جواب: مکہ مکرمہ اس پوری کائناتِ ارضی میں وہ بابرکت جگہ اور رحمتوں والا مقام ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے شہروں سے بڑھ کر اعلیٰ و مقدس شہر کی حیثیت عطا کی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس شہر دلنواز اور اس مرکزِ بخشش کو خلعتِ انوار میں لپیٹے ہوئے اپنے برگزیدہ بندے اور عالم خلق میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہستی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کے لئے منتخب کیا۔ اپنے دین کی اشاعت اور ترویج و فروغ اور اپنے گھر بیت اللہ شریف کا حج کرنے کے لئے اس شہر بےمثال کو منتخب فرمایا، اسی وجہ سے اس ارض مقدس کو دنیا بھر کے شہروں پر فضلیت و برتری عطا کی سرِزمین مکہ وہی جگہ ہے جسے خود رب العزت نے لوگوں کے دلوں میں محبت کے لئے منتخب فرمایا اور پھر انہیں یہاں حج کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo
(البقرة، 2: 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘
دنیا کا یہ واحد بابرکت شہر ہے جس کو امن کی جگہ بنانے اور اسے نوع بہ نوع پھلوں سے نوازنے کے لئے جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوئے۔ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس التجا کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُo
(البقرة، 2: 126)
’’اور جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
یہ شہر خوباں نزول وحی و ملائکہ کا مرکز، انبیاء و اولیاء کا ٹھکانہ و مدفن، ہر چیز کی پیدائش کا موجب و سبب اور ہر انعامِ خداوندی کی بنیاد ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں ہیں جن کی زیارت سے جہاں ایمان کو حلاوت اور چاشنی ملتی ہے وہاں استقرار و استحکام بھی میسر آتا ہے۔ ان ہی میں سے مقام ابراہیم ہے، صفا و مروہ ہے، آب زم زم و حجرِ اسود ہے، حتیٰ کہ یہی وہ شہر ہے جس میں اللہ کا گھر ’’بیت اللہ‘‘ ہے جس میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی ہےاس کے ارد گرد تین سو انبیاء علیھم السلام کے مزارات ہیں، اس شہر امن میں داخل ہونے والے کو امن و امان مل جاتا ہے۔ خونریزی و سفاکی کی یہاں ممانعت ہے کسی بھی انسان کا حق و ناحق خون نہیں بہایا جاسکتا۔ اس عظمت و بزرگی والے شہر میں حلال تو درکنار حرام جانور کا شکار بھی گناہ ہے۔ اس کے درختوں اور شاخوں کا کاٹنا بھی حرام ہے۔ یہ اس قدر امن والا شہر ہے کہ ہر ذی روح اور غیر ذی روح اس کے سائے میں محفوظ و مامون ہے۔ یہاں قدم قدم پر عافیت کے شامیانے نصب ہیں۔ امن و سکون اور رحمتوں کا بحرِ بےکنار، یہ وہ عظیم الشان شہر ہے جس کی عظمت اور فضلیت کی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قسمیں کھائی ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے:
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo
(البلد، 90: 1-2)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘
اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے اظہارِ محبت یوں فرمایا:
’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی فضل مکة، 5: 679-680، رقم: 3926)
جواب: کعبۃ اللہ کی فضیلت کی اس سے بڑی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس گھر سے محبت فرماتا ہے جس کا ذکر سورہِ حج کی درج ذیل آیت کریمہ میں ہے جہاں جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ میرا گھر حج اور طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو:
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِo
(الحج، 22: 26)
’’اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھنا۔‘‘
اس سے اگلی آیت کریمہ میں یہ مضمون محبت Climax پر پہنچ گیا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ اب تمام لوگوں کو بآواز بلند میرے گھر کے حج (اور طواف) کے لئے بلاؤ (سبحان اللہ) پھر خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنا پھر میرے بندے دور و نزدیک سے کیسے کھنچے چلے آتے ہیں:
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍo
(الحج، 22: 27)
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں بھی کعبۃ اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بیت اللہ کی زیارت کی پھر یہاں کسی سے جھگڑا، بد زبانی اور فساد نہ کیا تو:
’’وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔‘‘
(بخاری، الصحيح، أبواب الإحصاد وجزاء الصّيد، باب قول الله تعالی فلا رفث، 2: 645، رقم: 1723-1764)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دن رات کعبۃ اللہ پر ایک سو بیس رحمتوں کا نزول فرماتا ہےان میں ساٹھ طواف کرنے والوں کیلئے، چالیس نماز پڑھنے والوں کیلئے:
’’اور بیس ان لوگوں کیلئے جو کعبۃ اللہ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
(ابن جوزی، العلل المتناهيه، 2: 82)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلنَّظَرُ إلَی الْبَيْتِ الْحَرَامِ عِبَادَةٌ.
(تالی تلخيص، 2: 365، رقم: 221)
’’اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هَذَا الْبَيْتُ دَعَامَةُ الإِسْلَامِ.
(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 4: 332، رقم: 6964)
’’یہ گھر اسلام کا ستون ہے‘‘
جو شخص اس کی زیارت کے ارادہ سے نکلا خواہ وہ حج کی نیت کرنے والا ہو یا عمرہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اگر وہ فوت ہوگیا تو اسے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔
یہ وہ مقدس و بابرکت خطہ زمین ہے جسے بیت اللہ ہونے کا شرفِ عظیم حاصل ہوا، جس کی عظمت و رفعت میں کوئی ثانی نہیں اس کے چشمہ فیض سے پورا عالم انسانیت مستفیض ہو رہا ہے یہی بابرکت جگہ ہے جو پوری کائناتِ ارضی کا منبع و سرچشمہ ہےاسی سے ساری زمین کو پھیلایا گیا ہےزمین و آسمان کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل اسے وجود بخشا گیا سیدنا حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے پہلے پانی پیدا کیا پانی کو ہوا پر ٹھہرایا پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا بھیجی جس سے پانی میں ہلچل پیدا ہو گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بیت اللہ والی جگہ قبہ نما ایک ٹیلہ پیدا کردیا جہاں دو ہزار سال بعد بیت اللہ شریف تعمیر کیا گیا۔‘‘
(عبد الرزاق، مصنف، 5: 90)
امام بيہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے پہلا ٹکڑا جسے اللہ رب العزت نے زمین سے پیدا کیا وہ بیت اللہ کی جگہ ہے پھر اسی سے زمین کو پھیلایا گیا ہے۔
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القويم، 3: 7)
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ملائکہ نے کعبہ شریف تعمیر کیا اور وہ اس کا حج بھی کرتے تھے۔
(قاضی ثناء الله پانی پتی، تفسبر مظهری، 1: 508)
حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے کون سی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامَ
یعنی بیت اللہ شریف کو اس قدامت کا شرف حاصل ہےسائل نے پھر استفسار کیا کہ بیت اللہ کے بعد کون سی مسجد وجود میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمَسْجِدُ الاَقْصٰی
دوسرا درجہ بیت المقدس کو حاصل ہےدریافت کیا گیا کہ دونوں کے درمیان کتنے عرصے کا فاصلہ ہے تو ارشاد فرمایا: چالیس برس کا۔
1. بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب قول اللہ تعالی وَوَهَبْنَا
لداود، 3: 1260، رقم: 3243
2. قاضی ثناء اللہ پانی پتی، تفسير مظهری، 1: 508)
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات قرین فہم معلوم ہوتی ہے کہ وہ خطۂ زمین جسے خانہ خدا کی تعمیر کے لئے منتخب کیا گیا۔ کوئی بے آباد و ویران مقام نہ تھا بلکہ مدت سے یہ انسانوں کی بستی بن چکا تھاچونکہ اس مقدس مقام کو آنے والی نسلوں کے لئے تہذیب و ثقافت اور علم و عرفان کا گہوارہ بننا تھا۔
اب تک کعبۃ اللہ کی تعمیر گیارہ مرتبہ ہو چکی ہے:
سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے کی، حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ (امام زین العابدين رضی اللہ عنہ) سے ایک آدمی نے پوچھا: بیت اللہ کا طواف کب سے ہو رہا ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے بارے میں اطلاع دی تو انہوں نے عرض کیا ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں اور آپ ہمارے ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ فرشتوں کو اپنی عرض پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی، انہوں نے حالت زاری اور تضرع میں عرش الٰہی کا تین دفعہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے عرش کے نیچے ’’بیت المعمور‘‘ بنا کر فرمایا: تم اس کا طواف کیا کرو، اس کا ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔ ایک دفعہ طواف کرنے والے دوبارہ نہیں آتے، اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا: اب تم زمین پر جاؤ۔
إِبْنُوْا لِی بَيْتًا فِی الْأَرْضِ بِمِثَالِه وَقَدْرِهِ.
’’اسی کی مثل و مقدار کے مطابق زمین پر میرا گھر بناؤ۔‘‘
جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کو حکم دیا:
أَنْ يَّطُوْفُوْا بِهَذَا الْبَيْتِ کَمَا يَطُوْفُ أَهْلُ السَّمَآءِ بِالْبَيْتِ الُمَعْمُوْرِ
(ازرقی، اخبار مکه، 1: 34)
’’اس گھر کا تم بھی اسی طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔‘‘
سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل فرشتوں نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا زمین پر رہنے والے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طواف اور حج کرنے کا حکم دیا تھا۔
(ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 5: 263)
سیدنا آدم اور حضرت حوا علیہما السلام جب زمین پر آئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیامولا میں اس لذت و سرور سے محروم ہو گیا ہوں جو فرشتوں کے ساتھ بیت المعمور کے طواف میں آیا کرتا تھا۔ کاش ہمیں پھر وہاں لوٹا دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: اے آدم!
اِبْنِ لِي بَيْتًا بِحِذَاءِ بَيْتِی الَّذِی فِی السَّمَآءِ تَتَعَبَّدُ فِيْهِ اَنْتَ وَوَلَدُکَ کَمَا تَتَعَبَّدُ مَلائِکَتِی حَوْلَ عَرْشِيْ.
(الصالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 147)
’’تم اسی آسمانی گھر (بیت المعمور) کے مقابل زمین پر میرا گھر بناؤ اور اس میں تم اور تمہاری اولاد اسی طرح عبادت کرو جیسے ملائکہ میرے عرش کے ارد گرد کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
فَطُفْ بِه وَاذْکُرْنِی حَوْلَهُ کَمَا رَاَيْتَ الْمَلاَئِکَةَ تَصْنَعُ حَوْلَ عَرْشِی.
’’اس کا طواف کرو اور اس کے ارد گرد میرا ذکر کرو جیسا کہ تم نے ملائکہ کو میرے عرش کے ارد گرد کرتے دیکھا ہوا ہے۔‘‘
سیدنا آدم علیہ السلام حضرت جبرائیل امین کی رہنمائی میں مکہ معظمہ پہنچے وہاں جبرائیل علیہ السلام نے پر مار کر کعبہ کی بنیادیں ظاہر کیں جو انتہائی گہری تھیں پھر فرشتے، پانچ مختلف پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں لائے جن میں سے ایک چٹان تیس آدمی مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان پتھروں سے بیت اللہ شریف تعمیر کیا۔
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 12
صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 147)
امام ازرقی وہب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ یاقوت کا وہ خیمہ جو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے لئے جنت سے اتارا گیا تھا آپ کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا تب انہی بنیادوں پر آپ کی اولاد نے مٹی اور پتھروں سے کعبۃ اللہ تعمیر کیا اور وہ عمارت طوفان نوح تک قائم رہی۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے تعمیر کعبہ کی سعادت حضرت شیث علیہ السلام کو حاصل ہوئی۔
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 32
صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 148)
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ معظمہ میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہے۔ جب تیسری بار بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلہ میں تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جن کی عمر اس وقت بیس سال تھی چاہِ زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے تیر بنا رہے تھےطویل عرصے کی جدائی کے بعد والد گرامی کے چہرہ اقدس کی زیارت سے خوشی کی لہر دوڑ گئی انتہائی تعظیم و تکریم سے خوش آمدید کہا ابتدائی گفت و شنید کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’بے شک تیرے رب نے مجھے اس کا گھر (بیت اللہ) کی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے عرض کیا (ابا جان) آپ اللہ کے حکم کی اطاعت میں جلدی کریں۔ ارشاد فرمایا رب کائنات نے اس عظیم کام میں تجھے میری مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عر ض کیا میں حاضر ہوں آپ کر گزریے۔‘‘
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 40)
اللہ تعالیٰ کے یہ دونوں مقرب بندے اس امرِ عظیم کی تکمیل کے لئے کمربستہ ہو گئے ایک عزم اور ولولہ کے ساتھ تعمیر کعبہ کا ارادہ کیا اس عزم اور ولولے میں احساسِ بندگی اور عاجزی کا عنصر غالب تھامگر ابھی تک یہ حقیقت منکشف نہ ہوئی تھی کہ بیت اللہ شریف کا حدود اربعہ کیا ہے دیواروں کی لمبائی و چوڑائی کتنی ہےکیونکہ طویل مدت اور سیلاب نے اس کے قدیم نشانات کو ختم کردیا تھا۔
سو قدرتِ خداوندی سے ان مکرم بندوں کی رہنمائی کے لئے اچانک ایک بدلی نمودار ہوئی جس سے یہ صدا آرہی تھی کہ جس قدر طول و عرض اس بدلی کے سایہ کا ہے۔ اسی قدر جگہ میں آپ بیت اللہ کی دیوار کھڑی کریں اس میں کمی بیشی نہ ہونے پائے۔
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 42)
بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل امین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے بنیادوں کی نشاندہی کی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک مجسم ہوا آئی جس کا نام ’’ریح الخجوج‘‘ تھا اس نے بیت اللہ کی جگہ کے گرد طواف کر کے اس کی حدود کو واضح کیا تھا۔ اس وقت یہ جگہ ایک ابھرے ہوئے سرخ ٹیلے کی طرح تھی۔
(ازرقی، اخبار مکه، 1: 60)
غرضیکہ باپ اور بیٹے نے کعبہ کی نشان زدہ بنیادوں کی کھدائی شروع کر دی کچھ دیر بعد قدیم بنائے آدم علیہ السلام بھی ظاہر ہو گئی جس پر انہوں نے تعمیر کرنا تھی۔ کام کا آغاز ہوا چشمِ فلک نے دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک مزدور کے بھیس میں پتھر لانے کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک معمار کی حیثیت سے اپنے مقدس ہاتھوں سے دیوار چن رہے ہیں۔ مٹی، گارا یا چونے کی مدد کے بغیر ہی پتھر جوڑے چلے جا رہے ہیں اور وہ پتھر اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ تیس آدمی مل کر بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس تعمیر میں کام آنے والے پتھر پانچ مختلف پہاڑوں، طور سینا، طور سیتا، کوہ لبنان، کوہ جودی اور کوہ حرا سے فرشتے لے کر آئے تھے۔ بنیادوں میں کوہ حرا کے پتھر استعمال ہوئے جب دیواروں کی بلندی کچھ زیادہ ہو گئی اور پتھر لگانے میں دشواری محسوس ہونے لگی تو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ کوئی ایسا پتھر تلاش کرو جس پر کھڑے ہو کر بآسانی تعمیر مکمل کی جا سکے۔ سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نظر انتخاب جس پتھر پر پڑی وہ یادگار پتھر تھا جسے قرآن حکیم میں ’’مقام ابراہیم‘‘ کے مبارک اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس پتھر نے اپنے مزاج کی سنگینی اور سختی کے باوجود آپ علیہ السلام کے نقشِ پا کا اس قدر گہرا اثر قبول کیا کہ زمانے کے حوادث بھی اسے نہ مٹا سکے جس کا نظارہ آج بھی مسلمانانِ عالم بچشم نم خود کر رہے ہیں۔
(ازرقی، اخبار مکه، 1: 62)
اس عظیم الشان تعمیر کے دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام انتہائی عاجزی وانکساری اور شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے فریضے میں مگن رہے اور یہ دعا مانگتے رہے:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمَ.
(البقرة، 2: 127)
’’اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
شیخ ازرقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت کعبہ منہدم ہو گئی تو قبیلہ جرہم نے کعبہ کی تعمیر انہی بنیادوں پر کر دی۔ مسعودی نے مروج الذہب میں ذکر کیا ہے کہ جس شخص کی سربراہی میں یہ تعمیر مکمل ہوئی اس کا نام حارث بن اعضاض الاصفر تھا۔
(الاعلام باعلام بيت اللہ الحرام: 48)
چھٹی تعمیر قوم عمالقہ نے کی، اس کے برعکس بھی مروی ہے کہ پانچویں تعمیر عمالقہ نے اور چھٹی جرہم نے کی، امام ابن ابی شيبہ، اسحاق بن راہویہ اور ابن جریر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ عمارت منہدم ہو گئی۔
فَبَنَتْهُ الْعَمَالِقَةُ، ثُمَّ انْهَدَمَ فَبَنَتْهُ جُرْهُمُ.
(صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 163)
’’تو اسے عمالقہ نے بنایا (یہ تعمیر) پھر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم نے تعمیر کیا۔‘‘
قاضی مکہ زبیر بن بکار اپنی کتاب ’’نسب قریش‘‘ میں لکھتے ہیں جب قصی بن کلاب کعبہ کے متولی بنے تو انہوں نے اس کی ایسی تعمیر کروائی:
لَمْ يَبْنِهِ أَحَدٌ مِّمَنْ بَنَاهَا قَبْلَهُ مِثْلَهُ.
(علامه قطب الدين، اعلام العلماء: 47)
’’کہ اس سے پہلے ایسی تعمیر کسی نے نہیں کروائی۔‘‘
قریش میں قصی پہلا آدمی تھا جسے کعبۃ اللہ تعمیر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد میں سے تھا اور آپ سے تقریباً 130 سال پہلے اس کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 129)
قریش نے جب محسوس کیا کہ عمارتِ کعبہ سیلاب کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے تو انہوں نے اس کی نئی تعمیر کے فیصلہ کا اعلان کیا اور اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی کے ماموں جناب ابو وھب جو بڑے حقیقت شناس اور دور اندیش انسان تھے اپنی قوم سے مخاطب ہوئے:
’’اے گروہِ قریش! وعدہ کرو کہ کعبہ کی تعمیر پر تم بالکل پاکیزہ حلال اور صاف کمائی ہی خرچ کرو گے اور غارت گری اور بدکاری کا ایک پیسہ بھی اس پر نہیں لگاؤ گے۔‘‘
(ابن کثير، البدايه والنهايه، 2: 301)
تمام قبائل نے وعدہ کیا اور کعبہ معظمہ کے ایک ایک حصے کی تعمیر اپنے ذمہ لے لی۔ تعمیر کعبہ بہت بڑی سعادت تھی۔ سب لوگ مزدوروں کی طرح لگ گئے چھوٹے بڑے کا امتیاز مٹ گیا۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرنے میں مصروف رہا۔ یہ وہ بابرکت عمل تھا جس میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حصہ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھر لا لا کر دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اس باہمی تعاون اور اتحاد و یگانگت کی فضا میں تعمیر کعبہ مکمل ہوئی۔
خلفاء راشدین کے دور میں مسجد حرام میں توسیع تو ہوئی مگر بیت اللہ تعمیر قریش کے مطابق ہی رہا۔ تریسٹھ ہجری میں یزید حکمران بنا، اس نے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی جانب بیعت سے انکار کرنے والوں سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر جرار بھیجا چونکہ اہالیان مکہ اور مدینہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر چکے تھے اس لئے انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ نتیجتاً فریقین کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ شب و روز لشکر والوں نے منجیق سے پتھر پھینکے جس کی وجہ سے کعبہ کی بعض دیواریں گر گئیں اور اس کی چھت و غلاف جل گئے۔
(علامه قطب الدين، اعلام العلماء، 69)
ادھر سے یزید کی موت کی خبر آنے پر لشکر واپس ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام کعبہ کی تعمیر نئے سرے سے کروائی چونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ذہن میں تھا اس لئے انہوں نے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں کو ہی پیش نظر رکھا یعنی حطیم کو کعبہ کی عمارت میں شامل کر دیا، دروازہ زمین پر رکھا اور مشرق و مغرب کی جانب دو دروازے بنا دیئے۔ حضرت یزید بن رومان سے منقول ہے کہ اس موقعہ پر وہ موجود تھا۔
فَأَدْخَلَ فِيْهِ مِنَ الْحَجَرِ، وَقَدْ رَاَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيْمَ حِجَارَةً کَأَسْنِمَةَ الْإِبِلِ.
(صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 165)
’’تو حطیم کو پھر شامل کر دیا گیا اور میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیاد کے پتھروں کو دیکھا وہ اونٹ کی کہان کی طرح تھے۔‘‘
اس عظیم الشان کام کی بحسن و خوبی تکمیل پر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ الوہیت میں اظہار تشکر کے لئے تنعیم سے چل کر لوگوں کی ایک بہت بڑی جمعیت کے ساتھ عمرہ ادا کیا اور اس سعادت عظیم کے حصول پر بارگاہ خداوندی میں سجدہ شکر بجا لائے۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی تعمیر کردہ عمارت تقریباً دس سال تک قائم رہی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے تو 74ھ میں حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کو کعبہ کی اس تعمیر کے بارے میں لکھا اور کہا اس تعمیر کو اہل مکہ پسند نہیں کرتے تو اس نے یہ آرڈر جاری کیا:
’’ابن زبیر نے جو لمبائی میں اضافہ کیا اسے قائم رکھا جائے اور جو حطیم والا حصہ شامل کیا ہے اسے خارج کر دیا جائے اور جو دوسرا غربی دروازہ بنایا اسے بھی بند کر دیا جائے، لہذا حجاج بن یوسف نے دوبارہ اسے قریش کی تعمیر کے مطابق ہی کر دیا۔‘‘
سنت ابراہیمی اور خواہش مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مطابقت تعمیر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بے بہرہ اور بے خبر تھا۔
ایک مرتبہ ایک وفد کے ساتھ حارث بن عبد اللہ خلیفہ کے پاس آئے دوران گفتگو خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کہا: میرا خیال ہے کہ تعمیر کعبہ کے بارے میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کوئی ایسی حدیث اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنی ہو گی جس کی روشنی میں سابقہ تعمیر کی گئی تھی۔ حارث بن عبد اللہ نے کہا ہاں ہاں ضرور سنی ہو گی یہ حدیث تو میں نے بھی اُم المومنین سے سنی ہے۔
خلیفہ نے سوال کیا تم نے کیا سنا تھا۔
انہوں نے کہا: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: عائشہ! تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کر دیا ہے اگر تیری قوم کا زمانہ شرک قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے تعمیر کر کے اس کی کمی کو پورا کر دیتا۔
عائشہ میرے ساتھ چل میں تجھے ابراہیم علیہ السلام کی اصل بنیادیں دکھاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حطیم میں سے سات ہاتھ اندر کا حصہ بیت اللہ میں شامل تھا اور اس جگہ ابراہیمی بنیادیں تھیں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کے دو دروازے ایک مشرق میں اندر جانے کے لئے اور ایک مغرب میں باہر جانے کے لئے بنا دوں۔
عائشہ تمہیں معلوم ہے تیری قوم نے اتنا اونچا دروازہ کیوں رکھا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ و رسولہ اعلم، آپ نے ارشاد فرمایا: محض اپنی بڑائی، تکبر اور نخوت کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا ہے تاکہ وہ جسے چاہیں کعبہ شریف میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں اس سعادت سے محروم رکھیں۔
جس آدمی کے اندر داخل ہونے پر وہ خوش نہ ہوں اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیتے اور جس کا داخلہ ان کی خواہش کے مطابق ہوتا اس کی دستگیری کرتے۔
خلیفہ نے کہا: حارث کیا تم نے یہ حدیث خود سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنی تھی؟ حارث نے اثبات میں جواب دیا تو خلیفہ عبد الملک بن مروان کچھ دیر اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے سوچتا رہا اور کہا کاش! میں بیت اللہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا اس کے گرانے اور تبدیل کرنے کا فرمان جاری نہ کرتا۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب نقض الکعبة وبنآءِ ها، 2: 972، رقم: 1333)
اس تعمیر کے 966 سال بعد سیلاب سے کعبہ شریف منہدم ہوا تو 1040ھ میں سلطان مراد خان عثمانی نے اسے تعمیر کیا اس کے بعد علامہ طاہر کردی لکھتے ہیں:
’’(سلطان مراد کی تعمیر کردہ) یہی عمارت ہمارے زمانے تک قائم چلی آ رہی ہے۔‘‘
(محمد طاهر الکردی المکی، تاريخ القويم، 3: 301)
اس کے بعد کعبہ کی تعمیر نہیں ہوئی البتہ اس میں اصلاحات اور مرمت کا کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔
جواب: حج 9 ہجری میں فرض ہوا۔ یہ اسلام کا ایک اہم رکن ہےاس کا فرض ہونا قطعی اور یقینی ہے۔ جو اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہو جاتا ہے اور استطاعت کے باوجود اس کی ادائیگی میں تاخیر کرے وہ گناہگار ہے اور اس کو ترک کرنے والا فاسق اور عذاب جہنم کا سزاوار ہے۔
جواب: حج ارکانِ اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو ہر عاقل و بالغ، صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ قرآن و حدیث میں حج کی فرضیت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلاً.
(آل عمران، 3: 97)
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے حج کرنا لازم قرار دے دیا ہے جو صاحب استطاعت ہیں اور مالی حیثیت و استطاعت کے ساتھ ساتھ بیت اللہ پہنچنے کی توفیق اور طاقت رکھتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کس چیز سے حج فرض ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سامانِ سفر اور سواری سے۔
(ترمذی، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء فی إيجاب الحج بالزاد والرحلة، 3: 177، رقم: 813)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:
اے لوگو! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے پس حج کرو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ تین مرتبہ اس نے یہی عرض کیااس کے بعد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہرسال) فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کی طاقت نہ رکھتے پھر فرمایا: میری اتنی ہی بات پر اکتفا کیا کرو جس پر میں تمہیں چھوڑوں، اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہی ہلاک ہوئے تھے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی شے کا حکم دوں تو بقدرِ استطاعت عمل کیا کرو اور جب کسی شے سے منع کروں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، 2: 975، رقم: 1337)
جواب: صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص حج نہ کرے تو ایسے شخص کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت وعید فرمائی ہے
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو فریضہ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب الحج، باب ماجاء فی التغليظ فی ترک الحج، 3: 176)
جواب: احادیث مبارکہ میں حج ادا کرنے کے بے شمار فضائل بیان کے گئے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل دعاء الحجاج، 3: 411، رقم: 2892)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ.
(بخاری، الصحيح، ابواب العمرة، باب وجوب العمرة وفضلها، 2: 629، رقم: 1683)
’’حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا پس وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر) اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘
(بخاری، الصحيح، ابواب الإحصار والجزا الصيد، باب قول اللہ تعالیٰ فلا رفث، 2: 645، رقم: 1723)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جو میں پوچھنے آیا ہوں آپ مجھے بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے حاجی کے متعلق پوچھنے آئے ہو کہ جب وہ گھر سے روانہ ہوتا ہے تو اسے کتنا ثواب ملتا ہے اور جب وہ میدان عرفات میں قیام کرتا ہے تو اسے کتنا ثواب ملتا ہے اور جب وہ جمرات کو کنکریاں مارتا ہے تو اسے کتنا ثواب ملتا ہے؟ اور جب وہ سر منڈاتا ہے تو اسے کتنا ثواب ملتا ہے؟ اور بیت اللہ کا آخری طواف کرتا ہے تو اسے کتنا ثواب ملتا ہے؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو دین حق دے کر بھیجا ہے جو میرے دل میں تھا آپ اس سے ذرا بھی آگے پیچھے نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب حاجی اپنے گھر سے چلتا ہے تو اس کی سواری کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اسے ایک نیکی ملتی ہے اور اس کا ایک گناہ ختم ہوتا ہے جب وہ میدان عرفات میں قیام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے میرے بندوں کو دیکھو وہ شکستہ حال اور غبار آلود ہیں، گواہ ہو جاؤ کہ میں نے ان کے (تمام) گناہ بخش دیئے خواہ وہ بارش کے قطروں اور ٹیلے کے ذروں کے برابر بھی ہوں اور جب وہ جمرات کو کنکریاں مارتا ہے تو اسے اندازہ نہیں کہ اسے کتنا ثواب ملتا ہے (اس کے ثواب کا صحیح علم) مرنے کے بعد قیامت کے دن ہی ہو گا اور جب وہ بیت اللہ کا آخری طواف کر لیتا ہے تو اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ پیدائش کے دن تھا۔
جواب: سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے گھر کا حج فرشتوں نے ادا کیا، حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل فرشتوں نے بیت اللہ شریف تعمیر کیازمین پر رہنے والے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طواف اور حج کرنے کا حکم دیا تھا۔
(ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، 5: 263)
اَوَّلُ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ الْمَلاَئِکَةُ.
’’سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف فرشتوں نے کیا۔‘‘
(الاحاديث المختارة، 10: 281، رقم: 293)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام طواف سے فارغ ہوئے تو فرشتوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو حج کی مبارک باد دیتے ہوئے عرض کیا:
قَدْ حَجَجْنَا هَذَا الْبَيْتَ قَبْلَکَ بِاَلْفَي عَامٍ.
’’ہم نے آپ سے دو ہزار سال پہلے اس کا حج کیا۔‘‘
فرمایا تم دوران طواف کیا پڑھتے ہو عرض کیا ہم یہ کلمات پڑھتے ہیں:
سُبْحَانَ اللہ وَ الْحَمْدُ لِله وَلَا اِلَهَ اِلاَّ الله وَالله اَکْبَرَ.
(ابن جوزی، العلل المتناهية، 2: 80)
’’اللہ کی ذات پاک ہے، تمام ثناء و تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ سب سے بزرگ و برتر ہے۔‘‘
شیخ ازرقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امین علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئے تو وہ غبار آلود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ غبار کیسا ہے؟ عرض کیا میں بیت اللہ کی زیارت کرکے آ رہا ہوں۔
فَازْ دَحَمْتِ الْمَلَائِکَةُ عَلَی الرُّکْنِ فَهَذَا الْغُبَارُ الَّذِی تَرَی مِمَا تَثِيْرُ بِاَجْنِحَتِهَا.
(ازرقی، اخبار مکه، 1: 35)
’’حجرِ اسود کے پاس فرشتوں کا ازدحام (ہجوم) تھا یہ وہ غبار ہے جو ان کے پروں کی وجہ سے اڑا۔‘‘
اور انسانوں میں سب سے پہلے حج کرنے والے سیدنا آدم علیہ السلام ہیں، ابن خزيمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام نے تمام حج پیدل فرمائے، ان کے حج کی تعداد تین سو اور عمروں کی سات سو ہے۔ پہلے حج کے موقعہ پر عرفات میں جبریل امین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے آدم آپ کا حج مقبول ہو، ہم نے آپ کی ولادت سے پچاس ہزار سال پہلے اس گھر کا طواف کیا ہے۔
(صحيح ابن خزيمة، 2798)
جواب: ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک حج 10ھ میں ادا فرمایا اسی کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے جبکہ ہجرت سے پہلے حج کرنے کے بارے میں درج ذیل آرا ہیں:
1۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے دو حج ادا فرمائے۔
(ترمذی، السنن، کتاب الحج، باب ماجاء کم حج النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 3: 178-179، رقم: 815)
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے تین حج ادا فرمائے۔ یاد رہے یہ وفودِ انصار کی ملاقات کے حوالے سے ہے یہی وجہ ہے کہ امام قسطلانی نے اس قول کے بعد کہا:
وَهَذَا لَا يَقْتَضِي نَفْيَ الْحَجِّ قَبْلَ ذَلِکَ.
’’یہ بات اس سے پہلے ادائیگی حج کے منافی نہیں۔‘‘
امام زرقانی رقمطراز ہیں:
فَهَذَا بَعْدَ النُّبُوَّةِ وَقَبْلَهَا لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا الله.
(شرح زرقانی، 11: 328)
’’یہ تو اعلانِ نبوت کے بعد کی بات ہے۔ رہا معاملہ بعثت سے پہلے کا تو اسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔‘‘
3۔ امام حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سفیان ثوری سے نقل کیا ہے:
حَجَّ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم قَبْلَ اَنْ يُهَاجِرَ حججاً.
(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 57)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے متعدد حج ادا فرمائے۔
4۔ امام ابن جوزی کا قول ہے:
حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ حِجَجًا لَا يُعْلَمُ عَدَدُهَا.
(مرقاة المفاتيح، 5: 263)
’’ہجرت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حج ادا فرمائے ان کی تعداد معلوم نہیں۔‘‘
5۔ حافظ ابن اثیر فرماتے ہیں:
يَحُجُّ کُلَّ سَنَةٍ قَبْلَ اَنْ يُهَاجِرَ.
(ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 5: 263)
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہر سال حج ادا فرمایا۔‘‘
جواب: حج اور عمرہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اس بابرکت سفر سے پہلے درج ذیل آداب و ہدایات کو بطورِ خاص اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کریں:
1۔ سب سے پہلے نیت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیں کہ اس سفر سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا حاصل کرنا ہے۔ علاوہ ازیں ناموری، شہرت، سیر و تفریح یا تجارت وغیرہ کا ہرگز ہرگز دل میں خیال نہ لائے جیسا کہ احرام باندھنے کے بعد کی مسنون دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی:
اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا حَجَّةً غيرَ رِيَآءٍ وَلَا مَنًّا ولا سُمْعَةً.
1. البدايه والنهايه، 5: 103
2. الترغيب والترهيب، کتاب الحج الترغيب فی الحج والعمرة، 2:116، رقم: 1731
’’یا اللہ میں ایسا حج کر رہا / رہی ہوں جس میں نہ ریا ہے نہ احسان اور نہ کسی شہرت کی طلب مقصود ہے۔‘‘
2۔ نماز کی پابندی کریں، نماز میں پڑھی جانے والی آیات قرآنی، اذکار اور دعاؤں کو صحیح تلفظ سے یاد کریں، باجماعت نماز اور نماز جمعہ کے مسائل سیکھیں۔
3۔ عازمین میں سے کسی کے ذمہ اگر کوئی قرض یاامانت واجب الادا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے قرض یا امانتیں انہیں واپس لوٹائے اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ واجب الاداء ہیں تو وہ بھی معاف کرائے یا ادا کرے۔ کاروباری معاملات جن کے سپرد کرنے ہیں ان کو روانگی سے قبل یہ ذمہ داری سونپ دے، اگر سرکاری یا نجی ادارے میں ملازم ہے تو بروقت حج کی چھٹی کے لئے درخواست دے۔ علاوہ ازیں جو گھر میں پیچھے رہ جانے والے ہیں ماں باپ، بیوی، بچے، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب رقم بھی چھوڑ کر جائےان تمام چیزوں سے فارغ/سبکدوش ہو کر سفر حج و عمرہ کے لئے روانہ ہو۔
4۔ سفر حج پر روانگی سے کم از کم دو ماہ قبل اپنا میڈیکل چیک اپ کروائیں اور یہ چیک اپ کسی ایسے ڈاکٹر سے کروائیں جو حج کے معاملات سے مکمل آگاہی رکھتا ہو۔ اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اس میں لاپرواہی نہ کریں بیماریوں کے عمومی مسائل مثلاً ہائی بلڈ پریشر، شوگر، امراض قلب کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔
5۔ حج پر جاتے وقت اپنی شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی ادویہ کے ساتھ ساتھ حسب ذیل ادویہ بھی ضرور رکھ لیں لیکن یہ ادویہ اپنے ڈاکٹر سے مشورے کے بعد رکھیں۔ ان میں چکر، متلی، قے، سر درد، الرجی، پیٹ درد، نزلہ زکام اور کھانسی کی گولیاں شامل ہونی چاہئیں۔ یاد رکھئے! سفر حج پر آپ کوئی شربت یا کیسپول نہیں لے جا سکتے صرف گولیاں لے جا سکتے ہیں۔ لہذا تمام ادویات بازار سے خرید کر مع نسخہ حاجی کیمپ میں موجود ڈاکٹر سے تصدیق کروا کر پیک کروا لیں۔
6۔ اچھی طرح جان لیں کہ سفرِ حج روحانی طور پر بڑا پر کیف سفر ہے۔ لیکن جسمانی طور پر مشقت طلب بھی ہے لہٰذا ابھی سے زیادہ سے زیادہ چلنے اور خود کو مشقت کا عادی بنائیں۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حاجی کو اس کی مشقت کے مطابق ثواب ملتا ہے۔
7۔ اپنے حلال اور طیب مال سے رقم یا زادِ راہ ساتھ لے کر چلیں بصورت دیگر حج مقبول ہونے کی اُمید نہیں اگرچہ فرض ادا ہو جائے گا۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اے لوگو! ایک شخص دور دراز کا سفر کر کے آیا، گرد و غبار سے اٹا ہوا اور یا رب یا رب پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور وہ حرام میں پلا بڑھا ہے۔ بخدا ایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطيب وتربيتها، 2: 703، رقم: 1015)
8۔ اپنی ضروریات کے مطابق سفر کا سامان اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ سفر میں تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عازمین حج اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ تیس کلو گرام تک وزن لے جا سکتے ہیں۔ واپسی پر تحائف کی خریداری کی وجہ سے وزن زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے کوشش کریں کہ جاتے وقت سامان کم ہو سامان جتنا کم ہو گا واپسی پر اتنی ہی آسانی ہوگی۔ اپنے بیگ پر نام، پتہ، گھر کا فون نمبر، گروپ نمبر، معلم کا نام یا مکتب نمبر لکھیں جو حاجی کیمپ سے آپ کو جاری ہو گاسفر شروع کرنے سے پہلے تمام سامان کی پڑتال ایک دفعہ پھر کر لیں اور ضروری کاغذات چیک کر لیں۔
9۔ سفر حج و عمرہ کی جملہ دستاویزات رکھنے کے لئے اچھی کوالٹی کا بیگ لیں جس میں پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ٹکٹ، ہیلتھ سر ٹیفکیٹ، بینک کی رسید، بینک ڈرافٹ اور حمائل شریف آسانی سے آ سکیںدوران سفر بیگ کو ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھیں اور اس کی حفاظت کریں۔
10۔ سفر حج و عمرہ کی صحیح تاریخ اور وقت معلوم کریں اور ہر کام مقررہ وقت پر کریں، بے جا تفکرات سے بچیں، ہر وقت مطمئن و خوش رہیں۔
جواب: دوران حج حجاج کرام کو کم از کم درج ذیل عربی الفاظ کا جاننا ضروری ہے:
اردو | عربی | اردو | عربی |
اخبار | جَرِيْدَةٌ | انگور | عِنَبٌ |
اچار | مُخَلَّلٌ | انار | رُمَّانٌ |
اخروٹ | جَوْزٌ | ازار بند | مِئْزَرٌ |
استری | مِکْویٰ، مِکْوَاةٌ | انجیر | تِيْنٌ |
ابلا ہوا انڈا | مَسْلُوْقَةٌ | ادرک | زَنْجَبِيْلٌ |
امرود | کُمَّثْریٰ | استرہ | مُوْسٰی، مِحْلَقٌ |
انڈا / انڈے | بَيْضَةٌ / بَيْضٌ | اسٹیشن | مَحَطَّةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
آلو بخارہ | اِجَّاصٌ | آنکھ دکھنا | رَمِدَتِ الْعَيْنُ |
آلو | بَطَاطَةٌ | آڑو | خَوْخٌ |
آواز | صَوْتٌ | آٹا (پسا ہوا) | طَحِيْنٌ، دَقِيْقٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
بلند (اونچا) | شَامِخَةٌ | بکسوا (سیفٹی پن) | بُکْلَسٌ |
برف | ثَلْجٌ | بادام | لَوْزٌ |
بوٹ کے تسمے | حِبَاکٌ | بیوی | زَوْجَةٌ |
باریک | دِقِيْقٌ | برش | فُرْشَةٌ |
باورچی خانہ | مَطْبَخٌ | بوڑھی عورت | عَجُوْزٌ |
باپ | اَبٌ | بھائی | اَخٌ |
بہن | اُخْتٌ | بہت ہی کڑوا | مُرٌّ، مُمْقَرٌ |
بیٹا | اِبْنٌ | بیٹی | اِبْنَةٌ، بِنْتٌ |
بہت ترش | حَامِضٌ بَاسِلٌ | بہت ہی میٹھا | حُلُوٌّ، حَامِتٌ |
بسکٹ | بَسْکُوِيْت | بارش | مَطَرْ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
پانی | مَاءٌ | پنکھا | مِرْوَحَةٌ |
پیٹ | جَوْفٌ / بَطْنٌ | پاسپورٹ | جَوَازُ السَّفَر |
پولیس اسٹیشن | شُرْطَۃ | پولیس مین | شُرْطِیٌّ |
پتھر | حَجَرٌ | پولیس | ضِبْطِيَّةٌ وَشُرْطِیٌّ |
پانڈی (مزدوری) | حَمَّالٌ | پھلکا (روٹی) | رَغِيْفٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
تولیہ | مِنْشَفَةٌ | توا | طَابشقٌ |
تکیہ | مِخَدَّةٌ | ترکھجور | رُطَبٌ |
ترازو | مِيْزَانٌ | تایا | عَمٌّ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
ٹکٹ | تَذْکِرَةٌ | ٹھوڑی | ذَقَنٌ |
ٹونٹی | حَنَفِيَّۃ | ٹماٹر | طَمَاطَمٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
جائے نماز (مصلیٰ) | سَجَّادَةٌ | جوتا | حِذَاءٌ |
جنرل پوسٹ آفس | بُوْسَطَةٌ عَمُوْمِيَّةٌ | جھاڑو | مِکْنَسَةٌ |
جیب | جَيْبٌ | جراب | جَوْرَبٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
چھتری | مِظَلَّةٌ، شَمْسِيَّةٌ | چشمہ | عَيْنٌ |
چائے | شاءٌ | چٹنی | طُرَشِیٌّ ولَعُوْقٌ |
چادر | رِدَاءٌ | چولہا | کَانُوْنٌ |
چابی | مِفْتَاحٌ | چائے کی پیالی | فِنْجَانٌ |
چاول | اَرُزٌّ | چائے دانی | بَرَّادَةٌ |
چھری، چاقو | سِکِّيْنٌ | چمچہ | مِلْعَقَةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
حجام | حَلَّاقٌ | حمام | حَمَّامٌ |
حقہ | نَار جِيْلَةٌ | حلوہ | حَلْوٰی، خَيْصٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
خارش | جَرْبٌ | خالص میٹھا | عَذْبٌ نُقَاحٌ |
خربوزہ | بِطِّيْخٌ | خشک کھجور | تَمَرٌ |
خوبانی | مِشْمِشٌ | خالہ | خَالَةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
دوکان | دُکَّانٌ | دکھ، درد | اَلَمْ وَجْعٌ |
درزی | خَيَّاطٌ | دیا سلائی | کِبْرِيْت عُلْبَۃُ نَار |
دھاگہ | خَيْطٌ | دودھ والا | لَبَّانٌ |
دھاگے کی نلکی | بُکْرَۃُ الخَيْطَان | دھاگے کا گچھا | کُوْفِيَّۃ |
دودھ | حَلِيْبٌ | دندان ساز | طَبِيْبُ الْاَسْنَانِ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
ڈاک خانہ | بَرِيْدٌ | ڈبل روٹی | عَيْشٌ اِفْرَنْجِیٌ |
ڈسپنسری | صَيْدَلِيَّةٌ | ڈاڑھ | ضِرْسٌ / اَضْرَاسٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
راستہ | طَرِيْقٌ سِکَّةٌ | روٹی | خُبْزٌ |
روغن زیتون | زَيْتُ زَيْتُوْن | رومال | مِنْدِيْلٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
زخم | جُرْحٌ | زمین | اَرْضٌ |
زکام | رَشْحٌ | زردہ | اَرُزٌّ / مُزَعْفَرٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
سیب | تُفَّاحٌ | سڑک | دُرَبٌ، سِکَّةٌ، شَارِعٌ |
سنگترہ | بُرْتَقَالٌ، اُتْرُجٌ | سگریٹ | سِجَارٌ / سِيْکَارَةٌ |
سوئی | اِبْرَةٌ | سکنجبین | سَکَنْجَبِيْنٌ |
سر درد | وَجْعُ الرَّاس | سونا | ذَهَبٌ |
سبزی فروش | خَضْرِیٌّ | سلیپر (جوتا) | مَدَاسَةٌ |
سفید (رنگ) | اَبْيَضُ | سبز (رنگ) | اَخْضَرُ |
سوٹ کیس | شَنْطَۃ | سردی | بُرُوْدَةٌ |
سانس | نَفَسٌ | سلائی مشین | اٰلَةُ خَيَاطَۃ مَکْنَةٌ |
سر چکرانا | صُدَاع | کرسی | کُرْسِیٌّ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
شہد | عَسَلٌ | شلوار / پاجامہ | سِرْوالٌ |
شہر | بَلَدٌ / مِصْرٌ / مَدینَةٌ | شوربا | مَرَقٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
صندوق، بکس | صَنْدُوْقٌ | صابن | صَابُوْنٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
عینک | نَظَّارَةٌ | عارضی طور پر | مُوَقَّتًا |
اردو | عربی | اردو | عربی |
غم | حُزْنٌ | غسل خانہ | مُغْتَسَلٌ، حَمَّامٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
فسٹ کلاس | اَلدَّرَجَةُ الْاُولٰی | فالج | شَلَلٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
قلی | حَمَّالٌ | قمیض | قَمِيْصٌ |
قبض | اِمْسَاکٌ | قینچی | مِقْرَاضٌ |
قے | قَيْئٌ | قلم تراش | مِبْرَدَةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
کالر | کُوْلِيْرَا، بَاقَةٌ | کمزوری | ضُعْفٌ، نَحَافَةٌ |
کپڑا بیچنے والا | قَمَّاشٌ، بَزَّازٌ | کھانسی | سُعَالٌ |
کنگھی | مُشْط | کوا | زَاغ / غُرَابٌ |
کیلا | مَوْزٌ | کدو | قَرْع، يَقْطِيْن |
کیک (میٹھی روٹی) | خَطيْرَةٌ / کَعْکٌ | کل (گزرا ہوا) | اَمْسِ |
کل (آئندہ) | غَدًا | کاغذ | وَرَقْ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
گیہوں (گندم) | حِنْطَةٌ، قُمْعٌ | گرمی (موسم) | صَيْفٌ حَرٌّ |
گرم | حَارٌّ | گوبھی | قَرْنَبيْطٌ |
گوشت | لَحْمٌ | گفتگو | کَلَامٌ |
گھی | سَمَنٌ | گائے | بَقَرَةٌ |
گاجر | جَزْرٌ | گلاس | کُوْزٌ، کُبَّابَةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
لیموں | لَيْمُوْنٌ | لیٹرین | مُسْتَرَاح (حمام) |
لوٹا | اِبْرِيْقٌ | لہسن | فُوْمٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
مرغی | دجَاجَةٌ | مور | طَاؤسٌ |
مشکیزہ | قِرْبَةٌ | مرغ | دِيْکٌ |
مٹھائی | حَلَاوَةٌ | مونگا (پتھر) | مَرْجَانٌ |
مٹی | تُرَابٌ | مکھن | زُبْدَةٌ |
مرچ | فلْفِلٌ | مولی | فِجْلٌ |
مچھلی | سَمَکٌ | موٹر کار | سَيَّارَةٌ |
منفی | زَبيْبٌ | معدہ | مِعْدَةٌ |
منہ | فَمٌ | میٹھا | حُلْوٌ |
منٹ | دَقِيْقَةٌ | مارکیٹ | سُوْقٌ |
مصالحہ (گرم) | تَوَابِل | مچھر دانی | نَامُوْسِيَّةٌ |
ماشکی | سَقَاءٌ | موچی | اِسْکَاف |
میوہ فروش | فَاکِہانِی | میدان | سَہْلٌ |
نمکین پلاؤ | اُرُزٌّ مُفَلْفَلٌ | ناخن | ظُفْرٌ |
نمک | مِلْحٌ | ناف | سُرَّةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
ہیضہ | ہيْضَۃ / کُوْلِيْرَا | ہاتھ | يَدٌ |
ہفتہ | يَوْمُ السَّبْتِ | ہوا | رِيْحٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
یخنی | يَخْنَةٌ / يَخْنِيْ | ہوائی جہاز | طَيَّارةٌ |
اردو | عربی | اردو | عربی |
ایک | وَاحِدٌ | دو | اِثْنَانِ |
تین | ثَلٰثَةٌ | چار | اَرْبَعَةٌ |
پانچ | خَمْسَةٌ | چھ | سِتَّةٌ |
سات | سَبْعَةٌ | آٹھ | ثَمَانِيَةٌ |
نو | تِسْعَةٌ | دس | عَشْرَةٌ |
گیارہ | اَحَدَ عَشَرَ | بارہ | اِثْنَا عَشَرَ |
تیرہ | ثَلٰثَةَ عَشَرَ | چودہ | اَرْبَعَةَ عَشَرَ |
پندرہ | خَمْسَةَ عَشَرَ | سولہ | سِتَّةَ عَشَرَ |
سترہ | سَبْعَةَ عَشَرَ | اٹھارہ | ثَمَانِيَۃ عَشَرَ |
انیس | تِسْعَةَ عَشَرَ | بیس | عِشْرُوْنَ |
تیس | ثَلَثُوْنَ | چالیس | اَرْبَعُوْنَ |
پچاس | خَمْسُوْنَ | ساٹھ | سِتُّوْنَ |
ستر | سَبْعُوْنَ | اسی | ثَمَانُوْنَ |
نوے | تِسْعُوْنَ | سو | مِائَةُ |
دو سو | مِئْتَانِ | تین سو | ثَلٰثُ مِائَةٍ |
چار سو | اَرْبَعُ مِائَةٍ | پانچ سو | خَمْسُ مِائَةٍ |
پانچ ہزار | خَمْسَةُ اٰلاَفٍ | چھ ہزار | سِتَّةُ اٰلاَفٍ |
سات ہزار | سَبْعَةُ اٰلاَفٍ | آٹھ ہزار | ثَمَانِيَةُ اٰلاَفٍ |
نو ہزار | تِسْعَةُ اٰلاَفٍ | دس ہزار | عَشْرَةُ اٰلاَفٍ |
ایک لاکھ | مِائَةِ اٰلاَفٍ | دس لاکھ | اَلْفَ اٰلاَفٍ |
جواب: حجاج کرام کے لئے حرمین شریفین میں درج ذیل چند ابتدائی تعارفی جملوں کا جاننا ضروری ہے:
اردو | عربی |
السلام علیکم | اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ |
وعلیکم السلام | وَعَلَيْکُمُ السَّلَامُ |
َآپ کیسے ہیں؟ | کَيْفَ الاَحْوَال؟ کَيْفَ حَالُکَ؟ |
میں ٹھیک ہوں | اَلْحَمْدُِاللہ، اَنَا بِخَيْر |
آپ کون ہیں؟ | مَنْ اَنْتَ؟ |
میں پاکستانی ہوں | اَنَا بَاکِسْتَانِيٌّ |
آپ کا آنا مبارک ہو | اَہلًا وَسَہلًا وَّمَرْحبًا |
آپ کا کیا نام ہے؟ | مَا اسْمُکَ؟ |
میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔ہے | اِسْمِيْ |
کیا آپ اکیلے ہیں؟ | ہلْ اَنْتَ وَاحِدٌ؟ |
میں اکیلا آیا ہوں | جِئْتُ وَاحِدًا |
کیا آپ کے ساتھ کوئی دوست ہے؟ | ہلْ مَعَکَ رَفِيْقٌ؟ |
میرے ساتھ ایک دوست بھی ہے | مَعِی رَفِيْقٌ |
اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ | الآن مَاذَا تُرِيْدُ؟ |
میں راستہ بھول گیا ہوں | اِنِّي نَسِيْتُ الطَّرِيْقَ |
مجھے راستہ بتائیے | اِہْدِنِي الطَّرِيْقَ / دُلَّنِي عَلَی الطَّرِيْقِ |
آپ کہاں جا رہے ہیں؟ | اَيْنَ تَذْہبُ؟ |
میں مدینہ منورہ جا رہا ہوں | اَذْہبُ اِلَی الْمَدِيْنَةِ الْمُنَوَّرَةِ |
آپ کا معلم کون ہے؟ | مَنْ مُعَلِّمُکَ؟ |
معلم کا دفتر کدھر ہے؟ | اَيْنَ مَکْتَبُ الْمُعَلِّمِ؟ |
مجھے پیاس ہے | اَنَا عَطْشَانُ |
پانی لائیے | جِبْ مَاء |
مجھے بھوک ہے | اَنَا جَائِع |
کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ | ہلْ تَشْتَھِيْ شَيْئًا |
میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ | کَيْفَ اَنْصُرُکَ؟ |
ہوٹل کہاں ہے؟ | اَيْنَ مَطْعَمْ؟ |
آپ کے پاس کھانے کو کیا ہے؟ | مَاذَا عندَکَ لِلْطَّعَامِ؟ |
کیا ٹھنڈا پانی ہے؟ | ہلِ الْمَائُ الْبَارِدُ مَوْجُوْدٌ؟ |
مجھے چائے چاہیے | اَشْتَھِيْ الشَّاءَ |
سالن مزیدار ہے | اَلادَامُ لَذِيْذٌ |
آپ کی مہربانی | شُکْرًا لَّکَ |
اللہ آپ کو جزائے خیر دے | جَزَاکَ اللہ خَيْرًا |
آپ سے مل کر خوشی ہوئی | اَنَا مَسْرُورٌ بِلِقَائِکَ |
آپ مجھے کب ملیں گے؟ | مَتَی تُقَابِلُنِي؟ |
میں آپ سے کل ملوں گا | اُقَابِلُکَ غَدَاً |
خدا حافظ | فِی اَمَانِ اللہ |
اردو | عربی |
مجھے ایک ریال دیں | اَدِّنِي رِيَالًا |
یہ رجسٹرڈ ہے یا غیر رجسٹرڈ؟ | ہذَا مُسَجَّلٌ امْ غَيْرُ مُسَجَّلٍ؟ |
میں ٹیلی فون کرتا چاہتا ہوں | انِّی اُرِيْدُ الاتِّصَالَ بِالْہاتِفِ |
ٹیلی فون کہاں ہے؟ | اَيْنَ التِّلْفُون؟ |
ٹیلی فون بند نہ کریں | لاَ تَقْطَعِ التِّلْفُوْنَ |
تار گھر کہاں ہے؟ | اَيْنَ الْبَرْقِيَّۃ؟ |
تار کہاں سے دی جاتی ہے؟ | مِنْ اَيْنَ اَسْحَبُ الْبَرْقِيَّةَ؟ |
اردو | عربی |
بڑا بازار کدھر ہے؟ | اَيْنَ السُّوْقُ الکبير؟ |
جنرل سٹور کدھر ہے؟ | اَيْنَ الْبَقَّالَةُ؟ |
اس کی قیمت کیا ہے؟ | بِکَمْ ہذَا؟ |
اس کی قیمت بہت زیادہ ہے | ہذَا غَالٍ جِدًّا |
آخری قیمت کیا ہو گی؟ | مَا ہوَ الثَّمَنُ النِّہائِيُّ؟ |
اس کے علاوہ کوئی اور دکھاؤ؟ | اجْلِبْ شَيْئًا آخَرَ |
ان تینوں کو باندھ دو | لُفَّ ہذِہ الثَّلاَ ثَةَ |
کُل کیا بنا؟ | کَمْ جُمْلَةُ الْحِسَابِ؟ |
اردو | عربی |
ڈرائیور رکیئے! | قِفْ يَا سَائِقُ |
بیت الحرام تک کیا لو گے؟ | کَمْ تَاْخُذُ لِبَيْتِ الْحَرَامِ؟ |
ہم پانچ افراد ہیں | نَحْنُ خَمْسَةُ نَفَر |
آئیے، بیٹھ جائیں | تَعَالْ، اِجْلِسْ |
یہاں اتار دیں | ہہنَا نَزِّلْ |
ہمارا سامان اتار دو | نَزِّلْ سَلْعَتَنَا |
اس جگہ کا نام کیا ہے؟ | مَا اسْمُ ہذَا الْمَحَلِّ؟ |
آپ یہاں سے کب چلیں گے؟ | مَتَی تَمْشِي مِنْ هُنَا؟ |
میں کل روانہ ہوں گا | اَنَا اُسَافِرُ بُکْرَةً |
جواب: حج کے لئے ایک فرد کے حساب سے ساتھ لے جانے والے کم از کم سامان کی فہرست درج ذیل ہے:
اپنے سامان کے تمام نگوں پر حاجی کیمپ سے سٹیکر لے کر چپکا لیں اور اس پر اپنا پورا نام و مکمل پتہ، گروپ نمبر، مکتب نمبر اور پرواز نمبر لکھ لیں۔ سٹیکر کو چپکانے کے لئے گوند کی ضرورت نہیں، پیچھے لگا ہوا کاغذ اتار کر چپکا لیں لیکن اگر کینوس کا بیگ ہے تو اس پر سے سٹیکر اتر جائے گا ایسے بیگ پر مارکر سے اپنے کوائف سٹیکر کے مطابق لکھ لیں۔
جواب: حجاج کرام عام طور پر جن بیماریوں سے متاثر ہو سکتے ہیں ان میں نزلہ، زکام، کھانسی، فلو، لو لگنا، ہیضہ، دست، پیٹ کا درد، قبض اور خارش شامل ہیں۔ ان تمام بیماریوں کے علاج کے لئے مفت سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ بہت سی احتیاطی تدابیر سے ان بیماریوں سے بچا بھی جا سکتا ہے:
جواب: دورانِ حج چونکہ عام دنوں کے برعکس زیادہ چلنا پڑتا ہے اس لئے اگر کسی ذیابیطس کے مریض کا شوگر لیول کم ہو جائے تو اس کی علامات درج ذیل ہوں گی:
دل کی دھڑکن تیز ہو جائے گی، بھوک زیادہ لگے گی، پسینہ آئے گا، چکر آئیں گے جس کی وجہ سے اچانک سر درد، زبان یا ہونٹوں میں سوئیاں چبھنے کا احساس ہو گا، دھندلا دکھائی دینے لگے گا، توجہ مرکوز کرنے میں کمی ہو گی اور جھنجھلاہٹ محسوس ہو گی۔ اگر اس مرحلے پر توجہ نہ دی گئی تو ذیابیطس کے مریض کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی، غصہ بڑھ جائے گا اور اگر یہاں بھی تدارک نہ کیا گیا تو اگلے مرحلے میں بےہوشی طاری ہو سکتی ہے جو تشویشناک صورتحال ہے۔ اگر ہائپو کی ابتدائی علامات شروع ہوں تو فوراً کوئی پھل لے لیں۔ شوگر چیک کریں اگر پھر بھی کم ہو تو روٹی کھا لیں یا مزید ایک پھل اور لے لیں لیکن شوگر 70 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہو تو ایک گلاس پانی میں دو چمچے چینی یا جوس کا ایک کپ لے لیں۔ اس کے علاوہ حج پر روانگی سے قبل اپنی جیب میں ذیابیطس کا مخصوص شناختی کارڈ ضرور رکھیں۔ اس پر تحریر ہوتا ہے: ’’میں ذیابیطس کا مریض ہوں اگر آپ مجھے غنودگی یا بے ہوشی کی حالت میں دیکھیں تو فوراً کوئی میٹھی شے چٹا کر قریبی طبی امدادی مرکز پر پہنچا دیں۔‘‘ اس کارڈ پر آپ کا پورا نام، معلم کا نام، معلم کا فون نمبر اور حج کے دوران رہائشی پتہ اور فون نمبر بھی تحریر ہوتا ہے اگر یہ لکھا ہوا نہ ہو تو آپ ازخود تحریر کر لیں۔
جواب: احرام باندھ کر حج کی نیت اس طرح کی جائے:
اللّٰهُمَّ اِنِیّ اُرِیْدُ الحَجَّ فَیَسِّرْهُ لِی وَتَقَبَّلَهُ مِنِّیْ.
’’اے اللہ میں نے حج کا ارادہ کیا ہے اسے میرے لئے آسان فرما دے اور میری طرف سے قبول فرما لے۔‘‘
حج قران کی نیت کرتے وقت لَبَّیْکَ بِالْعُمْرَةَ وَالْحَجَّ اور تمتع میں لَبَّیْکَ بِالْعُمْرَةَ اور اِفراد میں لَبَّیْکَ بِالْحَجَّ کہیں۔ نیت کرنے کے بعد ایک بار تلبیہ کہنا فرض ہے اور تین بار کہنا سنت یا مستحب ہے۔ تلبیہ اونچی آواز سے کہیں لیکن چیخ چیخ کر نہ کہیں۔
جواب: حج کی تین اقسام ہیں:
حجِ اِفراد، حجِ قِران اور حجِ تمتّع
جواب: حجِ افراد اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ عازمِ حج اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کر سکتا ہے۔ احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازمِ حج کو مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔
جواب: حج اور عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر دونوں کے ارکان کو ادا کرنے کا نام قران ہے۔ عازم حج مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں اسے حج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران احرام میلا یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل تو ہو سکتا ہے مگر جملہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔
جواب: وہ طریقہ حج جس میں حج اور عمرہ کو الگ الگ ادا کیا جاتا ہے اور اس صورت میں مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد عازمِ حج احرام کی حالت سے باہر آ سکتا ہے۔ اس طرح اس پر آٹھ ذوالحجہ یعنی حج کے ارادے سے احرام باندھنے تک احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے حج کے لئے دوسرا احرام باندھنا پڑتا ہے۔
جواب: حج کے فرائض درج ذیل ہیں:
جواب: حج کے واجبات یہ ہیں:
جواب: حج کی سنن یہ ہیں:
جواب: حج کے فرض ہونے کی آٹھ شرائط ہیں۔ جب تک وہ سب نہ پائی جائیں حج کی ادائیگی لازم نہیں۔
جواب: وجوبِ ادا کی شرائط اگر کسی میں پائی جائیں تو اس کا حج کو جانا ضروری ہے اور اگر یہ سب شرطیں نہ پائی جائیں تو حج کو جانا ضروری نہیں بلکہ جس پر حج فرض ہے وہ کسی دوسرے سے حج ادا کروا سکتا ہے یا وصیت کر جائے بشرطیکہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو (یعنی خود استطاعت نہ رکھے) ورنہ خود بھی حج کرنا ضروری ہو گا، شرائط حسب ذیل ہیں:
جواب: صحت ادا کی نو شرائط ہیں اگر یہ نہ پائی جائیں تو حج صحیح نہیں ہو گا:
جواب: احرام باندھنے سے قبل جسم کی ظاہری صفائی کا خاص طور پر اہتمام کرنا یعنی احرام سے قبل ناخن تراشنا، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرنا اور اس کے بعد غسل کرنا شامل ہے۔ سر اور جسم پر خوشبو لگانی چاہیے اور مرد سلا ہوا کپڑا اتار کر بغیر سلی ہوئی ایک چادر کا تہہ بند باندھیں اور ایک چادر کندھوں سے اوڑھ لیں۔ عام طور پر ان دو چادروں کو ہی احرام کہتے ہیں جو حاجی احرام کی حالت میں استعمال کرتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ دو چادریں بذات خود احرام نہیں ہیں بلکہ احرام کی چادریں ہیں اگر کسی وجہ سے ایک یا دو چادریں جو احرام کے لئے باندھی ہیں ناپاک ہو جائیں تو یہ کپڑے بدلے جا سکتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان چادروں کو ایک دفعہ باندھ لینے کے بعد انہیں کھول نہیں سکتے یہ سراسر غلط ہے۔ ان چادروں کو اتار دینے سے یا بدل دینے سے آدمی احرام سے نہیں نکلتا۔ عمرہ یا حج کے احرام سے اسی وقت نکلیں گے یا دوسرے لفظوں میں اسی وقت حلال ہوں گے جب عمرہ یا حج کے تمام ارکان ادا کر کے حجامت بنوا لیں۔
جواب: احرام باندھنے کے لئے موسم کی مناسبت سے سفید رنگ کا کاٹن یا تولیہ (Towel) کا کپڑا استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔
جواب: احرام کے درج ذیل فرائض ہیں:
جواب: احرام کے دو واجبات ہیں:
جواب: احرام کی سنن درج ذیل ہیں:
جواب: حالتِ احرام میں عازمین حج و عمرہ پر بعض ایسی چیزیں ممنوع ہوجاتی ہیں جو عام حالات میں جائز ہوتی ہیں:
جواب: طواف کرنے کی فضیلت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا:
مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَیْتِ اُسْبُوْعَا فَاَحْصَاهُ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَةِ.
’’جس نے اس گھر (کعبۃ اللہ) کے سات پھیرے کئے اور اس کے پورے پورے حقوق ادا کئے تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ہے۔‘‘
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 664
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے بیت اللہ شریف کا سات پھیروں کا طواف کیا اور اس میں سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُ ِاللہ، وَلَا إِلٰـهَ إِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہ. کے سوا کوئی کلام نہ کیا تو اس کے دس گناہ مٹائے جائیں گے اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گے اور اس کے دس درجے بلند ہوں گے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل الطواف، 3: 444، رقم: 2957
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے پچاس طواف کئے وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوگیا جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الحج، باب ماجاء فی فضل الطواف، 3: 219، رقم: 866
جواب: طواف کے درج ذیل فرائض ہیں:
جواب: طواف کے واجبات درج ذیل ہیں:
یاد رہے واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر مندرجہ بالا واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ گیا تو طواف کا اعادہ واجب ہوگا اور اگر اعادہ نہ کیا تو اس کا کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ کفارہ یہ ہے کہ ایک بکری کو ذبح کیا جائے۔
جواب: طواف کی سنن درج ذیل ہیں:
جواب: حالتِ طواف میں درج ذیل امور مکروہ ہیں:
جواب: حجرِ اسود کی فضیلت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا:
’’حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے خوبصورت پتھروں میں سے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے نور کو ختم نہ کرتا تو مشرق سے لے کر مغرب تک روشنی پھیلا دیتے۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الحج، باب ما جاء فی فضل الحجر الأسود والرکن و المقام، 3: 226، رقم: 878
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر کوئی مصیبت زدہ بیمار ان کو (حجر اسود اور مقام ابراہیم) ہاتھ لگائے تو وہ شفا یاب ہو جاتا ہے۔‘‘
بیهقی، السنن الکبری، ابواب دخول المکة، باب ما ورد فی الحجر الاسود و المقام، 5: 75، رقم: 9011
حجر اسود پر ان گنت فرشتے (آمین) کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرِ اسود کے متعلق فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے دو آنکھیں اور زبان عطا فرمائے گا جن سے یہ دیکھے گا اور بولے گا اور ہر شخص کے متعلق گواہی دے گا جس نے اسے برحق سمجھ کر اس کا استلام یعنی بوسہ دیا۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الحج عن رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم باب ماجاء فی الحجر أسود، 3: 294، رقم: 941
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جب بھی رکن یمانی کے پاس سے گزرا تو میں نے جبرئیل کو وہاں کھڑے پایا۔
دوسری روایت میں ہے کہ جب بھی یہاں سے گزرا جبرئیل امین کو اس حال میں کھڑے دیکھا کہ وہ سلام کرنے والے کے لئے بخشش کی دعا کر رہے ہیں۔
فاکهی، اخبار مکه، 1: 328
جواب: آب زمزم کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اللہ اور بیٹے حضرت اسماعیل ں کو ویران وادی میں چھوڑ کر چلے گئے۔ حضرت اسماعیل ں ابھی شیرخوار ننھے سے بچے تھے۔ انہیں شدت کی پیاس محسوس ہوئی تو ماں کی مامتا بے قرار ہو گئی اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام اپنے لخت جگر کو زمین پر لٹا کر دونوں پہاڑوں صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑنے لگیں کہ شاید کہیں پانی کا چشمہ مل جائے۔ اسی اضطراب و پریشانی کی کیفیت میں انہوں نے کئی چکر لگائے۔ اس خیال سے بچے کو اپنی نگاہ سے اوجھل بھی نہیں رکھنا چاہتی تھیں کہ کہیں کوئی بھیڑیا وغیرہ اٹھا کر نہ لے جائے۔
اس داستان خوش انجام کا اختتام اس طرح ہوا کہ کمسن اور نونہال حضرت اسماعیل ں نے شدت پیاس سے زمین پر ایڑیاں رگڑنا شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے پتھریلی زمین کے نیچے سے پانی کا چشمہ جاری کر دیا۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے لئے یہ لمحہ باعث مسرت تھا۔ آپ بہتے پانی کے اردگرد بند باندھتے ہوئے بے اختیار فرما رہی تھیں: مَاء زَمْ زَمْ (پانی رُک جا، رُک جا)۔ اسی لئے اس چشمے کو آبِ زمزم کہا جاتا ہے جو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد آج بھی جاری ہے اور ایک جہاں اس سے سیراب ہو رہا ہے یہ چشمہ زمزم کے نام سے زبانِ زد خاص و عام ہے۔
جواب: حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ روئے زمین پر سب سے بہتر پانی آبِ زمزم ہے، یہ خوراک بھی ہے اور بیماری کا علاج بھی۔‘‘
بیهقی، شعب الإیمان، فضل الحج والعمرة، 3: 482، رقم: 4130
آب زمزم ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آبِ زمزم جس مقصد کے لئے بھی پیا جائے (اسے پورا کرتا ہے) اگر شفا حاصل کرنے کے لئے پیو گے تو تمہیں شفا مل جائے گی، اگر سیر ہونے کے لئے پیو گے تو سیر ہو جاؤ گے، اگر پیاس بجھانے کے لئے پیو گے تو پیاس بجھ جائے گی، اگر کسی چیز سے پناہ کے حصول کے لئے پیو گے تو اللہ تعالیٰ پناہ دے گا۔
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 646، رقم: 1679
جواب: آبِ زمزم پینے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے باوضو اور کھڑے ہو کر تین سانس میں پیا جائے اور آبِ زمزم پیتے وقت یہ دعا کرنی چاہئے:
اَللَّهُمَّ أَسْئَالُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا وَاسِعًا، وَشِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ.
’’اے اللہ! میں تجھ سے مفید علم، فراخ رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا طلبگار ہوں۔‘‘
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 646، رقم: 1679
جواب: سعی کی نیت ان الفاظ میں کی جائے:
اَللَّهُمَّ إِنِّی اُرِیْدُ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فَیَسِّرْهُ لِیْ وَتَقَّبِّلْهٗ مِنِّی.
’’اے اللہ! میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کا ارادہ کرتا ہوں پس تو اسے میرے لئے آسان فرما اور اسے مجھ سے قبول فرما۔‘‘
جواب: سعی کی شرائط درج ذیل ہیں:
جواب: سعی کے واجبات یہ ہیں:
جواب: سعی کی سنن یہ ہیں:
جواب: سعی کے دوران درج ذیل امور مکروہ ہیں:
جواب: عرفات کا لغوی معنی پہچاننے کا ہے اور وقوفِ عرفات اس یادگار واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب حضرت آدم ں اور حضرت حوا علیہا السلام جنت سے نکالے گئے اور طویل عرصے کی جدائی کے بعد میدان عرفات میں ان کی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو مقبول بندوں کے اس ملاپ کی یاد تاابد زندہ و جاوید رکھنے کے لئے ہر سال 9 ذوالحجہ کو حج کے لئے آنے والے نفوس کی اس میدان میں حاضری کو مناسکِ حج کی بنیاد قرار دے دیا۔
جواب: وقوف عرفات کی صحت کی شرائط یہ ہیں:
جواب: عرفہ کے دن وقوف کے واجبات یہ ہیں:
جواب: مکروہاتِ وقوف درج ذیل ہیں:
جواب: رمی کے چار دن ہیں: پہلا دن یعنی 10 ذوالحجہ کو فقط ایک جمرہ عقبہ پر رمی کرنا ہو گی، دوسرا دن 11 ذوالحجہ کو جمرہ اولی، جمرہ وسطی، جمرہ عقبہ تینوں پر رمی کرنا ہو گی، تیسرے دن یعنی 12 ذوالحجہ کو بھی انہی تینوں جمرات پر رمی ہو گی، چوتھے روز یعنی 13 ذوالحجہ کو بھی تینوں جمرات پر رمی ہو گی بشرطیکہ اس روز منیٰ میں قیام ہو۔
جواب: یوم النحر یعنی 10 ذوالحجۃ کو صرف بڑے شیطان کو کنکریوں سے مارنا ہے اور یہ چاشت کے وقت افضل ہے اور باقی 2 یا 3 دن زوال کے بعد سنت ہے، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
رَمٰی رَسُولُ اللہ صلی الله علیه وآله وسلم الْجَمَرَةَ (الْعُقْبهَ) یَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی وَأَمَّا بَعْدُ، فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحر جمرۃ عقبہ (بڑا شیطان) کو چاشت کے وقت کنکریاں ماریں اور اس کے بعد تینوں شیطانوں یعنی دوسرے اور تیسرے دن زوال کے بعد کنکریاں ماریں۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب بیان وقت استحباب الرمی، 2: 945، رقم: 1299
جواب: حج بدل یعنی نائب بن کر دوسرے کی طرف سے حج فرض ادا کرنا کہ اس پر سے فرض ساقط ہو جائے اسے حج بدل کہتے ہیں۔ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک والک وسلم! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج واجب ہوچکا ہے اور وہ اپنے اونٹ کی پشت پر بیٹھ نہیں سکتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی طرف سے حج کر لو۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب الحج عن العاجز لزمانهٖ وهرم ونحوهما، 2: 974، رقم: 1335
حجِ بدل کی شرائط درج ذیل ہیں:
اگر کسی کو کوئی ایسی معذوری لاحق ہو جو بالعموم مرتے دم تک رہے مثلًا نابینا ہونا۔ یا ایسا عاجز شخص جسے مرتے دم تک حج کے قابل ہونے کی امید نہ رہے، اور وہ کسی کو اپنا نائب بنا دے کہ وہ اس کی طرف سے حج ادا کرے اور وہ نائب حج ادا کرلے تو فریضہ حج اس معذور کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔ اگرچہ بعد میں وہ معذوری دور ہو جائے اور وہ حج کے قابل ہو جائے۔ لیکن ایسا مریض جسے شفا پانے کی امید ہو یا وہ شخص جو قید میں ہو، اگر کسی کو اپنا نائب بنائے اور وہ نائب اس کی جانب سے حج ادا کرے اور بعد میں اس کی معذوری دور ہو جائے یعنی شفا یاب ہو جائے یا قید سے رہائی مل جائے تو فریضہ حج اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔
حج کرانے والے کی طرف سے حج کی نیت کرنا ہے لہٰذا اسے یوں کہنا چاہئے کہ فلاں شخص کی طرف سے احرام حج باندھتا اور تلبیہ کرتا ہوں۔ یہ نیت دل میں کر لینا بھی کافی ہے اگر نائب نے حج کی نیت اپنی طرف سے کی تو نائب بنانے والے کی طرف سے حج ادا نہ ہوگا۔
جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کے حکم کے بغیر حج نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر کسی کے وارثوں میں سے کسی نے یا کسی غیر شخص نے از خود نیکی کے خیال سے اس کی جانب سے حج کیا تو انشاء اللہ یہ حج اس کی طرف سے قبول ہو جائے گا۔
حج کرنے کی کوئی اجرت مقرر نہ کی جائے۔ حج کرانے والے پر اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حج کے اخراجات کے لئے جو رقم دی گئی ہے اگر اس میں سے کچھ رقم بچ گئی تو حج بدل کرنے والے کو چاہئے کہ باقی رقم حج کرانے والے کو واپس دے دے۔ البتہ ثواب کے خیال سے حج کرانے والا یا وارث وہ رقم چھوڑ سکتا ہے۔
حج بدل کرانے اور حج بدل کرنے والا دونوں کا مسلمان اور عاقل ہونا لازم ہے، لہٰذا کافر کا کسی کی طرف سے حج کرنا صحیح نہ ہوگا اور نہ دیوانے کا حج صحیح ہے۔ اگر حج واجب ہونے کے بعد اس کو جنون کا مرض لاحق ہوا تو اسے کسی کو حج کے لئے روانہ کرنا درست ہوگا۔
حج بدل کرنے والا صاحب شعور ہو، لہٰذا کسی لڑکے کا جو سن شعور کو نہ پہنچا ہو حج بدل کرنا درست نہیں ہے کم عقل والا انسان یا قریب البلوغ شخص حج بدل کر سکتا ہے اسی طرح عورت اور غلام بھی حج بدل کر سکتے ہیں اسی طرح وہ بھی حج بدل کر سکتا ہے جس نے اپنا حج ادا نہ کیا ہو۔ تاہم یہ مکروہ ہے۔
حج بدل کے لئے احرام ایک ہی باندھا جائے گا۔ اگر ایک احرام حج بدل کا اور دوسرا احرام اپنے حج کا باندھا تو اس طرح دونوں میں سے کسی کا حج نہ ہوگا۔ بجز اس کے کہ دوسرے احرام کو ختم کر دے اسی طرح اگر دو اشخاص نے کسی ایک کو اپنے اپنے حج کا نائب بنایا اور اس نے دونوں کا احرام باندھا (اور حج کیا) تو وہ حج درست نہ ہوگا اور وہ دونوں کے اخراجات کی واپسی کا ذمہ دار ہوگا۔
مندرجہ بالا تمام شرائط حج بدل اس صورت میں ہیں جبکہ کسی پر حج فرض ہو۔
جواب: حج و عمرہ میں درج ذیل امور کے لحاظ سے فرق ہے:
جواب: عمرہ کرنے کی فضیلت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے اور حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
بخاری، الصحیح، ابواب العمرة، باب وجوب العمرة وفضلها، 2: 629، رقم: 1683
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخشش دیتا ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل دعا الحاجّ، 3: 411، رقم: 2892
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’رمضان میں عمرہ کرنا حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب العمرة فی رمضان، 3: 462، رقم: 2995
جواب: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد کل چار عمرے ادا فرمائے۔ تین کی ادائیگی ماہ ذوالقعدہ میں فرمائی ماسوائے ایک عمرہ کے جو حج کے ساتھ ادا فرمایا اس کی ادائیگی ذوالحجہ کے مہینے میں فرمائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے ادا فرمائے اور وہ تمام ماہ ذوالقعدہ میں تھے ماسوائے اس عمرہ کے جو حج کے ساتھ ادا فرمایا: ’’ایک عمرۂ حدیبیہ تھا جو (صلح) حدیبیہ کے زمانے میں ماہِ ذوالعقدہ میں کیا، دوسرا اس کے بعد والے سال ذوالعقدہ میں کیا، تیسرا عمرہ جعّرانہ جب آپ نے غزوہ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم فرمایا، یہ بھی ذوالعقدہ میں کیا اور چوتھا عمرہ آپ نے حج کے ساتھ کیا۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب عدد عمر النبی صلی الله علیه وآله وسلم، 2: 916، رقم: 1253
جواب: عمرہ کی نیت کرنے کے مسنون الفاظ یہ ہیں:
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اُرِیْدُ الْعُمْرَةَ فَیَسِّرْهَا لِی وَ تَقَبَّلْهَا مِنِّی وَاَعِنِّی عَلَیْهَا وَبَارِکْ لِیْ فِیْهَا نَوَیْتُ الْعُمْرَةَ وَاَحْرَمْتُ بِهَا ِاللہ تَعَالٰی.
’’اے اللہ! میں نے عمرہ کا ارادہ کیا، اس کو میرے لئے آسان کر دے اور اسے مجھ سے قبول کرلے اور اس کے (ادا کرنے میں) میری مدد فرما۔ میں نے عمرہ کی نیت کی اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے احرام باندھا۔‘‘
جواب: عمرہ کے دو فرائض ہیں:
اگر مندرجہ بالا دونوں امور چھوٹ جائیں تو عمرہ باطل ہو جاتا ہے۔
جواب: عمرہ کے واجبات دو ہیں:
اگر مندرجہ بالا دونوں واجبات چھوٹ جائیں تو ایک بکرا بطور دم کفارہ دینا لازم ہے۔
جواب: طوافِ قدوم، وقوفِ عرفات، وقوفِ مزدلفہ، جمع صلاتین، طوافِ زیارت اور طوافِ صدر عمرہ میں شامل نہیں۔
جواب: عمرہ میں سرانجام دیئے جانے والے اُمور درج ذیل ہیں:
احرام باندھنا:
غسل کر کے حل یا میقات سے احرام باندھے کیونکہ یہ عمرہ کی لازمی شرط ہے۔
طواف کی نیت کرنا:
حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر طواف کی نیت کریں
طواف کعبۃ اللہ:
خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائیں
ملتزم پر دعا کرنا:
خانہ کعبہ کی چوکھٹ اور حجر اسود والے کونے کے درمیان پانچ فٹ جگہ ہے اسے ملتزم کہتے ہیں یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز واجب الطواف ادا کرنا:
اگر بھیڑ ہو تو مسجد الحرام میں جہاں جگہ ملے ادا کر لیں
آب زم زم پینا:
حرم پاک میں جگہ جگہ آب زمزم کے کولر رکھے ہوئے ہیں ان میں سے آب زمزم کھڑے ہو کر تین سانسوں میں خوب سیر ہو کر پئیں
سعی صفا و مروہ کرنا:
صفا، مروہ دو پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگائیں
حلق یا قصر کروانا:
حلق سے مراد سر منڈانا اور قصر سے مراد پورے سر کے بال انگلی کی پور کے برابر کٹوانا اور خواتین صرف سر کے بال بقدر ایک پور کٹوائیں۔
جواب: حج اور عمرہ ادا کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
حج اور عمرہ کا ارادہ کرنے والے کو اختیار حاصل ہے کہ درج ذیل تین صورتوں میں سے جو حج کرنا چاہے اس کی نیت کر لے:
مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں تمتع نسبتاً آسان حج ہے تاہم اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے حج قران افضل ترین ہے لیکن اس صورت میں جبکہ ممنوعات احرام میں سے کسی امر ممنوع کے سرزد ہونے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ حج قران میں لمبے عرصہ تک حالت احرام میں رہنا ہوتا ہے اگر ایسی کسی بات کے سرزد ہونے کا اندیشہ ہو تو تمتع ہی سب سے افضل ہے کیونکہ اس میں انسان کے لئے اپنے نفس پر قابو رکھنا آسان ہے۔
حج تمتع کی ادائیگی کا ارادہ کرنے والا شخص جسم کی ظاہری صفائی کا بطور خاص اہتمام کرے یعنی احرام باندھنے سے قبل ناخن تراشے، غیر ضروری بالوں کو صاف کرے، غسل کرے، اس کے بعد خوشبو لگا کر صاف اور سفید احرام باندھے یعنی ایک چادر بطور تہبند باندھ لے اور دوسری چادر کندھوں پر اوڑھ لے اور سر ننگا رکھے۔ اسی طرح عورت سلے ہوئے پاک صاف کپڑے پہنے، پھر میقات پہنچ کر فرض یا نفل نماز ادا کرے اور یہ کہتے ہوئے عبادتِ حج کی نیت کرے:
اللّٰهُمَّ اِنِیّ اُرِیْدُ الحَجَّ فَیَسِّرْهُ لِی وَتَقَبَّلَهُ مِنِّیْ.
پھر کہے:
لَبَّیْکَ اللّٰهُمَّ! لَبَّیْکَ. لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ
لَبَّیْکَ.
اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْک لَا شَرِیْکَ لَکَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب التلبیۃ وصفھا وفیھا، 2: 841، رقم: 1184
اور اگر عمرہ کا ارادہ ہے تو حج کی بجائے عُمْرَةً کہے اور اگر دونوں کا ارادہ ہے تو ’’حَجًّا وَّ عُمْرَۃ‘‘ کہے۔
اور اونچی آواز کے ساتھ تین بار تلبیہ پڑھے، البتہ عورت بہت اونچی آواز میں نہ پڑھے بلکہ صرف اتنی آواز میں پڑھے کہ وہ خود سن لے۔
تلبیہ سے فارغ ہونے کے بعد دعا مانگے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں پر نظر نہ ڈالے اور تمام راستہ نیکی اور اچھے کام کرتا رہے تاکہ اس کا حج مبرور ہو جائے۔ بنا بریں محتاج لوگوں کے ساتھ احسان کرے، ساتھیوں کے ساتھ ہشاش بشاش رہے ان کے ساتھ باتیں نرم انداز سے کرے۔
جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ جائے تو بلند جگہ کی طرف سے داخل ہو۔ مسجد حرام میں باب بنی شیبہ (باب السلام) سے اندر داخل ہونے سے قبل تازہ وضو کریں پھر بڑے ہی والہانہ عشق و محبت، ذوق و شوق اور عجز و انکساری کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے سیدھا پاؤں اندر رکھے اور یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللہ وَبِالله وَإِلَی اللہ، اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِکَ.
’’اللہ کے نام سے اور اس کی مدد سے اسی کی طرف (آ رہا ہوں) اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘
جب بیت اللہ کی پہلی زیارت نصیب ہو تو نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہے اور اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر جو چاہے دعا مانگے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کعبہ کی زیارت کے وقت رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دعا قبول کی جاتی ہے۔
حضرت حذیفہ بن اسید سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بیت اللہ شریف کو دیکھا تو یہ دعا مانگی:
اَللَّهُمَّ زِدْ بَیْتَکَ هٰذَا تَشْرِیْفًا وَتَعْظِیْمًا وَتَکْرِیْمًا وَّبِرًّا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مَنْ شَرَّفَه. وَعَظَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّه وَاعْتَمَرَهُ تَعْظِیْمًا وَّ تَشْرِیفًا وَّ بِرًّا وَمَهَابَةً.
’’اے اللہ اپنے اس مقدس گھر کی عزت، تعظیم، تکریم، رحمت اور جلال میں اضافہ فرما اور ہر اس شخص کی تعظیم، تکریم، بزرگی، نیکی اور عزت میں اضافہ فرما جو اس کا حج یا عمرہ کرے۔‘‘
المواهب، 11: 378
طواف سے قبل مرد حضرات اضطباع کریں یعنی اپنا سیدھا بازو چادر سے باہر نکال لیں اب حجرِ اسود کے سامنے سے ذرا ہٹ کر رکن یمانی کی طرف اس طرح روبہ کعبہ کھڑے ہو کر حجرِ اسود دائیں طرف ہو یہاں کھڑے ہو کر طواف کی نیت کرے۔ نیت کے بعد حجر اسود کے مقابل ہو کر کانوں تک ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیاں حجرِ اسود کی طرف رہیں اور کہیں:
بسم اللہ وَالْحَمْدُ ِاللہ وَاللہ اکْبَرُ وَالصّلوٰة وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہ.
اب ہاتھ چھوڑ دیں اب حجر اسود کو بوسہ دیں یا استلام کریں اگر بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا ممکن نہ ہو تو اشارہ کر کے انہیں بوسہ دے لیں، اب کالی پٹی پر کھڑے کھڑے ہی اپنا رخ اس طرح تبدیل کریں کہ بیت اللہ آپ کے بائیں طرف ہو پھر رمل یعنی پہلوان کی طرح اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں سے ذرا تیز چلے، خواتین رمل نہ کریں یہ صرف مردوں کے لئے سنت ہے اور طواف کے دوران دعا کرے، ذکر و اذکار میں مشغول رہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے، اس طرح چلتے چلتے جب دوبارہ حجرِ اسود کے پاس پہنچے تو پہلے چکر کے خاتمہ پر یہ مسنون دعا پڑھے:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
البقرة، 2: 201
پھر اسی طرح دوسرا اور تیسرا چکر لگائے۔ چوتھے چکر میں رمل ترک کر دے اور (معمول کے مطابق) آہستہ آہستہ چلے اور باقی چار چکر پورے کرے، فارغ ہو کر ملتزم (بیت اللہ کے دروازہ) کے پاس آئے اور خشوع خضوع کے ساتھ روتے ہوئے دعا کرے پھر مقام ابراہیم کے قریب پہنچ کر دو رکعت واجب نماز ادا کرے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ کافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھے، اگر مقام ابراہیم کے پاس جگہ نہ ہو تو یہ نفل کسی جگہ بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے:
حضرت ام سلمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے یہ نوافل حرم سے باہر ادا کئے تھے۔
وَلَمْ تصل حَتّی خرجت.
’’انہوں نے مسجد سے باہر نوافل ادا کئے۔‘‘
اب نماز سے فارغ ہو کر مقام ملتزم پر جا کر دعا کریں یہ قبولیت کا مقام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں پر بڑی عاجزی سے دیوار سے لپٹ کر دعا مانگتے تھے۔
پھر آبِ زمزم کے چشمہ پر جائے اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے کھڑے بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں جتنا پانی پی سکے پیئے اور جو چاہے دعا کرے، درج ذیل دعا بھی مستحسن ہے:
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا وَّ شِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ.
’’اے اللہ! میں تجھ سے مفید علم، وسیع روزی اور ہر بیماری سے شفا مانگتا ہوں۔‘‘
پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دے یا ہاتھ لگائے اگر موقع نہ مل سکے تو سابق طریقوں سے استلام بجا لاتے ہوئے باب صفا سے مقام سعی کی طرف بڑھتے ہوئے کوہ صفا پر چڑھ جائے اور کعبہ شریف کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھائے دعا کرے۔
کوہ مروہ کی طرف چلنے کے ارادہ سے نیچے اترے، دوران سعی ذکر و دعا میں مشغول رہے جب وادی کے درمیان پہنچے جسے سبز ستون کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے وہاں سے دوسرے سبز ستون تک تیز تیز دوڑے۔ پھر آہستہ چلے اور ذکر و دعا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے میں مشغول رہے اور جب مروہ پر چڑھ جائے تو ایک چکر مکمل ہو گیا اور پھر نیچے اترے، آہستہ چلے درمیان میں آئے تو تیز دوڑے، پھر آہستہ چلے اور صفا پر چڑھ جائے تو دوسرا چکر مکمل ہو جائے گا۔ پھر مروہ کی طرف روانہ ہو جائے اور اسی طرح سات چکر پورے کرے، ہر چکر میں جب صفا یا مروہ پہنچے تو ہاتھ اٹھا کر قبلہ رخ ہو کر دعا کرے ساتویں پھیرے کے بعد اب سعی ختم ہوگئی آخر میں قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ ابتداء صفا سے ہو گی اور انتہا مروہ پر ہو گی اب عمرہ کے تمام افعال مکمل ہو گئے اب مسجد حرام سے باہر آئیں۔ مرد حضرات حلق یعنی سارے بال منڈوائے یا تقصیر یعنی بال کتروائے اور خواتین سر سے ایک انگلی کی پور کے برابر بال کاٹیں، اب الحمداللہ آپ کا عمرہ مکمل ہو گیا۔
اگر آپ کا ’’حج تمتع‘‘ ہے تو احرام کھول دیں اب جو کام احرام کی وجہ سے ناجائز ہوئے تھے سب جائز ہو گئے بعد ازاں 8 ذوالحجہ کو حرم ہی سے حج کا احرام باندھ لیں، اگر صرف حج افراد کا احرام ہے یا حج قران یعنی حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھے احرام ہے تو وقوف عرفات اور جمرۂ عقبہ‘‘ کو کنکریاں مارنے کے بعد دس ذو الحجہ کو احرام کھولیں۔
مفرد اور قارن اپنے احرام پر قائم رہتے ہوئے جبکہ متمتع احرام باندھ کر 8 ذوالحجہ کی مبارک اور سہانی صبح سے حج کا آغاز کریں۔ حج کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ کہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آہستہ آواز میں درود و سلام پیش کریں پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو۔ منیٰ میں دن رات رہے اور پانچ نمازیں مسجد خیف میں پڑھے یعنی ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور 9 ذوالحجہ کی نماز فجر ادا کرنے کے بعد ذکر و اذکار کریں اور سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے تلبیہ کہتا ہوا براستہ ضب وادی نمرہ کی طرف روانہ ہو اور زوال تک وہاں رہے، پھر غسل کرے، منیٰ سے ہی غسل کر لینا چاہئے وہاں معقول انتظام ہے، عرفات میں غسل کا کوئی انتظام نہیں اور مسجد نمرہ میں آئے اور امام کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد موقف کی طرف چلے اور عرفات کے میدان میں جہاں بھی چاہے ٹھہر جائے اور اگر جبل رحمت کے دامن میں چٹانوں کے پاس وقوف کرے تو بہتر ہے اس لئے کہ یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کا مقام ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَقَفْتُ هَهُنَا. وَعَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ.
’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے جبکہ پورا عرفات کا میدان جائے وقوف ہے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب ماجاء ان عرفة کلها موقف، 2: 893، رقم: 1218
آپ کو اختیار ہے کہ سوار ہو کر، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر جیسے ممکن ہو دعا کریں۔ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہوئے تکبیر و تہلیل، ذکر و دعا اور توبہ میں ڈوب جائیں کیونکہ یہ وقوف ہی حج کی جان اور اس کا بڑا رکن ہے۔
سورج غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو فوراً مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائیں مگر شام سے قبل میدان عرفات سے نہ نکلیں۔ مزدلفہ میں داخل ہونے کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز میں تاخیر نہ کریں بلکہ ہو سکے تو امام کے ساتھ نماز باجماعت ادا کریں۔ یہاں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ یکے بعد دیگرے دو جماعتیں ہوں گی پہلے نماز مغرب کی اور پھر عشاء کی اور رات وہیں گزارے، صبح صادق ہونے کے بعد نماز فجر ادا کرے اور مشعر حرام کی طرف چلے اور وہاں تکبیر، تہلیل اور دعا میں مشغول ہو جائے۔ تاہم مزدلفہ میں جہاں بھی چاہے وقوف کر سکتا ہے۔ وہاں تمام رات جاگنا چاہئے، رات بھر نماز، تلاوت، دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔
10 ویں ذوالحجہ کو طلوع شمس سے پہلے جبکہ سورج نکلنے میں دو رکعت پڑھنے کا وقت رہ جائے تو مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ منیٰ میں رمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھا لینی چاہئیں۔ کوشش کریں کہ تقریباً ستر (70) کنکریاں لوبیا کے دانے کے برابر تینوں دنوں کے لئے پاک جگہ سے اٹھا کر تین بار دھو کر اپنے پاس محفوظ کر لیں تاکہ وہاں پریشانی نہ ہو، مزدلفہ سے روانہ ہوتے وقت وادی محسر سے نہ گزریں یہ مزدلفہ سے خارج ہے اگر مجبوراً اس وادی سے گزرنا پڑ جائے تو دوڑ کر گزر جائیں کیونکہ اس وادی میں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔
منیٰ پہنچتے ہی جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے، آج کے دن صرف ایک جمرہ کو رمی کرنا ہوتا ہے۔ اب قربان گاہ کی طرف روانہ ہو اور جانور کی قربانی کرے۔
منیٰ میں جہاں چاہے قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نَحَرْتُ هٰهُنَا، وَمِنًی کُلُّهَا مَنْحَرٌ.
’’میں نے اس جگہ قربانی کی ہے جبکہ سارا منیٰ قربان گاہ ہے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب ماجاء ان عرفة کلها موقف، 2: 893، رقم: 1218
قربانی سے فارغ ہو کر بال منڈوائے یعنی حلق کروائے اور خواتین بھی قصر یعنی سر کے بال ایک انگلی کی پور کے برابر کتروائے۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذَا رَمَی أَحَدُکُمْ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَقَدْ حَلَّ لَهُ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَاءَ.
’’جب تم میں سے کوئی جمرۂ عقبہ کو کنکر مارے اور بال اتروالے تو اس کے لئے عورتوں کے سوا ہر چیز حلال ہوگئی ہے۔‘‘
أبو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب فی رمی الجمار، 3: 155، رقم: 1978
اب سر کو کپڑے سے ڈھانپ سکتا ہے اور سلا ہوا لباس بھی پہن سکتا ہے پھر طواف افاضہ یا زیارت کے لئے مکہ کی طرف جو کہ حج کے چار ارکان میں سے ایک رکن ہے باوضو ہو کر مسجد حرام میں داخل ہو اور طواف قدوم کی طرح کا طواف کرے، البتہ اس طواف میں اضطباع اور رمل نہ کرے، سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نفل پڑھے۔ اگر صرف حج کا احرام تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اور پہلے طواف قدوم کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر چکا ہے تو وہی کافی ہے اور اگر حج تمتع کیا ہے تو دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام سعی کی طرف بڑھے اور صفا و مروہ کے مابین اسی طرح سعی کرے، جیسا کہ پہلے مفصلًا بیان ہوا ہے۔ سعی سے فارغ ہونے کے بعد اس کا احرام پورے طور پر ختم ہے اور جو کام احرام کی وجہ سے اس کے لئے ناجائز ہوئے تھے اب سب جائز ہوگئے۔
پھر اسی دن منیٰ واپس آجائے اور رات وہیں گزارے۔ گیارہ، بارہ، تیرہ یہ تین راتیں منیٰ میں گزارنا سنت ہے (مزید برآں) ایام تشریق کے پہلے دن 11 ذوالحجہ سورج ڈھلنے کے بعد پہلے جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارے جو کہ مسجد خیف کے قریب ہے ہر کنکری الگ الگ مارے اور پھر درمیانی جمرہ کی طرف چلے، اس کو بھی اسی طرح سات کنکریاں مارے پھر جمرہ عقبہ جو کہ آخری ہے کی طرف بڑھے۔ اس کو بھی سات کنکریاں مارے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے، لیکن تیسری رمی کے بعد دعا کے لئے کھڑا نہ ہو۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس دعا نہیں کی تھی۔ دوسرے دن بھی زوال آفتاب کے بعد آئے اور تینوں جمرات کو اسی طرح کنکریاں مارے۔
اگر جلدی ہے تو غروب آفتاب سے پہلے مکہ چلا جائے اگر غروب تک وہاں رہا تو پھر دوسرے دن کنکریاں مارنا واجب ہے اور اگر جلدی نہیں ہے تو رات منیٰ میں رہے اور تیسرے دن زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارے اور پھر مکہ مکرمہ آئے اور جب گھر جانے کا ارادہ ہو تو آخری طواف یعنی طواف وداع کرے۔
مگر اس میں نہ رمل ہے نہ سعی اور اضطباع پھر دو رکعت مقام ابراہیم پر پڑھ کر آبِ زم زم پر آئیں اور قبلہ رو ہو کر خوب سیر ہو کر آب زمزم پئیں اور ہر سانس میں نظریں اٹھا کر اللہ کے پیارے گھر کو بھی تکتے رہیں۔ زمزم سے فارغ ہونے کے بعد مقام ملتزم پر آئیں۔ باب کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر بوسہ دیں اور پیکر عجز و انکسار بن کر دعا مانگیں:
’’ تیرے در کا سائل تجھ سے تیرے فضل اور مہربانیوں کا سوال کرتا ہے اور تیری رحمت کی امید کرتا ہے۔‘‘
بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجا لائیں جس نے آپ کو زندگی میں حج جیسی سعادت عظمیٰ سے نوازا ہے۔ جب طواف وداع، زمزم اور مقام ابراہیم سے فارغ ہو جائیں تو پھر حجر اسود کو بوسہ دے کر خانہ کعبہ کی جدائی پر زیادہ سے زیادہ حزن و ملال کی کیفیت اپنے دل میں پیدا کرے اور اگر اللہ نصیب فرما دے تو روتے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ملتزم اور مقام ابراہیم پر دعا اس انداز سے مانگے کہ معلوم نہیں آئندہ ان مقدس مقامات کی زیارت اور اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانے کی یہ سعادت مجھے میسر ہوگی یا نہیں۔ یا اللہ! یہ حاضری میری زندگی کی آخری حاضری نہ ہو جب تک میری جان میں جان ہے مجھے بار بار حاضری کی توفیق عطا فرما اور میرا خاتمہ ایمان پر فرما۔ پھر بیت اللہ شریف کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسجد سے باہر نکلیں واپسی کے وقت اپنے آنے کی اطلاع گھر والوںکو آنے سے قبل دیں گھر میں آکر دو رکعت نوافل پڑھیں پھر اعزا و اقارب، خدام اور دیگر متعلقین سے ملیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ جس نے آپ کو حج جیسی سعادت عظمی سے نوازا کیونکہ حج کی سعادت صرف دولت اور صحت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا حصول صرف اور صرف اللہ کی رحمت پر منحصر ہوتا ہے۔
لہٰذا حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد اب آپ کی زندگی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اس نئے دور کا نظام العمل اس پاکیزہ زندگی کی روشنی میں مرتب کیجئے جو آپ نے حرمین شریفین میں گزاری اور جس کی تعلیم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دی ہے۔ خصوصیت سے نماز پنجگانہ کی پابندی، حسن اخلاق اور رزق حلال کمانے کا اہتمام اور اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات میں وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ اس راہ میں استقامت سب سے اہم عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت، ہیبت اور محبت کے باعث گرفتگی اور وارفتگی کے جو لمحات آپ کو دوران حج نصیب ہوئے اُن سے اپنے قلب کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں جس کی برکت سے اِن شاء اللہ رفتہ رفتہ آپ کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے حسین قالب میں ڈھل جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہانوں میں فلاحِ کامل نصیب فرمائے (آمین)۔
جواب: حج کے پانچ دنوں تک سرانجام دیئے جانے والے اُمور درج ذیل ہیں:
8 ذوالحجہ
9 ذوالحجہ
10 ذوالحجہ
11 ذوالحجہ
12 ذوالحجہ
نوٹ: اگر کسی بیماری یا عارضہ کے سبب 12 ذوالحجہ کو نماز مغرب سے قبل منیٰ سے روانہ نہ ہو سکے تو 13 ذوالحجہ کو بقیہ 21 کنکریاں مار کر پھر روانہ ہوں۔
جواب: احادیثِ مبارکہ میں درج ذیل مقامات پر نماز پڑھنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مسجد اقصیٰ اور میری مسجد میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فیها، باب ماجاء فی الصلوٰة فی المسجد الجامع، 2: 191، رقم: 1413
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز پڑھوں پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے حطیم میں داخل کیا اور فرمایا: حطیم میں نماز پڑھو اگر تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتی ہو تو یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے لیکن تمہاری قوم نے کعبہ بناتے وقت اسے چھوڑ دیا اور اسے کعبہ سے باہر کر دیا۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الحج، باب ماجاء فی الصلوة فی الحجر، 3: 225، رقم: 876
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’جس شخص نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعت نماز ادا کی، گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل الطواف، 3: 444، رقم: 2956
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’میری اس مسجد (مسجدِ نبوی) میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجدِ حرام کے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدینة، 1: 398، رقم: 1133
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے مسجدِ نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں، اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘
احمد بن حنبل، مسند، 3: 155، رقم: 1260
وَعَنْ أُسَیْدِ بن ظهَیْر الأنصاري رضی الله عنه عنِ النبي صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: صَـلَاةٌ فِي مَسْجِدِ قُبَاء کَعُمْرَةٍ.
’’حضرت اسید بن ظہیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب اقامة الصلوة والسنة، فیها باب ماجاء في الصلاة فی مسجد قباء، 2: 189، رقم: 1411
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخری حصہ میں ذوالحلیفہ پہنچے آپ سے کہا گیا کہ آپ بطحاء مبارکہ (برکت والی جگہ) میں ہیں۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب التعریس بذی الحلیفه، والصلاة بها…، 2: 981، رقم: 1346
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی (پتھریلی) زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved