر باثنين اﷲ ثالثهما‘‘.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا جب کہ میں (آپ کے ساتھ) غار میں تھا اگر اِن ( تلاش کرنے والے کفار) میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے دیکھے تو یقیناً ہمیں دیکھ لے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو (افراد) کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اﷲ رب العز ت ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، رقم :
3453
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 278، رقم : 3096
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 181، رقم : 6279
5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 287، رقم : 6869
6. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 4، رقم : 11
7. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 66
8. ابن ابي شيبه المصنف، 6 : 348، رقم : 31929
9. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 345، رقم : 36613
10. بزار، المسند، 1 : 96، رقم : 36
11. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 576، رقم : 1225
12. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 173
13. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 137
14. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 968
15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 475
16. محب طبري، الرياض النفره، 1 : 449
17. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 63، رقم : 23
18. فاکهي، اخبار مکه، 4 : 81، رقم : 2413
98. عن أنس بن مالک : أنّ أبا بکر الصّدّيق حدّثه قال : نظرت إلٰي أقدام المشرکين علي رؤوسنا ونحن في الغار فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! لو أنّ احدهم نظر إلي قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال ’’يا أبا بکر! ما ظنّک باثنين اﷲ ثالثهما‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں نے اپنے سروں کے برابر مشرکین کے پاؤں دیکھے جبکہ ہم غار (ثور) میں تھے پس میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان (مشرکین) میں سے کوئی شخص اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ا بوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا (خود) اﷲ رب العزت ہو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381
2. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 67
3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 30، رقم : 2
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 352، رقم : 510
5. يوسف بن موسيٰ، معتصر المختصر، 2 : 342
6. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 475، رقم : 510
إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يغضب لغضب الصديق رضي الله عنه
99. عن أبي الدّرداء رضي الله عنه قال : کنت جالسا عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إذ أقبل أبوبکر اٰخذا بطرف ثوبه، حتّٰي أبدي عن رکبته، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أمّا صاحبکم فقد غامر‘‘. فسلّم وقال : إنّي کان بيني وبين ابن الخطّاب شيء، فأسرعت إليه ثمّ ندمت، فسألته أن يغفرلي فابٰي عليّ، فأقبلت إليک، فقال : ’’يغفر اﷲ لک يا أبابکر‘‘. ثلاثا، ثمّ إنّ عمر ندم فأتٰي منزل أبي بکر، فسأل : أثمّ أبوبکر؟ فقالوا : لا، فأتي إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فسلّم، فجعل وجه النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم يتمعّر، حتّي أشفق أبوبکر، فجثا علي رکبتيه فقال : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، واﷲ أنا کنت أظلم، مرّتين، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ اﷲ بعثني إليکم فقلتم کذبت، و قال أبوبکر صدق. وواساني بنفسه و ماله، فهل أنتم تارکولي صاحبي‘‘. مرّتين، فما أوذي بعدها.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی چادر کا کنارہ پکڑے حاضرِ خدمت ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کاگھٹنا ننگا ہو گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہارے یہ صاحب لڑ جھگڑ کر آرہے ہیں۔‘‘ انہوں نے سلام عرض کیا اور بتایا کہ میرے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تکرار ہوئی تو جلدی میں میرے منہ سے ایک بات نکل گئی جس پر مجھے بعد میں ندامت ہوئی اور میں نے اُن سے معافی مانگی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ تمہیں معاف فرمائے‘‘ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انکے بارے میں پوچھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ گھر والوں نے کہا۔ نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ صبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا، اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کا رنگ بدل گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں ہی زیادتی کرنے والا تھا۔‘‘ یہ دو مرتبہ عرض کیا پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک جب اﷲ رب العزت نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم سب لوگوں نے میری تکذیب کی (جھٹلایا) لیکن ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ اور پھر اپنی جان اور اپنے مال سے میری خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا‘‘۔ پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا ’’کیا تم میرے ایسے ساتھی سے میرے لئے درگزر کرو گے؟‘‘ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی اذیت نہیں دی گئی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتا ب المناقب، رقم : 3461
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 232
3. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 208، رقم : 1199
4. ابو نعيم، حلية الاولياء، 9 : 304
5. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 110
6. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 243
7. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 476
8. محب طبري، رياض النضره، 2 : 19
9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 240، رقم : 297
100. عن ربيعة الأسلميّ قال : کنت أخدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأعطا ني أرضا وأعطٰي أبابکرأرضا فجاء ت الدّنيا فاختلفنا في عذق نخلة، فقال أبوبکر : هي في حدّي، وقلت أنا : هي في حدّي، فکان بيني و بين أبي بکر کلام فقال أبوبکرکلمة کرهتها، وندم، فقال : يا ربيعة ردّ عليّ مثلها حتّٰي يکون قصاصا!، فقلت لا أفعل! فقال أبوبکر : لتفعل وإلّا استعديت عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. فقلت : ما أنا بفاعل! فانطلق أبوبکر إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، وانطلقت أتلوه، فجاء ناس مّن أسلم فقالوا : رحم اﷲ أبا بکر في أيّ شيء يستعدي عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو الّذي قال لک ما قال. فقلت : أتدرون من هٰذا؟ هٰذا أبوبکر الصّدّيق، وهو ثاني اثنين، وهو ذو شيبة المسلمين فإيّاکم يلتفت فيراکم تنصروني عليه فيغضب ويأتي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فيغضب لغضبه، فيغضب اﷲ لغضبهما فتهلک ربيعة. قالوا : فما تأمرنا؟ قلت : إرجعوا. فانطلق أبوبکر إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وتبعته وحدي، وجعلت أتلوه حتّٰي أتٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فحدّثه الحديث کما کان، فرفع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إليّ رأسه فقال : ’’يا ربيعة ما لک ولصّدّيق؟‘‘ قلت : يا رسول اﷲ کان کذا وکذا، فقال لي کلمة کرهتها. فقال لي : قل کما قلت حتّي يکون قصاصا. فأبيت، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أجل! فلا تردّنّ عليه، ولٰکن قل !’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘ فقلت : ’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘. فولّي أبو بکر وهو يبکي.
’’حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کا کچھ حصہ مجھے عطا فرمایا اور کچھ حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو۔ پس اُمور دنیا کی وجہ سے ہمارے درمیان کھجور کے ایک درخت کی شاخوں پر اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری حد میں ہے، اور میں نے کہا یہ میری حد میں ہے۔ پس میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایسا کلمہ کہہ دیا جسے میں نے ناپسند کیا۔ پھر وہ شرمندہ ہو گئے اور فرمایا : ’’اے ربیعہ ! اسی طرح کا کلمہ تُم مُجھے کہہ لو تاکہ وہ قصاص بن جائے۔‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تُم ایسا کرو ورنہ میں تمہارے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کروں گا۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے اﷲ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ! وہ کس چیز میں تمہارے خلاف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں۔ حالانکہ انہی نے تو تمہیں وہ کہا جو کہا، تو میں نے کہا : تُم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ثانی اثنین ہیں اور وہ تمام مسلمانوں میں پہل کرنے والے ہیں۔ پس تُم ا س سے بچو کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اور تمہیں دیکھ لیں کہ تُم میری مدد کر رہے ہو جس کے نتیجے میں وہ غصے ہو جائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے اﷲ بھی ناراض ہو جائے گا۔ نتیجتاً ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا : آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا : ’’تم واپس لوٹ جاؤ‘‘۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اکیلا اُن کے پیچھے چلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انور میں پہنچ گئے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ساری بات بتائی، جو ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور میری طرف اُٹھایا اور ارشاد فرمایا : ’’اے ربیعہ! تمہارے اور صدیق کے درمیان کیا معاملہ ہوا؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’یا رسول اﷲ ! معاملہ اس اس طرح ہوا پھر انہوں نے مُجھے ایک ایسا کلمہ کہا جسے میں نے ناپسند کیا۔ اِنہوں نے مجھے فرمایا کہ تم بھی اُسی طرح کہہ لو جس طرح میں نے تُمہیں کہا ہے تاکہ وہ قصاص بن جائے تو میں نے انکار کر دی۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! ان پر قصاص کے طور پر وہ کلمہ نہ کہنا، بلکہ تُم کہو کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ تو میں نے یہی جملہ کہا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے وہاں سے واپس چل پڑے۔‘‘
1. احمدبن حنبل، المسند، 4 : 58
2. حاکم، المستدرک، 2 : 189، رقم : 2718
3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 58، رقم : 4577
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 334، رقم : 481
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 45
6. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 26
7. طبري الرياض النضرة، 2 : 6
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إلي الصديق رضي الله عنه و يتبسم إليه
101. عن أنس؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علٰي أصحابه من المهاجرين والانصار وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلّا أبوبکر وعمر فإنّهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لایا کرتے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ) بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے۔ پس یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کرتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھا کرتے۔ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا کرتے تھے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 612، رقم : 3668
2. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 150، رقم : 12538
3. حاکم، المستدرک، 1 : 209، رقم : 418
4. عبد بن حميد، المسند، 1 : 388، رقم : 1298
5. طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 2064
6. محب طبري، الرياض، النضره، 1 : 338
7. مزي، تهذيب الکمال، 7 : 123
102. عن أنس بن مالک قال کنا نجلس النبي کأنما علي رؤسنا الطير ما يتکلم أحد منا إلا ابو بکر و عمر.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ہماری یہ حالت ہوتی گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کلام نہ کر سکتا سوائے ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنھما کے۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 53
2. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 5، رقم : 7782
تصدق الصديق بکل ماعنده لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
103. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا.
حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم
: 3675
2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678
3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم :
1660
4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510
5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270
6۔ عبد بن حميد نے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ ميںسعد بن اسلم سے روايت لي ہے۔
7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم :
1240
8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81
9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا
ہے۔
10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
11۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563
104. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عبائة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲ جل جلاله يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘
1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250
2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105
3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308
4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20
5. خطيب بغدادي، موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 : 441
قول الصديق رضي الله عنه : أبقيت لهم ش و رسوله
105. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا
حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم
: 3675
2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678
3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم :
1660
4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510
5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270
6۔ عبدبن حمیدنے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ میں سعد بن اسلم سے روایت لی ہے۔
7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم :
1240
8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81
9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم
سے اسے روایت کیا ہے۔
10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
11۔ محب طبری نے بہی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563
قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبي بکر
106. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال أحد قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے۔‘‘
1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم
: 3661
2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328
3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478
4. ابن منده، الإيمان، 2 : 795
5. خطيب بغداد، تاريخ بغداد، 8 : 21
107. عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ قال فبکٰي أبوبکر وقال : هل أنا و مالي إلّا لک يا رسول اﷲ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کبھی کسی مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے مُجھے فائدہ پہنچایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اور میرا مال صرف آپ کے لئے ہی ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، 1 : 36، رقم : 94
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 253، رقم : 7439
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 6858
4. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 577، رقم : 1229
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 31927
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 25
7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 511
8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 393، رقم : 595
9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2166
10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 16
11. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 249
12. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 158
13. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 3 : 349
14. مناوي، فيض القدير، 5 : 503
15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 16
16. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 363، رقم : 5525
قال رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنّه ليس أحد أمنّ عليّ فِي نفسه وماله من أبِي بکرابن أبي قحافة رضي اﷲ عنهما
108. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : ’’إنّه ليس أحد أمنّ عليّ في نفسه وماله من أبي بکرابن أبي قحافة‘‘.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال (قربان کرنے ) کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455
2. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2432
3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860
4. ابويعلي، المسند، 4 : 457، رقم : 2584
5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102
6. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1
7. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134
8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67
9. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 338، رقم : 11938
10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228
11. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13
109. عن أبي سعيد قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ أمنّ النّاس عليّ في ماله وصحبته أبو بکر‘‘.
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح 4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382
2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454
3. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3454
4. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3691
5. ترمذي، السنن، 5 : 608، کتاب المناقب، رقم : 3660
6. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 18، رقم : 11150
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 348، رقم : 3126
8. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861
9. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103
10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2
11. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112
12. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967
13. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 243
14. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 227
15. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 120، رقم : 58
15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 14
16. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51
110. عن ابن المسيب قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما مال رجل من المسلمين أنفع من مال أبي بکر قال و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقضي في مال أبي بکر کما يقضي في مال نفسه.
’’ابن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں سے کسی شخص کے مال نے مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے زیادہ نفع نہیں پہنچایا۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔‘‘
1. خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 130
2. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 228
3. مناوي، فيض القدير، 4 : 18
4. مناوي، فيض القدير، 5 : 503
5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 72
6. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 17
111. عن ابن عمر قال اسلم أبوبکر يوم اسلم و في منزله أربعون الف درهم فخرج إلي المدينة من مکة في الهجرة و ماله غير خمسة آلاف کل ذلک ينفق في الرقاب و العون علي الإسلام.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت انکے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68
2. مناوي، فيض القدير، 4 : 18
3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 171
4. ابن عبدالبر نے ’الاستیعاب (3 : 966)، میں ہشام بن عروہ سے باختلاف لفظ
روایت کیا ہے۔
5. نووی نے ’تہذیب الاسماء (2 : 480)‘ میں ہشام بن عروہ سے
روایت کیا ہے۔
6. محب طبری، الریاض النضرہ، 2 : 21 (ھشام بن عروہ اور حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
112. عن زيد بن اسلم قال کان ابوبکر معروفا بالتجارة لقد بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم و عنده أربعون ألف درهم فکان يعتق منها و يقوي المسلمين حتي قدم المدينة القدرة آلاف درهم ثم کان يفعل فيها ما کان يفعل بمکة.
’’حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق مشہور تاجر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہانتک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں دراہم کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 172
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68
3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 172
4. الترتب الاداريه، 2 : 24
قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر
113. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر فانّ له عندنا يدا يکافئه اﷲ به يوم القيامة.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے۔ بیشک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ اﷲ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم
: 3661
2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328
3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478
4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 18
5. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 13
114. عن علي قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رحم اﷲ أبابکر زوجني ابنته و حملني إلي دارالهجرة و أعتق بلا لا من ما له.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا، مجھے اٹھا کر دارالہجرت (مدینہ) لے گئے اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 633، رقم : 3714
2. ابويعلي، المسند، 1 : 418، رقم : 550
3. بزار، المسند، 3 : 52
4. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 95، رقم : 5906
5. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 577، رقم : 1232
6. قيسراني، تذکرة الحفاظ، 3 : 844
7. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 15 : 278
8. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 402
9. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 243
قرأش عليه رضي الله عنه السلام فقال : أراض أنت عني
115. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عباء ة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲد يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کُھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تم اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘
1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250
2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105
3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308
4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20
5. خطيب بغدادي، موضح أدهام الجمع والتفريق، 2 : 441
لم تبقي خوخة في المسجد النبوي غيرخوخة أبي بکر
116. عن أبي سعيد ؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جلس علي المنبر فقال : . . . لا تبقينّ في المسجد خوخة إلّا خوخة أبي بکر‘‘
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’. . . مسجد میں کسی کی کھڑکی باقی نہ رہنے دی جائے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی کھڑکی قائم رکھی جائے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382
2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454
3. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب، فضائل الصحابة، رقم : 3691
4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 608، کتاب المناقب، قم :
3660
5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم :
6861
6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 559، رقم : 6594
7. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103
8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2
9. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112
10. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967
11. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51
12. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 12
117. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : . . . سدّ وا عنّي کلّ خوخة في هٰذا المسجد غير خوخة أبي بکر‘‘
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرضِ وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’. . . اس مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔‘‘
1. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2436
2. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455
3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102
5. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1
6. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134
7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228
9. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13
118. عن عائشة، أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بسدّ الابواب إلّا باب أبي بکر
’’ام المؤمنین عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسجد میں کھلنے والے) تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، سوائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے کے۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 616، ابواب المناقب، رقم
: 3678
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 272، رقم : 6857
3. دارمي، السنن، 1 : 51
4. ابو يعلي، المسند، 8 : 137، رقم : 4678
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 442، رقم : 4121
6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2170
7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 70، رقم : 33
8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 512
9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 407، رقم : 629
10. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 2 : 229
11. نيشاپوري، معرفة علوم الحديث، 1 : 99
أحسن الناس أخلاقا
119. عن عبداﷲ بن عمر رضي الله عنه قال : ثلاثة من قريش أصبح قريش وجوها وأحسنها أخلاقا وأثبتها حياء إن حدّثوک لم يکذبوک وإن حدّثتهم لم يکذّبوک أبوبکر الصّدّيق وأبو عبيدة بن الجرّاح وعثمان بن عفّان رضي اﷲ عنهم.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : قریش میں سے تین افراد ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے، سب سے زیادہ حسنِ اخلاق کے حامل اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تُم اُن کے ساتھ بات کرو گے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 56، رقم : 16
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 157
3. ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 56
4. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 56
5. عسقلاني، الاصابه، 3 : 589
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 25 : 475
120. عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ أرحم أمّتي بأمّتي أبوبکر و أشدّ هم في أمراﷲ عمر و أصدقهم حياء عثمان‘‘.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور اﷲ کے احکامات کے معاملے میں سب سے زیادہ شدت والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 664، رقم : 3890
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 665، رقم : 3891
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 55، رقم : 154
4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67، رقم : 8242
5. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67 رقم : 8287
6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 477، رقم : 5784
7. ابن حبان، الصحيح، 16 : 238، رقم : 7252
8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 210، رقم : 11966
9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 41، رقم : 138
10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 55، رقم : 182
11. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 548، رقم : 2218
12. مقدسي، الأحاديث المختارة، 6 : 227، رقم : 2242
13. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 474
14. احمد بن علي، الفصل الموصل المدرج، 2 : 679
121. عن جابر بن عبداﷲ الانصاري رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أرحم أمتي بأمتي أبوبکر و أرفق أمتي لأمتي عمر بن الخطاب و أصدق أمتي حياء عثمان وأقضي أمتي علي بن أبي طالب.
’’حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے اسکے ساتھ سب سے زیادہ رحمدل ابوبکر ہے اور میری امت میں سے سب سے زیادہ نرم رو عمر بن خطاب ہے اور میری امت میں حیاء کے اعتبار سے سب سے سچے عثمان ہیں اور میری امت میں سے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 335، رقم : 556
2. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 228
3. عجلوني، کشف الخفاء، 1 : 118
122. عن عبداﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من جرّ ثوبه خيلاء، لم ينظر اﷲ إليه يوم القيامة‘‘ فقال أبوبکر : إنّ أحد شقّي ثوبي يسترخي، إلّا أن أتعاهد ذٰلک منه؟ فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّک لست تصنع ذٰلک خيلاء.‘‘
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اپنے کپڑے کو تکبر کرتے ہوئے گھسیٹا، قیامت کے دن اﷲ رب العزت اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا‘‘۔ حضرت ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) نے عرض کی۔ ’’میرے کپڑے کا ایک کونہ عموماً لٹک جاتا ہے سوائے اس صورت کے کہ میں اس کی احتیاط کروں‘‘۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’تم ایسا ازراہِ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3465
2. بخاري، الصحيح، 5 : 281، کتاب المناقب، رقم : 5447
3. ابوداؤد، السنن، 4 : 56، کتاب اللباس، رقم : 4085
4. نسائي، السنن، 8 : 208، رقم : 5335
5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 67، رقم : 5351
6. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 104، رقم : 5816
7. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 136، رقم : 6203
8. ابن حبان، الصحيح، 12 : 261، رقم : 5444
9. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13178
10. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13174
11. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 491، رقم : 9721
12. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 243، رقم : 3131
13. بيهقي، شعب الايمان، 5 : 143، رقم : 6120
14. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 249
15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476
16. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 147
123. وفي تلقيح الأذهان لحضرة الشّيخ الأکبر. قال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ للّٰه ثلاث مائة وستّين خلقا، من لقيه بخلق منها مع التّوحيد دخل الجنّة.‘‘ قال أبو بکر رضي الله عنه : ’’هل فيّ منها يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ‘‘ قال : ’’کلّها فيک يا أبا بکر وأحبّها إلي اﷲ السّخاء.‘‘
’’حضرت شیخ اکبر کی ’’تلقیح الاذھان‘‘ میں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے خلق کی تین سو ساٹھ (360) صورتیں ہیں، جو شخص اﷲ رب العزت سے اِس حال میں مُلاقات کرے کہ اُس میں توحیدِ اِلٰہی کے ساتھ اُن صفات میں سے ایک بھی صفت پائی جائے وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اُن میں سے کوئی میرے اندر بھی پائی جاتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر ! حُسن خُلق کی وہ تمام کی تمام صورتیں تُمھارے اندر پائی جاتی ہیں اور اُن میں سے اﷲ کے ہاں سب سے پسندیدہ ’سخاوت‘ ہے۔‘‘
کونه جامع الحسنات کلها
124. عن الزّهريّ قال : أخبرني حميد بن عبدالرّحمٰن بن عوف : أنّ أبا هريرة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’من أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل اﷲ، دعي من أبواب. يعني : ألجنّة. يا عبداﷲ هٰذا خير، فمن کان من أهل الصّلاة دعي من باب الصّلاة، ومن کان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن کان من أهل الصّدقة دعي من باب الصّدقة، و من کان من أهل الصّيام دعي من باب الصّيام، وباب الرّيّان.‘‘ فقال أبوبکر : ما علٰي هٰذا الّذي يدعٰي من تلک الأبواب من ضرورة، وقال : هل يدعٰي منها کلّها أحد يا رسول اﷲ؟ قال : ’’نعم، وأرجو أن تکون منهم يا أبابکر.‘‘
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ’’جو اﷲ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اُسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اے اﷲ کے بندے! یہ خیر ہے۔ پس جو اہل الصلوٰۃ (نمازیوں) میں سے ہو گا اُس کو بابُ الصلوٰۃ سے بُلایا جائے گا اور جو اہلِ جہاد میں سے ہو گا اُسے بابُ الجہاد سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صدقہ (خیرات والوں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصدقہ سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صِیام (روزہ داروں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصیام اور بابُ الريّان سے بلایا جائے گا۔‘‘ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اُسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! مجھے امید ہے کہ تم اُن لوگوں میں سے ہو‘‘ (جنہیں تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3466
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 268، رقم : 7621
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 449، رقم : 9799
4. ابن حبان، الصحيح، 8 : 206، رقم : 3418
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 207، رقم : 3419
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 353، رقم : 31965
7. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 6، رقم : 2219
8. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 36، رقم : 8108
9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 4، رقم : 7
10. ابونعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3 : 101،
رقم : 2296
11. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 255، رقم : 3468
12. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 107
13. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 578، رقم : 1237
14. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 171، رقم : 163
15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476
125. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من أصبح منکم اليوم صائما؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن تبع منکم اليوم جنازة؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن أطعم منکم اليوم مسکينا؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن عاد منکم اليوم مريضا؟‘‘ قال أبوبکر : أنا فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’ما اجتمعن في إمرء إلّا دخل الجّنة‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی عیادت کی ؟‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جس میں یہ باتیں جمع ہوں وہ ضرور جنت میں جائے گا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 713، کتاب الزکوٰة، رقم 1028
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1857
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 36، رقم : 8107
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 189، رقم : 7619
5. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 537، رقم : 9199
6. ابونعيم، المسند، المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3
: 102، رقم : 2299
7. نسائي، فضائل الصحابة، 1 : 4، رقم : 6
8. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 477
9. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 92
126. عن معاذ بن جبل قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ان اﷲ عزوجل في السماء ليکره ان يخطأ ابوبکر في الارض.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : للہ تعالیٰ آسمان پر پسند نہیں کرتا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زمین پر کوئی خطا سرزد ہو۔‘‘
1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 421، رقم : 659
2. طبراني، المعجم الکبير، 20 : 67، رقم : 124
3. طبراني، مسند الشاميين، 1 : 384، رقم : 668
4. ابوبکر اسماعيلي، المعجم في أسامي شيوخ ابي بکر الإسماعيلي،
2 : 655، رقم : 286
5. هيثمي، مسند الحارث، 2 : 886، رقم : 956
6. ابن القيم، حاشيه علي سنن أبي داؤد، 13 : 32
7. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 178
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 46
9. عسقلاني، الاصابه، 4 : 173
10. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 67
127. عن عامر بن عبداﷲ بن الزبير عن أبيه قال قال أبو قحافة لأبي بکر أراک تعتق رقابا ضعافا فلو انک إذ فعلت ما فعلت أعتقت رجالا جلدا يمنعونک و يقومون دونک فقال أبوبکر يا أبت اني إنما أريد ما أريد لما نزلت هذه الآيات فيه (فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰي وَ اتَّقٰيo وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰيo فَسَنُيَسِّرُه لِلْيُسْرٰیo) إلی قوله عز و جل (وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَه مِنْ نِعْمَة تُجْزٰي إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلٰی وَلَسَوْفَ يَرْضٰی).
’’حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد) ابو قحافہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور غلاموں کو آزاد کرواتے ہو۔ تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تنومند اور قوی غلاموں کو آزاد کرواؤ تاکہ وہ تمہاری حفاظت کرسکیں اور تمہاری خاطر لڑ سکیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے ابا جان میرا مقصد وہ ہے جو ان آیات میں ہے (پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اس نے (انفاق و تقوی کے ذریعے) اچھائی (یعنی دین حق اور آخرت) کی تصدیق کی تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الہی) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے) سے لے کر اللہ تعالی کے اس فرمان تک (اور کسی کا اس پر احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو مگر (وہ) صرف اپنے رب عظیم کی رضا جوئی کے لئے (مال خرچ کر رہا ہے) اور عنقریب وہ (اللہ کی عطا سے اور اللہ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا)۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 572، رقم، 3942
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 95، رقم : 66
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 237، 291
4. طبري، الرياض النضرة، 2 : 102
5. ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 161
6. قرشي، مکارم الأخلاق، 1 : 125
128. عن عبداﷲ بن الزبير قال نزلت هذه الاية (وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَه مِنْ نِعْمَة تُجْزٰي إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْه رَبِّهِ الْأَعْلٰي وَلَسَوْفَ يرْضٰي) في أبي بکر الصديق رضي الله عنه.
’’حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت (وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَه مِنْ نِعْمَة تُجْزٰي إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْه رَبِّهِ الْأَعْلٰي وَلَسَوْفَ يرْضٰي) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
1. مجمع الزوائد، 7 : 138
2. مسند البزار، 6 : 168، رقم : 2209
129. عن الحسن بن عليّ قال : لما احتضر أبوبکر رضي الله عنه قال : يا عائشة، أنظري اللقحة الّتي کنا نشرب من لبنها، والجفنة الّتي نصطبح فيها والقطيفة التي کنا نلبسها، فإنّا کنّا ننتفع بذالک حين کنا في أمر المسلمين فإذا مت فاردديه إلي عمر، فلما مات أبوبکر رضي الله عنه أرسلت به إلي عمر رضي الله عنه فقال عمر رضي الله عنه : ’’رضي اﷲ عنک يا أبا بکر لقد أتعبت من جاء بعدک.‘‘
’’حضرت امام حسن بن علی رضی اﷲ عَنہما سے روایت ہے آپ نے فرمایا : جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے عائشہ ! یہ دودھ دینے والی اونٹنی دیکھ لو جس کا ہم دودھ پیتے تھے اور یہ بڑا برتن جس میں ہم کھانا پکاتے تھے اور یہ کمبل! چادر جسے ہم اوڑھتے تھے، ہم ان چیزوں سے نفع حاصل کرنے کے مجاز تھے جب تک ہم مسلمانوں کے اُمور میں مصروف رہتے تھے۔ پھر جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ سب کچھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لوٹا دینا۔ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عَنھا نے وہ چیزیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف بھجوا دیں۔ اُس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت آپ سے راضی ہو، آپ نے اپنے بعد ہر آنے والے کو تھکا دیا ہے (مشکل میں ڈال دیا ہے)۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 60، رقم : 38
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 231
کان يدعونه الصحابة : يا خليفة رسول اﷲ!
130. عن زيد ابن أرقم رضي الله عنه قال : کنّا مع أبي بکر الصّدّيق فبکٰي، فقلنا : يا خليفة رسول اﷲ ما هٰذا البکاء.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے کہ اچانک آپ رضی اللہ عنہ رو دیئے ہم نے عرض کیا : ’’یا خلیفۃ الرسول (اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ!) یہ رونا کیسا ہے؟‘‘
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 86، رقم : 4475
131. عن سعيد ابن المسيّب رضي الله عنه أنّ أبا بکر الصدّيق رضي الله عنه لمّا بعث الجيوش نحو الشّام يزيد ابن أبي سفيان وعمرو بن العاص وشرحبيل ابن حسنة، مشٰي معهم حتّٰي بلغ ثنيّة الوداع فقالوا : يا خليفة رسول اﷲ تمشي ونحن رکبان؟
’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے لشکر روانہ فرمائے تو آپ رضی اللہ عنہ اُن کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے’’ثنیۃ الوداع‘‘ تک تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ، آپ پیدل چل رہے ہیں اور ہم سوار ہیں‘‘
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 85، رقم : 4470
132. عن عبيدة قال : جاء عيينة بن حصن والأقرع بن حابس إلٰي أبي بکر صفقالوا : يا خليفة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ اور اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : یا خلیفۃ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ)۔
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 85، رقم : 4473
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 20
3. خطيب بغدادي، الجامع الأخلاق الراوي و آداب السامع، 2
: 204
133. عن أنس رضي الله عنه قال : طفنا بغرفة فيها أبو بکر حين أصابه وجعه الّذي قبض فيه فاطّلع علينا إطّلاعة فقال : أليس ترضون بما أصنع؟ قلنا : ’’بلٰي يا خليفة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : ہم نے اس کمرے کا چکر لگایا جس میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود تھے جب آپ کو اس تکلیف نے آ لیا جس میں آپ نے وصال فرمایا۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم پر نمودار ہوئے اور فرمایا : ’’کیا تُم اس پر راضی نہیں ہو جو میں کر رہا ہوں؟‘‘ ہم نے عرض کی : ’’ہاں! اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ۔‘‘
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 85، رقم : 4469
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved