سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاْعتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وّلَا تَفَرّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآء فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا.
(آلِ عمران،3 : 103)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو اور اپنے اُوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔
اس آیۂ کریمہ میں آپس میں نفاق ڈالنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور مسلمانوں کے آپس میں بھائی بھائی ہونے کو اللہ کی بہت بڑی نعمت کہا گیا ہے۔ سورۃ انعام میں مسلمانوں کو واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ وہ ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہ رکھیں جو دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُن کی وحدت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ.
(الانعام،6 : 159)
بے شک جن لوگوں نے (جدا جدا رہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے۔ آپ کسی چیز میں ان کے تعلق دار اور ذمہ دار نہیں ہیں۔
ان آیات میں اسلامی معاشرے کے قیام کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اسلامی معاشرے کی کامیابی کی پہلی شرط یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر فرد اپنی جگہ اپنی بساط کے مطابق اس ذمہ داری کو ادا کرے، اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلّا وُسْعَھَا.
(البقرہ،2 : 206)
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔
اس آیت میں جہاں انسانوں پر ان کی استطاعت سے بڑھ کر ذمہ داری نہ ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں بالواسطہ طور پر اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ اگر کوئی اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اپنی انفرادی ذمہ داری نہ نبھائے گا تو اللہ کے ہاں روزِ حساب اس کی گرفت ہوگی اور اس سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ اگر مسلم معاشرے کے تمام افراد اپنے اندر انفرادی ذمہ داری کا یہ احساس اُجاگر کرلیں تو سمجھو کامیابی کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔
اتحادِ اُمت کا خواب اس وقت پورا ہو گا جب اسلامی معاشرے کو صحیح خطوط پر منظم کر لیا جائے، جس کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعیت کا تصور جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔ اسے حقیقت کے قالب میں ڈھالا جا سکے اس سلسلے میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور خود نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہمارے لئے مشعلِ ہدایت ہیں۔
ارشادِ خُداوندی ’’ وَاْعتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وّلا تَفَرّقُوا‘‘ میں وحدت کا تصور اور فلسفہ بیان کیا گیا، اس آیت کے دو حصوں میں پہلا حصہ ’’امر‘‘ اور دوسرا حصہ ’’نہی‘‘ ہے۔ پہلے حصہ امر میں اتحادِ اُمت کی تعلیم دی گئی ہے، جبکہ ’’نہی‘‘ والے حصے میں تفرقہ بازی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن و سنت کے زیادہ تر احکام ’’امر‘‘ کی نوعیت کے ہوتے ہیں یا ’’نہی‘‘ کی نوعیت کے۔ آج کی قانونی زبان میں ان کو کرنے والے احکام (Acts of Commission) اور نہ کرنے والے احکام(Acts of Omission) کہا جاتا ہے۔ سورۃ آلِ عمران کی مذکورہ آیت میں مثبت اور منفی دونوں احکام کو اکٹھا کر دیا گیا۔ اس میں اہلِ ایمان سے خطاب کرکے واضح طور پر انہیں آپس میں باہم شر و شکر ہو کر رہنے اور تفرقہ و انتشار سے ہر حال میں بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ آیت اُخوت و اتحاد کی دعوتِ عام ہے اور اس میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ دیکھنا کہیں اس لعنت میں گرفتار نہ ہو جانا۔
اتحادِ اُمت جسے اتحاد بین المسلمین بھی کہا جاتا ہے، حقیقی معنوں میں وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام دُشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اُمت میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اس کو فروغ دینے کے لئے ایک سات نکاتی فارمولا دیا گیا، جو کتاب ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟‘‘ میں شائع کر دیا گیا تھا۔
منہاج القرآن کی صورت میں احیائے اسلام کے مشن کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بے پایاں احسان ہے کہ تحریک کے اجتماعات میں اہلحدیث، دیوبندی اور شیعہ غرضیکہ تمام مسالک کے افراد شرکت کرتے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان میں ہرمکتبِ فکر کے اہلِ نظر اور صائب الرائے حضرات شریک ہوتے ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن احیائے اسلام اور اتحادِ اُمت کا بیڑہ اُٹھائے ہوئے ہے۔ اس کا طریقِ کار یہ ہے کہ کوئی بھی اس کی دعوت پر لبیک کہے اور اس کے مشن کے مقاصد سے اتفاق کرے تو اسے تحریک کا دست و بازو بننے کے لئے کہا جاتا ہے۔ بحمد اللہ قائدِ تحریک کی تحریروں اور تقریروں میں ایسے مسائل کو نہیں اُچھالا جاتا، جن کا تعلق اُصولِ دین سے نہیں بلکہ فروعات سے ہو۔ اللہ کے فضل سے تحریک منہاج القرآن کی دعوت اتنی معتدل اور معقول دعوت ہے کہ جس کے دل میں یہ پیغام اُتر جائے وہ کبھی اس سے بیگانہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارا اُصول یہ ہے کہ ہم کسی مسلک کے اکابرین کے خلاف زبان نہیںکھولتے، یہ الگ بات کہ ہم ان کی پیروی نہ کریں، لیکن اپنے مقام کی وجہ سے وہ ہمارے لئے قابلِ احترام بزرگ ہیں۔
نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں اور جن کی وجہ سے صحیح اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آرہا، انہیں دور کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ تحریک پوری شدت سے جاری رہے اور وہ انتقال اقتدار کا مرحلہ آجائے جس کے لئے خالص نظریاتی انقلابی طرزِ عمل اپنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا انقلابی عمل ہی تحریکِ نظام مصطفی ﷺ کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
اس کے لئے لازم ہے کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والا طبقہ مکمل نظریاتی خالصیت کی ضمانت مہیا کرے۔ وہ تدبیریں جن سے مطلوبہ نظریاتی خالصیت حاصل کی جاسکتی ہے تین اصولوں کا تقاضا کرتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نظامِ مصطفی ﷺ کی تحریک کے حامی و مخالف کی طرف سے تین طرح کا رد عمل سامنے آیا ہے۔
الف) انقلابیت : جن کے اندر تحریک کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہے وہ انقلابی جذبے کے ساتھ تحریک میں شامل ہو جائیں گے۔
ب) رجعت پسندی : وہ عناصر جن کا وجود تحریک کی وجہ سے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ تحریک کو ناکام بنانے کے لئے ہر قسم کے منفی اور تخریبی ہتھکنڈوں پر اتر آئیں گے۔
ج) مفاد پرستی : تحریک کی اٹھان کے وقت بہت سے لوگ ذاتی مفاد کی آڑ میں تحریک کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ زیادہ دیر نہیں چل سکتے اور بہت جلد وہ اپنے اصلی روپ میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اب جہاں تک تحریک کی کامیابی، ناکامی یا مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کوتاہی کا تعلق ہے اس کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔
1۔ تحریک کی قیادت کرنے والے ان تین قسموں کے ردِ عمل کو جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے اصلی روپ میں پہنچانتے ہیں یا نہیں پہچانتے؟
2۔ قائدین کا طرزِ عمل ان تین طبقوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اور وہ مفاد پرست یا تخریب پسند عناصر کو دبانے کے لئے بروقت مناسب اقدام کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ مزید برآں کیا وہ انقلابی قوتوں کی حوصلہ افزائی اور صحیح سمت میں رہنمائی میں کوتاہی تو نہیں کر رہے؟
اگر قیادت ہر مرحلہ میں اوپر بیان کردہتینوں طبقوں کی صحیح پہچان اور نشان دہی کر پاتی ہے اور بروقت جرأت اور دانشمندی سے مناسب اقدام کر لیتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تحریک میں شروع ہی سے خالصیت کا رنگ نہ پیدا ہو اور مطلوبہ انقلابی نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔ اِس کے برعکس جب قیادت کسی مرحلہ پر ان معاملات میں ٹھوکر کھا جاتی ہے تو باوجود اخلاصِ نیت کے منزلِ مقصود کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔
تحریک نظامِ مصطفی ﷺ کے قائدین کے لئے یہ پہلو لمحۂ فکریہ کا درجہ رکھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ان کی ایک پکار پر وہ لاکھوں کارکن جن کے سینے مشین گنوں کے آگے تن گئے تھے اور ان گنت مائیں، بہنیں اور بیٹیاں موت کا سامنا کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئی تھیں اور بوڑھے، نوجوان اور بچے بے سروسامانی کے باوجود میدان میں نکل آئے تھے۔ آج کوئی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں؟ کیا کوئی ایسا غلط فیصلہ تو نہیں ہو گیا، جس نے قوم کی تقدیر پر رسوائیوں کی سیاہی مل دی ہے؟ آخر اس قوم نے کیا جرم کیا ہے جس کی سزا اسے بھگتنی پڑ رہی ہے؟
اس صورتِ حال کا ازالہ اب بھی ممکن ہے، اب بھی وقت ہے کہ مختلف قیادتیں انقلابی جرأت و ہمت سے رجعت پسند مفاد پرست عناصر کا صفایا کر دیں۔درج ذیل قرآنی آیات انہیں دعوتِ غوروفکر دیتی ہیں۔
1۔ وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ.
(الانفال،8 : 39)
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ باطل طاغوتی فتنہ ختم ہو جائے اور دین (ملکی نظام) کلی طور پر اللہ کے لئے ہو جائے۔
2۔ وَ مَالَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُها وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا.
(النسائ،4 : 175)
اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ راہ خدا میں جنگ نہیں کرتے؟ حالانکہ کمزور ناتواں مرد، عورتیں اور بچے (پکار پکار) کر کہتے ہیں کہ اے رب العزت !ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے باشندے جابر و ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی قدرت سے کوئی دوست اور ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دے۔
پاکستان کا قیام اسلام کے عملی نفاذ کے مطالبے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہی وجہ ہے ہر دور میں یہ مطالبہ لوگوں کے دلوں کی آواز بنا رہا، کیونکہ قیامِ پاکستان کے مقاصد صرف اسی طرح حاصل ہوسکتے ہیں کہ ہم دنیا کے سامنے یہ بات ثابت کرسکیں کہ اسلام ایک قابلِ عمل دین ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں چند تجاویز قوم کے سامنے رکھی گئی تھیں، جن میں بہرحال کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے وہ تجاویز حسبِ ضرورت ترمیم اور اضافے کے بعد اپنے اندر قومی سوچ رکھنے والے احباب کے لئے غور و خوض کا سامان رکھتی ہیں۔ اس وقت جو سیاسی مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اس کے اہم پہلو یہ ہیں:
1۔ سیاسی جماعتوں کا جواز
2۔ انتخابات کا تصور اور طریقِ کار
3۔ انتخابات میں ووٹر اور امیدوار کی شرائطِ اہلیت
4۔ نظامِ حکومت کی تشکیل
ہم ان پہلووں پر مختصراً ضروری بات کریں گے۔
1۔ اسلامی ریاست میں اسلام نے جماعتیں بنانے کی اجازت دی ہے، لیکن ان کی غرض و غایت، مقاصد اور دائرہ کار متعین کر دیا گیا ہے جس کا ذکر قرآن حکیم نے اس طرح کیا ہے:
یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہَ اِلٰی اللهِ وَ الرَّسُوْلِ.
(صحیح البخاری2 : 1078 کتاب الاخبار الاحاد رقم حدیث : 6830)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ امرکی‘ پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹا دو۔
اس ارشادِ خداوندی میں یہ حقیقت وضاحت سے بیان کردی گئی ہے کہ اسلامی ریاست میں محکوم طبقہ صرف اس وقت تک حکمرانوں کے احکام کا پابند ہے جب تک وہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کے تابع رہیں اور ان کا عمل کتاب و سنت کے ضابطوں کے مطابق ہو۔ اگر صورت حال اس کے الٹ ہوجائے تو عوام کو اجازت ہے کہ وہ ان کی اطاعت سے انکار کردیں کیونکہ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللهِ‘ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ.
(صحیح البخاری2 : 1078 کتاب الاخبار الاحاد رقم حدیث : 6830)
خدا کی معصیت اور نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی قطعاً اجازت نہیں، اطاعت صرف درست اور نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے۔
اسی طرح سیدنافاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ ارشادبھی توجہ طلب ہے۔
من دعا الی امارۃ نفسہ او غیرہ من غیر مشورۃ من المسلمین فلا یحل لکم ان لا تقتلوہ.
(کنز العمال‘5 : 778‘رقم حدیث : 14359)
جو حکمران مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر اپنی یا کسی اور کی آمریت کی دعوت دے تو تم پر آرام سے بیٹھے رہنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک تم اس کا خاتمہ نہ کردو
اس طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ جو آپ نے خلافت سنبھالتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ایھا الناس‘ فانی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم‘ فان احسنت فاعینونی و ان اسات فقوّ مونی… و اطیعونی ما اطعت اللہ ورسولہ‘ فاذا عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم.
(کنزل العمال،5 : 601، رقم حدیث : 14064)
اے لوگو مجھے تم پر حکمران مقرر کردیا گیا ہے حالانکہ میں تم سب سے بہتر نہیں ہوں پس اگر میں اچھائی کی راہ پر چلوں تو میری مدد کرنا اور اگر برائی کی راہ پر چلوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کردینا۔ تم میری اس وقت تک اطاعت کرتے رہنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نافرمان ہوجاؤں تو تم پر میرے فرمان کی اطاعت قطعاً واجب نہیں۔
یہ خطبہ ہمارے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم پارلیمانی جمہوری نظام سے اُبھرنے والی قیادت کو ان رہنما اُصولوں کی رُوشنی میں پرکھ سکتے ہیں، جو خلفائے راشدین نے قائم کئے تھے فی الحقیقت اسلام کی رُوحِ شورائیت، جمہوریت کی بنیاد ہے جس کو زندہ رکھنے کے لئے انہوں نے لائقِ تقلید مثالیں چھوڑیں، جو تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
حضور ﷺ کے وصال کے بعد انصارِ مدینہ ایک سیاسی مؤقف پر جمع ہوگئے تھے جبکہ مہاجرین کا مؤقف دوسرا تھا۔ دونوں طرف جلیل القدر صحابہ موجود تھے۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں سربراہِ مملکت کے چناؤ کے لئے دونوں نے جدا جدا امیدوار نامزد کردیئے تھے اور ان پر جمہوری انداز میں طویل بحث بھی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں انصار نے اپنا امیدوار واپس لے لیا اور بالاخر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے پر اتفاق ہوگیا۔ اس تاریخی حقیقت سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خلافتِ راشدہ میں قیام حکومت کے مسئلہ پر دو مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے طبقے پائے جاتے تھے۔ بلکہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ دو سربراہوں کے انتخابات کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی۔ مگر اسے ملی وحدت کے منافی تصور کرتے ہوئے قبول نہ کیا گیا۔ روایات سے ایک تیسرے طبقے کے وجود کا بھی پتہ چلتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا مستحق سمجھتے ہوئے انہیں اپنا امیدوار بنانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے اسے نا مناسب سمجھتے ہوئے قبول نہ کیا۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مختلف سیاسی نظریات والے لوگ موجود تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں تو کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک اپنے آ پ کو شیعانِ علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے جبکہ دوسری جماعت خارجیوںکی تھی۔ اس سے اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ اسلام میں حکومت کے قیام کے لئے سیاسی جماعت بنانے پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ مگر فتنہ پردازوں کے خلاف عمر بھر جنگیں لڑی گئیں اور یہ جنگیں اس وقت تک لڑی گئیں جب تک ان کا خاتمہ نہ ہو گیا۔
قرآن حکیم نے نیکی کے فروغ اور ہر طرح کی بدی کے خاتمے کے لئے اجتماعی جدوجہد کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں کہیں نہیں کہا گیا کہ اس مقصد کے لئے ایک سے زیادہ جماعتیں قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
2۔ اسلام نے اقتدار قائم کرنے اور حکومت بنانے کے لئے انتخابات ہی کا طریقہ تجویز کیا ہے۔ سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر159 اور شوریٰ کی آیت نمبر 38 میں قرآنی حکمِ مشاورت اس مقصد کی تکمیل میں مددگار اور معاون بنتا ہے۔ طریق ِکار اور ضروری تفصیلات طے کرنے کا کام ہر دور اور ہر ریاست کے مخصوص سیاسی حالات کے مطابق اجماعِ امت پر چھوڑ دیا گیا۔ ان امور کا تعین حکومتِ وقت کے رہنما‘ سیاسی قائدین اور مفکرین باہمی مشاورت اور سوچ بچار سے کرسکتے ہیں۔
3۔ انتخابات کے لئے ووٹر اور امیدوار کی شرائط کا مسئلہ انتہائی اہم اور غور طلب ہے۔ اسلامی نظام میں تمام عہدے اور ذمہ داریاں امانت کا درجہ رکھتی ہیں اور امانت کے بارے میں قرآن حکیم کا اصولی حکم یہ ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَهلِهَا.
(النسائ‘ 4 : 58)
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔
قرآن حکیم نے اس سلسلے میں کم از کم چھ (6) شرائط کا ذکر کیا ہے جن میں ایمان‘ عملِ صالحہ‘ معیارِ علم‘ شخصی وجاہت‘ حکمت و دانائی اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت اور قدرت اپنی جگہ اہم ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ قوم ایسے نمائندے منتخب کرے جو صحیح معنوں میں حق نمائندگی ادا کرسکیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو جمہوریت کی بجائے آمریت قائم ہوجائے گی۔ احادیثِ نبوی اور فقہ اسلامی کی روشنی میں شرائطِ اہلیت کا معیار عام ارکانِ پارلیمان سے لے کر سربراہِ مملکت تک متعین کیا جاسکتا ہے۔
4۔ طرزِ انتخابات کی طرح نظامِ حکومت کا مسئلہ بھی اجماعِ امت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ پارلیمانی طرز کا نظام نافذ کریں یا صدارتی طرز کا۔ اگر نظام حکومت اسلام کی تجویز کردہ مشاورت کی روح کے مطابق ہو تو وہ اسلامی ہے ورنہ غیر اسلامی خواہ اقتدار کی باگ ڈور مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو۔
اس ضمن میں چند پیش کردہ تجاویز قابلِ غورہیں کہ انتخابات اور حکومت سازی کے عمل میں صرف وہی افراد اور جماعتیں حصہ لیں جو واضح طور پر اسلام کے نفاذ کا پروگرام رکھتی ہوں اور جو اسلام کو بطور نظامِ حیات نافذ کرنے پر یقین نہیں رکھتے انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، نیز امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال اور انتخابی مہم کے انتظامات حکومت کا غیر جانبدار ادارہ سرکاری سطح پر کرے۔ امیدواروں کو چناؤ کے دن ووٹروں کو پولنگ سٹیشن تک لے جانے کی اجازت نہ دی جائے اور جو کوئی عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اسے نا اہل قرار دے کر انتخابی عمل سے باہر کر دیا جائے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا کا ہر نظامِ معیشت دراصل ملکیت کے تصور ہی پر قائم ہے۔ تصورِ ملکیت سے اس کے بنیادی اصول اور تفصیلات کا تعین کیا جاتا ہے۔ جن پر اس بات کا انحصار ہوتا ہے کہ وہ نظامِ معیشت کہاں تک نتیجہ خیز اور مؤثر طور پر قابلِ نفاذ ہے؟ اس بناء پر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تصورِ ملکیت ہی کسی نظام معیشت میں سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں بالعموم معیشت کے دو نظام رائج ہیں جنہیں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام معیشت کہا جاتا ہے۔ ان دونوں نظاموں کے فلسفے پر غور کیا جائے تو ان کی اصل ایک ہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے میں انفرادی ملکیت کو بے لگام کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ دوسرے میں اجتماعی ملکیت کی ضمانت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب جہاں تک ملکیت کا تعلق ہے اس سے جو حقوق، واجبات اور قانونی اثرات جنم لیتے ہیں وہ دونوں نظاموں میں یکساں ہیں۔ ان کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اپنے مزاج اور خصوصیت کے اعتبار سے یہ تصورِ ملکیت خود غرضی اور مفاد پرستی کے رجحان کے تابع ہے۔ اس تصورِ ملکیت سے جو بھی نظامِ معیشت وضع کیا جائے گا اس کا لازمی نتیجہ انفرادی اور اجتماعی حقوق میں ٹکراؤ کی صورت میں نمودار ہوگا جس سے مختلف طبقوں اور گروہوں میں نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑکے گی اور ملکی پیداوار بھی بہر حال متاثر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حقوق اور مفادات کے درمیان جو تصادم کی صورتِ حال نظر آرہی ہے اس کو دونوں نظاموں میں سے کوئی بھی آج تک دور نہیں کرسکا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ نظامِ معیشت جس کی بنیاد خود غرضانہ تصورِ ملکیت پر رکھی گئی ہو اس رجحان کو ختم کرنے کی صلاحیت اور قدرت نہیں رکھتا۔
ان دو نظاموں کے مقابلے میں پیغمبرِ اسلام ﷺ نے جو نظامِ معیشت بنی نوع انسان کو عطا فرمایا ہے وہ ایسے عظیم انقلابی تصورات، عملی ضابطوں اور اصولوں پر وجود میں لایا گیا ہے جس سے بہتر کوئی تصور، فکر یا فلسفہ معرض وجود میں آہی نہیں سکتا۔ آپ ﷺ کا عطا کیا ہوا نظام ہر اعتبار سے مکمل اور مثالی ہے۔ کوئی انسانی عقل کا بنایا ہوا نظام نہ ہی ارتقائی طور پر اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ حضور ﷺ نے اس سلسلے میں جو انقلابی تصورِ ملکیت دیا ہے اس نے اسلامی نظامِ معیشت کو ان تمام خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ رجحانات سے پاک کر دیا ہے جو آج اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
باری تعالی نے ہر شئے کی تخلیق کا مقصد خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانا قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.
(البقرہ، 2 : 29)
وہی ہے جس نے جو کچھ بھی زمین میں ہے تمہارے فائدے کے لئے تخلیق کیا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ.
(اعراف، 7 : 10)
بیشک ہم نے تمہیں زمین میں تمکن عطا کیا اور اس میں تمہارے اسباب زندگی پیدا کئے پھر بھی تم بہت کم شکر کرنے والے ہو۔
یہی سبب ہے کہ اسلام نے مردہ اور بے آباد زمینوں پر ان کے آباد کرنے والے کا حقِ ملکیت مانا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔
من اعمرا رضاً لیست لاحد فھو احق، قال عروۃ قضیٰ بہ عمر فی خلافتہ.
(صحیح البخاری،1 : 314 کتاب الحرث والمزارعۃ رقم حدیث : 2210)
جس نے ایسی زمین آباد کی جو کسی کی ملکیت نہیں وہی اس کا زیادہ حقدار ہے، عروہ کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا۔
قرآن وسنت نے دوسروں کو اپنے ملکیتی اموال کے منافع میں شریک کرنا ان کا شرعی حق قرار دیا ہے نہ کہ محض کوئی نفلی نیکی جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَفِیْٓ اَمْوالِھِمْ حَقُّ لْلِسَّائل وَالْمَحْرُوْم.
(صحیح البخاری،1 : 314 کتاب الحرث والمزارعۃ رقم حدیث : 2210)
اور ان کے احوال میں ضرورت مندوں اور معیشت سے محروم لوگوں کا حق ہے۔
اس حق کے دینے میں قرآن حکیم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں، ان سے اس حق کی شرعی اور قانونی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی 26 ویں آیت سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
جب ہم انقلاب کے حوالے سے قرآنِ حکیم اور سنتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ انقلابی جدوجہد کا سب سے پہلا مرحلہ دعوت ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ آج ہماری زندگی میں دینی اور مذہبی کاموں میں دعوت کا کام رک گیا ہے۔ جمود اور ٹھہراؤ کی کیفیت میں آج صورتِ حال یہ ہے کہ انقلاب کی راہ پر پہلا قدم اٹھانا بھی محال ہوگیا ہے۔ دین پر کام کرنے والے طبقے علم اور عمل کے میدان میں تو محنت کر رہے ہیں مگر دعوت پر وہ محنت نہیں ہورہی جو ہونی چاہئے تھی۔ یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ انقلابی اور جہادی عمل صرف وعظ و نصیحت‘ درس و تدریس یا تصنیف و تالیف سے پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سارا عمل مختلف مراحل میں دعوت کے بنیادی کام میں انقلاب کے لئے سازگار تو ہوتا ہے، انقلاب لانے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ تعلیم سے نظریات اور عقائد تو درست ہوسکتے ہیں اور فہمِ دین بھی واضح ہوسکے گا مگر یہ سب کچھ انقلاب کی بنیادنہیں بن سکے گا اس لئے کہ یہ عملِ دعوت ہی ہے جس سے انقلاب کی نتیجہ خیزی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر کُل اجزاء سے مل کر بنتا ہے، اسی طرح یہ ایک مانا ہوا اصول ہے کہ جو خاصیتیں متفرق طور پر اجزاء میں پائی جاتی ہیں وہ کل میں جمع ہوکر ایک وحدت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ کائنات میں فطرت کے عطا کردہ اصولِ وحدت کی کڑی میں اس طرح پروئے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ماحول اور معاشرے کے اندر ان میں ذرہ بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِیْلاًO وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِیْلاًO
(35 : 43)
اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تغیر و تبدل نہ پائیں گے۔
دعوت اس لئے اہم ہے کہ یہ عملِ انقلاب کی بنیاد ہے۔ قرآنی فلسفۂ انقلاب میں دعوت کو وہی بنیادی اہمیت حاصل ہے جو کسی درخت کو تناور بنانے میں بیج کی ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج ہم نے دعوت کے سلسلے میں عملاً انحراف کا رویہ اپنا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمارا نظام ہر پہلو سے زوال اور انحطاط کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے۔
قرآن مجید نے فرد اور قوم کی زندگی و موت کے مراحل کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔
وَ هوَ الَّذِٓیْ اَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌO
(22 : 66)
اور وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی پھر تم کو موت دے گا پھر تم کو (قیامت کے دن) زندہ کرے گا بے شک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے (کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا)۔
یہ سارا نظامِ فطرت بنیادی طور پر اس وحدانی اصول پر قائم ہے جس کے تحت ربِّ کائنات مردہ قوموں کو پست حالت سے نکال کر انقلاب سے آشنا کرتا ہے۔ سورۃ مریم میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی ضمیر میں نشوونما کے سب تقاضے رکھے گئے ہیں۔ ہاں جب کوئی قوم ان سے کام لینا چھوڑ دیتی ہے اور اس پر جمود اور بے حسی طاری ہوجاتی ہے تو اس پر زوال کے سایے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں اور آخر کار وہ مرحلہ آجاتا ہے جس میں وہ اجتماعی موت میں مبتلا کردی جاتی ہے۔ اگر ایسے میں نظامِ دعوت کے ذریعے زندگی بخش قوتوں کو بروئے کار لایا جائے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو پھر زندہ کردے گا۔اس آیت میں یہ نکتہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ قوم کی زندگی میں نشوونما کی صلاحیت روزِ ازل سے رکھ دی گئی ہے۔ جس سے اسے زندگی عطا کردی جاتی ہے‘ پھر موت و حیات کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جس کی بنیاد امرِ دعوت اور اس کے بنیادی تقاضوں پر استوارہے۔ سلسلۂ موت و حیات اور امرِ دعوت کے اس مضمون کو قرآنِ حکیم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَآهُمْ اِنَّ اللهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَO
(2 : 243)
(اے حبیب ﷺ !) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے تو اللہ نے انہیں حکم دیا مرجاؤ (سو وہ مرگئے) پھر انہیں زندہ فرما دیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے۔
اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ وہ قوم جو موت سے ڈر جاتی ہے اس پر موت طاری کردی جاتی ہے اور جو موت سے ٹکرا جائے اس کے لئے حیات لکھ دی جاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ جب موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے لگے تو انہوں نے بزدلی کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنالیا۔ یہ طرزِ عمل سراسر دعوت کے تقاضوں کے خلاف تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور پھر جب انہوں نے بزدلی کے طرزِ عمل کو ترک کردیا تو انہیں نئے سرے سے زندگی عطا کردی گئی۔ اس لئے زندہ قوموں کی طرح رہنے کا شیوہ موت سے ڈرنا نہیں بلکہ موت سے لڑنا ہے۔ فلسفۂ انقلاب میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جہاد اور انقلاب کے بغیر با عزت زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا زندہ رہنا ہے تو مرنا سیکھو، ورنہ بزدلی کی زندگی کا انجام رسوا کن موت کے سوا اور کچھ نہیں۔اقبالؒ نے زندگی اور موت کا فلسفہ اپنے اس شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے۔
ہے صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
وہ قوم جس کے دل سے موت کا خوف نکل جاتا ہے آبرومندانہ طریقے سے زندہ رہتی ہے اور جہادِ زندگی میں کامیابی و کامرانی اس کا مقدر کردی جاتی ہے۔
قرآنی فلسفۂ انقلاب میں انقلاب کے حوالے سے جب قرآنِ حکیم اور سنتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انقلابی جدوجہد کا سب سے پہلا مرحلہ دعوت ہے کہ اس کے بغیر انقلاب ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لئے انقلابی جدوجہد میں دعوت کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہماری دینی زندگی جمود اور بے عملی کا شکار ہے۔ جس کا بڑا سبب دعوت کے کام کا رک جانا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج دینی جدوجہد کے میدان میں علم و عمل پر تو بہت زور دیا جاتا ہے مگر ان دونوں شعبوں میں دعوت پر وہ محنت نہیں کی جاتی جو ہونی چاہیے تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریکی، انقلابی اور جہادی کاوشیں صرف تعلیم، تدریس، تصنیف و تالیف اور عمل و ریاضت سے بار آور اور نتیجہ خیز نہیں ہوتیں۔ یہ سارے امور انقلابی جدوجہد کے مختلف مراحل میں مددگار تو ثابت ہو سکتے ہیں مگر ذریعۂ انقلاب نہیں بن سکتے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ انقلاب کی بنیاد عملِ دعوت ہے۔
قرآن حکیم نے موت و حیات کا جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا مرکز ی نقط یہ ہے کہ وہ قومیں جو اجتماعی طور پر دعوت کے کام کو چھوڑ دیتی ہیں ان کو تباہی اور ہلاکت سے دوچار کردیا جاتا ہے اور دعوت کے کام کو از سرِ نو جاری کرنے سے انہیں دوبارہ زندگی عطا کر دی جاتی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ کون سی دعوت ہے جس کی بدولت موت حیات سے بدل دی جاتی ہے اور جو قوموں کو طویل مدت تک زندہ رکھتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موت و حیات کے سلسلے میں قرآن نے ایک اُصول بیان کیا ہے جو فرد اور قوم دونوں پر صادق آتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَھُوَ الَّذِیْٓ اَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌO
(22 : 66)
اور وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی پھر تم کو موت دے گا پھر تم کو (قیامت کے دن) زندہ کرے گا، بے شک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے (کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا)۔
اس آیۂ کریمہ میں افراد کی زندگی و موت کے جن مراحل کو بیان کیا گیا ہے اس کی بنیاد اصولِ وحدت پر رکھی گئی ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ربِّ خبیر و بصیر ہی مردہ قوموں کو ان کی اس حالت سے جو پستی اور مردنی کی علامت ہیں نکال کر ایک طرح کی نئی زندگی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے مردہ قوم کو انقلاب کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ آیت میں ’’احْیَاکُمْ‘‘ کے الفاظ اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی اس چیز میں جسے ضمیر کہتے ہیں ایسے تقاضے رکھے گئے ہیں جن کو اگر پورا کیا جائے تو انسان حیات بخش قوتوں کا مالک بن جاتا ہے اور اگر انہیں پورا کرنا چھوڑ دے تو اجتماعی طور پر اس قوم کی یہ قوتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور وہ قوم مردہ کردی جاتی ہے۔ آیتِ مذکورہ ’’یُمِیْتُکُمْ‘‘ کا اشارہ اسی طرف ہے۔ اس بناء پر جب عملِ دعوت اپنی پوری توانائی کے ساتھ معاشرے میں برپا ہوتا ہے تو وہ قوم زندہ کر دی جاتی ہے۔ قرآن کے فرمان کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور قوموں کی زندگی میں یہ اصول قائم کرکے ان میں ارتقاء اور نشوونما کی تمام صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور انہیں زندہ امور کا نہ صرف مالک و مختار بنایا ہے بلکہ ان کے وجود کو سراپا زندگی بنا دیا۔ اس طرح اس قادرِ مطلق ذات نے موت و حیات کا ایک ایسا سلسلہ قائم کر دیا جس کی بنیاد امرِ دعوت اور اس کے بنیادی تقاضوں پر ہے۔
دعوت کے باب میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ موت سے ڈر جانے والی قوم پر موت مسلط کر دی جاتی ہے اور جو موت کے خوف سے بے نیاز ہو جائے وہ حیات پا جاتی ہے۔ گویا موت کے خوف سے پست ہمتی اور بزدلی دکھانے والی قوم کا مقدر موت کر دی جاتی ہے اور موت سے ٹکرا جانے والوں کا مقدر زندگی بنا دیا جاتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 243 میں قوم بنی اسرائیل کے احوال کا ذکر ہے جس سے یہی بنیادی سبق حاصل ہوتا ہے کہ جہاد اور انقلاب کے بغیر باعزت زندگی کا کوئی تصور نہیں۔
نظامِ دعوت کو کامیاب کرنے کے لئے دو شرائط (1) جان کی بازی اور (2) مال کی قربانی ہیں، ان پر پورا اُتر کر ہی انقلابی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس مضمون کو بنی اسرائیل کے حوالے سے یوں بیان کیا گیا ہے:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌO مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٓٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَO
(2 : 244۔245)
(اے مسلمانو!) اللہ کی راہ میں جنگ کرو او رجان لو کہ اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور اللہ ہی( تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
یٰٓایُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اتّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَO وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآء فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلّکُمْ تَھْتَدُوْنَO
(آل ِ عمران،3 : 102۔103)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو، جیسے اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اُسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو اور اپنے اُوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو، جب تم (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے، پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچالیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
اُوپر دی گئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے جہاں انہیں تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے، وہاں اللہ کی رسی یعنی دین کو مضبوطی سے تھام کر باہمی اتحاد و اتفاق اختیار کرنے اور تفرقہ و انتشار سے بچنے کی تاکید بھی کی ہے۔ ان ارشاداتِ الٰہیہ کی رو سے مسلمانوں پر ایک فعال معاشرے کے قیام کے لئے دو قسم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے : ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔
انفرادی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان اصلاحِ حال کا آغاز اپنی ذات سے کرے، وہ سب سے پہلے اپنی اخلاقی زندگی کو سنوارے اور دوسروں سے اصلاح کی توقع میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھا رہے۔ ہماری ایک سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اپنی انفرادی ذمہ داری نبھانے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں، جس سے کسی سطح پر اصلاحِ احوال کا آغاز نہیں ہو پاتا اور معاملات میں سنورنے کی بجائے اور بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔اسلامی معاشرے کو منظم کرنے کی اجتماعی ذمہ داری تمام اُمتِ مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔اجتماعیت کا تصورِ اسلام کی فطرت میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد، ہر جگہ اس کا رنگ نظر آتا ہے۔ اسلام کو زمانے کی ہلاکت خیزیوں سے جو فرقہ پرستی کی صورت میں بہت بڑے خطرے کا باعث ہیں، محفوظ رکھنے کے لئے قرآنی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت پاک ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اس سلسلے میں جس ضابطۂ عمل کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے، وہ قرآن و سنت کے تصورِ اجتماعیت کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔
مذکور ہ آیت ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا ‘‘ میں اُمت کو جو تصورِ وحدت دیا گیا ہے وہ دو حصوں پر مشتمل ہے، اور اس میں بیک وقت مثبت اور منفی دونوں احکام کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ یہ تو تھا مثبت حکم۔ اس کے بعد امتناعی حکم ہے کہ خبردار کہیں تم تفرقہ اور انتشار کا شکار نہ ہو جانا۔ اس میں واضح طور پر فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی کی مذمت کی گئی ہے اور بڑی وضاحت سے امُتِ واحدہ کا یہ تصور دل و دماغ میں بٹھایا گیا ہے کہ اسلام کا بنیادی مقصد ہی نسل و رنگ، زبان، قبیلہ پر مبنی عصبتوں کے بت توڑ کر تمام انسانوں کو دائمی وحدت کے رشتے میں پرو دینا ہے۔
حضور ﷺ نے اپنی ایک حدیث مبارکہ میں اہلِ ایمان سے ارشاد فرمایا : ’’مسلمانوں کی باہمی محبت اور ایک دوسرے کے لئے رحمت ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے وہ ایک جسم ہوں، جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے خواب اور بے آرام ہو جاتا ہے۔ (صحیح المسلم، 2 : 321 کتاب البر والصلہ رقم حدیث : 2586)
آنحضور ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق تمام اُمتِ مسلمہ ایک جسم کی مانندہے، جبکہ تمام افرادِ اُمت اس کے اعضاء ہیں۔ جس کے ایک عضو کو بھی تکلیف پہنچے تو باقی سارے اعضاء آرام اور سکون سے نہیں رہ سکتے۔ اجتماعی درد کا یہ رشتہ اس طرح ہے کہ جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو اس کے لئے روتی آنکھ ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے۔
مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
یہی رشتہ ایک مسلمان کا ملتِ اسلامیہ سے ہونا چاہیے۔
فرقہ پرستی وہ قاتل زہرہے جو ملت کے جسم میں سرایت کرتا ہے تو اس کی اجتماعی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے، اس میں ایسا انتشار پیدا ہوتا ہے، جس پر اگر قابو نہ پایا جائے تو ملت کی اجتماعی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اسے فرقہ بندی اور تفرقہ پروری کی زندگی ایسی موت کی طرف لے جاتی ہے، جو قرآن کی اصطلاح میں حالتِ کفر کی موت ہے۔ اس فلسفے کی وضاحت حضور ﷺ کے ایک ارشاد سے ہو جاتی ہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے یعنی اجتماعی وحدت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے اور جو کوئی جماعت سے جُدا ہو گا وہ دوزخ کی آگ کا لقمہ بن جائے گا۔
اُمتِ مسلمہ کی کتنی بدقسمتی ہے کہ وہ مختلف فرقوں اور طبقوں میں بٹ کر اپنے مسلک اور فرقے کے تحفظ کو اسلام کی سلامتی قرار دے رہی ہے۔ وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اگر خدانخواستہ دُشمن کے ہاتھ اسلام کے دامن تک پہنچ گئے تو تمہارے مسلکوں اور فرقہ بندیوں کو کون سلامتی کی ضمانت دے گا؟ عاقبت اور سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر باہمی انتشار و تفرقہ سے بچیں۔ قرآن نے باہمی تکرار و تنازع اور جھگڑے کھڑے کرنے کو یہودیوں کا شیوہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اہلِ اسلام کو چاہیے کہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کریں، ورنہ اقوامِ عالم کی نظر میں ان کا وقار اور رُعب و دبدبہ ختم ہو جائے گا اور اُن کی حالت وہ ہو جائے گی جس کی طرف قرآن حکیم نے انہیں متوجہ کیا ہے۔
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذھَبَ رِیْحُکُمْ.
(الانفال،8 : 46)
اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دُشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اُکھڑ جائے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved