الله ربّ العزت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں اُس کی قدرت کی نشانیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ مجید‘ جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور قطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اِس کائناتِ ہست و بُود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی اِنسان کو اُلوہی ضابطۂ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’قرآنِ مجید‘ خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفسِ اِنسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دِلاتا ہے اور اُن دونوں عوالم میں قوانینِ قدرتِ اِلٰہیہ کی یکسانی میں غوروفکر کے بعد اپنے خالق کے حضور سربسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونے کیلئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غوروفکر کرنا ہو گا۔
اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و أنفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے (experiment)کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ ’سائنسی طریقِ تحقیق‘ (scientific method)کی بنیاد تھی، جس کی بدولت ہزارہا سال سے جاری سلسلۂ علمِ انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اُس کا پھل پایا۔
صدی جب کروَٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا رُوپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اُسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسماں کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتِعداد حقائق بنی نوعِ اِنسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن میں علم کے موجودہ عروج کا أدنیٰ سا تصوّر بھی موجود نہ تھا۔ اِنسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اُس پر نازاں ہوتا تھا۔ اِسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دَورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزارہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دَورِ حاضر کا سائنسی ذِہن بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی آج وہ پک کر جوان ہوچکی ہے اور موجودہ دَور اُسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اُس کے گوناگوں فوائد سے مُستنیر ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روِش پر قائم رہے سارے جہان کے اِمام و مقتدا رہے اور جونہی علم سے غفلت برتی ’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے أسلاف کا علمی وِرثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اِضافہ جات کے ساتھ اَغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم اُن کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں دَر دَر کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2جنوری 1492ء کا تاریخی دِن مغربی دُنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ (اسپین) میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذِہنی شکست خوردگی کی دلدل میں اُلجھ کر سوگئی اور عالمِ مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اِکتشافات پر سے اُن کے موجدوں کا نام کھرچ کر اُنہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اِسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اُسے مقدر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اِختیار کر لیا۔ اَغیار نے ہمارے علمی وِرثے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوجِ ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سُدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہوکے کی ضرورت ہے، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے، جس روز اِس قوم نے أغیار کے قبضے میں گھِری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقینا اپنے کھوئے ہوئے وِرثے کے حصول کے لئے تڑپ اُٹھے گی، وہ دِن تاریخِ عالم کا سنہری دِن ہوگا۔
بیسوِیں صدی عالمِ اِسلام کے لئے الله ربّ العزت کی بے شمار نعمتیں لئے آئی۔ اِس صدی میں جہاں کرۂ أرضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے أثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دُور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر اُن کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ اِنتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اِس وقت دُنیا کی اکانومی کا بڑا اِنحصار تیل پید اکرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی اَبتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کے لئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللّوں تللّوں میں ضائع ہو گئی اور مِن حیث المجموع اُمتِ مسلمہ اُس سے کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکی۔
عالمِ اِسلام کے موجودہ زوال و اِنحطاط کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے بعد ملنے والی آزادی کے باوجود جاہل حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلّط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم نوجوان کے تشکیک زدہ اِیمان کو سنبھالا دینے کی واحد صورت یہ ہے کہ اُسے اِسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تفہیم سے آگاہ کرتے ہوئے سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے ہوئے اِحساسِ کمتری کے خاتمے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اُس کی سوچ کو مثبت راستہ ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے ہوئے اپنے أسلاف کی پیروِی میں علمی و سائنسی روِش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ اِحیائے اِسلام کا فریضہ سرانجام دے سکے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ سائنسی علوم جانتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ اِسلامی تعلیمات سے اِستفادہ کر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں مستشرقین کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے اِعتراضات کے ٹھوس عقلی و سائنسی بنیادوں پر جواب کے لئے ’جدید علمِ کلام‘ کو باقاعدہ فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اِس سے نہ صرف مغربی اَفکار کی یلغار کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں اپنے عقائد و نظریات کے بارے میں جنم لینے والی تشکیک سے نجات ملے گی بلکہ غیرمسلم اقوام پر بھی اِسلام کی حقانیت عیاں ہو گی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
آج کا دَور سائنسی علوم کی معراج کا دَور ہے، اِس لئے دَورِحاضر میں دِین کی صحیح اور نتیجہ خیز اِشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سراَنجام دِیا جاسکتا ہے۔ بناء بریں اِس دَور میں اِس اَمر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی تروِیج کو فروغ دیا جائے اور دِینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیتِ اِسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ آج کے مسلمان طالبِ علم کے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
مذہب ’خالق‘ (Creator) سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ ’خَلق‘ (creation) سے۔ دُوسرے لفظوں میں سائنس کا موضوع ’خَلق‘ اور مذہب کا موضوع ’خالق‘ ہے۔ اگر مخلوق پر سوچ بچار مثبت انداز میں کی جائے تو اُس سے لامحالہ اِنسان کو خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اِختیار پکار اُٹھے گا:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلاً.
(آل عمران، 3: 191)
’’اے ہمارے رب! تو نے یہ(سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔‘‘
بندئہ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت نے کلامِ مجید میں ایک اور مقام پر یوں اِرشاد فرمایا:
سَنُرِیْهِمْ اٰیاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ أَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حٰم السجدة، 41: 53)
’’ہم عنقریب اُنہیں کائنات میں اور اُن کے اپنے (وجود کے) اندر اپنی نشانیاں دِکھائیں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وہی حق ہے۔‘‘
اِس آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اِنسان کو اُس کے وجود کی اندرونی نشانیاں (internal signs) بھی دِکھا دیں گے اور کائنات میں جابجا بکھری خارجی نشانیاں (external signs) بھی دِکھا دیں گے، جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ خود بخود بے تاب ہوکر پکار اُٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے۔
قرآنِ مجید میں کم و بیش ہر جگہ مذہب اور سائنس کا اِکٹھا ذِکر ہے، مگر یہ ہمارے دَور کا اَلمیہ ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کی سیادت و سربراہی ایک دُوسرے سے ناآشنا اَفراد کے ہاتھوں میں ہے۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنے مدِّمقابل دُوسرے علم سے دُوری کے باعث اُسے اپنا مخالف اور متضاد تصور کرنے لگے ہیں۔ جس سے لوگ کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں تضاد سمجھنے لگ جاتے ہیں، جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔
سائنس اور اِسلام میں تضاد کیونکر ممکن ہے جبکہ اِسلام خود سائنس کی ترغیب دے رہا ہے! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اِسلام اور سائنس میں تضاد ہے تو یا تو وہ اِسلام کی صحیح سمجھ سے عاری ہو گا بصورتِ دیگر اُس نے سائنس کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہو گا۔ سائنس کا دائرۂ کار مُشاہداتی اور تجرباتی علوم پر منحصر ہے جبکہ مذہب اَخلاقی و رُوحانی اور ما بعد الطبیعیاتی اُمور سے متعلق ہے۔
مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ دَرحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع ’اِیمان‘ ہے۔ علم ایک ظنّی شے ہے، اِسی بناء پر اُس میں غلطی کا اِمکان پایا جاتا ہے، بلکہ سائنس کی تمام پیش رفت ہی اِقدام و خطاء (trial & error) کی طویل جدوجہد سے عبارت ہے۔ جبکہ دُوسری طرف اِیمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے، اِس لئے اُس میں خطا کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔
اِیمان کے ضمن میں سورئہ بقرہ میںاِرشادِ ربانی ہے:
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ.
(البقرة، 2: 3)
’’جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں۔‘‘
گویا اِیمان جو کہ مذہب کی بنیاد ہے، مُشاہدے اور تجربے کی بناء پر نہیں بلکہ وہ بغیر مُشاہدہ کے نصیب ہوتا ہے۔ اِیمان ہے ہی اُن حقائق کو قبول کرنے کا نام جو مُشاہدے میں نہیں آتے اور پردئہ غیب میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے خودساختہ ذرائعِ علم سے معلوم نہیں ہوسکتے بلکہ اُنہیں مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتانے سے مانا جاتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں جو چیزیں ہمیں نظرآرہی ہیں، جن کے بارے میں حقائق اور مُشاہدات آئے دِن ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں، اُن حقائق کا علم سائنس کہلاتا ہے۔ چنانچہ سائنس اِنسانی اِستعداد سے تشکیل پانے والا علم human acquired wisdomہے، جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم God-gifted wisdom ہے۔ اِسی لئے سائنس کا سارا علم اِمکانات پر مبنی ہے، جبکہ مذہب میں کوئی اِمکانات نہیں بلکہ وہ سراسر قطعیات پر مبنی ہے۔ چنانچہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا اِمکان ہی خارِج اَز بحث ہے۔
مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تضاد کے نہ پائے جانے کا دُوسرا بڑا سبب دونوں کے دائرۂ کار کا مختلف ہونا ہے، جس کے باعث دونوں میں تصادُم اور ٹکراؤ کا کوئی اِمکان کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس کی مثال یوں ہے جیسے سڑک اور سمندر میں چلنے والی سواریاں (کار اور کشتی) کبھی آپس میں ٹکرا نہیں سکتیں، اِسی طرح مذہب اور سائنس میں بھی کسی قسم کا ٹکراؤ ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا تعلق طبیعیاتی کائنات (physical world)سے ہے جبکہ مذہب کا تعلق مابعد الطبیعیات (meta physical world) سے ہے۔ اِس بات کو دُوسرے لفظوں میں یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سائنس فطرت (nature) سے بحث کرتی ہے جبکہ مذہب کی بحث مافوق الفطرت (supernature) دُنیا سے ہے، لہٰذا اِن دونوں میں سکوپ کے اِختلاف کی بناء پر اِن میں کسی صورت بھی تضاد ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس کائنات میں کئی نظام بنائے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر اپنی خصوصیات کے ساتھ روَاں دوَاں ہیں۔ مثلاً اِنسانی کائنات، حیوانی کائنات، جماداتی کائنات، نباتاتی کائنات، ماحولیاتی کائنات، فضائی کائنات اور آسمانی کائنات وغیرہ۔ اِن تمام نظاموں کے بارے میں ممکن الحصول حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمحِ نظر ہے۔ دُوسری طرف مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ ساری اشیاء الله تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی یہ ذِمہ داری ہے کہ اللہ ربّ العزت کے پیداکردہ عوالم اور اُن کے اندر جاری و ساری عوامل (functions) کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور کائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوع اِنسان کی فلاح کے لئے سامنے لائے۔
کائنات میں غوروفکر کے دَوران ایک سائنسدان کو بارہا اِقدام و خطاء (trial & error) کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ کی تحقیق سے کسی چیز کو سائنسی اِصطلاح میں ’حقیقت‘ کا نام دے دِیا جاتا ہے مگر مزید تحقیق سے پہلی تحقیق میں واقع خطا ظاہر ہونے پر اُسے ردّ کر تے ہوئے نئی تحقیق کو ایک وقت تک کیلئے حتمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں اگرچہ ایک ’مفروضے‘ کو مسلّمہ ’نظرئیے‘ تک کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ تحقیق میں کسی نظرئیے کو بھی ہمیشہ کیلئے حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد (unchangeable) اور مطلق (absolute) نہیں ہوتا، ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں صدیوں سے مسلّمہ کسی نظرئیے کو مکمل طور پر مستردّ کردیا جائے۔ دوسری طرف مذہب اِقدام و خطاء سے مکمل طور پر آزاد ہے کیونکہ اُس کا تعلق اللہ ربّ العزت کے عطا کردہ علم سے ہوتا ہے، جو حتمی، قطعی اور غیر متبدل ہے اور اُس میں خطاء کا کلیتاً کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔
مذہب مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) حقائق سے آگہی کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس مادّی کائنات سے متعلق بھی بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، جن کی روشنی میں ہم سائنسی علوم کے تحت اِس کائنات کو اپنے لئے بہتر اِستعمال میں لا سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اِرشا دِ باری تعالیٰ ہے:
وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ.
(الجاثیه، 45: 13)
’’اور اُس (الله) نے سماوِی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔‘‘
جہاں تک مذہب کا معاملہ تھا اُس نے تو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کر دِیا کہ زمین و آسمان میں جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے سب اِنسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اِنسان کا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بدولت کائنات کی ہر شے کو اِنسانی فلاح کے نکتۂ نظر سے اپنے لئے بہتر سے بہتر اِستعمال میں لائے۔ اِسی طرح ایک طرف ہمیں مذہب یہ بتاتا ہے کہ جملہ مخلوقات کی تخلیق پانی سے عمل میں آئی ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذِمہ داری یہ رہنمائی کرنا ہے کہ بنی نوع اِنسان کو پانی سے کس قدر فوائد بہم پہنچائے جاسکتے ہیں اور اُس کا طریقِ کار کیا ہو۔ چنانچہ اِس ساری بحث سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کہیں بھی اور کسی درجے میں بھی ایک دُوسرے سے متصادِم نہیں ہیں۔
نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) کے خالق شہرہ آفاق سائنسدان ’آئن سٹائن‘ کا کہنا ہے کہ:
"Science without religion is lame and religion without science is blind".
’’مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے اور سائنس کے بغیر مذہب اندھا ہے‘‘۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِسلام دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دِین ہے، جو نہ صرف قدم قدم پر سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق و جستجو کی راہوں میں سائنسی ذِہن کی ہر مشکل میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اِسلام کی حقانیت ثابت ہوتی جارہی ہے اور جدید سائنس کی ترقی سے مذہب کا نور نکھرتا جارہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ جب سائنس اپنی تحقیقات کے نکتۂ کمال کو پہنچے گی تو اللہ کے دین کا ہر اِیمانی تصور سائنس کے ذرِیعے صحیح ثابت ہوجائے گا۔ قرآنِ مجید اور سائنس کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے بے شمار نظریات قرآنی تصورات کو صد فی صد صحیح ثابت کرتے ہیں اور وہ دِن دُور نہیں جب سائنس کلی طور پر دینی نظریات کی تائید و توثیق کرنے لگے گی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
آج کا دَور سائنسی علوم کی معراج کا دَور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علم (contemporary knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا دَورِحاضر میں دِین کی صحیح اور نتیجہ خیز اِشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سراَنجام دِیا جاسکتا ہے۔ اس لئے آج کل اِس اَمر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کو فروغ دیا جائے اور دِینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیتِ اِسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ اِسلام کی تبلیغ میں اکیسویں صدی کی اِیجادات اور سائنسی ذرائع کو بھرپور اِستعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا اِسلام کے عطاکردہ پیغامِ فطرت سے آشنا ہو سکے، ورنہ ہم تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور نہ اِن ایجادات کو اپنی اگلی نسلوں کے دل و دماغ پر لادینیت مسلط کرنے سے روک سکتے ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن کے تحت اِسلامی تعلیمات کی اِشاعت کے لئے درجنوں ویب سائٹس چلائی جا رہی ہیں، جس سے دُنیابھر کے مسلمان اور غیرمسلم اسکالرز اِستفادہ کرتے ہیں۔ تحریکِ منہاج القرآن کی ویب سائٹ www.minhaj.org کا آغاز 1994ء میں اُس وقت ہوا جب پاکستان کا عام پڑھا لکھا طبقہ بھی اِنٹرنیٹ سے شناسا نہیں تھا۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں خطابات ہماری ویب سائٹس سے مفت ڈاؤن لوڈ کئے جا سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے خطابات کی آڈیو/ویڈیو ریکارڈنگ کا آغاز 1982ء میں اُس وقت ہوا جب پاکستان کے مذہبی طبقہ میں بالعموم تصویر بنانے کو بھی ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ جب لاہور کے معروف اور منظم ٹی وی سٹوڈیوز میں ابھی linear editing ہو رہی تھی، تب سے ہمارے یہاں non-linear editing کا آغاز ہو چکا تھا۔ اِس وقت تک ہمارے پانچ ہزار سے زائد خطابات آڈیو/ویڈیو کیسٹس، CDs اور DVDs کی شکل میں نہ صرف دُنیابھر میں موجود تحریک کے سیل سنٹرز بلکہ انٹرنیٹ پر بھی بآسانی دستیاب ہیں۔ پچھلے 25 سال سے لاکھوں رفقاء کی ممبرشپ کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ موجود ہے، جس کی مدد سے اُنہیں ہر ماہ مجلہ منہاج القرآن کی ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ فریدِ ملتؒ ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ میں درجنوں کمپیوٹرز زیراستعمال ہیں، جہاں تحقیق و تخریج کے مراحل کو تیزی سے نمٹایا جاتا ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے تحت جاری دینی تعلیم کے شعبہ جات میں بھی جدید ٹیکنالوجی کا اِستعمال منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اِنٹرنیٹ کی بدولت اساتذہ پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی بیرونِ ملک مقیم بچوں اور بڑوں کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ’اِی لرننگ ڈیپارٹمنٹ‘ کے تحت ناظرہ و تجوید کے بنیادی کورسز سے لے کر ’عرفان القرآن کورس‘ تک کے درجن بھر آن لائن کورسز کروائے جا رہے ہیں۔ تحقیقی مقاصد کے لئے بیرونِ ملک مقیم ہونے کے باوجود شیخ الاسلام ویڈیوکانفرنس کے ذریعہ گوشہ درود کی ماہانہ مجلس سے باقاعدہ خطاب فرماتے ہیں اور منہاج یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے علاوہ لاہور بھر کے مدارس کے مدرسین اور سینئر طلبہ کے لئے ماہانہ سلسلہ دروسِ حدیث بھی جاری ہے۔ پاکستان میں موجود منہاجینز ’اسکالر آن لائن پروگرام‘ کے ذریعہ مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں سے ہفتہ وار خطابات کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ الغرض مقدوربھر وسائل کی مدد سے جس سطح تک ممکن ہو سکا تحریک منہاج القرآن تبلیغ و اِشاعت اسلام کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بھرپور اِستعمال کر رہی ہے۔
جدید تعلیم یافتہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام نے بعض چیزوں کو حلال جبکہ بعض دوسری چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، اس کی کیا حکمت ہے۔ الله ربّ العزت نے بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام متعین کیا، جس کی بہت سی حکمتیں ہیں، جن تک انسانیت الله کی توفیق سے ہمیشہ پہنچتی رہے گی۔ سردست ہم میڈیکل کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔ کوئی حلال ایسا نہیں جس کے حلال کرنے کی طبی حکمت نہ ہو اور کوئی حرام ایسا نہیں جس کی حرمت کے پس منظر میں کوئی طبی حکمت نہ ہو۔ حلال کے اندر بھی پھر ترجیحات مقرر کیں، کسی شے کی تعریف کی تاکہ اسے زیادہ استعمال کیا جائے تو کسی شے کو ناپسندیدہ کہا تاکہ لوگ اسے کم استعمال کریں۔ ان ترجیحات میں بھی جو بنیادی تصور کارفرما ہے اُسے طبی تحقیقات رفتہ رفتہ منظر عام پر لا رہی ہیں۔
اسلام نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا وہ کسی نہ کسی لاعلاج بیماری کا باعث بنتی ہیں اور جن اشیا کو اسلام نے حلال تو کہا مگر ناپسندیدہ قرار دیا وہ قابل علاج بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً خنزیر اور بغیر ذبح کئے مر جانے والے جانور لاعلاج بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ان کا گوشت کلیتاً حرام قرار دیا گیا۔
جدید طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں، جن میں سے پہلا مِرگی (epilepsy) جبکہ دوسرا ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے، جس سے انسان کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔ خنزیر کے گوشت میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ 100 گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 284کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 496کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ 21.1 فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ 44.8فیصد ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اِسلام نے اُسے اِنسان کے لئے مضرِ صحت ہونے کے باعث حرام قرار دیا۔
دُوسری طرف گائے کے گوشت کو حلال کہہ کر بھی ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ گائے کے گوشت میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، جو قابل علاج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی صرف حوصلہ شکنی کی گئی ہے، اُسے مطلقاً حرام نہیں قرار دیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
علیکم بألبانِ البقر فإنّھا شفاءٌ، و سمنها دواءٌ و لحومها داءٌ.
(المعجم الاوسط للطبرانی، 9 : 181، رقم: 9480)
’’گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔‘‘
گویا الله کے رسول ﷺ کی نظر اس پر بھی ہے کہ بیماری لاعلاج ہو تو اُس شے کو حرام کر دیتے ہیں اور جو بیماری قابل علاج ہو اُسے حلال کہہ کر بھی ناپسندیدہ قرار دے دیتے ہیں تاکہ لوگ اُس شے کا اِستعمال کم سے کم کریں اور معاشرے کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 843)
قرآن مجید میں موجود سات آسمانوں کے ذکر بارے اکثر لوگ تشویش کا شکار رہتے ہیں، جبکہ درحقیقت سات آسمانوں کی موجودگی ایک سائنسی حقیقت ہے۔ سب سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ اِسلامی نکتہ نظر سے آسمان ٹھوس مجسم وجود نہیں ہیں بلکہ دُخانی کیفیت رکھتے ہیں۔
قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْنَo
(المؤمنون، 23: 17)
’’اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مِقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھے۔‘‘
قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر موجود ہے۔ گزشتہ 200سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں (decades) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے، وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دِیا ہے۔
ترکی کے نامور محقق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے اور جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مِقناطیسی پٹیوں میں گِھرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُ سعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں:
1. پہلا آسمان: وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔
2. دُوسرا آسمان: ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مِقناطیسی میدان ہے جو مِلکی وے کے مرکز سے تشکیل پاتا ہے۔
3. تیسرا آسمان: ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔
4. چوتھا آسمان: کائنات کا مرکزی مِقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔
5. پانچواں آسمان: اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز (quasars) بناتے ہیں۔
6. چھٹا آسمان: پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔
7. ساتواں آسمان: سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔
اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دِیا تھا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
سائنسی تحقیقات کے مطابق کائنات کا آغاز آج سے کم و بیش 15ارب سال پہلے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کی صورت میں ہوا تھا اور اُس کا اِنجام آج سے تقریباً 65ارب سال بعد کائنات کے آخری عظیم دھماکے‘ (Big Crunch) پر ہوگا۔
پھیلتی ہوئی کائنات اپنی نصف عمر گزار لینے کے بعد کششِ باہمی کی وجہ سے سکڑاؤ کا شکار ہو جائے گی۔ باہر کو پھیلتی ہوئی کہکشاؤں کی رفتار کم ہو جائے گی، حتیٰ کہ وہ مرکز کی سمت اِنہدام کا شکار ہو جائیں گی اور آپس میں ٹکرا کر مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گی۔ یہ ٹکراؤ (یعنی بِگ کرنچ) بِگ بینگ جیسے اِنتہائی عظیم اوّلین دھماکے کی طرح ہو گا۔ تمام اَجرامِ سماوِی کا مادّہ سیاہ شگافوں میں جا گرے گا اور کائنات کی تمام ہائیڈروجن (hydrojen) اور ہیلئم (hylium) ستاروں کی تھرمونیوکلیائی آگ میں جل کر ختم ہو جائیں گی۔ کوئی نیا ستارہ پیدا نہیں ہو گا اور کائنات مُردہ ستاروں، شہابیوں، چٹانوں اور اُنہی جیسے دُوسرے کائناتی ملبے پر مشتمل ہو گی۔
اِس کائنات کی اِجتماعی قیامت کا یہ عمل آج سے 65 ارب سال بعد شروع ہو گا اور 10140 سال بعد مکمل ہوگا اور بالآخر یہ عمل پوری کائنات کو ایک عظیم سیاہ شگاف بنا دے گا، اور شاید تمام مادّہ، توانائی، مکان اور زمان اُس میں سمٹ جائے اور وہ دوبارہ سے سُکڑتے ہوئے چھوٹی ہو کر ’اِکائیت‘ اور صفر جسامت بن جائے گی اور لاشئ اور غیرموجود (nothing & naught) ہو جائے گی۔
نظام شمسی کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہماری قیامت اس سے بہت پہلے واقع ہو جائے گی، کیونکہ ہماری قیامت ہمارے سورج کی موت سے جڑی ہے۔ دیگر ستاروں کی طرح سورج میں موجود مادّہ کی مقدار کا بڑا حصہ ہائیڈروجن (Hydrojen) پر مشتمل ہے، جس کے مسلسل خودکار ایٹمی دھماکوں سے روشنی اور حرارت کا وسیع تر اِخراج ہوتا ہے، جس سے سورج چمکتا نظر آتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کا یہ عمل ہائیڈروجن کو ہیلئم میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اِتنا اِیندھن موجود ہے کہ وہ ساڑھے چار ارب سال مزید روشن رہ سکے۔
جب ہمارے سورج کے مرکز میں واقع دس فیصد ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے گزر کر ہیلئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز اپنے بے پناہ دباؤ کے تحت مزید سُکڑے گا اور اُس کا درجہ حرارت بے پناہ حد تک بڑھ جائے گا۔ ایسے میں ہیلئم بھی جلنا شروع کر دے گی، جس سے کاربن پیدا ہو کر سورج کے مرکز میں جمع ہونے لگے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل سورج میں شدید حرارت پیدا کر دے گا، جس سے زوردار دھماکوں کے ساتھ سورج کی بیرونی سطح پھول جائے گی اور اُس کے بعد اُس پھولی ہوئی سطح کا ٹمپریچر بھی نسبتاً کم ہو جائے گا۔
کسی ستارے کے پُھول کر اپنی اصل جسامت سے کئی گناہ بڑھ جانے کو فلکیاتی سائنس کی اِصطلاح میں ’سرخ ضخّام‘ (red giant) کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارا سورج جب red giant میں تبدیل ہو گا تو وہ پُھول کر نہ صرف عطارُد بلکہ زُہرہ کے مدار تک آ پہنچے گا۔ جس سے لامحالہ دونوں قریبی سیارے سورج میں گِر کر اُس کے وُجود کا حصہ بن جائیں گے۔ زمین زیادہ فاصلے پر ہونے کی بنا پر سورج میں گرنے سے تو بچ جائے گی، مگر سورج کا پُھول کر زمین سے اِس قدر قریب تک چلے آنا زمین کے درجۂ حرارت کو بے اِنتہا بڑھا دے گا، جس سے کرئہ ارض پر واقع کروڑوں اربوں اَقسام کی اَنواعِ حیات جُھلس کر تباہ ہو جائیں گی اور ہر سُو قیامت چھا جائے گی۔
سورج کے پُھول کر زمین سے اِس قدر قریب چلے آنے سے زمین پر قیامت برپا ہونے کے ضمن میں تاجدارِکائنات ﷺ سے بہت سی اَحادیث مروی ہیں۔ نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا:
تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ.
(صحیح مسلم، 2 : 384)
’’قیامت کے روز سورج مخلوق سے اِنتہائی قریب آن پہنچے گا۔‘‘
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
جولائی 1969ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی اِدارے NASA کے تحت تین سائنس دانوں کے ہاتھوں تسخیرِماہتاب کا عظیم تاریخی کارنامہ اِنجام پذیر ہوا۔ اُس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے قرآن نے چودہ سو سال پہلے اِعلان کر دیا تھا:
وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَo لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍo فَمَا لَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَo
(الانشقاق، 84: 18۔20)
’’اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے۔ تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے۔ تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتے۔‘‘
چاند کی قسم کھا کر فرمایا کہ تم یقینا ایک طبق سے دُوسرے طبق تک پہنچو گے، یعنی تم ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک پرواز کرو گے۔ پچھلی آیت میں جو چاند کی قسم کھا کر بات کا آغاز کیا گیا، اُس سے واضح اِشارہ ملتا ہے کہ آگے بیان ہونے والی حقیقت چاند سے ہی متعلق ہے۔
لترکبنّ، رکب یرکب سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے کسی پر سوار ہونا۔ اِسی سے اِسمِ ظرف {مَرْکَب} نکلا ہے، یعنی سوار ہونے یا بیٹھنے کی جگہ۔ گھوڑے پر سوار ہوتے وقت جس پر پاؤں رکھا جاتا ہے اُسے بھی اِسی وجہ سے رکاب کہتے ہیں۔ گویا لَتَرْکَبُنَّ کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اُوپر جانا کسی سواری کے ذریعے ہوگا۔ اِمام راغب اِصفہانی ؒ فرماتے ہیں:
الرّکوب: فی الأصل کون الإنسان علی ظهر حیوان، و قد یُستعمل فی السفینة.
(المفردات: 202)
’’رکوب: اصل میں اِنسان کے کسی حیوان پر سوار ہونے کو کہتے ہیں لیکن اِس کا اِستعمال جہاز پر سواری کے لئے بھی ہوتا ہے۔‘‘
لَتَرْکَبُنَّ جمع کا صیغہ ہے اور صیغہ جمع عام طور پر عربی زبان میں کم از کم تین کے لئے اِستعمال ہوتا ہے، جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ وہ کم از کم 3 افراد ہوں گے، جو زمین سے چاند کی طرف پرواز کر کے جائیں گے اور اُس سے اگلی آیت بتاتی ہے کہ وہ تینوں غیرمسلم ہوں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ Apolo-11 میں تسخیرِ ماہتاب کے لئے جانے والے مسافر تین ہی تھے اور وہ تینوں غیرمسلم تھے: نیل آرمسٹرانگ (Neil Armstrong)، ایڈوِن بُز (Edwin Buzz) اور کولنز (Collins)۔ اَب پھر اِن آیاتِ کریمہ اور اُن کی ترکیب ملاحظہ کیجئے۔
قرآن قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ ’’قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے۔ اے بنی آدم! تم میں سے کم از کم تین اَفراد پرواز کریں گے‘‘۔ کہاں سے کہاں تک… ’’طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ‘‘ ایک طبق سے دُوسرے طبق تک۔ پہلا طبق تو یقینا زمین ہے کیونکہ مخاطب اہلِ زمین تھے جو کسی دُوسرے طبق تک جائیں گے۔ دُوسرے طبق کا تعین بھی حکیمانہ انداز میں کیا گیا۔ اگر یہاں دُوسرے طبق کے لفظ کی بجائے سیدھا چاند ہی کہہ دیا جاتا تو پھر تسخیرِ کائنات کی مہم صرف طبقِ مہتاب تک ہی محدود و محصور تصور کی جاتی۔ ربِ ذوالجلال کو یہ منظور نہ تھا کہ ِانسان کی پرواز زمین کے بعد چاند پر جا کر رک جائے بلکہ وہ چاند کے بعد دیگر اَجرامِ فلکی کی تسخیر بھی چاہتا تھا۔ اِسی لئے لفظ طَبَقٍ کو تنوین کے ساتھ عام کر دیا تاکہ یکے بعد دیگرے اِنسان اَجرام و طبقاتِ کائنات کو تسخیر کرتا چلا جائے اور رازِ کائنات فاش کرنے کی مہم جاری رہ سکے۔ لیکن پہلا طبق جس پر اوّلاً اِنسان پہنچے گا وہ چاند ہو گا۔ اِس لئے اُس کی قسم پہلے کھائی گئی کیونکہ زمین کے سب سے زیادہ قریب چاند ہی کا طبق تھا اور باقی سب اُس کے مقابلے میں دُور تھے۔ آج سے چودہ سو سال قبل اہلِ زمین کو یہ پیشینگوئی سنائی گئی کہ تم میں سے کم از کم تین شخص کسی چیز پر سوار ہو کر پرواز کریں گے اور زمین کے طبق سے چاند تک پہنچیں گے، لیکن تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
شریعت کا مطلوب و مقصود عبادات اور اَحکام کی ادائیگی ہے، اُن تک پہنچانے والے وسائل اور ذرائع مقصود بالذات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع میں ہر دور میں تغیر و تبدل ہوتا رہا مگر عباداتِ مقصودہ اپنی اصل روح کے ساتھ ہر دور میں قائم رہیں۔ روزے میں بھی حقیقی مقصود تو روزہ کی ادائیگی ہے مگر اُس کی ادائیگی کیلئے ماہ رمضان المبارک کے آغاز کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کا اِرشاد ہے:
صُوموا لِرؤیته وافطروا لِرؤیته، فإن غُمّ علیکم فأکملوا العدد.
(صحیح مسلم، 2 : 762، رقم: 1080)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، اور اگر (وہ) پوشیدہ رہے تو گنتی پوری کرلو۔‘‘
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں مختلف الفاظ کے ساتھ اِرشاد فرمایا:
صُوموا لِرؤیته وافطروا لِرؤیته، فإن غُمّ علیکم فعدّوا ثلاثین.
(سنن ترمذی، 3 : 68، 684)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، اور اگر ہلال پوشیدہ رہے تو (مہینے کے) تیس (دن) پورے کرو۔‘‘
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں مختلف الفاظ کے ساتھ اِرشاد فرمایا:
صُوموا لِرؤیته وأفطروا لِرؤیته، فإن غُمّ علیکم الشهرَ فأکملوا العدة ثلاثین.
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 422، رقم: 9453)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، اور اگر مہینہ (ہلال) پوشیدہ رہے تو (مہینے کے) تیس (دن) پورے کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس حدیثِ مبارکہ میں رمضان المبارک کے آغاز و اِختتام کے لئے چاند دیکھنے کا حکم دیا اور 29 ویں دن ہلال کے نظر نہ آنے کی صورت میں تکمیلِ عدد کا حکم اِرشاد فرمایا، یعنی 30 روزے پورے کرو اور 31 ویں دن روزہ مت رکھو۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہاں آپ ﷺ نے اِختتامِ رمضان المبارک کے لئے 30 ویں دن دوبارہ چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نئے قمری ماہ کے آغاز کے لئے رؤیتِ ہلال شرط ہوتی تو ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ 30 ویں دن بھی ہلال کو تلاش کیا جاتا اور اُس کے نظر نہ آنے کی صورت میں عیدالفطر ورنہ 31 واں روزہ رکھا جاتا۔ روزوں کے 30 سے زیادہ نہ ہو سکنے کا علم یقینا حساب اور علم الہیت ہی سے میسر آیا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ’’فعدوا ثلاثین‘‘ اور ’’فأکملوا العدد‘‘ کے الفاظ یہ حکمت واضح کر رہے ہیں کہ حضور ﷺ اُمت کو حساب کی طرف لا رہے ہیں۔ سو جب تک اُمت کا علم 29 ویں دن کے حساب کے لئے قطعی اور یقینی نہ تھا وہ 30 ویں دن تو حساب پر عمل کرتی اور 29ویں دن رؤیتِ بصری پر اِکتفا کرتی رہی اور آج جب علم الہیت اپنے کمال کو پہنچا کہ 29ویں دن بھی 100 فیصد درست نتائج دے سکے تو لامحالہ اُس پر عمل بھی سنتِ نبوی قرار پائے گا۔
آپ اگر توجہ کریں تو ایک ہی حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دو اُمور کی طرف واضح نشان دہی فرما دی کہ یا رؤیت پر اِعتبار کرے اور اگر رؤیت میسر نہ آئے تو پھر گنتی پر اِعتبار کرے۔ گنتی کو علم حساب کہتے ہیں اور جب یہ گنتی ایک علم میں بدلی گئی تو یہ علم الہیت اور علم الحساب کہلانے لگا۔ گویا اگر رمضان یا شوال کی تلاش 29 دنوں پر منحصر ہو تو رؤیت پر عمل کیا جائے اور اگر اُس کا اِنحصار 30 ویں دن پر ہو تو یہ نہیں فرمایا کہ 30 ویں دن پھر دیکھو اور چاند کو تلاش کرو۔ فرمایا کہ بس 30 کی گنتی کے پوری کر لینا کافی ہے۔ گویا حضور نبی اکرم ﷺ نے 29 ویںدن پر رؤیتِ بصری کی طرف نشاندہی فرما دی اور 30 ویں دن اس وقت کے زمانے مطابق رؤیتِ عقلی یا رؤیت بالحساب کی طرف نشاندہی فرمائی کہ گنتی پوری کرو۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ حساب کہ 30 دن سے آگے چاند نہیں جائے گا، یہ کس طرح میسر آیا؟ یہ تو علم الحساب تھا علم الہیت تھا، جو پرانے وقتوں سے میسر سائنسی علم کے بل بوتے پر اِنسانیت کے پاس چلا آرہا تھا کہ چاند کا مہینہ 30 سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ اُس وقت چونکہ اُمت کے پاس میسر علم الحساب اور علم الہیئت کے مطابق صرف 30 ویں دن بارے ہی درست علم ممکن تھا اِس لئے اُسے 30ویں دن سے متعلق کر دیا اور 29 ویں دن کو آنکھ سے دیکھنے سے متعلق رکھا۔ اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ نے علم الحساب اور علم الہیت کی طرف بھی واضح طور پر اِشارہ فرما دیا تھا اور مقصود یہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں جب علم الحساب قطعیت اِختیار کر جائے گا اور اُس میں غلطی کا اِمکان کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گا اور علم الحساب جب اِس حد تک قابلِ اعتماد درجے تک پہنچ جائے گا تو پھر 29 ویں دن کے معاملے کو بھی علم الحساب کی طرف لا سکتے ہو۔
30 ویں دن علم الحساب کی طرف نشاندہی فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ جب علم الحساب اور علم الہیت، Astronomy اور چاند اور سورج کے سفر کرنا اور ان کے منازل یہ اتنے پختہ ہو جائیں اور اس بارے تمہارا علم اِتنا قائم و دائم اور واضح ہو جائے تو پھر وہ سٹیج آجائے گی کہ تم اپنے تمامتر علم کی بنیاد علم الحساب پر رکھ سکتے ہو۔ حضور ﷺ نے دراصل رؤیت بالعقل یا رؤیت بالحساب کی طرف بھی اُسی وقت صریحاً اپنی زبانِ مبارک کے ساتھ اِشارہ فرما دیا تھا۔
آج کے دور میں رؤیت کا معنی صرف رؤیت بالبصر پر اِصرار کرنا درست نہیں اور نہ حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ منشا تھا کہ صرف آنکھ ہی سے دیکھے ہوئے چاند پر اِعتماد کیا جائے۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ اُس دور میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کی خبر اور اِطلاع کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا لہٰذا آنکھ سے دیکھنے کے سوا رؤیت کا کوئی اور معنی ممکن تھا اور نہ قابلِ عمل۔
اِسلام کی قرونِ اُولیٰ میں نئے ماہ کے تعین کے لئے چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا طریقہ مروج تھا، کیونکہ عامۃ الناس کیلئے یہی ایک آسان ذریعہ تھا، جس سے نیا چاند ثابت کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اِرشادِ ربانی ہے:
هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولاً.
(الجمعة، 62 : 2)
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں رسول بھیجا‘‘
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
نحن أمةٌ أمیة، لانکتب ولانحسب.
(صحیح بخاری، 2 : 675، رقم: 1814)
’’ہم ایک اَن پڑھ قوم ہیں، جو حساب کتاب کرنا نہیں جانتی۔‘‘
تاجدارِ کائنات ﷺ کا رؤیتِ ہلال کے ضمن میں اپنی قوم کے اَن پڑھ ہونے کا ذکر کرنا اِس بات کی طرف واضح اِشارہ کرتا ہے کہ چاند کے سادہ حساب کا یقینی سبب قوم کی علم سے دُوری تھی۔ اِس حدیثِ مبارکہ میں ایک اور اِشارہ بھی پنہاں ہے کہ جب یہ سبب رفع ہو جائے تو چاند کے سادہ حساب کی ضرورت بھی رفع ہو جائے گی اور اُمت کا علم الحساب کی مدد سے ہلال کو جاننا بھی عین درست ہوگا۔
الله ربّ العزت نے تاجدارِ کائنات ﷺ کو جس قوم میں مبعوث فرمایا، یہ وہ لوگ تھے جو الف ب بھی پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ کوئی سکول، مکتب، مدرسہ موجود نہیں تھا۔ اُن کے پاس علم الہیئت (Astronomy)، علم الحساب یا کوئی Almanac یا Obsevatory یا کوئی Scientific Method کسی چیز کے تعین کرنے کو نہیں تھے۔ ابھی سائنس کی ڈویلپمنٹ نہیںتھی لہٰذا اَن پڑھ قوم جس کے پاس یہ ذرائع موجود نہ ہوں کہ چاند ہو گیا ہے یا نہیں ہوا۔ روزے رکھنے اور عید کرنے کے لئے چاند کی خبر کا کوئی ذریعہ اس زمانے میں روئے زمین پر ممکن نہ تھا سوائے یہ کہ شہادت ملے اور آنکھوں سے دیکھ کر کوئی کہے کہ چاند دیکھ لیا ہے کوئی کہے کہ نہیں نظر آیا، اور بس۔ حضور ﷺ کا اِرشاد واضح کر رہا ہے کہ اصل وجہ یہ تھی کہ قوم لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ یہ وہ علت تھی جس کی وجہ سے اس وقت آنکھوں سے دیکھ کہ اس وقت چاند پر اعتماد یعنی رؤیت بصری پر اعتماد کیا جاتا تھا ورنہ مقصود یہ نہیں تھا کہ قیامت تک یا ہمیشہ میری امت آنکھ سے دیکھنے کے ذریعے پر ہی اعتماد کرے اور اگر اُس سے زیادہ اور باوثوق اور بہتر ذریعہ اِیجاد ہو جائے تو اُسے نظرانداز کیا جائے۔ اعلیٰ درجہ کی سائنسی ترقی اور قابل اِعتماد ذرائع کی اِیجاد کے بعد اُنہیں نظرانداز کر دینا مقصود نہیں تھا۔ اُس زمانے میں جو میسر ذرائعِ علم تھے صرف اُن کی طرف نشاندہی فرما دی تھی اور اُس کی وجہ بتا دی تھی کہ اُس کے سوا اور کوئی ذریعہ اُس قوم پاس نہیں تھا۔
اِنسانی شعور اُس وقت چونکہ اِس قابل نہ تھا کہ گردشِ لیل و نہار میں پنہاں رازوں سے شناسائی حاصل کرتا، چنانچہ تاجدارِ کائنات ﷺ نے اُمت کو اُن مشکل قضیوں میں نہیں ڈالا۔ اس کی تائید ایک اور حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
إن الله یبعثنی معنتاً و لامتعنتاً ولکن بعثنی معلماً میسراً.
(صحیح مسلم، 2 : 1104، رقم: 1478)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے آسانی پیدا کرنے والا معلم بنا کر بھیجا ہے نہ کہ سختی کرنے والا۔‘‘
اِن تفصیلات کی روشنی میں اِن احادیثِ مبارکہ پر غور کریں تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہو تو اُس علم پر روزہ رکھو اور چاند کے ہونے کے علم پر اِفطار کرو۔ دراصل حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تمہیں علم ہو جائے، اِطلاع ہو جائے، جب جان لو کہ چاند ہو گیا تو روزہ رکھو اور اِفطار کرو۔ اَب اِس وقت جو ننگی آنکھ کا ذکر احادیث میں آتا ہے وہ مقصود نہیں تھا، وہ محض ذریعہ تھا کہ جاننے اور علم ہونے کا اُس وقت اور کوئی ذریعہ اُس دور کی اِنسانی ترقی کے مطابق ممکن نہ تھا۔ ایک ہی صورت تھی کہ ننگی آنکھ سے دیکھنے اور شہادت لے کر خبر دینے کی۔ ذرائع بدلتے رہتے ہیں، شریعت میں ذرائع بدلنے سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، مقاصد وہی رہتے ہیں۔ مقصد تک پہنچانا بنیادی چیز ہوتی ہے۔ جدید ذرائع کی بدولت ہم آج سے سو سال بعد Brith of Moon (یعنی قِران) کی خبر دے سکتے ہیں۔ اس طرح جیسے دو جمع دو چار کا حساب ہوتا ہے۔ اب علم یہاں تک پہنچ گیا، تو گویا حدیثِ نبوی ﷺ یہ کہہ رہی ہے کہ تمہیں جب علم ہو کہ یہ صورت ہے چاند کے ہو جانے کی تو اُس پر عمل کرو۔
چاند کی پہچان اور نئے قمری ماہ کے تعین کا یہ ذریعہ اُس وقت تک متداول رہا جب تک تعین اوقاتِ صلوٰۃ کے ٹائم ٹیبل کی طرز پر اِنسان تعینِ ماهِ قمری کے قابل نہیں ہوا تھا۔ آج اگر حدیثِ مبارکہ کے مقصودِ حقیقی کو پورا کرنے کے لئے سائنسی ذریعہء علم پیدا ہو جائے جو نئے قمری ماہ کے آغاز کے سلسلے میں 100 فیصد درست نتائج دے سکے تو اُسے اِختیار کرنا بھی اُمتِ مسلمہ کے لئے اُسی طرح سنت قرار پائے گا جیسے ایک وقت تک ننگی آنکھ سے ’رؤیتِ ہلال‘ ضروری تھی۔ آج اگر اُمتِ مسلمہ ’رؤیتِ ہلال‘ کے نئے طریقے کو اپنانے میں تردّد کا شکار ہے تو اُس کی واحد وجہ اُس کی علمی پسماندگی ہے۔ گھڑی کی اِیجاد کا سہرا اگر کسی غیرمسلم قوم کے سر ہوتا اور اُمتِ مسلمہ آج کی طرح اُس دور میں بھی سائنسی شعور سے دُور ہوتی تو گھڑی کو اوقاتِ صلوٰۃ کے تعین کے لئے اِستعمال کرنا بھی بدعت خیال کیا جاتا۔
جن فقہاء اور محدثینِ کرام کے حوالے سے علم الہیت کے ناقابلِ اعتبار ہونے پر اِجماع کا قول پیش کیا جاتا ہے اُن کے دور میں علم الہیت اِس درجہ ثقاہت تک نہیں پہنچا تھا، یہی وجہ ہے کہ ’رؤیتِ ہلال‘ کو فقط ’رؤیتِ بصری‘ پر محمول کیا جاتا رہا۔ سائنسی ترقی کے اِس دور میں حسابِ فلکی ایسے قطعی اور یقینی درجہ تک پہنچ چکا ہے کہ اگر اُسے عبادتِ مقصودہ تک پہنچنے کا ذریعہ (یعنی اِثباتِ ہلال) کی بنیاد بنایا جائے تو ناجائز نہ ہو گا۔ علم فلکیات (Astronomy) زمانہ قدیم میں تحقیق و اِکتشاف کے اس درجہ تک نہیں پہنچا تھا بلکہ ظن اور تخمین کی حالت میں تھا اس لئے پہلے دور کے علماء و محققین اور علم ہیئت و فلکیات کے ماہرین اس مسئلہ پر اس قدر واضح اور یقینی نہ تھے گویا قران (نئے چاند کی ولادت) کے لیے مطلوبہ مدت کا علم دور قدیم میں ظنی تھا جبکہ اب سائنسی تحقیقات اور فلکیات میں علم الحساب کے فروغ نے اسے علم یقینی کا درجہ دے دیا ہے۔
حدیثِ مذکورہ کے مفہوم میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رؤیتِ بصری پر اِکتفا کرنے کا حکم ایک علتِ منصوصہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ علت یہ ہے نحن أمۃ أمیۃ، لانکتب ولانحسب کہ اُمت لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتی تھی، اور قاعدہ یہ ہے کہ الحکم یدور مع علتہ، وجوداً وعدماً حکم معلول اپنے وُجود و عدم میں علت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ چنانچہ آج جب یہ علت (اُمت کا حساب کتاب نہ کر سکنا) ختم ہو گئی اور وہ حساب و کتاب میں مہارت پیدا کر چکی ہے تو حکم معلول (رؤیتِ بصری) کی پابندی ختم ہو گئی۔
رؤیت ہلال کی دو صورتیں ہیں:
1۔ ننگی آنکھ سے رؤیت Naked Eye sighting Visibility
2۔ آلاتی و دوربینی Telescopic Sighting Visibility
ہلال کو ننگی آنکھ سے دیکھنا یا جدید رصدگاہی آلات اور دور بین کے ذریعے دیکھنا، دونوں رؤیتیں اصلاً ایک ہی چیز ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر کوئی تضاد یا تخالف نہیں ہے بلکہ دوسری صورت، پہلی ہی صورت کے لئے ممد و معاون کا درجہ رکھتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ننگی آنکھ سے رؤیت ہلال میں درج ذیل مقامی کیفیات اثر انداز ہوتی ہیں:
1۔ مطلع کی کیفیت کیا ہے؟ صاف ہے یاابر آلود ہے؟
2۔ فضا کس قدر شفاف یا گرد آلود ہے؟
3۔ مقامِ مشاہدہ کا محل وقوع کیا ہے؟
4۔ مقامِ مشاہدہ کی سطح سمندر سے بلندی کس قدر ہے؟
5۔ موسم کیسا ہے گرم یا سرد؟
6۔ فضا میں نمی ہے یا خشکی؟
7۔ دیکھنے والے کی عمر اور بصارت و غیرہ الغرض یہ تین قسم کے عوامل ہیں جو ظاہری و بصری رؤیت پر اثر انداز ہوتے ہیں:
ان کی وجہ سے بسا اوقات کسی جگہ پر ہلال ہو چکا ہوتا ہے یعنی وہ ’’نئے چاند‘‘ (New Moon) یا قران کی حالت سے نکل کر حالتِ ہلال میں داخل ہو چکا ہوتا ہے مگر مطلع، فضا، مقام، موسم اور بعض دیگر عوامل کے باعث ننگی آنکھ سے کسی کو دکھائی نہیں دیتا، حالانکہ وہ اصلاً قابل رؤیت (Visible) ہو چکا ہوتا ہے۔ اس صورت میں آلاتی و دوربینی رؤیت انسان کو مدد دیتی ہے۔ جو لوگ محض بصری رؤیت کو معتبر اور آلاتی و دور بینی رؤیت کو غیرمعتبر سمجھتے ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رصدگاہی آلات اور دوربین جتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ہلال کو عدم سے وجود میں نہیں لا سکتی۔ اگر چاند حالتِ قران (Conjuntion) میں ہو اور ابھی مقامِ ہلال یعنی قابل رؤیت ہونے کی حالت تک نہ پہنچا ہو تو دنیا کا کوئی سائنسی آلہ بھی اسے دیکھ یا دکھا نہیں سکتا۔ گویا دوربین (Binocullars Telescope) کے ذریعے بھی رؤیت اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب چاند ہلال (Crescent) بن کر قابل رؤیت (Visible) ہو چکا ہوتا ہے۔
ننگی آنکھ کی رؤیت اور آلاتی و دور بینی رؤیت کے درمیان عملاً یہ فرق ہے کہ مطلع کی مقامی فضائی اور موسمی کیفیات کے باعث چاند کو ولادت (Birth of New Moon) کے بعد بالعموم 24 گھنٹے یا اُس سے زائد مدت گزرنے پر دیکھا جاسکتا ہے، ہر چند کہ بعض اوقات اِستثنائی کیفیات میں اس سے کم مدت میںبھی رؤیت ہلال ہو جاتی ہے۔
ہمیں اب تک کے میسر ریکارڈ میں سے کم سے کم ساڑھے چودہ گھنٹے کی عمر کا ہلال دیکھے جانے کا ثبوت مل سکا ہے، جو مؤرخہ 2 مئی 1916ء انگلینڈ میں 14 گھنٹے 30 منٹ کی عمر کا چاند دیکھا گیا تھا۔ ساڑھے چودہ گھنٹے سے 24گھنٹے کے درمیان عمر کا ہلال دیکھے جانے کے تو بہت سے شواہد بین الاقوامی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
دوسری طرف اب تک کے میسر ریکارڈ کے مطابق دوربین (Binoculars Telescope) سے کم از کم 13.5 گھنٹوں کے ہلال کی رؤیت کا ثبوت مل سکا ہے۔
دیکھنے والے کا نام: Robert C.Victor
استعمال ہونے والی دوربین: Tripod-Mounted 11x80 Binoculars
مقام مشاہدہ: Michigan (USA)
تاریخ مشاہدہ: 5 مئی 1989ء
(Sky and Telescope, Sep.1989, P-322)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ننگی آنکھ کی رؤیت اور آلاتی رؤیت کے ریکارڈ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں:
ننگی آنکھ کی رؤیت کا ریکارڈ: 14.30 گھنٹے کے ہلال کی رؤیت 1916ء
دوربینی رؤیت کا ریکارڈ: 13.05 گھنٹے کے ہلال کی رؤیت 1982ء
یہ موازنہ اور تحقیق اس لئے پیش کی گئی ہے کہ وہ مذہبی ذہن جنہیں سائنسی تحقیقات و اِکتشافات سے عدم واقفیت کی بنا پر بلاوجہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے اِختلاف اور نفرت ہے اور وہ سائنسی آلات اور ان کے مشاہدات کی نسبت مغالطہ اور بدگمانی میں مبتلا رہتے ہیں وہ اپنا خیال درست کر سکیں کہ دوربین نے کسی ناممکن کو ممکن یا معدوم کو موجود نہیں بنایا بلکہ ایک ممکن کو ہی سہل اور آسان کر کے دکھایا ہے۔
ننگی آنکھ کی رؤیت میں چاند (ہلال) کا 20 گھنٹوں سے بھی کم عمر میں حتی کہ ساڑھے چودہ سے 16 گھنٹوں کی عمر میں دکھائی دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پیدائش قمر (قران) کے بعد ہلال بعض اوقات اتنے عرصہ میں بھی ننگی آنکھ سے دیکھے جانے کے قابل ہو جاتا ہے مگر مختلف مطالع پر مقامی، موسمی اور فضائی یا زاویائی کیفیات کے باعث عام طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ دوربینی یا رصدگاہی آلات نے انہی رکاوٹوں کو دور کر کے عمل رؤیت کو شفاف کر دیا ہے اور چاند جو بصورت ہلال مطلع پر پہلے سے ہی موجود تھا اسی کو واضح کر دکھایا۔ حقیقتاً دوربین سے بھی ہلال کو انسانی آنکھ نے ہی دیکھا ہے۔ یہ بھی کاملاً بصری رؤیت ہے مگر بغیر آلات کی مدد کے ہے درحقیقت ہم جسے ظاہری و بصری رؤیت کہتے ہیں وہ بغیر امداد آلات کے بصری اور جسے دوربینی، آلاتی یا رصدگاہی رؤیت کہا جاتا ہے وہ بھی بصری رؤیت ہی ہے مگر امداد آلات کے ساتھ اس کی مثال ’’نظر کی عینک‘‘ (Glasses) ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک شخص کی بینائی کمزور ہو جائے تو عینک کی مدد سے وہ اپنی طبعی قوت مشاہدہ میں اضافہ کر لیتا ہے اسے ہر کوئی جائز سمجھتا ہے تو دوربین (Telescope) جیسے آلات بھی اسی قبیل میں آتے ہیں کیونکہ ان سے بھی فقط قوت مشاہدہ اور استعداد ادراک میں اِضافہ ہوتا ہے اور چاند جو بعض اوقات یا بعض مقامات پر مطالع کی دھندلاہٹ کے باعث ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا، یہ آلات ان کی رؤیت آسان اور شفاف بنا دیتے ہیں لہٰذا شرعاً و عقلاً ان آلات کی مدد سے واقع ہونے والی رؤیت اور ننگی آنکھ کی رؤیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یہاں یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ کئی مقامات پر چاند پہلے ننگی آنکھ سے نہ دیکھا جا سکا، جب اُسے دوربین کی مدد سے دیکھا گیا اور اُس کا محل وقوع صحیح طور پر معلوم ہو گیا تو دوبارہ ہلال ننگی آنکھ سے بھی دیکھ لیا گیا۔
اسی طرح 14 جولائی 1988ء اور 6 اپریل 1989ء کو Schaefer اور Doggett ہلال کی مختلف حالتوں اور زاویوں سے ننگی آنکھ کی رؤیت اور بصری آلات کی مدد سے رؤیت کے نتائج کا موازنہ کیا ہے جن میں پانچ مختلف نمونے درج ذیل ہیں:
بغیر آلات بصری رؤیت |
آلات کی مدد سے بصری رؤیت | |
1 | 11% رؤیت | 71% رؤیت |
2 | 20% رؤیت | 66% رؤیت |
3 | 34% رؤیت | 67% رؤیت |
4 | 38% رؤیت | 75% رؤیت |
5 | 59% رؤیت | 82% رؤیت |
اس موازنہ سے معلوم ہوا کہ ننگی آنکھ سے رؤیت اور بصری آلات کی مدد سے رؤیت میں ہلال کا مشاہدہ کرنے والوں کے عددی تناسب میں کس قدر فرق واقع ہو جاتا ہے۔ ایک اور بات جو رؤیت ہلال کے سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہ غروب آفتاب کے بعد وقت کا معاملہ ہے۔ عوام الناس کا یہی خیال اور معمول ہے کہ رؤیت کی شام ہلال کو غروب آفتاب کے فوراً بعد دیکھا جاتا ہے، مطلع بالکل صاف ہونے کی صورت میں جب وہ ایک خاص وقت تک دکھائی نہیں دیتا تو یہی خیال کر لیا جاتا ہے کہ چاند نہیں ہوا جبکہ رصدگاہی آلات دراصل یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہلال غروب آفتاب کے کتنی دیر بعد سے قابل رؤیت ہو گا اور کتنی دیر تک مطلع پر رہے گا اور یہ کہ زمین سے کس زاویے پر اور افق سے کس قدر بلندی پر دیکھا جا سکے گا۔
ان معمولات سے امکانِ رؤیت کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ الغرض یہ بات بالیقین جان لینی چاہئے کہ دوربینی رؤیت یا دیگر آلات کے ذریعہ رصدگاہی رؤیت بصری رؤیت کی قائم مقام نہیں بلکہ یہ خود بصری رؤیت ہی ہے۔ اس پر عدم اعتماد کا کوئی شرعی و عقلی جواز نہیں ہے۔
علم الفلکیات (Astronomy) میں ابزرویٹری (Observatory)، پلانیٹیریم (Planitarium)، طلوع و غروب آفتاب کا فلکیاتی جدول (Astronomical Talbe) اور المانک (Almanac) وغیرہ کی ایجادات میں ماضی میں مسلم سائنسدانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ واقعتا مسلمان ہی اس علم جدید کے بانی اور مؤسس ہیں۔ مغربی تحقیقات کی تاریخ بھی اس بات پر متفق ہے کہ رؤیت ہلال (Crescent Visibility) کے بارے میں بیشتر فلکیاتی فارمولوں کے بانی بھی مسلمان ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج زوال کے باعث امت مسلمہ اپنے تاریخی، علمی اور سائنسی ورثہ سے اس قدر لاتعلق اور بے خبر ہو گئی ہے کہ خود اُنہیں ہی اس کے شرعی جواز پر قائل کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ علم ہیئت کو ترقی دے کر اسے علم الحساب کے درجہ تک پہنچانے کی ترغیب مسلمانوں کو قرآن مجید نے دی تھی۔ سورج اور چاند وغیرہ کی فلکیات گردش کے نظام کو کاملاً حساب کی صورت میں جاننا اور اسے قطعی اور یقینی علم کے مقام تک پہنچانا ان آیات قرآنی کے حکم کی تعمیل میں مسلم ماہرین فلکیات نے اپنا مطمح نظر بنایا اور انہوں نے اس علم کو اس قدر فروغ دیا کہ ایک ہزار سال کے قریب عرصہ تک وہ اس میدان میں بھی پوری دنیا کے امام و مقتداء رہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان.
(القرآن، الرحمن، 55: 5)
اور سورج اور چاند معلوم اور مقررہ (فلکیاتی) حسابات سے (گردش میں) ہیں۔
یعنی سورج کا طلوع و غروب، اُس کی گردش، مدار اور اُس کی منازل و زاویہ جات، سب مقررہ اور معلوم حساب کے تحت ہیں۔ اِسی طرح چاند (Moon) کی پیدائش، پھر اُس کا ہلال (Crescent) بننا، رُبع اول (First Quarter) پھر اُس کا بدر (Full Moon) بننا، رُبع آخر (Last Quarter) اور محاق کے مرحلہ سے گزرتے ہوئے قِران (Conjunction) پر آ کر نیا چاند (New Moon) بننا، یہ سب کچھ بھی مقررہ فلکیاتی حساب کے مطابق ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے:
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَاب.
(القرآن، یونس، 10: 5)
وہی ہے جس نے سورج کی روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو۔
ان آیات کی ضروری توضیح اور شرعی و فلکیاتی افادیت آگے بیان ہو گی مگر اس جگہ فقط یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ نظام شمس و قمر کے جملہ معاملات الله تعالیٰ کے مقرر کردہ باقاعدہ حسابات کے تحت ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان حسابات کو صحیح طریقے سے جان لینا ان کو معلوم کرنے کے لئے ضابطے اور فارمولے وضع کرنا تاکہ فلکیاتی حسابات کے مطابق سورج اور چاند کی گردشوں، مرحلوں اور زاویوں کا ٹھیک تعین ہو سکے اور اس علم پر یقین کرنا نہ صرف انسان کے لئے ممکن اور جائز ہے بلکہ عین فرمان الٰہی اور منشائے حکم قرآنی ہے۔ اسی منشاء ربانی کو پورا کرنے کے لئے مسلم سائنسدانوں اور ماہرین نے علم ہیئت کو ترقی دے کر اسے علم الحساب کے درجہ تک پہنچا دیا اور فلکیاتی علم الحساب کے ذریعہ سورج اور چاند کی گردشوں کے مستقل جدول بنائے چنانچہ فلکیاتی علم الحساب کی تاریخ تین ادوار پر مشتمل ہے:
1۔ قدیم: عراقی (بابلی) دور پر مشتمل یہ زمانہ ماقبل مسیح کی تاریخ ہے۔
2۔ وسطی: یہ دور جدید فلکیات، علم رؤیت ہلال اور فلکیاتی علم الحساب کی بنیاد ہے۔ یہ سب دور اسلامی ہے۔
3۔ جدید: یہ دور مغربی ہے اس نے سارا ورثہ عالم اسلام سے پایا اور اسی کو آگے بڑھایا ہے گویا 8 صدی عیسوی سے 16ویں صدی عیسوی تک آٹھ نو سو سال جدید علم رؤیت ہلال اور فلکیاتی تحقیقات کا نظام صرف مسلمانوں ہی کے زیرنگرانی فروغ پذیر رہا ہے۔ اس دور کے چند قابل ذکر اور نمایاں اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
1۔ امام یعقوب بن طارق (8ویں صدی عیسوی)
2۔ امام محمد بن موسیٰ خوارزمی (9ویں صدی عیسوی)
3۔ امام ابو جعفر الخازن (10ویں صدی عیسوی)
4۔ امام محمد بن ایوب طبری (11ویں صدی عیسوی)
5۔ الشیخ الفھاد (12ویں صدی عیسوی)
6۔ الشیخ موسیٰ بن میمون (12ویں صدی عیسوی)
رؤیت ہلال میں پیش گوئی کے جملہ ماڈلز اور معیارات (Criteria Models Prediction) کی تاریخ مشرقی اور مغربی دونوں مصادر فلکیات میں متفقہ ہے۔ اس کے بعد کی صدیوں میں بھی مغرب میں (رصدگاہی) علم و تحقیق میں اسلامی تحقیقات ہی غالب رہی ہیں، مغربی دنیا میں اس کے لئے جدید ماڈل اور معیار موجودہ صدی میں بننے شروع ہوئے ہیں مگر ان میں Yallop اور Schaefer کے جدید ترین رصدگاہی ماڈلز کے ساتھ ساتھ ایک مسلم سائنسدان محمد الیاس (M.Ilyas) کا ماڈل بھی موجود ہے چنانچہ ابن طارق سے لے کر محمد الیاس تک کے رصدگاہی و فلکیاتی ماڈلز کی قمری گھڑیاں (Moon Watches) آج بھی تقابلی مطالعہ کے لئے مغرب کے زیراستعمال ہیں۔
(E.Schaefer, Nov.22, 1993)
(Lunar Crescent Visibility Leroy E.Goggett Bradley)
مگر شومئ قسمت کہ وہ علم جس کی تشکیل اور فروغ کا حکم درج بالا آیات کے ذریعے خود قرآن نے دیا تھا اور اس کی امامت خود امت مسلمہ کے ہاتھ میں ایک ہزار سال تک رہی ہے آج اپنے بانیوں ہی کی نگاہ میں مشکوک اور ناقابل اعتبار ہو گیا ہے۔
وہ اُصول جن کی بنیاد پر سورج، چاند اور زمین اپنے اپنے مدار میں حرکت پذیر ہیں، اُن کے طلوع و غروب کے حسابات، اُن کی گردشیں، رفتاریں اور اوقات، ان کے باہم زاویے اور فاصلے، چاند کا زمین اور اپنے فلک کی نسبت سے مدار کو مکمل کرنا اور سورج کی نسبت سے بھی اپنے مدار کی تکمیل کرنا، الغرض اُن کے بارے میں نہ صرف دنوں، گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں تک کی تفصیلات حتمی و قطعی طور پر معلوم ہو چکی ہیں بلکہ ایک سیکنڈ کے قلیل ترین حصے کا وقت بھی پوری صحت و قطعیت کے ساتھ شمار میں آ چکا ہے اور عرصہ ہائے دراز کے مطالعہ و مشاہدہ کے بعد یہ تمام اعداد و شمار باقاعدہ حساب و کتاب اور فارمولوں کی شکل میں 2+2=4 کی طرح قطعی و یقینی علم کے درجہ تک پہنچ چکے ہیں، اِس لئے علم الہیئت اور علم الرؤیہ اب فی الحقیقت ’’علم الحساب‘‘ بن گیا ہے۔
اس میں اب ظن و خطا کی وہ کیفیت نہیں رہی جو پہلے تھی اس وقت ہمارے فقہائے کرام علم فلکیات کے ماہرین کے اندازوں کو کاملاً درست تسلیم نہیں کرتے تھے اس لئے ان پر مدار رؤیت ممکن نہ تھا۔ اس وقت تک اس باب میں سائنسی تحقیقات و معلومات خود بلوغ و کمال اور فلکیاتی حساب میں حتمیت و قطعیت کے مقام تک نہ پہنچی تھیں مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے اب علم ہیئت و فلکیات حساب کے درجہ میں ’’علم یقین‘‘ میں بدل چکا ہے۔ علم فلکیات میں رؤیت ہلال کی پیشن گوئی کے لئے تاریخی لحاظ سے اب تک تین مختلف ضابطے معروض وجود میں آئے ہیں۔
اس ضابطہ کے مطابق رؤیت ہلال کی پیشن گوئی کے لئے درج ذیل دو پیمانے استعمال ہوتے تھے:
1۔ چاند کی عمر … قران (ولادت قمر) سے وقت رؤیت تک ہلال کی عمر کیا ہو گی؟
2۔ غروب آفتاب (Sun set) سے غروب ماہتاب (Moon set) تک کتنا وقت Lag time درمیان میں ہو گا؟ گویا چاند غروب آفتاب کے کتنی دیر بعد غروب ہو گا؟ اسے Criteria Anciant کہتے ہیں۔
اس دور کا رؤیت ہلال کی پیشن گوئی کا پیمانہ جو 8ویں صدی عیسوی سے تاحال رائج اور متداول رہا ہے، یہ ہے کہ وقت رؤیت چاند کے سورج سے فاصلے کا زاویہ معلوم کیا جائے اسے Medieval Islamic Criteria کہا جاتا ہے۔
موجودہ دور کی جدید تحقیقات نے رؤیت ہلال کی درست پیشن گوئی کے لئے جو پیمانہ مقرر کیا ہے اس میں درج ذیل دو چیزیں معلوم کی جاتی ہیں:
1۔ چاند کی غروب آفتاب کے وقت افق سے بلندی (Altitude) کتنی ہو گی؟
2۔ چاند کا غروب آفتاب کے وقت افقی زاویہ (Azimuth) کیا ہو گا؟ اسے Modern Criteria کہتے ہیں۔ اس پیمانے پر تجربی اور علمی (Theoretical and Empirical) دونوں طریقوں سے کام ہو رہا ہے تاہم فلکیاتی رصدگار (Observatory Astronomical) اور فلکیاتی المانک (Astronomical Almanac) سے مذکورہ بالا جملہ پیمانوں کے مطابق مطلوبہ تمام معلومات بآسانی حتمی اور قطعی طور پر حاصل ہو جاتی ہیں اور انہی کے ذریعے ہی قران یعنی نئے چاند کی ولادت اور اس کے بعد رؤیت ہلال (Crescent Visibility) کے امکان یا عدم اِمکان کا علم حاصل ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث، لغتِ عرب اور سائنسی تحقیقات کی مدد سے رؤیتِ ہلال پر ضروری بحث کے بعد اَب ہم اُمت کے وسیع تر مفاد میں اپنا بنیادی مؤقف پیش کرتے ہیں۔ رؤیتِ ہلال کے ضمن میں ہمارا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ:
یہ بھی ضروری ہے کہ Moon Altitude، Elongation اور Lag Time (غروبِ آفتاب و ماہتاب میں وقفہ) وغیرہ کی کم سے کم حد پر اِجماع کی صورت پیدا کی جائے، کیونکہ اِن میں سے کسی کی حد زیادہ مقرر کرنے کی صورت میں کبھی قِران (Conjunction) کے بعد یکم تاریخ میں تین دن کا فاصلہ بھی آسکتا ہے، اور اُس صورت میں ممکن ہے کہ کبھی چاند ضابطے کے تحت طے ہونے والے دن سے ایک دن پہلے نظر آجائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کم سے کم حد پر اِتفاقِ رائے ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ’رؤیت بالحساب‘ کے جس ضابطے پر کثیر مسلمانانِ عالم متفق رائے اِختیار کر لیں اُس پر اِجماع ہو جائے اور پوری دُنیا میں اُس پر عمل سے اِتحادِ اُمت کا مظاہرہ ہو اور یورپ اور امریکہ میں عام مسلمانوں کو مذاق کا نشانہ بننے سے بچایا جائے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 805)
کرئہ ارضی پر پائے جانے والے اَدوارِ حیات میں سے اِس وقت ہم مرحلۂ حیاتِ جدید (Cenozoic Era) کے آخری حصے میں موجود ہیں، جسے سائنسی اِصطلاح میں ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ’ممالیہ گروپ‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ (ape) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جانے لگا ہے اور اِس ضمن میں اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم قرآنِ مجید نسلِ اِنسانی کو ’’خَلْقِ آخَر‘‘ )ممیز مخلوق( کہہ کر پکارتا ہے اور اُسے ’’أَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘ )بہترین بناوَٹ( قرار دیتا ہے، لہٰذا اِس دور کو ’جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کا دَور‘ کہا جانا چاہیئے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہے کہ جانور، پرندے اور اِنسان، تینوں مخلوقات ایک ہی دَور میں ظہور پذیر ہوئیں۔ قرآنِ حکیم بھی ایک مقام پر اِسی مفہوم میں یوں فرماتا ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَ لاَ طَآئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ.
(الانعام، 6: 38)
اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔
نظریہ اِرتقاء کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے، جو حقیقت میں محض مماثلتیں ہی ہیں اور اُن سے وہ نتائج اَخذ کرنا جو اُنہوں نے کئے کسی طرح بھی درُست نہیں۔ حیاتیاتی، عضوی یا ترکیبی، حیاتی، کیمیائی اور جینیاتی مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں، قرآنِ مجید نے آج سے 14صدیاں قبل اِن کا ذِکر سورۂ اَنعام کی آیت نمبر38 میں کر دیا تھا۔ ’’أَمْثَالُکُمْ‘‘ (تمہارے جیسی) کا لفظ جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کے مابین مختلف اَقسام کی مماثلتوں کی طرف واضح اِشارہ کر رہا ہے، جس سے کلامِ الٰہی کی صداقت اور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم اُن مماثلتوں سے لئے جانے والے بیہودہ ڈاروِنی اِستدلال سے ہرگز اِتفاق نہیں کرتا اور نہ تمام کے تمام سائنسدان اِس سے اِتفاق کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خود ساختہ نظریۂ اِرتقائے حیات کے حاملین اپنے اِس مَن گھڑت فرسودہ مفروضے کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں کر سکے۔ وہ اپنے مفروضے میں موجود تسلسل کے فقدان سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس عدم تسلسل کو وہ ’گمشدہ کڑیاں‘ (missing links) کہتے ہیں۔ اُن بہت سی گمشدہ کڑیوں کے باوصف مفروضۂ اِرتقاء کی بہت سی خلطِ مبحث اور متضاد تعبیرات کی جاتی ہیں اور کوئی بھی متفقہ نظریہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔
یہاں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی تحقیقات کے وہ گوشے جو قرآنی تصورات سے ہم آہنگ ہیں، وہ بالکل فطری انداز میں منتج ہوتے ہیں اور سائنس اُس منزل تک پہنچنے میں بآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ دُوسری طرف تمام وہ تصورات جو قرآنی تعلیمات سے متعارِض ہوں کبھی بھی تذبذب اور شکوک و شبہات سے نہیں نکل سکتے اور اُن میں اِبہام و اِلتباس ہمیشہ برقرار رہے گا اور کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ بھی برآمد نہ ہو پائے گا۔ یہی حالت مفروضۂ ارتقاء کی بھی ہے۔
چارلس ڈاروِن (Charles Darwin) نے آج سے تقریباً ایک سو سال قبل کیمبرج یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج (Christ's Collage) سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اِس سے پہلے اُسے علمِ حیاتیات (biology) یا علمُ الطب (medical science) کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان ایک جانور تھا جس کا اِرتقاء ’یک خلوِی جسیمے‘ (unicellular organism) سے ہوا اور وہ بوزنہ (ape) سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سے سائنسدان بلا سوچے سمجھے اُس کی باتوں میں آگئے اور اُس کے ہم نوا بن بیٹھے، اور یوں جلد ہی اِرتقاء کا یہ اَفسانہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ مفروضہ کئی سال تک دُنیا بھر کے تمام تعلیمی اِداروں میں اِس طرح پڑھایا جاتا رہا جیسے یہ واقعی کوئی سائنسی حقیقت ہو، حالانکہ سائنسی تحقیقات سے اُس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء…اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا…محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ آر بی گولڈسمتھ (R. B. Goldschmidt) جو بیالوجی کا ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مفروضۂ اِرتقاء کا پُرزور حامی بھی ہے، اِس حد تک ضرور دیانتدار ہے کہ اُس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اِرتقاء کے حق میں تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر کوئی شہادت میسر نہیں آسکی اور یہ محض تصوّرات کا ایک تانہ بانہ ہے۔
سائنسی علوم سے نابلد لوگ اِس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم کے خلاف سائنسی شہادتوں کے اَنبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس قسم کے نظریات باطل اور فرسودہ سوچ کے حامل گمراہ لوگوں کے لئے ہمیشہ سے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں، جو محض شہرت کی خاطر بلاتحقیق ایسے ایشوز پیدا کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں سے اِس مفروضہ کے خلاف تنقید میں بڑے بڑے ماہرینِ حیاتیات کا بھرپور اِضافہ ہوا ہے۔ جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات (biology) اور علمِ حیوانات (zoology) کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen J. Gold) وغیرہ نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ جھوٹے سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔
پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے اُوٹ پٹانگ طریقوں سے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج اَخذ کئے ہیں۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔
اگرچہ دُنیا کے مشہور و معروف عیسائی اور یہودی سائنسدان مفروضۂ اِرتقاء کو برحق نہیں جانتے مگر اِس کے باوُجود وہ اِس گندے کھیل میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، کیونکہ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم کا بدلہ لینے کا تصور اُنہیں حقائق کو مسخ کرنے کا جواز بخشتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا میں کوئی جانور بھی اِرتقائی عمل کی پیداوار نہیں، یہ محض ایک تصوراتی اور فلسفیانہ مفروضہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نام پر اِنسان کی اس خودساختہ اَصل سے متعلق جو دعوے کئے جاتے ہیں سب کے سب جھوٹے ہیں۔ اِنسان کی اَصل کے متعلق ہنوز کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں آ سکا۔ تب پھر اِنسان کی اَصل کیا ہے؟ ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی رَوشنی میں دیں گے۔ اِرشادِ ربانی ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍO
(التین، 95: 4)
بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان ایک الگ مخلوق کے طور پر معرضِ وُجود میں آیا ہے اور یہ کسی دُوسری مخلوق سے اِرتقاء کے نتیجے میں ظاہر نہیں ہوا۔ اِنسان کی تخلیق ’’خلقِ آخر‘‘ ہونے کے ناتے تخلیقِ خاص (special creation) ہے، جسے الله ربُّ العزت نے ایک مناسب وقت پر تخلیق کیا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved