فوٹوگرافی کے جواز اور عدم جواز بارے علماء کرام میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اِسے تراشیدہ مورتیوں پر قیاس کرتے ہوئے مطلقاً ناجائز سمجھتے ہیں، جبکہ بعض کے نزدیک صرف تراشیدہ مورتیاں ناجائز ہیں، البتہ کیمرے سے بنی ہوئی وہ تصاویر جو عبادت یا تعظیم کی نیت سے نہ ہوں وہ مباح ہیں۔ جو علماء اسے مطلقاً حرام سمجھتے ہیں وہ تصویر کی حرمت کے تمام اَحکام فوٹو گرافی سے حاصل شدہ تصویر پر بھی لاگو کرتے ہیں؛ جبکہ دوسرا نکتۂ نظر رکھنے والے علماء کیمرے سے حاصل شدہ تصویر کو ’صورۃ‘ کی بجائے ’عکس‘ قرار دیتے ہیں۔
درحقیقت آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل فوٹوگرافی کا وجود ہی نہیں تھا تو اس کی حرمت چہ معنی دارد؟ نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں جس تصویر کی حرمت آئی ہے وہ صرف دھات یا پتھر وغیرہ سے تراشی گئی مورتیاں ہیں۔ واضح رہے کہ حرمت کی دو صورتیں ہیں: ’حرمت بالذات‘ اور ’حرمت بالغرض‘۔ حرمت بالذات کا مطلب ہے کہ وہ چیز ہر حالت میں فی نفسہٖ حرام ہو، جیسے خنزیر، شراب وغیرہ۔ جبکہ حرمت بالغرض یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہٖ حرام نہ ہو بلکہ کسی اور وصف کے باعث حرام قرار پائے۔ ایسے میں اَحوالِ زمانہ بدل جانے کی وجہ سے اگر وہ وصف اور غرض ختم ہو جائے تو اُس میں حرمت باقی نہیں رہتی اور وہ چیز اُس دور میں مباح قرار پاتی ہے۔
اب ہم اس مسئلہ کو حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
لا دخل الملائکةُ بیتاً فیه کلبٌ ولا صورةٌ.
(صحیح بخاری، 3: 1206، رقم: 3144)
’’جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اُس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘
کتا ایک نجس جانور ہے، جبکہ تصویر میں ظاہراً ایسی کوئی قباحت نہیں پائی جاتی۔ طبع سلیم میں کتے اور تصویر کا ایک جیسا نجس ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ اسلام دین فطرت ہے، اس لئے طبع سلیم اور اَحکامِ دین میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے حکم حرمت میں دونوں کو برابر گردانا۔ لہٰذا پتہ چلا کہ تصویر میں کوئی ایسی علت موجود ہے، جسے آپ ﷺ نے کتے کے برابر نجس قرار دیا اور وہ اِعتقادی علت و قباحت ’شرک‘ ہے۔ اُس زمانے میں کفار نے لات، منات، عُزیٰ اور حبل وغیرہ کی مورتیاں بنا رکھی تھیں اور اُن کی پوجا کیا کرتے تھے، اسی لئے اُنہیں حرام قرار دیا گیا۔ پس جو مورتیاں عبادت کی غرض سے بنائی جائیں، وہ قطعی حرام ہیں۔ جبکہ فوٹو گرافی کسی طور بھی اس ذیل میں نہیں آتی کہ اُسے کتے جیسی نجس قرار دیا جائے، اس لئے وہ مباح ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ حضور ﷺ تشریف لائے، آپ ﷺ نے نماز ادا فرمائی، بعد میں آپ ﷺ نے پردہ اُتروا دیا۔ فرمایا کہ اس نے میری یکسوئی کو متاثر کر دیا تھا۔
(صحیح بخاری، 1: 14، رقم: 367)
تصویر کو حرام قرار دینے والے علماء اِس حدیث مبارکہ سے یہ اِستنباط کرتے ہیں کہ اگر تصویر جائز ہوتی تو آپ ﷺ پردہ ہٹانے کا حکم نہ دیتے، جبکہ دُوسرے علماء کا موقف یہ ہے کہ اگر تصویر کلیتاً حرام ہوتی تو کیا حضور ﷺ کو معلوم نہ تھا کہ گھر میں تصویر والا پردہ لٹکا ہوا ہے! خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دین کا مکمل فہم رکھتی تھیں، آپ ﷺ نے انہیں نصف دین قرار دیا، اس کے باوجود گھر میں پردے کا لگا ہوا ہونا اور آپ ﷺ کا نماز بھی پڑھ لینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اُسے مباح و جائز سمجھتی تھیں۔ پردہ ہٹانے کی حکمت تو یہ تھی کہ نماز میں یکسوئی متاثر نہ ہو اور توجہ اللہ کی طرف قائم رہے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میںآتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کچھ گڑیاں تھیں، جن سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کھیلا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ گھر میں تشریف لاتے اور کھیلتا ہوا دیکھتے تو مسکرا دیتے، منع نہ فرماتے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گھوڑے کی شکل کا ایک ایسا کھلونا تھا، جس کے پَر تھے۔ حضور ﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: حضور! یہ گھوڑا ہے، تو آپ ﷺ نے مسکرا کر پوچھا: کبھی گھوڑے کے بھی پَر ہوتے ہیں! اُنہوں نے عرض کی کہ حضرت سلیمان ں کے گھوڑے کے پَر تھے۔ یہ سن کر حضور ﷺ مسکرا پڑے اور اندر تشریف لے گئے۔
(سنن ابوداؤد، 4: 283، رقم: 4932)
اب اگر غور کریں تو کھلونے مورتیوں کی مانند (یعنی 3D) ہیں، اس کے برعکس تصویر تو محض عکس ہے۔ اس قسم کی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جس ’صورۃ‘ کی حرمت آئی ہے اُن کا معنی و مدعا کچھ اور ہے۔ ان کھلونوں کا تعلق شرک کے ساتھ نہ تھا، اس لئے آپ ﷺ نے منع نہ فرمایا۔ ہر وہ فوٹو گرافی جو ماضی کی یادگار یا تعلیمی مقاصد کے طور پر کی جاتی ہے، اُس میں بھی حرمت کی علت نہ ہونے کی وجہ سے وہ حرام نہیں ہوتی بلکہ مباح قرار پاتی ہے۔
تصویر کی طرح ویڈیو کا معاملہ بھی اہم ہے۔ بہت سے لوگ اس بارے بھی تشویش کا شکار رہتے ہیں۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اگر ہم نے آج ہر طرف پھیلتی ہوئی بدی کا مقابلہ کرنا ہے تو اُسی ہتھیار سے کرنا ہوگا جس کی مدد سے بدی پھیل رہی ہے۔ آج بدی کے پھیلنے کا سب سے بڑا ہتھیار اور ذریعہ ویڈیو ہے۔ ہماری نئی نسل فلموں، ڈراموں، کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ پر روزانہ ویڈیو کا سامنا کر رہی ہے۔ اگر ہم نیکی کے اِبلاغ کے لئے ویڈیو کو بطور ذریعہ اِختیار نہیں کریں گے تو بدی آزادانہ اپنا زور دکھائے گی اور نیکی کو مغلوب کر لے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن نے آج سے کم و بیش 30 سال پہلے سال 1982ء میں خطابات کی آڈیو/ ویڈیو ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مذہبی حلقوں میں تصویر بنانے پر بھی بالعموم حرمت کا فتویٰ پایا جاتا تھا۔اِس وقت تک ہمارے پانچ ہزار سے زائد خطابات آڈیو/ویڈیو کیسٹس، CDs اور DVDs کی شکل میں دستیاب ہیں۔ جب لاہور کے معروف اور منظم ٹی وی سٹوڈیوز میں ابھی linear editing ہو رہی تھی، تب سے ہمارے یہاں non-linear editing کا آغاز ہوچکا تھا۔ اِسی طرح ہم بدی کے زور کو توڑنے کے لئے اِنٹرنیٹ کی سطح پر بھی بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہماری سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں خطابات انٹرنیٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ کئے جا سکتے ہیں۔ ہم ہر محاذ پر قرآن و سنت کے پیغام کو پھیلا رہے ہیں اور اس کی بدولت دنیا کے تمام براعظموں میں اسلام کا پیغام پھیل رہا ہے۔ بھٹکی ہوئی نئی نسل تیزی سے دین کی طرف واپس آ رہی ہے اور بے شمار غیرمسلموں تک اِسلام کا پیغامِ امن پہنچ رہا ہے اور دہشت گردوں کی سازشیں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ آج اگر ہم یہ سب کچھ بند کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے بدی کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔ اس لئے اس دور میں بدی کو روکنے کے لئے ان جدید ذرائع کو اِختیار کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ایسے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں جو دین اسلام کی تبلیغ، اسلامی روایات کی ترویج اور اَخلاقی قدروں کے فروغ کے لئے بنائے جائیں اور اُن کی تیاری کے دوران میں شرعی تقاضوں کا خیال رکھا جائے تو اُن کا بنانا اور دیکھنا یقینا جائز بلکہ مستحسن عمل ہے۔ ڈراموں اور فلموں کی مدد سے اِسلام، پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کی تاریخ اور دینی عظمت کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ گویا تعمیری مقاصد کے لئے اِس فیلڈ میں بھی بے شمار گوشے ہیں مگر آج کل عام ڈرامے اور فلمیں نہ صرف نوجوان نسل کو اَخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جا رہی ہیں بلکہ اُنہیں اِسلام سے دُور لے جانے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ ایسے میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس محاذ کا کلیتاً بائیکاٹ کر دینے کی بجائے مثبت کردار ادا کرنے کے لئے اس میں اِصلاحات لائی جائیں تاکہ نئی نسل کو مثبت تفریحی عمل کے ساتھ ساتھ دینی روایات اور اَخلاقِ حسنہ کی تعلیم بھی دی جا سکے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ غلامی کی نفسیات رکھنے کی وجہ سے ساری قوم ہر نئی اِیجاد کا پہلے منفی اِستعمال سیکھتی ہے، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُس کے مثبت اِستعمال کی طرف آتی ہے۔ فی زمانہ ٹی وی کا مثبت اِستعمال نہ ہونے کے برابر ہے اور زیادہ تر دین کی بربادی کے سارے راستے ٹی وی سے ہی کھلتے ہیں۔ ٹی وی تباہی کا اِتنا بڑا منبع ہے کہ اُس نے ایک نئی قیامت برپا کر دی ہے۔ ٹی وی ڈرامے تو ایک طرف، اِشتہارات ہی دین کی تباہی کے لئے کافی ہیں۔ ٹی-وی سے ایڈورٹائزمنٹس ملتی ہیں، جنہیں دیکھ کر نئے نئے فیشن معلوم ہوتے ہیں اور اپنی جیب دیکھے بغیر اُن چیزوں کی خریداری کا لالچ پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیز فلاں کے گھر میں ہے، ہمارے گھر میں بھی ہونی چاہیئے۔ بیویاں شوہروں سے بے جا تقاضے کرتی ہیں اور شوہروں کو اُن کی خواہشات پوری کرنے کے لئے ’’اِضافی آمدن‘‘ حاصل کرنا پڑتی ہے، یوں حرام روزی کا راستہ کھلتا ہے۔ ٹی وی سے ہی لباسوں کے فیشن اور عریانی و فحاشی کو راستہ ملتا ہے۔ وہیں سے درزی فیشن سیکھتے ہیں اور وہ لوگوں کو فیشن کے مطابق کپڑے سی کر دے دیتے ہیں۔ یوں آپ کی خواہش کے بغیر ہی آپ کو فیشن کے مطابق کپڑے مل جاتے ہیں۔ آپ لاکھ اِنکار کریں کہ آپ نے درزی کو ایسی سلائی کا نہیں کہا تھا اوراُس نے خود ہی سی دیا ہے، درزی نے قیامت میں بچانے نہیں آنا، لباس تو آپ کا ہے اور آپ ہی نے پہننا ہے۔
آج کل کے ٹی وی پہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ نری بے راہ روی ہے۔ خواتین کو بے حیائی پر مبنی نت نئے فیشن سکھائے جا رہے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو باہمی رابطے کے طریقے سکھائے جا رہے ہیں۔ اب تو بچوں کے کارٹون میں بھی بے حیائی کے مناظر عام ہو رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ ٹی وی ناظرین کو چوری، ڈاکہ، فراڈ، بے ایمانی الغرض ہر قسم کے ناجائز طریقے سکھا رہا ہے۔ چور وہ بنا رہا ہے، قاتل وہ بنا رہا ہے، ایسے ڈرامے چلتے ہیں جن میں قتل کرنے کی تیکنیک بھی سکھائی جاتی ہیں، ڈاکہ زنی اور دہشت گردی کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اُنہیں سمجھائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ یہ ممکنہ طریقے ہیں جن سے چوری ہو سکتی ہے، قتل اور ڈاکہ زنی ہو سکتی ہے، ہم تو آگاہ کر رہے ہیں تاکہ لوگ بچیں، جبکہ عملاً اِس کا اُلٹ ہو رہا ہے۔ درحقیقت وہ سراسر بربادی کی آگاہی دے رہے ہیں۔ جنہیں نہیں پتہ اُنہیں بھی چوری کا طریقہ معلوم ہو جاتا ہے، یوں چوروں کی ٹریننگ جاری رہتی ہے۔ کبھی کسی نے اِس طرف بھی سوچا کہ کتنے لوگ ہیں جو یہ جاننے کے بعد چوری یا ڈاکہ زنی سے بچ رہے ہیں اور کتنے لوگ اُن سے چوری کے طریقے سیکھ کر چور بن رہے ہیں! لوگ اسی سے سارا کچھ سیکھتے ہیں اور معاشرہ تباہی کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔
یہ وہ زمانہ آ گیا ہے کہ جو بچنا چاہیں وہ اپنے گھروں کو غار بنا لیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اُنہی کا ایمان بچے گا جو غاروں میں چلے جائیں گے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ شہروں کو چھوڑ کر غاروں میں چلے جائیں بلکہ اِس کی تعبیر یہ کہ گھروں کو غار جیسا بنا لیں، تاکہ زمانے کی آلائشوں سے بچ جائیں۔
کمیونیکیشن، میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے گھر برائی کا منبع بن گیا ہے اور اسی سے ساری برائیاں سیکھی جا رہی ہیں۔ وہ برائی کا اِنسٹیٹیوٹ بن گیا ہے، اِنسان متاثر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ دُنیا کا آج کل فیشن یہ ہے۔ ٹی وی کے ایسے سارے پروگرام بین کر دیں، آپ بین کریں گے تو آپ کی اولاد بچ جائے گی ورنہ اُن کی تباہی کے لئے بھی آپ کو کل جواب دِہ ہونا ہوگا۔ ٹی وی پر نشر ہونے والے دینی پروگرام دیکھیں، اسلامی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز لیں، تلاوت، نعت خوانی کی سی ڈیز لگائیں، خود بھی دیکھیں اور بیوی بچوں کو سب کو دکھائیں۔ یہی طریقہ بچ گیا ہے گھروں کو غار بنانے کا۔ یا پھر ایسے ٹی وی پروگرام دیکھیں جو اَخلاق کو خراب نہیں کرتے، خبریں، ایجوکیشن پروگرام، حالاتِ حاضرہ، جسے بہت شوق ہو وہ میچ دیکھ لے، کرکٹ ہاکی فٹ بال کے ٹورنامنٹ وغیرہ، یہ اتنی کوئی خرابی کی بات نہیں، یہ اَخلاق خراب کرنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ بس اِن چیزوں کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر لے لیں، وہ چیزیں لیں جن سے علم کی آگاہی ہو، وہ چیزیں نہ لیں جن سے جہالت اور تباہی و بربادی کی آگاہی ہو، اَخلاق، دین اور ایمان کی بربادی نہ ہو۔ ریمورٹ کنٹرول اپنے پاس رکھیں، بریک آئے تو بند کر دیں کیونکہ وہ بریک ہی تباہی پھیلانے کے لئے کافی ہے۔ واشنگ پاؤڈر کے اِشتہار میں دُھلے ہوئے کپڑے پہن کر دکھانے والی کی ادائیں ہی بربادی کے لئے کافی ہیں۔ یہ سب شیطان کی چالیں ہیں، جو ہمیں جہنم کا ایندھن بنا رہی ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 624)
اسٹیج ڈرامے کا مقصد فی نفسہِ لوگوں کی توجہ معاشرتی مسائل کی اِصلاح کی طرف دلانا ہوتا تھا، مگر بعد ازاں یہ صرف تفریحی موضوعات تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ایک وقت تک سلجھا ہوا مزاح ملتا تھا، مگر آج کل کے اسٹیج ڈرامے نئی نسل کی تباہی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسٹیج ڈراموں کے ذریعے نوجوان نسل کے اَخلاق تباہ ہو رہے ہیں اور وہ جگت بازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ماہر بن رہی ہے۔ ایسی بازاری زبان اِستعمال ہو رہی ہے جس کا کسی شریف گھرانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل کے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کا مطلب دنیا و عاقبت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 624)
کسی دور کے طور طریقے اور رواج اُس دور کا فیشن کہلاتے ہیں، مگر بالعموم اسے لباس تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے۔ فیشن اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اگر کوئی لباس ساتر ہے، بدن کو ڈھانپنے والا ہے اور دیکھنے میں خوبصورت بھی ہے تو وہ ایک اچھا فیشن ہے، مگر جب لباس پہننے والا اُسے پہن کر بھی نیم عریاں لگے، بدن کے بعض اَعضاء ننگے ہوں یا لباس اِتنا چُست ہو کہ بدن کی ساخت نمایاں ہو رہی ہو، تو ایسی صورتوں میں اُسے کسی طرح بھی اچھا فیشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِسلام کی نظر میں ہر وہ لباس مستحسن ہے جو ساتر ہو، یعنی اُس کے پہننے سے بعض اَعضاء ننگے نہ ہوں اور جسم کی بناوٹ اُس کے اندر سے نمایاں نہ ہو۔ مسلمان ڈیزائنرز کو چاہیئے کہ وہ دُوسروں کی تہذیب و تمدن کی نقالی کی بجائے اپنی تہذیبی روایات کے مطابق فیشن اِیجاد کریں، جسے دیکھ کر اِسلامی تہذیب کی یاد تازہ ہو۔ اسی طرح ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اسلامی لباس کو فیشن کے طور پر لیں، یہ آپ کا اپنا فیشن ہے، آپ شروع کریں یہی رواج بن جائے گا اور لوگ اسلامی لباس پر فخر کرنے لگیں گے۔
غیروں کی نقالی میں آج ہم جس سمت جا رہے ہیں وہ راستہ ہمیں جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔ اکثر خواتین یہ کہتی ہیں کہ ایسا فیشن ہم نے نہیں کہا تھا، درزی نے ایسے کپڑے سی دیئے ہیں۔ آخرت میں درزی نے بچانے نہیں آنا۔ وہاں سب کو خود اپنا جواب دینا ہوگا۔ دُنیا اپنے آپ کو زیب و زینت کے ساتھ ننگا کرتی ہے، للچاتی ہے اور یہ شیطان کے حملے سب سے پہلے لباس سے شروع ہوتے ہیں۔ خواتین جب گھر سے باہر نکلتی ہیں تو پہلے میک اَپ لازمی کرتی ہیں۔ میک اپ تو صرف شوہر کے دیکھنے کے لئے جائز ہے، وہ تو گھر میں ہے۔ زیب و آرائش تو صرف شوہر کے لئے جائز ہے۔ چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ جسم کے کسی حصے کو بھی ننگا کرنا، خواہ آدھے بازو کی قمیض ہو، خواہ گلا اگر کھلا سلوا لیں تو تھوڑا سینہ ننگا ہو جائے، خواہ قمیض کے چاک ایسے بنوا لیں کہ تھوڑا سا پیٹ یا سائیڈیں ننگی ہو جائیں، یا قمیض اِتنی تنگ سلوا لیں کہ جسم کے اَعضاء نمایاں ہو جائیں، یہ ساری چیزیں صرف شوہر کے سامنے ہو سکتی ہیں۔ شوہر کے علاوہ جس کسی کے سامنے ایسا کیا تو وہ حرام ہے اور دوزخ کا راستہ ہے۔ گھر سے باہر بازار میں میک اپ کر کے جانا قطعی درست نہیں کیونکہ زیب و آرائش صرف شوہر تک محدود ہے۔
نفس، شیطان اور دُنیا اِنسان کے ایسے مکار دُشمن ہیں کہ آپ کے ذہن میں بھی یہ نہیں آنے دیں گے کہ یہ برا فیشن ہے۔ آپ کے ذہن میں کوئی برائی نہیں ہوگی، بس یونہی رواج فیشن اور اسٹائل کے طور پر، دُنیا کی رواروی اور دیکھا دیکھی کے طور پر ایسا لباس پہن رہی ہیں، ذہن میں کوئی برائی تو نہیں ہے۔ یہی دُنیا اور شیطان کا مکر ہے کہ دھیان اُس طرف نہ جائے کہ میں برائی کر رہی ہوں۔ یہی وہ فیشن ہے جو ہلاکت کا باعث ہے، جدھر آپ کا دھیان بھی نہیں جاتا۔ یہ کام تو صرف شوہر تک کے لئے تھے، یہ تو ماں باپ، بہن بھائی، کسی کے سامنے بھی جائز نہ تھے۔ باہر والوں کے سامنے تو یہ سراسر دوزخ کا ایندھن اور آگ تھی۔ میک اپ کرنا، جسم کو ننگا کرنا، کپڑوں کو تنگ کرنا، آپ جب یہ پہن کر نکلیں گی تو کہیں گی کہ ’’آج کل فیشن یہ چل رہا ہے‘‘ یہ ایک جملہ ہے، یہ ایک بولی ہے، جو نفس، شیطان اور دُنیا نے سکھا دی ہے۔ فیشن کیا ہے، اس فیشن کا نام دوزخ کی تیاری ہے۔
ذرا سوچیں اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنے اندازواَطوار تبدیل کریں۔ چھوٹے قمیض ترک کر کے لمبے قمیض پہننا شروع کریں، کھلے اور ڈھیلے لباس پہنیں جو جسم کو نمایاں نہ کریں۔ پھر نفس یہ خیال دے گا کہ لوگ کیا کہیں گے! گولی ماریں اُنہیں، آخرت میں جب حساب و کتاب ہوگا تو لوگوں نے بچانے کو نہیں آنا، قبر میں جب عذاب آئے گا تو ان لوگوں میں سے کون ہے جو بچانے آئے گا! عورت سے سوالات کا آغاز ہی اِسی سے ہونا ہے۔ جو عورتیں صرف فیشن کے نام پر عریانی کو اپنائے رہیں اور اُن کے ذہن میں کوئی برا دھیان تو تھا نہیں، یہ مکر اور چال تھی نفس، دنیا اور شیطان کی کہ اُسے پتہ بھی نہ چلے اور برباد بھی ہو جائے، یہی شیطان کی کامیابی ہے، جس کی اس نے اللہ رب العزت کو چیلنج کرتے ہوئے قسم کھائی تھی کہ میں انسان کو اپنی چالوں اور حیلوں بہانوں سے بہکا کر چھوڑوں گا۔ اُس دن پتہ چلے گا جب پردہ اُٹھے گا، ابھی تو ہماری آنکھوں پر دنیا کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
ایسے سارے کپڑے جن میں سلائی کی گنجائش ہے اُنہیں کھلوا لیں، ورنہ جلا دیں۔ دوزخ کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ دوزخ کا باعث بنانے والے کپڑوں کو جلا دیں، یا غریب گھرانوں کی چھوٹی بچیوں کو دے دیں جن کے ناپ کو پورے ہوں۔
اِسی طرح شادیوں میں فیشن صرف مقابلے بازی ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ ایسی شادی ہے جہاں مقابلہ ہی سارا دُنیاداری کا میک اپ کا اور بربادی کا ہے تو مت جائیں وہاں، صرف نکاح اور ولیمہ میں جائیں جو سنت ہے باقی سب تیل مہندی وغیرہ کی رسموں میں مت جائیں، جہاں شیطان آپ کو بہکانے کو تیار بیٹھا ہے۔ اگر آپ سوچیں کہ برادری والے کیا کہیں گے تو جان لیں کہ برادریاں برباد کرتی ہیں، ان برادریوں نے قبر میں کام نہیں آنا، یہ دین کی بربادی کا راستہ ہے۔
عورت کی زیب و زینت، خوشبو، بناؤ سنگھار، میک اپ سارا کا سارا صرف شوہر کے لئے ہے۔ اس عورت پر آخرت میں دوزخ کا عذاب ہوگا، جو گھر میں شوہر کے دیکھنے کے لئے تو کپڑے بھی نہ بدلے، پرانے میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ پھرتی رہے کہ میں کچن میں مصروف ہوں، اور جب باہر جانے کا وقت آئے، خواہ شادی بیاہ ہے، خواہ شاپنگ ہے، خواہ کسی کے گھر جانا ہے، خواہ کوئی کلچرل فنکشن ہے، تو پھر وہ نہائے دھوئے بھی اور شاندار کپڑے بھی پہنے، پھر میک اپ بھی کرے اور خوشبو بھی لگائے، اور پھر اس انداز کے ساتھ جائے کہ دور دور تک خوشبو بکھیرے۔ اب وہ باہر جاتے ہوئے کس کے لئے بناؤ سنگھار کر کے جا رہی ہے! کس کے لئے خوشبو لگا کے جا رہی ہے! جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا اُسے تو سب کچھ دکھایا نہیں، جس کا دل خوش کرنا تھا، جس کی محبت کو کھینچنا تھا، جس کے ساتھ آپس میں مؤدت پیدا کرنا تھی، تو یہ زیب و زینت، بناؤ سنگھار، خوشبو، کپڑے، فیشن، عورت کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ اب اگر شوہر کو وہ عورت یہ چیزیں نہ دے اور جب باہر نکلے تب ہی مہربانی فرمائے، تو سوال ہے کہ اب وہ کس پر مہربانی فرما رہی ہے اور یہ سب کچھ کر رہی ہے، یہ حرام ہے۔
باہر کے لئے زیب و زینت اور گھر کے لئے نظرانداز کرنا، ایسا فیشن عذابِ آخرت اور ہلاکت کا باعث ہوگا۔ بیوی کا فرض ہے کہ جو اچھے سے اچھے کپڑے ہیں، وہ جو شادی کے موقع کے بیس تیس سوٹ سنبھال کر رکھے ہیں، وہ کس کے لئے رکھے ہیں! وہ شوہر کے لئے ہیں۔ ہر روز نئے کپڑے بدلے تو جائز ہے، اس کے لئے حلال ہے، زیور حلال ہے، اس کے لئے بناؤ سنگھار حلال ہے، میک اپ حلال ہے، زیب و زینت حلال ہے، سب کچھ حلال ہے، مگر جس کے لئے حلال کیا گیا ہے اُس کا دل خوش کرے۔ غیروں کے لئے اور باہر کی مجالس کے لئے نہیں، بیٹیوں کو بہوؤں کو اور خواتین کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیئے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 624 اور 1045)
بعض لوگ کوٹ پینٹ اور ٹائی وغیرہ پہننے کو غیرمسلم قوموں سے مشابہت سمجھتے ہوئے ممنوع قرار دیتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ غیرمسلم قوموں کا ہر عمل اُن سے مشابہت کے زُمرے میں نہیں آتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
مَن تَشَبَّهَ بِقَومٍ فَهُوَ مِنْهُ.
(سنن أبی داؤد، 4: 44، رقم: 4013)
’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے (شمار ہوتا) ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کی رو سے رسم و رواج کی ہر وہ چیز جو غیرمسلموں تک مخصوص ہو وہ ممنوع ہوگی۔ تشبہ کا مطلب ہے مشابہت اِختیار کرنا۔ جس نے اپنی قوم کو چھوڑ کر کسی دوسری قوم کی مشابہت اِختیار کی، اُن جیسا بنا تو وہ اُن میں سے شمار ہوگا۔ عام چھوٹے موٹے رسم و رواج مشابہت میں نہیں آتے۔ تشبہ اور مشابہت میں وہ امر آتا ہے کہ ایک مسلمان کسی غیرمسلم قوم کے ایسے عمل کو اپنائے کہ اُس عمل کو اپنا کے ایک مسلمان بھی کھڑا ہو اور غیرمسلم بھی کھڑا ہو تو پتہ نہ چلے کہ اُن دونوں میں سے مسلمان کون ہے اور غیرمسلم کون ہے۔ یعنی اس سے مغالطہ ہو جائے، مثلاً عیسائی اپنے گلے میں صلیب کا نشان لٹکاتے ہیں، اگر کوئی مسلمان فیشن کے طور پر صلیب لگا لے تو یہ تشبہ ہے، پھر وہ مسیحیوں میں سے شمار ہوگا، چونکہ یہ تشبہ ہے، اُس نے اُن کی مشابہت اِختیار کر لی۔ اِس کے برعکس ٹائی تشبہ نہیں ہے، چونکہ یہ صرف غیرمسلموں کا لباس نہیں ہے۔ ساری دُنیا ٹائی لگاتی ہے اور ٹائی پہنے ہوئے دیکھ کر کسی کو یہ شک نہیں گزرتا کہ پہننے والا کہیں عیسائی نہ ہو۔ عیسائی، یہودی، مسلمان، ہندو سبھی پہنتے ہیں۔ پوری دُنیا پہن رہی ہے، تو یہ کسی قوم کا تشبہ نہ رہا، بلکہ یونیورسل ڈریس بن گیا۔یہ فرق آ جاتا ہے تشبہ کا تعین کرنے میں کہ کیا مشاہبت ہے اور کیا مشابہت نہیں ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 540)
پردہ کے احکامات تین درجات پر مشتمل ہیں: فرض، واجب اور مباح۔
1. ’فرض‘ وہ پردہ ہے جو ہر خاتون کے لئے ضروری ہے اور اُس کا ترک حرام ہے۔ وہ یہ ہے کہ چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ باقی تمام بدن ڈھکا ہوا ہو۔ اسے شرعی پردہ کہتے ہیں، جس کے لئے کسی خاص طرز کا برقعہ یا لباس ضروری نہیں ہے، ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق کوئی سا بھی مناسب انداز اختیار کیا جا سکتا ہے۔
2. ’واجب‘ وہ پردہ ہے کہ جب معاشرے میں مرد بالعموم ’غض البصر‘ کے قرآنی حکم پر عمل نہ کر رہے ہوں اور بے حیائی کا ماحول عام ہو تو ایسے پرفتن دور ماحول فقہائے کرام نے جوان لڑکیوں کے لئے چہرہ ڈھانپنے کو واجب قرار دیا ہے تاکہ ان کی عزت و عصمت محفوظ رہے۔
3. ’مباح‘ وہ پردہ ہے کہ جب عورت بوڑھی ہوجائے اور اُس کے پردہ نہ کرنے سے معاشرے میں کسی قسم کا فتنہ پیدا ہونے کا امکان باقی نہ رہے تو اس کے لئے مباح ہے کہ وہ چہرہ ڈھانپے یا نہ ڈھانپے۔
اس ضمن میں مزید وضاحت کے لئے ہمیں مرد کے شرعی پردے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے۔ بدقسمتی سے ہم پردے کا صرف ایک ہی رخ سامنے رکھتے ہیں اور دوسرے پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں دو قسم کے پردے کا بیان آیا ہے: پہلی آیت میں مرد کے لئے اور دوسری میں عورت کے لئے۔ آج ہمارے ہاں صرف عورت کے پردے کا مسئلہ بتایا اور پوچھا جاتا ہے جبکہ مرد کا پردہ نہ پوچھا جاتا ہے اور نہ کوئی بتاتا ہے۔ مرد کا پردہ ’غض البصر‘ ہے، یعنی نا محرم عورت سامنے ہو تو اپنی نظروں کو جھکا لے۔ گویا آنکھ کی شرم و حیا اور آنکھ کا جھکانا مرد کے لئے پردہ ہے۔ آیاتِ کریمہ ملاحظہ ہوں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذَالِکَ اَزْکیٰ لَهُمْ اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ...
(النور، 24: 30-31)
’’آپ مؤمن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ اُن کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیںo اور آپ مؤمن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں...‘‘
اگر مرد و عورت دونوں پردے کے شرعی اَحکامات پر عمل کریں تو پھر کبھی فتنہ پیدا نہیں ہوگا، مگربدقسمتی یہ ہے کہ مرد اپنے اوپر تو پردے کی شرائط عائد نہیں کرنا چاہتا جبکہ صرف عورت پر پردے کو لاگو کرنے کا خواہشمند ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جب اس کی نگاہ کسی نامحرم عورت کو دیکھ کر نہیں جھکے گی تو اس کی بیوی کو بھی زمانہ انہی نظروں سے دیکھے گا۔ یہ تو دوطرفہ عمل ہے۔ پرانے وقتوں میں ایسا یکطرفہ نظام نہیں ہوتا تھا، چنانچہ جب دونوں طرف سے شرعی اَحکامات کی پابندی ہوتی تھی تو فتنہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اب موجودہ زمانے میں جہاں ماحول ہی یہ بن چکا ہے کہ مرد بالعموم ’غض البصر‘کی پابندی نہیں کرتا، ایسے ماحول میں اگر جوان لڑکیاں صرف فرض پردے پر عمل کرتے ہوئے کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو فتنہ پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اس لئے اس فتنے سے خود کو بچانے کے لئے انہیں چاہیئے کہ وہ اپنے چہروں کو بھی ڈھانپیں، یہ اِقدام فتنہ کو رفع کرنے کے لئے ہے۔ اگر آج بھی دنیا میں کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں فتنہ کا اِمکان نہ ہو تو وہاں محض فرض پردہ پر بھی اِکتفا کرلینا ہی کافی ہوگا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
طالبات کے لئے پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک جداگانہ اور آزادانہ نظامِ تعلیم ہونا چاہیئے، جہاں صرف خواتین اساتذہ تدریس کے فرائض سرانجام دیں۔ اس سے وہ مردوں کے تسلط میں دبے رہنے کی بجائے آزادانہ تعلیم حاصل کر سکیں گی بلکہ معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔ کو ایجوکیشن کی صورت میں طالبات کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن سے ہمارے معاشرے میں بسنے والا ہر ذی شعور آگاہ ہے۔ بیشتر سنجیدہ طالبات ایسے ہی مسائل کے پیش نظر اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں اور اُن کی صلاحیتیں ضائع جاتی ہیں۔ اگر طالبات کے لئے الگ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں تو وہ تعلیم کے میدان میں کئی گنا بہتر نتائج دے سکتی ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ اگر خواتین کے لئے بھی اعلیٰ تعلیمی اِدارے قائم کئے جائیں تو نہ صرف خواتین کی شرحِ خواندگی میں بھی معقول اِضافہ ہو سکے گا بلکہ وہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
آج کا نوجوان یہ پوچھتا ہے کہ کیا لڑکا لڑکی تعلیمی مقاصد کے لئے باہم رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا مقاصد ہو سکتے ہیں جو لڑکے اور لڑکی نے باہم بیٹھ کے ڈسکس کرنے ہیں؟ کیا دو لڑکے مل کر وہی مقاصد حاصل نہیں کر سکتے؟ میں آج تک اُن تعلیمی مقاصد کو نہیں سمجھ سکا۔ میری ساری زندگی کالج اور یونیورسٹی میں گزری ہے، جہاں نظام ہی مخلوط تعلیم کا ہے۔ تعلیمی مقاصد کبھی کسی کے سامنے نہیں رہے، یہ تو صرف نفسیاتی مقاصد ہوتے ہیں، آنکھ کے مقاصد ہوتے ہیں اور طلبِ شہوت کے مقاصد ہوتے ہیں، جس کے لئے لڑکوں اور لڑکیوں کا اکٹھے بیٹھنا ضروری ہوتا ہے۔ تعلیمی مقاصد پیش نظر ہوتے تو طالبات کے لئے الگ یو نیورسٹیاں بنائی جاتی، جداگانہ نظامِ تعلیم دیا جاتا، جہاں وہ مردوں کے تسلط سے آزاد رہ کر دل جمعی سے تعلیم حاصل کر سکتیں۔ میں خود اسی مخلوط نظامِ تعلیم میں پڑھا ہوں۔ مجھے تو اپنے زمانہ طالب علمی میں ایسا کوئی ایک بھی ایسا تعلیمی مقصد نظر نہیں آیا جس میں لڑکوں کا کسی لڑکی کے ساتھ ڈسکشن کرنا ضروری ہو۔ یہ سب کہنے والی باتیں ہیں۔ میں نے کو ایجوکیشن کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کبھی کسی لڑکی سے ڈسکشن نہیں کی اور الحمدللہ میرے تو کوئی مقاصد متاثر نہیں ہوئے اور میں فرسٹ پوزیشن لے کر یونیورسٹی سے فارغ ہوا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002)
اِنٹرنیٹ محض اِبلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ اس اطلاعاتی نظام کو آپ زندگی کے مثبت مقاصد میں استعمال کر کے بھرپور اِنقلاب بھی لا سکتے ہیں اور نئی نسل کی تباہی میں بھی انٹرنیٹ ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ جب بھی کوئی نئی چیز ہمارے معاشرے میں آتی ہے تو سب سے پہلے ہم اس کا منفی استعمال شروع کرتے ہیں۔ اس کے مثبت استعمالات بعد میں سامنے آتے ہیں۔ یہی حال انٹرنیٹ کا بھی ہے۔ نوجوان بچے اور بچیاں سارا سارا دن انٹرنیٹ پر اجنبیوں سے چیٹ کرتے، جھوٹ بول بول کر اُنہیں بے وقوف بناتے اور بنتے رہتے ہیں۔ کہیں جنس مخالف سے چیٹ کا چسکا ہے تو کہیں کمیونٹی ویب سائٹس پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ الغرض ساری توانائی نوجوان نسل کو وقت اور پیسے کی بربادی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
جہاں انٹرنیٹ ہمارے معاشرے میں اس قدر تباہی لایا ہے، وہیں اس کی مدد سے تبلیغ اسلام کے نئے دروازے بھی کھلے ہیں۔ اسلامی لٹریچر کی آن لائن اشاعت نے مغربی دنیا کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے براہِ راست اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کر کے اسلام کو سمجھ سکیں اور اس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں قبولِ اسلام کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی ممالک میں بسنے والے تارکین وطن کا اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تیز تر رابطہ ممکن ہو سکا ہے اور دین سے دور بھاگنے والے تارکین وطن کی اگلی نسل انٹرنیٹ کی بدولت پھر پلٹ کر اسلام کی طرف آ رہی ہے، کیونکہ انہیں اپنی اصل کے ساتھ رابطے کا ذریعہ میسر آ گیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے اِسلامی فکر و فلسفہ اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے عالمی فروغ کے لئے درجنوں ویب سائٹس جاری کر رکھی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
تحریک منہاج القرآن
قرآن مجید کا سلیس اُردو/انگلش ترجمہ
اسلامی لائبریری (600 سے زائد کتابیں)
اسلامی ملٹی میڈیا (ہزاروں خطابات، نعتیں، قوالیاں)
ماہنامہ منہاج القرآن
فتویٰ آن لائن
فتنہ و فساد کے عالم میں اِسلامی قدروں کے احیاء کے لئے، دین کے پیغام کو دُنیابھر میں بکھری ہوئی اگلی نسلوں تک بہتر انداز میں پہنچانے کے لئے اور دہشت گردی کے اِس دور میں اِسلام کو حقیقی طور پر دینِ امن ثابت کرنے کے لئے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آج کے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اِسلام کا قابلِ عمل پیغام بہتر سے بہتر انداز میں کروڑوں اربوں لوگوں تک پھیلایا جا سکے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: www.minhaj.org/eid/8505/)
اِنٹرنیٹ کی طرح موبائل فون کا اِستعمال بھی نوجوان نسل کی بے راہ روی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ موبائل فون کے ہر شخص کی دسترس میں آنے سے جہاں زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں آسانی پیدا ہوئی ہے، وہاں اس نے پوری قوم کو باتونی بھی بنا دیا ہے اور ہم دنیا میں ایک عمل سے عاری قوم کے طور پر اُبھرے ہیں۔ کسی بھی سہولت کا اِستعمال اگر مثبت مقاصد کے لئے ہو تو وہ اِسلام کی نظر میں پسندیدہ ہے اور قومی و اِنفرادی سطح پر بھی فائدہ مند ہے، مگر وہی شے اگر منفی مقاصد کے لئے اِستعمال ہونے لگے تو نہ صرف اُس کے اِنفرادی و قومی سطح پر منفی نتائج نکلتے ہیں بلکہ اِسلام کی نظر میں بھی وہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ اکثر ٹی وی پر موبائل فون کے جو اِشتہارات چلتے ہیں وہ نوجوان نسل کو سراسر جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو غیرمحرموں کے ساتھ رابطے کے نت نئے طریقے سکھائے جارہے ہیں اور اس ملک کے نوجوانوں کی بڑی آبادی موبائل فون کے چنگل میں پھنس کر اپنی عاقبت برباد کر رہی ہے۔
اِسی طرح ہم قومی سطح پر بھیڑچال کے مریض بھی واقع ہوئے ہیں اور بہت سے کام صرف اِس وجہ سے کرتے ہیں کہ دُوسرے بھی وہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ گفتگو کے علاوہ موبائل فون SMSکے لئے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے اور کم و بیش سب لوگ حاصل ہونے والے ہر پیغام کو بلاتحقیق اپنے دوستوں کی طرف فارورڈ کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہم تاجدارِکائنات ﷺ کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں کہ ’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات (بلاتحقیق) آگے پھیلانے لگے۔‘‘ یاد رکھیں! جس طرح نیک بات کو آگے پھیلانا صدقہ جاریہ ہے اور جہاں تک وہ بات پہنچتی جائے گی اُس کا ثواب ہمیں بھی ملتا جائے گا، وہیں بلاتحقیق SMS کو آگے منتقل کرنا ’گناہِ جاریہ‘ بھی ہو سکتا ہے اور اس صورت میں وہ جھوٹی حدیث یا جھوٹا پیغام جہاں جہاں تک جائے گا اُس کا گناہ ہمارے سر بھی ہوگا اور ہمیں قیامت کے دن اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح اَخلاق سے گرے ہوئے پیغامات بھی گناہِ جاریہ ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 624)
دُنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور کمیونیکیشن اِتنی وسیع اور تیزرفتار ہو گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی بھی خبر سیکنڈز کے اندر اندر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یوں خیر اور شر کے اَثرات بھی تیزتر ہو گئے ہیں۔ پچھلی صدیوں میں ایک شہر کے لوگ دُوسرے شہر کے حالات، کلچر، رہن سہن، اچھائی و برائی، نیکی و بدی سے آگاہ نہیں ہوتے تھے۔ لوگوں کا تعلق اپنے اپنے شہروں اور علاقائی ماحول تک رہتا تھا۔ اس زمانے ہندوستان کے لوگوں کی خبر عالم عرب کو نہ تھی، عرب کے احوال کی خبر ہند کو نہیں تھی۔ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے تھے۔ دُنیا میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کے ماحولیاتی اثرات علاقائی ہوتے تھے۔ بعض اوقات آس پاس کے شہروں سے آگے کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ تب لوگوں کو خیر کی طرف بلانے والے افراد بھی اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر حلقات، خانقاہیں اور مراکز بنا کر دین کی ترویج کا کام کرتے تھے۔ چونکہ ہر علاقے میںشر کا پھیلاؤ مقامی سطح تک رہتا تھا اِس لئے اُس کے علاج کے لئے مقامی سطح کی کوششیں ہی کارگر رہتی تھیں۔
بیسویں صدی سے شروع ہونے والا ٹیکنالوجی کا حالیہ عروج دُنیا کو گلوبل ویلیج بنا چکا ہے۔ جس طرح ایک زمانے تک لوگ اپنے قصبے، گاؤں یا شہر کی حد تک ایک دوسرے سے اچھے اور برے اَثرات کو قبول کرتے تھے، اُسی طرح اب پوری دُنیا ایک گاؤں بن گئی ہے اور لوگ پورے عالم کے اَثرات لیتے ہیں۔ جو کچھ آج کل امریکہ میں ہو رہا ہے لاہور میں بیٹھا شخص اُس کا فوری اثر لے رہا ہے۔ ذرائع اِبلاغ، الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹر، اِنٹرنیٹ اور موبائل تیزی سے مشرق و مغرب کو باہم ملا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی سکرین آپ کے سامنے ہے اور آپ اُسی پر ساری دنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ خیر بھی اُسی پر آ رہا ہے اور شر بھی بلاروک ٹوک اُسی پر آ رہا ہے۔ اب ساری دُنیا کی معلومات، اَحوال اور اَثرات سمٹ کر موبائل فون کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ٹی وی کے مختلف چینلز کے کنکشن لینے کی زحمت بھی ختم ہو جائے گی، ٹی وی چینلز بھی کمپیوٹرز اور موبائل پر بآسانی دستیاب ہوں گے۔
ٹیکنالوجی کے فروغ سے جہاں اِنسانیت کو اُس کے خوشگوار اثرات مل رہے ہیں اُس سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ منفی اَثرات اور نقصان دہ پہلو پھیل رہے ہیں۔ پرانے دور میں والدین بچوں کو برے دوستوں کی صحبت سے بچانے کے لئے گھر سے باہر جانے سے روکتے تھے، اب ہر قسم کی اچھی و بری صحبت اُنہیں گھر میں اسٹڈی ٹیبل پر میسر ہے۔ بچوں کے کمرے میں پڑا کمپیوٹر اُنہیں اچھے برے ہر قسم کے دوستوں سے چند سیکنڈز میں ملا دیتا ہے۔ بچوں کا کمپیوٹر اور موبائل ہی اُن کی صحبت ہے، اچھا اِستعمال کر لیں یا برا۔ یوں اب گھر میں بیٹھ رہنے سے بری صحبت سے بچنا ممکن نہیں رہا، جو چاہیں سن لیں، دیکھ لیں، جس سے چاہیں بات کر لیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی سے جہاں ذرائع بڑھ گئے ہیں، وہاں برائی بھی اُتنی ہی طاقتور ہو گئی ہے۔ پرانے دور میں لوگوں کو شر سے بچنے کے لئے تنہائی اور خلوت کا سبق دیا جاتا تھا، اب خلوت خود جلوت ہوگئی ہے، تنہائی خود صحبت اور مجلس بن گئی ہے، کوئی بچ کے جائے تو کہاں جائے! اب صحبتِ بد سے پرانے انداز میں بچنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
دورِ جدید کی یہ تمام سہولتیں اُٹھا کے گھر سے باہر پھینکنا یا پھر بستر بوریا اُٹھا کر جنگلوں غاروں میں جا کر رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِسی دُنیا میں رہتے ہوئے اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے کہ ہم خود اور ہماری اگلی نسلیں صحبتِ بد کے اَثرات سے بچ سکیں اور ہمارا دین و اِیمان محفوظ رہے!! اِس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ ہر قسم کی صحبتِ بد کے اَثرات کا اِزالہ صحبتِنیک کے ذریعے ہی ممکن ہے، اِس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ ربّ العزت نے فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْo غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَo
(الفاتحه، 1: 5-7)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔ اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ (ہی) گمراہوں گا۔‘‘
قرآنی حکم کے مطابق صحبتِ بد کے توڑ کے لئے صحبتِ صالح کو اِختیار کر لیا جائے تو بری صحبت کے اَثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ جتنا صحبتِ صالح طاقتور ہوگی اُسی قدر بندہ صحبتِ بد کے اَثرات سے بچ سکے گا۔ جتنے مختلف اَقسام کے حملے دین و اِیمان پر ہو رہے ہیں اُن تمام حملوں کے مقابلے کے لئے ایسی طاقتور نیک صحبت کی ضرورت ہے جو بری صحبت کے تمام حملوں سے بچا سکے۔ اگر ہم ایسی نیک صحبت اِختیار کر لیتے ہیں جس کے پاس دفاع کی صورت تو ہے مگر ہتھیار صرف ایک ہی ہے۔ سو (100) ہتھیاروں سے حملہ آور صحبتِ بد کے مقابلے کے لئے ایک ہتھیار سے مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ اِیمان پر حملے کئی اَقسام کے ہیں اس لئے اُن سے بچانے کے لئے ایسی نیک صحبت کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے حملوں سے بچا سکے۔ اگر صحبتِ بد کا حملہ دماغ پر ہو تو صحبتِ نیک اُسے عقل و فہم کے ذریعے بچا سکے، اگر اُس صحبت کا اثر ہمارے دل پر ہو جائے تو جذباتی طریق سے بھی اُس سے بچاؤ کیا جا سکے، اگر اُس کے اَثرات ہمارے عمل پر ہو جائیں تو عملی طریق سے بھی بچاؤ کا سامان ہونا چاہیئے، اگر نفسیاتی حملہ ہو تو نفسیاتی سطح پر بھی اُس سے دفاع کا سامان ملنا چاہیئے، اگر اَخلاقی حملہ ہے تو اَخلاقی سامان ملنا چاہیئے، اگر صحبتِ بد کا حملہ روحانی نوعیت کا ہے تو روحانی علاج کا سامان بھی ہونا چاہیئے، سماجی و معاشرتی اَثرات ہو رہے ہوں تو سماجی و معاشرتی دفاع ہونا چاہیئے۔ الغرض آج کے دور میں ہمہ جہتی حملوں کے مقابلے میں صحبتِ خیر کے پاس ہمہ جہتی دفاعی نظام ہونا چاہیئے تاکہ صحبتِ بد جس انداز سے بھی اِیمان پر حملہ آور ہو وہ اُسے متعلقہ ہتھیار کے ساتھ تباہی سے بچا سکے۔ جس زمانے صرف ٹینک سے جنگ ہوتی تھی تب ٹینک کا جواب ٹینک سے دینا ممکن تھا، جب ائیرفورس کا زمانہ آ گیا تو ٹینک سے اُس کا حملہ روکنا ممکن نہیں رہا۔ اب ضروری ہے کہ صحبتِ صالح کے پاس ہر قسم کے حملوں سے دِفاع کا اِنتظام ہو جن سے اِس جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں نئی نسلوں کو سابقہ پڑ رہا ہے اور ایسی جامع اور ہمہ گیر نیک صحبت ہی ہمیں بری صحبت کے اَثرات سے بچا سکتی ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1065)
گداگری ایک ایسا فعل ہے جو اِنسان کو کام چور، معاشی جدوجہد سے دُور اور قناعت سے رُوگردانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اِس سے بے شمار اَخلاقی، سماجی اور معاشی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام میں گداگری کی مذمت کی گئی ہے۔ احادیثِ نبوی ﷺ میں ہے:
الید العلیا خیر من الید السفلی.
(صحیح، بخاري، 2: 518، رقم: 1361)
’’اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘
ما یزال الرجل یسأل الناس حتی یأتی یوم القیامة ولیس في وجهه مزعة لحم.
(صحیح، بخاري، 2: 536، رقم: 1405)
’’گداگر ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے گا اور اُس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا بھی نہ ہو گا۔‘‘
لأن یحتزم أحدکم حزمة من حطب فیحملها علی ظهره فیبیعها خیر له من أن یسأل رجلاً فیعطیه أو یمنعه.
(صحیح، مسلم، 2: 721، رقم: 1042)
’’اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لادے پھر ان کو بیچ دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ لوگوں سے مانگے، معلوم نہیں کہ وہ دیں یا نہ دیں۔‘‘
گداگری ایک ایسی معاشرتی برائی ہے، جو مزید کئی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ بھکاریوں کو خیرات دینا گداگری کی حوصلہ اَفزائی کرنے کے مترادف ہے، یوں بڑے شہروں میں بھکاریوں کی فوج پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر اہلِ ثروت بھکاریوں کو صدقات سے نوازتے رہیں گے تو اُن کے صدقہ و خیرات کے اصل مستحقین محروم رہ جائیں گے۔
مخیر حضرات پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں میں اور پھر اپنے محلہ داروں یا قریب کی بستیوں میں ایسے سفید پوش مفلسوں کو تلاش کریں جن کی حالت غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور وہ بھیک نہیں مانگتے۔ ایسے لوگوں کے لئے ماہانہ بنیادوں پر وظائف مقرر کریں اور حتیٰ الامکان ہر ماہ خود جا کر اُنہیں مقررہ رقم دیں تاکہ اُن کی عزتِ نفس مجروح ہونے سے بچے۔ وہ بھی یوں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو پتہ نہ چلے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اُصول‘‘)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved