جواب : جی نہیں! مقروض ہونے کی صورت میں پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے، اس کے بعد حج کرے۔
جواب : اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مال و دولت سے استطاعت رکھتا ہے تو حج اس پر فرض ہے اور فرض حج میں والدین کی اجازت ضروری نہیں بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں۔ اس پر لازم ہے کہ حج کرے, اگرچہ والدین منع کریں اور والدین کا مقروض ہونا اس شخص پر فرضیت حج میں خلل انداز نہیں۔
جواب : حج فرض ہے اور نکاح سنت، تو سنت کے لئے فرض چھوڑنا جائز نہیں، اس لئے پہلے حج ادا کرنا چاہئے۔
جواب : حج میں اکثر طور پر حاجی صاحبان مسافر ہوتے ہیں تو ان پر احکام مسافر لاگو ہوں گے۔ البتہ عرفات میں جمع بین الصلواتین مشروع ہے کہ ظہر اور عصر باجماعت ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ اگر اکیلا یا اپنی الگ جماعت قائم کرنی ہو تو پھر جمع بین الصلواتین جائز نہیں ہے، بلکہ ظہر اور عصر اپنے اپنے وقت پر پڑھنا ہو گا۔ اسی طرح مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں ادا کرتے ہیں، چاہے باجماعت ہو یا اکیلا دونوں کے لئے یہی حکم ہے۔
(ابن عابدين شامی، رد المختار، 2 : 505)
جواب : اگر کوئی شخص بغیر احرام باندھے میقات سے گزر جائے تو وہ گنہگار ہوگا اور دَم دینا واجب ہوگا، لیکن اگر وہ شخص پانچ میقاتوں میں سے جس میقات پر آسانی سے لوٹ سکتا ہے، واپس آئے اور احرام باندھ لے تو پھر اس سے دَم بھی ساقط ہو جائے گا۔
جواب : حج و عمرہ ایک احرام کے ساتھ حج قِران کرنے والے حاجی کے لئے جائز ہے۔
جواب : حالتِ احرام میں نکاح جائز ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالتِ احرام میں عقدِ نکاح کیا تھا درآنحالیکہ آپ محرم تھے۔
(ابو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب المحرم يتزوّج، 3 : 111، رقم : 1844)
جواب : جی نہیں، حالتِ احرام میں مردوں کے لئے موزے، بوٹ یا جوتے پہننا جائز نہیں، اگر کسی (مرد) نے جوتے یا موزے پورے چار پہر پہنے تو اس پر دَم اور اگر اس سے کم پہنے تو صدقہ واجب ہے۔ البتہ حالتِ احرام میں مردوں کے لئے ایسا جوتا پہننا جائز ہے جس سے پاؤں کی اوپر والی ہڈی ڈھکی ہوئی نہ ہو، پاؤں کی انگلیاں اور ایڑی ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں۔
جواب : موسم سرما میں احرام کے اوپر کمبل یا اونی چادر وغیرہ بغیر سلائی کے اگرچہ دو چار ہوں اوڑھنے کی اجازت ہے، بلکہ سوتے وقت اوپر سے روئی کا لبادہ چہرہ چھوڑ کر بدن پر ڈال لینا یا نیچے بچھا لینا بھی جائز ہے، لیکن موسم سرما میں احرام کے اوپر سے گرم جبہ یا قیمص پہننا جائز نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی کو حالتِ احرام میں جبہ پہنے ہوئے دیکھا تو اسے اتارنے کا حکم دیا۔
جواب : اگر سوتے ہوئے سر اور چہرہ ڈھک جائے تو اس صورت میں کفارہ لازم آئے گا، سر اور چہرہ کا چوتھائی حصہ بھی کل کے حکم میں ہے۔ اگر چوتھائی سر یا چہرہ کا چوتھائی حصہ ایک مکمل دن یا ایک مکمل رات چھپائے رکھا تو صدقہ لازم آئے گا اور چار پہر سے کم میں کفارہ کچھ نہیں البتہ گناہ ہے۔
جواب : اگر وضو کرتے، سر کھجاتے یا کنگھا کرتے وقت بال ٹوٹ جائیں تو ایک بال کے بدلہ میں ایک مٹھی غلہ یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چھوہارا اور دو بالوں کے بدلہ میں دو مٹھی غلہ یا دو ٹکڑے روٹی اور اگر تین سے زائد بال گرے تو صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرے اور اگر بیماری کے سبب یا اَزخود بال گریں تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہیں۔
جواب : حالتِ احرام میں نزلہ، زکام یا فلو کی صورت میں کپڑے کا رومال استعمال کرنے کی بجائے بغیر خوشبو والا ٹشو پیپر اگر میسر ہو تو استعمال کر لیا جائے۔
جواب : طواف کے سات چکروں میں اضطباع سنت ہے۔ حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی۔
(ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ماجاء ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبحاً، 3 : 214، رقم : 859)
طواف کے بعد اضطباع نہ کرے، لیکن اگر طواف کے بعد کی نماز میں اضطباع کیا تو مکروہ ہے۔ اضطباع صرف اسی طواف میں ہے جس کے بعد سعی ہو اور اگر طواف کے بعد سعی نہ ہو تو اضطباع بھی نہیں، جیسے نفلی طواف۔
جواب : رمل صرف طواف کے پہلے تین چکروں میں سنت ہے، ساتوں میں کرنا مکروہ ہے۔ لہٰذا پہلے میں رمل نہ کر سکا تو دوسرے اور تیسرے میں کرے۔ اگر پہلے تین چکروں میں رمل نہ کیا تو باقی چار میں نہ کرے اور اگر رش کی وجہ سے رمل کا موقع نہ ملے تو رمل کی خاطر نہ رکے بلارمل طواف کرے اور جہاں جہاں موقع ملے اتنی دور رمل کرے۔ اور اگر ابھی طواف شروع نہیں کیا ہے اور جانتا ہے کہ رش کی وجہ سے رمل نہیں کر سکے گا اور یہ بھی معلوم ہے کہ ٹھہرنے سے موقع مل جائے گا تو انتظار کرے۔
جواب : اگر کسی نے طواف کرتے وقت سات چکر لگانے کے بعد آٹھواں جان بوجھ کر قصداً شروع کر دیا تو یہ ایک نیا طواف شروع ہو گیا۔ اسے اب سات چکر مکمل کر کے ختم کرے۔ لیکن اگر محض وہم اور وسوسہ کی بناء پر آٹھواں چکر شروع کیا کہ شاید ابھی چھ ہی ہوئے ہیں تو اسے سات چکر کر کے ختم کر دے۔ اگر بعد میں خیال آئے کہ سات ہو چکے ہیں تو اسی پر ختم کر دے۔ اگلے سات چکر یعنی نیا طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔
جواب : دوران طواف وضو ٹوٹ جانے یا نماز کا وقت ہو جانے کی صورت میں طواف وہیں چھوڑ کر وضو یا نماز پڑھنے چلا جائے اور واپس آ کر اگر چار چکر یا اس سے زیادہ کئے تو اس صورت میں اسی طواف پر بنا کرے۔ یعنی جتنے چکر رہ گئے ہوں انہیں پورا کرے تو طواف پورا ہو جائے گا۔ پہلے چکر سے شروع کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر طواف چار چکر سے کم کیا تو اس صورت میں طواف شروع سے کرنا ہوگا۔
جواب : اگر کسی نے طواف زیارت، طواف قدوم، طواف وداع کے تین یا اس سے کم چکر بغیر وضو کے لگائے تو ہر پھیرے کے بدلہ میں ایک صدقہ یعنی نصف صاع گندم یا ایک صاع جو، منقیٰ یا کھجور دینا واجب ہے، لیکن اگر ان سب صورتوں میں وضو کر کے اس طواف کا اعادہ کر لیا تو کفارہ ساقط ہو گیا۔
جواب : اگر کسی شخص نے بے وضو پورا طوافِ زیارت کیا تو اس پر دَم یعنی ایک بکری ذبح کرنا لازم ہے اور اگر حالتِ جنابت میں پورا طوافِ زیارت کیا تو اس صورت میں بُدنہ یعنی گائے یا اونٹ کی قربانی لازم ہے۔
جواب : عمرہ کا طواف اگر کسی نے بے وضو کیا تو ایک دَم دینا لازمی ہے۔ لیکن اگر وضو کر کے اس کا اعادہ کر لے یعنی دوبارہ باوضو طواف کر لے تو دَم ساقط ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ طواف عمرہ میں غلطی ہو جائے تو صدقہ یا بُدنہ لازم نہیں بلکہ دَم (قربانی) لازم ہے۔
جواب : جی ہاں، ہر طواف کے سات چکر مکمل ہونے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنا ضروری ہے اور یہ احناف کے نزدیک واجب ہے۔ امام سرخسی اور دیگر ائمہ کرام نے لکھا ہے :
1. وَهَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ عِنْدَ الْفِرَاغِ مِنَ الطَّوَافِ وَاجِب.
(سرخسی، المبسوط، کتاب المناسک، 4 : 12)
’’طواف سے فراغت کے بعد یہ دو رکعتیں واجب ہیں۔‘‘
2. وَهَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ وَاجِبَتَانِ عِنْدَنَا.
(1. عينی، عمدة القاری، 9 : 2275
2. الفتاوی الهنديه، 1 : 226)
’’اور طواف کے بعد یہ دو رکعتیں ہم احناف کے نزدیک واجب ہیں۔‘‘
طواف کی دو رکعت واجب نماز کا طواف سے متصل ادا کرنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، لیکن اگر یہ دو رکعت تاخیر سے بھی ادا کریں تو واجب ادا ہو جائے گا، نیز عدم ادائیگی کی صورت میں دَم یعنی کفارہ لازم نہیں ہوتا۔
جواب : وقوف عرفات کی طرف روانگی کا وقت 9 ذوالحجہ کو نماز ظہر کے بعد سے لے کر 10 ذوالحجہ کی طلوع فجر تک ہے، کوئی بھی شخص حالتِ احرام میں حج کی نیت سے ان اوقات میں ایک لحظہ یا اس سے زیادہ کے لئے عرفات میں داخل ہو جائے تو اس کا حج ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص ان اوقات میں عرفات میں داخل نہیں ہوتا تو اس کا حج نہیں ہو گا۔
حضرت عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے۔
وَمَنْ اَدْرَکَ عَرَفَة قَبْلَ اَنْ يَّطْلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْحَجَّ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب القراء ت، باب ومن سورة البقرة، 5 : 84، رقم : 2975)
’’اور جس نے (مزدلفہ کی) طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات کے وقوف کو پا لیا اس کا حج ادا ہو گیا۔‘‘
جواب : عرفات میں ظہر اور عصر کے لئے ایک اذان اور دو تکبیریں کہی جائیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے ایک اذان اور ایک تکبیر کہی جائے۔ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور ایک تکبیر کے ساتھ ادا کرنے کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب کی تین رکعتیں اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں۔ مالک بن حارث نے ان سے کہا یہ کیسی نماز ہے؟ فرمایا کہ میں نے ان دونوں نمازوں کو اسی جگہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک ہی اقامت سے پڑھا ہے۔
(ابو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب الصلاة بجمع، 4 : 141، رقم : 1929)
جواب : مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کے لئے ترتیب لازم ہے، جبکہ جماعت شرط نہیں۔ اگر تنہا بھی پڑھیں تو تب بھی دونوں نمازیں اکٹھی پڑھنا ہوں گی۔
جواب : مزدلفہ میں دونوں نمازوں مغرب و عشاء کو ایک ہی اذان اور ایک ہی اقامت سے ادا کیا جاتا ہے۔ اذان و اقامت کے بعد پہلے مغرب کے تین فرض ادا کرنے ہوتے ہیں، پھر سلام پھیرتے ہی فوراً عشاء کے فرض پڑھتے ہیں، پھر مغرب کی سنتیں، اس کے بعد عشاء کی سنتیں اور وتر ادا کرتے ہیں۔
جواب : مزدلفہ میں واجب وقوف کا وقت صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے تک ہے۔ مقررہ وقت میں اگر کوئی یہاں سے ہو کر بھی گزر گیا تو وقوف ہو گیا، البتہ سنت یہ ہے کہ وقوف کو اتنا لمبا کیا جائے کہ صبح خوب روشن ہو جائے، پھر یہاں سے روانگی ایسے وقت میں ہونی چاہئے جب سورج نکلنے میں دو رکعت نماز کا وقت باقی رہ جائے۔
جواب : اگر کوئی شخص مزدلفہ میں وقوف نہ کر سکا تو اس پر دَم لازم آئے گا، لیکن اگر کمزور عورتیں یا چھوٹے بچے رش کے خوف سے وقت سے پہلے ہی منیٰ کو روانہ ہو گئے تو ان پر کوئی دَم نہیں۔
حضرت عبید اللہ بن ابی یزید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ان لوگوں میں تھا، جن کو اپنے گھر والوں میں ضعیف شمار کر کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی مزدلفہ روانہ کر دیا تھا۔
(ابو داؤد، السنن، کتاب الحج، باب التعجيل من جمع، 4 : 144، رقم : 1939)
جواب : 10 ذوالحجہ کو رمی طلوع آفتاب سے لے کر زوال تک سنت ہے۔ زوال سے لے کر غروب آفتاب تک مباح (جائز) ہے اور غروب آفتاب سے صبح صادق تک مکروہ ہے، اگر کسی عذر کے سبب رات میں رمی کی تو کراہت نہیں۔
جواب : ہر حاجی کے لئے اپنے ہاتھ سے رمی کرنا واجب ہے۔ البتہ ضعیف، کمزور یا بیمار یعنی ایسے لوگ جو کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکتے ہوں یا سواری میسر نہ ہو اور جمرات تک پیدل نہ جا سکتے ہوں یا جا تو سکتے ہوں مگر مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے معذور حجاج اپنی جگہ کسی کو نائب مقرر کر سکتے ہیں۔ نائب کو چاہئے کہ پہلے وہ اپنی طرف سے رمی کرے یعنی سات کنکریاں مارے پھر دوسرے معذور حاجی کی طرف سے سات کنکریاں مارے۔
جواب : رمی کے لئے کنکریاں مسجد یا جمروں کے قریب سے جمع کرنا مکروہ ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے :
قُلْنَا : يَا رَسُوْلَ الله، هَذِهِ الْجَمَارُ الَّتِی يَرْمِيْ بِهَا کُلَّ عَامٍ فَتَحْتَبْ اَنَّهَا تَنْقَصَ؟ فَقَالَ : مَا تُقُبِّلَ مِنْهَا رَفَعَ وَلَوْلَا ذَلِکَ لَرَاَيْتَهَا أَمْثَالَ الْجِبَالِ
(دار قطنی، السنن، 2 : 300، رقم : 288)
’’ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! یہ کنکریاں جنہیں ہر سال پھینکا جاتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ یہ کم ہو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان میں سے جو مقبول ہوتی ہیں اٹھا لی جاتی ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو تم انہیں پہاڑوں کی مانند دیکھتے۔‘‘
اس وجہ سے فقہاء کرام نے وہاں سے کنکریاں اٹھانا مکروہ قرار دیا ہے۔
(حصکفی، الدر المختار، 2 : 515)
جواب : جی نہیں، ایک ہی دفعہ سات کنکریاں اکٹھی مارنا جائز نہیں۔ اگر سب کنکریاں ایک ساتھ پھینکیں تو یہ ساتوں ایک کے قائم مقام ہوں گی، باقی چھ کنکریاں مزید مارنا واجب ہوگا۔
جواب : اصل جمرہ، ستون، دیوار اس کی جڑ والی زمین ہے۔ اس لئے اگر کوئی کنکری جمرہ کی جگہ بنی ہوئی دیوار یا ستون سے تو نہ ٹکرائے مگر اس کے گرد بنے ہوئے احاطہ میں گر جائے تو رمی درست ہے، لیکن اگر کنکری اس ستون یا دیوار سے ٹکرا کر اس احاطہ سے باہر گر جائے تو وہ کنکری ضائع چلی گئی۔ اس کی جگہ دوسری کنکری مارے۔
جواب : جی نہیں، لکڑی یا جوتے سے رمی کرنا جائز نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عقبہ کی صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ، میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا : ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو۔ پھر فرمایا : اے لوگو! تم دین میں زیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی اُمتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب قدر حصی الرمی، 3 : 480، رقم : 3029)
اس لئے رمی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کنکریاں مارے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوبیا کے دانہ کے برابر چھوٹی کنکریاں ماریں اور لوگوں سے فرمایا کہ لوبیا کے دانہ کے برابر کنکریاں حاصل کرو تاکہ جمرہ کو رمی کی جا سکے۔ لہٰذا لکڑی، جوتے یا بڑے کنکر مارنے سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لکڑی، جوتا یا بڑا کنکر کسی شخص کو بھی لگ سکتا ہے اور شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔
جواب : اگر کسی شخص نے سات سے کم کنکریاں ماریں تو ہر کنکری کے عوض نصف صاع گیہوں کا صدقہ کرنا واجب ہو گا، لیکن اگر ایک دن کی پوری رمی یعنی سات کنکریاں نہیں ماریں تو اس صورت میں دَم یعنی ایک بکری ذبح کرنا واجب ہے۔
جواب : سر پر پتلی مہندی یا خضاب لگانے کی صورت میں مرد کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر سر پر مہندی کا پتلا خضاب کیا کہ بال نہ چھپے تو ایک دَم یعنی ایک بکری ذبح کرے اور اگر گاڑھا خضاب لگایا کہ بال چھپ گئے اور چار پہر گزرے تو مرد پر دو دَم اور اگر چار پہر سے کم وقت گزرا تو ایک دَم اور ایک صدقہ (فطر کی مقدار) دینا لازم ہے۔
اسی طرح عورت نے سر پر مہندی لگائی تو ایک دَم اگرچہ مہندی سے سر کا چوتھائی حصہ کیوں نہ چھپا ہو، لیکن اگر چوتھائی حصہ سے کم ہو تو صدقہ فطر کے برابر صدقہ ادا کرنا لازم ہے۔
جواب : جنایات، جنایہ کی جمع ہے۔ جنایت جرم، غلطی، خطا اور قصور کو کہتے ہیں، حج و عمرہ کے بیان میں جنایت ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو محرم سے بحالت احرام ظاہر ہو یا وہ جرم مراد ہیں، جو زمین حرم سے تعلق رکھتے ہیں۔
جواب : کفارہ جنایات کی تین اقسام ہیں :
جواب : دَم سے مراد پوری بکری، بھیڑ یا اونٹ، گائے وغیرہ کے ساتویں حصے کی قربانی ہے، جن باتوں کی جزا میں دَم آتا ہے، وہ درج ذیل ہیں :
جواب : جو شخص کفارہ کے طور پر دَم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ اس کے بدلہ تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں میں ہر ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا ہر ایک کو نصف صاع صدقہ دے۔
حضرت کعب بن عُجرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں اس وقت ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور میری پیشانی یا ابروؤں پر جوئیں بار بار گر رہی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سر منڈواؤ اور جانور قربانی کرو یا تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب القراء ات، باب ومن سورة البقرة، 5 : 84، رقم : 2974)
جواب : بُدنہ سے مراد پوری گائے یا اونٹ ذبح کرکے صدقہ کر دینا ہے اور درج ذیل امور کے کرنے سے بُدنہ واجب ہوتا ہے :
جواب : صدقہ سے مراد کچھ گندم یا اناج وغیرہ کسی فقیر کو دینا ہے یہ صدقہ ’’صدقہ فطر‘‘ کے برابر گندم کا نصف صاع (پونے دو سیر) یا اس کی قیمت اور بعض صورتوں میں اس سے کم ہے۔
درج ذیل امور کے کرنے سے صدقہ واجب ہوتا ہے :
جوں یا ٹڈی وغیرہ کو مارنے سے نصف صاع سے کم صدقہ واجب ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں جو چاہے صدقہ کرے۔
اگر کسی نے حالت احرام میں خود شکار کیا یا شکاری کو شکار کے متعلق بتایا تو اس پر جزا واجب ہے۔ جزا یہ ہے کہ جہاں اس کو شکار کیا ہے وہیں اس کی قیمت ٹھہرائی جائے قیمت اگر قربانی کے جانور کو پہنچ جائے تو اسے اختیار ہے چاہے جانور خرید کر ذبح کرے یا غلہ خرید کر صدقہ کرے۔
جواب : حج کے فرائض میں سے اگر ایک فرض بھی چھوٹ گیا تو حج ادا ہی نہیں ہوگا اور حج کے واجبات میں سے اگر کسی واجب کو چھوڑ دیا خواہ قصدًا چھوڑا یا سہوًا تو اس پر ایک قربانی لازم ہے اور اس کا حج باطل نہیں ہوگا۔
اور اسی طرح حج کی سنتوں میں سے اگر کوئی سنت چھوڑ دے تو اس سے نہ تو حج باطل ہوگا نہ قربانی لازم ہوگی البتہ حج کے ثواب میں کچھ کمی آجائے گی۔
جواب : احصار کے معنی روکنے اور منع کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں احصار سے مراد کسی ایسے سبب کا پیدا ہو جانا ہے جس کے باعث کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد حج و عمرہ ادا نہ کر سکے اور ایسے عاجز شخص کو محصر کہتے ہیں۔
(ابن منظور افریقی، لسان العرب، 4 : 195)
جواب : حج یا عمرہ سے روکنے والے اسباب یہ ہو سکتے ہیں مثلاً بیماری ہے یا کسی نے قید کرلیا یا ہاتھ یا پاؤں ٹوٹ گیا یا عورت کے محرم یا شوہر کا انتقال ہو گیا یا دشمن یا درندہ یا نفل حج سے شوہر نے بیوی کو منع کر دیا یا عدت لازم آ گئی مثلاً عورت نے احرام باندھا اس کے بعد شوہر نے طلاق دے دی تو وہ عورت محصرہ ہے اگرچہ محرم بھی موجود ہو۔ محصر کا حکم یہ ہے کہ وہ حلال ہونے کے لئے قربانی کا جانور سرزمین حرم میں بھیجے کہ وہاں ذبح ہو یا قیمت بھیج دے کہ اس قیمت سے قربانی کا جانور خرید کر حرم میں ذبح کر دیا جائے۔ ذبح کے بعد یہ حلال ہو جائے گا۔ حلق اس میں شرط نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ حلق کے ساتھ حلال ہو۔ جس کے ذریعے حرم میں قربانی کرائی جائے لازم ہے کہ اس سے ذبح کی تاریخ اور وقت معین کرا لے۔ اس تاریخ اور وقت کے گزرنے کے بعد یہ احرام سے نکل جائے گا۔
احرام سے نکل جانے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس وقت پر قربانی نہیں ہوئی تھی تو دم لازم آئے گا۔ اور اگر حج کا وقت فوت ہوگیا اور اس کو مکہ مکرمہ پہنچ سکنے کی قدرت ہو گئی تو عمرہ کر کے حلال ہو جائے گا اور اس عمرہ کو عمرئہ تحلل (ممنوعات احرام سے آزادی) کہتے ہیں اگر عمرئہ تحلل نہ کرسکے تو اس کا بدل یہ ہے کہ حرم شریف میں قربانی بھیجے، بعد قربانی کے حلال ہوجائے۔ بہرحال یہ قربانی بدل ہے اور حلال کرنے میں اصل حج یا عمرہ ہے۔ اس پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں بدل ہے۔
احصار کے بعد اگر اس سال حج فوت ہوگیا اور عمرہ تحلل بھی نہیں کر سکا تو آئندہ سال حج اور عمرہ تحلل کی بھی قضا کرے اور قران ہے تو ایک حج اور دو عمرے کرے یعنی ایک عمرہ قران کا اور ایک تحلیل کا۔
اس نے قربانی بھیجی اور عذر احصار جاتا رہا اور اس کو امید ہے کہ مجھے حج بھی مل سکتا ہے اور ہدی بھی مل سکتی ہے تو حج کرے۔ حج کے بعد یہ احرام سے نکل جائے گا اور اس ہدی کو چاہے تو صدقہ کردے یا فروخت کردے یا کسی کو ہبہ کردے اور اگر اس کی قربانی کر دی گئی اور یہ حلال ہوگیا تھا اور بعد میں اس کو قدرت حج پر حاصل ہو گئی تو نیا احرام باندھ کر یہ حج کرے کیونکہ قربانی کے سبب یہ حلال ہوگیا یعنی احرام سے نکل گیا تھا۔
اگر عورت کے ساتھ شوہر تھا یا محرم تھا اور وہ راستہ میں مر گیا اور مکہ معظمہ وہاں سے تین دن یا زیادہ کی راہ ہے تو وہ محصرہ ہے جس کا حج فوت ہو گیا اس پر طواف صدر نہیں۔
جواب : اگر کوئی شخص حج کے لئے مکہ مکرمہ جائے لیکن مدینہ منورہ کی حاضری کے لئے نہ جائے تو ایسے شخص کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ وَلَمْ يَزَرْنِی، فَقَد جَفَانِی.
(سبکی، شفا السقام فی زيارت خير الانام : 127)
’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری (قبر انور کی) زیارت نہ کی تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بڑا واضح ہے بلکہ اُمت مسلمہ کے لئے کڑی تنبیہ بھی ہے کہ جس نے حج کی سعادت عظمیٰ حاصل کر کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جفا کی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved