ہوائی جہاز چونکہ زمین سے بہت بلندی پر پرواز کر رہا ہوتا ہے اس لئے بسا اوقات اُس پر براہِ راست سورج کی شعاعیں پڑ رہی ہوتی ہیں، لیکن جونہی وہ نیچے رن وے پر اُترتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سورج غروب ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات نمازِ مغرب کا وقت قریب الاختتام ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کا حل بڑا سادہ ہے، وہ یہ کہ جہاز میں سوار مسافروں کو اُس خطے کے نظام الاوقات کی پابندی کرنا ہوتی ہے جس کے اُوپر جہاز اُڑ رہا ہو۔ اگر نیچے زمین پر واقع شہر میں نمازِ مغرب کا وقت شروع ہو جائے تو جہاز میں موجود مسافر نمازِ مغرب پڑھ سکتے ہیں، اگرچہ اُنہیں سامنے سورج دکھائی دے رہا ہو۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
سکینڈے نیویا کے ممالک ناروے، سویڈن اور فن لینڈ اور ان کے علاوہ روس اور کینیڈا کے شمالی علاقے قطب شمالی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے وہاں گرمیوں میں دن نہایت طویل ہوتے ہیں اور راتیں سکڑ کر محض دو سے تین گھنٹے کی رہ جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض شمالی علاقوں میں تو مغرب کے فوری بعد فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور مسلسل کئی ماہ تک نماز عشاء کا وقت نہیں آتا۔ ایسے علاقوں کے رہنے والوں مسلمانوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ (جنوب کی سمت واقع) قریب ترین شہر کے اَوقاتِ صلاۃ کے مطابق نماز ادا کریں۔
الله رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
لَایُکَلِّفُ اللهُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَهَا.
(البقرة، 2: 286)
’’الله کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
شرق سے غرب تک دُنیا کا کوئی بھی گوشہ ہو، دین پر عمل کرنے میں کہیں بھی دُشواری اور مشکل نہیں ہے۔ مشکل صرف اس لئے لگتی ہے کہ ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ دین کا حکم کیا ہے۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے قریب واقع وہ علاقے جہاں تین تین مہینے سورج غروب ہی رہتا ہے یا طلوع ہی رہتا ہے اور اسی طرح عین قطب پر تو یہ وقت چھ ماہ تک طویل ہوتا ہے، اس کا طریقہ بڑا آسان ہے کہ اس کے قریب تر ملک، جہاں طلوع اور غروب کا نظام ہے، وہاں کے فجر سے عشاء تک کے اوقات معلوم کر لئے جائیں، اور وہاں کے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ جہاں چھ ماہ دن رہے یا رات ہو، ان مقررہ اوقات کے مطابق نماز اور روزے کے معمولات کو جاری رکھا جائے گا۔ قرآن مجید میں فرمایا:
اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَّوْقُوتًاo
(النساء، 4: 103)
’’بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
قرآن مجید میں جہاں طلوع اور غروب کے اَحکام آئے ہیں وہاں یہ بھی ایک اُصولی حکم ہے کہ نمازیں اوقات کے تقرر و تعین کے ساتھ فرض ہیں۔ پس دُنیا کے جن خطوں میں طلوع اور غروب موجود ہی نہیں ہے وہاں اوقات کا تعین گھڑیوں کے حساب سے کر لیا جائے گا۔ آپ اس کا تعین قریبی ملک کے ساتھ کر سکتے ہیں اور ایسے ممالک میں یہی معمول چل بھی رہا ہے۔ عملاً اُمتِ مسلمہ کو یہ دُشواری درپیش نہیں ہے۔ ایسے ممالک میں لوگ اسی اُصول کے مطابق نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں اور یہ درست اصول ہے۔
سٹاک ہوم، اوسلو وغیرہ میں روزہ بائیس گھنٹے کا ہوتا ہے، مزید شمال کے شہروں میں تئیس گھنٹے تک بھی چلا جاتا ہے۔ ہم نے اُن دنوں میں وہاں رہ کر بھی دیکھا ہے کہ یہ الله کی نعمت ہے کہ جہاں دن اتنا طویل ہو جاتا ہے اور رات چھوٹی سی رہ جاتی ہے وہاں موسم الله نے ایسے رکھے ہیں کہ بائیس گھنٹے کا روزہ ہمارے ہاں کے سولہ گھنٹے کے روزے سے بھی بدرجہا آسان ہوتا ہے۔ کوئی مشقت یا تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب سردیاں آتی ہیں، دن نہایت چھوٹے ہو جاتے ہیں اور راتیں بڑی ہو جاتی ہیں۔ ان کا نظام الاوقات جہاں دوسرے علاقوں سے مختلف ہے وہاں موسموں کا تغیر بھی اُسی حساب سے ہے کہ موسم میں گرمیوں کی شدت نہیں ہوتی۔ اس لئے بھوک اور پیاس ان کے لئے ہرگز تکلیف کا باعث نہیں ہوتی۔
بنیادی تصور یہ ہے کہ وقت کے پیمانے کے زیادہ وسیع اور تنگ ہونے سے کوئی غرض نہیں، غرض اس سے ہے کہ اِنسانی جان مشکل میں نہ پڑے۔ موسم اچھا ہو تو وہ بائیس گھنٹے کا روزہ بھی تکلیف نہیں دیتا، تو وہ مدعا پورا ہوا کہ جان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں۔ اب اگر کوئی شخص بیمار ہے اور وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اتنا طویل روزہ نہیں رکھ سکتا تو اُس کے اَحکام الله اور اُس کے رسول ﷺ نے قرآن و حدیث میں الگ سے دے رکھے ہیں۔ بیمار کے احکام یہاں بھی ہیں کہ وہ قضا کر سکتا ہے اور دائمی مریض ہے تو فدیہ دے سکتا ہے۔ یہ سہولت وہاں کے بیمار کو بھی اُسی طرح میسر ہے۔ جو صحت مند لوگ ہیں وہ وہاں کے ماحول کے عادی ہیں، اس لئے اُنہیں موسم کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے لمبے روزے کی تکلیف کا پتہ بھی نہیں چلتا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
اگر کوئی شخص یکم رمضان المبارک کو پاکستان میںتھا اور اُس نے پہلا روزہ پاکستان میں رکھا اور چند دن کے بعد وہ سعودی عرب چلا گیا تو آج کل کے حالات کے مطابق اُس نے سعودی عرب سے دو دن بعد روزے شروع کئے۔ اُس کے 28 ویں روزے کی شام کو اگر سعودی عرب میں عیدالفطر کا اِعلان ہو گیا تو وہ سعودی عرب کے مطابق عیدالفطر کرے۔ اب یہ تو قطعی امر ہے کہ رمضان المبارک کے روزے 29 سے کم نہیں ہو سکتے اِس لئے باقی بچ جانے والا روزہ وہ عید کے بعد قضا کرے۔
اگر کوئی شخص یکم رمضان المبارک کو سعودی عرب میں تھا اور اُس نے پہلا روزہ وہیں رکھا اور چند دن کے بعد وہ پاکستان آ گیا تو آج کل کے حالات کے مطابق اُس نے پاکستان سے دو دن قبل روزے شروع کئے۔ اب یہ تو قطعی امر ہے کہ رمضان المبارک کے روزے 30 سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی گنتی کے حساب سے پاکستان کے 28 ویں روزے تک اپنے 30 روزے پورے کرے۔ اگلے دن یعنی پاکستان میں 29 رمضان المبارک کو اس شخص پر روزہ فرض نہیں۔ البتہ پاکستان میں جاری رمضان المبارک کے احترام میں وہ عوام الناس کے سامنے نہ کھائے پئے۔
سیدنا عبدالله بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کا تذکرہ کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
لا تصوموا حتی تروا الهلال. ولا تفطروا حتی تروه، فان أُغمی علیکم فاقدروا له.
(صحیح مسلم، 4: 759، رقم: 1080)
’’چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھو اور چاند دیکھے بغیر عید (بھی) نہ کرو، اور اگر مطلع ابرآلود ہو تو (روزوں) کی مدت پوری کرو (یعنی 30 روزے پورے کرو)۔‘‘
پس ضروری ہے کہ جس جگہ بھی چاند دیکھنے پر رمضان المبارک کا آغاز کیا تھا، اُسی کے حساب سے 30 روزے پورے کرے، کیونکہ کوئی قمری مہینہ 30 دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’روزہ اور اِعتکاف‘‘ / سی ڈی نمبر: 393)
اگر کوئی شخص سعودی عرب میں رمضان المبارک کا آغاز کرتا ہے، جو پاکستان سے دو دن پہلے تھا اور وہ دسویں روزے کو پاکستان آ گیا تو یہاں ابھی آٹھواں روزہ تھا۔ اب وہ اعتکاف بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کا اِعتکاف پاکستان کے اٹھارہویں روزے کو شروع ہوگا، کیونکہ اس کے بیس روزے پورے ہو جائیں گے۔ اسی طرح پاکستان کے اٹھائیسویں روزے کو اس کے 30 روزے پورے ہو جانے پر اس کا اعتکاف (دس دن) پورا ہو جائے گا۔ اب وہ چاہے تو اعتکاف سے نکل جائے چاہے تو نفلی اعتکاف کی صورت میں پاکستان میں چاند ہونے تک مسجد میں ٹھہرا رہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’روزہ اور اِعتکاف‘‘)
اِعتکاف کے دوران اگر صحت پر برے اثرات مرتب نہ ہوں تو خواتین کے لئے شرعی عذر (حیض) کو روکنے کے لئے ٹیبلٹ یا انجکشن وغیرہ اِستعمال کرنا جائز ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ اِعتکاف کے دوران اِفطاری کے بعد سے لے کر اگلے روزے کی سحری تک انجکشن لینا جائز ہے۔ لیکن اگر انجکشن لگوانے یا ٹیبلٹ لینے کے باوجود کسی وقت عذر شرعی لاحق ہو جائے تو مسنون اِعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’روزہ اور اِعتکاف‘‘)
یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ شادی سے قبل لڑکی کی مرضی پوچھیں۔ اُس کی مرضی کے بغیر شادی مسلط کرنا قطعی جائز نہیں ہے۔ اِسلام میں پسند کی شادی جائز ہے مگر اُس کا طریقہ جائز ہونا چاہیئے کہ والدین کو شریک کریں تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی پیدا ہونے سے پہلے معاملہ بہتر ہو۔
اکثر اوقات لڑکے لڑکی کا شادی سے پہلے بہت آگے تک چلے جانا ہی دونوں طرف کے والدین کے لئے عزت اور غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے اور پسند کی شادی میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اس لئے اگر اِعتدال کی راہ اپنائی جائے اور شروع میں ہی والدین کو اِعتماد میں لے لیا جائے تو ایسی نوبت نہ آئے۔
کامیاب شادی کے لئے ساتھی کی تلاش کے دوران اِس حدیث مبارکہ کو مدِنظر رکھنا چاہیئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
تُنکح المرأة لأربع، لمالها ولحسبها ولجمالها ولدینها، فاظفر بذاتِ الدین.
(متفق علیه، بخاری و مسلم)
’’کسی عورت سے شادی کرنے کی چار وجوہات ہوتی ہیں۔ اُس کے مال و دولت کی بنیاد پر، اُس کے خاندان کی بنیاد پر، اُس کی خوبصورتی کی بنیاد پر اور اُس کے کردار کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جبکہ کامیاب وہ شادی ہے جو کردار کی بنیاد پر ہو۔‘‘
شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا جائز ہے۔ لیکن ساتھ میں گھومنا پھرنا جائز نہیں، اس سے کئی قباحتیں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ منگیتر کے اَخلاق و کردار کو جاننے اور معلومات کے دیگر ہزاروں ذرائع ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ مغربی معاشرہ میں سب سے زیادہ ایک دوسرے کو جاننے کا رواج ہے۔ وہاں لڑکا لڑکی شادی سے پہلے سالہا سال بطور دوست اکٹھے رہتے ہیں اور پھر شادی کرتے ہیں، مگر سب سے زیادہ طلاقیں بھی وہیں ہوتی ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1001)
اِسلام میں پسند کی شادی جائز ہے مگر اُس کا طریقہ جائز ہونا چاہیئے کہ والدین کو شریک کریں تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی پیدا ہونے سے پہلے معاملہ بہتر ہو۔ اکثر اوقات لڑکے لڑکی کا شادی سے پہلے بہت آگے تک چلے جانا ہی دونوں طرف کے والدین کے لئے عزت اور غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس لئے اگر اِعتدال کی راہ اپنائی جائے اور شروع میں ہی والدین کو اِعتماد میں لے لیا جائے تو نصف سے زیادہ معاملات میں تو کورٹ میرج جیسی اَخلاقی بے ضابطگی کی نوبت ہی نہ آئے۔
کورٹ میرج کے دوران گواہوں کی موجودگی میں اِیجاب و قبول سے شرعی طور نکاح تو ہو جاتا ہے، مگر وہ سنت، شرافت اور اَخلاق و آداب کے خلاف ہے، لہٰذا اس سے اِحتراز کرنا چاہیئے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1001)
ٹیلیفون یا اِنٹرنیٹ وغیرہ پر رابطہ کے ذریعے نکاح کرنا اگرچہ از رُوئے شرع ممنوع نہیں، تاہم یہ ایک غیرمحتاط عمل ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عاقدین نکاح کے وقت ایک ہی مجلس میں موجود ہوں۔
اس کے جواز کی ایک محتاط صورت یہ ہے کہ بالفرض دولہا پاکستان میں ہو اور دُلہن یورپ میں، تو نکاح کی مجلس دولہے کے گھر میں یوں منعقد کی جائے کہ وہاں نکاح خواں کے علاوہ دُلہن کا ولی یا وکیل بھی موجود ہو، جو دُلہن کی نمائندگی کرتے ہوئے نکاح نامے پر دستخط کرے، جبکہ نکاح کی کارروائی میں دُلہن اور اُس کے گھر والے بذریعہ ٹیلیفون یا اِنٹرنیٹ شریک ہوں تو یہ گویا ایک ہی مجلس ہو جائے گی اور اِس میں کسی قسم کی غلط فہمی یا دھوکہ کا اِمکان بھی باقی نہ رہے گا۔ اِس صورت میں ٹیلیفون یا اِنٹرنیٹ پر نکاح کرنا جائز ہوگا۔
ہمارے ہاں ایک نامعقول رواج یہ ہے کہ لڑکا بیرون ملک ہوتا ہے اور لڑکی پاکستان میں، تو لڑکے کی پگڑی سامنے رکھ کر اُس سے نکاح کر دیا جاتا ہے، یہ قطعی لغو عمل ہے، جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی وجہ سے دُلہا اور دُلہن کے ایک مجلس میں اکٹھے نہ ہو سکنے کی صورت میں نکاح کا معقول طریقہ یہی ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔
سماجی اور معاشرتی برائیوں کے نتائج میں سے ایک شادی دفاتر کا قیام بھی ہے۔ ہمارے یہاں بے جا رسومات کی بھرمار نے غریب آدمی کے لئے اپنی بیٹی کو بیاہنا بہت مشکل کر دیا ہے۔ اب کوئی شخص کسی غریب کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کی شادیوں کے تصور نے غریبوں پر بے حد ظلم کیا ہے۔ ایسے حالات میں بہت سے لوگ اپنی بچیوں کو لے کر گھروں میں بیٹھے ہیں، ان کے گھر کوئی رشتہ دار بھی رشتہ لے کر نہیں آتا اور یوں بچیاں بن بیاہے بوڑھی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جس شخص کے پاس ہزاروں لاکھوں کا جہیز نہیں ہے، اس کی بیٹیوں کا تو کوئی رشتہ نہیں مانگتا۔ آج کے دور میں امیر تو امیر، کسی غریب شخص کا بیٹا بھی اگر تھوڑا پڑھ لکھ جائے تو وہ بھی اپنا بیٹا غریب کے ہاں نہیں بیاہنا چاہتا۔ جب معاشرہ اس قدر بانجھ ہو جائے تواس کے نتیجہ میں اخبارات میں بچیوں کی شادی کے اشتہار چھپوانا اور شادی دفتر کے چکر لگانا ہی حاصل ہوگا۔ اگرچہ یہ چیز عورت کی عصمت، تقدس اور عظمت کے منافی ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں رہا۔ لہٰذا جب تک معاشرے سے اِن اخلاق سوز رسومات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بچیوں کی شادی کے لئے اخبار میں اشتہار دینا یا میرج بیورو میں نام لکھوانا جائز ہے۔
ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان خطرناک حد تک پہنچے ہوئے تفاوُت نے غریب کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ شادی بیاہ کے مواقع پر ہونے والی بے جا رسومات اور اُن پر اُٹھنے والے اَخراجات نے غریب عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف قانوناً شادی کے اَخراجات کا تعین کرے بلکہ اس قانون پر عمل در آمد کو بھی یقینی بنائے۔ حدیں تو قانوناً حکومت نے پہلے بھی مقرر کی ہیں کہ شادی پر خرچ اس حد سے زیادہ نہیں ہو سکتا، لیکن اگر قانون پر عمل نہ ہو تو قانون سازی تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔ حکومت کے اپنے کارندے اور بااثر افراد اور ریاست کے بڑے بڑے امراء اور مؤثر لوگ، جن سے متاثر ہو کر سارا معاشرہ اپنا رُخ متعین کرتا ہے، وہ شادی بیاہ کے اَخراجات میں اِس حد تک اِسراف کرتے ہیں کہ اُن کے ایک ولیمے کا خرچہ کئی ہزار خاندانوں کے کھانے سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کوئی ایسا تعزیری قانون ہونا چاہیئے کہ جو اُس قانون کی خلاف ورزی کرے اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے، تاکہ غریب بھی اپنی بچیوں کی شادی کر سکے۔ بلکہ منگنی اور مہندی کی رسموں پر اہلِ ثروت جو لاکھوں روپے خرچ کرنے لگے ہیں، میرے خیال میں اس کا بھی کوئی جواز نہیں۔
جہیز کی رسم جس حد کو پہنچ چکی ہے وہ میرے نزدیک معاشرے کی لعنتوں میں سے ایک بہت بڑی لعنت ہے اور بہت سے گھرانے صرف اپنی بیٹیوں کو اپنی وقعت سے زیادہ جہیز دینے کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور سود کی لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں گھرانوں کی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی بغیر شادی کے اپنے والدین کے گھروں میں محض اس لئے بیٹھی رہتی ہیں کہ اُن کے والدین کے پاس جہیز دینے کے لئے سرمایہ نہیں ہوتا۔ بیشتر گھرانے غریب گھر کی بیٹی کا رشتہ محض اِس وجہ سے لینے کو تیار نہیں ہوتے کہ وہ اُن کے حسبِ منشا جہیز نہیں دے سکتے۔ چنانچہ جہیز کی یہ نہج اِنتہائی ظالمانہ معاشرتی برائی کی شکل اِختیار کر چکی ہے۔
چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنھا کو بہت قلیل سا جہیز عطا فرمایا تھا، لہٰذا جہیز کو کلیتاً حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ شادی بیاہ کے اَخراجات کی طرح اس مسئلہ کے خاتمے کے لئے بھی ٹھوس اِقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو جہیز کی بھی ایک حد مقرر کر دینی چاہیئے اور اس قانون پر عمل کو یقینی بنانا چاہیئے۔ اس سے اس برائی کے خاتمے میں مدد ملے گی اور اَز رُوئے شرع وہ حد بھی مقرر کرسکتی ہے۔
طلاق دینے کے طریقوں کے اِعتبار سے طلاق کی تین قسمیں ہیں: طلاقِ اَحسن، طلاقِ حسن اور طلاقِ بدعت، طلاقِ حسن کو طلاقِ سنت بھی کہتے ہیں۔
-1 طلاقِ اَحسن: حالتِ طہر میں (یعنی جب بیوی ماہواری سے پاک ہو تو) اُس سے جنسی تعلق قائم کئے بغیر ایک ’’رجعی طلاق‘‘ دے اور پھر اُس سے رجوع نہ کرے، یہاں تک کہ اُس کی عدّت گزر جائے۔ اس صورت میں دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ دورانِ عدّت اِرادہ بدلنے کی صورت میں رُجوع کی گنجائش برقرار رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بعد میں زندگی میں کبھی دوبارہ نکاح کا اِرادہ ہو تو اُس کا اِمکان بھی برقرار رہتا ہے۔ اِس میں آپشنز کھلی رہتی ہیں، اس لئے فقہاء کرام نے اسے سب سے بہتر طریقہ قرار دیا ہے۔
-2 طلاقِ حسن: دُوسرا طریقہ یہ کہ تین الگ الگ طہروں میں ایک ایک کر کے تین طلاقیں دے اور اِس دوران میں بیوی سے جنسی تعلق قائم نہ کرے۔ طلاق کی یہ صورت طلاقِ سنت کہلاتی ہے۔ یہ صورت زیادہ بہتر نہیں اور اس صورت میں واپسی کا صرف ایک اِمکان باقی رہتا ہے کہ مطلقہ عورت کسی اور مرد سے شادی کر لے اور کچھ عرصہ اُس کے ساتھ رہنے کے بعد اگر اِتفاقاً وہ بھی اُسے طلاق دے دے تو اَب پہلا مرد اُس کے ساتھ از سر نو نکاح کر سکتا ہے۔
-3 طلاقِ بدعت: مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے علاوہ کسی بھی اور طریقہ سے دی گئی طلاق کو طلاقِ بدعت کہا جاتا ہے۔ اِس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً یہ کہ بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں صحبت کرچکا ہو، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے ڈالے۔ اِس طریقے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے، مگر طلاق واقع ہوجاتی ہے اور جتنی طلاقیں دی جائیں اُتنی ہی واقع ہو جاتی ہیں۔
عموماً لوگ ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتے ہیں اور اُس کے بعد پریشانی کے عالم میں مسئلہ پوچھتے پھرتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا قطعی طور پر خلافِ سنت عمل ہے، اور ایسا شخص گناہ گار ہوتا ہے۔ لوگ ایسا بالعموم شرعی معاملات سے ناواقفیت کی بناء پر کرتے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ نکاح بالکل ایسے ہی ایک معاہدہ ہے جیسے ہم کاروباری معاہدات کرتے ہیں۔ عموماً لوگ جب کوئی کاروباری معاہدہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُس کے فوائد و نقصانات جاننے کے لئے اپنے وکیل سے مشورہ کرتے ہیں اور وہ اُنہیں بتاتا ہے کہ معاہدہ ختم کرنے سے اُنہیں کیا کیا نقصانات اُٹھانا پڑ سکتے ہیں یا کون کون سی ذمہ داریوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ لیکن دُوسری طرف جب زندگی کے سب سے اہم معاہدہ ’نکاح‘ کا معاملہ آتا ہے تو بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی سے مشورہ کئے تینوں طلاقیں دے دیتے ہیں۔ یہ طریقہ خلافِ سنت ہی نہیں خلافِ عقل و دانش بھی ہے۔
طلاق بالجبر کا حل: اگر کسی کو گن پوائنٹ پر طلاق دینے کو کہا جائے اور وہ اپنی جان کے خوف سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ بھی اُسی طرح مؤثر ہو گی، کیونکہ اُس نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے نکاح کو قربان کرنا بہتر سمجھا۔ اِس کا آسان حل یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آئے تو وہ اپنے منہ سے طلاق کا لفظ نکالنے سے پہلے طلاق کی نیت سے ایسے الفاظِ کنایہ کہہ دے، جن میں صریح لفظِ طلاق اِستعمال نہ ہو۔ مثلاً: ’’میری بیوی آزاد ہے‘‘ اور اُس جملے کے بعد زبردستی کرنے والے کی تسلی کے لئے طلاق کا لفظ بھی بول دے۔ اس صورت میں پہلے بولے گئے جملے سے میاں بیوی کے مابین طلاقِ بائنہ ہو جائے گی اور بعد میں بولا گیا لفظِ طلاق مؤثر نہیں ہوگا۔ یوں اُن کے درمیان طلاقِ مغلظہ نہ ہونے کی بناء پر وہ دونوں جب چاہئیں (بغیر عدّت و حلالہ کے) دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 393)
اِسلام سے پہلے معاشروں میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج عام تھا۔ اُس زمانے جنگیں بہت زیادہ ہوتی تھیں جن میں عموماً مرد ہی مارے جاتے تھے، جس کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے لوگوں نے ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ بیشتر رؤسا بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔ اسلام نے اس معاشرتی ضرورت کے پیش نظر تعدّد اِزدواج کو کلیتاً حرام تو قرار نہیں دیا مگر اس کی حوصلہ شکنی کی اور ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لئے کئی شرائط لگائیں تاکہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان اِعتدال قائم کر سکے۔
آج کل اگرچہ زمانہ قدیم جیسی جنگیں نہیں ہوتیں، مگر پھر بھی پاکستان میں خواتین کی آبادی مردوں کی نسبت چار فیصد زیادہ ہے۔ اب اگر ایک سے زیادہ شادی کرنا بالکل ممنوع قرار دے دیا جائے تو اُس چار فیصد آبادی کا کیا بنے گا۔ لامحالہ دوسری شادی کو کسی حد تک روا رکھنا ہوگا۔ تاہم آج کے دور میں بھی اگر کوئی ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہتا ہے تو اُسے اِزدواجی زندگی کے ہر معاملے میں بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کی کڑی شرائط پر پورا اُترنا ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved