آج کے دور میں جب ایمان کی حالت انتہائی دگرگوں ہے سب سے زیادہ افسوسناک بات خوفِ الٰہی کا نہ ہونا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ الاماشاء اللہ خوف الٰہی کے تصور سے بھی بیگانہ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ والوں کے حالات کا مطالعہ کریں جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں درج ہیں۔ ان اہل اللہ کی عبادت و طاعت کی کیفیت دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل پر عجیب رقت کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔
آقائے دو جہاں ﷺ جنہیں اللہ رب العزت نے ہر گناہ سے معصوم پیدا فرمایا، ان کی حیات طیبہ میں خوف و خشیت الٰہی کا وہ عالم تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت قریب آتا تو آپﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ خوفِ الٰہی سے متغیر ہو جاتا اور نماز شروع کرنے کے بعد آپ کی کیفیت یہ ہوجاتی کہ گویا دنیا و مافیھا سے کوئی تعلق ہی نہیں اور سب کچھ بھول گئے ہیں۔
حضور ﷺ رات کو اٹھتے تو اللہ کی یاد میں اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ صحیح بخاری میں ایک صحابی سے روایت ہے کہ ایک دن میں حضور ﷺ کی زیارت کے لئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو آقا ﷺ نماز میں مصروف تھے اور آپﷺ کی آہ و زاری کا وہ عالم تھا کہ سینہ مبارک سے ایسی آواز سنائی دے رہی تھی جیسے ہنڈیا کی ابلنے کے وقت آواز آتی ہے۔ (جواہر البحار، 1: 34)
(الشفاء، 1: 85)
حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ کا یہی رنگ صحابہ کرام ﷺ کی زندگیوں پر بھی نمایاں تھا۔ صحبتِ مصطفوی ﷺ نے ان کے اندر وہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ جسے بھی دیکھو خوفِ الٰہی کا پیکر نظر آتا۔
خوفِ الٰہی کا یہی عالم حضرات انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں میں نظر آتا تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ ابھی بالکل معصوم بچے ہی تھے کہ جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں نکل جاتے اور یاد الٰہی میں اتنا روتے کہ دیکھنے والے پر بھی رقت طاری ہو جاتی۔ ایک دفعہ ایک پہاڑ کے دامن میں مصروفِ عبادت تھے اور اللہ کے خوف میں رو رو کر حال سے بے حال ہوگئے تھے۔ سجدے میں گرے ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ پریشانی کی حالت میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ادھر آنکلیں، والدہ کے قدموں کی چاپ سن کر سجدے سے سر اٹھایا لیکن موت کا خیال اس قدر دھیان میں غالب تھا کہ سمجھے شاید موت کا فرشتہ ان کی روح قبض کرنے آگیا ہے۔ اسی بے خودی کی حالت میں پکارنے لگے: ’’ملک الموت! ذرا ٹہر جا مجھے اتنی مہلت دے کہ اپنی ماں کو مل آؤں۔ اتنی رات گئی وہ بے چاری میری وجہ سے پریشان ہوگی اور اسے میری فکر ہوگی، مجھے تھوڑا سا وقت دے کہ ان سے آخری سلام اور دعائیں لے لوں‘‘۔ یہ سن کر آپ کی والدہ بولیں کہ بیٹا یہاں اور تو کوئی نہیں، میں تمہاری ماں تمہیں تلاش کرتے کرتے یہاں آئی ہوں۔
ماں کی ممتا سے نہ رہا گیا تو پوچھ بیٹھیں: ’’تم ابھی معصوم بچے ہی تو ہو مگر، اس قدر کیوں روتے ہو؟ اس عمر میں خوف خدا سے رونے دھونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ اس پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنی ماں سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے: ’’امی جان اگر کل قیامت کو اللہ تعالیٰ مجھے عذاب کا مستحق قرار دے کر جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ صادر فرما دیں تو کیا آپ مجھے بچا لیں گی؟‘‘ ان کی والدہ نے کہا ’’نہیں بیٹے میں تو نہیں بچاسکوں گی‘‘… اس پر وہ فرمانے لگے: ’’امی جان اگر آپ میں اس دن مجھے عذاب جہنم سے بچانے کی طاقت نہیں تو پھر مجھے خوفِ الٰہی میں رونے سے کیوں روکتی ہیں؟
اسی طرح کی کیفیات ہمیں صحابہ کرام ؓ، تابعینؓ، تبع تابعین، صلحاء، اولیاء اور دیگر بزرگان دین کی زندگیوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے واقعات کو پڑھ کر ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے اور اپنی حالت دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں۔ وہ کس قدر عظیم ہستیاں تھیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی یاد اور ذکر میں بسر ہوتا تھا پھر بھی وہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو سب سے بڑا گنہگار اور مجرم کہتے۔ ان کی حالت میاں محمد بخش ؒ کے بقول یہ تھی۔
راتیں ساری کر کر زاری نیند اکھیں دی دھوندے
فجریں او گنہار کہاندے سب توں نیویں ہوندے
ایک ہم کتنے بدبخت ہیں کہ اللہ کی یاد کے قریب نہیں پھٹکتے اورہمارے دلِ خوفِ الٰہی سے آشنا نہیں اور ہماری آنکھیں گریہ وزاری سے کبھی نم نہیں ہوتیں۔ افسوس صد افسوس ہم غافل لوگ سراسر ظلم و معصیت کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں اورایسی دنیا میں سرگرداں ہیں جو سرکشی و بغاوت کی دنیا ہے۔
اہل اللہ کے احوال خوف اور امید کی درمیانی حالت سے عبارت ہوتے ہیں۔ جب انہیں اللہ کی رحمتوں اور کرم نوازیوں کا خیال آتا ہے تو انہیں امید لگ جاتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ ہمیں بھی بخشش کا مستحق قرار دے دے، لیکن جب اللہ کے عدل کا خیال آتا ہے تو خوف سے تھر تھر کا نپنے لگتے ہیں۔ اس تصور کو ہمارے صوفی شاعر نے بہت اچھی طرح اپنے ایک شعر میں واضح کیا ہے۔
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے
صالح اور متقی لوگوں کا یہ حال ہے کہ ان پر اللہ کے احسان اور انعامات جتنے زیادہ ہوتے ہیں وہ اتنے ہی خداوند کریم کے خوف کی وجہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم یہاں چند اقوال عارفِ ربانی حضرت شیخ عبدالوہاب الشعرانی ؒکے حواے سے نقل کرتے ہیں۔
’’حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اللہ کی رحمتوں اور مہر بانیوں کے انعام و اکرام سے ہر وقت کانپتے رہتے اور جتنا ان پر زیادہ کرم ہوتا اتنا ہی اللہ سے زیادہ ڈرتے‘‘
حضرت سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’عام لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اتنا ہی کافی ہے کہ جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان سے بچے رہیں۔ ان میں سے ہر کوئی آرزو کرتا ہے کہ کاش میں ان لوگوں میں سے ہی ہوتا‘‘ حضرت ثوری ؒ کے احوال میں یہ بھی آتا ہے کہ ان پر خوفِ الہٰی کا اس قدر غلبہ ہوگیا کہ پیشاب کے ساتھ خون آنے لگا۔ ایک یہودی طبیب کو لایا گیا تو اس نے یہ کہہ کر علاج سے معذرت کرلی کہ ان کا مرض لا علاج ہے اس لئے کہ ان کا جگر خوفِ خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کا قول ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ بعض اوقات مخلوق کو غفلت دے کر ان پر بہت بڑا احسان فرماتا ہے اگر ان کے حال پر غفلت کا پردہ نہ پڑا ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے مر جاتے۔ ‘‘
حضرت ابو سلیمان درانی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’جب خوف پر امید غالب آجاتی ہے تو دل بگڑنے لگتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا ہی ہم جیسے لوگوں کیلئے بہتر ہے۔ ‘‘
انہی کا فرمان ہے کہ مجھے خوف ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے ہی منہ کے بل آگ کی طرف گھسیٹا جائے گا۔
اسی طرح ایک اور بزرگ حضرت شبعی ؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو! تاکہ امن حاصل ہو کیونکہ یہ تیرے نزدیک اس امن سے بہتر ہے جس کے بعد خوف ہو۔ ‘‘
امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب ؓ فرماتے ہیں’’ اگر مجھے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے اور یہ اختیار دیا جائے کہ چاہوں تو جل کر خاک ہو جاؤں یا چاہوں تو صبر کروں تو میں جل کر خاک ہونے کو ترجیح دوں گا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ سے بعض روایتوں میں یہ قول منسوب ہے کہ اگر قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے کہ ایک کے علاوہ سب کی بخشش ہوگئی ہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ بخشش سے محروم شخص میں ہی ہوسکتا ہوں اور اگر منادی یہ اعلان کرے کہ صرف ایک شخص کی بخشش ہوئی ہے تو اللہ کی رحمت اور فضل کی امید رکھتے ہوئے یہ یقین کرلوں گا کہ وہ خوش قسمت میں ہی ہوں۔
اٹھ فریدا ستیا! جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کا حال بھی بابا فرید گنج شکرؒ جیسا ہی تھا۔ آپ حالت وجد و مستی میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
ترجمہ: جب رات ہوتی ہے تو عابد لوگ اس کی سختی اٹھاتے ہیں اور جب صبح آتی ہے تو وہ رکوع کی حالت میں ہوتے ہیں۔ خوف الٰہی نے ان کی نیندوں کو اڑا دیا ہے لہٰذا وہ حالت قیام میں ہوتے ہیں جب کہ بے وقوف دنیا دار لوگ آرام کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔
آپ فرمایا کرتے تھے: ’’جس دل میں غم نہ ہو وہ اس طرح خراب ہو جاتا ہے جس طرح وہ گھر جس میں کوئی رہنے والا نہ ہو اور وہ ویران ہو جائے۔ ‘‘
حضرت حسن بصری ؒ کی یہ حالت تھی کہ جو کوئی انہیں شدتِ غم کے عالم میں دیکھتا تو وہ یہ گمان کرتا کہ ان پر ابھی ابھی کوئی مصیبت نازل ہوئی ہے۔ یہی حالت ان کے ساتھیوں کی ہوتی تھی۔
اسلام کی تعلیمات کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے کے لئے نہیں بلکہ ابد سے لیکر ازل تک کے لئے ہیںاور زمان و مکاں کی حد بندیوں کی پابند نہیں۔ اسلام بنیادی طور پر ایسے انسانی معاشروں کے قیام پر زور دیتا ہے جو اخلاقی اقدار کے حسن سے مالا مال ہوں اور جہاں تمام افراد نہ صرف علم و حکمت اور دانائی کے زیور سے آراستہ ہوں بلکہ محبت اور اخوت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہوں۔ ایسے معاشرے کا نصب العین عالمی پیمانے پر امن و خوشحالی کو یقینی بنانا ہے۔ قرآن نے اس ضمن میں تمام اہلِ کتاب کو دعوت دی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔
قُلْ یٰٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ.
(آل عمران‘ 3: 64)
آپ فرما دیں اے اہلِ کتاب تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے (وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اللہ کے تابعِ فرمان (مسلمان) ہیں۔
اس قرآنی ارشاد میں بنی نوعِ انسان کو مشترکہ اقدار کی بنیاد پر ایک وسیع عالمی انسانی معاشرے کے قیام کی دعوت دی گئی ہے، جس کی قدر مشترک یہ ہو گی کہ اللہ رب العزت کو معبودِ حقیقی مانا جائے گا، اسی کی عبادت کی جائے گی اور کسی کوبھی اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے گا۔ بلاشبہ اسلام پرُ امن معاشروں کا قیام چاہتا ہے اور وہ انسان کے بنیادی حقوق کا نگہبان ہے، وہ بلاوجہ تلوار اٹھانے سے روکتا ہے۔ البتہ ظلم، فتنہ اور شر کو بزورِ شمشیر ختم کرکے امن قائم کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ امن کے بغیر کبھی عدل قائم نہیں ہو سکتا۔
اسلام میں اخلاقیات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ اپنے پرائے سب انسانوں کو اپنے دامنِ رحمت میں لئے ہوئے ہے۔ اس نے امنِ عالم کا جو تصور پیش کیا ہے تاریخ اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔
اخلاق اور مسرت و شادمانی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کوئی نیک کام کرے تو اس کو ایک روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے، کسی کے ساتھ بھلائی کرکے آپ نہ صرف اپنے اندر اعتماد محسوس کریں گے بلکہ آپ کے پورے وجود میں کیف و سرور کی ایک لہر دوڑنے لگے گی، اسی لئے تمام اخلاقی کام نیکی کے کام ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جرم کے کام جیسے چوری، قتل، اغوا، زنا وغیرہ انسانی خوشی کے قاتل ہیں۔ وہ معاشروں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، ان کی وجہ سے گھر اجڑ جاتے ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں اور ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کا دامنِ عصمت تار تار ہو جاتا ہے۔ اس لئے مہذب اور فلاحی معاشروں کا قیام روحانی اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیئے بغیر عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔ لہٰذا جب ہم اخلاقی اقدار زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو اپنی زندگیوں میں روحانی اقدار کو ایک تحریک بنا دینے کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
اسلام میں اخلاق اور تصورِ آخرت آپس میں جڑے ہوئے ہیں، معاشرے کو اعتدال اور توازن سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آخرت میں جوابدہی کا احساس ہر لمحہ انسان کے ذہن میں رہے اور یہ احساس اس کے شعور کا حصہ بن جائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سزا اور جزا سے معاشرے کو سماجی برائیوں سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری امر ہے کہ اپنی اصلاح کا احساس انسان کے اندر سے اٹھناچاہئے اور معاشرے کو بگاڑ اور زوال سے اسی وقت نجات دلائی جاسکتی ہے جب افرادِ معاشرہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس بگاڑ اور زوال کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔ اس ارشادِ خداوندی میں اسی نکتے کی تعلیم دی گئی ہے۔
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.
(الرعد‘ 13: 11)
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔
بداخلاقی بہت بڑی لعنت ہے جو انسان کو جہنم کا ایندھن بنا دیتی ہے۔ مصلحینِ ِاخلاق کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ انسان کی، حیوانی خواہشات کو ایک حد سے بڑھنے سے روکیں اور انسان کی فلاح و بہبود کے تصور کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ معاشرے کا ہر فرد آسودگی کی زندگی بسر کر سکے۔ اگر ہر انسان خود غرضی کے حصار میں بند ہو کر اپنے مفادات کا قیدی ہو جائے تو سارا معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جا بجا اسلامی معاشرے کے افراد میں خوفِ خدا کا وصف پیدا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَO
(التحریم‘ 66: 6)
اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے اس (نارِ جہنم) پر بڑے سخت مزاج اور زبردست فرشتے (متعین) ہیں جو اللہ کے حکم کی (کسی صورت بھی) نافرمانی نہیں کرتے اور (نہ احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کا تساہل کرتے ہیں بلکہ) جو بھی حکم دیا جائے اسے (فوراً) بجا لاتے ہیں۔
یہ سوال اکثر ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے قیام، بقا اور نشوونما پانے کے عمل میں تصوف کی کیا ضرورت و اہمیت ہے؟ اس کا جواب تفصیل کا تقاضا کرتا ہے جس کے ہم یہاں متحمل نہیں ہوسکتے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ تصوف کی دو حیثیتیں ہیں: ایک تزکیۂ نفس اور دوسری مذہبی واردات سے عبارت ہے۔ ان دونوں حیثیتوں میں تزکیۂ نفس کا جائزہ لیں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اس اعتبار سے تصوف کا محتاج ہے کہ ایک صالح معاشرہ تبھی پیدا ہوتا ہے جب انسانی شعور کو ان تمام میلانات سے پاک و صاف کر دیا جائے جو اجتماعی سطح پر بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک انسانی نفس کا تزکیہ نہیں ہوگا معاشرتی برائیوں اور خرابیوں کا سد باب نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْء.
(یوسف، 12: 53)
بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔
اور اس سے نجات کے لئے قرآن حکیم نے یہ لائحہ عمل بھی تجویز فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاO
(الشمس، 91: 9)
یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس نے اپنے اس (نفس یعنی روح) کو پاک کر لیا (سنوار لیا)۔
چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ اپنے کردار و سیرت کو پاکیزہ کرنے کے لئے انسانوں کو نفس کا تزکیۂ درکار ہے جس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ فہم ہے کہ انسان کے لاشعور میں ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا عنصر غالب رہتا ہے جب کہ اس کے شعور کی سطح پر برائی اور شر کی قوتیں حملہ آور رہتی ہیں۔ اس طرح ایک تضاد کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اپنے تابع نہ کرلے۔ شعور اور لاشعور کے تقاضے متضاد ہیں۔ انہیں ہم آہنگ اور سازگار بنانے کے دوہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ لاشعور کو شعور کے تابع کرکے نیکی کو مغلوب اور بدی کو غالبکر لیا جائے، اس طرح سے روحانی اور اخلاقی جدوجہد کرنے والی قوتیں پسپا ہوجائیں گی اور بالآخر اسلامی معاشرے کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ دوسری صورت شعور کو لاشعور سے مغلوب کرنے کی ہے جس سے بدی کے تقاضے نیکی کے تقاضوں کے تابع ہو جائیں گے مگر یہ صورت تبھی ممکن ہے جب نفسِ انسانی تزکیہ کے عمل کے ذریعے اپنی تمام آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے، اور نفسِ امارہ انسان کو برائیوں اور بد اعمالیوں پر اکسانے سے باز آجائے۔
پس انسانی شخصیت کی نشوونما کا انحصار اخلاق اور مذہب کی ترقی پر ہے جس سے روحانی الذہن افراد پیدا ہوتے ہیں اور یہی حقیقت میں تصوف کا منشا و مقصود ہے جواسی صورت میں ممکن ہے کہ نفسِ انسانی کی ان کثافتوں کو دور کیا جاسکے جن کی وجہ سے نیکی نشوونما نہیں پاسکتی، کیونکہ ان کی موجودگی میں نفس کی زیادہ تر قوت فواحش و مکروہات کی پرورش پر صرف ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ کوئی شحص ایک کیاری میں محنت سے زمین تیار کرکے پودینہ اگانا چاہتا ہو تو کچھ عرصہ بعد پودینے کے ساتھ گھاس اور دوسری خود رو بوٹیاں اگ آئیں گی جو پودینے کی صحیح نشوونما میں حائل ہوں گی۔ اگر اس گھاس پھونس اور جڑی بوٹیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تو اس سے پودینے کی نشوونما پر اچھا اثر پڑے گا کیونکہ وہ غذا جو پودینے کے لئے ضروری تھی اور غیر ضروری گھانس پھونس پر ضائع ہو رہی تھی اب وہ ساری کی ساری پودینے کو پروان چڑھانے میں صرف ہونے لگے گی۔ یہ گھاس پھونس اکھاڑنے کا عمل دراصل کیاری کا تزکیہ ہے۔
اس طرح نفس کا تزکیہ کرنے سے وہ قوتیں جو نیکی کی استعداد کو بڑھاتی اور روحانیت کی نشوونما پر صرف ہوتی ہیں جب غالب آجاتی ہیں تو انسانی سیرت و کردار پر اس کا خوش گوار اثر پڑتا ہے۔ اس عمل کو جاری رکھنے سے رفتہ رفتہ نفس ِامارہ نفسِ لوامہ میں بدلتا ہے اور پھر ترقی کے مدارج طے کرکے نفس مطمئنہ اور بالآخر نفسِ راضیہ اور نفس ِمرضیہ کی صورتیں اختیار کرلیتا ہے۔
ا س بحث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ تزکیۂ نفس کی ضرورت و اہمیت مزید کسی بیان کی محتاج نہیں۔ جب ایک فرد نفس کے تزکیے کا محتاج ہے تو پھر اجتماعی سطح پر پورے معاشرے کو اس کی ضرورت سے کیونکر بے نیاز قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ معاشرہ ہے ہی منظم افراد کے اجتماع کا نام۔ اس لئے یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشرے کا قیام اجتماعی طور پر افراد سے تزکیۂ نفس کا تقاضا کرتا ہے تاکہ اس میں ایسے افراد پیدا ہوں جو روحانی الذہن ہوں اور اخلاقی جدوجہد کو جاری رکھ سکیں۔ جب تک ایسے افراد وجود میں نہیں آئیں گے اس معاشرے کواسلامی معاشرہ نہیں کہا جاسکتا۔
اب چونکہ تصوف تزکیۂ نفس کا ذریعہ بنتا ہے اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلامی معاشرہ اپنے وجود ارتقا اور ترقی کے لئے تصوف کا محتاج ہے۔
تصوف کی دوسری حیثیت مذہبی واردات کی ہے جو ایمانی حقائق کے نتائج کے مشاہدے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان سے ایمان کو ’’ایقان‘‘ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ؒ انسانی شخصیت میں نظم و ضبط لانے کے لئے ضروری ہے کہ اعتقاد، علم اور عمل باہم سازگار ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو عمل اعتقاد کا ساتھ نہیں دیتا اور شخصیت کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ما بعد الطبیعی حقائق پر ایمان ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعتقاد کی عمارت میں لرزہ ہے اور ہم تذبذب کے سمندر میں غوطہ زن رہتے ہیں۔ بالخصوص ہمارا نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ ذہنی اور قلبی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کا علاج اس طبقے کی طرف سے آنکھیں بندکر لینے یا اس پر کفر و الحاد کا فتویٰ صادر کر دینے سے نہیں ہوگا اور نہ ہی اس طرح ہماری مذہبی قیادت اپنے فرائض سے سبکدوش ہوسکتی ہے۔
مذہبی واردات کو تصوف کا حوالہ بناتے ہوئے ہم انہیں تین خانوں میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ وہ واقعات جو خرقِ عادات کے نام سے جانے جاتے ہیں یعنی جن کے واقع ہونے کی وجہ عام انسان کی سمجھ میں نہ آئے مثلا دورکی مسافت پر ہونے والے مستقبل میں ہونے والے واقعات کا بلا واسطہ اور قبل از وقت علم، دل کی باتوں کا کشف، بغیر دوا کے مریض کی فوری شفا یابی، مردے کو زندہ کرنا۔ یہ سب باتیں خوارق ہیں جو وہبی بھی ہوسکتی ہیں اور کسبی بھی تو، تصوف کی زبان میں انہیں ’’کرامت‘‘ کہا جاتا ہے۔
2۔ جو اعمال شریعت کی پابندی میں امر و نہی کو واجب العمل سمجھ کر کئے جائیں وہ اخلاقی فضائل ہیں اور جو شریعت کی خلاف ورزی میں صادر ہوں انہیں اخلاقی برائیاں کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن حکیم کی رو سے کسی ارادی فعل کی نیت کا معیار ’’حکم‘‘ ہے حکم کا اتباع ’’حسنِ نیت‘‘ جبکہ حکم کی خلاف ورزی ’’سوئِ نیت ‘‘ ہوتی ہے۔ اخلاقی فضائل تبھی حاصل ہوسکتے ہیں جب ان میلانات پر قابو پالیا جائے جو تزکیۂ نفس میں انحراف اور رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم تزکیہ کے بعد حاصل ہونے والے اخلاقی فضائل ارادی اور اختیاری ہونے کی وجہ سے فضائلِ اخلاق ہیں۔
3۔ تصوف یا مذہبی واردات کانقطۂ کمال مقامِ ولایت ہے۔ یوں تو ولایت اور نبوت دونوں مذہبی وارادات ہی کی شکلیں ہیں مگر ان دونوں کمالات کے درمیان بنیادی فرق ہوتا ہے۔ نبوت فضلِ محض اور خالص وہبی چیز ہے جبکہ ولایت میں کسب یعنی ولی کی ذاتی محنت کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ نبوت کا خاصہ ’’صحو‘‘ ہے جبکہ ولایت میں ’’سکر‘‘ بھی شامل ہے۔ نبوت کے تمام معارف حتمی و قطعی اور یقینی ہیں جبکہ ولایت میں بعض ظنی بھی ہوسکتے ہیں۔ نبوت کے تمام حقائق کی نوعیت نفس الامری کی ہے جبکہ ولایت کے حقائق کی حیثیت باطنی کیفیات کی ہے اور سب سے اہم نبوت کا منصب تبلیغ کے لئے ہے لہٰذا یہ ’’قال‘‘ ہے جبکہ ولایت کے معارف ’’حال‘‘ ہیں اور وہ ابلاغ و اظہار سے بے نیاز ہیں۔ صاحبِ نبوت کی توجہ ہر وقت لوگوں کے اصلاحِ حال کی طرف ہی لگی رہتی ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا مذہبی واردات کی ماہیت بندے اور خدا کے درمیان نسبت کے استحکام میں پوشیدہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نسبت کا شعور مذہبی واردات یعنی تصوف کہلاتا ہے۔ یہ شعور پوری انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس سے عملی زندگی ایک خاص انداز سے متاثر ہونے لگتی ہے۔ چونکہ افراد کی شخصیت اپنے نمونے کے اعتبار سے مختلف سانچے میں ڈھلتی ہے اور اس اختلاف کی وجہ شعور کے تین پہلو: جذبہ، ارادہ اور ادراک ہیں۔ کسی کے شعور میں جذبے کا پہلو غالب ہو تو اس کے اور خدا کے درمیان ’’نسبت ِمحبت‘‘ پختہ تر ہو جاتی ہے۔ محبت میں طالب اور مطلوب کے ایک ہو جانے کی آرزو کمالِ قرب پیدا کرتی ہے اور اس نسبت سے محبوب کی ذات میں یک گونہ استغراق و انہماک یعنی مکمل توجہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے من وتو کے تمام اختلافات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس نسبتِ محبت کو تصوف کی زبان میں ’’ولایت عیسوی‘‘ کہتے ہیں۔ اگر سالک کے شعور میں ارادے کا پہلو غالب ہو اور اس کے اور خدا کے درمیان نسبت اطاعت پختہ تر ہو جائے تو اسے ’’ولایتِ موسوی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر اس کے شعور میں ادراک کا پہلو غالب ہو جائے تو اس نسبتِ معرفت کو ’’ولایت ابراہیمی‘‘ کہا جاتا ہے۔
’’تزکیہ‘‘ کے معنی پاک صاف کرنے اور نشوونما دینے کے ہیں۔ اسی سے زکوٰۃ کا لفظ نکلا ہے۔ اسی طرح کھیتی کے نشوونما پانے اور اس سے خیر و برکت حاصل ہونے کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں ہر جگہ یہ لفظ ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
1۔ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ.
(فاطر: 18)
اور جو کوئی پاک ہوا پس وہ اپنی ہی جان کے لئے پاک ہوتا ہے۔
2۔ ذَالِکَ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْهَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
(البقرہ، 232)
یہ تمہارے لئے زیادہ پاک اور صاف ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے اور تم (حقیقتِ امر کو) نہیں جانتے۔
3۔ قَالَ اِنَّمَا اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا.
(مریم: 19)
اس نے کہا میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا پیغامبر ہوں۔ تجھ کو ایک پاک لڑکا دینے کے لئے آیا ہوں۔
4۔ فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی.
(النجم: 32)
تم اپنی جانوں کو پاک صاف مت بتاؤ! وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے۔
5۔ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّالَوْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.
(البقرہ: 151)
وہ رسول ﷺ تمہارے اوپر ہماری آیات پڑھتے ہیں اور تمہارے نفوس کو پاک کرتے ہیں اور تمہیں کتابِ الٰہی کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت و دانائی (یا اسرار و رموزِ دیں) کی تعلیم دیتے ہیں اور اس کے علاوہ جو کچھ تم نہیں جانتے اس کی بھی تعلیم دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ ’’تزکیہ‘‘ کا عمل جانوں کو آلائشوں اور گندگیوں سے پاک و صاف کرنے کا نام ہے، اب صاف ظاہر ہے کہ پاک صاف کرنے کی ضرورت تبھی ہوتی ہے جب انسانی نفس کے اندر میل کچیل ہو اور میل کچیل کا موجود ہونا اس وجہ سے ممکن ہے کہ انسانی فطرت کے اندر نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات اور صلاحتیں رکھ دی گئی ہیں۔
تزکیۂ نفس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ نفس انسانی گویا روح کی کھیتی ہے جس میں آپ نیکی، بھلائی اور اچھے اخلاق کے بیج اگانا چاہتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ نفسِ انسانی کی اس زمین میں برائی اور برے اخلاق کے پودے بھی خود بخود اگ آتے ہیں جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ نفس انسانی میں دونوں طرح کے رجحانات ہوتے ہیں اور نفس انسانی کی قوتیں نیکی کی نشوونما کی بجائے برائی کی نشو ونما پر صرف ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا نیکی اور تقویٰ کی صحیح نشوونما کے لئے گناہ اور معصیت کے رحجانات سے نفس انسانی کی زمین کو پاک کر دینا تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔ اس تزکیے کے نتیجے میں نہ صرف نفسِ انسانی برائی سے پاک و صاف ہو جاتا ہے بلکہ اس میں نیکی کی نشوونما ہونے لگتی ہے۔ اس عمل کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیO وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیO
(الاعلیٰ: 14، 15)
بیشک وہ فلاح پا گیا۔ جس نے نفس کو پاک صاف کر لیا۔ پھر اپنے رب کے نام کو یاد کیا اور نماز پڑھی۔
اس آیت میں تین چیزوں، تزکیہ نفس، ذکرِ الٰہی اور نماز کا بیان ہے۔ یہ گویا تین شرائط ہیں جن کو اگر پورا کر دیا جائے تو انسان فلاح پا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نفسِ انسانی کو تزکیہ نفس کی تحریک کس طرح ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ انسان کی فطرت کے اندر ایک تضاد کی سی کیفیت رکھ دی گئی ہے جس سے تزکیۂ نفس کی آرزو جنم لیتی ہے۔ ہر انسان میں پیدائشی طور پر فطری احساسات پائے جاتے ہیں۔ ان احساسات کے شعور کو ’’ضمیر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ نفساتی خواہشات کا داعیہ بھی موجود ہے جس کا ظہور ہر انسان کی زندگی میں فعلاً ہوتا ہے۔
ہر شخص کی خلقی فطرت میں اچھائی برائی اور خیر و شر کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے اس امر کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا:
فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا.
(الشمس، 8)
پس اللہ تعالیٰ نے نفسِ انسانی کے اندر برائی اور اچھائی دونوں کا شعور و دیعت کر دیا ہے۔
ایک اور مقام پر یوں ارشاد ہوا ہے۔
فَھَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ.
(البلد: 10)
پس ہم نے انسان کو نیکی اور بدی کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔
مومن کی تعریف میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مومن وہ ہے جس میں صفتِ ایمان پائی جائے۔ مگر یہ مختصر تعریف ہے۔ اس بنا پر یہاں قدرے تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں مومن کی تعریف میں ایک جامع ترین آیت نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَO
(الحجرات، 49: 15)
مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کیا۔ یہی لوگ ایمان کے سچے ہیں۔
اس آیت کی رو سے مومن فقط وہی ہیں جن میں اوپر بیان کردہ اوصاف اور خصوصیات پائی جائیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کو دوسری صفات سے پہلے رکھا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی کو خدا اور اس کے رسولﷺ پر صحیح معنوں میں اعتماد اور یقین پیدا ہو جائے تو اس کے لئے دین کی جملہ باتوں کا قبول کرنا سہل ہو جاتا ہے۔
ایمان کے معنی تصدیق قلبی کے ہیں۔ اگر دل میں شک اور تردد ہو تو محض زبان سے تصدیق کرنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔ اسی بنا پر مومن کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ مومن وہ ہے جس کے دل میں خدا اور اس کے رسولﷺ سے متعلق کوئی ادنی درجے کا وہم بھی موجود نہ رہے۔ ایمان ایک ایسی باطنی اور اعتقادی کیفیت کا نام ہے جہاں پہنچ کر ہر قسم کا تردد، شک، تامل اور تذبذب دور ہو جاتا ہے۔ اور انسان کو اس درجہ پختہ یقین (صوفیانہ اصطلاح میں حق الیقین) حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اور مخالفین کی کوئی دلیل اسے متزلزل نہیں کرسکتی۔ لہٰذا اس کے یقین میں لچک پیدا ہونے، اس کے روئیے میں بے رہروی اور اسکے قدموں کے بھٹکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اعتقادِ قلبی اور یقین کی باطنی کیفیت کا نام ایمان ہے اور یہ کیفیت آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے۔ شروع شروع میں یہ کیفیت کمزرور بھی ہوتو انسان کو مختلف ذرائع سے علم حاصل کرکے اسے پختہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٗا ادْخُلُوْا فِیَ السِّلْمِ کَآفَّۃً.
(البقرہ، 2: 208)
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔
ایمان میں پختگی اور یقین میں قوت پیدا کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ وہ اشیاء جو اس کے ایمان ویقین میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں ان کو راہِ خدا میں ترک کردیا جائے۔ ارشاد نبوی ہے:
حُبُّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ.
(مشکوٰۃ المصابیح، 444)
دنیا کی محبت ہر برائی کی بنیاد ہے۔
اور اس کے برعکس:
راس الحکمۃ مخافۃ الله.
(کنز العمال: 5873)
اللہ کا خوف حکمت کی بنیاد ہے۔
مومن خود دوسروں کے حق میں امن و سلامتی کا پیکر اور ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ ایمان کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس سے بڑا درجہ یہ ہے کہ وہ معاشرے میں موجود برائیوں، شر اور فساد کو ختم کرنے کے لئے میدان عمل میں نکل آتا ہے اور اس وقت تک اپنی کو شش جاری رکھتا ہے جب تک برائی شرا ور فساد کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ.
(الانفال، 8: 39)
اور ان سے مسلسل لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہو جائے۔
فتنہ و فساد کو مٹانا مومن کی ذمہ داری ہے۔ جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو جائے، اس کے لئے کوشش جاری رکھنے کا حکم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مومن کی اس ذمہ داری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:
من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذالک اضعف الایمان.
(صحیح المسلم، 1: 51، کتاب والایمان، رقم حدیث: 49)
جو شخص تم میں سے کوئی برائی دیکھئے وہ اسے ہاتھ سے درست کردے۔ اگر اسے اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اسے برا کہے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
بنیادی طور پر مومن اخوت اور بھائی چارے کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ (مومن تو بس بھائی بھائی ہیں)۔ چنانچہ مومن کے دل و دماغ میں دوسروں کے لئے بھلائی، امن اور خیر خواہی کے جذبات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر حضور ﷺنے فرمایا:
الدین النصیحۃ.
(جامع الترمذی، 1: 14، کتاب البر والصلہ: 1926)
دین خیر خواہی کا نام ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کا وجود انسانیت کے لئے سراسر نفع اور آسودگی کا باعث بن جائے۔
سورۃ فاتحہ انسانی عقیدے کی اصلاح کی غرض سے زندگی کے عملی پہلو کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتی ہے اس کی چوتھی آیت ہے
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیّاکَ نَسْتَعِیْنَ.
(الفاتحہ، 1: 4)
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔
یہ آیہ کریمہ سب کچھ اسی ذات کو قرار دیتی ہے جو اللہ، رب، رحمان اور رحیم ہے۔ اس لئے اس کے سوا نہ کسی کی عبادت کا سوال پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی سے استعانتکا۔ یہ اعلان انسانی عمل کی نوعیت اور سمت کو متعین کرنے کے لئے کیا گیا۔ یہاں دو لفظ ’’عبادت‘‘ اور ’’استعانت‘‘ استعمال کئے گئے۔ عبادت سے مراد انتہائی عاجزی، انکساری اور خاکساری کا اظہار ہے۔ اس کے مقابلے میں صاف ظاہر ہے، اس ذات وحدہ‘ لاشریک، کی عظمت و کبریائی ہی ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے عبادت کا ایک ہم معنی لفظ بندگی اور غلامی بھی ہے۔ گویا عبادت سے مراد یہ ہو گا کہ اللہ کو عظمت و کبریائی کا مالک سمجھ کر اپنا آقا تسلیم کیا جائے اور خود کو اس کا عاجز و حقیر بندہ۔ یہاں ذہن میں کسی قسم کا مغالطہ نہیں رہنا چاہیے کہ عبادت محض نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ ہی کا نام ہے بلکہ یہ عمل پوری زندگی اور اس کے لئے کی جانے والی جدوجہد پر مشتمل ہے۔
اگر یہ تصور دل و دماغ میں پختہ ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا آقا ومالک ہے اور ہم اس کے عاجز بندے ہیں تو بندگی کا حق تبھی ادا ہو گا کہ زندگی میں جو کچھ بھی کیا جائے وہ اپنے مالک کی مرضی اور خوشنودی کی خاطر کیا جائے۔ اس طرح زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل عبادت قرار پائے گا۔ اس میں کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور آرام کرنے سے لے کر تجارت، سیاست، امارت اور صلح و جنگ کے میدانوں تک اٹھنے والا ہر ایک قدم، ہر ایک سانس اور ہر عمل عبادت بن جاتا ہے۔ گویا سورۃ فاتحہ ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ جس طرح انسان اپنے آغاز سے انجام تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے فیض سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح اسے چاہیے کہ اپنی عملی زندگی کو آغاز سے انجام تک ہر لمحہ اس کی غلامی اور بندگی میں گزار دے اور یہ تصور اس کے ذہن میں پختہ ہو جائے کہ اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی بندگی کی جاسکے۔
سورۃ فاتحہ میں استعانت کا تصور انسانی زندگی کے بعض خصوصی لمحات پر جبکہ عبادت کا تصور اس کی عمومی حالت پر حاوی ہو تا ہے کیونکہ مدد کی ضرورت انسان کو عام طور پر دو طرح کے معاملات میں ہوتی ہے۔ ایک کوئی ایسی مشکل آپڑے کہ انسان اپنے تمام وسائل اور ذرائع کو کام میں لا کر بھی اس سے باہر نہ نکل سکے۔ دوسرا یہ کہ کوئی ایسی خواہش اور آرزو ہو جس کو وہ ذاتی کوششوں سے حاصل نہ کرسکے۔
جب انسان کسی مصیبت اور مشکل یا کسی خواہش اور طلب کی شدت کی وجہ سے پریشان ہو جائے اور اسے اپنا مقصد ذاتی کوششوں سے حاصل ہوتا نہ دکھائی دے تو اس میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس سے اس کے زندگی کے معمولات متاثر ہونے لگتے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے جہاں انسان شدت کے ساتھ کسی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور جس قدر یہ ضرورت شدید ہو گی اس کے اندرمدد طلب کرنے کا احساس بھی اسی قدر شدید ہو گا۔ اس لمحے وہ بندہ جس نے اپنی ساری زندگی رب العالمین کی غلامی میں گزار دی ہو اور اسی کو اپنا آقا و مولا سمجھا ہو اگر وہ طلب و ضرورت کی شدت اور جذبات کے بہاؤ میں آکر کسی اور کے آگے جھک گیا تو اس کی ساری محبت و ریاضت اور بندگی کا اخلاص رائیگاں جائے گا اور اس کی عمر بھر کی پونجی لٹ جائے گی گویا بقول اقبالؒ
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
انسان کی زندگی میں یہی وقت بندگی اور عبودیت کی آزمائش کا ہوتا ہے کہ آیا وہ مشکل اور آز مائش کی اس گھڑی میں اس کا بندہ رہا یا نہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے اسی مرحلے کو بیان کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانیئے گا ہو وہ کتنا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
جب انسان دنیوی مصروفیات سے فراغت پا کر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوتا ہے تو حالتِ نماز میں ہاتھ باندھ کر ذاتِ حق کی حمد و ثنا اور اس سے نیاز مندانہ تعلق کے بیان کے بعد اس کے من کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.
(الفاتحہ، 1: 5)
اے رب! ہمیں سیدھی راہ چلا
صاف ظاہر ہے کہ منزل کا تعین کئے بغیر کوئی بھی راہ قابلِ ذکر اہمیت نہیں رکھتی۔ سب سے پہلے انسان اپنے نصب العین کے مطابق کسی منز ل کو اپنا مقصود بناتا ہے تو پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے اس کے دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی مسافر کسی سے صحیح راستہ دریافت کرتا ہے تو اس کا راستہ دریافت کرنا ہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کوئی نہ کوئی منزل ضرور اس کے سامنے موجود ہے جس تک پہنچنے کا اس نے پہلے سے سوچ رکھا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ منزل اور نصب العین کے شعور کے بغیر کوئی کسی سے راستہ پوچھتا پھرے۔ سورۃ فاتحہ کی یہ آیت جس میں اللہ تعالیٰ سے صحیح راستہ دکھانے کی التجا کی گئی ہے اس بات کی نشاں دہی کر رہی ہے کہ حیاتِ انسانی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اس منزل ہی کے متلاشی التجا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ ہمیں وہ راہ دکھا دے، جس پر چل کر ہم وہ نصب العین پاسکیں جس کے لئے ہمیں تو نے پیدا کیا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ کیا مقصد اور منزل کے تعین کے بغیر کوئی عقلِ سلیم رکھنے والاشخص سیدھی راہ کی طلب کر سکتا ہے؟ اگر منزل کا شعور واضح نہیں تو سوال کرنے والے کا ذہن اس سوال میں الجھ جائے گا کہ کونسی سیدھی راہ ؟ اور کس مقصد کے لئے؟ اور کہاں پہنچنے کی خاطر؟ اس طرح کا ہر سوال خود ایک معمہ بن جائے گا اور قرآن حکیم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی ایسی غیر واضح اور نہ سمجھ میں آنے والی بات کرے جس کا اس کے پاس جواب نہ ہو۔ لہٰذا اھدنا الصراط المستقیم کے کلماتِ دعا زبان سے نکالنے سے پہلے انسان کے ضمیر سے یہ ندا بلند کرائی جاتی ہے کہ اے رب العالمین! ہمیں یہ بتا دے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہماری وہ منزل اور نصب العین کیا ہے جس کے لئے ہم زندہ ہیں اور جسے حاصل کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے؟ جب مقصد کا شعور بیدار ہو جاتا ہے اور جس منزل تک ہمیں پہنچنا ہے اس کے خدوخال واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ پکار اٹھتی ہے کہ اے ہدایت عطا کرنے والے ! ہمیں اس منزل تک پہنچنے کا سیدھا راستہ بھی دکھا دے۔ لیکن ہدایت کا مقصد ان دو تقاضوں سے پورا نہیں ہوتا جب تک اس منزل مقصود تک پہنچنے کی یقینی ضمانت نہ میسر آجائے۔ کیونکہ بہت ساری شیطانی اور طاغوتی طاقتیں انسان کو سیدھی راہ سے بھٹکانے پر لگی ہوئی ہیں۔ شیطان کا سب سے بڑا حملہ ہی سیدھی راہ پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے بتایا کہ ابلیس نے بارگاہِ خداوندی میں قسم کھا کر کہا تھا:
لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ.
(الاعراف، 7: 16)
(مجھے قسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افراد بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا۔
اس لئے عین ممکن ہے کہ کوئی شخص منزل اور صحیح راستے کی خبر پا کر سفر پر نکلے، لیکن راستے میں ایسے حالات پیش آجائیں کہ وہ منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ اس وجہ سے انسان کو اکثر اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسے سیدھی راہ کی ہدایت کے علاوہ خیر و عافیت کے ساتھ پہنچ جانے کی ضمانت بھی مہیا کی جائے تاکہ راستے کے شیطانی خطرات سے محفوظ ہو کر وہ اپنی منزل کو پاسکے۔ یہ انسانی ضمیر کی تیسری آواز تھی جو ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کے الفاظ کی شکل میں اس کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔
یہ تین تقاضے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ ہدایت کے تین درجے ہیں۔ جنہیں آسان زبان میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
1۔ مقصد کا شعور اور نصب العین کی معرفت (پہچان)
2۔ صحیح راستہ دکھایا جانا تاکہ منزل تک پہنچنا ممکن ہو۔
3۔ یہ ضمانت کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں گمراہی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
سورۃ فاتحہ حیاتِ انسانی کے مقصد اور نصب العین کے شعور سے لے کر منزل ِ مقصود تک پہنچنے کی حتمی ضمانت کے حصول تک راہنمائی کر رہی ہے۔ آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں تو یہ حقیقت ہم پر کھل جائے گی۔
گزشتہ صفحات میں بیان کردہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت پر دوبارہ غور فرمائیں تو ہم پر یہ حقیقت کُھل جائے گی کہ جس طرح آیت کے تین حصے، ’’اھدنا‘‘، ’’الصراط‘‘، ’’المستقیم‘‘ ہیں ایسے ہی حیاتِ انسانی کی راہنمائی کے تین گوشے ہیں، جنہیں قدرے تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے۔
اھدنا: اس پکار کے ذریعے انسان اپنے مولا سے شعوری ہدایت طلب کرتا ہے۔ وہ اپنے خالق و مالک سے ایسا شعور مانگتا ہے جس کی بدولت اسے اپنی منزل کی خبر ہو سکے۔ یہ کہہ کر وہ اپنی زبان سے یہ اقرار کررہا ہے کہ اے شعور عطا کرنے والے! مجھے کسی روشنی، تاریکی، علم اور جہالت کا شعور نہیں، اس لئے تو میں اندھیروں میں بھٹک رہا ہوں، اپنی منزل سے بے خبر ہوں اور یہ علم بھی نہیں کہ میرے پیدا کئے جانے کا کیا مقصد ہے؟ میں نہیں جانتا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ مجھے وہ ہدایت اور معرفت عطا کر دے جس سے میں اپنی زندگی کے نصب العین کو جان سکوں۔ میں تجھ سے منزلِ حیات کا شعور مانگتا ہوں۔ اس کا تعین مجھے عطا کر دے تاکہ میں اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ ہو سکوں اور یہ کہ مجھے کیوں پیدا کیا گیا۔ جب یہ دعا صدقِ دل سے نکلتی ہے تو اس کی پکار پر ہدایتِ حق متوجہ ہوتی ہے اور انسان کو شعورِ مقصد عطا کر دیا جاتا ہے۔
الصراط: اس کے بعد ایک نئی طلب جنم لیتی ہے اور ’’الصراط‘‘ کی پکار کے ذریعے وہ بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوتا ہے کہ مجھے راستے کے تعین کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خالق و مالک سے ایسی راہنمائی مانگتا ہے جس کی بدولت اسے اس راستے کی خبر ہو سکے جو اسے منزل تک پہنچانے والا ہے۔ وہ اس پکار سے اس امر کا اعتراف کر رہا ہے کہ اے راستہ دکھانے والے! مجھے معلوم نہیں کہ کونسا راستہ اس منزل کو پانے کے لئے صحیح ہے اور کونسا غلط؟ تو اپنی رحمت سے مجھے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے اور میرے لئے اس راستے کو ہموار کر دے جس پر چل کر میں اپنی منزلِ حیات کو پاسکوں۔ دل سے اٹھنے والی اس پکار پر ہدایتِ حق متوجہ ہوتی ہے اور انسان کو صحیح راستے کی نشان دہی کر دی جاتی ہے۔
المستقیم: خدا کے بندوں کو اس کی طرف جانے والے راستے میں جگہ جگہ شیطان گھات لگائے بیٹھے ہیں جو انسان کو ٹیڑھی راہوں پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیںجواس کو جہنم کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو منزل مقصود کی طرف جانے والے سیدھے راستے کی رہنمائی اور اس پر چلنے کی توفیق مانگنے کی دعا سکھائی۔ تاکہ ان کو سیدھی راہ بھی نظر آئے اور اس پر چلنے کی توفیق بھی میسر ہو۔ اے راستوں کو ہموار کرنے والے! مجھے مستقل مزاجی کی وہ دولت عطا کردے جو مجھے یقین کے ساتھ میری منزل تک پہنچادے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحیح راستے پر چلتے چلتے بھٹک جاؤں اور پھر مجھے منزل کا سراغ نہ مل سکے۔ اس لئے مجھے وہ راہ دکھا دے جو محفوظ ہو اور جس پرکوئی ڈاکومسافروں کو لوٹنے کے لئے گھات لگائے نہ بیٹھا ہو، جس پر شیطان مجھے بہکا نہ سکے۔ اے شعور عطا کرنے والے! مجھے مقصدِ حیات عطا فرما! جب دل کی گہرائیوں سے یہ ندا نکلتی ہے تو ہدایتِ حق متوجہ ہوکر انسان کو حفاظت کے حصار میں لے لیتی ہے اور اسے استقامت کی نوید سناتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
میرے بندو! اگر حفاظت کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچنے کی ضمانت چاہتے ہو تو آؤ میرے انعام یافتہ بندوں کے ہم سفر بن جائو، ان کی معیت، سنگت اوردوستی اختیار کر لو جن پر کبھی میرا غضب ہوا ہے اور نہ وہ کبھی راہِ ہدایت سے بھٹکے ہیں۔
یہ یقینی بات ہے کہ وہ جو طالبِ ہدایت بن کر ان ا للہ کے پسندیدہ بندوں کا ہمسفر بن جاتا ہے وہی اپنے مقصدِ حیات میں کامیاب و کامران ہو گا اور اسے منزلِ مقصود مل کر رہے گی۔ اسے راستے میں کوئی بہکانہ سکے گا۔ ایسے مردانِ حق کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ان لفظوں میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اعتراف کرتا ہے۔
لَاُ غْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنO اِلّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنO
(الحجر، 15: 39۔ 40)
ان سب کو ضرور گمراہ کرکے رہوں گا، سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پاچکے ہیں۔
حقیقت میں مومن وہ ہے جو اپنے دل میں پوری انسانیت کا درد اور غم رکھتا ہو۔ حضور نبی اکرمﷺ نے ایک سچے مومن کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے۔
المؤمن للمؤمن کالبنیان یَشُدُّ بعضہ بعضا.
(صحیح المسلم، 2: 321، کتاب البر و الصلہ، رقم حدیث: 2585)
مومن (ہر دوسرے مومن) کے لئے ایک عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔
حضور ﷺ کے اس ارشاد کی رو سے جس طرح دیوار کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے مل کر ایک دوسرے کے لئے سہارا بنتی ہے اسی طرح اہل ایمان کا اتحاد مسلم معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔ جب ان میں اخوت اور بھائی چارے کے جذبات پیدا ہو جائیں اور ہر فرد اپنی بجائے دوسروں کے نفع و نقصان کو اپنے پیش نظر رکھے تو ہر شخص دوسرے کا سہارا بن جاتا ہے اور کوئی اس کے کسی بھائی پر ظلم وستم توڑنا چاہیے تو وہ اس کی مدد کو دوڑتا ہے۔ اس طرح جو معاشرہ جنم لیتا ہے وہ باہمی اتحاد، اتفاق اور تعاون و اشتراک کی وجہ سے مضبوط و مستحکم حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’مومن کی مثال محبت، رحمت اور عاطفت کے حوالے سے ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف محسوس کرتا ہے تو تمام جسم رات بھر جاگنے درد سہنے اور بخار میں مبتلا رہنے میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔
یعنی جس طرح جسم کے ایک حصے میں درد پورے جسم کے لئے بے چینی کا باعث بنتا ہے بعینہٖ یہی مثال مومن کی ہے۔ اگر اس کے کسی مومن بھائی کو تکلیف پہنچے تو وہ سراپا اضطراب اس کے لئے درد مندی اور اس کی خیر خواہی خواہی کی علامت بن جاتا ہے۔
ایک اور ارشاد نبوی ﷺ میں مومن کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ.
(صحیح البخاری، 1: 2، کتاب الایمان، رقم حدیث: 13)
تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسندنہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان خود کو مقدم رکھے مگر اپنی پسندیدہ شئے میں دوسروں کو بھی شامل کرے۔ مگر ایمان کے اعلیٰ درجے میں جو شے اسے اپنے لئے پسند ہے اسے اپنے استعمال میں لانے کی بجائے دوسروں کو استعمال کے لئے دے دے اورخود کو مؤخر کر لے۔ جہاں ذات کے سارے مفادات دوسروں کی خاطر قربان ہو جائیں وہاں ایمان اپنے درجۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایمان کااعلیٰ درجہ ہی ہے جو انسان کو ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو اسے خود بھوکا پیاسا رہنے اور دوسرں کے لئے سیری اور سیرابی کا سامان فراہم کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اسی لافانی جذبے کی پذیرائی آنے والی آیت کریمہ میں کی گئی ہے۔
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃ.
(الحشر، 59: 9)
اور (یہی نہیں بلکہ وہ ان کو ) اپنی ذات پر مقدم رکھتے ہیں (ان کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں) اور اگرچہ خود ان کو شدید ضرورت (ہی کیوں نہ ) ہو
قرآن حکیم نے مومن بندوں کی صفات ایک مقام پر یوں بیان فرمائی ہیں۔
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنَا وَّ اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاO وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّداً وَّ قِیَامًاO
(الفرقان، 25: 63، 64)
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے ایک طرف ہو جاتے) ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیام میں راتیں بسر کرتے ہیں۔
ارشادِ خداوندی کی رو سے یہ اللہ کے وہ بندے ہیں جو پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں کہ کہیں ا ن کی ذات سے کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو جائے اور اگر کوئی ان سے زیادتی کر بیٹھے تو نہ صرف یہ کہ اسے معاف کر دیتے ہیں بلکہ اس کی سلامتی کی دعا کرتے ہوئے آگے گزر جاتے ہیں۔ آیۂ کریمہ میں اللہ کے بندوں کی تین صفتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ ان کا کوئی عمل دوسروں کے لئے تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ کوئی انہیں تکلیف پہنچائے تو معاف کرتے ہوئے اس کی سلامتی کے لئے دست بدعا ہوتے ہیں۔ تیسری صفت یہ کہ ان کی راتیں اللہ کے حضور حالتِ سجود و قیام میں گزر تی ہیں۔ ذہن میں رہے کہ یہی دو صفتیں حقوق العباد اور تیسری صفت حقوق اللہ سے متعلق ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دین مجموعی طور پر حقوق العباد اور حقوق اللہ سے عبارت ہے، کسی بھی ایک کو دوسرے سے جدا کرنے سے دین کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک شخص کو پکڑ کر فرمائے گا: اے شخص میں دنیا میں بیمار تھا تو میری عیادت کے لئے نہ آیا، میں پیاسا تھا تجھ سے پانی مانگا تو تونے مجھے پینے کے لئے پانی نہ دیا، میں بھوکا تھا تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانے کے لئے کچھ نہ دیا۔ وہ شخص کہے گا کہ باری تعالیٰ یہ کیونکر ممکن ہے تو رب العالمین ہے۔ تو تو ان چیزوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ اے نادان تیرے محلے میں فلاں شحص بیمار تھا تو اس کی بیمار پرسی کے لے نہ گیا۔ اگر تو وہاں جاتا تو مجھے میری عزت کی قسم تو مجھے اس کے ساتھ پاتا۔ اس طرح ایک پیاسے نے میرے نام پر پانی مانگا جو تو نے دینے سے انکار کر دیا۔ اگر تو اسے پانی دیتا تو مجھے میری عزت کی قسم تو مجھے اس پیاسے کے ہمراہ پاتا۔ اسی طرح میرے نام پر فلاں نے کھانا مانگا، اگر تو اسے کھانا کھلا دیتا تو مجھے اس کے پاس دیکھتا اور یہ کھانا خود مجھے ملتا۔‘‘
صحیح المسلم، 2: 318، کتاب البرو الصلہ، رقم حدیث: 2569
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یاد کرانا چاہتا ہے کہ اگر وہ میرا فضل اور رحمت تلاش کرنا چاہتے ہیں تو میرے بندوں پر احسان کریں کہ اس طرح وہ میرے انعام و اکرام کے مستحق بن جائیں گے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں اسے حلاوتِ ایمان نصیب ہوگی: (1) اللہ اور اس کا رسول ﷺ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ (2) اگر اسے کسی سے محبت ہو تو صرف اللہ کے لئے ہو۔ (3) وہ کفر کی طرف لوٹ جانے کو اسی طرح ناپسند جانے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو جانتا ہے۔ (صحیح البخاری، 1: 7، کتاب الایمان، رقم حدیث: 15)
ایک اور روایت جو ملے جلے الفاظ کے ساتھ حضرت ابوہریرۃ ؓ اور حضرت انس ؓ نے بیان کی ہے اس طرح ہے:
قال رسول اللہﷺ لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ و الناس اجمعین.
(صحیح البخاری، 1: 7، کتاب الایمان، رقم حدیث: 15)
رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کو ماں باپ اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
ایمان کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ کی یہ روایت بھی ہمارے لئے سرمایۂ ہدایت ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا۔
لانت احب الّی من کل شیی ء الا نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی لن یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ فقال عمر: والذی انزل علیک الکتاب لانت احب الیّ من نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی ﷺ الٓان یاعمر.
(الشفاء، 2: 15)
میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان جو میری جان پوشیدہ ہے اس کے علاوہ آپ ﷺ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ سن کر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ یہ ارشاد سن کر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا۔ اگر ایسا ہے تو قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق و صداقت والی کتاب کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔
ایک اور روایت جو سہل بن عبداللہ تستری نے بیان کی، اس میں وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سرورِ دو عالم ﷺ کی ولایت اور حکومت کو ہر جگہ اور ہر حالت میں تسلیم نہیں کرتا وہ سنت نبویﷺ کی حلاوت کو محسوس ہی نہیں کرسکتا کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن ہوہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ میری ذات کو جان، مال، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ (الشفاء، 2: 15)
اللہ پر ایمان اس وقت تک مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک حضورﷺ سے تعلقِ محبت پختہ اور محکم نہ ہو جائے۔ گویا رسالت پر ایمان ہو تو ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا.
(التغابن، 64: 8)
پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اور اس نور (قرآن پاک) پر جو ہم نے نازل کیا۔
ایک دوسری آیت میں یوں ارشاد فرمایا:
اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاO لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ.
(الفتح، 48: 8۔ 9)
بے شک ہم نے آپﷺ کو (لوگوں کے احوال کا) گواہ اور ان کو خوشخبری سنانے والا اور (عواقب سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لاؤ۔
ان آیات سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حضور ﷺ پر ایمان لانا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، اس کے بغیر نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان پورا نہیںہوسکتا ہے، بلکہ اسلام لانا بھی درست نہیں ہو سکتا۔
اس حوالے سے قاضی عیاض ؓ نے ایک روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں۔
الایمان بہ ﷺ ھو تصدیق نبوتہ و رسالۃ اللہ لہ و تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ و ما قالہ و مطابقۃ تصدیق القلب بذالک شہادۃ اللسان بانہ رسول اللہ ﷺ فاذا اجتمع التصدیق بہ بالقلب و النطق بالشھادۃ بذالک باللسان تم الایمان بہ والتصدیق لہ.
حضور ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت، سرور دو عالم ﷺ کی نبوت و رسالت اور احکامِ الٰہی جو حضور ﷺ کے ذریعہ سے موصول ہوئے ہیں ان سب کا زبانی اقرار اور دل سے تصدیق کرے اور جب یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں گی تب ایمان مکمل ہوگا اور تصدیق درست ہوگی۔
الشفاء، 2: 3)
ان روایات سے جہاں رسالت پر ایمان کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہاں یہ بات بھی پوری طرح کھل کر سامنے آتی ہے کہ حضورﷺسے تعلق اور نسبت قائم کئے بغیر ایمان اور اسلام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ رسالت پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آقائے دو جہاں ﷺ کی چوکھٹ پر اپنا سر اس طرح جھکا دے کہ عقل، فکر اور فلسفے کا کوئی عمل دخل باقی نہ رہے۔ اس لئے کہ عقل کے چراغ جلا کر درِ مصطفے ﷺ سے ایمان کی دولت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
قرآن حکیم کی رو سے نیکی اور تقویٰ سے ایسے کام مراد ہیں جن سے براہِ راست کسی کو فائدہ پہنچے نہ کہ ایسی نیکیاں جومحض اجر و ثواب اور روحانی ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ قرآن حکیم نے ایک مقام پراس کی وضاحت ان الفاظ سے فرمائی ہے:
لَنْ تَنَالُوٰا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3: 92)
(لوگو) تم نیکی (میں کمال) ہرگز حاصل نہ کر سکو گے۔ جب تک اپنی پیاری چیزوں سے کچھ (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے۔
اس آیۂ کریمہ میں نیکی کے تصور کو منفی انداز سے بیان کرتے ہوئے یہ نکتہ سمجھایا جارہا ہے کہ لوگو تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، جب تک تم اپنے مال سے وہ چیز نہ خرچ کر ڈالو، جسے تم بہت محبوب رکھتے ہو۔ ’’حتی تنفقوا مما تحبون‘‘ کے الفاظ پکار پکار کر اس تصور کوسرے سے رد کر رہے ہیں کہ وہ نیکی ہے ہی نہیں، جس میں مخلوق خدا کی نفع بخشی اور فیض رسانی کا پہلو نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے ماننے والوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ مجھے تمہاری نیکیوں، تمہارے رکوع و سجود اور تسبیحات کی رتی بھر پروا نہیں اور تمہارے یہ اعمال میری ربوبیت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں کرتے اور اگر تم انہیں چھوڑ بھی دو، میری عظمت والوہیت میں رائی بھر فرق نہیں پڑے گا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم نیکیاں میری خاطر کرتے ہو، لیکن اگر تمہارا حال یہ ہے کہ میری مخلوق کی بے چارگی، بے بسی اور غربت و افلاس پر تمہارا دل پریشان نہیں ہوتا اور تم ان سے بے خبر رہتے ہو، تو مجھے تمہاری نیکیوں کی کوئی پروا نہیں۔ تم میری ربوبیت کے محتاج ہو مگر میں تمہاری ان نیکیوں کا محتاج نہیں جو میری مخلوق کے لئے نفع اور فیض کا ذریعہ نہیں بنتیں۔ تم جو چاہو کرتے پھرو، جب تک اللہ کی راہ میں اس مال و دولت کو بے حساب خرچ نہ کرو جسے تم بچا بچا کر اپنی تجوریوں اور بینک بیلنس کی زینت بناتے ہو اور جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہو۔
قرآنِ حکیم نے ہمارے لئے نیکی کا ایک اصول وضع کر دیا ہے، جس کے پیمانے پر ہم بندگانِ خدا کے ساتھ اپنے طرزِ عمل کا اندازہ لگائیں اور دیکھیں کہ ہم ان کے ساتھ کیسا برتائو کرتے ہیں۔ ہم مسجد و منبر اور اپنی مجالس میں نیکی کا جو تصور بیان کرتے ہیں اگر اس کا موازنہ قرآن کے بیان کردہ تصور سے کریں تو ہم پر وہ تضاد واضح ہو جائے گا، جس کا مظاہرہ ہم اپنی عملی زندگی میں کرتے ہیں۔ ہم مساجد میں باجماعت نماز پنجگانہ بھی ادا کرتے ہیں، ہر سال حج اور عمرہ بھی کر لیتے ہیں، روزانہ وظائف و تسبیحات بھی ہمارا معمول ہے، لیکن اس کے ساتھ دُکھی اور پریشان حال مخلوق کی طرف سے ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انہیں ادا کرنے کی طرف کبھی دھیان نہیں دیتے۔ غریبوں اور بے کسوں کی حالت زار سے آنکھیں چرا لینا ہمارا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ قرآن ہمیں بار بار یاد دلا کر رہا ہے کہ اگر ذہن میں نیکی کا یہ تصور رکھ کر ہم اپنے آپ کو نیکو کار سمجھنے لگیں تو یہ ہماری بہت بڑی بھول ہو گی اور کوئی بعید نہیں کہ کل روزِ قیامت اللہ جل شانہ‘ ہماری ان نیکیوں کو ہمارے منہ پر دے ماریں اور ارشاد فرمائیں کہ ہماری نظر میںان کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگر کوئی حاجی نمازی یا سخی کہلاتا ہے تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی عمل نیکی نہیں لکھا جاتا، جب تک اس کا وجود دوسروں کے لئے نفع و فیض کا سر چشمہ نہ بن جائے۔ قرآنِ حکیم کی نظر میں اس وقت تک تمہارے اعمال، نیکیاں نہیں لکھے جائیں گے، جب تک دُکھی، پریشان حال مخلوق کی فاقہ کشی اور بُھوک کا علاج نہ ہو اور سسکیاں لیتی ہوئی انسانیت کے مسائل کا حل نہ نکالا جائے۔
اس زمانے میں جس بات کو نیکی سمجھا جانے لگا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے، جس کی تلقین ہمیں حضورﷺ نے فرمائی تھی اور جو قرآنی تعلیمات کا منشا و مقصود ہے۔ نیکی کامفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان دوسروں کے لئے دستِ تعاون دراز کرے۔ ان کی حاجت روائی کرے اور اسے جتنے وسائل اللہ نے دے رکھے ہیں، انہیں خلقِ خدا کی مالی حاجت پوری کرنے میں صرف کر دے۔ اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ جس کی مدد کی جارہی ہے وہ سائل کی طرح اس کے آگے اپنی گردن جھکائے رکھے۔ اسلام ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے بلکہ اگر کسی محروم کو کچھ دیا جاتا ہے تو اسے اس کا حق تصور کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:
وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌO لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِO
(المعارج، 70: 24۔ 25)
اور جن کے مال میں حقداروں کا حق مقرر ہے۔ مانگنے والوں کا اور نہ مانگنے والوں کا۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ مالدار لوگوں کے مال کے اندر سائلوں، محتاجوں اور محروموں کا حق ہے اور حقدار کو یہ حق دینا احسان نہیں بلکہ ایک فریضہ ہے۔ جس کی ادائیگی کے بارے میں روزِ قیامت اس سے سوال پوچھا جائے گا۔ قرآن حکیم ایسے مالداروں کو سخت الفاظ میں وعید کرتا ہے جو اپنے مال کو جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے غرباء اور ناداروں کی مدد پر خرچ نہیں کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کا یہ ارشاد دولت کے پجاریوں سے سوال کرتا ہے کہ کیا محروموں کو ان کا حق نہ دے کر یہ تجوریاں، یہ بینک بیلنس تمہیں دوزخ کی آگ سے بچا سکیں گے؟ یہ آیت جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر انسان کواس بات پر توجہ دلا رہی ہے۔
وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ نِO الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗO یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗOکَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِO
(الھمزۃ، 104: 1۔ 4)
خرابی ہے ہر اس شخص کے لئے جو (سامنے) طعنہ دیتا ہے اور (پیٹھ پیچھے) عیب جوئی کرتا ہے، جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ رکھے گا، ہرگز نہیں (اس کا مال اس کی اولاد سب یہیں چھوٹ جائے گی) وہ یقینا حطمہ میںڈال دیا جائے گا۔
قرآن عذاب سے ڈرا کر یہ تصور انسانی ذہن میں بٹھانا چاہتا ہے کہ اپنے مال سے دوسروں کا حصہ نکالنا ان کا فرض اور یہ حق دار کو ان کا حق دینا ہے۔
آج مجموعی طور پر ہمارے اندر تمام خرابیاں، برائیاں اور فتنے اس سبب سے پیدا ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلقِ بندگی کے نتیجے میں ہمیں جیسا بندہ ہونا چاہیے تھا نہیں رہے۔ اس وقت المناک صورت حال یہ ہے کہ نہ ہم سے حقِ بندگی ادا ہو رہا ہے اور نہ ہمیں واقعتا اس کی پروا ہی ہے۔ یہ کیفیت دل کے بگاڑ یعنی فسادِ قلب کی وجہ سے ہے جس کی دو صورتیں نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق بندگی کٹ گیا ہے یا کمزور پڑ گیا ہے۔ دوسرا سبب حضورﷺ سے ہمارا تعلقِ غلامی عملاً ختم ہو چکا ہے اور نہ ہونے کے برابرہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ روحانی امراض کی تشخیص، اسباب کی معرفت اور طریقِ علاج کا بنیادی اُصول قرآنی منہاج میں پوشیدہ ہے جس سے ہماری مراد مسیحائی کا وہ انداز ہے جو قرآن نے ہم پر واضح کیا ہے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ہم ہر امر کی حقیقت جاننے کے لئے قرآن حکیم سے سند لیتے ہیں۔ لیکن اس سند لینے میں ہم سے غلطی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا غلطی کے امکان کو ختم کرنے کے لئے ہم حضورﷺ کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس کی مزید تائید و توثیق کے لئے ہم حضورﷺ کی امت کے اولیاء، صلحائ، ائمہ کرام اور اکابر علماءِ حق کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ انسانی علم و عقل، فہم اور طریقِ عمل کی کوئی کمزوری اور کجی ہماری راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ طریقۂ اسلاف اور بزرگانِ دین کے راستے پر گامزن ہونے کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور روزانہ درخواست گزار ہوتے ہیں:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَO صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.
(الفاتحہ: 5۔ 6)
ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔
اب المیہ یہ ہوا کہ لوگوں نے قرآنی منہاج کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ کسی نے فقط ’’قرآن‘‘ کو لے لیا اور محض اپنی عقل کی قوتوں سے مرادِ قرآن تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں ٹھوکریں کھائیں اور کسی نے قرآن کو چھوڑ کر محض حدیث کو لے لیا۔ ہم قرآن کے منہاج کو بحال کرنے کے لئے تمام ٹکڑے اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اور اس امر کے متمنی ہیں کہ لوگ اس منہاج القرآن پر عمل پیرا ہو جائیں۔ جو اس کی اصل روح ہے۔
انسانی شخصیت میں قلب(دل) وہ حاکم قوت ہے جو پورے انسانی وجود پر ہمہ وقت اپنی مرضی مسلط کرکے اسے اپنے تابع کرنا چاہتی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قلب عقل و فکر کی قوتوں پر غالب ہے۔ اسی سے انسانی شخصیت کے مختلف اطوار اور رویے جنم لیتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اگر دل اپنی صفات عالیہ سے محروم ہو جائے تو اعضاء کی حسی قوتوں کو کاملیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کی تصدیق قرآن حکیم نے اس انداز میں کی ہے:
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ وَعَلٰٓی اَبْصَارھِمْ غِشَاوَۃٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌO
(البقرہ، 2: 7)
اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
دل اور کان پر مہر لگا دینے اور آنکھوں پر پردہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ اب یہ کافر نہ حق بات سمجھتے ہیں اور نہ سچی بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نہ حق کو دیکھتے ہیں۔ گویا یہ محروم ہیں اور ان کے نورِ ایمان پر کفر کی تاریکیاں چھا گئی ہیں۔ آگے چل کر مزید ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں جن سے حق کی طرف لوٹنے کی صلاحیت ہی سلب ہو گئی ہے۔ قرآن حکیم نے ایک اور مقام پر اس حقیقت کی تائید یوں کی ہے کہ ان کی ظاہری آنکھیں اندھی نہیں بلکہ ان کے سینوں کے اندر جو دل ہیں وہ اندھے ہو چکے ہیں کہ نہ حق کو سمجھتے ہیں اور نہ اسے قبول کرتے ہیں۔
اس سے یہ پتہ چلا کہ دل کی اہمیت کس قدر ہے۔ اگر وہ بگڑجائے تو جیتا جاگتا انسان اپنے اعضاء صحیح و سالم ہوتے ہوئے بھی سمجھنے بوجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم کی بیان کردہ اس حقیقت کی تصدیق آقائے دوجہاں ﷺ کے اس فرمان سے ہو جاتی ہے۔ حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
’’خبردار بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب وہ درست ہو جائے تو تمام جسم درست رہتا ہے اور جب اس میں فساد یا بگاڑ پیدا ہو جائے تو سارا جسم فساد زدہ ہو جاتا ہے۔ اور خبردار ہو جائو کہ یہ دل ہے۔
(صحیح البخاری، 1: 13، کتاب الایمان، رقم حدیث: 52)
گویا جب قلبی احوال درست ہوں گے تو انسان کی شخصیت تعریف کے قابل ہو گی اور اگر قلب حرص لالچ، تکبر اور ہوا و ہوس سے بھرا ہو گا تو اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے گی اور وہ ’’احسنِ تقویم‘‘ کی منزل سے گر کر ’’اسفل السافلین‘‘ کے گڑھے میں غرق ہو جائے گا۔
اب ہم اختصار کے ساتھ فسادِ قلب کی پہلی صورت کے علاج کی طرف آتے ہیں جو (1) صحبتِ صلحاء اور (2) ذکرِ الہٰی سے میسر آتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے۔
(1) صحبتِ صلحائ: فسادِ قلب کے علاج کا مقصد یہ ہے کہ انسانی شخصیت تمام روحانی کمزوریوں، شہوانی قوتوں کے غلبے اور خواہشِ نفس کی اکساہٹوں سے محفوظ ہو جائے۔ اس کے اندر روحانی قوت سے پاکیزگی پیدا ہو جائے اور وہ اللہ کے ساتھ تعلقِ بندگی اور اور اس کے محبوب رسول ﷺ سے تعلقِ غلامی استوار کرنے کے لئے بے قرار ہو جائے۔ یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہو جائے گا۔ باطن کے اندھیرے دور ہو جائیں گے۔ شقاوت(یعنی بدبختی اور تنگ دلی) سعادت میں بدل جائے گی اور اس کے قلب و روح تعلق باللہ کے نور سے جگمگا اٹھیں گے۔ پھر غلامیٔ رسول اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دے گی اور ایسے انسان کو مقامِ تسخیر حاصل ہو جائے گا۔ جس میں کاتبِ تقدیر اپنا قلم بندۂ مومن کے ہاتھ تھما دیتا ہے اور اس کا حال بقول اقبال
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
کا مصداق بن جاتا ہے۔ قرآنی منہاج اور صحبت علماء کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وّمِنْھَاجًا ط
(المأئدہ، 5: 48)
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے۔
چونکہ فسادِ قلب کے علاج کا مقصد یہ ہے کہ اللہ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑ کر پھر سے بحال کرنا ہے، ایسا صرف اللہ کے بندوں کی صحبت ہی سے ممکن ہے۔ اس صحبت کی بحالی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بیٹھ کر محبوبِ حقیقی کی باتیں کی جائیں اور اللہ کے نیک اور صالح بندوں کے ذکر سے دل کی تاروں کو چھیڑا جائے۔ اسی طرح ان کی صحبت کی یاد زندہ ہو گی اور دلوں پر کیفیاتِ عشق و مستی وارد ہو نگی۔ یاد رہے کہ وہ شخص جس نے اللہ کے بندوں کی صحبت کو ترک کر دیا وہ اللہ کی بندگی کا راز نہیں پاسکتا اور وہ ان لذتوں اور حلاوتوں سے محروم رہتا ہے جن کے فیضان سے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ افرادِ امت میں جس طبقے کو سب سے زیادہ عزت اور شرف ملا وہ صحابہ ہی تھے۔ صحابہ کرام کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز شرفِ صحبت تھا۔ دنیا کے ولایت میں جو مقام شہنشاہِ اولیاء سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کو حاصل ہوا اسے دنیا جانتی اور مانتی ہے لیکن ایک ادنیٰ صحابی کو صحبتِ مصطفویﷺ سے جو درجہ ملا محبوب سبحانی سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ جیسے شہنشاہِ ولایت بھی اس سے پیچھے رہ گئے۔
آج ہماری اولیں ضرورت ان صحبتوں کے احوال کو زندہ کرنا ہے جن سے طلب پیدا ہوتی ہے اور جب طلب تڑپ بن جائے تو مدعا ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔ پس فسادِ قلب کے قرآنی منہاج کا نقطۂ اول صحبت ہے، جس کا حکم خود قرآن نے دیاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُعَیْنٰـکَ عَنْھُمْ.
(الکھف، 18: 28)
(اے میرے بندے!)تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ ان کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔
ہمیں قربتِ الٰہی حاصل کرنے کا راز بتایا جارہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں رب مل جائے تو پھر ان کی صحبت میں بیٹھا کرو جن کا ہر لمحہ یادِ محبوب میں گزرتا ہے اور ان کاتعلق کبھی اللہ سے نہیں ٹوٹتا۔ یہ خدا کے بندے وہ ہیں جو سوتے، جاگتے، اور خلوت و جلوت میں اپنے مولا کی یاد میں محو رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر تم اللہ کو پانا چاہتے ہو تو ایسے مردانِ باخدا کے دامن کو تھامے رکھو۔ ان پر اپنی نگاہیں ٹکائے رکھو اور ان سے لولگا لو۔ اس طرح تمہارا تعلق جو ٹوٹ گیا ہے پھر اللہ سے جُڑ جائے گا۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ’’ولا تعد عینک‘‘ بندۂ حق کو عشق کا سبق دے رہے ہیں۔ اس کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ مولا صفات بندوں کی صحبت کو اختیار کئے رہے اور اپنے دھیان کی نگاہیں ان آنکھوں پر مرکوز رکھے جو محبوب کو تکتی رہتی ہیں اور اس کے لئے روتے رہنا ان کا شعار بن گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنا قرب عطا کرنے کے لئے پہلے اپنی محبوب شخصیت بھیجی اور بعد میں کتاب نازل کی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ شخصیت کی تعمیر بندگانِ خدا کے ہاتھوں ہی سے عمل میں آتی ہے اور اس کے لئے صحبت کے بغیر چارہ نہیں۔ دین قیل و قال کا نہیں بلکہ حال کا نام ہے۔ جب نماز کے احکام وارد ہوئے توان کی تفصیل جاننے کے لئے صحابہؓ نے حضورﷺ سے عرض کی: آقاﷺ! ہم نماز کیسے ادا کریں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔ مجھے دیکھ کر تمیں نماز پڑھنے کا سلیقہ اور قرینہ آجائے گا۔ لہٰذا صحبت وہ دولت ہے جو حضورﷺ کے بعد نسلاً بعد نسلاً منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اور اس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا۔
اب ہم فسادِ قلب کے دوسرے علاج کی طرف آتے ہیں جو ہے ذکرِ الٰہی۔ قرآنی منہاج کا اوّلین نکتہ صحبتِ علماء تھا تو اس کا دوسرا نکتہ ذکرِ الٰہی کی کثرت ہے۔
ذکرِ الٰہی جب سینوں میں موجود زن ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ذوق و عشق کے سمندر کی لہریں ہمارے دل کی کشتی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں اور ہم سب کشتی میں سوار ذکرِ الٰہی کے چپووں سے منزلِ مراد کی طرف جا رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ زندگی کے سارے کیف و سرور , لذتیں, حلاوتیں اور مسرتیں اسی ذکرِ الٰہی سے قائم ہیں۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ جب اللہ جل جلالہ کے ذکر کی مجلس ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے جو زمین پر گھومتے رہتے ہیں، جہاں جہاں انہیں اللہ کے ذکر کی مجلس مل جائے اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک متفق علیہ حدیث کے مطابق حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے مقرر شدہ فرشتے ہیں جو اہلِ ذکر کی تلاش میں مختلف راستوں اور گلیوں کا چکر لگاتے رہتے ہیں، انہیں جہاں بھی ایسی مجلس نظر آجائے جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہ باقی فرشتوں کو آواز دے کر بلاتے ہیں (دوسری روایت میں ہے) بے شک اللہ تعالیٰ کے ایسے ملائکہ ہیں جو زمین میں مجالسِ ذکر کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں، جب انہیں کوئی ایسی مجلس مل جائے جس میں ذکر الٰہی ہو رہا ہو تو وہ ان اہلِ مجالس کے ساتھ بیٹھ کر اس میں شریک ہوجاتے ہیں اور وہ ملائکہ اپنے پروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پوری مجلس پر اس طرح چھا ہوجاتے ہیں کہ ان کے اور آسمانِ دنیا کے درمیان ساری فضا ان سے معمور ہوجاتی ہیں۔
(صحیح المسلم، 2: 344، کتاب الذکرو الدعاء، رقم حدیث: 2689)
اس ضمن میں شاہ ولی اللہؒ فیوض الحرمین‘‘ لکھتے ہیں:
’’میں مکہ معظمہ میں تھا۔ حضور ﷺ کے میلاد کی ایک محفل منعقد ہوئی، اللہ سبحانہ اور رسولِ کریم ﷺ کا ذکر جاری تھا کہ اچانک اس محفل میں اتنا نور چمکا کہ آنکھیں چندھیا گئیں۔ میں نے اس نور کی حقیقت سمجھنے کے لئے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ اللہ سبحانہ نے ایسی مجلسوں میں شرکت کے لئے ہزاروں لاکھوں فرشتے مامور فرما دیے ہیں جو مجلس میں انوار کی جولانیوں کا باعث بنتے ہیں‘‘
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ کوئی شخص خواہ اپنے دل میں کتنا ہی زنگ، سیاہی، ذہنی پراگندگی، روح کی تاریکی، غفلت اور ہوا و ہوس جیسی آلائشوں اور بیماریوں سے محفل ذکر میں شریک ہوا ہو اگر وہ تسلسل سے اہل اللہ کی صحبت کو اپنائے رکھے اور کثرت سے ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ذکر کی برکت سے اس کے دل کی دنیا نہ بدل جائے اور اس کے شب و روز تبدیل نہ ہوجائیں۔
بعض احباب یہ شکوہ کرتے ہیں کہ محافلِ ذکر میں شرکت کے باوجود انہیں لذت و سرور کی کیفیات نصیب نہیں ہوتیں اور وہ حضوری کی حلاوت سے محروم رہتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ کیفیات کا حاصل ہونا ذکر کا مقصود و مطلوب نہیں۔ ذکر کا مقصد صرف محبوب کو یاد کرنا ہے۔ یہ خیال درست نہیں کہ چونکہ وہ سرور و لذت سے محروم ہیں اس سے شائد ان کا ذکر مقبول نہیں ہوا۔ یہ محض مغالطہ ہے مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ ایک بار اللہ کا نام لیتا ہے تو دوسری بار اس وقت تک اس کے لبوں پر اللہ کا نام نہیں آتا جب تک پہلا قبول نہ ہوجائے۔ بندے کا مسلسل اللہ اللہ! کرتے چلے جانا توفیقِ الٰہی کی دلیل ہے کہ دوسری بار نام لینے کی توفیق قبولیت کے بعد ہی ملتی ہے۔ اس پر شاہد یہ ارشادِ ربانی ہے:
فَاذْکُرُوْنِٓیْ اَذْکُرْکُمْ
(البقرہ، 2: 152)
سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔
لہٰذا جب بندہ ایک بار اللہ کا نام اپنی زبان پر لاتا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ جواب میں اللہ بھی کم از کم ایک بار اُسے یاد نہ کرے۔ وہ ربِ کریم جو اپنے بندوں کو دستورِ حیات دیتے ہوئے احسان کی روش پر چلنے کی تلقین فرماتا ہے:
هَلْ جَزَآء الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ
(الرحمن، 55: 60)
اور احسان کا بدلہ بھی احسان کے سوا کیا ہے؟
وہ خود کس درجہ احسان کا پاس فرماتا ہوگا اور اس اللہ رب العزت کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ
مَنْ جَآءَ بِالحَسَنۃِ فَلَہٗ عَشَرَ اَمْثَالِهَا
(الانعام، 6: 160)
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطور اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں
یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو بندہ ایک نیکی کرے گا اسے اس جیسی دس نیکیاں عطا کی جائیں گی۔ ’امثالھا‘ کی اس حقیقت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے جب ہماری نظر سورۃ البقرہ کی اس آیت کی طرف جاتی ہے تو اللہ کا بندے پر احسان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب بندہ ایک بار اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ذاتِ کریمانہ دس بار اپنے اس بندے کو یاد کرتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved