اسلام نے سود کو کسی بھی چھوٹی یا بڑی حالت میں قطعی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ عرب لوگ تجارت اور سود میں فرق نہیں کرتے تھے اور حلال و حرام کی تمیز کھو چکے تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا.
(البقرة، 2: 275)
’’الله نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سور کو حرام کیا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
یَمْحَقُ اللهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ.
(البقرة، 2: 276)
’’الله سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)۔‘‘
اس آیت کریمہ میں سود اور صدقات کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سودی معیشت سے چھٹکارے کا ذریعہ اسلام کا نظامِ صدقات ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے۔ اگر ان صدقات کو ایک نظام کا حصہ بنایا جائے اور صدقات بینک کی صورت میں پروان چڑھایا جائے تو نہ صرف سودی معیشت سے چھٹکارہ مل سکتا ہے بلکہ غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
الله رب العزت نے ایک اور مقام پر وارننگ دیتے ہوئے فرمایا:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ.
(البقرة، 2: 279)
’’پھر اگر تم باز نہ آئے تو الله اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ پر خبردار ہو جاؤ۔‘‘
سودکی نحوست کا اندازہ اس اندازِ بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سورۂ بقرہ میں وارد ہونے والی ان آیاتِ کریمہ میں الله رب العزت نے نہ صرف سود کی ہر شکل کو کلیتاً حرام قرار دیا بلکہ سودی لین دین کرنے والوں کو الله اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کرنے والے قرار دیا۔
احادیث رسول ﷺ میں بھی سودخوری کو مکمل طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا عبدالله بن مسعودؓ سے روایت ہے:
أن النبي ﷺ قال: الربا بضع وسبعون باباً والشرک مثل ذلک.
(مسند بزار، 5: 318، رقم: 1935)
’’سود کے ستر سے زیادہ درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح (گناہ میں اس کے برابر) ہے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے، فرمایا:
الربا سبعون باباً أدناها کالذي یقع علی أمه.
(بیهقی، 4: 394، رقم: 3320)
’’سود کے ستر دروازے (ستر اقسام) ہیں، ان میں سے ادنیٰ ترین (قسم کا گناہ) ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘
سود ایک ایسی خطرناک معاشی برائی ہے جس کی ہلاکت کو آج بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ سود کے منفی نتائج انسانی زندگی کے ہر شعبے میں سامنے آئے ہیں۔ سود اپنے اندر…روحانی و اَخلاقی، معاشی و تمدنی، سیاسی اور معاشی…ہر قسم کے نقصانات لئے ہوئے ہے۔
سودی معیشت اَخلاقی و روحانی سطح پر یوں اثرانداز ہوتی ہے کہ سود یا سودی کاروبار میں ملوث ہونے سے انسان میں اَخلاقی پستی پیدا ہوجاتی ہے اور خود غرضی، حرص و ہوس پرستی، بخل، سنگدلی اور تنگ نظری جیسی برائیاں اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ سود انسان کو اعلیٰ انسانی اَقدار سے محروم کر کے خودغرضی جیسے گھٹیاپن کی طرف لے جاتا ہے، جو اِنفرادی اور اِجتماعی گراوٹ و تنزل کا باعث بنتی ہیں۔ اُس کے نتیجے میں معاشرہ عدم اطمینانی اور اِضطراب کا شکار ہو جاتا ہے اور یوں اَخلاقِ حسنہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
سودی معیشت معاشرتی و تمدنی سطح پر یوں اثرانداز ہوتی ہے کہ مختلف ممالک بین الاقوامی تجارت اور اپنا نظامِ مملکت چلانے کے لئے معاہدات کرتے ہیں، جن میں مالی اِمداد اور قرضے وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اگر اُن میں سود کا عنصر شامل ہو جائے تو معاہد ممالک میں منافرت، خود غرضی، عناد اور حسد و رقابت کے جذبات فروغ پانے سے ایک سرد جنگ کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ قرض خواہ اور مقروض ملک بظاہر تو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں لیکن اُن میں ایک معاندانہ کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ چونکہ سود کے بالواسطہ اَثرات تمام عوام پر پڑتے ہیں اِس لئے مقروض ملک کے عوام میں قرض خواہ ملک کے لئے نفرت و حقارت کے جذبات سر اُٹھانے لگتے ہیں، جس کا اکثر نتیجہ اَمن کی پامالی کی صورت میں نکلتاہے۔ تاریخ اس ضمن میں بہت سے شواہد پیش کرتی ہے۔
سودی معیشت سیاسی سطح پر یوں اثرانداز ہوتی ہے کہ جس معاشرے میں سود داخل ہوتا ہے وہاں ملکی اور بین الاقوامی سیاسی فضا میں کشیدگی اور تناؤ کی سی کیفیت اپنے عروج کو جا پہنچتی ہے۔ سود ہی کی وجہ سے تعلقاتِ عامہ متاثر ہوتے ہیں، سیاسی معاہدات خسارے میں پڑ جاتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات میں بگاڑ کے باعث قوموں اور ممالک میں دو گروہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی برتری سود خور ملک حاصل کرتا ہے، جبکہ مقروض ملک سود کے بوجھ تلے محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ناپسند کرتے ہوئے بھی قرض خواہ ملک سے سیاسی اَحکام (Political Dictates) لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس طرح سود سیاسی میدان میں بھی اپنے مُفسِدات کی وجہ سے سیاسی عدم اِستحکام، نفرت، جنگ اور فقدانِ اَمن کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
سود معاشی میدان میں سب سے زیادہ نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ چند اہم معاشی نقصانات حسبِ ذیل ہیں:
غرض یہ کہ سود کے معاشی شعبہ (Economic Sector) میں اتنے دُور رَس مفسدات اور نقصانات ہیں، جنہیں تفصیل سے بیان کرنا یہاں طوالت کا باعث بنے گا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کے سائنسی اور علمی ترقی کے دور میں بھی اَصحابِ عقل و دانش سود کی برائیوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکے، جبکہ تاریخ اور حالاتِ زمانہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ سود پر مبنی معیشت جلد یا بدیر اِنحطاط، تنزل اور تباہی کا شکار ضرور ہوتی ہے۔
اِسلام نے مذکورہ بالا اُمور کا آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی اِدراک کیا اور اپنی اِلہامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی سود کے خاتمے کی طرف رغبت دلائی۔ اِسلامی معاشیات کے ماہرین نے قرآن و سنت کی روشنی میںجو اُصول و ضوابط مدوّن کئے اُن میںسود کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ اَربابِ اِقتدار کے لئے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ اِنقلابی اِقدامات کے ذریعے سود سے پاک معیشت کا قیام عمل میں لائیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِقتصادیاتِ اسلام‘‘ اور سی ڈی نمبر 894)
مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے مورگیج پہ گھر لینا (Mortgage) ایک سے زیادہ دلائل کی بناء پر جائز ہے۔ اسے سود قرار دے کر ناجائز سمجھنا محض سادہ لوحی ہے۔
سود قطعی طور پر حرام ہے اور اُسے حلال سمجھنا ایمان سے خارج ہونے کے مترادف ہے، مگر غیرمسلم ممالک میں بطور اقلیت رہنے والے مسلمان تارکین وطن کے لئے مورگیج پہ گھر حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ بطور اقلیت اُن کی پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔ غیرمسلم ممالک میں سود کی حرمت کے اَحکام اُسی طرح لاگو نہیں ہو سکتے جس طرح وہ اِسلامی ممالک میں ہوتے ہیں۔ حکم کا نافذ ہونا یا نہ ہونا منصوص نہیں بلکہ اِجتہادی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لئے اس حوالے سے کسی فقہ کی کتب میں کوئی اَحکام نہیں ملتے۔ جس کا سبب یہ ہے کہ اِسلامی دورِ عروج میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں سودی نظامِ معیشت والے ممالک میں جا کر نہیں بستے تھے، بلکہ غیرمسلم لوگ مسلمان ملکوں میں آ کر بسا کرتے تھے۔ اِس دور میں اس مسئلہ سے سابقہ پڑ رہا ہے تو اسی دور میں اس کے جواب کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اب جو دورِ زوال ہے تو پچھلی ایک صدی سے مسلمانوں نے غیرمسلم ممالک کی طرف امیگریشن شروع کی، بعد ازاں اُنہیں وہاں شہری حقوق ملنے لگے۔ اب وہ غیراسلامی اور سودی نظامِ معیشت والے ممالک میں بستے ہیں، جہاں بلاسود قرضہ کا ملنا ناممکن ہے۔ ایسے میں اگر مورگیج کی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر گھر نہیں بنائیں گے تو مسلمان معیشت میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مغربی دُنیا کی غیرمسلم حکومتوں میں جا بسنے والے مسلمان تنخواہ، سوشل سیکیورٹی، چائلڈ بینفٹ، میڈیکل بینفٹ اور پنشن وغیرہ جس خزانے سے لے رہے ہیں، کیا وہ حلال ذرائع پر مشتمل ہے؟ یقینا اُس میں شراب اور خنزیر کا سیل ٹیکس اور سود کا پیسہ بھی شامل ہے اور وہاں کی حکومتیں شراب اور خنزیر کے ٹیکس اور سودی نظام سے اکٹھی ہونے والی رقوم سے اُنہیں سوشل سیکیورٹی سمیت تمام فوائد دے رہی ہے۔ جو سادہ لوح دین دار لوگ غیرمسلم ممالک میں مورگیج کے حرام ہونے پر اِصرار کرتے ہیں اُنہیں غور کرنا چاہیئے کہ باقی سارا کچھ حلال ہوگیا اور صرف مورگیج حرام ہو گیا، یہ کیسا اُصول ہے! وہاں کا سارا نظام سودی ہے، ہر ماہ جو چائلڈ بینفٹ لیتے ہیں وہ بھی تو شراب اور خنزیر سمیت ہر قسم کی حلال و حرام کی ملی جلی انکم سے آتا ہے۔ جب باقی ساری سہولیات کا لینا حلال ٹھہرا تو ایک مورگیج ہی کیوں باقی رہ گیا! اِس کا جواب یقینا یہ ہوگا کہ چائلڈ بینیفٹ نہ لیں تو بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلوا سکتے، پنشن اور سوشل سیکیورٹی سمیت دُوسری تما م سہولتوں کے جواز پر بھی ایسا ہی جواب ملے گا۔ سادہ سی بات ہے کہ جس چیز نے باقی ساری سہولتوں کو جائز بنایا اُنہی پر مورگیج کو بھی قیاس کرلیں۔ اگر مورگیج کو حرام قرار دینا ہے تو اُس پورے سسٹم کو حرام قرار دے کر مسلمانوں کو وہاں سے نکلنا ہوگا، چھٹی کر کے گھر چلے جائیں، مکہ مدینہ چلے جائیں، دیارِکفر میں بسنے کی تکلیف کیوں کی ہے۔
اسی طرح ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مورگیج نہ لیں تو کتنے لوگ ہیں جو بغیر مورگیج لئے سو فیصد ادائیگی کر کے مکان خرید سکیں! جو لوگ محنت مزدوری کرنے بیرونِ ملک جاتے ہیں وہ کیونکر مکان خرید سکتے ہیں! اگر اُن کے پاس اتنا مال و دولت ہوتی تو اُنہیں پاکستان چھوڑ کر باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جہاں باقی سہولتیں لینا جائز ہے وہیں مورگیج کو بھی شامل کر لیں۔ مزید یہ کہ سود لینا اور دینا دونوں حرام ہے۔ یونہی کفر کے نظام سے لینا اور دینا اُسے مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ اس لحاظ سے تو اُن ممالک میں ٹیکس دینا بھی حرام ہوا کہ اُس سے بھی کفر کے نظام کو مدد ملتی ہے۔ مسلمانوں کے ٹیکس سے کفر کی حکومتیں طاقتور ہو رہی ہیں اور وہ اُن کے نظام کی خدمت کر رہے ہیں۔ یوں کرتے کرتے اِس لحاظ سے تو اُن کے ہاں نوکری بھی تو ایک طرح سے اُن کے نظام کی مدد ہے۔ پھر سب کچھ چھوڑ دیں، پنشن بھی چھوڑ دیں، سارا لین اور دین حرام ہے تو پھر چھوڑ دیں سب کچھ۔
شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب مسلمان کسی ایسے غیرمسلم ملک میں رہ رہے ہوں جہاں اِسلام کا نظام موجود نہ ہو اور عالمِ کفر کی حکومت اور نظام چل رہا ہو تو وہاں جب آپ اپنے معاش، رہائش اور کاروبار کے لئے اُنہیں ٹیکس دے رہے ہیں وہاں آپ بطور شہری مورگیج سمیت اُن کے نظام کی تمام سہولیات سے بھی فائدہ لے سکتے ہیں۔ مسلمان اقلیت ہیں، قانون اُن کے ہاتھ میں نہیں کہ وہ سودی نظام کو ختم کر سکیں، اس لئے وہاں بسنے والے مسلمانوں پر اَحکام کا اِطلاق نہیں ہوگا۔ اِنفرادی قرض لینا وہاں ممکن نہیں ہے، لینا بھی حکومت اور بینکوں سے ہی ہے جوسودی نظام سے چلتی ہیں، اس لئے یہ اِستثنائی حالت ہے اور وہاں اقلیت ہونے اور نظام مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہونے کی بناء پر اُن پر اَحکام لاگو نہیں ہوں گے۔
خنزیر اور مردار اور شراب حرام ہیں مگر اِستثنائی صورت میں اِسلام کا قانون مختلف ہے۔ فرمایا:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلا اِثْمَ عَلَیْهِ.
(البقرة، 2: 173)
’’پھر جو شخص مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اُس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔‘‘
حلال کی عدم دستیابی کی صورت میں حرام کے اِستعمال کی اِجازت بھی دی جا رہی ہے۔ اس اِستثنائی حکم سے حرام حلال نہیں ہو جاتا، مگر اُس کے استعمال کی اجازت مل جاتی ہے۔ یونہی کینیڈا میں سود حلال نہیں ہو جاتا، بلکہ صورتحال تبدیل ہونے اور اِضطراری حالت ہونے سے اُس کا اِستعمال جائز ہوگیا اور حرمت کا حکم اگلی صورتحال تک کے لئے معطل ہو گیا۔ جب کبھی کینیڈا میں بلاسود نظام مہیا ہوگا تب مورگیج کا اِستثنائی جواز بھی ختم ہو جائے گا۔
مورگیج کو حرام کھا کر جان بچانے کے برابر تو نہیں کہا جا سکتا، مگر جیسے کسی شخص کا حرام کھا کر اپنی جان بچانا اِنفرادی اِضطرار تھا، اِسی طرح غیرمسلم ملکوں میں مسلمانوں کے معاشی اِستحکام کی ضرورت ایک اِجتماعی اِضطرار ہے۔ اِنفرادی اِضطرار میں جان بچانے کا مسئلہ تھا، جبکہ اِجتماعی اِضطرار میں مسلم سوسائٹی کی اِجتماعی بقا کا مسئلہ ہے، اِس لئے یہاں اجتماعی استثنا ہے۔ اگر مورگیج کی نفی کر دی جائے تو مغربی دنیا میں اِجتماعی طور پر کوئی بھی مسلمان قابلِ رہائش نہیں رہتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ کرائے پر مکان لیں اور کاروبار کے لئے بھی قرضہ نہ لیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوں تو اِس نظام میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ اگر آج تمام مسلمان مورگیج اور قرضے بند کرنے کا اِعلان کر دیں تو پوری کی پوری مسلم سوسائٹی کی بقا ختم ہو جائے گی۔ غیراِسلامی سوسائٹی میں اِجتماعی بقا اور مسلمانوں کا قیام بچانا اِستثنائی مسئلہ ہے۔
اس مسئلہ کو گہرائی تک سمجھنے کے لئے ذرا ایک نظر یوں بھی سوچیں کہ عالم اسلام میں جب بھی کسی ملک میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو تارکینِ وطن اُن کی مدد کرتے ہیں اور اس بات کو سبھی سراہتے ہیں۔ پاکستان میں زلزلہ ہو یا سیلاب تارکین وطن کی طرف سے مدد آنے پر اُن کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ آج اگر اُنہیں باعزت مقام ملا ہے تو معیشت مضبوط ہونے کی بناء پر ہے۔ اِس بات پر تو فخر کیا جاتا ہے کہ دیارِکفر میں اِتنی مسجدیں بن گئی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان مسجدوں کو بنانے کے لئے پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ امریکہ میں اِتنی مسجدیں بھی وہی متمول تارکین وطن بنا رہے ہیں، جو مورگیج سمیت سودی نظام کے سارے فوائد لے رہے ہیں۔ آج اگر تمام مسلمان تہیہ کر لیں کہ آج کے بعد مورگیج اور سودی نظام کی تمام سہولتیں لینے سے اِنکار کرتے ہیں تو نئی مسجدوں کا قیام تو درکنار پہلے سے قائم تمام مسجدیں بھی بند ہو جائیں گی۔ چندے بھی ختم، مسجدوں کا قیام بند، اسلامک ایجوکیشن بند، اسلامی مراکز بند، مسلمان اِقتصادی طور پر ایک کمزور کمیونٹی ہوں گے۔ چپڑاسی کی اور پٹرول پمپ کی نوکری رہ جائے گی۔ مفلسی عام ہو گی، تجارت نہیں کر سکیں گے۔ معیشت کے زور پر مسجدیں بن رہی ہیں، معیشت مضبوط ہونے سے ہی یہ سب کام بڑھ رہے ہیں، معیشت غیرمستحکم ہوئی تو پوری سوسائٹی اُکھڑ جائے گی۔ اگر آج یہ راستہ بند ہو جائے تو کوئی مسلمان ٹریڈ نہیں کر سکے گا، فیکٹری لگانا، کوئی کاروبار کرنا ناممکن، صرف مزدوری رہ جائے گی، اور پھر دُنیا بولے گی کہ مسلمان بھوکے ننگے ہوتے ہیں، بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ اور یوں مغربی دُنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا اِسلام بھی سکڑنے لگے گا۔ اِسی اِجتماعی اِضطرار کے پیش نظر مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے مورگیج پہ گھر لینا (Mortgage) جائز ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 220)
پاکستان میں قسطوں کا مروجہ کاروبار جائز ہے، جس میں قسطوں کی وجہ سے اشیائے فروخت کی نقد قیمت سے کچھ زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اِمام ترمذی فرماتے ہیں:
اَن یقولَ اَبیعکَ هٰذا الثوبَ بنقدٍ بعشرة و بنسیئةٍ بعشرین.
(الترمذی: 1: 147)
’’(دوکاندار کا گاہک سے) یوں کہنا (جائز ہے) کہ میں تمہیں یہ کپڑا نقد قیمت پر دس روپے میں اور اُدھار قیمت پر بیس روپے میں بیچتا ہوں۔‘‘
قسطوں کا کاروبار لوگوں کے لئے ایک سہولت ہے، اسے سود پر قیاس کرتے ہوئے ناجائز تصور کرنا درست نہیں ہے۔
گھریلو بچت کے طور پر انعامی بانڈ خرید کر رکھ لینا جائز ہے اور انعام میں نکلنے والی رقم بھی حلال ہے۔ اس سے ملنے والا منافع کسی طرح بھی سود یا جوئے کے زمرے میں نہیں آتا۔ جو علماء انعامی بانڈ کو ناجائز قرار دیتے ہیں وہ اسے قمار (یعنی جوا) پر قیاس کرتے ہیں۔ قمار وہ ہوتا ہے کہ کسی کی رقم ڈوب جائے اور کسی دوسرے کو اس کی رقم سے زائد مل جائے۔ جبکہ یہاں سب کی رقم محفوظ رہتی ہے اور منافع قرعہ اندازی کے ذریعہ انعام کی صورت میں کسی کو مل جاتا ہے۔ اگرچہ گھریلو بچت، رقم کے تحفظ اور ہنگامی ضروریات کے لئے انعامی بانڈ خرید کر رکھ لینا جائز ہے، تاہم اسے کاروبار بنا لینا مناسب نہیں کیونکہ یہ کمائی کا اچھا ذریعہ نہیں ہے۔
اِسلامی لیبر پالیسی کے اہم خد و خال میں سب سے اہم یہ نکتہ ہے کہ ’’اِنسانی محنت خریدنی جنس نہیں ہے‘‘۔ ایک مزدور اپنی حاجات یا ضروریات کے تحت مزدوری کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے اپنے آپ کو یا اپنی اجرت کو آجر کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اور نہ ہی آجر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس نے مزدورکی خدمات لے کر اسے اپنا غلام بنا لیا ہے بلکہ اگر آجر اور اجیر کے درمیان کوئی کام سرانجام دینے کا معاملہ یا معاہدہ ہوا ہے تو وہ ایک دوسرے کے باہمی مفاد (Mutual Interest) اور ضرورت کو پورا کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں کوئی بائع یا مشتری نہیں ہے۔ یہ معاملہ یا معاہدہ برابری، اخوت، باہمی اعتماد و احترام پر مبنی ہے کسی کو نیچا دکھانے، اپنی بڑائی جتانے یا مزور کو دبانے کرنے کے لئے نہیں۔ اصل میں یہ اجرت، مشاہرہ یا تنخواہ وغیرہ اُس وقت کا بدل یا متبادل ہے جو اَجیر (مزدور) کسی اور ذریعہ سے اپنی ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے میں خرچ کر سکتا تھا۔
اِسلامی لیبر پالیسی کے ضمن میں دوسرا نکتہ ’’ظلم اور نااِنصافی کی نفی‘‘ ہے۔ معاملہ بندی میں آجر اِس امر کا خیال رکھے کہ مزدور سے اپنی ضرورت کو پورا کرانے میں اُس کے ساتھ ظلم اور نااِنصافی سرزد نہ ہو۔ ظلم اور نااِنصافی سے اِجتناب کام کے آغاز، درمیان اور اِختتام تک جاری رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح محبت اور حسنِ سلوک کے جذبات رکھنا بھی لازمی ہے۔ تھکان کی صورت میں مزدور کو آرام کرنے کی سہولت دینا، بروقت اُجرت کی ادائیگی اور ناگہانی حالت میں اُس کے ساتھ تعاون کرنا بھی ضروری ہے۔
اِسلامی لیبر پالیسی کے ضمن میں تیسرا نکتہ ’’اُجرت کی درجہ بندی اور عادلانہ اُجرت‘‘ ہے۔ عصرِ حاضر میں سرمایہ دار مزدوروں کی رسد میں اِضافہ کی وجہ سے کم اُجرت ادا کرتا ہے جبکہ دوسری طرف مزدور وسیع پیمانے پر بے روزگاری (Large scale Unemployment) کی وجہ سے کم اُجرت پر کام کرنے کے لئے مجبوراً راضی ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح مزدور سے کام زیادہ لینا اور مشاہرہ کم دینے کا بھی رواج عام ہے۔ بسا اوقات مزدور کو کام پر لگا لیا جاتا ہے اور کام مکمل ہونے پر اپنی مرضی سے اُجرت دی جاتی ہے جو اکثر کم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اُجرت کی ادائیگی میں من مانی رکاوٹ، تاخیر اور پریشان کن ترکیبیں استعمال کرکے مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اسلامی لیبر پالیسی میں ان تمام اُمور کا سدباب کیا گیا ہے بلکہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ص سے مروی حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
مطل الغني ظلمٌ.
(صحیح بخاري، 2: 845، رقم: 2270)
’’مالدار کا (مالداری کے باوجود دوسرے کے ادائے حق میں) تاخیر کرنا ظلم ہے۔‘‘
متذکرہ بالا تمام اِستحصالی رویوں اور معاشی برائیوں کی حوصلہ شکنی اور اُن کی بیخ کنی کے لئے اِسلام عادلانہ اُجرت (Equitable wages) کا تصور پیش کرتا ہے، جس کے تحت ہر محنت کش کو اتنی اُجرت ملے گی جو اُس کے گزر اوقات کے لئے کافی ہو۔ یہاں حکومتِ وقت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ان اُمور میں نگرانی کرے اور ایسے قوانین بنائے جو محنت و اجرت میں توازن پیدا کریں تاکہ ملک میں معاشی ترقی و خوشحالی ہو اور محنت کش طبقہ بھی امن و سکون کی زندگی بسر کرسکے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اِقدامات مستحسن ہوں گے:
اِسلامی لیبر پالیسی کے ضمن میں ’’جبری مشقت کی نفی‘‘ ایک اہم پوائنٹ ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات و ہدایات آفاقی ہیں۔ اس کے راہنما اصول زندگی کے تمام شعبہ جات پر محیط ہیں۔ معاشرتی و معاشی اعتبار سے بھی ’’جبر‘‘ کو ناپسند کیا گیا ہے چنانچہ عورتوں، بچوں اور محتاجوں (Destitutes) وغیرہ سے ان کی اِستطاعت سے زیادہ کام لینا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَایُکَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.
(البقرة، 2: 286)
’’الله کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
گویا الله رب العزت کی سنت ہے کہ وہ کسی پر اس کی مقدور بھر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس آیتِ کریمہ میں بھی انسانوں کی توجہ اسی امر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ بھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے جبراً یا اُن کی اِستطاعت سے زیادہ مشقت نہ لیں اگر ہو سکے تو اس امر سے کلیتاً اِعراض کیا جائے۔ اسی ضمن میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے:ـ
ولا تکلّفوهم ما یغلبهم.
(صحیح بخاري، 1: 20، رقم: 30)
’’اور ان پر اتنا کام نہ لادو جو اُنہیں مغلوب کر دے۔‘‘
صحابہ کرام ث نے بھی اسی طرز عمل کو اپنائے رکھا اور اسی کی تعلیم دی۔ حضرت عثمان غنیص نے فرمایا:
لا تکلّفوا الأمة غیر ذات الصنعة الکسب … ولا تکلّفوا الصغیر الکسب.
(موطأ مالک، 2: 981، رقم: 1771)
’’جو لونڈی کوئی ہنر نہ جانتی ہو اس کو کمائی پر مجبور مت کرو … اور نہ ہی چھوٹے بچے کو کام پر مجبور کرو۔‘‘
پس ضروری ہے کہ مزدور کو زیادہ کام کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا اس کے حقوق کی پامالی اور ظلم و استحصال کے مترادف ہو گا۔
جس طرح مزدور سے جبر و اِکراہ کے ساتھ کام لینے کی نفی کی گئی، اِسی طرح اضافی کام کے لئے اضافی اُجرت دینے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ معاہدہ کرتے وقت کام کی خاص مقدار طے کی گئی تھی، اب اگر کسی وجہ سے کام بڑھ گیا ہے تو اُس کی اِضافی اُجرت ادا کرنا لازمی ہے۔ اسی طرح اسلامی لیبر پالیسی میں حقِ محنت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ اضافی حقوق کی ادائیگی بھی لازمی قرار دی گئی مثلاً پنشن (Pension)، بڑھاپے میں دی جانے والی سہولتیں (Old Age Benefits)، وفات کے بعد متاثرہ خاندان کی مدد (After Death Benefits) ، قرضِ حسنہ (Interst Free Loans)، ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد طبی سہولتیں (Medical Facilities) اور پنشن میں گاہے بگاہے اضافہ (Increase in Pension) قابلِ ذکر امور ہیں۔
عاملینِ پیدائش میں سرمایہ، ہنر اور محنت اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ ان میں سرمایہ بہت اونچا اور مضبوط درجہ رکھتا ہے، ہنر کا درجہ بہت نیچے ہے مگر قدرے قابلِ قبول ہے جبکہ محنت کو محرومی اور ذلت گردانا جاتا ہے۔ دورِ جدید میں مکر و فریب کی چالوں سے محنت کو حد درجہ ذلیل (Degrade) کیا گیا ہے جبکہ یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اربابِ اختیار، ماہرینِ معاشیات اور منصوبہ بندی کرنے والے مذکورہ بالا عوامل (سرمایہ، ہنر، محنت) میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ایسی کوشش ملک و ملت اور عوام الناس کی خوشحالی و ترقی کی ضامن ہو گی۔
قرآن مجید کی بے شمار آیات محنت کشوں کے اخلاقی و قانونی حقوق کی ادائیگی کی دعوت دیتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3: 92)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین و ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ پر باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ.
(البقرة، 2: 219)
’’اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)۔‘‘
ایسی بہت سی آیات میں الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مزدور تک اس کا حق پہنچایا جائے یعنی اس کی مزدوری کی بروقت ادائیگی اس کا استحقاق ہے۔ دینی تعلیمات کے تحت یہ حق ادا کرنا اخلاقی فرض ہے جو کہ ہر آجر پر عائد ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں مزدور کے اخلاقی استحقاق کا کثرت کے ساتھ بیان موجود ہے۔
جہاں تک محنت کش کے قانونی استحقاق کا تعلق ہے اس کے لئے اسلام میں واضح قانون سازی کی گئی ہے، جس کی تفصیل و تشریح قرآن مجید اور احادیثِ نبوی ﷺ میں موجود ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo
(الذاریات، 51: 19)
’’اور اُن کے اَموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر ہے۔‘‘
یہ فرمانِ خداوندی واضح طور پر بیان کر رہے ہیں کہ مالدار کے مال میں مزدور کا حصہ ہوتا ہے، جو قانونی اِستحقاق کی غمازی کرتا ہے اور اُسے بجا لانا آجر پر قانونی فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:
من أحیا أرضاً میتة فهي له.
(ابو داؤد، 3: 178، رقم: 3073)
’’جس نے بنجر زمین آباد کی وہ اسی کے لیے ہے۔‘‘
اس طرح مزدور کے قانونی استحقاق کی واضح نشاندہی ہو جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر ہر مقام پر اسلامی تعلیمات کے تحت محنت کشوں کے اخلاقی اور قانونی حقوق کا خیال رکھا جائے جو حقیقت، عقل و دانش، انصاف اور صداقت پر مبنی ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات مستحسن ہوں گے:
ا) رعایتی قیمتوں پر اشیائے خوردنی و دیگر ضروری اشیائے صَرف فراہم کرنے کے لئے خصوصی سٹورز کا قیام۔
ب) سستی رہائش کی فراہمی یا ادارے کی طرف سے مفت رہائش کی سہولت۔
ج) مزدور طبقہ کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنے اور ان کی غربت کے خاتمہ (Elimination of Poverty) کے لئے غور و فکر اور عملی اقدامات کرنا۔
د) ورکرز سیکورٹی منسٹری (وزارت برائے تحفظِ مزدوراں، (Labour Security Ministry کا قیام۔
ر) مزدورں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام و انصرام۔
س) صحت کے مراکز، ہسپتال اور ان میں ادویات کی فراہمی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِقتصادیاتِ اسلام‘‘)
بچے کسی بھی قوم کے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اُن کی اچھی تعلیم و تربیت اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ اکثر غریب خاندانوں کے بچے، خاص طور پر گاؤں دیہات میں، سکول نہیں بھیجے جاتے اور کسی چھوٹے موٹے کام پر لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ اُن کی تنخواہ یا دیہاڑی سے گھر کے خرچ میں مدد مل سکے۔ اس سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔
تعلیم و تربیت کا فقدان بچوں میں اِحساسِ کمتری پیدا کرتا ہے۔ بہتر ماحول، معاشرہ میں باعزت مقام اور محبت نہ ملنے کی وجہ سے اُن میں بے شمار معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ سگریٹ نوشی، بد کلامی، خود غرضی، پیسے کی ہوس، غم و غصہ کے جذبات اور بڑے ہو کر سرمایہ داروں سے مخالفت، دُشمنی اور بدلہ لینے کی خواہشات اُن کے کردار کو تباہ کر دیتی ہیں۔ یہ تمام برائیاں اکثر اُن سے بچپن میں مزدوری کرانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا بچوں سے محنت و مزدوری کروانے کو ممنوع قرار دینا اور اُن کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا قوم و ملت کے لئے ضروری ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِقتصادیاتِ اسلام‘‘)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved