نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَ أَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ.
(المائدة، 5: 6)
’’تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔‘‘
وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔
جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالی نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے، البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں رہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ جسم کے ہر اُس حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے، دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔
انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں، جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔
وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔ اور یہ سب تعلیمات اِسلام نے ہمیں اُس دور میں دیں جب شرق تا غرب کسی ملک اور کسی تہذیب میں صفائی کا شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔ اِسلام ہی وہ دین ہے جس نے اِنسانیت کو صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، یہاں ہم اس کے طبی فوائد پر روشنی ڈالیں گے۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہرین (physiotherapists) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔
ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ إِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی.
(النساء 4: 142)
’’اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔‘‘
تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔ قرآنی اَحکامات کی مزید توضیح سرکارِ مدینہ ﷺ کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
فإنّ فی الصلٰوةِ شِفاءٌ.
(سنن ابن ماجه: 225)
’’بیشک نماز میں شفاء ہے۔‘‘
جدید سائنسی پیش رفت کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار 150 سے 250 ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اُس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ جبکہ دُوسری طرف نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں، اِس لئے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتی ہے، اِس لئے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔
نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِجدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں تاجدارِ حکمت ﷺ کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ حضور ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
أذِیبوا طعامَکم بذکرِ اللهِ وَالصلٰوةِ.
(المعجم الأوسط، 5: 500، رقم: 4949)
’’اپنی خوراک (کے کولیسٹرول) کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔‘‘
اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کے اِرشاد اور عمل کے مطابق صحیح طریق پر پنج وقتی نماز ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔ نماز کی مختلف حالتوں میں جو ورزش ہوتی ہے اُس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تکبیرِ تحریمہ کے دوران نیت باندھتے وقت کہنی کے سامنے کے عضلات اور کندھے کے جوڑوں کے عضلات حصہ لیتے ہیں۔
قیام کے لئے ہاتھ باندھتے وقت کہنی کے آگے کھنچنے والے پٹھے اور کلائی کے آگے اور پیچھے کھنچنے والے پٹھے حصہ لیتے ہیں جبکہ جسم کے باقی پٹھے سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے اپنا معمول کا کام ادا کرتے ہیں۔
رکوع کی حالت میں جسم کے تمام پٹھے ورزش میں حصہ لیتے ہیں۔ اُس میں کولہے کے جوڑ پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ گھٹنے کے جوڑ سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ کہنیاں سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں اور کلائی بھی سیدھی ہوتی ہے جبکہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں۔
سجدے میں کولہوں، گھٹنوں، ٹخنوں اور کہنیوں پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ ٹانگوں و رانوں کے پیچھے کے پٹھے اور کمر و پیٹ کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور کندھے کے جوڑ کے پٹھے اس کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کلائی کے پیچھے کے عضلات بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سجدے میں مردوں کے برخلاف عورتوں کے لئے گھٹنوں کو چھاتی سے لگانا طبی نکتہ نظر سے نہایت احسن ہے، یہ بچہ دانی کے پیچھے گرنے کے عارضے کا بہترین علاج ہے۔ سجدہ دل و دماغ کو خون کی فراہمی کے لئے نہایت ہی موزوں عمل ہے۔
تشہد میں التحیات کی صورت میں گھنٹے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے، ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں، کمر اور گردن کے پٹھے بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
سلام پھیرتے وقت گردن کے دائیں اور بائیں طرف کے پٹھے کام کرتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ سنتِ نبوی کی پیروِی میں درُست طریقے سے نماز ادا کرنے کی صورت میں اِنسانی بدن کا ہر عضو ایک قسم کی ہلکی پھلکی ورزش میں حصہ لیتا ہے جو اُس کی عمومی صحت کے لئے مفید ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے، جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا إِنَّهٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَO
(الاعراف، 7: 31)
’’کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے:
إنّ المؤمنَ یأکلُ فی معیٍ واحدٍ، وَ الکافر یأکلُ فی سبعة أمعاء.
(صحیح بخاری، 2: 812)
’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا:
إنّ اللهَ یبغض الأ کلَ فوق شبعهٖ.
(کنزالعمال: 44029)
’’اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔‘‘
بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے، اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت ﷺ کا فرمان ہے:
أکثر الناسِ شبعاً فی الدُّنیا أطولهم جوعاً یومَ القیامةِ.
(سنن ابن ماجه: 248)
’’جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔‘‘
اِسی طرح نبی اکرم ﷺ نے مزید اِرشاد فرمایا:
حسب الآٰدمی لقیمات، یقمن صلبهٗ، فإنْ غلبت الآٰدمی نفسهٗ فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.
(سنن ابن ماجه: 248)
’’اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے (میں آسانی) کے لئے چھوڑ دو۔‘‘
کثرتِ طعام ذیابیطس (شوگر) جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلئے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی شے خوراک کی مقدار نہیں بلکہ ایسی خوراک کا چناؤ ہے جو متوازن ہو اور تمام جسمانی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکے۔ کھانا کھاتے وقت اگر ہم اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو بہت سے اَمراض سے بچ سکتے ہیں۔ حلال غذائیں یوں تو بے شمار ہیں مگر اُن میں چند ایک ہی ایسی ہیں جن کی ترغیب قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وُہی غذائیں اِنسانی جسم کے لئے حیرت انگیز حد تک مفید ہیں۔
عام آدمی کو روزانہ جتنی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے:
2900 کیلوریز عام اوسط مردوں کیلئے، 2200 کیلوریز اوسط خواتین کے لئے
400 گرام
سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، سلفر، فاسفورس، اور آیوڈین کی شکل میں۔
کم از کم 45 گرام
وٹامن A، وٹامن B1، B2، B6، B12 ، وٹامن C، وٹامن D اور وٹامن E
صرف اتنی مقدار جتنی توانائی کے لئے جلائی جا سکے
خالص اور جراثیم سے پاک، یہ جسم کے 66% حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویسے تو تمام حلال غذائیں اِستعمال کرنا جائز ہے مگر قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں بعض غذاؤں سے متعلق خاص ہدایات دیتی دِکھائی دیتی ہیں۔
گوشت اِنسانی خوراک کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ بعض جانوروں کا گوشت عام انسانی صحت کے لئے مفید ہے، جبکہ دوسرے بعض جانوروں کا گوشت کچھ مضر ہے۔ دیگر جانوروں کا گوشت مکمل طور پر نقصان دہ بھی ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کسی طور پر انسان کے لئے مناسب نہیں شریعت نے اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔ جن کا گوشت قدرے غیرمفید ہے اُن کا اِستعمال اگرچہ روا رکھا ہے مگر اُسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ جو جانور اپنے گوشت میں مضرات نہیں رکھتے اور صحتِ اِنسانی کے لئے مفید ہیں اُن کا گوشت کھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ شریعت میں چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے گوشت کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن سفید گوشت (یعنی مچھلی اور پرندوں وغیرہ کے گوشت) کو ترجیح دی گئی ہے۔ اُس میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے اور اِس طرح وہ دِل کے لئے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتا۔
پیارے نبی ﷺ نے سرخ گوشت کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے:
علیکم بألبانِ البقر فإنّھا شفاءٌ، و سمنها دواءٌ و لحومھا داءٌ.
(زاد المعاد، 4: 324)
’’گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔‘‘
گائے کا گوشت جسے سرخ گوشت بھی کہتے ہیں، اُس میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
100گرام گائے کے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی یہ مقدار پائی جاتی ہے:
1. پکے ہوئے قیمے میں: 229 حرارے 15.2 گرام چکنائیاں
2. پشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے میں: 246 حرارے 14.6 گرام چکنائیاں
3. کباب میں: 218 حرارے 12.1 گرام چکنائیاں
4. روسٹ کئے ہوئے پٹھہ میں: 284 حرارے 21.1 گرام چکنائیاں
اِس میں بھی بہت زیادہ چکنائی ہوتی ہے، درج ذیل جدول میں دیکھئے کہ 100 گرام چھوٹے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی مقدار یوں ہے:
1. ٹانگ کا بھنا ہوا گوشت: 266 حرارے 17.9 گرام چکنائیاں
2. پشت کا بھنا ہوا گوشت: 355 حرارے 29 گرام چکنائیاں
3. کباب (چربی کے بغیر گوشت): 222 حرارے 12.3 گرام چکنائیاں
4. بھنا ہوا چربی کے بغیر گوشت: 191 حرارے 8.1 گرام چکنائیاں
چھوٹے گوشت میں گردن ایک ایسا عضو ہے جس میں چکنائی کی مقدار باقی بدن کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں کچھ زیادہ کولیسٹرول نہیں ہوتا۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے چھوٹے گوشت میں سے گردن کے گوشت کو تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
و کان أحبّ الشاةِ إلٰی رسول الله ﷺ مقدّمھا و کل ما علا منه سوی الرأس کان أخفّ و أجود مما سفل.
(زاد المعاد، 4: 373)
’’رسول اللہ ﷺ کو بکری میں سب سے زیادہ اگلے حصے (گردن) کا گوشت پسند تھا اور جو کچھ سر کے علاوہ اگلے بدن میں ہے کیونکہ یہ حصہ خفیف (بوجھل پن سے پاک) ہوتا ہے اور پچھلے حصے کی نسبت عمدہ ہوتا ہے۔‘‘
ماہرینِ غذا نے بھی بغیر چربی کے گوشت (lean) کو بہترین قرار دیا ہے کیونکہ اُس میں سیرشدہ چکنائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔
مچھلی اور پرندوں کے گوشت میں چونکہ نسبتاً کم چکنائی ہوتی ہے اِس لئے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اُس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے پرندوں کے گوشت کو ’’جنت کی خوراک‘‘ قرار دیا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَO
(الواقعة، 56: 21)
’’اور اُنہیں پرندوں کا گوشت ملے گا، جتنا وہ چاہیں گے‘‘
علاوہ ازیں نبی مکرم ﷺ نے گوناگوں غذائی اور طبی فوائد کی بنا پر ہی مچھلی کے گوشت کی خاص طور پر اِجازت عطا کی۔ سفید مچھلی میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے جبکہ تیل والی مچھلی میں غیرسیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ اِس لئے اُس کا اِستعمال بھی اِنسانی صحت کے لئے مفید ہے۔
قرآنِ مجید میں انجیر اور زیتون کی اہمیت کو اللہ ربّ العزت نے قسم کھا کر اُجاگر کیا ہے، فرمایا:
وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِO
(التین، 95: 1)
’’انجیر اور زیتون کی قسم۔‘‘
انجیر سے کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے ضروری اجزاء کی بڑی مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن اُس کی زیادہ مقدار ریشے (fibre) میں پائی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں اور چھاتی کو طاقت بخشتا ہے اور ذہنی و قلبی امراض کے علاج میں مدد دیتا ہے۔ چونکہ اُس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اِس لئے غیرسیرشدہ چکنائی ہونے کے ناطے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا اِستعمال دل کے مریض کے لئے بہت مفید ہے۔
قرآنی پھل ہونے کے ناطے زیتون بہت سے اَمراض میں مفید ہے۔ جو لوگ اپنی روزانہ خوراک میں کولیسٹرول کی کمی کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے زیتون کا تیل گھی کا بہترین متبادل ہے۔
100 گرام زیتون ان اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
کیلوریز 82
پروٹین 0.7 گرام
سیرشدہ چکنائیاں 1.2 گرام
غیر سیرشدہ چکنائیاں 1.0 گرام
غذائی ریشہ 35گرام
مکمل چکنائی 8.8گرام
جبکہ اِس میں کولیسٹرول کی مقدار صفر ہوتی ہے۔
چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج کی جدید طب کی تحقیق یہ ہے کہ جمنے والی چیزوں بناسپتی گھی وغیرہ کو چھوڑ کر اُس کی جگہ تیل کو اِستعمال میں لایا جائے تاکہ اِنسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مقررّہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اُن محققین و ماہرینِ طب کی نظر سے آقائے دوجہاں ﷺ کے فرمودات و اِرشادات کا یہ رُخ گزرے تو اُنہیں اِسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے چودہ سو سال قبل زیتون کی اِفادیت کا اِعلان فرما دیا تھا۔ آج زیتون کی یہ تحقیق ثابت ہو چکی کہ اَمراضِ قلب، انجائنا، بلڈپریشر اور اَمراضِ سینہ وغیرہ میں زیتون کا تیل نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں دل کے اَمراض باقی دُنیا کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے باشندے گھی اور مکھن جیسی چکنائیوں کی بجائے زیتون کا تیل کثرت سے اِستعمال کرتے ہیں۔
یہاں تاجدارِ رحمت و حکمت ﷺ کا یہ فرمان خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
إنّ عمر بن الخطاب قال، قال رسول اللہ ﷺ: ’’کلوا الزیت وَ ادّھنُوا بہٖ، فإنّہٗ مِن شجرۃٍ مبارکۃٍ۔ (جامع الترمذی، 2: 6)
’’حضرت عمر بن خطابؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: تم روغنِ زیتون کو کھاؤ اور اُس کا بدن پر بیرونی اِستعمال بھی کرو کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے۔‘‘
شہد (Honey)
شہد حفظانِ صحت کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ قدرت نے اُس میں اِنسانی جسم کی تمام ضروریات و مقتضیات کو یکجا کر دیا ہے۔ شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
فِیْہِ شِفَائٌ لِّلنَّاسِ۔ (النحل، 16: 49)
’’اُس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔‘‘
اِس ضمن میں رسولِ اکرم ﷺ کا اِرشاد ِگرامی ہے:
علیکم بالشفائین، العسل و القرآن۔ (سنن ابن ماجہ: 255)
دو چیزیں شفا کے لئے بہت ضروری ہیں: (کتابوں میں) قرآن اور (اشیائے خوردنی میں) شہد۔
شہد نہ صرف حفظانِ صحت کے لئے مفید ہے بلکہ اُس میں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایک بیمار صحابی کا واقعہ بھی مذکور ہے جو نہایت موذی مرض میں مبتلا تھے اور اُنہیں شہد ہی سے اِفاقہ ہوا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں:
عن أبی سعید، قال: جآء رجل إلی النبی ﷺ ، فقال: ’’إن أخی إستطلق بطنہ‘‘، فقال: ’’اسقہ عسلاً‘‘، فسقاہ، ثمّ جآء، فقال: ’’یارسولَ اللہ! قد سقیتُہ عسلاً فلم یزدْہ إلا إستطلاقًا‘‘، فقال رسول اللہ ﷺ: ’’اسقہ عسلاً‘‘، قال فسقاہ، ثم جآء، فقال: ’’یارسول اللہ! إنی قد سقیتُہ فلم یزدہ إلا إستطلاقا‘‘، قال: فقال رسول اللہ ﷺ: ’’صدق اللہ و کذب بطن أخیک، اسقہ عسلاً‘‘، فسقاہُ فبرأ۔ (جامع الترمذی، 2: 29)
’’ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیںکہ حضور اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اُس کے بھائی کو اِسہال لگے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے اُس کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ اُس شخص نے واپس آ کر بتایا کہ اِسہال زیادہ ہو گئے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اُسے پھر شہد دو‘‘۔ اِس طرح اُس بیمار کو تین مرتبہ شہد دیا گیا۔ چوتھی مرتبہ حضور ﷺ کو بتایا گیا کہ آرام نہیں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خداوند تعالی نے شہد کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درُست ہے لیکن تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ چنانچہ بیمار کو پھر شہد دیا گیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔‘‘
شہد کے اجزاء
امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ’ڈاکٹر سی اے براؤن‘ نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اَجزاء معلوم کئے ہیں:
1- پھلوں کی شکر 40 سے 50 فیصد
2- انگور کی شکر 34.2 فیصد
3- گنے کی شکر 1,9 فیصد
4- پانی 17.7 فیصد
5- گوند وغیرہ 1.5 فیصد
6- معدنیات 0.18 فیصد
شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک، ایلومینیم اور میگنیشیم بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے سائنسدان کھلاڑیوں پر تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہد کو عام قسم کی شکر پر مندرجہ ذیل فوقیتیں حاصل ہیں:
-1 شہد معدے اور انتڑیوں کی جھلی میں خراش پیدا نہیں ہونے دیتا۔
-2 یہ زُود ہضم ہے۔
-3 اِس کا گُردوں پر کوئی مضر اثر نہیں ہے۔
-4 یہ اَعصابِ ہضم پر بغیر بوجھ ڈالے حراروں کا بہترین سرچشمہ ہے۔
-5 شہد تھکاوٹ کو بہت جلد دُور کرتا ہے اور اُسے باقاعدہ اِستعمال کرنے والا جلدی نہیں تھکتا۔
-6 یہ کسی حد تک قبض کشا بھی ہے۔
انگور (Grapes)
قرآن اسے ’’جنت کا پھل‘‘ کہتے ہوئے اس کے استعمال کی یوں ترغیب دیتا ہے:
حَدَائِقَ وَ أَعْنَابًاOo (النباء، 78: 32)
’’(وہاں اُن کے لئے) باغات اور انگور (ہوں گے)o‘‘
حالیہ طبی تحقیق کے مطابق انگور کاربوہائیڈریٹس، فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم اور خاص طور پر وٹامن اے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے دل، جگر اور معدے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یہ خاص طور پر دل و دماغ کی مختلف بیماریوں اور انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت سودمند ہے۔
لہسن (Garlic)
قرآنِ حکیم نے سورئہ بقرہ میں لہسن کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
وَ فُوْمِھَا۔ (البقرہ، 2: 61)
’’اور اُس (زمین) کا لہسن‘‘
لہسن ایک ایسا مصالحہ ہے جو دل، دماغ، آنکھوں اور جسم کے دُوسرے حصوں کو طاقت دیتا ہے اور خاص طور پر جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیموں کو مارنے کے لئے جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ جدید طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ لہسن فالج، دمہ، ٹی بی اور جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جراثیم کش (antiseptic) خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً خون کے بڑھے ہوئے دباؤ (hypertension) پر قابو پانے میں اس کے خصوصی عمل کی وجہ سے سقوطِ قلب سے بچنے کے لئے مفید ہے۔
پیاز (Onion)
قرآن نے سورۂ بقرہ کی اِسی آیت میں پیاز کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
وَ بَصَلِھَا۔ (البقرۃ، 2: 61)
’’اور اُس (زمین) کا پیاز‘‘
یہ پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، سلفر اور فولاد کا اہم ذریعہ ہے۔ 100گرام پیاز درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
غذائی ریشہ (fiber) 1.3 گرام
حرارے (Calories) 23 گرام
لحمیات (proteines) 0.9 گرام
چینی (sugar) 5.2گرام
پیاز میں خاص طور پر B6 بھی پایا جاتا ہے، جو ٹی بی اور پھیپھڑوں کے ناسور کا سبب بننے والے جراثیموں اور مُضرِ صحت بیکٹیریا کے خاتمے میں بھی مفید ہے۔ اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ خون میں موجود کولیسٹرول کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اِس کے مستقل اِستعمال سے دِل کے دَورے کا خطرہ ممکنہ حد تک کم ہو جاتا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
اِسلامی تعلیمات میں خنزیر اور شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان کے اِستعمال کی طبی نقصانات ملاحظہ فرمائیں:
قرآنِ مجید نے سؤر کے گوشت کے اِستعمال سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللهِ.
(البقرة، 2: 173)
’’اُس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذِبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔‘‘
بنی نوعِ انسان کے لئے اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اِسلام نے اِنسانی جسم و رُوح کو نقصان پہنچانے والی تمام اشیاء کے اِستعمال سے اپنے ماننے والوں کو سختی سے منع فرما دیا تاکہ وہ اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی (epilepsy) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔
acute trichinosis کے مریض کو تیز جسمانی درجۂ حرارت سے سابقہ پیش آ سکتا ہے۔ اُس کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔
خنزیر کے گوشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ موٹاپا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اُس میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ 100 گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 284کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 496کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ 21.1 فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ 44.8فیصد ہوتی ہے۔
اِسلام میں خنزیر کے گوشت کی ممانعت کی حکمت اَب امریکہ اور یورپ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اور وہاں کے صحت شناس لوگ بالعموم اِسلام کی حلال کردہ اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں اور سؤر کا گوشت ترک کرتے چلے جا رہے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے شراب کو کلیتاً حرام قرار دیا ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے:
یٰـٓا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(المائدة، 5: 90)
’’اے ایمان والو! یقینا شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کیلئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم اُن سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
تاجدارِ کائنات ﷺ کی یہ دونوں اَحادیثِ مبارکہ اِس آیتِ کریمہ کے شراب کی حرمت سے متعلقہ حصے کی بہترین تفسیر کرتی نظر آتی ہیں:
اِرشادِ نبوی ﷺ ہے:
کلّ مُسکرٍ خمرٌ و کل خمرٍ حرامٌ.
(صحیح مسلم، 2: 168)
’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
ما أسکرَ کثیرُهٗ فقلیلُهٗ حرامٌ.
(جامع الترمذی، 2: 9)
’’جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اُس کی تھوڑی مقدار کا اِستعمال بھی حرام ہے۔‘‘
شراب جسم کو حرارے (کیلوریز) تو مہیا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسمانی نشوونما کے لئے ضروری وٹامنز اور امائنو ایسڈز (amino acids) مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ جسم میں خلیوں کی تخریب (metabolism) اور تعمیر کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور متعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے علاوہ یہ بالخصوص دل کے عضلات کی بیماری cardiomyopathy اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے تالو کی ہڈیوں میں توڑ پھوڑ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں شراب کا باقاعدہ استعمال خون کے دباؤ کے مسائل پیدا کرتا ہے اور نظامِ دورانِ خون (cardiovascular system) کو متاثر کرتا ہے۔
کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے سقوطِ قلب کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ شراب خون میں کولیسٹرول کی مجموعی سطح کو کم کئے بغیر ہائی ڈنسٹی لیپوپروٹینز (HDL Cholesterol) کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کولیسٹرول میں توازن بگڑ جاتا ہے اور اُس سے دِل کے دَورے کا مجموعی خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صحت شناس لوگوں میں شراب نوشی کی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے اور اکثر ہارٹ ایسوسی ایشنز (heart associations) بھی اِسی بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب کا اِستعمال نہ کیا جائے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
مشینی ذِبح اِس صورت میں جائز ہے جب مشین کا بٹن دبانے والا آپریٹر مسلمان یا اہلِ کتاب میں سے ہو اور وہ جانور کے ذبح کے وقت ’’بسمِ اللہ اللہ اکبر‘‘ پڑھے۔ بصورتِ دیگر وہ مسلمانوں کے لئے حلال نہیں ہوگا۔ عموماً مغربی ممالک میں جو مشینی ذبیحہ کیا جاتاہے، وہاں اِس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، اِس لئے وہ حلال نہیں ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ ذِبح ہوتے وقت جب جانور تڑپتا ہے تو خوب زور لگانے کی وجہ سے اُس کا وہ خون جو اِنسانی صحت کے لئے مضر ہوتا ہے، شہ رگ کے راستے جسم سے نکل جاتا ہے۔ اگر جانور کو ذِبح کرتے وقت بے ہوش کر دیا جائے تو وہ تڑپتے ہوئے زور نہیں لگاتا۔ یوں وہ خون اُس کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے، جو بعد اَزاں بیماری کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ مشینی ذِبح کی صورت میں بھی جانور کو ہوش میں رکھنا چاہیئے تاکہ اُس کا گوشت کھانے والے بیماری سے محفوظ رہیں۔
اِسلام حلال جانوروں کو ذِبح کر کے کھانے کا حکم دیتا ہے، مگر مچھلی کے لئے ذِبح کا حکم نہیں دیا گیا۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سمندری مخلوقات کا جسمانی نظام خشکی پر رہنے والے جانوروں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ خشکی کے جانور پھیپھڑوں سے سانس لیتے ہیں جب کہ مچھلیاں اِس کام کے لئے گلپھڑے اِستعمال کرتی ہیں۔ اِسی طرح مچھلیوں کا خون خشکی پر رہنے والے جانوروں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ فقہائے کرام نے مچھلی کو ذِبح نہ کرنے کی حکمت میں مچھلی کے خون کا مختلف ہونا بیان کیا ہے۔
دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering) کو خاص مقام حاصل ہے۔ کسی شخص کے جینز (genes) کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بیشمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid) کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلییٔ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (Encyclopaedia Britannica) کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جاسکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جارہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن DNA کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اَعمال طشت از بام کئے جاسکیں گے۔
روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیراِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اَعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں! اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں، جن کا جواب DNA تھیوری میں مل سکا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی أَفْوَاهِهِمْ وَ تُکَلِّمُنَا أَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
(یٰسین، 36: 65)
’’آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھے۔‘‘
اِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاں ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
فیُختم علی فیه، و یُقال لفخذِه و لحمِه و عظامِه ’’انطقی‘‘، فتنطق فخذُه و لحمُه و عظامُه بعملِه.
(صحیح، مسلم، 2: 409)
’’پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔‘‘
آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا، جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسانی کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔
آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی بعض غیرمسلم اَقوام اور مغربی یلغارسے مرعوب بعض مسلمان اپنی کم علمی اور جہالت کی بناء پر بلاتحقیق اِسلام کے بنیادی عقیدے ’آخرت‘ کو مسلمانوں کی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر وہ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق و نظریات کا بخوبی مطالعہ کریں تو وہ اِس حقیقت پر پہنچیں گے کہ اِسلام ہی آفاقی سچائیوں سے معمور دین ہے۔ جو ہر شعبۂ زندگی میں اِنسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات جسمِ انسانی کے ہر خلییٔ میں اِتنی گنجائش ثابت کر چکی ہیں، جہاں دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جاسکیں۔ خوردبین کے بغیر نظر نہ آسکنے والا معمولی خلیہ اپنے اندر اِتنی وسیع دُنیا لئے ہوئے ہے۔ روزِ آخر اللہ ربّ العزت کے حکم پر اِنسانی جسم کا ہر ہر خلیہ اپنی ساری سرنوشت زبانِ حال سے کہہ سنائے گا اور اِنسان کا سب کیا دھرا اُس کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر دے گا۔ یہ اِسلام کی تعلیم ہے اور اِسی طرف جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات پیش قدمی کر رہی ہیں۔
طبِ جدید کی اِن ساری تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے اِرشادات پر ایک نظر کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کے قول سے بڑھ کر حق کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ آج تک سائنس اور طب کی جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ بالآخر اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نبی مختارِ عالم ﷺ کی ہر بات، خواہ وہ قرآن مجید ہو یا آپ ﷺ کی حدیثِ مبارکہ، مبنی برحق ہے اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے معاشروں کے لئے اس سے رُوگردانی ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کا ہر لفظ رسولِ آخرالزماں ﷺ کی عظمت پر دالالت کرتا ہے اور مُنکرینِ عظمتِ مصطفی کے دِل و دِماغ پر ضربِ کاری ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے دوران طلبہ و طالبات کو ماہر ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی زیر نگرانی لاوارث لاشوں کو چیرپھاڑ کر کے اِنسان کے اندرونی اَعضاء کا باریک بینی سے مطالعہ کروایا جاتا ہے تاکہ میڈیکل کے طلبہ انسانی جسم کی ہیئت اور کارکردگی کو کماحقہ سمجھ سکیں اور مختلف بیماریوں کے اسباب جان سکیں۔ اِنسان کے مرجانے کے بعد اُس کی میت کا اِحترام لازمی ہے، لیکن دوسری طرف زندہ انسانوں کو مہلک اور جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لئے اگر اُنہیں dissection کی صورت میں اسٹڈی نہ کیا جائے تو اِنسانی زندگی کے بچاؤ کی تدابیر اِختیار کرنا بھی ممکن نہیں رہتا، چنانچہ زندہ اِنسانوں کو مہلک اَمراض سے بچانے کے عظیم تعلیمی مقاصد کی وجہ سے dissection جائز ہے۔
اِس میں حکمت یہ ہے کہ شریعت نے جب اپنی زندگی کے بچاؤ کے لئے ایک حد تک حرام کھا لینے کی بھی اِجازت دی ہے تو پھر وسیع پیمانے پر اِنسانی زندگیوں کے بچاؤ کے لئے بعد از مرگ اُن کے جسموں کی dissection کرکے study کرنے کو جائز کیوں نہ قرار دیا جائے؟ اس میں بھی انسانی زندگی کے بچاؤ اور تحفظ کا پہلوکار فرما ہے۔ قرآن مجید جہاں حرام جانوروں کا ذکر کرتا ہے تو بعد میں کہتا ہے کہ جو شخص اِنتہائی اِضطراری حالت کو پہنچ جائے (شریعت کی خلاف ورزی کی نیت نہ ہو) تو پھر اُس پہ کوئی گناہ نہیں ہے، محض اس لئے کہ اُس اِقدام سے زندگی بچائی جا سکے۔ اگر انسان کے لئے اپنی اِنفرادی زندگی بچانے کے لئے خنزیر اور مردار جیسی حرام شے کو ایک مخصوص حد تک اور مخصوص وقت تک اِضطراری کیفیت میں کھانا جائز ہے تو پوری اِنسانیت کی زندگی بچانے کے لئے جو تدابیر اِختیار کرنا ضر وری ہیں، اُن کے حصول کے لئے اگر dissection کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اِضطرار اور ضرورت کے تحت شریعت میں جائز ہے۔
آج کل میڈیکل طلباء و طالبات کو دورانِ تعلیم اندرونی اَعضائے انسانی کی بناوٹ سمجھانے کے لئے کمپیوٹرائزڈ اور فزیکل ہر دو قسم کے تھری ڈی ماڈل دستیاب ہیں، لہٰذا حتیٰ الامکان یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ dissection کی نوبت صرف تب آئے جب تھری ڈی ماڈل کے ذریعہ تعلیم کا مقصد حسبِ ضرورت پورا نہ ہو سکے۔
اِنسانی اَعضاء کی ایسی پیوندکاری جس سے کسی حادثے کی بناء پر اِنسانی جسم کی خراب ہو جانے والی کارکردگی کو پھر سے بہتر بنایا جا سکے، جائز ہے۔ایسے اِقدامات بھی بعض معاملات میں عند الضرورۃ جائز اور مباح تصور کئے جاتے ہیں۔ بلاضرورت محض تعیش کے لئے سرجری کروانا جائز نہیں۔
اسی طرح اِنسانی اَعضاء کی خرید و فروخت کلیتاً ناجائز ہے۔ اِسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اُمراء اپنی دولت کے بل بوتے پر دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے غریبوں کے گردے یا دیگر اَعضاء خرید کر اُن کی زندگی کو اجیرن بنا دیں۔
خون کا عطیہ کرنا جسم کا صدقہ ہے۔ مختلف بیماریوں، حادثات اور زچگی کے موقع پر آپریشن کرنے کے لئے خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر خون کا عطیہ نہ ملے تو اِنسانی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ قرآنِ مجید میں کسی ایک شخص کی جان بچانے کو تمام اِنسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَمَنْ أَحْیَاهَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً.
(المائدة، 5: 32)
’’جس نے کسی (شخص) کو (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اُس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اُس نے حیاتِ انسانی کا اِجتماعی نظام بچا لیا)۔‘‘
آنکھوں کے عطیہ کے لئے وصیت کرنا کہ بعد از مرگ وہ آنکھیں کسی نابینا شخص کو منتقل کر دی جائیں، یہ عمل بھی اَعضاء کی پیوندکاری کے ضمن میں آتا ہے۔ اس سے نابینا شخص کی زندگی میں روشنی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ ایک عام اِنسان کی طرح زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں علماء کی رائے مختلف ہے، کچھ جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض زندگیاں اِتنی قیمتی ہوتی ہیں کہ ایک نابینا شخص کو بینائی مل جانے سے ہزاروں اَشخاص کی زندگیوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ایسی صورت میں آنکھوں کا عطیہ کرنا جائز ہے، لیکن ایسے کیس عمومی طور پر کم ہی ہوتے ہیںاِس لئے عمومی سطح پر اِس کو عادت بنا لینا اور رواج دینا درست نہیں۔
بسا اوقات عورت کی یوٹرس (Utrus) کی ٹیوب بند ہوتی ہے یا رحم کی ٹیوبز تنگ ہوتی ہیں یا اندر کوئی ایسی خرابی ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے قدرتی ملاپ کے نتیجے میں وہ سپرمز (Sperms) اندر نہیں جاسکتے اور اِستقرار حمل نہیں ہوسکتا تو ایسی صورتوں میں ڈاکٹر شوہر کا ’سپرم‘ اور بیوی کا ’اووم‘ (Ovam) لے لیتے ہیں اور ایک ٹیوب میں اُن کا ملاپ کر دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اِستقرارِ حمل کا مرحلہ ماں کے پیٹ میں ہونے کی بجائے لیبارٹری میں انجام پاتا ہے۔ جب ٹیوب میں یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو اُسے اِحتیاط کے ساتھ ماں کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ حمل کے اگلے مراحل بچہ ماں کے پیٹ میں ہی طے کرتا ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا یہ طریقہ جو پاکستان سمیت اکثر مسلمان ملکوں میں رائج ہے، جس میں نسب کا خیال رکھا جاتا ہے اور کوئی حرام عمل نہیں ہوتا، ’سپرم‘ اور ’اووم‘ ایک ہی میاں بیوی کے ہوتے ہیں، کسی غیر مرد یا عورت کے خلئے اِستعمال نہیں کئے جاتے تو اِس صورت میں کوئی اَمر مانع نہیں ہے۔ چنانچہ یہ شرعی حوالے سے جائز ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی(Family Planing) پانچ اَسباب کی صورت میں جائز ہے:
پہلا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہے۔
دوسراسبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ پیدا ہونے والے بچے کی جان جانے کو خطرہ ہے۔
تیسرا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی صحت کو ایسا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ اُس کی صحت گرجائے گی، بیمار رہنے لگے گی اور شفا یابی مشکل ہوجائے گی۔
چوتھا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ پیدا ہونے والا بچہ صحت مند اور توانا نہیں ہوگا اور مستقل بیمار رہے گا۔
پانچواں سبب: بندہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ میرے وسائل اِس قدر نہیں کہ زیادہ اولاد کی صورت میں بچوں کی کفالت حلال ذرائع سے کر سکوں، چنانچہ حر ام ذرائع اِختیار کرناپڑیں گے۔
اِن پانچ صورتوں میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے، تاکہ ماں اور بچے کی زندگی اور صحت محفوظ رہے اور اُس کا اپنا دین بھی محفوظ رہے۔ اگر اُس کے معاشی حالات ابتر ہوں، (رزق کی بنیاد پر نہیں کہ رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے) لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ وہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ اولاد کی کثرت اور ذمہ داریوں کا بوجھ اِتنا زیادہ ہو جانے کی وجہ سے جائز اور حلال وسائل کافی نہ ہوں گے اور اُسے اپنے بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لئے رشوت، غبن، چوری اور بدیانتی کرنا پڑے گی اور اُس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حرام رزق گھر میں آنے لگے گا تو ایسی صور ت میں اوّلیت دین و ایمان کو حاصل ہے، اُسے کثرتِ اولاد سے بچنا چاہیئے۔ ائمہ کرام اور بہت سے علماء کے فتاویٰ ہیں کہ اگر یہ خدشہ ہو کہ کثرتِ اولادسے وہ بچوں کو رزقِ حلال نہیں کھلا سکے گا تو اس صورت میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کی باقی جو صورتیں ہیں، مثلاً محض یہ خیال کہ اولاد کم ہو زیادہ ہو اولاد اچھی نہیں ہے، عیاشی کے خیال سے، اِنقطاعِ نسل کے خیال سے، یا نسل کشی کے لحاظ سے خاندانی منصوبہ بندی ناجائز ہے۔
یہ اِجتماعیت کا دور ہے اور ہر کام تنظیم کی صورت میں ہوتا ہے۔ عام آدمی یہ نہیں جانتا کہ منصوبہ بندی کے لئے اُسے کون سی ادویات کا اِستعمال کرنا چاہیئے۔ اب یہ ذمہ داری حکومت پر آ جاتی ہے کہ وہ ایسا محکمہ بنائے جو لوگوں کو یہ بتائے کہ کون سی عمر میں کون سی دوا لینی ہے۔ عام آدمی اگر اپنے اندازوں سے کوئی دوا اِستعمال کر لے تو اُلٹا اُس کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ بنیادی بات واضح ہے کہ ایک محکمہ اِس مقصد کے لئے ہونا ضروری ہے۔ ادویات ساز اِداروں کو ہدایات جاری کرنا اور اُن کی تیارکردہ ادویات کا معیار برقرار رکھنے کے لئے اُن پر نظر رکھنا، اِن سب کاموں کے لئے ایک محکمہ کا وجود ضروری ہے۔ اِس پہلو سے یہ بات جائز ہے اور اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسری طرف خدشات کا پہلو آ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ اِس راستے سے بے حیائی اور بدکاری کو راستہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہیئے کہ جہاں ضرورت مندوں کو ضروری معلومات تک رسائی میسر آئے وہیں بدکاری کا راستہ بھی نہ کھلنے پائے۔ بدقسمتی سے حکومت جب ایسے پروگرام بناتی ہے تو ایک رخ کو سامنے رکھتی ہے اور دوسرے رخ کو قطعی نظرانداز کردیتی ہے، جس سے معاشرہ میں کئی قسم کے بگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔ پھر علمائے کرام کی طرف سے ردِعمل ہوتا ہے اور عمل اور ردِعمل میں جا کر بات اِنتہا کو پہنچ جاتی ہے اور پھر جو کسی کام کے جواز کی اِستثنائی صورتیں ہوتی ہیں بعض اوقات اُن سے بھی اِنکار ہوجاتا ہے۔
حکومت کو دونوں پہلوؤں پر یکساں توجہ دینی چاہئے کہ جو اصل مقاصد اور ضروریات ہیں وہ بھی پوری ہو سکیں اور ایسی ادویات اور معلومات کو عام کر دینے سے جو نقصانات ہیں یا اُن کے غلط اِستعمال کے جو پہلو ہیں اُن کا بھی تدارک کیا جائے اور سختی سے روکا جائے۔
پاکستان کی 52 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، جبکہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے رُجحان میں نسبتاً کمی ہونے کی وجہ سے ملک میں خواتین ڈاکٹرز کی تعداد مرد ڈاکٹروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ خواتین کی تعلیم میں میڈیکل ایجوکیشن کو خاص اہمیت دی جانی چاہیئے اور اِس پہلو سے حکومتی سطح پر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر خواتین ڈاکٹر نہیں بنیں گی تو لامحالہ زچگی کے مسائل کے لئے مرد ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑے گا، جو شرم و حیاء کے منافی ہے۔ چنانچہ حیاء کے نام پر خواتین کو میڈیکل ایجوکیشن سے دُور رکھنے والے ذہن کو یہ بات سوچنی چاہیئے کہ خواتین کا میڈیکل ایجوکیشن حاصل کر کے ڈاکٹر بن جانا بہتر ہے یا ہر خاتون کا زچگی کے دوران مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved