جواب: اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
ابن منظور، لسان العرب، 9: 255
جبکہ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر الله کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔
جواب: اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2: 376، رقم: 1781
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ الله تعالیٰ، جَعَلَ اللهُ بَيُنَهُ وَ بَيُنَ النَّارِ ثَـلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ اَبْعَدُ مِمَّا بَيُنَ الْخَافِقَيُنِ.
’’جو شخص الله کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، الله تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيُنِ وَ عُمْرَتَيُنِ.
’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3: 425، رقم: 3966
جواب: رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے:
اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ
’’حضور نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکانًا من المسجد، 2: 373، رقم: 1773
جواب: شریعت کی رو سے مسنون اعتکاف کا آغاز بیس رمضان المبارک کی شام اور اکیس کے آغاز یعنی غروب آفتاب کے وقت سے ہوتا ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ چاند چاہے انتیس تاریخ کا ہو یا تیس کا، دونوں صورتوں میں سنت ادا ہوجائے گی۔
جواب: اعتکاف بیٹھنے کی شرائط درج ذیل ہیں:
جواب: اعتکاف کی تین اقسام ہیں:
جواب: رمضان المبارک کے آخری دس روز کا مسنون اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو آخرت میں سب سے مواخذہ ہوگا اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کرلیا تو سب آخرت کے مواخذہ سے بری ہو جائیں گے۔ یعنی بعض لوگوں کے اعتکاف کر لینے سے سب کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکاناً من المسجد، 2: 373، رقم: 1773
جواب: واجب اور مسنون اعتکاف کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے، وہ نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔ نفلی اعتکاف میں نہ روزہ شرط ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی خاص وقت اور معیاد مقرر ہے۔
مثلًا کوئی شخص دن یا رات میں جب بھی مسجد کے اندر داخل ہو تو وہ اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ نیت کے لئے صرف دل میں اتنا خیال کر لینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے الله تعالیٰ کے لئے اعتکاف کی نیت کی۔
جواب: ایسا اعتکاف جس کی منت یا نذر مانی جائے، اعتکافِ واجب ہوتا ہے۔ مثلًا کسی شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں الله تعالیٰ کے لئے تین دِن کا اعتکاف کروں گا۔ ایسا کہنے سے اس پر اعتکاف واجب ہو جاتا ہے۔ واجب اعتکاف میں نیت کرنا اور روزہ رکھنا شرط ہے۔
جواب: کیونکہ واجب اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے، اس لئے اس کا کم از کم وقت ایک دن ہے۔ اس سے کم مدت کے اعتکاف کی نذر ماننا صحیح نہیں۔
جواب: دورانِ اعتکاف معتکف درج ذیل امور سر انجام دینے چاہیں۔
نام وَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال:لا يجوز للمعتکف إلا الصلاة والقراء ة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها اجاز له غير ذلک.
’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا، اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘
ابن رشد ،بداية المجتهد، 1: 312
معتکف کے لئے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی متعدی یا اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے - مثلاً درس و تدریس، علماء کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ - تو ان امور کی مشروعیت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، مگر فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں معتکف کے لیے اِن اُمور کو شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔(1)
ذیل میں ہم اِس اَمر پر روشنی ڈالیں گے کہ وہ کون سے اِجتماعی اُمور ہیں جو اعتکاف میں سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔
اگر معتکف قاضی ہو یا فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور دوران اعتکاف اس کے سامنے کوئی ایسا معاملہ آجائے جس کی شہادت بھی موجود ہو تو اس پر لازم ہے کہ دوران اعتکاف ہی اس معاملے میں فیصلہ کر دے۔ امام شافعی الام میں لکھتے ہیں:
ولا باس ان يقضي وإن کانت عنده شهادة، فدعي إليها فإنه يلزمه ان يجيب
’’اور (معتکف کے لیے کسی معاملے کا) فیصلہ سنانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جب اس کی شہادت بھی موجود ہو۔ تو جب اُسے بلایا جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دعوت قبول کرے (اور اس پیش آمدہ مسئلے کا فیصلہ کرے)۔‘‘
شافعی، الام، 2: 105
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا روایت کرتی ہیں:
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَاَغْسِلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ.
’’حضور نبی اکرم ﷺ حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ ﷺ کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض، 1: 115، الرقم: 295
علامہ خطابی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن الاشتغال بالعلم وکتابته اهم من تسريح الشعر.
’’بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
زين الدين عراقی، طرح التثريب فی شرح التقريب، 4: 175
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جیسے اُمور بجا لانا بہتر ہے تاکہ اِسلام کے اُس آفاقی حکم پر بھی عمل ہو جو آقا ﷺ کو پہلی وحی میں دیا گیا تھا اور جس کی بے پناہ تاکید قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں وارِد ہوئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
ولا باس ان يشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما احب ما لم يکن إثما.
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
شافعی، الام، 2: 105
لہٰذا جب معتکف کاروبار کرسکتا ہے، حسبِ ضرورت کپڑے سی سکتا ہے تو اس کے لیے حصولِ علم تو بدرجہ اَولیٰ بہتر ہوگا۔ اور حصول علم وہ کارِ خیر ہے جس میں شرکت کو حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی ترجیح دی ہے۔ ایک مرتبہ جب مسجد نبوی میں محفلِ ذکر اور محفلِ علم برپا تھیں تو آپ ﷺ نے محفلِ علم کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں شرکت فرمائی۔
اِعتکاف میں حسبِ ضرورت خرید و فروخت اور لین دین بھی درست ہے، لیکن اِس میں شرط یہ ہے کہ معاملہ ایجاب و قبول کی حد تک ہو اور سامانِ تجارت مسجد سے باہر ہو۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اَشیاء کی نقل و حرکت کا ممنوع ہونا مسجد کے تقدس کی وجہ سے ہے نہ کہ اعتکاف کی وجہ سے۔اس سلسلے میں امام شافعی ’الام‘ میں فرماتے ہیں:
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
شافعی، الام، 2: 105
دورانِ اعتکاف حسبِ ضرورت خرید و فروخت سے متعلق امام کاسانی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ نقل کرتے ہیں:
وروي عن علي رضی الله تعالیٰ عنه انه قال لابن اخيه جعفر: هلا اشتريت خادما؟ قال: کنت معتکفا، قال: وماذا عليک لو اشتريت؟ - اشار إلی جواز الشراء في المسجد.
’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: تم نے خادم کیوں نہیں خریدا؟ انہوں نے جواب دیا: میں معتکف تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا حرج تھا اگر تم اسے خرید لیتے؟ یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (دورانِ اِعتکاف) مسجد میں بیع کرنے کے جواز کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 117
اس طرح باقی خرید و فروخت کامعاملہ ہے کہ جن میں زیادہ دیر نہ لگے وہ جائز ہیں کیوں کہ یہ سلام کے جواب اور چھینک کے جواب سے مشابہت رکھتے ہیں۔
زرکشی، شرح علی مختصر الخرقي، 3: 17
اعتکاف کے ایک سال بعد آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں انسان ان تمام امور سے بے نیاز ہو جائے جن کا تعلق دوسرے افراد سے ہو یا جن میں اشتغال فی الخلق کا شائبہ ہو، بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے بھی ہمیں جو نقوش ملتے ہیں ان میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ آپ ﷺ دورانِ اعتکاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتے، انہیں حسبِ ضرورت وعظ و نصیحت فرماتے اور گھر والوں سے ملاقات کرتے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں:
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ فَاَغْسِلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ.
’’حضور نبی اکرم ﷺ حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ ﷺ کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض، 1: 115، الرقم: 295
اس کے علاوہ حضرت صفیہ رضی الله عنہا کی حدیث بھی اس امر کی وضاحت کرتی ہے جسے علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ مسجد میں تھے اور آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ آپ ﷺ کے پاس تھیں۔ جب گفتگو اور ملاقات کر کے واپس جانے لگیں تو آپ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا: جلدی نہ کرو، ٹھہرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں۔ اُن کا حجرہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اُن کے ساتھ نکلے تو آپ ﷺ کو انصار کے دو شخص ملے۔ انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو آگے نکل گئے۔ آپ ﷺ نے اُن دونوں کو بلا کر فرمایا:
تَعَالَيَا، إِنَّهَا صَفِيَةُ بِنْتُ حُيَيٍّ.
’’ادھر آؤ، یہ صفیہ بنت حیّی ہیں۔‘‘
دونوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، سبحان اللہ!‘‘ اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں ڈرا کہ مبادا وہ تمہارے دل میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الإعتکاف، باب زيارة المرأة زوجها في الاعتکاف، 2: 716، رقم: 1933
مذکورہ بالا حدیثِ اہل و عیال سے گفتگو کے علاوہ اعتکاف گاہ سے باہر حسبِ ضرورت اور حسبِ موقع امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عمل کو جاری رکھنے پر بھی دلالت ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے جب ملاحظہ فرمایا کہ ممکن ہے انصاری صحابہ کے دل میں کوئی خیال جنم لے تو آپ ﷺ نے پہلے ہی اس کا تدارک فرما دیا حالاں کہ آپ ﷺ اس وقت اعتکاف گاہ سے باہر تھے۔ اس تناظر میں اعتکاف گاہ کے اندر امر بالمعروف ونہی عن المنکر جو کہ سراسر ایک اجتماعی نوعیت کا عمل ہے، کو کس طرح منافی اعتکاف کہا جا سکتا ہے؟
شادی بیاہ ایسے اُمور ہیں جو معاشرے اور معاشرت کی بنیاد اور اجتماعیت کی اساس ہیں۔ معتکف اگرچہ ان تمام امور سے خلاصی پا کر مسجد میں گوشہ نشین ہوتا ہے لیکن ائمہ کرام نے دورانِ اعتکاف معتکف کے مسجد میں نکاح کرنے، محفل نکاح میں شامل ہونے، کسی کو اس کی دعوت دینے، نکاح وغیرہ پر مبارک باد دینے، تعزیت کرنے اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی جیسے امور کو بھی مباح قرار دیا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
ولا باس للمعتکف ان يبيع ويشتري ويتزوج ويراجع ويلبس ويتطيب ويدهن وياکل ويشرب بعد غروب الشمس إلی طلوع الفجر ويتحدث ما بدا له بعد ان لا يکون ماثما وينام في المسجد.
’’معتکف کے لیے غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک خرید و فروخت ، نکاح، (اَسباق کی) مراجعت کرنے، لباس وغیرہ بدلنے، خوشبو اور تیل لگانے، کھانے پینے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں کوئی گناہ کی بات شامل نہ ہو، میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
اعتکاف کے دوران میں دیگر امور کی طرح ضروری حالت میں مریض کی عیادت کرنا بھی آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَمُرُّ بِالْمَرِیضِ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هُوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْاَلُ عَنْهُ.
’’حضور ﷺ کسی مریض کے پاس سے اعتکاف کی حالت میں گزرتے تو بغیر ٹھہرے گزرتے گزرتے اس کا حال دریافت فرما لیتے۔‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2: 333، رقم: 2472
اِمام ترمذی اس حدیث سے دورانِ اعتکاف مریض کی عیادت پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قَالَتْ: إِنْ کَانَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَهُوَ مُعْتَکِفٌ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اعتکاف کی حالت میں مریض کی مزاج پرسی فرما لیا کرتے تھے۔‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2: 333، رقم: 2472
اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وت علم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَقِيُةٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيُطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
’’ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
ابو داود، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1: 81، رقم: 222
دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشاء ہے نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ے۔
ہماری اجتماعی صورتِ اَحوال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والی اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ۔ وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
’’بے شک الله تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘
مالک، الموطا، 2: 991، رقم: 23
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’الله نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میں تیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:
اَقْلِبْهَا عَلَيُهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.
’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘
اس حدیث مباکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دل چسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔
خاموشی حکمت کا پیش خیمہ اور زبان کی حفاظت کا سب سے قوی اور آزمودہ ہتھیار ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں مگر خاموشی کو اس طرح افضل جاننا کہ واجب کلام بھی ترک کر دیا جائے، حرام کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خاموشی سے بہتر ہونے پر آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک عورت نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھوں اور اس دن کسی بھی کلام نہ کروں؟ آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا:
لا تصم يوم الجمعة إلا في ايام هو احدها او في شهر، واما ان لا تکلم احداً فلعمري! لان تکلم بمعروف وتنهي عن منکر خير من ان تسکت.
’’صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھو بلکہ اس طرح ایام کا انتخاب کرو کہ جمعہ کا دن ان میں آجائے یا پھر یہ کہ مہینے کے روزے ہوں تو جمعہ بھی ان میں آجائے۔ جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
گزشتہ سطور میں بیان کردہ تفصیل اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں اجتماعی اعتکاف کے جواز اور عدمِ جواز پر بحث جاری ہے وہیں اِجتماعی اعتکاف کی کئی مثالیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ وہ لوگ جو کچھ عرصہ قبل تک اسے بدعت قرار دیتے تھے اب خود اِس پر عمل پیرا ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندہ مومن کو الله سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا شدہ فراست کے پیش نظر آنے والے حالات کو قبل اَز وقت بھانپ لیتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کو یہ شعور بعد میں نصیب ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل حقیقت سب پر آشکار ہو جاتی ہے۔
فی زمانہ حرمین شریفین میں دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے۔ ان مقاماتِ مقدسہ پر ہزارہا اہل اِسلام رمضان المبارک میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ اعتکاف کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے مگر خیمے وغیرہ نصب نہیں کیے جاتے اور نہ ہی چادریں وغیرہ تانی جاتی ہیں۔ اِس اِجتماعی اِعتکاف میں ہر وقت اِجتماعی درسِ قرآن اور درسِ حدیث بھی ہوتے ہیں، ہمہ وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور تجویدِ قرآن کے حلقات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ نیز دروسِ فقہ بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حرمِ کعبہ میں معتکفین طواف بھی کرتے ہیں جو کہ بھیڑ کے ماحول میں ہی ہوتا ہے۔ گویا جلوت میں خلوت کا ماحول ہوتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ پر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے درِ قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے چہارگانہ فرائض نبوت - تلاوتِ قرآن؛ تزکیہ نفوس؛ تعلیم کتاب و حکمت - کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن رسا میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا اظہار اِبتدائً تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں بھی ہوتا رہا۔ اعتکاف تو وہ ہر سال ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی گوشہ نشیں ہوئے۔ اِس سے ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب بغداد ٹاؤن میں موجود جامع المنہاج باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 500,1 تھی۔ لیکن آج بفضلہ تعالی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں معتکف ہونے فرزندانِ اِسلام کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اِس میں مرد و زَن ہر دو ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں بیان کیے گئے معمولاتِ اِعتکاف کے مطابق اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہاے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں؛ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
جواب: اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات درج ذیل ہیں:
جواب: لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ یہ رات بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل ہے جسے قرآن کریم نے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ جمہور علماء امت کا مؤقف یہ ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے خاص انعام ہے جو اس سے قبل کسی اور امت کو عطا نہیں کی گئی۔ حدیثِ مبارکہ سے بھی اس موقف کی تائیدہوتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَهَبَ لِأُمَّتِيُ لَيُلَةَ الْقَدْرِ، وَلَمْ يُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی اور تم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفراز نہیں کیا۔‘‘
ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 173، رقم: 647
کیونکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ہے، لہٰذا اِسے رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔
جواب: الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میں پوری سورت نازل فرمائی۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّا اَنْزَلَنٰهُ فِيُ لَيُلَةِ الْقَدْرِo وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَيُلَةُ الْقَدْرِo لَيُلَةُ الْقَدْرِخَيُرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيُهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍo سَلٰمٌ قف هِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔‘‘
القدر، 97: 1-5
لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيُلَةَ الْقَدْرِ إِيُمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
’’جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2: 709، رقم: 1910
مندرجہ بالا ارشاد نبوی میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدہ مغفرت بن کر آتی ہے۔ لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 309، رقم: 1644
ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں!
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔‘‘
بيهقی، شعب الإيمان، 3: 343، رقم: 3717
جواب: رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتیں، طاق راتیں کہلاتی ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
فِی رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوْهَا فِی الْعَشِرا لْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا فِی وَتْرٍ، فِی إِحْدَی وَ عِشْرِيُنَ، أَوْ ثَـلَاثٍ وَعِشْرِيُنَ، اَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِيُنَ، اوَ سَبْعٍ وَّ عِشْرِيُنَ، اَوْ تِسْعِ وَ عِشْرِيُنَ، اَوْ فِی اٰخِرِ لَيُلَةِ، فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَائَ هَا إِيُمَانًا وَاحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَلَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ.
’’وہ رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور طلبِ ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 319، رقم: 22713
جواب: دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم، جمعہ کے روز قبولیتِ دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو مخفی رکھنے کی بھی متعدد حکمتیں ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
جواب: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے (ایک دفعہ) حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں لیلۃ القدر کو پالوں تو اس میں کیا دعا کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یوں کہو:
اَللَّهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّيْ.
’’اے اللہ! تو بہت معاف فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھ کو معاف فرما۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب الدعوات، باب ما جاء فی عقد التسبيح باليد، 5: 490، رقم: 3513
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved