جواب : کعبہ یا بیت اللہ مقاماتِ حج میں سے سب سے عظیم مقام ہے۔ اسی کا حج اور طواف کیا جاتا ہے اور وہ مسجد جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ گھر واقع ہے، اسے مسجدِ حرام کہتے ہیں۔
جواب : کعبۃ اللہ کے چار رُکن درج ذیل ہیں :
جواب : یہ ایک جنتی پتھر ہے، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
نَزَل الْحَجرُ الْاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّة وَهوَ اَشَدُّ بَياضًا مِنَ اللَّبْنِ فَسَوَّدَتْه خَطَايا بَنِی آدَمُ.
(ترمذی، السنن، ابواب الحج، باب ماجاء فی فضل الحجر الاسود و الرکن و المقام، 2 : 216-215، رقم : 877)
’’حجر اسود جنت سے اترا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔‘‘
حجرِ اسود خانہ کعبہ کے طواف کے شروع اور ختم کرنے کے لئے ایک نشان کا کام دیتا ہے۔
جواب : مشرقی دیوار کا وہ ٹکڑا جو رکنِ اسود سے بابِ خانہ کعبہ تک ہے۔ ملتزم کہلاتا ہے۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم پر نماز و دعا سے فارغ ہو کر حاجی یہاں آ کر اس سے لپٹتے، اپنا سینہ و رخسار اس پر رکھتے ہوئے اور ہاتھ اونچے کر کے دیوار پر پھیلاتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔
جواب : سونے کا پرنالہ جو رکنِ عراقی اور رکنِ شامی کی درمیانی دیوار کی چھت پر نصب ہے۔ اسے خانہ کعبہ کا پرنالہ یعنی میزابِ رحمت کہا جاتا ہے۔
جواب : بیت اللہ شریف کی شمالی دیوار کی طرف زمین کا ایک حصہ، جس کے ارد گرد قوسی کمان کے انداز کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی ہے، اُسے حطیم کہتے ہیں۔ اس کے دونوں طرف آمد و رفت کا دروازہ ہے۔ اس حصہ زمین کو طواف میں شامل کرنا واجب ہے۔
جواب : رکنِ یمانی و شامی کے درمیان غربی دیوار کا وہ ٹکڑا جو ملتزم کے مقابل ہے، مستجار کہلاتا ہے۔
جواب : رکنِ یمانی اور رکن اَسود کے درمیان جنوبی دیوار ہے۔ یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں۔ اس لئے اس کا نام مستجاب رکھا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
وُکِّلَ بِه يعنی بِالرُّکْنِ الْيمَانِي سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ فَمَنْ قَالَ : اللَّهمَّ إِنِّی أَسأَلُکَ الْعَفْوَ (والعافية) فِی الدُّنْيا وَالآخِرَة، رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وَفِی الْآخِرَة حَسَنَة وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالُوْا : آمين.
(ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 110، رقم : 7332)
’’رکن یمانی پر ستر ہزار فرشتے تعینات ہیں، پس جو کوئی بھی وہاں یہ دعا پڑھتا ہے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ،‘‘ تو وہ آمین کہتے ہیں۔‘‘
جواب : مقام ابراہیم دروازہ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ مقدس پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی۔ آپ کے قدم مبارک کا اس پر نشان پڑ گیا جو اب تک موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيتَ مَثَابَة لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيمَ مُصَلًّی.
(البقرة، 2 : 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘
جواب : آب زمزم مکہ معظمہ کا وہ کنواں ہے جس کا پانی پینا ثواب اور بہت سی بیماریوں کے لئے باعث شفا ہے۔
جواب : باب الصّفا مسجد حرام کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔
جواب : باب السّلام مسجد حرام کا ایک دروازہ ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی دروازے سے مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے۔ اس کا نام اب ’’باب الفتح‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔
جواب : کعبۃ اللہ سے جنوب کی سمت ایک پہاڑی ہے، جہاں سے سعی شروع ہوتی ہے، اسے صفا کہتے ہیں۔ یہ پہاڑی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ گئی ہے اور اب وہاں قبلہ رخ ایک دالان (برآمدہ) سا بنا ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں۔
جواب : کعبہ کے قریب شمال مشرق کی سمت ایک پہاڑی ہے، جہاں سعی ختم ہوتی ہے، اسے مروہ کہتے ہیں۔ یہ بھی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ چکی ہے۔ یہاں بھی اب قبلہ رخ دالان اور سیڑھیاں ہیں۔ صفا سے مروہ کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ مسجد حرام کا احاطہ ہے۔
جواب : دو سبز ستون جو حرمین شریفین میں صفا و مروہ کے درمیان نصب ہیں، انہیں میلین اخضرین کہتے ہیں، ان کے درمیان صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے دوڑ کر گزرنا پسندیدہ ہے۔ نشانی کے طور پر وہاں سبز رنگ کی ٹیوب لائٹس شب و روز روشن رہتی ہیں۔
جواب : صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کی جگہ یعنی وہ فاصلہ جو ان دونوں نشانوں کے درمیان ہے مَسعیٰ کہلاتا ہے۔
جواب : تنعیم وہ مقام ہے، جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے احرام باندھا تھا۔ اسے مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد حرم پاک سے باہر ہے اور مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران عمرے کے لئے وہاں سے احرام باندھا جاتا ہے۔
جواب : یہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی طرف 10 کلومیٹر دور ایک مقام ہے، جو اہل مدینہ کا میقات ہے۔
جواب : یہ عراق سے آنے والوں کے لئے میقات ہے اور مکہ سے تقریبًا تین دن کی مسافت پر عراق کی طرف ہے۔
جواب : یہ اہل شام و اہل مصر کا میقات ہے اور مکہ مکرمہ سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
جواب : یہ نجد کی طرف سے آنے والوں کے لئے میقات ہے۔
جواب : میدانِ عرفات ایک بہت بڑا میدان ہے، جو منیٰ سے تقریبًا 11 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے۔ یہ اُس یادگار ملاقات کی علامت بھی ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیھا السلام کے درمیان جنت سے نکالے جانے اور طویل عرصہ کی جدائی کے بعد اس میدان میں ہوئی، جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اس پہچان کی وجہ سے اس کو میدانِ عرفات کہا جاتا ہے۔ اس میدان کی حدود چاروں طرف سے متعین ہیں اور اب حکومت سعودیہ نے ان حدود پر نشانات لگوا دیئے ہیں۔ تاکہ وقوف عرفات جو حج کا رکن اعظم ہے، اس سے باہر نہ ہو۔
جواب : عرفات میں وہ جگہ جہاں نماز کے بعد غروب آفتاب تک کھڑے ہو کر ذکر و دعا کرنے کا حکم ہے، مَوقِف کہلاتا ہے۔
جواب : یہ عرفات کے قریب ایک جنگل ہے۔ یہاں وقوف جائز نہیں۔ یہاں قیام یا وقوف کیا تو حج ادا نہ ہوگا۔ سعودی حکومت نے اس کی حدود پر نشانات لگوا دیئے ہیں تاکہ وقوف عرفات اس کے اندر نہ ہو۔
جواب : میدانِ عرفات کے بالکل کنارے پر ایک عظیم مسجد ہے، جسے مسجد نمرہ کہتے ہیں، اس کا کچھ حصہ عرفات کے اندر اور کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے۔ اس حصہ میں بڑے بڑے بورڈ لگا دیئے ہیں۔ تاکہ کوئی شخص مسجد کے اس حصے میں قیام نہ کرے۔ کیونکہ اس حصے میں قیام کرنا وقوف عرفات کے لئے کافی نہیں۔ حج کا خطبہ اسی مسجد میں دیا جاتا ہے۔ اسے مسجد ابراہیم بھی کہتے ہیں۔
جواب : جبلِ رحمت عرفات کا ایک پہاڑ ہے۔ یہ زمین سے تقریبًا تین سو فٹ اونچا اور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے، اسے موقفِ اعظم بھی کہتے ہیں۔ اسی کے قریب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوف فرمایا۔
جواب : عرفات اور منیٰ کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے، اسے مزدلفہ کہتے ہیں۔ عرفات سے تقریبًا تین میل دور ہے۔ یہاں سے منیٰ کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔
جواب : عرفات اور مزدلفہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے، جو ماذمین کہلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات سے مزدلفہ اسی راستے تشریف لائے تھے۔
جواب : مَشْعَرِ حرام اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعر حرام کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ.
(البقرة، 2 : 198)
’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو۔‘‘
مزدلفہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کی جگہ گنبد بنا دیا گیا تھا، آج کل یہاں ایک مسجد ہے، جسے مسجد مشعر حرام کہا جاتا ہے۔ مزدلفہ کا پہاڑ جبل قزح مشعر حرام ہے۔
جواب : مُحَسَّرْ وہ وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب الٰہی نازل ہوا تھا اور وہ مکہ مکرمہ کی طرف آگے نہ بڑھ سکے اور سب ہلاک ہو گئے، جس کا سورہِ فیل میں ذکر ہے۔
جواب : منیٰ ایک وسیع اور کشادہ میدان ہے، جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ مزدلفہ سے یہاں آ کر رمی جمار اور قربانی جیسے افعال ادا کئے جاتے ہیں۔
جواب : مسجد خیف منیٰ کی مشہور اور بڑی مسجد کا نام ہے۔ خیف وادی کو کہتے ہیں، اس پر ہشت پہلو قبہ ہے، اس قبہ کی جگہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت سے پیغمبروں نے نمازیں ادا فرمائی ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسجدِخیف میں ستر انبیاء علیہم السلام نے نماز ادا کی۔
(حاکم، المستدرک، 2 : 653، رقم : 4169)
جواب : مسجد کبش اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے لئے اپنے لخت جگر کو لٹایا تھا اور کبش یعنی دنبہ ذبح فرمایا تھا۔
جواب : جنت معلّٰی مکہ مکرمہ کا وہ تاریخی قبرستان ہے جہاں چھ ہزار جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں۔ یہ منیٰ کے راستہ میں مسجد الحرام سے تقریباً ایک میل دور شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ قبرستان مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے علاوہ دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے۔
قبرستان کو اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ درمیان میں سڑک ہے۔ پرانے حصے میں ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے۔ پہلے کبھی قبر مبارک پر گنبد تھا جو اب گرا دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ تابعین اور بہت سے اولیائے کاملین و صالحین یہاں آرام فرما ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا جناب عبد المطلب، چچا جناب ابوطالب، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادگان حضرت قاسم، حضرت طاہر اور حضرت طیب رضی اللہ علہیم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں۔
جواب : جنت البقیع مدینہ منورہ کا عظیم قبرستان ہے، جو مسجد نبوی کی مشرقی سمت میں ہے، باب جبریل سے نکل کر سڑک پر آئیں تو سامنے جنت البقیع کا احاطہ نظر آتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہاں دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آرام فرما ہیں اور تابعین، تبع تابعین اور اولیاء و علماء و صلحاء وغیرھم بھی بے شمار ہیں۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بقیع کے شمال مشرقی گوشہ کے قریب مدفون ہیں۔ یہیں پر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے۔ اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں صاحبزادیاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اسی مقامِ ادب پر محوِ استراحت ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہما، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھیوں کے مزارات بھی بقیع کے احاطہ میں ہیں۔ بقیع کی مشرقی دیوار سے باہر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کے مزارات ہیں۔
حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت اسد بن زرارۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں۔
شیخ القرآء امام نافع اور امام مالک رضی اللہ عنہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے مزار بھی احاطہ میں موجود ہیں جو جنگ احد میں زخمی ہوئے اور مدینہ منورہ میں آ کر وفات پا گئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر جنت البقیع تشریف لے جاتے اور اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے۔ مسجد نبوی اور روضہ اطہر کی حاضری کے بعد پہلی فرصت میں جنت البقیع کی زیارت کرنی چاہئے۔
جواب : منیٰ کے میدان میں پتھر کے تین بڑے ستون نصب ہیں، جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں جمار کہلاتے ہیں۔ ان میں سے منیٰ سے مکہ کی طرف جائیں تو پہلے کا نام جمرہ اولیٰ، دوسرے کا نام جمرہ وسطی اور تیسرے کا نام جمرہ عقبہ ہے۔
جواب : جبل النور وہ عزت و عظمت والا پہاڑ ہے جس پر غارِ حرا ہے۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی غارِ حرا میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ قرآنِ حکیم کی پہلی وحی بھی اسی غارِ حرا میں نازل ہوئی۔ گویا پہلی وحی کے نزول کی یہی جگہ ہے۔ اس پر چڑھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔
جواب : جبل ثور مکہ مکرمہ سے تقریبًا ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی پہاڑ ہے جس کی چوٹی کے قریب واقع ایک غار میں ہجرت کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق سفر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن قیام فرمایا۔ اس پہاڑ کی بلندی تقریبًا سوا دو کلومیٹر ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved