جواب: نماز عیدین کا حکم ہجرتِ مدینہ کے پہلے سال دیا گیا۔ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اور فرحت کے لئے سال میں دو اہم دن مقرر کئے جن میں سے ایک عیدالاضحی اور دوسرا عیدالفطر کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو (دیکھا کہ) وہاں کے لوگ دو دن کھیل تماشے میں گزارتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایام جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ قَدْ اَبْدَلَکُمْ بِهِمَا خَيُرًا مِنْهُمَا؛ يَوْمَ الْاَضْحٰی وَ يَوْمَ الْفِطْرِ.
’’الله تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو ایام: یوم الاضحی اور یوم الفطر عطا فرمائے ہیں۔‘‘
ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، 1: 295، رقم: 1134
جواب: عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
جواب: جی نہیں! عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيُنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْاَضْحَی.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘
ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی صوم العيدين، 2: 314، رقم: 2417
جواب: عید الفطر کی نماز کا وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد زوال سے پہلے تک رہتا ہے۔ عید الفطر کی نماز میں تاخیر کرنا جائز ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نجران میں حکم دیا:
عَجِّلِ الْاَضْحٰی وَاَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَکِّرِ النَّاسَ.
’’عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرو اور عید الفطر کی نماز دیر سے ادا کرو اور لوگوں کو وعظ سناؤ۔‘‘
بيهقی، السنن الکبری، 3: 282، رقم: 5944
اگر پہلے دن نماز عید کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی تو دوسرے دن اجتماعی طور پر ادا کرنا جائز ہے جبکہ عید الفطر کی نماز تیسرے دن جائز نہیں ہے بخلاف عید الاضحی کے۔ اگر پہلے اور دوسرے دن کسی عذر کی وجہ امام اور مقتدی نماز ادا نہ کر سکیں تو تیسرے دن بھی عید الاضحی کی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
مرغينانی، الهداية، 1: 132، 133
جواب: عید کی نماز میں نہ اذان ہوتی ہے اور نہ اقامت۔ حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ الله ﷺ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيُدِ، فَبَدَاَ بِالصَّلَاةِ قَبْل الْخُطْبَة بِغَيُرِ اَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ.
’’میں عید کے دن نماز میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حاضر تھا۔ پس آپ نے اذان اور تکبیر کے بغیر خطبہ سے قبل عید کی نماز پڑھی۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب2: 603، رقم: 885
جواب: عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں ہر اس شخص پر واجب ہیں جس پر جمعہ فرض ہے۔ عیدین دوگانہ یعنی دو رکعتوں والی نماز ہے۔ نمازِ عیدین کا طریقہ وہی ہے جو دیگر نمازوں کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نماز عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کرتین تکبیریں کہے، تیسری تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر امام تعوذو تسمیہ کے بعد جہراً قرات کرے۔ قرات کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ پھر دوسری رکعت شروع ہوگی۔ امام قرات کرے، قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے، مقتدی بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر رکوع کرے، مقتدی بھی ایسا کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔ نماز عیدین کا وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے تک ہے۔
جواب: عید کے دن مندرجہ ذیل امور بجا لانا مسنون و مستحب ہیں:
جواب: عید کا دن جہاں خوشی و مسرت کے اظہار اور میل ملاپ کا دن ہوتا ہے وہاں عید کی رات میں کی جانے والی عبادت کی فضیلت عام دنوں میں کی جانے والے عبادت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيُلَتَیِ العِيُدَيُنِ مُحْتَسِبًا ِﷲِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْب.
’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہوجائیں گے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فيمن قام فی ليلتی العيدين، 2: 377، رقم: 1782
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ اَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ: لَيُلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيُلَةَ عَرَفَةَ، وَلَيُلَةَ النَّحْرِ، ولَيُلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيُلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ (یعنی عید الاضحیٰ)، دس ذوالحجہ، عید الفطر اور پندرہ شعبان کی رات (یعنی شبِ برات)۔‘‘
منذری، الترغيب والترهيب، 1: 182
جواب: صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضورنبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ فطر کو اس لئے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث بنتا ہے۔
ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2: 28، رقم: 1609
جواب: صدقہ فطر تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:
فَرَضَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيُرٍ، عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی، وَالصَّغِيُرِ وَالْکَبِيُرِ مِنَ الْمُسْلِمِيُنَ.
’’رسول الله ﷺ نے غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب مسلمانوں پر صدقہ فطر کھجور یا جو کا ایک صاع فرض کیا ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکاة، باب فرض صدقة الفطر، 2: 547، رقم: 1432
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
صدقہ فطر ہر تونگر پر (واجب) ہے۔
کنانی، زجاجة المصابيح، 1: 511
شرع کی رو سے تونگر ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہ ہو لیکن اس کے پاس ضروری اسباب (جیسے گھر، کپڑے اور گھر کا سامان وغیرہ) ہو کہ جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔ خواہ وہ تجارت کا مال ہو یا نہ ہو اور خواہ اس پر سال گزرے یا نہ گزرے، ایسی صورت میں اس شخص پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: صدقہ فطر کی ادائیگی کا افضل وقت عید کی صبح صادق کے بعد اور نماز عید سے پہلے کا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکوٰۃ فطر ادا کرلی جائے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الصدقة قبل العيد، 2: 548، رقم: 1438
لیکن اگر کوئی شخص صدقہ فطر کسی وجہ سے عید کے روز ادا نہ کر سکا اور بعد میں ادا کیا تو اس کا شمار قضا میں نہیں ہوگا۔ صدقہ فطر کسی وقت بھی ادا کیا جائے وہ ادا ہی ہو گا۔
جواب: صدقہ فطر کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:
جواب: صدقہ و خیرات وہ مال ہے جو الله کی رضا کے لئے غریب و مسکین لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ و عشر اور صدقہ فطر تینوں واجب ہیں۔ جو ان تینوں میں سے کسی ایک کو ادا نہ کرے گا، سخت گناہگار ہوگا۔ ان کے علاوہ بھی راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کا علم ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے:
ترمذی، السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء فی فضل الصدقة، 2: 43، رقم: 663
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب اجود ما کان النبی ﷺ يکون فی رمضان، 2: 672، رقم: 1803
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved