جواب : قربانی اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو انہیں بڑھاپے میں عطا ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور دوسری طرف فرمانبردار صابر و شاکر بیٹا اپنے والد گرامی کی زبان سے یہ اشارہ سن کر کہ اس کے رب نے اس کی جان کی قربانی طلب کی ہے، اسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ قربانی قبول ہوئی مگر بیٹے کی جان بخش دی گئی اور اس کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دیا گیا، چنانچہ آج تک آپ علیہ السلام کا ذکر اور قربانی کی صورت میں آپ علیہ السلام کی یادگار موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ قدرت نے اس یادگار کو فرضیت و لزوم کا درجہ دے کر ایسا مستحکم انتظام فرما دیا ہے کہ اسے کسی بھی سازش اور بے جا منفی تاویلوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
جواب : عیدالاضحی اور حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی میں فرق یہ ہے کہ حج افراد ادا کرنے والے کے علاوہ حج کی قربانی غنی، فقیر سب پر واجب ہے، جبکہ عید الاضحٰی کی قربانی فقط غنی پر واجب ہے فقیر پر نہیں۔
جواب : حج افراد کرنے والے پر قربانی دینا مستحب ہے، اگرچہ غنی ہو، جبکہ حج قرآن اور حج تمتع کرنے والوں پر قربانی دینا واجب ہے، اگرچہ فقیر ہی ہو۔
جواب : اگر کوئی شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ قربانی کے بدلہ میں دس روزے رکھے، تین حج کے مہینے میں احرام باندھ کر اور باقی سات روزے حج سے فارغ ہونے کے بعد جہاں چاہے رکھے، لیکن گھر پہنچ کر رکھنا بہتر ہے۔ ان روزوں کو مسلسل یا الگ الگ رکھنا دونوں طرح جائز ہے۔
جواب : جس پر قربانی واجب ہے، خواہ شکرانے کی یا کسی جنایت و قصور کی، اس کے لئے اس کے عوض صدقہ و خیرات کرنا جائز نہیں۔
جواب : جی نہیں! یَدی کے جانور کو سرزمین حرم کے علاوہ کسی اور جگہ ذبح کرنا جائز نہیں۔ اس کے وجوب کی صورت میں حاجی بغیر قربانی کئے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح وطن واپس آ کر ایک جانور کی جگہ ہزار جانور بھی قربان کرے تو واجب ادا نہیں ہوگا، کیونکہ اس کے لئے حرم کی سرزمین شرط ہے۔
جواب : جی نہیں! قربانی سے پہلے حلق کروانا (سر منڈانا) جائز نہیں۔
جواب : قربانی دینے والے کا اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا افضل ہے۔ اگر خود جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ جانور ذبح کر سکتا ہے، مگر اجازت ضروری ہے، اور سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کروائے۔ بھوکا، پیاسا جانور ذبح نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے سامنے چھری تیز کی جائے۔ جب تک ٹھنڈا نہ ہو جائے کھال نہ اتاریں، جانور کو قبلہ رُو پہلو پر لٹائیں اور داہنا پاؤں اس کے شانے پر رکھیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عید کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مینڈھے ذبح فرمائے اور انہیں قبلہ رخ کر کے عرض کیا :
إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْن، اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِی ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن، لَا شَرِيْکَ لَهُ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب أضاحی رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 : 530، رقم : 3121)
’’بے شک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوں۔‘‘
پھر
اَللّٰهُمَّ مِنْکَ بِسْمِ الله اَللهُ اَکْبَر
پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کرے۔ اگر اپنی قربانی کا جانور ذبح کرے تو ذبح کرنے کے بعد پڑھے :
اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِيْلِکَ اِبْرَاهِيْم وَحَبِيْبِکَ مُحَمَّد صلی الله عليه وآله وسلم.
اگر دوسرے کی قربانی کا جانور ذبح کرے تو مِنّی کی جگہ مِنْ پڑھ کر اس کا نام لے۔
جواب : اونٹ کے لئے پانچ سال، گائے کے لئے دو سال اور بکرے کے لئے ایک سال کا ہونا ضروری ہے، اگر عمر اس سے ایک دن بھی کم ہوئی تو قربانی جائز نہیں ہو گی، اگرچہ بھیڑ اور دنبہ کے لئے بھی ایک سال کا ہونا ضروری ہے، مگر اس میں یہ رعایت دی گئی ہے کہ اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ عمر ہے، مگر اتنے فربہ اور صحت مند ہیں کہ دیکھنے میں ایک سال کے محسوس ہوتے ہیں توان کی قربانی جائز ہے۔
جواب : حدیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں :
(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب مايکره ان يضحی به، 3 : 542، رقم : 3144)
جواب : گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ (کے مقام) میں ہم لوگوں نے اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی کیا تھا۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب عن کم تجزی البدنة والبقرة، 3 : 536، رقم : 3132)
چاہے سب قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے والے لیکن کسی ایسے شخص کا حصہ نہیں ڈال سکتے جو محض گوشت کے حصول کے لئے شریک ہو رہا ہو کیونکہ اس طرح کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔
جواب : قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا افضل ہے۔ اس کی تقسیم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک حصہ فقراء و مساکین کے لئے، دوسرا دوست و احباب اور اعزاء و اقارب کے لئے جبکہ تیسرا گھر والوں کے لئے مختص کیا جائے۔
جواب : قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت وغیرہ قصاب کو بطور اجرت دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ دینی چاہیے۔
جواب : قربانی کی کھال اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مصرف میں لانا چاہے تو لا سکتا ہے، مثلاً جائے نماز بنا لے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ لیکن اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔
یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہیں۔
جواب : ذبیحہ یعنی ذبح شدہ جانور کے سات اعضاء کو کھانے سے منع کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں :
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَکْرَهُ مِنَ الشَّاةِ سَبْعًا : اَلْمَرَارَة، والْمَثَانَةَ، والْمَحْيَاة، والذَّکَرَ، وَالْاُنْثَيَيْنِ، وَالْغُدَّةَ، والدَّمَ، وَکَانَ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُقَّدَّمُهَا.
(طبرانی، المعجم الاوسط، باب الياءِ من اسمهُ يعقوب، 10 : 217، رقم : 9476)
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذبیحہ کے سات اعضاء کو مکروہ شمار کرتے تھے، جو یہ ہیں : مرارہ (پِتہ)، مثانہ، محیاۃ (شرم گاہ)، آلہ تناسل، دو خصیے، غدود اور خون۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بکری کا مقدم حصہ زیادہ پسند تھا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved