جواب : حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنا ہے۔ حج بیت اللہ کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی موجودہ جگہ شروع ہی سے بنی نوع انسان کا مر کز چلی آ رہی ہے، کیونکہ اس مقدس مقام کو آنے والی نسلوں کے لئے تہذیب و ثقافت اور علم و عرفان کا گہوارہ بننا تھا۔
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے کسی آدمی نے پوچھا : بیت اللہ کا طواف کب سے ہو رہا ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے بارے میں اطلاع دی تو انہوں نے عرض کیا : ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں اور آپ ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ فرشتوں کو اپنی عرض پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی، انہوں نے حالت زاری اور تضرع میں عرش الٰہی کا تین دفعہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے عرش کے نیچے بیت المعمور بنا کر فرمایا : تم اس کا طواف کیا کرو۔ ہر روز ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں اور ایک دفعہ طواف کرنے والے دوبارہ نہیں آتے۔ اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا :
أَبْنُوْا لِیْ بَيتًا فِی الْأَرْضِ بِمِثَالِه وَقَدْرِه.
’’اسی کی مثل و مقدار کے مطابق زمین پر میرا گھر بناؤ۔‘‘
جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کو حکم دیا :
أَنْ يطُوْفُوْا بِهذَا الْبَيتِ کَمَا يطُوْفَ أَهلَ السَّمَآءِ بِالْبَيتِ الُمَعْمُوْرِ
(ازرقی، اخبار مکة، 1 : 34)
’’تم اس گھر کا اسی طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔‘‘
پھر جب سیدنا آدم اور حضرت حوا علیہما السلام زمین پر آئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : مولا میں اس لذت و سرور سے محروم ہو گیا ہوں جو فرشتوں کے ساتھ بیت المعمور کے طواف میں آیا کرتا تھا۔ کاش! ہمیں پھر وہاں لوٹا دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا : اے آدم!
اِبْنِ لِي بَيتًا بِحِذَاءِ بَيتِی الَّذِی فِی السَّمَآءِ، تَتَعَبَّدُ فِيه اَنْتَ وَوَلَدُکَ کَمَا تَتَعَبَّدُ مَلائِکَتِی حَوْلَ عَرْشِیْ
(الصالحی، سبل الهدی والرشاد، 1 : 147)
’’تم اسی آسمانی گھر (بیت المعمور) کے مقابل زمین پر میرا گھر بناؤ اور اس میں تم اور تمہاری اولاد اسی طرح عبادت کرو جیسے ملائکہ میرے عرش کے ارد گرد کرتے ہیں۔‘‘
پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور آیا۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے حکم الٰہی کے مطابق قدیم بنیادوں پر ہی دوبارہ تعمیر کی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَo
(آل عمران، 3 : 96)
’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہےo‘‘
جب تعمیر مکمل ہوئی تو حکم ہوا کہ تمام جہاں والوں کو اللہ کے گھر میں آنے کی دعوت دیں۔ اس دعوت کا ذکر قرآن حکیم میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے :
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍo
(الحج، 22 : 27)
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیںo‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ دعوت کے نتیجہ میں حرم کعبہ کی تعمیر کے بعد پہلے حج کا آغاز ہوا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت جبریل امین علیہ السلام کی رہنمائی میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور قبیلہ جرہم کے جو لوگ وہاں موجود تھے ان سب کی معیت میں ارکان حج ادا کیے۔ سب سے پہلے آپ نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا۔ پھر صفا، مروہ کے درمیان سعی کی۔ بعد ازاں منیٰ تشریف لے گئے، وہاں تین جگہ شیطان نظر آیا تو آپ نے تکبیر کے ساتھ اسے سات، سات کنکریاں ماریں۔ آپ چلتے چلتے میدان عرفات پہنچ گئے، رات وہاں قیام کیا اور صبح وہاں سے منیٰ تشریف لے گئے اور جن تین مقامات پر شیطان دکھائی دیا تھا، وہاں رمی کی۔ منیٰ قیام کیا، پھر مناسک حج سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن ملک شام تشریف لے گئے۔
تاریخی تناظر میں حج کے پس منظر کا جائزہ لیں تو آج ہمیں حج کی وہ ارتقائی شکل نظر آتی ہے جو فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت و سربراہی میں ادا کیا گیا تھا۔ 9 ہجری کا حج دو طریقوں سے ادا کیا گیا۔ کفار و مشرکین جو اس موقع پر موجود تھے، انہوں نے قدیم آبائی طریقے سے حج کی رسوم ادا کیں، جبکہ مسلمانوں نے اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر مناسکِ حج ادا کیے۔ اس طرح سب سے پہلی مقدس عمارت جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے تعمیر کی گئی اور انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کا مرکز اولیں قرار پائی، قرآن حکیم کی نص قطعی کے مطابق کعبۃ اللہ ہے جس کی تعمیر اوّل حضرت آدم علیہ السلام نے کی۔ بعد ازاں جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے حکم الٰہی کے مطابق قدیم بنیادوں پر ہی اس کی دوبارہ تعمیر کی۔
زمین پر ورودِ آدم علیہ السلام کے بعد سرزمین مکہ کو بنی نوع انسان کی ہدایت کا نہ صرف پہلا مرکزہونے کا شرف حاصل ہوا۔ بلکہ اس مقام کو عالمگیر دعوت و تبلیغ اسلام کے مرکز اور نقطۂ آغاز کے طور پر منتخب کر لیا گیا اور جس دینِ حنیف کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ کعبہ میں رکھی، خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد اس کی تکمیل ہو گئی۔ گویا وہ بیج جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بِوَادٍ غَیرِ ذِیْ زَرعٍ (مکہ کی بے آب و گیاہ وادی) میں بویا تھا، صدیوں بعد نمو پا کر ایک شجر سایہ دار کی صورت سارے عالم پر سایہ فگن ہو گیا۔
جواب : سلسلہ حج کا باقاعدہ آغاز بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی تین ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد تک جاری رہا اور تا قیامت جاری رہے گا۔
جواب : حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بیت اللہ شریف کی پہلی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اکثر مناسک یعنی ارکان حج اور دیگر شرائط سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ہیں۔ پھر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض ترامیم کے ساتھ حج کا طریقہ کار مقرر فرما دیا۔
حج کے مناسک و ارکان اور فرائض و سنن کی بجا آوری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے درج ذیل اسباب ہیں :
پہلا سبب : موجودہ تاریخ جو کم و بیش ساڑھے چار ہزار سال پرانی ہے، کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دورِ نبوت سے ہوا۔ اس سے قبل کا دور واقعات کا محفوظ ریکارڈ نہ ہونے کی بنا پر قبل از تاریخ دور کہلاتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک کے اَدوار کے بارے میں ہماری معلومات کا ذریعہ کتب سماویہ اور صحائف الٰہیہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم یہ بات مدنظر رہے کہ قدیم واقعات کی معلومات کا ذریعہ مقدس آسمانی کتابیں۔ انجیل اور توریت ہیں۔ جو کہ اب تحریف و اضافہ کے باعث صحیح اور ثقہ نہیں رہیں۔ ان میں اتنے تضادات ہیں کہ کسی واقعہ کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں ان سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بنا بریں اب ہمارے پاس قدیم واقعات کی صحت جانچنے کا ماخذ و ذریعہ صرف قرآن حکیم اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ ہیں۔ چونکہ بعثتِ ابراہیمی علیہ السلام سے قبل ادوار کے واقعات مؤرخین اور تاریخ دانوں کی نظر سے اوجھل ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد کی تاریخ ہے۔ اس لیے یہ کہنا برحق ہے کہ موجودہ تاریخ عالم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت مسلمہ طور پر مرکزی و بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور اس سے پہلے کا دور تاریخی اعتبار سے پردۂ اخفا میں ہے۔
دوسرا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا دوسرا اہم سبب آپ کا جدالانبیاء ہونا ہے۔ تاریخ ادیان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام تھے جن سے حضرت یعقوب علیہ السلام متولد ہوئے۔ ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے، جن کا قصہ قرآن حکیم میں خاص طور پر مذکور ہے۔ ان سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام سلسلہ انبیاء کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا، جس کے معنی ہیں ’اللہ کا بندہ‘۔ اس بنا پر آپ کی نسل بنی اسرائیل کے نام سے موسوم ہوئی۔ بنی اسرائیل میں سے پے در پے بہت بڑی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، جن کی نسل سے خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا۔
تیسرا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا تیسرا بنیادی سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِ امجد ہونے کا شرف و اعزاز ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے فخریہ انداز سے ان کا ذکر ’اَبِي اِبْرَاہِیْم‘ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کو ابراہیمی دعاؤں اور بشارتوں کا حاصل قرار دیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی دعاؤں میں بارگاہِ ایزدی میں التجا کرتے نظر آتے ہیں کہ یا الٰہی! میری نسل میں ایسے افراد پیدا فرما جو تیری عبادت و اطاعت اور بندگی میں شب و روز محو و منہمک رہیں اور آخر میں اپنے ہونہار اور سعادت مند نوجوان بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد و تعاون سے کعبۃ اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے وقت یہ دعا ان کے لبوں پر مچل پڑی کہ یا الٰہی! میرے اس بیٹے کی پشت سے وہ نبی آخر الزماں مبعوث فرما جس کا وجودِ مسعود باعثِ تکوین کائنات ہو اور جس کے سر پر رحمۃ اللعالمینی کا تاج ابد الآباد تک رکھا جائے۔
چوتھا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا چوتھا بنیادی سبب یہ ہے کہ آپ کو منصب نبوت کی تکمیل کی خاطر پے در پے آزمائشوں اور امتحانوں سے گزارا گیا۔ یہ امر مسلّمہ ہے کہ منصب جس قدر عظیم ہوگا اتنی ہی بڑی آزمائش و ابتلا کے سلسلے سے اس شخصیت کو دوچار کیا جائے گا۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد ہونے کا بے نظیر و بے مثال شرف نصیب ہوا، انہیں پیغمبرانہ بصیرت اور اہلیت و قیادت ہونے کا جوہرِ بیمثال بھی عطا ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا مابہ الامتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے تن تنہا شرک و الحاد کی باطل قوتوں کو للکارا اور وہ اس بناء پر اس دو قومی نظریے کے پہلے نقیب ٹھہرے جو پانچ ہزار سال بعد تخلیق پاکستان کا بنیادی اور اساسی نقطہ قرار پایا۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آج سے چار ہزار سال قبل اپنی فقید المثال عزیمت اور مقصد کے عشق کی لگن سے باطل کے مقابلے میں حکومت الٰہیہ کی تشکیل کا علم اٹھایا اوروہ الحادی طاقتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بلا خوف و خطر کود پڑے۔ بقول اقبال :
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
یہی نظریہ پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ جدوجہد کی اساس بنا جس پر آگے چل کر قصرِ اسلام کی عظیم الشان تعمیر عمل میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے صحرا نشینوں نے عالم استعمار کے عزائم خاک میں ملا دیئے اور دنیا میں پہلی مرتبہ حکومت الٰہیہ قائم ہوئی۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو تمام نوع انسانی کیلئے مکمل نمونہ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(الاحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن حکیم نے صرف دو شخصیات کا ذکر کیا ہے جو اپنے سیرت و کردار کی بناء پر تمام بنی نوع انسان کیلئے کامل نمونہ ہیں۔ ان میں پہلی شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور دوسری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ یہ دونوں ہستیاں آفتابِ رشد و ہدایت ہیں۔ ان کے اسوہ حسنہ سے روشنی لینے کے لئے شرق تا غرب تمام عالم تا ابد محتاج رہے گا۔
جواب : شعائر شعار کی جمع ہے، جو نشانی یا علامت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسے تمام ارکان جو خواہ عبادات، اوامر و نواہی یا مقدس مقامات سے متعلق ہوں یا جن پر عمل کرنے سے اسلام کی ہیئت اجتماعیہ تشکیل پائے شعائر کے ذیل میں آتے ہیں۔ چونکہ ان سب کا تعلق تاریخی اعتبار سے بعض مخصوص شخصیات و واقعات سے ہے جن کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے، اس لئے ایسی تمام علامات کو شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیوں سے موسوم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌo
(البقرة، 2 : 158)
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقینًا اللہ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبر دار ہےo‘‘
حج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تمام مناسک اللہ کی تعظیم اور محبوبانِ الٰہی کی یاد میں عشق و محبت کے والہانہ پن سے عبارت ہیں۔ مثلًا جب بندہ بطور حاجی اللہ کے گھر میں داخل ہو کر ابھی سجدہ ریز نہیں ہوتا، رکوع و قیام اور نماز میں داخل نہیں ہوتا، بس غلاف کعبہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کے پیمانے اشکوں سے لبریز ہو جاتے ہیں اور پلکوں سے برسات ٹپکنے لگتی ہے اور پھر حدود حرم میں داخل ہونے سے قبل اپنے قیمتی کپڑوں کو اتار کر سادہ اَن سلی چادریں زیب تن کر لیتا ہے اور پیکر عجز و انکسار بن کر ننگے سر اور ننگے پاؤں بیت اللہ کے صحن میں آ جاتا ہے اور ایک طرح کی بے خودی سے دیوانہ وار دوڑنے لگتا ہے اور حرم کعبہ کے گرد سات چکر مکمل کرتا ہے۔ جسے عرف عام میں طواف کہا جاتا ہے۔ پھر وہ ایک گوشے میں نصب ایک پتھر دیکھتا ہے، جس کی طرف وہ دیوانہ وار لپکتا ہے، بڑی محنت و جانفشانی سے اس کے قریب پہنچتا ہے اور بے اختیار اسے چومنے لگتا ہے۔ وہ اس کی عقلی دلیل نہیں جانتا، اسے بس اتنا پتہ ہے کہ یہ حجرِ اسود ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسے دیئے تھے اور اسی نسبت سے اسے بوسہ دینا اپنے لئے بڑی سعادت خیال کرتا ہے۔
طواف سے فارغ ہو کر وہ ایک مقام پر جہاں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ثبت ہیں رک جاتا ہے اور وہاں اس ارشادِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
(البقرة، 2 : 125)
’’اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘
پھر وہ بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر صفا و مروہ دو پہاڑ دیکھتا ہے، جن کی طرف اس کے قدم بے اختیار اٹھ جاتے ہیں اور وہ دوڑ کر کبھی اس پہاڑ پر چڑھتا ہے، کبھی اس پہاڑ پر۔ ان دو پہاڑوں کی نسبت اللہ کی پیاری بندی حضرت حاجرہ علیہا السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہے، جن کی بنا پر انہیں شعائر اللہ قرار دے دیا گیا۔
اللہ کا بندہ احرام باندھے ہوئے ننگے سر جب صفا و مروہ کی سعی مکمل کر لیتا ہے تو اس کی حجامت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، وہ بال جن کو اپنی زیب و زینت سمجھ کر سنوار کر رکھتا ہے، انہیں استرے سے منڈوا ڈالتا ہے۔ ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انہیں کٹواتا ہے، پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو جاتا ہے، خیمے گاڑتا ہے اور عرفات میں شام تک قیام کرتا ہے۔ عرفات میں نماز ظہر کا وقت آتا ہے تو وہ جو عمر بھر قانون خداوندی :
إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
(النساء، 4 : 103)
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
کی تعمیل میں ہمیشہ نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا عادی تھا، ظہر کی نماز کے ساتھ عصر کو ملا کر پڑھتا ہے۔ ایسا کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میدانِ عرفات میں ظہر و عصر کو ملا کر پڑھا تھا۔ اب اس کی پیروی ہر خاص و عام کے لئے واجب قرار پائی۔ پھر مغرب کا وقت آ جاتا ہے، وہ تمام حالات میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب ادا کرنے کا پابند ہے لیکن یہاں آ کر قانونِ شریعت سے وہ پابندی معطل ہوگئی۔ وہ نماز کا وقت دیکھتا ہے، لیکن اس کی ادائیگی سے اس لئے گریز کرتا ہے کہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت نماز ادا نہیں کی تھا، وہ اس نماز کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں مزدلفہ جا کر عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھتا ہے۔
مزدلفہ پہنچ کر سفر سے تھکا ہوا انسان سوچتا ہے کہ رات گزرنے کے بعد کچھ سستاؤں اور آرام کر لوں، لیکن حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے ہے کہ مزدلفہ چھوڑ کر خیمہ یہاں (منیٰ میں) گاڑ لے اور پتھر کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر انہیں کنکریاں مارے۔ عقل لاکھ کہے کہ شیطان کہاں یہ تو پتھر ہیں انہیں کنکریاں کیوں ماری جائیں؟ لیکن وہ محبت کے آگے سر تسلیم خم کر کے تین دن تک انہیں کنکریاں مارنے جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس فعل کو اللہ کے ایک مقرب بندے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے نسبت ہے، جنہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آگئی کہ اب اس کی یاد کو قیامت تک دہرانے کا حکم دے دیا گیا۔
پھر اللہ کا بندہ منیٰ پہنچ کر قربانی کرتا ہے اور قربانی کے بعد شہر مکہ لوٹ آتا ہے۔ کبھی یہ صحراؤں میں پھرتا ہے، کبھی جنگلوں میں ڈیرے لگاتا ہے اور کبھی شہر میں آتا ہے۔ شعائر اللہ کی یہ تعظیم و تکریم، دیوانہ وار طواف اور بھاگ دوڑ یہ سب باتیں ادب اور تقاضائے محبت ہیں۔ ان کی کوئی عقلی دلیل ممکن نہیں۔ بس یہ سب محبوبانِ الٰہی کی یادیں ہیں، جنہیں جاری و ساری کرنے کا اہتمام شرعاً عبادت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔
جواب : نماز، روزہ، زکوٰۃ اور کسی بھی فرض و نفلی عبادت سے حکم الٰہی کی تکمیل تو ہو جاتی ہے، لیکن عشق و محبت کی وہ آگ جو بندۂ مومن کے سینے میں محبوب حقیقی کے ہجر و فراق کی وجہ سے بھڑکتی رہتی ہے، ختم نہیں ہوتی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذوقِ محبت کے فروغ اور ان کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے کے لیے اپنے انبیاء کرام اور برگزیدہ و مقبول بندوں کی زندگی کے ان واقعات کو چن چن کر بنی نوع انسان کے سامنے رکھا ہے، جو عشق و محبت، ایثار و قربانی اور وفا کے باب میں سب کے لئے ابدی معیار کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ان کو اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے :
ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
(الحج، 22 : 32)
’’یہی (حکم) ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)o‘‘
حج میں شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کرنے کے حکم میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے حجاج کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہو جائے۔ شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب اللہ کی نظر میں اس قدر محبوب ہے کہ اسے دلوں کے تقویٰ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو پہاڑ، پتھر اور قربانی کے جانوروں کی حیثیت عام چیزوں جیسی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقبول بندوں سے نسبت ہونے کی بناء پر ان کی تعظیم و ادب اتنی بڑی عبادت بن گیا جو دلوں کے تقوی کا موجب ہے۔
جواب : جی ہاں! قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ ہیں۔ یوں تو دنیا میں ہر جگہ اللہ کے نام پر صدقہ و خیرات کے لئے جانور ذبح کئے جاتے ہیں، لیکن ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت ہونے کی بنا پر مقام منیٰ پر قربانی کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کی حیثیت منفرد اور جداگانہ ہوگئی ہے۔ انہیں اس خاص نسبت کے باعث شعائر اللہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللهِ
(الحج، 22 : 36)
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘
جواب : تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ سلسلۂ حج کا آغاز بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین ہزار سال قبل ہوا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد تک جاری رہا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقرر کردہ حج کے طریقوں میں تحریف اور تبدیلی کی جانے لگی۔ ان کی ہیئت پے در پے تبدیلیوں کے عمل سے مسخ ہوتی چلی گئی اور بالآخر ایسی بے بنیاد رسموں کی صورت اختیار کر گئی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کی روح سے قطعاً مختلف تھی۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر ان تحریفات کا ذکر کیا ہے۔
منجملہ رسوم میں ایک رسم جسے زمانہ جاہلیت کے عربوں نے اپنے ہاں بطور خاص رواج دے رکھا تھا، احرام باندھنے سے متعلق تھی۔ اہل عرب جب حج کے ارادے سے احرام باندھ لیتے تو وہ اپنے گھر میں نہ صرف اصل دروازوں سے داخل ہونا حرام قرار دیتے بلکہ عقبی دیوار پھلانگ کر یا پچھواڑے میں کسی کھڑکی یا روشن دان کے راستے سے گھر کے اندر داخل ہوتے اور اپنے اس فعل کو مناسک حج کا حصہ اور عبادت تصور کرتے۔ قران حکیم نے اس مضحکہ خیز اور بلا جواز رسم کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ اس میں کسی قسم کی نیکی کا کوئی تصور نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى
(البقرة، 2 : 189)
’’اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی رُو سے نیکی تو اللہ کے ہاں تقوی کا نام ہے اور گھر کی عقبی دیواروں کو پھاند کر اندر داخل ہونا محض توہمات کے ذیل میں آتا ہے، جو نیکی کے کسی تصور سے ہرگز تعلق نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم نے اس طرح نیکی کا اصل الاصول بیان فرما کر ان بیہودہ اور لغو رسوم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔
عربوں کے دورِ جاہلیت کی ایک اور رسم حج اور عمرہ سے متعلق تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کی ادائیگی یکجا نہیں ہو سکتی۔ اس غلط عقیدے کی بنا پر انہوں نے حج اور عمرہ کے لئے الگ الگ مہینے مقرر کر رکھے تھے، جس کے لئے وہ جدا جدا سفر اختیار کرتے اس سے دور دراز کی مسافت طے کر کے آنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسلام کی آمد کے بعد اس خود ساختہ رسم کو منسوخ کر دیا گیا اور ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کرنے کی ہر ایک کو اجازت مل گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا
(البقرة، 2 : 158)
’’چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے۔‘‘
اسی طرح ایک غلط نظریہ اور تصور زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں جڑ پکڑ چکا تھا، جس کی رو سے انہوں نے اپنے اوپر حج کے سفر کے دوران زاد راہ ہمراہ لے جانا حرام قرار دیا تھا۔ وہ حج کے لئے سفر پر نکلتے تو اپنے ساتھ کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا سامان لے جانا اپنے نام نہاد تقویٰ کے منافی سمجھتے تھے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے بنیاد اور لغو تصوّر کا راز کھول دیا، ارشاد فرمایا :
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الْأَلْبَابِo
(البقرة، 2 : 197)
’’حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعد اور عشرئہ ذوالحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کروo‘‘
یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی علیم و خبیر ذاتِ کریم زندگی کے ہر گوشے میں نوع انسانی کے تمام مسائل کی تہہ پر نظر رکھتی ہے اور اسے ہرگز ہرگز گوارا نہیں کہ غلط سوچ اور نادانی کی بناء پر انسان نے معاشرتی سطح پر جو ناروا پابندیاں یکطرفہ طور پر عائد کر رکھی ہیں یا غلط رسوم اپنا لی ہیں، انہیں جاری رکھا جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج کے سفر پر نکلنے والوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا زادِ راہ اور خورد و نوش کا سامان ساتھ لے کر نکلا کریں۔ پھر فرمایا کہ بہترین زادِ راہ تو تمہارا تقویٰ ہے اور باقی دنیاوی سامان تو سب عارضی ہے۔
جواب : دورِ جاہلیت میں عرب طواف کعبہ کرتے وقت برہنہ ہو کر تالیاں بجاتے اور سیٹیاں بجاتے، جنہیں وہ عبادت تصور کرتے۔ قرآن حکیم نے ان کے اس ناپسندیدہ فعل کو یوں بیان فرمایا :
وَمَا كَانَ صَلاَتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً
(الانفال، 8 : 35)
’’اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
اسلام دین فطرت ہونے کے باعث عمل کے اعتبار سے آسان ہے تا کہ انسانوں کو ان تمام ناروا پابندیوں اور رسم و رواج کی زنجیروں سے رہائی دلا دے جو اہل عرب نے ایک طویل عرصے سے حج کے ضمن میں عائد کر رکھی تھیں۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خصوصی توجہ کا حامل ہے :
کُلُّ شَيئٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاهلِيَّة تَحْتَ قَدَمِیَّ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 : 889، رقم : 1218)
’’زمانہ جاہلیت کی تمام رسوم میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں۔‘‘
تاریخی تناظر میں اگر حج کا جائزہ لیا جائے تو آج ہمیں جو حج کی صورت نظر آتی ہے، وہ اس حج کی ارتقائی شکل ہے، جو فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت و سربراہی میں ادا کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ فتح مکہ 8 ہجری میں ہوئی اور اس سال حج اسی قدیم طریقے پر ادا ہوا تھا، جو زمانہ جاہلیت میں طویل عرصہ سے رائج چلا آ رہا تھا۔
اگلے سال 9 ہجری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بطور خاص امیر بنا کر جیّد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہمراہی میں مکہ مکرمہ بھیجا، یہ وفد عازمِ سفر ہو چکا تھا کہ سورہ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں تفصیل کے ساتھ حج کے احکام بیان کئے گئے ہیں اور دورِ جاہلیت کی ان باطل رسموں کو مکمل ختم کر دیا گیا ہے جن سے حج کی صورت مسخ ہو کر رہ گئی تھی۔
چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ خاص بنا کر ان آیات حج کو مجمع عام کے سامنے خطبہ کی شکل میں تلاوت کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے روانہ فرمایا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لئے اس تاریخی حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وفد کے ساتھ شامل ہوگئے اور حج کے اجتماع عام میں خطبہ حج ارشاد فرمایا : جس نے دور جاہلیت کی تمام باطل رسموں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ 9 ہجری کا حج دو طریقوں سے ادا کیا گیا۔
کفار اور مشرکین جو اس موقع پر موجود تھے، انہوں نے قدیم آبائی طریقے سے حج کی رسوم ادا کیں، جبکہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر مناسک حج ادا کئے۔ تاہم اس تاریخی حج کے موقع پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ کسی کافر و مشرک کو حج کے لئے حرم پاک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ آئندہ حج سے قبل ہی سرزمین کعبہ ہمیشہ کے لیے مشرکوں کے وجود سے پاک ہوگئی۔ اس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادۂ خداوندی کے مطابق حج سے باطل رسموں کا خاتمہ فرما کر دور جاہلیت کے سب آثار اور نقوش حرفِ غلط کی طرح مٹا دیئے۔
جواب : خطبہ حجۃ الوداع کی اہمیت و انفرادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ جدوجہد کے بعد اسلامی معاشرہ کے قیام اور بین الاقوامی سطح پر مصطفوی انقلاب کی بنیادیں استوار کر دینے کے بعد 10 سن ہجری کو آخری حج کے موقع پر جو خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا وہ عالم انسانیت کے لئے انسانی حقوق کا پہلا باقاعدہ چارٹر (Charter of Human Rights) اور اقوامِ عالم کے لیے نیا عالمی نظام (New World Order) ہے۔ اس خطبہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے :
درج بالا خطبہ حجۃ الوداع کا مختصر جائزہ اس کی اہمیت و انفرادیت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ اس خطبے کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت اور اعجاز کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائلی تفاخر و عصبیت، سماجی اونچ نیچ کے باطل تصورات اور عرب و عجم کے جھوٹے امتیازات اور مادی شان و شوکت اور کبر و غرور پر مبنی طبقاتی عدم مساوات کے باطل نظریات کو پامال کر دیا اور حتمی طور پر اعلان فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں اور اگر کسی میں کوئی فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اس اعلامیہ میں یہ بات کھول کر بیان کر دی گئی کہ ہر مسلمان کا خون، جان و مال اور اس کی عزت و آبرو اتنی ہی حرمت کی حامل ہے جتنا کہ یہ شہر اور یہ دن سب کے لئے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهدُ الْغَائبَ
(بخاری، الصحيح، ابواب الحج، باب الخطبة ايام منی، 2 : 620، رقم : 1652، 1654)
’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔‘‘
یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ حیات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اثر انگیزی جس طرح ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک زندہ حقیقت تھی، اسی طرح دورِ حاضر کے لیے بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس لئے آپ کی حیات مبارکہ کو اسوہ حسنہ کہا گیا۔ آج ساڑھے چودہ سو سال گزرجانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں عدل و مساوات کے ایسے ضوابط و قوانین تشکیل پاتے ہیں، جو انسانی حقوق کے تحفظ کی مکمل ضمانت فراہم کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر باہمی جنگ و جدل، نفرت اور استحصال سے پاک اور اعتدال، میانہ روی، عدل و انصاف اور تکریم انسانیت پر مبنی انسانی معاشرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved