1. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ اَطَاعَنِي فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللهَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاحکام، باب قول الله تعالی : اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَاَوْلِی الاَمْرِ مِنْکُمْ [النساء : 59]، 6 / 2611، وأيضًا في کتاب الجهاد، باب يقاتل من وراء الإمام ويتقی به، 3 / 1080، الرقم : 2797، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الامراء معصية وتحريمها في المعصعية، 3 / 1466، الرقم : 1835.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی، سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، سو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ : دَعَوْنِي مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا هلَکَ مَنْ کَانْ قَبْلَکُمْ بِسُؤَالِهمْ وَاخْتِلَافِهمْ عَلٰی اَنْبِيائِهمْ، فَإِذَا نَهيْتُکُمْ عَنْ شَيئٍ فَاجْتَنِبُوْهُ، وَإِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمْرٍ فَاْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ، 6 / 2658، الرقم : 6858، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، 2 / 975، الرقم : 1337.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے اس وقت تک چھوڑے رہو جب تک میں تمہیں چھوڑے رہوں، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کے باعث ہی ہلاک ہوئے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات سے روکوں تو اس سے اجتناب کرو، اور جب میں تمہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو حسبِ استطاعت اس کی تعمیل کرو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا يؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی يکُوْنَ هوَاهُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُ بِه. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
وفي رواية للبيهقي : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَنْ يسْتَکْمِلَ مُؤْمِنٌ إِيْمَانَه، حَتّٰی يکُوْنَ هوَاهُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُکُمْ بِه.
وَقَالَ الْخَطَيْبُ التَّبْرِيْزِيُّ : وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي اَرْبَعِيْنِه : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ رَوَيْنَاهُ فِي کِتَابِ الْحُجَّة بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : اَخْرَجَهُ الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ وَغَيْرُه وَرِجَالُه ثِقَاتٌ وَقَدْ صَحَّحَهُ النَّوَوِيُّ فِي آخِرِ الاَرْبَعِيْنَ.
3 : أخرجه ابن أبي عاصم في السنة، 1 / 12، الرقم : 15، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 188، الرقم : 209، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 4 / 164، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 59، الرقم : 167، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 153، الرقم : 7791، والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 289.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔‘‘ اسے امام ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ کسی مومن کا ایمان اس وقت تک درجۂ کمال کو نہیں پاسکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس تمہارے پاس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔‘‘
خطیب تبریزی نے فرمایا : امام نووی نے اپنی ’’اَربعین‘‘ میں فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ہم نے کتاب الحجہ میں سندِ صحیح کے ساتھ بیان کیا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اسے حسن بن سفیان اور ان کے علاوہ دیگر محدّثین نے بھی روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ اور امام نووی نے بھی اپنی اَربعین کے آخر میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
4. عَنْ اَبِي مُوْسٰی رضي الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِه کَمَثَلِ رَجُلٍ اَتٰی قَوْمًا فَقَالَ : يَا قَوْمِ، إِنِّي رَاَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ. وَإِنِّي اَنَا النَّذِيْرُ الْعُرْيَانُ، فَالنَّجَاء، فَاَطَاعَه طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِه، فَاَدْلَجُوْا، فَانْطَلَقُوْا عَلٰی مَهلِهمْ، فَنَجَوْا. وَکَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَاَصْبَحُوْا مَکَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَاَهلَکَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ. فَذَالِکَ مَثَلُ مَنْ اَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئتُ بِه. وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَکَذَّبَ مَا جِئْتُ بِه مِنَ الْحَقِّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ، 6 / 2656، الرقم : 6854، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب شفقته ﷺ علی أمته ومبالغة في تحذيرهم مما يضرهم، 4 / 1788، الرقم : 2283.
’’حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میری اور اس (دین حق) کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا : اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے۔ میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لہٰذا اپنی حفاظت کا سامان کر لو۔ چنانچہ اس کی قوم سے ایک جماعت نے اس کی بات مانی، راتوں رات نکل کر اپنی پناہ گاہ میں جا چھپے اور بچ گئے جبکہ ایک جماعت نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے اپنے مقامات پر ہی (بے فکری سے پڑے) رہے۔ منہ اندھیرے ایک لشکر نے ان پر حملہ کردیا انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ سو یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو (دین حق) میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی۔ اور (دوسری) اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلایا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : جَائَتْ مَلَائِکَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ نَائِمٌ . . . فَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّه نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوْا : فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ ﷺ ، فَمَنْ اَطَاعَ مُحَمَّّدًا، فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا، فَقَدْ عَصَی اللهَ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بِسُنَنِ رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم : 6852.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ ﷺ سوئے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : یہ تو سو رہے ہیں۔ دوسرے نے کہا : (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا : حقیقی گھر جنت ہی ہے اور محمد ﷺ (حق کی طرف) بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : کُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبٰی. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَنْ يَأْبٰی؟ قَالَ : مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبٰی.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم : 6851، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم : 8713، وابن حبان في الصحيح، 1 / 196، الرقم : 17.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔‘‘ اسے امام بخاری، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ اَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ غُلَامٌ يَهُوْدِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ فَمَرِضَ، فَاَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ يَعُوْدُه فَقَعَدَ عِنْدَ رَأسِه، فَقَالَ لَه : اَسْلِمْ. فَنَظَرَ إِلٰی اَبِيْه وَهُوَ عِنْدَه، فَقَالَ لَه : اَطِعْ اَبَا الْقَاسِمِ ﷺ . فَاَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلْحَمْدُِللهِ الَّذِي اَنْقَذَه مِنَ النَّارِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلي عليه وهل يعرض علي الصبي الإسلام، 1 / 455، الرقم : 1290، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في عيادة الذمي، 3 / 185، الرقم : 3095، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 280، الرقم : 14009، والبخاري في الأدب المفرد / 185، الرقم : 524.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو حضور ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے کے پاس تشریف فرما ہو کر اُس سے فرمایا : اسلام قبول کرلو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اُس کے پاس بیٹھا تھا تو اس نے کہا : ابو القاسم ﷺ کی اطاعت کرو۔ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا (اور پھر اسی وقت اس لڑکے کا انتقال ہو گیا۔) تو آپ ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔‘‘
اسے امام بخاری، ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
8. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : اتَّخَذَ النَّبِيُّ ﷺ خَاتَمًا مِنْ ذَهبٍ فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيْمَ مِنْ ذَهبٍ، فَقَال النَّبِيُّ ﷺ : إِنِّي اتَّخَذْتُ خَاتَمًا مِنْ ذَهبٍ فَنَبَذَه، وَقَالَ : إِنِّي لَنْ اَلْبَسَه اَبَدًا، فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيْمَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بأفعال النّبي ﷺ ، 6 / 2661، الرقم : 6868، ومسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب تحريک خاتم الذهب علی الرجال ونسخ ما کان من إباحته في الإسلام، 3 / 1655، الرقم : 2091.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا : اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
9. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَأي خَاتَمًا مِنْ ذَهبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ، فَنَزَعَه وَقَالَ : يَعْمِدُ اَحَدُکُمْ إِلٰی جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُها فِي يَدِه، فَقِيْلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خُذْ خَاتَمَکَ، انْتَفِعْ بِه. قَالَ : وَاللهِ، لَا آخُذُه اَبَدًا وَقَدْ طَرَحَه رَسُوْلُ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.
9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم خاتم الذهب علی الرجال ونسخ ما کان من إباحته في الإسلام، 3 / 1655، الرقم : 2090، وابن حبان في الصحيح، 1 / 192، الرقم : 15، وأبو عوانة في المسند، 5 / 251، الرقم : 8610.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ﷺ نے اسے اُتار کر پھینک دیا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا : جاؤ اپنی انگوٹھی اُٹھا لو اور (اسے فروخت کر کے) فائدہ اُٹھاؤ، اس نے کہا : خدا کی قسم! جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے پھینک دیا ہو اس کو میں کبھی نہیں اُٹھاؤں گا۔‘‘ اسے امام مسلم، ابن حبان اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ اَنَسٍ رضي الله عنه کُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ اَبِي طَلْحَةَ وَکَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيْخَ فَاَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مُنَادِيا يُنَادِي : اَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ قَالَ : فَقَالَ لِي اَبُوْ طَلْحَةَ : اُخْرُجْ فَاَهرِقْها فَخَرَجْتُ فَهرَقْتُها فَجَرَتْ فِي سِکَکِ الْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : قَدْ قُتِلَ قَوْمٌ وَهيَ فِي بُطُوْنِهمْ فَاَنْزَلَ اللهُ : ﴿لَيْسَ عَلَی الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْا﴾ (المائدة، 5 : 93).
مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المظالم والغصب، باب صب الخمر في الطريق، 2 / 869، الرقم : 2332، ومسلم في الصحيح، کتاب الأشربة، باب تحريم الخمر، 3 / 1570، الرقم : 1980.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر پر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا اور ان دنوں وہ کھجور کی شراب پیتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے منادی کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! شراب حرام قرار دے دی گئی ہے۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا : باہر جا کر اسے بہا دو تو میں نے وہ بہا دی۔ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا : بعض مقتول لوگوں (شہیدوں) کے پیٹوں میں یہ (شراب) تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’اُن لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حرمتِ خمر کے حکم سے پہلے) کھا پی چکے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
11. عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيْعَةَ، عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه أَنَّه جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَه، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ. وفي رواية : قَالَ عُمَرُ : شَيئٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَلَا نُحِبُّ اَنْ نَتْرُکَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب ما ذُکر في الحجر الأسود، 2 / 579، الرقم : 1520، 1528، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2 / 925، الرقم : 1270.
’’حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرص حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرص نے فرمایا : یہ وہ کام ہے جسے خود حضور ﷺ نے ادا فرمایا ہے سو ہم بھی اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
12. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ کُلَّ سَبْتٍ مَاشِيا وَرَاکِبًا وَکَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنْهُمَا يَفْعَلُه. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
12 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب من أتی مسجد قباء کل سبت، 1 / 399، الرقم : 1135، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل مسجد قباء وفضل الصلاة فيه وزيارته، 2 / 1017، الرقم : 1399.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ مسجد قباء میں ہر ہفتے کو پیدل اور سوار ہو کر تشریف لایا کرتے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے۔‘‘ یہ روایت متفق علیہ ہے۔
13. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : مَا تَرَکْتُ اسْتِلَامَ هذَيْنِ الرُّکْنَيْنِ الْيَمَانِيَ وَالْحَجَرَ مُذْ رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَسْتَلِمُهُمَا فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
13 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب الرمل في الحج والعمرة، 2 / 582، الرقم : 1529، مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب استحباب استلام الرکنين اليمانيين في الطواف دون الرکنين الآخرين، 2 / 924، الرقم : 1268.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیںکہ جب سے میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو رکنِ یمانی اور حجرِ اَسود کی تعظیم کرتے دیکھا ہے تب سے میں نے ان دو رکنوں کی تعظیم کو کبھی نہیں چھوڑا، شدت میں نہ آسانی میں۔‘‘ یہ روایت متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
وفي رواية : عَنْ نَافِعٍ قَالَ : رَاَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِيَدِه، ثُمَّ قَبَّلَ يَدَه وَقَالَ : مَا تَرَکْتُه مُنْذُ رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَفْعَلُه.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب استحباب استلام الرکنين اليمانيين في الطواف دون الرکنين الآخرين، 2 / 924، الرقم : 1268، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 108، الرقم : 5875، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 316، الرقم : 14554، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 213، الرقم : 2715، وابن حبان في الصحيح، 9 / 132، الرقم : 3824.
’’ایک روایت میں حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود کو ہاتھ لگایا پھر ہاتھ کو چوم لیا اور فرمایا : جب سے میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے کبھی اس (عمل) کو ترک نہیں کیا۔‘‘
اس روایت کو امام مسلم، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ اَنَاخَ بِالْبَطْحَاء بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلّٰی بِها، وَکَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما يَفْعَلُ ذَالِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
14 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب ذات عرق لأهل العراق، 2 / 556، الرقم : 1459، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب التعريس بذي الحليفة والصلاة بها إذا صدر من الحج أو العمرة، 2 / 981، الرقم : 1257.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذو الحلیفہ کے مقام پر پتھریلی زمین میں اپنی اونٹنی بٹھائی اور نماز پڑھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ روایت متفق علیہ ہے۔
15. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما بَيْنَمَا النَّاسُ فِي الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ جَاءَ هُمْ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَدْ أنْزِلَ عَلَيْه اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَأمِرَ اَنْ يَسْتَقْبِلَ الْکَعْبَةَ اَلَا فَاسْتَقْبِلُوْها، وَکَانَ وَجْهُ النَّاسِ إِلَی الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوْا بِوُجُوْههمْ إِلَی الْکَعْبَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب ولئن أتيت الذين أوتوا الکتاب بکل آية ما تبعوا قبلتک، 4 / 1633، الرقم : 4220، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحويل القبلة من القدس إلی الکعبة، 1 / 375، الرقم : 526.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھنے والوں کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن کریم نازل ہوا ہے اور اس میں حکم فرمایا گیا ہے کہ نماز میں کعبہ کی جانب رُخ کیا جائے پس اس کی جانب اپنا رخ کرلو۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگوں کا رخ شام (بیت المقدس) کی طرف تھا لیکن انہوں نے اپنے منہ کعبہ کی جانب کرلیے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
16. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : وَاصَلَ النَّبِيُّ ﷺ آخِرَ الشَّهْرِ، وَوَاصَلَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : لَوْ مُدَّ بِيَ الشَّهْرُ، لَوَاصَلْتُ وِصَالًا يَدَعُ الْمُتَعَمِّقُوْنَ تَعَمُّقَهُمْ، إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ، إِنِّي أَظَلُّ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التمنی، باب ما يجوز من اللَّو وقوله تعالی : لَوْ اَنَّ لِي بِکُمْ قُوَّةً، [هود : 80، 6 / 2645، الرقم : 6814]، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن الوصال في الصوم، 2 / 776، الرقم : 1104.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مہینے کے آخر میں سحری و افطاری کیے بغیر مسلسل روزے رکھنے شروع کر دیے تو بعض دیگر لوگ بھی وصال کے روزے رکھنے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ تک جب یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ رمضان کا مہینہ میرے لیے اور لمبا ہو جاتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا تاکہ میری برابری کرنے و الے میری برابری کرنا چھوڑ دیتے۔ میں قطعًا تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو میرا ربّ کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔‘‘ یہ روایت متفق علیہ ہے۔
17. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ اَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ رضي الله عنه قَالَ : سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَاَعْطَانِي، ثُمَّ سَاَلْتُه فَاَعْطَانِي، ثُمَّ سَاَلْتُه فَاَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ : يَا حَکِيْمُ، إِنَّ هٰذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ اَخَذَه بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُوْرِکَ لَه فِيْهِ، وَمَنْ اَخَذَه بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَکْ لَه فِيْهِ کَالَّذِي يَأکُلُ وَلَا يَشْبَعُ. اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی. قَالَ حَکِيْمٌ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَا اَرْزَأ اَحَدًا بَعْدَکَ شَيْئًا حَتّٰی أفَارِقَ الدُّنْيَا. فَکَانَ اَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه يَدْعُوْ حَکِيْمًا إِلَی الْعَطَائِ فَيَأبٰی اَنْ يَقْبَلَه مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رضي الله عنه دَعَاهُ لِيُعْطِيَه فَاَبٰی اَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا. فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي أشْهِدُکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ، عَلٰی حَکِيْمٍ اَنِّي اَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّه مِنْ هٰذَا الْفَيئِ، فَيَأبٰی اَنْ يَأخُذَه فَلَمْ يَرْزَأ حَکِيْمٌ اَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتّٰی تُوُفِّيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الاستعفاف عن المسألة، 2 / 535، الرقم : 1403، وأيضًا في کتاب الوصايا، باب تأويل قول اللہ تعالی : من بعد وصية يوصي بها أو دين، 3 / 1010، الرقم : 2599، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 717، الرقم : 1035.
’’حضرت عُروہ بن زُبیر اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے مانگا تو آپ ﷺ نے مجھے عطا فرمایا میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے حکیم! یہ مال سرسبز اور شیریں ہے۔ جو اسے نفس کی بے رغبتی سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے دِلی لالچ سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہے کہ کھائے اور سیر نہ ہو۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ دنیا کو خیر باد کہہ دوں۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دورِ خلافت میں) حضرت حکیم کو مال دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دینے کے لیے بلایا تو بھی انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے گروہ مسلمین! میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس مالِ غنیمت میں سے حضرت حکیم کو ان کا حق پیش کر رہا ہوں لیکن وہ اسے لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ حضرت حکیم نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی سے بھی مال لینا قبول نہیں کیا یہاں تک کہ (اسی حال میں) وفات پا گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
18. عَنِ النَّزَّالِ قَالَ : اَتٰی عَلِيٌّ رضي الله عنه عَلٰی بَابِ الرَّحَبَةِ بِمَاءٍ فَشَرِبَ قَائِمًا، فَقَالَ : إِنَّ نَاسًا يَکْرَهُ اَحَدُهُمْ اَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي رَاَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَعَلَ کَمَا رَاَيْتُمُوْنِي فَعَلْتُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأشربة، باب الشرب قائمًا، 5 / 2130، الرقم : 5292، وأبو داود في السنن، کتاب الأشربة، باب في الشرب قائمًا، 3 / 336، الرقم : 3718، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء من غير حدث، 1 / 84، الرقم : 130.
’’حضرت نزال نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا جبکہ وہ باب الرحبہ کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کھڑے کھڑے پانی نوش کیا اور فرمایا : اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر پانی پیے تو کچھ لوگ اسے مکروہ جانتے ہیں حالانکہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
19. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ يُسَبِّحُ عَلٰی ظَهْرِ رَاحِلَتِه حَيْثُ کَانَ وَجْهُه يُوْمِئُ بِرَأْسِه وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُه. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب من تطوع في السفر في غير دبر الصلوات، 1 / 373، الرقم : 1054.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری کی پیٹھ پر سر کے اشارے سے نوافل پڑھ لیا کرتے خواہ اس کا رخ کسی طرف ہوتا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ قَالَ : رَاَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما يَتَحَرّٰی اَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِيقِ فَيُصَلِّي فِيْهَا وَيُحَدِّثُ اَنَّ اَبَاهُ کَانَ يُصَلِّي فِيْهَا وَاَنَّه رَاَی النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي فِي تِلْکَ الْاَمْکِنَةِ وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّه کَانَ يُصَلِّي فِي تِلْکَ الْاَمْکِنَةِ وَسَاَلْتُ سَالِمًا فَلَا اَعْلَمُه إِلَّا وَافَقَ نَافِعًا فِي الْاَمْکِنَةِ کُلِّهَا إِلَّا اَنَّهُمَا اخْتَلَفَا فِي مَسْجِدٍ بِشَرَفِ الرَّوْحَائِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.
20 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب المساجد التي علی طرق المدينة والمواضع التي صلی فيها الني ﷺ ، 1 / 183، الرقم : 469، وأبو عوانة في المسند، 2 / 426، الرقم : 3700، وابن تيمية في اقتضاء الصراط / 385.
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو میں نے دیکھا کہ راستے میں جو مقامات تھے انہیں تلاش کر کر کے ان میں نماز پڑھا کرتے اور بتایا کرتے کہ ان کے والد ماجد ان میں نماز پڑھا کرتے اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ان مقامات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان مقامات میں نماز پڑھا کرتے تھے اور میں نے سالم سے پوچھا تو انہوں نے تمام مقامات کے بارے میں نافع سے موافقت کی البتہ دونوں کا شرفِ روحاء والی مسجد کے بارے میں اختلاف تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
21. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي الله عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ اَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ قَالَ : فَوَاللهِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَه وَجِلْدَه، وَإِذَا اَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا اَمْرَه، وَإِذَا تَوَضَّاَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وُضُوْئِه، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَه، وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلٰی اَصْحَابِه فَقَالَ : اَي قَوْمِ، وَاللهِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلٰی قَيْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللهِ، إِنْ رَاَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُه اَصْحَابُه مَا يُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا. . . . الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
21 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة الشروط، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872.
’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام کو بغور دیکھتا رہا۔ مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جب بھی رسول اللہ ﷺ اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ اور جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے تو اس کی فوراً تعمیل کرتے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو صحابہ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہ دیکھتے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘
اسے امام بخاری، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ الْمِقْدَادُ يَوْمَ بَدْرٍ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا لاَ نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ لِمُوْسٰی : ﴿فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ﴾ [المائدة، 5 : 24]، وَلٰکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ، فَکَاَنَّه سُرِّيَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
22 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : فاذهب أنت وربک فقاتلا إنا هاهنا قاعدون، 4 / 1684، الرقم : 4333، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 333، الرقم : 11140، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 314، الرقم : 18073، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 555، الرقم : 220، وقال : إسناده حسن.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے وقت حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالتِ مآب ﷺ میں یوں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات ہر گز نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ں سے کہی تھی : پس تم جاؤ اور تمہارا ربّ (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ بلکہ آپ تشریف لے چلیں، ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔آپ ﷺ کو ان کے اس جواب سے بہت خوشی و مسرت ہوئی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ أنَسٍ رضي الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ شَاوَرَ حِيْنَ بَلَغَه إِقْبَالُ اَبِي سُفْيَانَ. قَالَ : فَتَکَلَّمَ اَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه فَاَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ رضي الله عنه فَاَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : إِيَانَا تُرِيْدُ يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَاَخَضْنَاهَا، لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نَضْرِبَ اَکْبَادَهَا إِلٰی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا، قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
23 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 257، الرقم : 13729، 3 / 219. 220، الرقم : 13320. 13321، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو جب ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کی آمد کا پتہ چلا توآپ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ تو (مہاجرین میں سے)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہنا چاہا، آپ ﷺ نے ان سے اِعراض فرمایا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہنا چاہا توآپ ﷺ نے ان سے بھی اِعراض فرمایا، تب (انصار میں سے) حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا آپ ہم لوگوں (یعنی انصار) سے رائے لینا چاہتے ہیں؟ تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم انہیں سمندر میں ڈال کر رہیں گے اور اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ اپنی اونٹنیوں کے سینے برک الغمادپہاڑ سے جا ٹکرائیں تو ہم ضرور اسی طرح کر کے رہیں گے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ (خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے) لوگوں کو دعوتِ (جہاد) دی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
24. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ مَشْهَدًا لَاَنْ اَکُوْنَ اَنَا صَاحِبَه اَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَی الْاَرْضِ مِنْ شَيئٍ قَالَ : اَتَی النَّبِيَّ ﷺ وَکَانَ رَجُلًا فَارِسًا قَالَ : فَقَالَ : اَبْشِرْ، يَا نَبِيَّ اللهِ، وَاللهِ، لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ لِمُوْسٰی : ﴿اِذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ﴾ [المائدة، 5 : 24]، وَلٰکِنِ الَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَنَکُوْنَنَّ بَيْنَ يَدَيْکَ، وَعَنْ يَمِيْنِکَ وَعَنْ شِمَالِکَ وَمِنْ خَلْفِکَ حَتّٰی يَفْتَحَ اللهُ عَلَيْکَ. فَرَاَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ يُشْرِقُ لِذَالِکَ وَسَرَّه ذَالِکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَاَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَه.
24 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب قول اللہ تعالی : إذ تستغيثون ربکم فاستجاب لکم أني ممددکم بألف من الملائکة مردفين الخ، 4 / 1456، الرقم : 3736، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 457، الرقم : 4376، والبزار في المسند، 4 / 285، الرقم : 1455، وأيضًا، 1 / 389، الرقم : 3698،4070، والحاکم في المستدرک، 3 / 392، الرقم : 5486، والطبراني في المعجم الکبير بإسناد جيد، 17 / 124، الرقم : 306 وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 556، الرقم : 221، وإسناده صحيح.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا منظر دیکھا کہ اس منظر کا مالک ہونا میرے لیے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہے (یعنی کاش اس وقت ان کی جگہ میں ہوتا) وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (یعنی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ ایک بہادر شخص تھے، انہوں نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ خوش ہو جائیں۔ خدا کی قسم! ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ں سے کہا تھا : پس تم جاؤ اور تمہارا ربّ (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ لیکن اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا! ہم (جہاد میں) آپ کے سامنے، دائیں طرف اور بائیں طرف اور آپ کے پیچھے ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح عطا فرما دے،پس میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرۂ اقدس دیکھا کہ وہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ ﷺ کو ان کی اس بات نے بہت خوش کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، اَحمد، بزار اور حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
25. عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ اَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ : لَا تَمْنَعُوْا نِسَائَکُمُ الْمَسَاجِدَ إِذَا اسْتَأذَنَّکُمْ إِلَيْهَا قَالَ : فَقَالَ بِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللهِ : وَاللهِ، لَنَمْنَعُهُنَّ قَالَ : فَاَقْبَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ فَسَبَّه سَبًّا سَيِّئًا مَا سَمِعْتُه سَبَّه مِثْلَه قَطُّ، وَقَالَ : أخْبِرُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَتَقُوْلُ : وَاللهِ، لَنَمْنَعُهُنَّ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وفي لفظ عند مسلم : فَزَبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ : اَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَتَقُوْلُ : لَا نَدَعُهُنَّ.
وفي لفظ لمسلم أيضًا : فَضَرَبَ فِي صَدْرِه وَقَالَ : أحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَتَقُوْلُ : لَا.
وفي لفظ عند الطبراني والطيالسي : فَمَدَّ يَدَه فَلَطَمَه وَقَالَ : أحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَتَقُوْلُ مَا تَقُوْلُ.
وفي لفظ عند أحمد : فَمَا کَلَّمَه عَبْدُ اللهِ حَتّٰی مَاتَ.
25 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب خروج النساء إلی المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة، 1 / 327، الرقم : 442، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 140، الرقم : 6252، وأيضًا، 2 / 36، الرقم : 4933، وابن حبان في الصحيح، 5 / 591، الرقم : 2213، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 399، الرقم : 13472.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو ان کو مسجدوں میں جانے سے منع نہ کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے بلال نے کہا : خدا کی قسم! ہم ان کو مسجد جانے سے ضرور منع کریں گے۔ راوی نے کہا کہ پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنے بیٹے) بلال سے ایسی سخت کلامی کی کہ ایسی انہوں نے کبھی نہ کی تھی اور فرمایا : میں تمہیں حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان بیان کرتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں ضرور منع کروں گا۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
امام مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹا اور فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان بیان کرتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم اجازت نہیں دیں گے۔
امام مسلم کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے سینے پر (زور سے ہاتھ) مارا اور فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم انکار کرتے ہو۔
امام طبرانی اور طیالسی کے الفاظ ہیں : پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسے تھپڑ مار کر فرمایا : میں حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان بیان کر رہا ہوں اور تم ایسی بات کر رہے ہو۔
امام احمد بن حنبل نے بیان فرمایا : پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مرتے دم تک اس (بیٹے) سے بات نہیں کی۔‘‘
26. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللهُ اَکْبَرُ کَبِيْرًا، وَالْحَمْدُِللهِ کَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنِ الْقَائِلُ کَلِمَةَ کَذَا وَکَذَا؟ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا اَبْوَابُ السَّمَائِ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما : فَمَا تَرَکْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ ذَالِکَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
26 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب ما يقال بين تکبيرة الإحرام والقراء ة، 1 / 420، الرقم : 601، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب دعاء أم سلمة، 5 / 575، الرقم : 3592، والنسائي في السنن، کتاب الافتتاح، باب القول الذي يفتتح به الصلاة، 2 / 125، الرقم : 886.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے، ناگاہ نمازیوں میں سے ایک شخص نے کہا :
اَللهُ اَکْبَرُ کَبِيْرًا، وَالْحَمْدُِللهِ کَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا
(نماز کے بعد) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ کلمات کہنے والا کون ہے؟ نمازیوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے تعجب ہوا کہ ان کلمات کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سے میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے یہ بات سنی ہے ان کلمات کو کبھی نہیں چھوڑا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ شُرَحْبِيْلَ بْنِ السِّمْطِ إِلٰی قَرْيَةٍ عَلٰی رَأسِ سَبْعَةَ عَشَرَ اَوْ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِيْلًا فَصَلّٰی رَکْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ لَه. فَقَالَ : رَاَيْتُ عُمَرَ صَلّٰی بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَکْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ لَه، فَقَالَ : إِنَّمَا اَفْعَلُ کَمَا رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَفْعَلُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ.
27 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 481، الرقم : 692، والنسائي في السنن، کتاب تقصير الصلاة في السفر، 3 / 118، الرقم : 1437، وأحمد بن حنبل في المسند،1 / 29، الرقم : 198، والبزار في المسند، 1 / 447، الرقم : 316.
’’جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت شُرَحْبِیل بن سِمط کے ساتھ سترہ یا اٹھارہ میل کی مسافت پر ایک بستی میں گیا تو آپ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی، میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ذو الحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا : میں وہی کرتا ہوں جو میں نے حضور ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی، اَحمد اور بزار نے روایت کیا ہے۔
28. عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلاَ، هَلْ عَسٰی رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيْثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّکِيئٌ عَلٰی اَرِيْکَتِه فَيَقُوْلُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ کِتَابُ اللهِ فَمَا وَجَدْنَا فِيْهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اللهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
28 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما نهي عنه أن يقال عند حديث النبي ﷺ ، 5 / 38، الرقم : 2664، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول اللہ ﷺ والتغليظ علی من عارضه، 1 / 6، الرقم : 12، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 132، الرقم : 17233، والدارمي في السنن، 1 / 153، الرقم : 586، والدار قطني في السنن، 4 / 286. 287، الرقم : 58،63.
’’حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سن لو! عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی، وہ اپنی مسہری پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا کہے گا : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب (ہی کافی ہے)، ہم جو چیز اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اورجو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے، جبکہ (خبردار جان لو !) رسول اللہ ﷺ کا کسی شے کو حرام قرار دینا بھی اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کی طرح ہی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ، اَحمد، دارمی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
29. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَقُوْلُ : أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَالِکَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ : الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَکْرٍ إِنْ سَبَقْتُه يَوْمًا، قَالَ : فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا أَبْقَيْتَ لِاَهْلِکَ؟ قُلْتُ : مِثْلَه، وَأَتٰی أَبُوْ بَکْرٍ بِکُلِّ مَا عِنْدَه، فَقَالَ ﷺ : يَا أَبَا بَکْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِاَهْلِکَ؟ قَالَ : أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللهَ وَرَسُوْلَه، قُلْتُ : لَا أَسْبِقُه إِلٰی شَيئٍ أَبَدًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
29 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنهما کليهما، 6 / 614، الرقم : 3675، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب الرخصة في ذالک، 2 / 129، الرقم : 1678، والدارمي في السنن، 1 / 480، الرقم : 1660.
’’حضرت زیدبن اسلم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے)کہا : اگر میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ حضرت عمرص فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا : اتنا ہی مال اُن کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ (اتنے میں) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جوکچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرص فرماتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا : میں اِن سے کسی شے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
30. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ قَالَتْ : لَمَّا بَعَثَ اَهْلُ مَکَّةَ فِي فِدَائِ اَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللهِ فِي فِدَائِ اَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيْعِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا کَانَتْ لِخَدِيجَةَ اَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلٰی اَبِي الْعَاصِ حِيْنَ بَنٰی عَلَيْهَا، قَالَتْ : فَلَمَّا رَآهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيْدَةً وَقَالَ : إِنْ رَاَيْتُمْ اَنْ تُطْلِقُوْا لَهَا اَسِيْرَهَا وَتَرُدُّوْا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا فَافْعَلُوْا فَقَالُوْا : نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اللهِ. فَاَطْلَقُوْهُ وَرَدُّوْا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
30 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في فداء الأسير بالمال، 3 / 62، الرقم : 2692، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 276، الرقم : 26405، والحاکم في المستدرک، 4 / 48، الرقم : 6840، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 426.428، الرقم : 1050.
’’حضور نبی اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کی زوجہ مبارکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب اہلِ مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھی (اپنے شوہر) ابو العاص بن ربیع کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہ کا وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں شادی کے وقت دے کر ابو العاص کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جب رسول اللہ ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو آپ ﷺ (کے قلبِ اقدس) پر شدید رقت طاری ہوگئی اور آپ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب رضی اللہ عنہا) کے قیدی کو اس کے لیے چھوڑ دو اور اس کا مال بھی اسے واپس کردو۔ تو انہوں نے اسی طرح کیا۔ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ! سو انہوں نے اسے (ابو العاص کو) آزاد کر دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کا وہ ہار بھی لوٹا دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، احمد نے مذکورہ الفاظ میں اور طبرانی و حاکم نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
31. عَنْ يَحْيَی بْنِ اَبِي کَثِيْرٍ، لَمَّا کَانَ يَوْمَ بَدْرٍ اَسَرَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ سَبْعِيْنَ رَجُلًا فَکَانَ مِمَّنْ أسِرَ عَبَّاسٌ عَمُّ رُسُوْلِ اللهِ ﷺ فَوُلِّيَ وَثَاقُه عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عَبَّاسٌ : اَمَا وَاللهِ يَا عُمَرُ، مَا يَحْمِلُکَ عَلٰی شَدِّ وَثَاقِي إِلَّا لَطْمِي إِيَاکَ فِي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ عُمَرُ : وَاللهِ، مَا زَادَتْکَ تِلْکَ عَلَيَّ إِلَّا کَرَامَةً وَلٰکِنَّ اللهَ اَمَرَنِي بِشَدِّ الْوَثَاقِ، قَالَ : فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَسْمَعُ اَنِيْنَ الْعَبَّاسِ فَلَا يَأتِيْهِ النَّوْمُ فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا يَمْنَعُکَ مِنَ النَّوْمِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَيْفَ اَنَامُ وَاَنَا اَسْمَعُ اَنِيْنَ عَمِّي؟ قَالَ : فَزَعَمُوْا اَنَّ الاَنْصَارَ اَطْلَقُوْهُ مِنْ وَثَاقِه وَبَاتَتْ تَحْرُسُه.
رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ سَعْدٍ.
31 : أخرجه المتقي الهندي في کنز العمال، 10 / 190، الرقم : 30006، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 26 / 290، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 13، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 812.
’’حضرت یحییٰ بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن مسلمانوں نے مشرکین کے ستّر افراد کو قید کرلیا۔ اور ان قیدیوں میں سے ایک حضور نبی اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہیں (قید میں) باندھنے کی ذمہ داری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا اے عمر! مجھے سخت باندھنے پر تمہیں اس تھپڑ نے اُکسایا ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے معاملہ میں تمہیں مارا تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! اس تھپڑ نے تو میری عزت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مجھے قیدیوں کو باندھنے کا حکم ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عباس کے کراہنے کی آواز سنتے تو آپ ﷺ کو نیند نہیں آتی تھی، تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کون سی چیز آپ کی نیند میں حائل ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کیسے سو سکتا ہوں اس حال میں کہ میں اپنے چچا جان کے کراہنے کی آواز سن رہا ہوں! راوی نے بیان کیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ (آپ ﷺ کا یہ فرمان سن کر) انصار نے انہیں بندشوں سے آزاد کردیا اور رات بھر ان کی حفاظت کرتے گزاری۔‘‘
اسے امام متقی ہندی، ابن عساکر اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ أمَيَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ خالِدٍ اَنَّه قَالَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما : إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فِي الْقُرْآنِ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما : يَا ابْنَ اَخِي، إِنَّ اللهَ عزوجل بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا، وَإِنَّمَا نَفْعَلُ کَمَا رَاَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ يَفْعَلُ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ وَرُوَاتُه ثِقَاتٌ.
32 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب تقصير الصلاة في السفر، باب تقصير الصلاة في السفر، 3 / 117، الرقم : 1434، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب تقصير الصلاة في السفر، 1 / 339، الرقم : 1066، ومالک في الموطأ، 1 / 145، الرقم : 334، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 65، 94، الرقم : 5333، 5863، والحاکم في المستدرک، 1 / 388، الرقم : 946.
’’حضرت اُمیہ بن عبد اللہ بن خالد بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے دریافت کیا کہ ہم قرآن میں حضر نماز اور نماز خوف کے اَحکام تو پاتے ہیں لیکن قصر نماز کے متعلق ہم قرآن میں حکم نہیں پاتے تو انہوں نے فرمایا : اے میرے بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کو (ہادی بناکر) مبعوث فرمایا اور ہم توکچھ بھی نہ جانتے تھے، اور ہم تو صرف وہی کرتے ہیں جیسے ہم نے اپنے آقا حضرت محمد ﷺ کو کرتے دیکھا ہے۔‘‘
اسے امام نسائی، ابن ماجہ، مالک اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
33. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ وَاَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنهما يَقُوْلَانِ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَومًا قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه . ثَ.لَاثَ مَرَّاتٍ . ثُمَّ اَکَبَّ، فَاَکَبَّ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْکِي لَا نَدْرِي عَلٰی مَاذَا حَلَفَ ثُمَّ رَفَعَ رَأسَه، فِي وَجْهِهِ الْبُشْرٰی فَکَانَتْ اَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. ثُمَّ قَالَ : مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ وَيُخْرِجُ الزَّکَاةَ وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ السَّبْعَ إِلَّا فُتِّحَتْ لَه اَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَقِيْلَ لَهُ : ادْخُلْ بِسَلَامٍ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
33 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5 / 8، الرقم : 2438، وأيضًا في السنن الکبری، 2 / 5، الرقم : 2218، والمنذري في الترغيب والترهيب،1 / 299، الرقم : 1103، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 170.
’’حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہما دونوں کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!) آپ نے تین دفعہ فرمانے کے بعد سرِ اَقدس جھکا لیا، ہم سب بھی سرنگوں ہو کر رونے لگے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے حلف کیوں اُٹھایا۔ پھر آپ ﷺ نے سرِ انور اٹھایا تو آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر رونق تھی اور آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس پر خوشی کے آثار ہمیں سرخ اونٹوں سے بھی بڑھ کر پسندیدہ تھے۔ آپ ﷺ فرمانے لگے : جو شخص پانچ نمازیں پڑھے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے، اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ أَبَا مُوْسٰی رضي الله عنه کَانَ بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ فَصَلَّی الْعِشَائَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَةً أَوْتَرَ بِهَا فَقَرَأَ فِيْهَا بِمِائَةِ آيَةٍ مِنَ النِّسَائِ، ثُمَّ قَالَ : مَا أَلَوْتُ أَنْ أَضَعَ قَدَمَيَّ حَيْثُ وَضَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَدَمَيْهِ وَأَنَا أَقْرَأُ بِمَا قَرَأَ بِه رَسُوْلُ اللهِ ﷺ .
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّيَالِسِيُّ.
34 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب القرائة في الوتر، 3 / 243، الرقم : 1728، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 446، الرقم : 1424، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 419، الرقم : 19775، والطيالسي في المسند، 1 / 69، الرقم : 512.
’’حضرت ابو مجلز رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان عشاء کے وقت دورکعت نماز پڑھی پھر وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز وتر اداکی جس میں سورہ نساء کی سو (100) آیات تلاوت کیں اور پھر فرمایا : میں نے ( حضورنبی اکرم ﷺ کی اتباع میں) اپنی پوری پوری کوشش کی ہے کہ میرے قدم وہیں پڑیں جہاںحضور نبی اکرم ﷺ کے قدم مبارک پڑتے تھے اور میں انہی آیات کی تلاوت کروں جن کی آپ ﷺ نے (اس مقام پر) تلاوت فرمائی تھی۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، احمد اور طیالسی نے رویت کیا ہے۔
35. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ اَبِيهِ عَنْ جَدِّه رضي الله عنه قَالَ : اَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْ ثَنِيَةِ اَذَاخِرَ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَعَلَيَّ رَيْطَةٌ مُضَرَّجَةٌ بِالْعُصْفُرِ، فَقَالَ : مَا هٰذِه؟ فَعَرَفْتُ مَا کَرِهَ، فَاَتَيْتُ اَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُوْنَ تَنُّوْرَهُمْ، فَقَذَفْتُهَا فِيْهِ ثُمَّ اَتَيْتُه مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ : يَا عَبْدَ اللهِ، مَا فَعَلَتِ الرَّيْطَةُ؟ فَاَخْبَرْتُه، فَقَالَ : اَلَا کَسَوْتَهَا بَعْضَ اَهْلِکَ فَإِنَّه لَا بَأسَ بِذَالِکَ لِلنِّسَائِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
35 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب اللباس، باب کراهية المعصفر للرجال، 2 / 1191، الرقم : 3603، وأبو داود في السنن، کتاب اللباس، باب الحمرة، 4 / 52، الرقم : 4066، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 196، الرقم : 6852، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 159، الرقم : 24733.
’’حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے والد، اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا : ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہمارا گزر اذاخر کی گھاٹی میں سے ہوا۔ آپ ﷺ کی مجھ پر نظر پڑی، میں کسم میں رنگی ہوئی ایک باریک چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا : یہ کیا ہے؟ میں آپ ﷺ کے پوچھنے (کے انداز) سے فوراً سمجھ گیا کہ آپ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا ہے لہٰذا میں فوراً گھر پہنچا اور پہنچتے ہی اسے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا وہ جل کر راکھ ہوگیا دوسرے دن جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : اے عبد اللہ! تمہاری وہ چادر کیا ہوئی میں نے تمام واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اپنے گھر والوں میں سے کسی کو کیوں نہ پہنا دیا، یقینا عورتوں کے لیے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو داود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
36. عَنِ الْبَرَائِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا وَصُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَی الْکَعْبَةِ بَعْدَ دُخُوْلِه إِلَی الْمَدِيْنَةِ بِشَهْرَيْنِ وَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا صَلّٰی إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ اَکْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِه فِي السَّمَائِ وَعَلِمَ اللهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّه ﷺ اَنَّه يَهْوَی الْکَعْبَةَ، فَصَعِدَ جِبْرِيْلُ فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُتْبِعُه بَصَرَه وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ يَنْظُرُ مَا يَأتِيهِ بِه فَاَنْزَلَ اللهُ : ﴿ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَائِ﴾ (البقرة، 2 : 144) فَاَتَانَا آتٍ فَقَالَ : إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَی الْکَعْبَةِ وَقَدْ صَلَّيْنَا رَکْعَتَيْنِ إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَنَحْنُ رُکُوْعٌ فَتَحَوَّلْنَا فَبَنَيْنَا عَلٰی مَا مَضٰی مِنْ صَلَاتِنَا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : يَا جِبْرِيْلُ، کَيْفَ حَالُنَا فِي صَلَاتِنَا إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَاَنْزَلَ اللهُ عزوجل ﴿وَمَا کَانَ اللهُ لِيُضِيْعَ إِيْمَانَکُمْ﴾(البقرة، 2 : 143).
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّيَالِسِيُّ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ رِجَالُه ثِقَاتٌ.
36 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب القبلة، 1 / 322، الرقم : 1010، والطيالسي في المسند، 1 / 77، الرقم : 566، والدار قطني في السنن، 1 / 273، الرقم : 2، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 123، الرقم : 367.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہم نے اٹھارہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف (رُخ کر کے) نماز پڑھی اور یہ (تبدیلی قبلہ کا) واقعہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کے دو ماہ بعد کا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اوقات اپنا چہرۂ اقدس آسمان کی جانب اٹھاتے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی کریم ﷺ کے قلبِ اطہر کا حال معلوم تھا کہ آپ ﷺ کی دلی خواہش کعبہ ہے۔ ایک بار جب حضرت جبرائیل ں اوپر چڑھے تو آپ ﷺ نے ان پر نگاہیں لگائے رکھیں جبکہ وہ آسمان و زمین کے درمیان چڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ انتظار میں تھے کہ کیا حکم لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی کے بعد) ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور کہا کہ قبلہ، کعبہ کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اس وقت ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف پڑھ چکے تھے اور رکوع میں تھے تو ہم (کعبہ کی طرف) پھر گئے اور جتنی نماز ہم پڑھ چکے تھے اس پر باقی نماز کی بناء کی (از سر نو نماز شروع نہیں کی) پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے جبرئیل! ہماری ان نمازوں کا کیا ہوگا جو بیت المقدس کی طرف پڑھیں (یعنی وہ بے کار ہو جائیں گی یا اُن کا اجر ملے گا؟) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طیالسی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا : یہ اسناد صحیح اور رجال ثقات ہیں۔
37. عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فِي سَفَرٍ فَمَرَّ بِمَکَانٍ، فَحَادَ عَنْهُ، فَسُئِلَ : لِمَ فَعَلْتَ ذَالِکَ؟ فَقَال : رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَعَلَ هٰذَا فَفَعَلْتُ. رَوَاهُ اَحْمَدُ، وَرِجَالُه مُوَثِّقُوْنَ وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : إِسْنَادُه جَيِّدٌ.
37 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 32، الرقم : 4870، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 43، الرقم : 74، والهيثمي في مجمع الزوائد،1 / 174، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 56، وأيضًا في شرحه علی سنن ابن ماجه، 1 / 2، والعظيم آبادي في عون المعبود، 2 / 195.
’’حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ وہ ایک جگہ کے پاس سے گزرے تو اس کے راستہ سے ہٹ کر چلے۔ پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ (آپ ﷺ اس راستہ سے گزرے تو) آپ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ اس لیے میں نے بھی ایسا کیا ہے۔‘‘
اسے امام احمد نے ثقہ رجال کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اس کی اسناد جید ہے۔
38. عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : کُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما بِعَرَفَاتٍ، فَلَمَّا کَانَ حِيْنَ رَاحَ رُحْتُ مَعَه حَتّٰی أَتَی الإِمَامُ فَصَلّٰی مَعَهُ الْأوْلٰی وَالْعَصْرَ، ثُمَّ وَقَفَ وَأَنَا وَأَصْحَابٌ لِي حَتّٰی أَفَاضَ الإِمَامُ فَأَفَضْنَا مَعَه حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلَی الْمَضِيْقِ دُوْنَ الْمَأْزِمِيْنَ، فَأَنَاخَ وَأَنَخْنَا، وَنَحْنُ نَحْسَبُ أَنَّه يُرِيْدُ أَنْ يُصَلِّيَ، فَقَالَ غُلَامُهُ الَّذِي يُمْسِکَ رَاحِلَتَه : إِنَّه لَيْسَ يُرِيْدُ الصَّلَاةَ وَلٰکِنَّه ذَکَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا انْتَهٰی إِلٰی هٰذَا الْمَکَانِ قَضٰی حَاجَتَه فَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَتَه.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرُوَاتُه مُحْتَجٌّ بِهِمْ فِي الصَّحِيْحِ.
38 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 131، الرقم : 6151، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 43، الرقم : 76، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 174، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 56.
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں میدانِ عرفات میں حصرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا جب کسی عمل کا وقت ہوتا، وہ جو کرتے میں بھی ان کے ساتھ وہی کرتا حتی کہ امام آ گیا تو انہوں نے نمازِ ظہر و عصر اس کے ساتھ پڑھی۔ پھر آپ کے ساتھ ہی میں نے اور میرے ساتھیوں نے بھی وقوف کیا۔ یہاں تک کہ امام عرفات سے لوٹا تو ہم بھی لوٹے جب ’’مازمین‘‘ (ایک جگہ کا نام) کے قریب ایک گھاٹی میں پہنچے تو آپ نے اپنی سواری کے اونٹ کو بٹھایا۔ ہم نے بھی اپنے اونٹ بٹھا دیے۔ ہمارا خیال تھا کہ آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کے غلام نے جو ان کی سواری پکڑا کرتا تھا بتایا کہ آپ (اس جگہ) نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اس نے کہا کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ اس جگہ پہنچے تھے تو آپ ﷺ نے یہاں اپنا کوئی کام سر انجام دیا تھا تو (اسی وجہ سے اتباع رسول ﷺ میں) آپ بھی پسند کرتے ہیں کہ یہاں اپنا کوئی کام سر انجام دیں۔‘‘
اس حدیث کو امام اَحمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث میں حجت ہیں۔
39. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّه کَانَ يَأتِي شَجَرَةً بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَيَقِيْلُ تَحْتَهَا، وَيُخْبِرُ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ يَفْعَلُ ذَالِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِه کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ.
39 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 198، الرقم : 3968، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 43، الرقم : 75، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 175، وقال : رواه البزار ورجاله موثقون، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 2، وأيضًا في مفتاح الجنة، 1 / 57، والعظيم آبادي في عون المعبود، 2 / 195.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک درخت کے پاس آیا کرتے تو اس کے نیچے قیلولہ (دوپہر کو سونا، آرام کرنا) کرتے اور بتاتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی(اس درخت کے نیچے) قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور بزار نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا جیسا کہ امام منذری نے کہا ہے۔
40. عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي اللہ عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُوْحٰی إِلَيْهِ وَرَأسُه فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللّٰهُمَّ، إِنَّ عَلِيا کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ. قَالَتْ أَسْمَائُ رضي اللہ عنها : فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ وَالْقَاضِي عِيَاضُ، وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ حَسَنٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
40 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 / 147، الرقم : 390، والطحاوي في مشکل الآثار، 2 / 9، وأيضًا، 4 / 388. 389، والقاضي عياض في الشفا / 400، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 314، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبي في السيرة، 2 / 103، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197.
رواه الطبراني بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوي في مشکل الآثار وللحديث طرق أخري عن أسماء، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدري ث .
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اللہ بن عبد اللہ الحسکا المتوفی سنة (470ه) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي في الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبراني بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث . الآثار. بإِسنادين صحيحين.
وقال الإمام النووي في شرح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضي رضی اللہ عنہ : أن نبينا ﷺ حبست له الشمس مرّتين. . . ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات.
ونقله عنه الحافظ ابن حجر في تلخيص الحبير، (1 / 195)، وحسّنه الحافظ أبو زرعة العراقي في تکملة الکتاب والده ’’طرح التثريب‘‘ (7 / 274).
’’حضرت اَسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سرِ اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا، وہ عصر کی نماز نہیں پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعاکی : اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اَسماء فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
اسے امام طبرانی، طحاوی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ماسوا ابراہیم بن حسن کے جو کہ ثقہ ہیں۔
41. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ : وَقَدْ کَانَ النَّاسُ انْهَزَمُوْا عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتَّی انْتَهٰی بَعْضُهُمْ دُوْنَ الْاَعْرَاضِ إِلٰی جَبَلٍ بِنَاحِيَةِ الْمَدِيْنَةِ، ثُمَّ رَجَعُوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَقَدْ کَانَ حَنْظَلَةُ بْنُ اَبِي عَامِرٍ الْتَقٰی هُوَ وَاَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَلَمَّا اسْتَعَلَاهُ حَنْظَلَةُ رَآهُ شَدَّادُ بْنُ الْاَسْوَدِ فَعَلَاهُ شَدَّادٌ بِالسَّيْفِ حَتّٰی قَتَلَه، وَکَادَ يَقْتُلُ اَبَا سُفْيَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ صَاحِبَکُمْ حَنْظَلَةَ تَغْسِلُهُ الْمَلَائِکَةُ، فَسَلُوْا صَاحِبَتَه. فَقَالَتْ : خَرَجَ وَهُوَ جُنُبٌ لَمَّا سَمِعَ الْهَائِعَةَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَذَاکَ قَدْ غَسَلَتْهُ الْمَلَائِکَةُ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
41 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 495، الرقم : 7025، والحاکم في المستدرک، 3 / 225، الرقم : 4917، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 15، الرقم : 6606، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 357.
’’حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جبکہ لوگ حضور نبی اکرم ﷺ سے دور جا چکے تھے، یہاں تک کہ بعض لوگ مدینہ کی ایک طرف ایک پہاڑ کے پاس بغیر ساز و سامان کے پہنچ گئے تھے۔ پھر وہ واپس حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آگئے۔ اسی دوران حضرت حنظلہ بن ابی عامر کا سامنا ابو سفیان بن حرب سے ہو گیا پس جب حضرت حنظلہ اس پر حملہ آور ہو رہے تھے تو شداد بن اسود نے انہیں دیکھ لیا، اور ان پر تلوار کے ساتھ حملہ آور ہو کر انہیں شہید کر دیا، اور اس وقت وہ ابو سفیان کو قتل کرنے ہی والے تھے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارا دوست حنظلہ ہے جسے ملائکہ غسل دے رہے ہیں، پس اس کی اہلیہ سے اس کی وجہ پوچھو۔ (صحابہ کے پوچھنے پر) آپ کی اہلیہ نے کہا کہ جب انہوں (حضرت حنظلہ) نے جنگ کی پکار سنی اس وقت وہ جنبی تھے (اور بغیر نہائے فوراً دربار مصطفی ﷺ میں حاضر ہوگئے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ ملائکہ نے انہیں غسل دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ الله ﷺ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَإِنَّکَ لَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَاَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَاَذْکُرُکَ، فَمَا اَصْبِرُ حَتّٰی آتِيَکَ، فَاَنْظُرُ إِلَيْکَ، وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ اَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيِّيْنَ، وَاَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ اَنْ لَا اَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَيْئًا، حَتّٰی نَزَلَ جِبْرِيْلُ بِهٰذِهِ الْآيَةِ : ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَأوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ. . .﴾ [النساء، 4 : 69]، فَدَعَا بِه، فَقَرَاَهَا عَلَيْهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 240، 8 / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان، اہل و عیال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہوکر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ں اس آیت مبارکہ کو لے کر نازل ہوئے اور جو کوئی اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ پس آپ ﷺ نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘
اسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
وفي رواية : عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضي الله عنه في قصة طويلة : أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضي الله عنه إِلٰی قُرَيْشٍ . . . فَدَعَوْا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضي الله عنه لِيَطُوْفَ بِالْبَيْتِ، فَأَبٰی أَنْ يَطُوْفَ وَقَالَ : مَا کُنْتُ لَا اَطُوْفُ بِه حَتّٰی يَطُوْفَ بِه رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، کتاب الجزية، باب المهادنة علی النظر للمسلمين، 9 / 221، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 369.
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے طویل واقعہ میں مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو (صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنا سفیربنا کر) کفارکی طرف روانہ کیا (مذاکرات کے بعد) انہوںنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو طواف کعبہ کی دعوت دی تو انہوں نے فوراً انکار کردیا اور فرمایا : اللہ کی قسم! میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گاجب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہیں کر لیتے اور پھر (بغیر طواف کیے) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں واپس آگئے۔‘‘
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ اَبِي الْاَسْوَدِ قَالَ : اِخْتَصَمَ رَجُلَانِ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَضٰی بَيْنَهُمَا، فَقَالَ الْمُقْتَضٰی عَلَيْهِ رُدْنَا إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَعَمْ، إِنْطَلَقَا إِلَيْهِ، فَلَمَّا اَتَيَا إِلَيْهِ فَقَالَ الرَّجُلُ : يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، قَضٰی لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی هٰذَا، فَقَالَ : رُدْنَا إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَرُدَّنَا إِلَيْکَ. فَقَالَ : اَکَذَاکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ : مَکَانَکُمَا حَتّٰی اَخْرُجَ إِلَيْکُمَا فَاَقْضِي بَيْنَکُمَا، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا مُشْتَمِلًا عَلٰی سَيْفِه، فَضَرَبَ الَّذِي قَالَ : رُدْنَا إِلٰی عُمَرَ، فَقَتَلَه فَاَدْبَرَ الْآخَرُ، فَاَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَتَلَ عُمَرُ، وَاللهِ، صَاحِبِي، وَلَوْلَا اَعْجَزْتَه لَقَتَلَنِي. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا کُنْتُ اَظُنُّ اَنْ يَجْتَرِيَ عُمَرُ عَلٰی قَتْلِ مُؤْمِنٍ. فَاَنْزَلَ اللهُ : ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ﴾ [النساء، 4 : 65].
وفي رواية : قَالَ (عُمَرُ) : هٰکَذَا اَقْضِي بَيْنَ مَنْ لَمْ يَرْضَ بِقَضَائِ اللهِ وَقَضَاءِ رَسُوْلِه ﷺ . فَاَتٰی جِبْرَئِيْلُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ عُمَرَ قَدْ قَتَلَ الرَّجُلَ وَفَرَّقَ اللهُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ رضی الل عنه .
رَوَاهُ ابْنُ کَثِيْرٍ، وَالسُّيُوْطِيُّ، وَالْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجه ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 522، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 582، 585، والعيني في عمدة القاري، 12 / 203، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2321، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 1 / 329، الرقم : 339.
’’ایک روایت میں حضرت ابو اسود بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی اپنا جھگڑا (تصفیہ کی غرض سے) لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس (برائے تصفیہ) بھیج دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، اسی کے پاس چلے جاؤ۔ جب وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ایک شخص نے (سارا قصہ بیان کرتے ہوئے) کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ فرمایا ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ ہمیں عمر کے پاس بھیج دیں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں آپ کے پاس بھیج دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (دوسرے آدمی سے) پوچھا : کیا ایسا ہی ہوا ہے؟ اس نے کہا : ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہاں اپنی جگہ پر ہی رکے رہو، میں ابھی تمہارے پاس آ کر تمہارے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوبارہ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں تلوار تھی آپ نے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے کہا تھا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیں۔ (یہ حالات دیکھ کر) دوسرا شخص وہاں سے بھاگ نکلا اور بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کرعرض گزار ہوا : یا رسول اللہ، بخدا! عمر نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اگر میں وہاں سے نہ بھاگتا تو وہ مجھے بھی قتل کر دیتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرا نہیں خیال کہ عمر کسی مومن کو قتل کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : پس (اے حبیب!) آپ کے ربّ کی قسم! یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ (اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں) آپ کو حاکم بنا لیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا اس کے درمیان میں اس طرح سے فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت جبریل ں (فوراً) بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : یا رسول اللہ! بے شک عمر نے (منافق) شخص کو قتل کیا ہے (جس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق و باطل کے درمیان فرق کر دیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو حافظ ابن کثیر، امام سیوطی اور حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : لَبِسَ عُمَرُ رضي الله عنه قَمِيْصًا جَدِيْدًا ثُمَّ دَعَانِي بِشَفْرَةٍ، فَقَالَ : مُدَّ يَا بُنَيَّ، کَمْ قَمِيْصِي، وَالْزَقْ يَدَيْکَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِي، ثُمَّ اقْطَعْ مَا فَضَلَ عَنْهَا، فَقَطَعْتُ مِنَ الْکُمَّيْنِ مِنْ جَانِبَيْهِ جَمِيْعًا، فَصَارَ فَمُ الْکُمِّ بَعْضَه فَوْقَ بَعْضٍ. فَقُلْتُ لَه : يَا اَبَتَه، لَوْ سَوَّيْتُه بِالْمِقَصِّ؟ فَقَالَ : دَعْهُ، يَا بُنَيَّ، هٰکَذَا رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَفْعَلُ فَمَا زَالَ عَلَيْهِ حَتّٰی تَقَطَّعَ، وَکَانَ رُبَّمَا رَاَيْتُ الْخُيُوْطَ تَسَاقَطُ عَلٰی قَدَمِه. رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ.
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 45.
’’ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نئی قیمص زیب تن فرمائی۔ پھر مجھے چھری لانے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا : اے بیٹے! میری قیمص کی آستین کو اپنی طرف کھینچو اور میری انگلیوں کے پوروں تک آستینیں اپنے ہاتھ سے پکڑ کر زائد حصہ کاٹ دو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں آستینوں کا بڑھا ہوا حصہ کاٹ دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا : ابا جان! اگر آپ فرمائیں تو میں قینچی کے ساتھ اس کو برابر کر دوں؟ فرمایا : چھوڑو بیٹے! میں نے نبی اکرم ﷺ کو یونہی دیکھا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اس کے بعد وہ قیمص آپ کے بدن مبارک پر ہمیشہ رہی حتیٰ کہ پھٹ گئی اور بعض اوقات میں دیکھتا کہ اس کے دھا گے آپ کے قدموں پر گر رہے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : رُئِيَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما يُدِيْرُ نَاقَتَه فِي مَکَانٍ فَسُئِلَ عَنْهُ، فَقَالَ : لَا اَدْرِي إِلَّا اَنِّي رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَعَلَه، فَفَعَلْتُه. رَوَاهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ.
ذکره القاضي عياض في الشفا / 489.
’’ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک مقام پر اپنی اونٹنی کو گھوماتے ہوئے دیکھا گیا تو آپ سے اس بابت پوچھا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو (اس مقام پر) ایسا کرتے دیکھا لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔‘‘ اسے امام قاضی عیاض نے بیان کیا ہے۔
قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ : إِعْلَمْ اَنَّ مَنْ اَحَبَّ شَيْئًا آثَرَه وَآثَرَ مُوَافَقَتَه، وَإِلَّا لَمْ يَکُنْ صَادِقًا فِي حُبِّه، وَکَانَ مُدَّعِيا. فَالصَّادِقُ فِي حُبِّ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ تَظْهَرُ عَلَامَةُ ذَالِکَ عَلَيْهِ، وَاَوَّلُهَا : الْاِقْتِدَائُ بِه، وَاسْتِعْمَالُ سُنَّتِه، وَاتِّبَاعُ اَقْوَالِه وَاَفْعَالِه وَامْتِثَالُ أَوَامِرِه، وَاجْتِنَابُ نَوَاهِيْهِ، وَالتَّاَدُّبُ بِآدَابِه فِي عُسْرِه وَيُسْرِه، وَمَنْشَطِه وَمَکْرَهِه، وَشَاهِدُ هٰذَا قَوْلُه تَعَالٰی : ﴿قُلْ إِنْ کُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللهُ﴾ [آل عمران، 3 : 31].
ذکره القاضي عياض في الشفا / 499.
’’قاضی عیاض رَحِمَۃُ اللہ فرماتے ہیں : اس بات کو خوب جان لو کہ جو شخص جس کی محبت رکھتا ہے وہ اسے سب پر ترجیح دیتا ہے اور اسی کی موافقت اختیار کرتا ہے بصورت دیگر وہ اس کی محبت میں سچا نہیں جس کی وہ محبت کا دھرم بھرتا ہے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں صرف وہ سچا ہے جس پر اس کی علامتیں ظاہر ہوں. محبت کی پہلی علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیروی کرے اور آپ ﷺ کی سنت کا عامل ہو۔ آپ ﷺ کے افعال و اقوال کی اتباع کرے، آپ ﷺ کے حکم کو بجا لائے اور ممنوع اُمور سے اجتناب کرے، تنگی و فراخی، خوشی و غمی ہر حال میں آپ ﷺ کے آداب سے موعظت و نصیحت حاصل کرے۔ اس علامت کی حجت و دلیل اس آیت کریمہ میں ہے کہ : ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
قَالَ الْإِمَامُ الْقَسْطَلَّانِيُّ : وَلَا يُحِبُّکَ إِلَّا إِذَا اتَّبَعْتَ حَبِيْبَه ظَاهِرًا وَبَاطِنًا، وَصَدَقْتَه خَبَرًا، وَأَطَعْتَه أَمْرًا، وَأَجَبْتَه دَعْوَةً، وَآثَرْتَه طَوْعًا، وَفَنِيْتَ عَنْ حُکْمِ غَيْرِه بِحُکْمِه، وَعَنْ مَحَبَّةِ غَيْرِه مِنَ الْخَلْقِ وَعَنْ طَاعَةِ غَيْرِه بِطَاعَتِه، وَإِنْ لَمْ تَکُنْ کَذَالِکَ فَلَا تَتَعَنَّ، فَلَسْتَ بِشَيئٍ.
ذکره الإمام القسطلاني في المواهب اللّدنّية، 2 / 491.
’’امام قسطلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت نہیں کرے گا مگر جب تم ظاہری و باطنی طور پر اس کے محبوب ﷺ کی اتباع کرو ۔ان کی خبر کی تصدیق کرو۔ ان کا حکم مانو، ان کی دعوت قبول کرو اور برضا و رغبت آپ ﷺ کو ترجیح دو۔ ان کے حکم کے مقابلے میں ان کے غیر کے حکم سے، ان کی محبت میں غیر کی محبت اور ان کی اطاعت میں غیر کی اطاعت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو فنا کر دو، اگر ایسا نہ ہو تو پھر تھکاوٹ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ (بغیر اطاعت مصطفی ﷺ کے)تم کسی راہ پر نہیں ہو۔‘‘
قَالَ الْإِمَامُ الْقَسْطَلَّانِيُّ : فَاتِّبَاعُ هٰذَا النَّبِيِّ الْکَرِيْمِ حَيَاةُ الْقُلُوْبِ، وَنُوْرُ الْبَصَائِرِ، وَشِفَائُ الصُّدُوْرِ، وَرِيَاضُ النُّفُوْسِ، وَلَذَّةُ الْأَرْوَاحِ، وَأَنَسُ الْمُسْتَوْحِشِيْنَ، وَدَلِيْلَ الْمُتَحَيِّرِيْنَ. وَقَالَ أَيْضًا : مِنْ عَلَامَاتِ مَحَبَّتِه ﷺ : مَحَبَّةُ سُنَّتِه، وَقِرَائَةُ حَدِيْثِه، فَإِنَّ مَنْ دَخَلَتْ حَلَاوَةُ الْإِيْمَانِ فِي قَلْبِه إِذَا سَمِعَ کَلِمَةً مِنْ کَلَامِ اللهِ تَعَالٰی، أَوْ مِنْ حَدِيْثِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ تَشَرَّبَتْهَا رُوْحَه وَقَلْبَه وَنَفْسَه.
ذکره الإمام القسطلاني في المواهب اللّدنّية، 2 / 493، 499.
’’امام قسطلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع دلوں کی حیات، بصیرتوں کا نور، دلوں کی شفاء، نفوس کے باغات، اَرواح کی لذت، وحشت زدہ لوگوں کا اُنس اور حیران لوگوں کی رہنما ہے۔ امام قسطلانی مزید بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل اور آپ ﷺ کی حدیث مبارک پڑھنے کی چاہت ہو، بے شک جس آدمی کے دل میں ایمان کی چاشنی داخل ہو جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں سے کوئی کلمہ یا کوئی حدیث رسول ﷺ سنتا ہے تو وہ اس کی روح، دل اور نفس میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved