اسلام نے عبادت کا جو تصور دیا ہے وہ بہت جامع اور وسیع ہے۔ محبت الٰہی کے بعد ایمان کامل کا تقاضا اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب ایمان کے دوسرے تقاضے یعنی اطاعت الٰہی پر پوری طرح توجہ دی جائے، کیونکہ محبت درحقیقت اطاعت الٰہی کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی سنن ابوداؤد میں اس طرح منقول ہے: ’’جس نے اللہ کے لئے محبت کی، اللہ کے لئے دشمنی کی، اللہ ہی کے لئے روکا تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ قرآن نازل کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ قرار دیا گیا ہے کہ بندوں کو خدائے تعالیٰ کی مرضی اور ناپسندیدگی سے واقف کر دیا جائے۔ اسی بنا پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَھَذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ مَبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَO
(الانعام، 6؛ 155)
اور یہ کتاب بھی ہمی نے اتاری ہے جو برکت والی ہے۔ تم اس کی پیروی کرو اور خدا سے ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے۔
قرآنِ کریم کے علاوہ ہادی برحق سرورِ کائنات ﷺ کے ذریعے بھی انسان کو اچھے برے کاموں سے آگاہ کیا گیا۔ ’’جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی، اس نے خدا کی اطاعت کی۔ جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی، اس نے خدا کی نافرمانی کی اور محمد ﷺ کی ذات گرامی اچھے اور برے لوگوں کے درمیان امتیاز کا معیار ہے۔
محبت و اطاعت کا جو تصور ہمیں اسلام نے دیا وہ دوسروں سے قطعی مختلف ہے۔ اسلام ہمیں محبتِ الہٰی، احکام کی اطاعت اور اس کے مقرر کردہ ضابطوں کی پیروی و پابندی کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اس جامع تصور کو بیان کرنے کے لئے ارشاد ہوا ہے’’اور اپنے پرورگار کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہیں یقین حاصل ہو جائے‘‘۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عبادت کااصلی مفہوم انتہائی تذلل اور عاجزی اختیار کرنا ہے۔ اسی سے ایک لفظ عبودیت بنا ہے، جس کامفہوم ہے، انسان خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں خود کو نہایت عاجز، انتہائی مسکین، سراسر بے بس اور بے حد ذلیل سمجھے۔ بارگاہ خداوندی میں اسی احساسِ بندگی کا نام عبادت ہے۔ گویا یہ عبادت کا لغوی مفہوم ہوا، لیکن اس عبادت کی عملی شکل یہ ہے کہ بندہ خود کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام یوں ثابت کرے کہ جس کام سے اسے منع کیا گیا ہے، اس سے عمر بھر رکا رہے اور جس کام کا اس کو حکم دیا گیا ہے، اسے ساری زندگی اسی ذوق و شوق سے کرتا رہا ہے۔ خواہ وہ کرنے اور نہ کرنے والے کام مسجد اوراس کی چار دیواری سے متعلق ہوں، ہسپتال او ر مدرسے کی زندگی سے متعلق ہوں، ان کا تعلق بیوی بچوں کے ساتھ سلوک سے ہو یا حکومتی اور ریاستی معاملات سے۔ الغرض انسانی زندگی کے جس شعبے میں جس ڈھب سے زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اسی طریقے سے زندگی بسر کرنے کا نام عبادت ہے۔
عبادت کے اس وسیع مفہوم سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے در حقیقت عبادت کا ایک انوکھا اور اچھوتا فلسفہ پیش کیا ہے جس کا محض مان لینا کافی نہیں بلکہ اسے ہر طرح مان کر عملی حقیقت کے طو پر اپنا لیا جائے تو ایمان مکمل ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَO
(البقرہ، 2: 34)
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو سب سجدے میں گر پڑے۔ مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا۔
قرآن حکیم نے عبادت کے اس جامع تصور کو یوں بیان کیا ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلَّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بَعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَأسَآء وَالضَّرَآءِ وَحِیْنَ الْبَأسِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَO
(البقرۃ، 2: 177)
نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب (قبلہ سمجھ کر) کی طرف منہ کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خداپر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور خدا کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال عزیز رکھنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں محتاجوں، اور مسکینوں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور جو عہد کریں، اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف اور (معرکہ) کار زار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔
جس آیت کا ہم نے سابقہ درس میں حوالہ دیا اس میں عبادت کاجو تصور پیش کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا معیشت سے، معاشرت سے ہو یا سیاست سے، حالتِ جنگ سے ہو یا حالتِ امن سے۔ گویاعبادت، اطاعتِ الٰہی کی اس کیفیت کا نام ہے جو تمام عمر کے احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ایمان باللہ کا تیسرا تقاضا توکل علی اللہ، یعنی ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ توکلِ ترک اسباب کا نام ہے، حالانکہ خدا تعالیٰ کو ایسا توکل ہرگز منظور نہیں جس میں اسباب کو مکمل طور پر چھوڑ دیاجائے۔ اسلام ہمیں یہ تلقین کرتا ہے کہ اسباب اور وسائل کو ضرور استعمال کریں، انہیں ضرور کام میں لائیں، مگرہمارا مکمل بھروسہ اور اعتماد اسباب پرنہ ہو، بلکہ رب کائنات کی ذات پر ہو جو اصل اسباب کو پیدا کرنے والی ہے۔
رب المشرق و المغرب لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلاO
(المزمل، 73: 9)
وہی مشرق اور مغرب کارب ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو اپنا کار ساز بناؤ۔
قرآن حکیم نے لفظ ’’وکیل‘‘ کا مفہوم یہ لیا ہے کہ آدمی اپنے کسی کام کو نپٹانے کی ذمہ داری کسی دوسرے شخص کے کندھوں پر ڈال دے۔ ہم روز مرہ زندگی میں وکیل اور وکالت کے اس تصور سے پوری طرح واقف ہیں، لیکن کیا وکیل کو کام سونپ دینے کے بعدہمیں غفلت کی نیند سو جانا چاہیے؟ یقینا ہماری روز مرہ زندگی اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ میں دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ موکل اپنے وکیل کی بتائی ہوئی باتوں کی پابندی کرتا ہے اور وہ اپنی بھر پور کوششیں سے معاملہ کو انجام تک لانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔
اس کے ساتھ ہی قرآن حکیم یہ بھی واضح کرتا ہے کہ خدا کی ذات پر توکل کرنے والوں کو خداوند تعالیٰ ہر اعتبار سے کافی ہو جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰهِ فَھُوَ حَسْبُہْ.
(الطلاق، 65: 3)
اور جو کوئی اللہ کی ذات پر بھروسا کرے گا تو وہ اس کو کافی ہوگا۔
جس شخص کے لئے خدا تعالیٰ کافی ہو جائے اس کی زندگی میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ خدا سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز مزید بہتری کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
اللہ تعالیٰ کے کافی ہونے کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنی طرف سے پوری کوشش تو کرے مگر انجام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ خدا وند تعالیٰ اپنے ایسے بندے کو ضرور سرخرو فرماتا ہے۔ توکل کا یہی انداز قرآن کریم اپنے ہر پیرو میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اس کے بغیر کسی مومن کاایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ توکل کرنے والے کو دنیا میں بھی بہترین پھل دیا جاتا ہے، جامع الترمذی کی ایک حدیث میں ہے: اگر تم اللہ پر توکل کرنے کا حق ادا کرو تو تمہیں ان پرندوں کی طرح جو صبح کو خالی شکم گھر سے نکلتے اور شام کو پر شکم ہو کر لوٹتے ہیں، رزق دیا جائے گا اور تمہاری دعائوں سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔
( جامع الترمذی، 2: 57، ابواب الذھد رقم حدیث: 2344)
ہمارے ہاں توکل کے بارے میں دو مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہمارے اس معاشرے میں دو گروہ تشکیل پاگئے۔
ایک گروہ، جو جدید طرز زندگی اور مادہ پرستی کا قائل ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ سب کچھ، اسباب ہی میں ہے۔ اور اس تصور کو آگے بڑھانے میں جدید مغربی تہذیب و انداز فکر نے بہت زیادہ عملی حصہ لیا ہے اور یہ یقین بھی دلانے کی کوشش کی ہے کہ کائنات صرف اسباب ہی کے سلسلے کانام ہے اور اسباب کے علاوہ کوئی نہیں جس پر بھروسہ کیا جاسکے۔
اس غلط تصور کے نتیجے میں ہماری زندگیوں سے روحانی اثرات غائب ہوگئے ہیں اور ہم محض اسباب کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ اس طرح ہماری آنکھوں سے زندگی کا وہ رخ اوجھل ہوگیا ہے جو ان اسباب کے پیچھے ایک موثر حقیقت کے طور پر موجود ہے۔
اس گروہ کے بالمقابل دو سرا انتہاء پسند گروہ مذہبی نام لیواؤں کاہے۔ جنہوں نے توکل کا مفہوم ترکِ اسباب سمجھ لیا اور یہ کہا کہ ہر قسم کے اسباب سے لاتعلقی اختیار کر لی جائے۔ انہوںنے انسان کو یہ تلقین کی کہ جدوجہد بیکار ہے، جو کچھ تمہاری قسمت میں لکھا ہے وہ تمہیں مل کر ہی رہے گا۔ ان دونوں تصورات کا اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کی تعلیمات بالکل واضح ہیں کہ جو تمہیں کرنا چاہیے اپنی طاقت کے مطابق کرتے رہو اور نتیجہ اللہ کے سپرد کر دو! یہی اصل توکل ہے۔
نماز اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ اسلامی نظامِ عبادات میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں کم و بیش سات سو مقامات پر نماز قائم کرنے کا ذکر آیا ہے۔ جن میں سے اسی (80) مقامات پر صریحاً نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے جس فرض کی ادائیگی کا حکم زیادہ تاکید کے ساتھ آیا ہے، وہ نماز ہی ہے۔
نماز وہ امتیازی عمل ہے جو ایک مومن کو کافر سے جدا کرتا ہے، قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق فریضۂ نماز کی بجاآوری میں دین کی تعمیر اور اس کے ترک کر دینے میں دین کی بربادی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا واضح ارشادِ گرامی ہے:
من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر.
(المعجم الاوسط، رقم حدیث: 3372)
جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کفر کیا۔
ایک اور مقام پر اسی مضمون کے متعلق آپ ﷺ کا ارشاد سنن النسائی میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے ’’ہمارے اور ان (غیر مسلموں) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے۔ پس جس نے نماز کو ترک کیا اس نے کفر کیا یعنی عہد شکنی کی۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ توحید و رسالت کی شہادت اور اس کی عملی تصدیق کی طرف پہلا قدم نماز ہی ہے۔ نماز کا عملِ ہی بندۂ مومن کو ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز کرتا ہے۔ حضور ﷺ نے نماز کی اسی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’جس شخص کی نماز نہیں اس کا ایمان نہیں اور اسی طرح جس شخص کی نماز نہیں اس کا دین نہیں۔‘‘
اس ارشادِ مصطفوی ﷺ کی رو سے توحید و رسالت پر ایمان کا انحصار اس عملی شہادت پر ہے، جو بندہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد احکامِ خداوندی کی بجاآوری میں نماز ادا کرنے سے فراہم کرتا ہے۔ اس کے دعویٰ ایمان کی صداقت کا دارومدار اسی عمل کو ہمیشہ جاری رکھنے پر ہے اور اگر اسی عمل میں کوتاہی ہو گئی اور کسی نے ترک ِ نماز کو اپنا شعار بنائے رکھا، اس نے عملاً اپنے دعویٰ ٔ ایمان کی نفی کر دی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تارک صلوٰۃ کا ایمان بارگاهِ خداوندی میں نامقبول اور غیر معتبر ہے۔ حضور ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی بھی اسی مفہوم کو بیان کرتا ہے۔
’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز ہی حد فاصل ہے۔‘‘
(صحیح المسلم، 1: 88، کتاب الایمان، رقم حدیث: 82)
بندے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔‘‘
(سنن نسائی، 1: 81، کتاب الصلوۃ، رقم حدیث: 463)
قرآن میں جہاں جہاں ادائیگی نماز کا حکم ہوا ہے۔ وہاں نماز کی تلقین زیادہ تر ’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ‘‘ (اور نماز قائم کرو) کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور نماز قائم کرنے میں کیا بنیادی فرق ہے کہ قرآن تاکید کے ساتھ نماز قائم کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ اس کا جواب ایک حکمت پر مبنی ہے کہ اگر نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی بھر کے لئے ایک آدھ بار نماز ادا کر لینا ہی کافی ہوتا لیکن قرآن مجید نے بہت سی حکمتوں کی بنیاد پر نمازقائم کرنے پر زور دیا ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کے حکم میں ہمیشگی کا پہلو ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس طرح ادا کی جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ رہے۔ قرآن حکیم نے اسے ’’محافظت علی الصلوٰۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:
حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ والَصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی.
(البقرہ، 2: 238)
سب نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی۔
اقامت صلوٰۃ کے حکم کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ نماز کو تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کیا جائے یعنی وہ محض رسماً نماز نہ ہو بلکہ اس کے جملہ تقاضے لفظی اور معنوی طور پر ادا کئے جائیں تاکہ اس کی روح بہرحال اس کے اندر جاری و ساری رہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرے کے اندر نظامِ صلوٰۃ نافذ کیا جائے جس کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں ایک ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جائے جو معاشرے کی ہمہ جہت ترقی اور اصلاحِ احوال کا ضامن ہو۔ قرآن حکیم میں نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرِضِ اَقَامُو الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکرِ ط وَلِلّٰهِ عَاقِبَہُ الْاُمُوْرِO
(الحج، 22: 41)
(یہ اہل حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور لوگوں کو برائی سے روکیں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ ادائیگی نماز کا حکم صرف لازم ہی نہیں بلکہ متعدی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی انسان خود نماز پڑھ لینے کے عمل سے اس فریضے کی ادائیگی سے سبکدوش نہیں ہو جاتا بلکہ اس پر یہ ذمہ داری عائد کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور حلقۂ اثر کے سب افراد کو بھی نماز کا پابند بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اہلِ ایمان کے لئے نہ صرف حکماً بلکہ تنبیہہ کے انداز میں ارشاد فرمایا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ.
(التحریم، 66: 6)
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔
حقیقی نماز وہی ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب بپا کر دے اور اس کے اثرات معاشرے پر اس طرح مرتب ہوں کہ زندگی کے کسی گوشے میں برائی اور بے حیائی کا شائبہ تک نہ رہے۔ قرآنِ حکیم نے نماز کی اور خصوصیات کے علاوہ ایک اہم خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے:
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنھٰی عَنِ الْفَحْشَآء وَالْمُنْکَرِ.
(العنکبوت، 29: 45)
بے شک نماز بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے روکتی ہے۔
مسجد اسلامی نظامِ اجتماعیت میں ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو مسلمانوں کو رنگ، نسل، قبیلہ، حسب و نسب اور ذات پات کی حد بندیوں سے بالاتر رکھتے ہوئے صرف ایمان کو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے انہیں ایک ہی سطح پر لے آتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسجد ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں یہ درس دیا جاتا ہے کہ سب انسان اولادِ آدم علیہ السلام ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں اور عملاً رنگ، نسل، قوم، زبان اور علاقہ کی کوئی حقیقت نہیں سب لوگ اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز کئے بغیر انسانی برادری کے ایک جیسے رکن ہیں۔
مگر افسوس کہ ہم اپنے کردار اور طرزِ عمل سے اس تصور کی نفی کر دیتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ چند ساعتوں کے لئے مسجد کی چار دیواری میں تو پیش کیا جاتا ہے مگر یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم مسجد میں شانہ بہ شانہ کھڑا ہو کر محمود وایاز کا فرق ختم کرنے کا جو علامتی مظاہرہ کرتے ہیں وہ باہر آتے ہی ہمارے درمیان دولت و اقتدار اور منصب و جاہ کی جو مصنوعی دیواریں حائل ہیں ان کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس تضاد اور دورنگی نے ملتِ اسلامیہ کے اندر ہر طرف انتشار اور فرقہ پرستی کی راہیں کھول دی ہیں، جس سے امت ِ مسلمہ کی سالمیت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔
مسجد میں انسانی مساوات کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و تکریم اور بزرگی کا معیار صرف تقویٰ کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ.
(الحجرات، 49: 13)
اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
مسجد کے اندر اور باہر اسی ارشادِ ربانی کو عملی جامہ پہنانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ پھر کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ خود کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا تصور کرے۔ آقائے دوجہاں ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں عالمگیر مساوات کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الا لا فضل لعربی علٰی اعجمی ولا لا لعجمی علٰی عربی ولا لاحمر علٰی اسود ولا لاسود علٰی احمر الا بالتقوی.
(مسند احمد بن حنبل، 5: 411)
جان لو کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، سُرخ کو کالے پر اور کالے کو سُرخ پر کوئی فضیلت نہیں، ہاں فضیلت اگر ہے تو وہ محض تقویٰ کی بنیا د پر ہے۔
آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔
مسجد میں نماز باجماعت کے حوالے سے اسلام نے نظامِ اجتماعیت کے پانچ اُصول دیئے ہیں جن کو اگر معاشرے کی اصلاح کے لئے روبہ عمل لایاجائے تو ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ وہ پانچ اصول مختصراً درج ذیل ہیں۔
1۔ انتشار کا خاتمہ: اسلام ملت اسلامیہ کو ہر قسم کے انتشار اور بدنظمی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو لوگوں کو ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم اس طرح منتشر رہو گے تو تمہارے دل کبھی ایک دوسرے سے نہ مل سکیں گے۔
2۔ ملی وحدت اور استحکام: اجتماعیت کا دوسرا اُصول جو مسجد میں صف بندی اور ایک قبلہ کی طرف منہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسلام عملی زندگی میں بھی اسی اصول کو مسلمانوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔
3۔ نظم و نسق کا لحاظ: اجتماعیت صرف صف بندی ہی کا نام نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ترتیب اور قرینے کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ مسجد کے اندر اور باہر اس اُصول کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے تاکہ اُمت کو متحد اور منظم رکھا جاسکے۔ اس ضمن میں قرآن حکیم کا ارشاد ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور متفرق نہ ہو جاؤ‘‘ ہمیں اسے اپنا وظیفہ حیات بنا لینا چاہیے۔
4۔ تنظیم سازی: اجتماعیت کا چوتھا اُصول تنظیم سازی سے متعلق ہے۔ جس طرح نماز میں حکم ہے کہ صفِ اول مکمل ہونے تک دوسری صف نہ بنائی جائے اور صفوں میں عمر اور علمی مرتبہ کے لحاظ سے حفظِ مراتب کا خیال رکھا جائے، اس اُصول کا اطلاق مسجد سے باہر کی عملی زندگی پر بھی ہونا چاہیے۔
5۔ اہلیت: نماز ِ باجماعت کی امامت کے لئے شریعت ِاسلامیہ نے ایسے شخص کو امام مقرر کرنے کی تعلیم دی ہے جو قرأت، علم، تقویٰ و طہارت کی شرائط پر پورا اترتا ہو جن کی تفصیل کتبِ فقہ میں دی گئی ہے۔ اس اُصول کی رُوشنی میں یہ ضابطہ وضع کیا گیا ہے کہ امتِ مسلمہ اپنا قائد کسی ایسے شخص کو منتخب کرے جو ہر لحاظ سے قیادت کا اہل ہو۔
رمضان المبارک کے روزے کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَھْرَ فَلْیَصُمْہٗ.
(البقرہ، 2: 185)
پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔
اس آیۂ کریمہ میں روزے رکھنے کا عمومی حکم ان ایمان والوں کو دیا گیا ہے جو اپنی زندگی میں بغیر کسی عذر یعنی بیماری کے اس ماهِ مقدس کو پالیں۔ آنحضور ﷺ نے اس ماهِ مبارک کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا:
من صام رمضان ایماناً و احتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ.
(صحیح البخاری، 1: 10، کتاب الایمان، رقم حدیث: 38)
جو کوئی ایمان اور احتساب سے رمضان المبارک کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
اوپر درج کردہ آیہ مبارکہ اور حدیث مقدسہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روزہ ہر عاقل اور بالغ مرد و عوت پر لازم قرار دیا گیا ہے اور بغیر کسی شرعی عذر کے اس کی فرضیت سے کوئی بھی اس سے خارج نہیں البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو شریعت نے روزے کو مؤخر کرنے کی اجازت بھی دی ہے اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی ایسی حالت میں روزے قضا نہیں فرمائے جب آپ گھر پر قیام فرما ہوتے۔ لیکن حالتِ سفر میں آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ کبھی روز رکھ لیتے اور کبھی قضا فرما لیتے۔ یہ سب فقط امت کی تعلیم کیلئے تھا تاکہ وہ خواہ مخواہ اپنی جان کو مصیبت اور مشقت میں نہ ڈالے۔ ورنہ آپ ﷺ جو عزم و استقلال کا پہاڑ تھے کسی مصیبت کو جو چاہے کتنی بڑی ہو خاطر میں نہ لاتے تھے لیکن آپ ﷺ نے اپنے عمل سے امت کو ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم عطا فرمائی۔ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہم مسائل سے ناواقف ہونے کی بنا پر ان سہولتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے جو شریعتِ مطہرہ نے ہمیں عطا کی ہیں اس طرح ہم اپنی جان کو خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔
بحالتِ قیام کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ ترک کرنا ہرگز درست نہیں۔ تاہم سفر کے دوران یا بیماری کی حالت میں قضا کئے گئے روزوں کو باقی گیارہ مہینوں میں اگلے رمضان سے پہلے پہلے ادا کرنا ضر وری ہے۔ رمضان المبارک کے دوران چھوڑے ہوئے روزوں کی ادائیگی سے غفلت احکام شریعت کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
قرآن حکیم میں روزوں کی قضا کا حکم ان الفاظ کے ساتھ ہے:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر.
(البقرہ، 2: 184)
پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے۔
ہمیں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رمضان المبارک کے وہ روزے جو رہ جاتے تھے انہیں ماہ شعبان میں رکھ لیتی تھیں جس ماہ کے دوران کثرت سے روزے رکھنا حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنا معمول مبارک بھی تھا۔ اس سلسلے میں حضرت ابی سلمہ کی مشکوۃ شریف میں بیان کردہ روایت جس کے مطابق وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر مجھ پر روزوں کی قضا واجب ہوتی تو میں انہیں ادا نہ کرتی یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آجاتا۔ (مشکوۃ المصابیح، 178)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس معمول سے یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ انہیں یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ ان کے روزوں کی قضا کی وجہ سے ان کے شوہر یعنی آقا ﷺ کی خدمت میں کوئی کوتاہی یا کمی واقع ہو اس لئے وہ شعبان کے مہینے تک ان کی قضا کو مؤخر کر دیتی تھیں۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔
روزے میں سحری اور افطاری کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات اپنی جگہ مگرسحری کھانا دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔ حضور ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھائی جائے خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ سحری کا کھانا آخری لمحات میں کھایاکرتے تھے جبکہ افطاری میں جلدی کرنا عمر بھر کا معمول رہا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ملاحظہ ہو جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے‘‘۔
رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کے دوران نمازِ تراویح، کثرت سے ذکر و فکر میں مشغول رہنا اور قرآن پاک کی تلاوت کا معمول اسلام کی پہلے دور سے آج تک باقاعدگی سے چلا آرہا ہے۔ رمضان المبارک کی تراویح میں کم از کم ایک بار ختمِ قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں کہ روزانہ قرآن پاک کتنی مقدار میں پڑھا جائے ائمہ اور علمائے فقہ کے مختلف اقوال موجود ہیں۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ کم از کم فی رکعت دس آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جائے۔ چونکہ قرآن حکیم کی کل آیات چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (6666) ہیں اور ایک ماہ میں ادا کی جانے والی تراویح کی رکعتوں کی تعداد چھ سو بنتی ہے۔ اس حساب سے اگر روزانہ دس سے بارہ آیات کی تلاوت کی جائے تو رمضان المبارک میں ایک قرآن پاک آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے حق میںتھے اور وہ فرماتے تھے کہ روزانہ بیس سے پچیس آیات کی تلاوت کی جائے۔ یہ آیات کی کمی بیشی اتنی اہمیت نہیں رکھتی۔ بہر حال اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ ہمارے حفاظ و قراء کرام قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہوئے اتنی مقدار میں نہ پڑھیں کہ ترتیل (یعنی ٹھہر ٹھہر )کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہ کر سکیں، نہ وہ دورانِ تلاوت اتنی جلد بازی کا مظاہرہ کریں کہ مقتدی اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ قرأت کو نہ سن سکیں اور ان کے پلے کچھ نہ پڑے۔ قرأت میں اعتدال اور میانہ روی اختیا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نماز تراویح کی جماعت میں بچے، بوڑھے اور کمزور افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے قرأت کو اتنا طول دینا ہرگز مناسب نہیں جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ اس سے ان میں بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور کچھ لوگ نماز ِ تراویح کی طوالت کی وجہ سے جماعت کے ساتھ تراویح ادا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صرف اتنی مقدار پر کفایت کی جائے کہ ہر شخص اطمینان و سکون کے ساتھ نمازِ تراویح کے دوران قرأت کو سن سکے۔
جس طرح حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت ہے۔ اسی طرح آپ کا لایا ہوا دین بھی سراسر رحمت ہے، جس پر عمل کرنا ہر فرد کے لئے سہل اور آسان ہے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے اپنی جہالت سے دین کے معاملے میں توازن اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے اور کم و بیش ہرمعاملے میں افراط و تفریط پیدا کرکے اس آسان دین کو اپنے لئے مشکل بنالیا ہے۔ رمضان المبارک میں بھی ہمارے معمولات حد اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہمارے اندر ایک غلط رجحان جڑ پکڑ گیا ہے جس کے تحت ہم اپنے زعم میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کمانے کی خاطر نمازِ تراویح میں ایک سے زیادہ بار قرآن ختم کرنے کے رجحان کو فروغ دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے قرأت طویل ہو جاتی ہے اور کچھ مقتدی اس کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ نتیجتاً عبادت میں ذوق و شوق پیدا ہونے کی بجائے بے رغبتی بڑھنے لگتی ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن حکیم کا سنناباعثِ اجر و ثواب ہے۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ اس شوق کو پورا کرنے کے لئے بجائے نمازِ تراویح کے صرف خواہشمند حضرات کے لئے نوافل کی نماز کا علیحدہ اہتمام کیا جائے جبکہ عام تراویح میں صرف ایک بار قرآن سننے کے معمول کو جاری رکھا جائے اور اس کی بھی مقدار اتنی ہو کہ ہر شخص بغیر کسی دشواری کے نمازِ تراویح میں خوشدلی سے شریک ہو سکے۔
رمضان و قرآن میں گہرا ربط و تعلق پایا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
شَھْرُ رَمْضَانَ الَّذیْٓ اُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ.
(البقرہ، 2: 185)
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔
معمولاتِ نبوی ﷺ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور ﷺ کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار قرآن حکیم ختم کرنے کا معمول تھا اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو بھی اسی اعتدال کی راہ پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام ایک سادہ، قابلِ عمل اور فطرت کے قریب دین ہے اور تعلیماتِ مصطفوی ﷺ میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین میں بے جا تنگی پیدا نہ کی جائے۔ اسی لئے آپ ﷺ ہر امتی کی سہولت کے لئے زندگی بھر رمضان المبارک میں ایک بار ختم قرآن کے معمول پر کاربند رہے ورنہ اگر آپ چاہتے تو پورے ماہ میں ایک ہزار بار بھی قرآن ختم کر سکتے تھے۔ آپ ﷺ کے غلاموں کی یہ شان ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ گھوڑے کی ایک رکاب پر پائوں رکھتے ہوئے تلاوت شروع کرتے تو دوسری رکاب تک پورا قرآن والناس تک ختم کر ڈالتے۔
جس آقا کے غلام کی یہ شان ہو اس کی اپنی عظمت کا کیا عالم ہو گا۔ لیکن آپ ﷺ کو اپنے کمزور امتیوں کا خیال تھا جن کی پریشانی اور تکلیف آپ ﷺ کو ہرگز گوارا نہ تھی۔
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے پانچواں رکن حج ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ حج کے تمام ارکان اور مناسک، جن کی تعظیم کا عمومی حکم دیا گیا ہے، ان کی حقیقت کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا ممکن نہیں۔ اس لئے کہ حج کے یہ معاملات عشق و محبت کی باتیں ہیں جنہیں عقل کے معیار پر پرکھا ہی نہیں جاسکتا۔ عقل تو ہر چیز کے مادی پہلووں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں چیز تعظیم کئے جانے کے قابل ہے یا نہیں اور اگر کوئی چیز اس کے معیار پر پوری نہ اترے تو وہ اسے سرے سے قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتی جبکہ عشق میں چیزوں کے جانچنے اور پرکھنے کے پیمانے ہی الگ ہیں اور اس کے نزدیک مادی نسبت یا نفع و نقصان کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا۔
حج کے تمام ارکان کا تعلق شعائر اللہ سے ہے۔ عربی میں شعائر شعیر کی جمع ہے جو نشانی یا علامت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ شعائر میں سب کا تعلق تاریخی اعتبار سے بعض شخصیات اور واقعات سے ہے جن کی نسبت براهِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ وہ تمام نسبتیں جو اللہ کے برگزیدہ بندوں انبیاء اور صلحاء سے منسوب ہیں ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے انتہائی قرب والا ہوتا ہے، تمام شعائر اللہ، خدا کے محبوب بندوں کی ادائیں ہیں جن کی تعظیم و تکریم کو قرآن نے عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:
ذٰلِكَ ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ
(الحج، 22: 32)
بات یہ ہے کہ جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہی بات دلوں کی پرہیز گاری سے (متعلق) ہے۔
اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرنے والے لوگ متقی اور پرہیزگار ہیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ انہیں یہ مقام ان نشانیوں کی تعظیم اور احترام کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں احکامِ حج کے بارے میں ارشاد ہوا:
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ.
(الحج، 22: 67)
ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کے قاعدے بنا دیئے کہ وہ ان پر چلے تو ہرگز وہ لوگ آپ سے اس معاملہ جھگڑا نہ کریں۔
اس کے ساتھ سورۃ البقرہ کی یہ آیتِ کریمہ بھی غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰـاُوْلِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنِO
(البقرۃ‘2: 179)
اے عقل مندو ! خون کا بدلہ لینے میں تو تمہاری زندگی (کا راز مضمر) ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
اس میں قصاص کا لفظ خوں بہا کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنوں میں وسعت بیان کرتے ہوئے قرآن یہ فلسفہ سمجھا رہا ہے کہ جان سے گزر جانا یا موت سے کھیلنا ہی زندگی ہے۔ اس فلسفۂ قربانی کو اگرچہ عقل سے سمجھنا ممکن نہیں مگر عشق کا مفتی اسی کے حق میں فتویٰ دیتا ہے کہ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق محبوب کے ایک اشارے پر بھڑکتی ہوئی آگ میں بے دھڑک کود جاتا ہے اور مادی نفع و نقصان کے چکروں میں نہیں پڑتا۔
حج کا عظیم اجتماع اسی فلسفۂ قربانی کی یاد دلاتا ہے جس کی بنیاد اللہ کے دو بندوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آج سے صدیوں پہلے ڈالی تھی۔ یاد رہے کہ ہمارے ذہنوں میں عبادت کا جو تصور ہے حج اس سے بالکل مختلف ہے۔ حرمِ کعبہ میں داخل ہوتے ہی ہم پر یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ حج روایتی طریقہ عبادت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ حاجی اپنا روز مرہ کا لباس اتار کر دو کھلی ان سلی چادریں اوڑھ لیتا ہے اور دیوانوں کی طرح ایک سیاہ رنگ کی عمارت کے گرد چکر کاٹنے لگتا ہے، اس حال میں کہ بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہیں اور انہیں ترشوانے کی اجازت نہیں۔ نویں ذی الحج کو بے اختیار وہ میدانِ عرفات کی طرف دوڑنے لگتا ہے‘ ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتا ہے‘ مزدلفہ پہنچتا ہے تو مغرب کی نماز نہیں پڑھتا بلکہ عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہے۔ منیٰ میں کنکریاں پکڑے ہوئے ایک گوشے میں کھڑے پتھر کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر مارتا ہے اور آخر میں دوسرے کاموں سے فارغ ہوکر صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان تیز تیز دوڑتا ہے۔
یہ سارے معاملات عشق و دیوانگی کے ہیں‘ ہر عمل کے پیچھے محبت کی کوئی نہ کوئی ادا چھپی ہوتی ہے۔ باری تعالیٰ کو اپنے محبوب بندوں کی یہ ادائیں اتنی عزیز ہیں کہ اس نے انہیں کے حقیقی رنگ ڈھنگ اپنا لینے کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ حج انہی اعمال اور افعال کے مجموعے کا نام ہے۔ مناسک ِحج کا فلسفہ اور حقیقت‘ قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا.
(البقرۃ، 2: 158)
بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کا چکر لگائے۔
یہ سارے معاملات عشق اور جنون کی باتیں ہیں جن کے بارے میں عقل سے سوال کیا جائے تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ عشق سے پوچھیں تو یہی جواب ملتا ہے کہ حج کے ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی ادائیں چھپی ہوئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو از حد عزیز ہیں۔
اگر ہم گہرائی میں جاکر مناسکِ حج کا جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ ارکانِ حج کا کوئی نہ کوئی تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِ رشید حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے ضرور نکل آئے گا۔ مثلاً رمی یعنی کنکریاں مارنے کی رسم اس واقعہ کی یادگار ہے جب باپ بیٹا فریضہ قربانی ادا کرنے کی خاطر جا رہے تھے کہ راستے میں شیطان حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہکانے کے لئے آگیا اور ان سے کہنے لگا کہ تیرا باپ تجھے قتل کرنے کی نیت سے لے جارہا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس شیطانی بہکاوے کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا تو انہوں نے شیطان کو کنکریاں ماریں تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ اس کا کوئی وار ہمارے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کنکریاں مارنے کا فعل خدائے عزوجل کی نظر میں اتنا محبوب اور پسندیدہ ٹھہرا کہ اسے قیامت تک امتِ مصطفوی ﷺ کے لئے مناسکِ حج کے طور پر عبادت کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔ جب تک حاجی ان علامتی شیطانوں کو کنکریاں نہ ماریں فریضۂ حج کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ اس فعل کا جو اس واقعے کی یادگار ہے عقل کوئی جواز نہ ڈھونڈ پائے گی۔
اس طرح لباس کا معاملہ ہے: تعمیرِ کعبہ کے وقت دونوں باپ بیٹا دو سادہ چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔ یہ لباس جو انتہائی سادہ تھا، خدا کی ذات کو اتنا پسند آیا کہ حجاج کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا مخصوص اور علاقائی فیشن کے مطابق سلا ہوا لباس اتار پھینکیں اور فقط دو چادریں اوڑھ لیں جنہیں احرام کا نام دیا گیا۔ اب دنیا کے محتلف کونوں سے آئے ہوئے لوگ احرام کی چادروں سے جسم ڈھانپ کر سنتِ ابراہیمی علیہ السلام و اسماعیلی علیہ السلام کا اتباع کرتے ہوئے ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ گویا بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
ایسے ہی حرمِ بیت اللہ میں سب ننگے سر حاضر ہوتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ عام حالات میں مساجد میں ننگے سر عبادت کرنا معیوب اور خلافِ سنت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم خانہ کعبہ میں جہاں خدائے بزرگ و برتر کا جلال و کبریائی اور عظمت و تمکنت اپنے عروج پر نظر آتے ہیں، ننگا سر عجز و خاکساری کی علامت ہے جو رب العزت کی نگاهِ رحمت میں انتہائی درجہ پسندیدہ عمل ہے۔
اسی طرح یہاں سر کے بالوں اور ناخنوں کا بڑھانا بھی سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کی پیروی ہے اگرچہ ان باتوں کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا ممکن نہیں تاہم اللہ کے مقبول بندوں سے منسوب ہونے کی وجہ سے وہ اس میں اللہ کی نظر میں اتنی پسندیدہ ہیں کہ انہیں مناسکِ حج کا درجہ عطا کر دیا گیا۔ اب انہیں اپنائے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا۔
کعبۃ اللہ کے گرد سات چکر لگانا جنہیں عرفِ عام میں طواف کا نام دیا جاتا ہے، جو مناسکِ حج کا اہم حصہ ہے اور حاجیوں کو حکم ہے کہ وہ پہلے تین چکروں میں دورانِ طواف اکڑ اکڑ کر چلیں۔ کیا عجیب بات ہے! کہ معمول کے حالات میں اکڑ کر چلنا اور اترانا غرور و تکبر اور سرکشی کی علامت ہے جو اللہ کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ افعال ہیں۔ لیکن حج میں معاملہ کچھ اور ہے۔
روایات کے ذریعے ہم تک اس کی جو حکمت پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ جب مسلمان ہادیِٔ برحق ﷺ کے حکم کے مطابق مکہ سے مدینہ ہجرت کر چکے تو مسلسل جہاد اور ریاضت و مشقت کی بناء پر ان کے جسم دبلے اور کمزور پڑ گئے تھے۔ جب صلح حدیبیہ کے بعد مدینے سے عمرہ کرنے کے لئے مکہ پہنچے تو ان کی چال ڈھال سے کمزوری کا اظہار ہوتا تھا۔ طوافِ کعبہ کے دوران انہیں آہستہ آہستہ چلتے دیکھ کر کفارِ مکہ طعنہ زنی کرنے لگے کہ مسلمان مکہ میں تو کھاتے پیتے اور خوشحال تھے مدینے جاکر ان کی حالت اتنی ابتر ہو گئی کہ ٹھیک سے چلا بھی نہیں جاتا۔ حضور ﷺ کو کافروں کی اس طعنہ زنی کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ کافروں کی بات غلط ثابت کرنے کے لئے طواف کے دوران اکڑ اکڑ کر اور کندھے مٹکا مٹکا کر چلیں۔ اس وقت سے یہ انداز مناسکِ حج میں شامل ہو گیا۔ اگرچہ اس کے بعد معاملے کی وہ صورت باقی نہ رہی اور سرزمینِ حرم کو کفار و مشرکین کے وجود سے خالی ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔
حرمِ کعبہ میں وہ مقام جہاںسیدنا ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے قدم مبارک لگے تھے اسے نماز کے لئے خاص کرنے اور جائے نماز بنانے کا حکم ہوا جیسا کہ اہلِ ایمان سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاهِیْمَ مُصَلّٰی.
(البقرہ، 2: 125)
اور ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔
اب جب تک حکمِ خداوندی کے تحت اس مخصوص مقام پر دو رکعت نماز نہ ادا کی جائے طوافِ کعبہ کی تکمیل نہیں ہوتی اور حج نامکمل رہتا ہے۔ یوں تو حرم کی ساری زمین مقدس و محترم ہے لیکن اللہ کو اس جگہ سے جہاں اس کے خلیل کے قدموں نے مس کیا تھا اتنی محبت ہو گئی کہ وہاں ساری خدائی کو سجدہ کرنے کا حکم مناسکِ حج کا حصہ بن گیا۔
دنیا کے لاکھوں پہاڑوں میں سے صرف صفا و مروہ کو خدا کی نشانیاں (شعائر اللہ) قرار دینے کی کیا حکمت ہے؟ اس کے پیچھے وہ داستان ہے جس کا مرکزی کردار حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چہیتی بیوی حضرت ہاجرہ علیہ السلام ہیں جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حکمِ خداوندی کے مطابق اس ویران وادی میں چھوڑ کر چلے گئے۔ جب کہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ابھی شیر خوار ننھے سے بچے تھے اور انہیںجب شدت کی پیاس محسوس ہوئی تو ماں کی مامتا بے قرار ہو گئی اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام اپنے لختِ جگر کو زمین پر لٹا کر دونوں پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑنے لگیں کہ شائد کہیں سے پانی کا چشمہ مل جائے۔ اس اضطراب و پریشانی کی کیفیت میں انہوں نے کئی چکر لگائے۔ وہ اس خیال سے بچے کو اپنی نگاہ سے اوجھل بھی نہیں رکھنا چاہتی تھیں کہ کہیں کوئی بھیڑیا وغیرہ انہیں اٹھا کر نہ لے جائے۔ خدائے ذوالجلال کو اپنی اس پیاری بندی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کو مناسکِ حج میں شامل کر کے رہتی دنیا تک ہر عازمِ حج کے لئے لازم قرار دے دیا۔
اس داستانِ خوش انجام کا اختتام اس طرح ہوا کہ کم سن اور نونہال اسماعیل علیہ السلام نے پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑنا شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے اس پتھریلی زمین کے نیچے سے پانی کا چشمہ جاری کر دیا جو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد آج بھی جاری ہے اور ایک جہان اس سے سیراب ہو رہا ہے۔ یہی چشمہ زم زم کے نام سے ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔
یوں تو دنیا میں ہر جگہ اللہ کے نام پر صدقہ و خیرات کے لئے جانور ذبح کئے جاتے ہیں لیکن ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت ہونے کی بناء پر مقام منٰی پرجو قربانی کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کی حیثیت منفرد اور جداگانہ ہو گئی وہ کسی اور کی نہیں ہے اور انہیں اسی خاص نسبت سے شعائر اللہ کا درجہ دے دیا گیا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ
(الحج، 22: 36)
ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں سے کیا۔
اس طرح حجرِ اسود اپنی نوعیت کے اعتبار سے عام پتھروں کی طرح ایک پتھر ہے لیکن چونکہ اسے آقائے نامدار ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حرمِ کعبہ کے اندر نصب فرمایا اور اپنے مقدس لبوں سے اسے بوسہ دیا، اس لئے حجرِ اسود کو اس نسبت سے دنیا کے تمام پتھروں پر فضیلت حاصل ہو گئی۔ چنانچہ حجرِ اسود کا احترام اور اسے بوسہ دینا شاملِ مناسکِ حج ہے۔
اگر ہم غور کریں تو مناسکِ حج کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ شریعت مطہرہ نے عبادت کے ذیل میں دو قسم کے اعمال بیان کئے ہیں۔ پہلی قسم میں وہ اعمال آتے ہیں جو فی نفسہٖ عبادت قرار دیئے گئے جیسے نماز روزہ وغیرہ۔ دوسری قسم میں وہ اعمال شامل ہیں جو ہر چند اپنی ظاہری نوعیت کے اعتبار سے عبادت کے درجے میں نہ تھے لیکن انہیں اللہ کے مقبول اور برگزیدہ بندوں سے منسوب ہونے کی وجہ سے خدا کی نظر میں محبوبیت کا وہ مقام مل گیا کہ انہیں اللہ کے حکم کے تحت دہرائے جاتے رہنا عین عبادت قرار پایا۔ اور تمام مناسکِ حج کا یہی فلسفہ اور یہی حقیقت ہے۔ عقل اور منطق سے ان کی حقیقت کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لئے عقلی کہ مقبولانِ الٰہی کے انداز و اطورا اور محبوبانہ ادائیں عشق و مستی اور وارفتگی کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ مناسکِ حج کے ضمن میں شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کا موجب ہوتی ہے۔ لہٰذا عقلی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ان کے آگے فرطِ ادب سے سرِ تسلیم خم کر دینا ہی مناسکِ حج کا تقاضائے اولین ہے۔
نماز کے بعد دوسراہم ترین رکن زکوٰۃ ہے جس کا حکم بیاسی مقامات پر قرآن حکیم میں وارد ہوا ہے۔ شریعت مطہرہ میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضور ﷺ کے وصال کے بعد سرزمینِ عرب میں ہر طرف فتنے سراُٹھانے لگے اور اسلامی ریاست کو سنگین ترین آزمائش اور بحرانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، تو سب سے بڑا چیلنج منکرینِ زکوٰۃ کی طرف سے تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک لمحے میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کمال جرأت ایمانی سے اس بات کاڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ جو کوئی نماز اور زکوٰۃ میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز کرے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ چنانچہ خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہ بپا کرنے والے باغیوں کے خلاف کھلم کُھلا جہاد کیا اور ان کی تلوار اس وقت تک میان میں نہیں آئی جب تک منکرینِ زکوٰۃ کی پیدا کی ہوئی شورش اور سازش ختم نہیں ہو گئی۔
قرآن حکیم نے اسلامی ریاست میں صاحبانِ اقتدار و اختیار کے منصبی فرائض گنواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
اَلَّذیْنَ اِنّ مَکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرضِ اَقامُوَا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُ الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِاَلْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ المُنْکَرِ وَلِلّٰهِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرO
(الحج، 22: 41)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
اس آیتِ کریمہ کی رو سے اسلامی حکومت کے قیام کے چار بنیادی مقاصد میں سے دوسرا اہم مقصد ایتائے زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ جب اسلامی حکام منصبِ حکومت پر فائز ہوں تو اُن کے لئے لازم آتا ہے کہ وہ نظامِ صلٰوٰۃ قائم کرنے کے بعد نظامِ زکوٰۃ کا قیام بھی عمل میں لائیں۔ ایسا کر لینے کے بعد ہی تیسرا اور چوتھا فریضہ یعنی معاشرے میں معروف (نیکی) کا حکم دینا اور منکر (برائی) کو روکنا اربابِ حکومت پر عائد کیا گیا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ نظامِ صلوٰۃ نافذ کرنے سے اسلامی معاشرہ روحانی برکات و ثمرات سے فیض یاب ہوتا ہے اور حقوق اللہ کی ابتداء بھی نظامِ صلوٰۃ سے ہوتی ہے لیکن چونکہ زکوٰۃ کا تعلق اقتصادیات سے ہے اس لئے اسلام کے معاشی نظام میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے ایک بہت بڑی حکمت کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے، جس سے حرام کمائی کے سارے ذرائع اور راستے ختم ہو جائیں اور رزقِ حلال کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت نے ہر صاحبِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ مال میں سے اڑھائی فیصد نکال کر اجتماعی طور پر بیت المال یعنی حکومت کے خزانے میں جمع کرادے تاکہ اُسے معاشرے کے محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خرچ کیا جاسکے۔ اگر اس شرح سے استطاعت رکھنے والے سب افراد اپنے سال بھر کے جمع شدہ زر و مال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو نہ صرف اس طرح ان کی کمائی حلال اور ان کا مال آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرہ میں پائی جانے والی ناہمواریاں خود بخود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر افرادِ معاشرہ کے قلب و باطن میں یہ سوچ جاگزیں ہو جائے تو نہ صرف پوری معاشرتی زندگی حلال و حرام کی حدوں سے آشنا ہو جائے گی بلکہ اجتماعی احوال و معاملات بھی سنور جائیں گے۔
نیکی کا یہ تصور کہ محض، نماز، روزہ اور نفلی عبادات سے ہمارے زندگی بھر کے گناہ دُھل جاتے ہیں، خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ تصور اسلامی نظام کی عمارت کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے اور یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی کوئی تعلیم جناب رسولِ کریم ﷺ نے ہمیں نہیں دی نہ ہی سیدنا غوث ِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے دی ہے جن کے نام پر ہم گیارہویں کا اہتمام کرتے ہیں۔
نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد میں ایک سے انسان کی روحانی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کی ضمانت میسر آتی ہے۔ گویا ایک صحیح اسلامی معاشرہ، روحانی اور مادی تقاضوں کے پورا ہونے کے بعد ہی وجود میں آتا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ’’امر بالمعروف‘‘ کا تعلق نظامِ صلوٰۃ سے ہے اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا تعلق نظامِ زکوٰۃ سے ہے اور جب تک یہ دونوں نظام اپنی پوری رُوح کے ساتھ نافذ نہ ہوں گے اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب اس وقت پورانہ ہو سکے گا۔
’’انفاق فی المال‘‘ سے مراد اپنے سرمایہ اور مال و دولت کو دوسروں پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو جائے اور وہ معاشرے میں اپنا مطلوبہ کردار بطریق احسن سر انجام دے سکیں۔ تاریخِ اسلام میں ہمیں اس انفاق کی عملی مثال ’’مواخات مدینہ‘‘ میں نظر آتی ہے اور فعلِ احسان کی اگر عملی صورت دیکھنی ہو تو وہ اسی قسم کے انفاق میں دیکھی جاسکے گی۔
انفاقِ مال کا عمل دو سطحوں پر ہوسکتا ہے: انفرادی سطح اور اجتماعی سطح، انفرادی سطح پر انفاق سے مراد یہ ہے کہ افراد اپنے طور پر اپنے حلقہ اثر میں اس شخص کو جو معاشی مشکلات کا شکار اور ضروریات زندگی سے محروم ہو کرمعاشرے کا ناکارہ عضو بن کر رہ گیا ہو اس کی اور اس جیسے دوسرے ضرورت مند افراد کی مالی مدد اس انداز سے کریں کہ ان کی عزت نفس بھی برقرار رہے اور ان کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں، یہاں تک کہ وہ کسی اور کے محتاج نہ رہیں بلکہ ان کی زندگی سے معاشی تعطل اس طرح ختم ہو جائے کہ وہ معاشرے میں باعزت شہریوں کی طرح تعمیری کردار ادا کرسکیں اور وہ اس پوزیشن میں آجائیں کہ انہیں ان کا صحیح مقام مل جائے۔ اس سلسلے میں قریبی رشتے دار اور پڑوسیوں کے علاوہ وہ لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدمتِ اسلام کے لئے اس طرح وقف کر دیا ہو کہ روزی کمانے کی ان میں فرصت ہی باقی نہ رہی ہو۔ ان میں وہ مجاہدین بھی آتے ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انقلابی تحریکوں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لوگ معاشی تعطل کا شکار ہو گئے تو دینِ حق کے غلبے اور احیائے ملت کی خاطر ہونے والی جدوجہد معطل ہو کر رہ جائے گی۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں یوں ارشاد ہوا ہے۔
لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ؗ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ۚ لَا یَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
(البقرہ، 272، 274)
ان کا ہدایت یافتہ ہو جانا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے، اور اللہ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo (خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اللہ اسے خوب جانتا ہےo جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo
اجتماعی سطح پر ’’انفاق‘‘ سے مراد یہ ہے کہ عملِ انفاق ایک ایسے نظام کے طور پر رائج کیا جائے کہ معاشرے کا کوئی فرد حاجت مندی اور معاشی تعطل میں مبتلا نہ رہے۔ اس طرح جو معاشرہ جنم لے گا وہ معاشی استحکام سے ہمکنار ہو کر قومی نصب العین حاصل کرنے کے لئے اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرسکے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قومی نصب العین کے حصول کے لئے لائحہ عمل تین بنیادی شعبوں یعنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کے باہمی ربط و تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یہ نصب العین غلبۂ حق کے لئے عالمگیر سطح پر ایک صالح معاشرے کا قیام ہے۔ جس کی خاطر عالمگیر مصطفوی انقلاب بپا کرنا وہ قومی مقصد ہے جو ہر سطح پر سیاسی ظلم اور جبر کے خاتمے، معاشی ناانصافی کے خاتمے اور معاشرتی ناہمواریوں کے خاتمے سے عبارت ہے۔ لہٰذا اجتماعی انفاق کا عمل اسی وقت پروان چڑھ سکتا ہے جب ہمہ گیر سیاسی، معاشی اور سماجی انقلاب کے ذریعے ایک ایسا صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں لایا جائے جو ہر قسم کے جبر اور استحصال کو جڑ سے اکھاڑ دے۔ قرآن حکیم نے اس مثالی معاشرے کی نشان دہی ہجرتِ مدینہ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی نئی زندگی اور ان کی سابقہ زندگی کے حوالے سے کی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:
وَاذکُرُوْا اِذْاَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِبّٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
(الانفال، 26)
اور یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے۔ معاشی طور پر کمزور اور غیر مستحکم تھے (اور) تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں طاقتور لوگ تمہیں اُچک کر نہ لے جائیں۔ پس اس نے تمہیں آزاد ٹھکانہ عطا کیا اور اپنی مدد سے تمہیں تقویت بخشی اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا تاکہ تم اس کے شکر گزار بندے بن سکو۔
قرآنِ حکیم میں آیاتِ جہاد میں مال کے ساتھ جہاد کرنے کو پہلے درجے پر بیان کیا گیا ہے اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کا ذکر دوسرے درجے پر رکھا گیا ہے۔ قرآن حکیم کی یہ ترتیب اور اسلوبِ بیان اس نکتے کی تعلیم دے رہا ہے کہ جہاد کا آغاز جہاد بالمال سے کیا جائے۔ جہاد بالمال کا مفہوم یہ ہے کہ اس مال میں سے جو تم کماتے ہو اپنی ذاتی ضروریات سے بچا کر اللہ کی راہ میں اس کی مخلوق کے دکھوں کے علاج اور ان کی بہتری کے لئے خرچ کر دو۔ یہ مال آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے، اسے فضول خرچی، عیاشی اور نام و نمود ہی کی نذر نہ کر دو بلکہ اوروں کے حقوق ادا کرنے اور محتاجوں کی ضروریات کی کفالت پر خرچ کرنا اپنا روزمرہ کا معمول بنا لو۔ اگر آپ نے ایسا کر لیا تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے قرآن حکیم کے حکم کی تعمیل میں جہاد کی زندگی کا آغاز کر دیا۔
تقویٰ کے بارے میں قرآنِ حکیم یہ تصور انسانی ذہن میں بٹھانا چاہتا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے اور نماز کی ادائیگی کے بعد مال خرچ کرنا شرط ہے جس پر پورا اتر کر ہی یہ قرآن متقیوں کے لئے ہدایت بنتا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد قرآن تعلیمات کا آغاز ہی اس نکتے سے ہو رہا ہے۔ سورہ بقرہ میں ’’ھدی للمتقین‘‘ کہہ کر قرآن نے متقین کا لفظ استعمال کیا، اس کے ساتھ مال خرچ کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُونَO
(البقرہ، 2: 3)
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور (یہ وہ لوگ ہیں) جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
جہاد بالمال کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن حکیم نے ایک مقام پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے کو سب سے بڑا متقی کہا ہے اور اس کا یہ عمل اسے دوزخ کی آگ سے نجات کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ قرآن کی نظر میں ایک متقی کی تعریف ہے تو اس کے برعکس وہ شخص جو مال و دولت سمیٹ کر رکھے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے تو پھر ایسا بخیل دوزخ کے عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اس تصور کی وضاحت قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر یوں کی گئی ہے۔
اَلَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہُO یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہُٓ اَخْلَدَہْO کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِیْ الْحُطَمَتِہ وَمَا اَدْرَاکَ مَا الْحُطَمَتَہْ نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَۃُO
(الْهُمَزَة، 104: 2-6)
جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو دنیا میں ہمیشہ رکھے گا ہرگز نہیں وہ یقینا روندھنے والی میں ڈال دیا جائے گا اور آپ کیا جانیں کہ وہ روندھنے والی کیا ہے (وہ) اللہ کی آگ ہے جو (اس کے حکم سے) سلگا دی گئی ہے۔
مال و دولت کو جمع رکھنے والا ہرگز یہ گمان نہ کرے کہ وہ بھڑکتی ہوئی دوزخ کی آگ سے بچ جائے گا۔ ہرگز نہیں وہ ہوس زدہ لوگ جو سونا چاندی مال و دولت کو اپنے پاس جمع کر کے رکھتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) سے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں یہ کڑی وعید ہے۔
اَلَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّتہَ وَلَا یُنْفِقُونَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍO
(التوبہ، 9: 34
جو لوگ سونا‘ چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔
ما ل کے ساتھ جہاد کو نفس کے ساتھ جہاد پر کیوں مقدم کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جان سے جہاد کرنے کا موقع کبھی کبھار ملتا ہے لیکن اس کے برعکس اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے مواقع کثرت سے میسر آتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالی ٰاپنے بندوں کو تلقین فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں جو مال عطا کیا ہے اس میں صرف تمہارا حق نہیں بلکہ ہمارے ان بندوں کا حق بھی ہے جو اس سے محروم ہیں اور ان کی غربت اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہتے ہیں۔ مالی جہاد سے انسان کو ساری زندگی واسطہ پڑتاہے جس میں دکھی انسانیت کی خدمت کے بے شمار مواقع میسر آتے ہیں جبکہ راهِ حق میں جان قربان کرنے کا موقع زندگی میں ایک آدھ بار آتا ہے۔
جہاد بالمال کی اہمیت کو کسی طرح نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ قرآن حکیم نے جہاد کے معاملے میں اسی لئے اسے اولیت عطا کی ہے۔ افلاس‘ غربت اور احتیاج انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کو حل کئے بغیر فلاحی معاشرے کے قیام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اسلامی نظام ایک ایسے معاشرے کی تعمیر چاہتاہے جو افراط و تفریط، مصنوعی نسلی امتیاز اور طبقاتی گروہ بندیوں سے پاک ہو اور جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر نہ ہوتے جا رہے ہوں۔ یہی وہ نظام ہے جو بقول حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک بہتر نظام ہے۔
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
جہاد کا مفہوم سمجھانے کے لئے قرآن نے جہاد کے مقابلے میں’قعود‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو جہاد کا الٹ (ضد) ہے اور جس کا معنی غفلت اور سستی کے ساتھ بیٹھ رہنا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَاَ یَسْتَویِ الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ.
(النساء، 4: 95)
وہ لوگ جو بے عذر (گھر میں) بیٹھے رہتے ہیں (جہاد سے جان چراتے ہیں) اور وہ جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرتے ہیں وہ (دونوں ) برابر نہیں ہو سکتے۔
قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ ترکِ جہاد غفلت کاپیش خیمہ ہے۔ اسی لئے جہاد کرنے والے کو ’مجاہد‘ اور اسے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا ہے ’قاعد‘ کے القاب سے پکارا گیا۔ قاعد (بیٹھے والے) وہ لوگ ہیں جو زندگی کی حقیقتوں سے آنکھیں چراتے ہیں اور اس موہوم اور ہلکی سی امید پر غفلت سے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمارا حال خود بخود سنور جائے گا۔ قرآن کے الفاظ میں بیٹھے رہنے والے اور جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ گویا جہاد کرنا اور بیٹھے رہنا دو مختلف کیفیتوں کا نام ہے۔ قرآن کی رو سے جہاد اس عمل کا نام ہے جس میں انسان اپنے اوپر غفلت اور تساہل کو حرام قرار دیتا ہے اور ہر وقت دوڑ دھوپ اور محنت و مشقت سے کمرِ ہمت باندھے رہتا ہے۔ اس دھن میں سرشار ہو کر اللہ کا بندہ دن رات کے آرام اور چین کو اللہ کے دین کی خاطر قربان کر دیتا ہے اور مجاہدانہ انقلابی زندگی میں مگن رہتا ہے۔
اس قرآنی تصور کے مطابق اللہ کے دین کے لئے بھاگ دوڑ کرتے رہنے کا نام جہاد ہے اور یہ عمل مسلسل جدوجہد، سعی و کاوش اور انسانی زندگی کے ریشے ریشے میں اتر جانے والی تپش و حرات سے عبارت ہے۔ جہاد وہ کیفیت ہے جو انسان پرسونا کھانا پینا اور عیش و آرام کو حرام کر دیتی ہے اور اس سے سکھ چین دور کرکے اسے بے قرار اور سراپا اضطراب بنا دیتی ہے۔
یا د رہے کہ اگر امتِ مصطفوی ﷺ کو تباہی و ہلاکت کے گڑھے میں گرتا دیکھ کر کسی کا دل تڑپ اور کسک سے بیگانہ رہے، اس کی راتوں کی نیندیں نہ اجڑیں اور آنکھوں کے پیمانے نہ چھلکیں تو وہ ایمان اور جہاد سے کوسوں دور ہے اور اس کا دینِ مصطفی ﷺ سے کوئی واسطہ اورتعلق نہیں، وہ مسلمانی کے تصور سے بھی کوسوں دور ہے۔ جب ہم قرآن حکیم سے پوچھتے ہیں کہ جہاد کی زندگی اپنانے والوں کو بارگاهِ حق سے کیا نصیب ہوتا ہے تو اللہ رب العزت کی طرف سے ہمیں جواب ملتا ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت، 29: 69)
اور جو لوگ ہماری راہ میں (ہمارے لئے) کوشش کرتے ہیں ہم ضرور اپنے راستے انہیں دکھا دیتے ہیں۔
یعنی وہ لوگ جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں، دوڑ دھوپ اور محنت و مشقت ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے، ہم مایوسیوں، پریشانیوں اور بے یقینیوں کے درمیان سے ان کے لئے راستے نکال دیتے ہیں۔
اس ضمن میں غزوۂ بدر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ میدانِ جنگ گرم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان کی بے سروسامانی کا یہ عالم ہے کہ بعض کے پاس تلواریں نہیں۔ ان کے ہاتھوں میں درختوں کی چھڑیاں تھما دی گئی ہیں اور یہ قلیل اسلحۂ جنگ رکھنے والی تین سو تیرہ مجاہدوں پر مشتمل مختصر جماعت ہزار سے بھی زائد کفار کے سامنے صفیں باندھے کھڑی ہے جو سر سے پائوں تک اسلحہ سے لیس ہیں۔
جنگ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر اپنے اختتام کو پہنچی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور ﷺ سے پوچھنے لگے۔ آقا: یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے ہاتھوں میں بعض کے پاس چھڑیاں اور کسی کسی کے پاس تلواریں تھیں ہم کفار کی طرف مقابلے کے لئے لپکتے تھے اور ابھی ہمارا ہاتھ اوپر ہی ہوتا تھا کہ ہمارے سامنے آنے والے کافر کا سر قلم ہو جاتا تھا۔ حضور ﷺ! آپ ارشاد فرمائیں کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مددکے لئے فرشتے بھیج دیئے تھے جو جہاد میں ہمارے ساتھ شریک ہو کر کافروں پر موت بن کر ٹوٹ پڑے تھے۔
آج بھی اگر بد ر کی سی فضا اور ماحول پیدا ہو جائے تو قادرِ مطلق سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد کے لئے غیب سے نصرت کا سامان پیدا فرما دے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اگر زندگی سرا سر جہاد بن جائے تو پھر کامرانیوں اور کامیابیوں کا پیدا کرنا اللہ رب العزت اپنے ذمۂ کرم پر لے لیتا ہے۔
جہاد جسے مسلسل عمل سے تعبیر سے کیا گیا ہے شریعت اسلامیہ کی رو سے اس کی پانچ قسمیں ہیں۔
نفس، انسان کے اندر بہت بڑا شیطان ہے جس کی سرکوبی کئے بغیر مرد، مرد کہلانے کا حق دار نہیں، نفس کے شر اور فتنے سے باخبر کرنے کے لئے ایک دفعہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے پوچھا۔
’’پہلوان کون ہوتا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم عرض کرنے لگے، ’’آقا جو میدان میں دوسرے کو پچھاڑ دے‘‘حضور ﷺ نے فرمایا: ’’پہلوان وہ ہوتا ہے جو غصے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پائے۔‘‘ (صحیح المسلم، 2: 326، کتاب البر و الصلہ، رقم حدیث: 2609)
گویا آقائے دوجہاں ﷺ کے فرمان کے مطابق ’پہلوان‘ کہلانے کا حق دار وہی ہے جو اپنے نفس کو اپنے قبضہ میں لے اور اسے مغلوب کردے۔ اللہ کا بندہ اپنی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اس کا من مشرک ہے، اگرچہ وہ زبان سے ہزار توحید کے نغمے گاتا پھرے۔ وہ شخص جو زبانی توحیدکا پرچار کرتے نہیں تھکتا مگر اس کا من نہ صرف دنیاوی شہرت، جاہ و عزت اور ناموری کاپجاری ہوتا ہے بلکہ وہ مال و دولت اور تکبر و رعونت کے بت کے آگے اپنی پیشانی خم کر دیتا ہے، وہ خدائے واحد کا پرستار ہونے کے دعوؤں کے باوجود باطنی طور پر مشرک ہی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
اَرَءیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰئہُ.
(الفرقان، 25: 43)
کیا آپ نے دیکھا اسے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا الٰہ بنا رکھا ہے۔
یہ دنیا کا پجاری شخص باتیں تو توحید کی کرتا ہے لیکن اس نے اپنے من میں پلنے والی نفسانی خواہشات کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگر محض سراللہ کی بارگاہ میں جھکا رہا ہو اور دل میں خواہشوں اور آرزوں کے بت سجا رکھے ہوں تو ایسا شخص داخلی مشرک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اس وقت تک ہرگز ہرگز نہیں بن سکتا جب تک وہ ان نفسانی خواہشات کے بتوں کی پوجانہ چھوڑ دے اور اس کا دل حرص و ہوا سے پاک نہ ہو جائے۔ اگر بندہ صرف اللہ کا ہو جائے تو وہ اپنے گلے میں باطل و طاغوت کی بجائے اللہ اور اس کے رسولِ مقبول ﷺ کی بندگی کاپٹہ ڈال لیتا ہے اور پھر جب وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکاتا ہے تو بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس کا حال اس شعر کا عملی نمونہ ہو جاتا ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسان کا نفس بہت سرکش ہے اور اسے کچلنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئے حضور ﷺ نے اس کو اپنے ماتحت اور قبضہ میں کرنے کو جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ کنز العمال اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں یہ روائت مذکور ہے کہ ایک جنگ سے لوٹتے وقت حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں:
رَجعنا مِن الجِھَاد الاَصغرالی الجِھَاد الاکبَر.
(الدرر المنتژہ: 89)
(تاریخ بغداد، 13: 493)
ہم جہاد اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹے۔
روایت بتاتی ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا حضور! یہ جہادِ اکبر کیا ہے؟ تو حضور نبی کریم ﷺ وضاحت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ چھوٹا جہاد کافروں سے جنگ کرنا ہے جب کہ بڑا جہاد (جہادِ اکبر) اپنے اندر کے کافر (نفس) سے جنگ کرنا ہے۔
یہاں ایک نکتہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ جہادِ اصغر میں مارے جاتے ہیں وہ شہید کہلاتے ہیں یعنی شہادت کا جام پینے والے ابدی زندگی سے سرفراز کر دیئے جاتے ہیں تو وہ مردانِ باخدا جو اپنی ساری زندگیاں نفس کے خلاف جہاد یعنی جہادِ اکبر میں صرف کر دیتے ہیں کیا انہیں حیاتِ ابدی کے مقام پر فائز نہیں کیا جاتا ہوگا؟ ضرور کیا جاتا ہے اور انہیں کہیں بہتر و اعلیٰ مقام عطا کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردے کی یہ پہچان بیان کی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں اور اس کی یاد دیر تک لوگوں کے دلوں میں نہیں رہتی۔ لیکن مردانِ حق جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے دین کے لئے وقف کر دیں وہ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی یاد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved