جواب: جی ہاں! روزے کی درستگی کے لئے نیت سب سے اوّل درجہ رکھتی ہے وگرنہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور مجامعت سے بچے رہنے سے تو ہرگز روزہ نہیں ہو گا۔ جمہور ائمہ کے نزدیک ہر روزے کی الگ نیت ضروری ہے البتہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک پورے رمضان المبارک میں پہلے روزے کی نیت ہی کافی ہے بشرطیکہ پورے ماہ میں روزوں کا تسلسل قائم رہے۔
جواب: جی نہیں، نیت دل کے ارادے کا نام ہے لیکن اگر نیت کے مسنون و مستحب الفاظ زبان سے دہرا لئے جائیں تو افضل ہے ورنہ اگر کوئی دل سے ارادہ کر کے سحری کے وقت روزہ رکھنے کے لئے اٹھا اور کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیا تو یہی اس کی نیت ہے۔
جواب: اگر کسی روزہ دار نے روزہ رکھنے کے بعد روزہ چھوڑنے کی نیت کی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے: الله تعالیٰ نے میری امت کے لئے دل میں پیدا ہونے والی باتیں معاف کی ہیں۔ جب تک وہ زبان پہ نہ آجائیں یا ان پر عمل نہ کر لیا جائے۔
بخاری، الصحيح، کتاب العتق، باب الخطاء و النسيان فی العتاق و الطلاق و نحوه …، 2: 894، رقم: 2391
جواب: سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد کچھ بھی کھانا پینا جائز نہیں کیونکہ سحری کا وقت رات کے آخری نصف سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے چند لمحے قبل تک باقی رہتا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ’’ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر آپ نماز کے لئے اٹھے، (راوی کہتے ہیں) میں نے ان سے دریافت کیا: اذان اور سحری میں کتنا وقفہ تھا (یعنی حضور ﷺ نے اذان سے کتنی دیر قبل سحری کی تھی)؟ انہوں نے فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کے برابر۔
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب قدر کم بين السحور و صلاة الفجر، 2: 678، رقم: 1821
جمہور فقہاء کے نزدیک اگر صبح صادق ہونے میں شک ہو تو کھا پی سکتے ہیں، لیکن جب صبح صادق کا یقین ہو جائے تو رک جانا ضروری ہے۔ ہاں اگر کوئی کھا رہا ہے اور اذانِ فجر شروع ہوگئی ہے تو بقدرِ ضرورت کھانے کی اجازت ہے۔
جواب: سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا عمر بھر یہ معمول رہا ہے کہ آپ ﷺ سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّا مَعْشَرَ الْاَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُؤَخِّرَ سُحُوْرَنَا، وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَا.
’’ہم گروہِ انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری تاخیر سے اور افطار جلدی سے کریں۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 5: 67، رقم: 1770
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ.
’’میری امت کے لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور وتأکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1098
کوئی شخص سحری میں اتنی تاخیر کر بیٹھے کہ اذان شروع ہو جائے تو اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَمِعَ اَحَدَکُمْ النِّدَاءَ، وَالْاِنَاءُ عَلَی يَدِهِ فَـلَايَضَعْهُ حَتَّی يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.
’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضروریات پوری کیے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح ہوا کہ سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے۔ سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور انسان بھوک پیاس کی شدت سے محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُمت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کیا کرو خواہ پانی کا ایک گھونٹ، کھجور کا ایک ٹکڑا یا منقی کے چند دانے ہی کیوں نہ ہو۔
طبرانی، مسند الشاميين، 1: 32، رقم: 16
اسی طرح افطاری جلد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس طرزِ افطاری سے یہود و نصاریٰ کی مخالفت مقصود ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ روزہ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ ستاروں کے ظاہر ہونے تک انتظار کرتے ہیں جس سے نجوم پرستی کا شائبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک امتِ مسلمہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی اس وقت تک سنت کی پابندی اور حدودِ شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہے گی۔
جواب: درج ذیل باتیں روزے میں مکروہ ہیں:
جواب: روزوں کی قضا کے احکام کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
جواب: وہ امور جن سے صرف روز ہ کی قضا لازم آتی ہے درج ذیل ہیں:
ان تمام مندرجہ بالا صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی صرف قضا لازم ہو گی۔
جواب: رمضان کے روزوں کی قضاء واجب ہے اور اس میں وسعت رکھی گئی ہے، وقت کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا قضاء روزے لگاتار رکھیں یا سال میں وقفے وقفے کے ساتھ، دونوں طرح جائز ہیں۔
جواب: روزوں کی قضا پوری کرنے کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا معمول تھا کہ رمضان المبارک کے وہ روزے جو شرعی عذر کی بنا پر رہ جاتے تھے، انہیں علی الحساب ماہ شعبان میں رکھ لیتی تھیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ بھی اس مہینے کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت ہے:
’’میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہوتی تو میں انہیں شعبان کے علاوہ قضا نہ کر سکتی۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء رمضان فی شعبان، 2: 802، رقم: 1146
قضا کردہ روزوں کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو ہرگز گوارہ نہ تھا کہ روزوں کی قضا کی وجہ سے ان کے شوہر نامدار کی خدمت میں کوئی کوتاہی یا کمی واقع ہو۔
اس روایت سے فقہاء نے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔
جواب: نفلی روزہ کسی عذر سے توڑنے پر قضاء نہیں ہے، اگر بغیر عذر جان بوجھ کر نفلی روزہ توڑ دے تو اس کی قضا واجب ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور حفصہ رضی الله عنہا روزہ سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا جس کی ہمیں خواہش تھی ہم نے کھا لیا۔ اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے۔ حضرت حفصہ رضی الله عنہا نے گفتگو میں مجھ سے سبقت کی اور (کیوں نہ ہوتا) وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح جری)۔ کہنے لگیں: یا رسول الله! ہم دونوں نے روزہ رکھا ہوا تھا پھر ہمارے پاس کھانا آیا جس کی ہمیں تمنا تھی تو ہم نے اس سے کھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کسی دوسرے دن اس کی قضا کر لینا۔
ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی ايجاب القضاء عليه، 2: 104، رقم: 735
جواب: شریعت نے کفارہ کو مکلف پر دنیا و آخرت میں گناہوں کو مٹانے کے لئے واجب کیا ہے کفارہ کا حکم عموماً روزے رکھنے، غلام آزاد کرنے، مساکین کو کھانا کھلانے یا انہیں لباس فراہم کرنے پر مشتمل ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
’’ایک شخص نے رمضان میں (دن کے وقت) اپنی بیوی سے صحبت کر لی، پھر رسول الله ﷺ سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب: تغليظ تحريم الجماع فی نهار رمضان علی الصّآئم و وجوب الکفارة…، 2: 783، رقم: 1111
جواب: کفارہ صرف رمضان المبارک کا فرض روزہ توڑنے سے واجب ہوتا ہے اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا نفلی روزہ یا رمضان کے قضا روزے کو توڑنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
جواب: روزوں کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ہو تو مسلسل ساٹھ روزے بلا ناغہ رکھے جائیں مثلاً روزے قمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کیے گئے ہیں تو اس پورے مہینے اور اس کے بعد دوسرے قمری مہینے کے روزے رکھے اگر روزے قمری مہینے کے وسط سے شروع کیے گئے تو اس مہینے کو پورا کر کے اگلا سارا مہینہ روزے رکھنے کے بعد تیسرے مہینے میں اتنے دن روزے رکھے کہ پہلے مہینے کے دن ملا کر تیس دن پورے ہوجائیں۔ ضروری ہے کہ دو ماہ کے روزے مسلسل ہوں، اگر ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر دوبارہ ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے۔
البتہ عورت کے حیض کے دنوں میں جتنے روزے چھوٹ جائیں وہ شمار نہیں ہوں گے بلکہ وہ حیض سے پہلے اور بعد والے روزے ملا کر ساٹھ روزے پورے کرے۔ کفارہ ادا ہوجائے گا۔ ہاں اگر کفارے کے روزوں کے دوران نفاس کا زمانہ آجائے تو اس سے کفارے کا تسلسل ختم ہوجائے گا اور پھر دوبارہ شروع سے روزے رکھنا واجب ہوں گے۔
جواب: شریعت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی مقدار ساٹھ دنوں تک اور دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے۔ بصورتِ دیگر ساٹھ مسکینوں کو فی آدمی دو کلو گرام گیہوں یا اس کی قیمت یا قیمت کے برابر چاول، باجرہ، جوار (یا کوئی سا اناج) بھی دیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں کفارہ ادا کرنے والے پر یہ بھی واجب ہے کہ مساکین میں وہ لوگ شامل نہ ہوں جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے مثلاً اس کے والدین، دادا یا بیٹے، پوتے اور بیوی وغیرہ۔
جواب: اگر کوئی چاہے تو ایک روزے یا کئی روزوں کا کفارہ ایک ہی مسکین کو اکٹھا دے سکتا ہے۔ چاہے تو کئی روزوں کا کفارہ یکبارگی دے سکتا ہے۔
جواب: رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں الله رب العزت کی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعاؤں کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی اور روحانی فیوضات بھی الله کی رحمت کا حصہ ہیں جو انسان کو صرف روزہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ شخص بدنصیب ہے جو بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے روزہ چھوڑ کر اس کی رحمت سے محروم ہو جائے، ایسے شخص کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ اَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّهِ، وَإِنْ صَامَهُ.
’’جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی الإفطار متعمداً، 2:93، رقم: 723
فقہاء کے نزدیک جس نے روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کھا پی لیا اس پر قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
جواب: شرع کی رو سے ایسی بیماری جس سے جان جانے یا مرض کے بڑھنے یا دیر سے تندرست ہونے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑ دینا لازم ہے جبکہ تندرست ہونے کی صورت میں روزہ کی قضا واجب ہو گی۔ قرآن حکیم میں الله تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ کَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَط يُرِيْدُ اللهُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُبِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللهَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
’’اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، الله تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘
البقرۃ، 2: 185
جواب: کثرتِ ضعف یا بیماری کے باعث جس میں یہ اندیشہ ہو کہ اگرروزہ باقی رکھا تو بیماری یا ضعف بڑھ جائے گا۔ یا یہ ڈر ہے کہ بیماری سے جلد آرام نہ آئے گا تو اس صورت میں روزہ وقت سے پہلے افطار کر لینا جائز ہے جس کی بعد ازاں قضا لازم ہوگی۔
جواب: ایسا مسلمان مرد یا عورت جو بڑھاپے یا کسی ایسی بیماری جس کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو اور یہ عجز دائمی ہو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا فدیہ کہلاتا ہے اور فدیہ میں فقراء کی تعداد شرط نہیں۔ قرآن حکیم میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَعَلَی الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِيْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ط
’’اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔‘‘
البقرة، 2: 184
جواب: شرع کے مطابق اگر کوئی شخص بڑھاپے، کمزوری یا بیماری کے باعث سال بھر میں کسی بھی وقت روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو اور اسے آئندہ زندگی میں بھی روزہ رکھنے کی استطاعت کی امید نہ ہو تو اس صورت میں اسے روزے کا فدیہ ادا کرنا ہو گا، لیکن معمولی بیماری کی وجہ سے رمضان کا روزہ قضا کرنا اور یہ خیال کرنا کہ پھر قضا رکھ لیں گے یا فدیہ ادا کر کے یہ سمجھنا کہ روزہ کا حق ادا ہو گیا درست نہیں۔ رمضان کا روزہ اسی صورت میں چھوڑے جب واقعی روزہ رکھنے کی سکت نہ ہو۔
جواب: روزے کا فدیہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے ایک محتاج کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے یا دو کلوگرام گیہوں یا چار کلوگرام جو یا غلہ کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔ فدیہ فی روزہ، صدقہ فطر کے برابر ہے۔
جواب: مرنے والے کے ذمے اگر فرض یا واجب روزہ ہو اور اسے اپنی حیات میں قضاء کا موقع میسر نہ آیا ہو علاوہ ازیں وہ مالدار بھی ہو تو جتنے روزے رہ گئے ہوں اتنے روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے تاکہ اس کے مال سے فدیہ ادا کر دیا جائے۔ اس وصیت پر عمل واجب ہو گا۔ اگر وصیت نہیں کی تو ورثاء اپنی طرف سے فدیہ ادا کر دیں، تو بھی فدیہ ادا ہو جائے گا۔ فدیہ فی روزہ، صدقہ فطر کے برابر ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ، فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَکَانَ کُلِّ يَوْمٍ مِسْکِيْنٌ.
’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہوں، تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب من مات و عليه صيام رمضان قد فرط فيه، 2: 366، رقم: 1757
لیکن اگر مرنے والا مالدار نہ تھا اور اس کے ورثاء بھی فدیہ ادا نہ کر سکیں تو الله تعالیٰ معاف فرمانے والا، مہربان ہے۔
جواب: بھول کر کھانے پینے کے بعد یہ گمان کیا کہ روزہ ٹوٹ گیا اور قصداً کھا پی لیا تو صرف قضا لازم ہے۔
جواب: بھول کر کھانے سے روزہ اس لئے نہیں ٹوٹتا کہ اس میں روزہ دار کا ارادہ شامل نہیں ہوتا جیسا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَسِيَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَکَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ. فَإِنَّمَا أَطُعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ.
’’روزہ کی حالت میں جو شخص بھول کر کچھ کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے الله تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب أکل الناسی وشربه وجماعة لا يفطر، 2: 809، رقم: 1155
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول الله ﷺ ! میں حالتِ روزہ میں بھول کر کھا پی بیٹھا ہوں (اب کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں الله تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب من أکل ناسياً، 2: 307، رقم: 2398
جمہور ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ بلکہ وہ اپنا روزہ پورا کرے۔ وہ اس کھائے پئے کو الله ل کی طرف سے مہمانی شمار کرے کہ اس نے اپنے بندے کو بھلا کر کھلا پلا دیا لیکن اگر کھاتے پیتے وقت روزہ یاد آیا تو جو کھا پی چکا وہ معاف ہاں اب کھانے کا یا پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہ جانے دے بلکہ اب جو کچھ منہ میں ہے اسے فوراً باہر نکال دے۔
جواب: روزہ دار کو کھاتے ہوئے دیکھے تو یاد دلانا واجب ہے یاد نہ دلایا تو گناہگار ہو گا لیکن اگر جب روزہ دار بہت کمزور ہو تو اس سے نظر پھیرلے اور اس میں جوانی اور بڑھاپے کو کوئی دخل نہیں بلکہ قوت و ضعف یعنی طاقت اور جسمانی کمزوری کا لحاظ ہے لہٰذا اگر جوان اس قدر کمزور ہو کہ یاد دلائے گا تو وہ کھانا چھوڑ دے گا اور کمزوری اتنی بڑھ جائے گی کہ روزہ رکھنا دشوار ہوگا اور کھالے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پورا کرے گا اور دیگر عبادتیں بھی بخوبی ادا کرے گا تو اس صورت میں یاد نہ دلانے میں حرج نہیں بلکہ یاد نہ دلانا بہتر ہے اور اگر بوڑھا ہے مگر بدن میں قوت رکھتا ہے تو اب یاد دلانا واجب ہے۔
جواب: رمضان المبارک میں اگر کسی صحت مند شخص کا روزہ ٹوٹ جائے تو وہ رمضان المبارک کے احترام میں شام تک کھانے پینے سے رکا رہے۔ اسی طرح اگر مسافر دن میں اپنے گھر آجائے یا نابالغ لڑکا بالغ ہو جائے یا حیض و نفاس والی عورت پاک ہو جائے یا مجنوں تندرست ہو جائے تو باقی دن میں شام تک روزہ داروں کی طرح رہے۔
جواب: مسافر کو بحالتِ سفر روزہ ترک کردینا مباح ہے بشرطیکہ سفر اتنا لمبا ہو جس میں قصر واجب ہوتی ہے، اور اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو اس کا سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ آج کل کے دور میں ریل گاڑی، کار، ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر معتدل ہی ہوتا ہے لہٰذا جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے روزہ رکھنے میں کوئی دشواری بھی پیش نہ آتی ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ روزہ رکھے، الله رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
اَيَامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِيْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
’’(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہوo‘‘
البقرة، 2: 184
اس سلسلے میں جمہور فقہاء کا موقف ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ ماہِ رمضان میں جب سفر پر روانہ ہوتے تو ان میں سے کچھ روزہ دار ہوتے اور کچھ روزہ نہ رکھتے۔ روزے دار روزہ چھوڑنے والوں کو اور روزہ چھوڑنے والا روزے دار کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا تھا جیسا کہ حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ. قَدْ صَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِی السَّفَرِ، وَأَفْطَرَ.
’’(حالتِ سفر میں) صائم (روزہ دار) اور مفطر (روزہ نہ رکھنے والے) کو برا بھلا مت کہو کیونکہ حضورنبی اکرم ﷺ نے کبھی سفر میں روزہ رکھا اور کبھی نہیں بھی رکھا۔‘‘
مسلم، الصحيح،کتاب الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافر، 2: 785، رقم: 1113
جواب: جمہور ائمہ کے نزدیک اگر کوئی شخص حالتِ جنابت میں صبح صادق کے بعد تک رہے تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دن نکلنے سے پہلے نہالے تا کہ فجر کی نماز پڑھ سکے، اگر اس وقت غسل نہ کیا تو گنہگار ہوگا اور روزے میں بھی کراہت ہوگی۔
جواب: حالتِ حیض و نفاس میں عورت روزہ نہیں رکھے گی اور حیض و نفاس کی مدت ختم ہو جانے کے بعد اس پر ان دنوں کے روزوں کی قضاء واجب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں حالتِ حیض سے پاک ہونے پر روزوں کا حکم فرماتے۔
ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب ما جاء فی قضاء الحائض الصيام دون الصلاة، 2: 145، رقم: 787
جواب: ایام مخصوصہ (حالتِ حیض و نفاس) میں خواتین کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ روزہ رکھا تو رائیگاں جائے گا اور اس کی قضاء واجب ہو گی۔ اسلام سہل العمل اور انسانی فطرت کے عین مطابق دین ہے اور شارع ں نے اس کے احکامات اور تعلیمات اس احسن طریق سے دیے ہیں کہ کسی بھی فرد واحد کو اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں اس پر عمل کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ ہو۔ معاذہ عدویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے دریافت کیا: کیا بات ہے کہ حائضہ عورت روزہ کی قضا تو کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا: یہ عارضہ ہمیں لاحق ہوتا تھا پھر ہمیں روزے قضا کرنے کا حکم ہوتا مگر نماز قضا کرنے کا حکم نہ ہوتا؟
مسلم، الصحيح، کتاب الحيض، باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاة، 1: 265، رقم: 335
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے قول سے پتہ چلا کہ جس چیز کا شریعت میں حکم دیا جائے یا کسی سے منع کیا جائے، اسے بلا چون و چراں قبول کرنا ہی فرمانبردار امتی کی علامت ہے۔
اگر عقل کی رو سے دیکھا جائے تو ایام مخصوصہ میں خواتین کے لئے ہر ماہ ہفت روز نمازوں کی قضاء روزمرہ زندگی میں ادا کرنا نہایت دشوار ہے جبکہ ماہ رمضان سال میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے لہٰذا ان دنوں کے روزوں کی قضاء کرنا نماز کی نسبت زیادہ آسان اور قابل عمل ہے۔ پس اسی آسانی اور سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعتِ مطہرہ نے ایامِ مخصوصہ میں خواتین کو نمازوں کی مکمل اور روزوں کی قضاء کی رخصت دی ہے۔
جواب: اگر حیض طلوعِ فجر سے پہلے رک جائے جبکہ وقت اتنا باقی ہے کہ اس میں صرف سحری کھائی جا سکتی ہے تو اس صورت میں غسل کئے بغیر وضو کر کے سحری کھانا پینا جائز ہے۔ سحری سے فراغت کے بعد غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ علاوہ ازیں ایسی عورت پر طلوعِ فجر سے پہلے روزہ رکھنے کی نیت واجب ہے۔
جواب: جی ہاں، اگر صبح صادق کے بعد غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے تک کسی وقت بھی عورت حائضہ ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ بعد ازاں اس پر روزہ کی قضا کرنا واجب ہو گا۔
جواب: حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر یہ خوف ہو کہ اس حالت میں روزہ رکھنے سے اسے یا بچے کو نقصان پہنچے گا تو اسے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے لیکن بعد ازاں اس کی قضا واجب ہے جیسا کہ الله تعالی نے فرمایا:
وَمَنْ کَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَ.
’’اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے۔‘‘
البقرة، 2: 158
جواب: حالتِ روزہ میں خاتون خانہ، باورچی، نان بائی بامرِ مجبوری کھانے میں نمک چکھ سکتا ہے بشرطیکہ ذائقہ حلق میں نہ جائے خواہ روزہ فرض ہو یا نفل۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
لَا بأسَ أَنْ يَتَطَعَّمَ الْقِدْرَ اَوِ الشَّيْئَ.
’’روزہ دار اگر ہانڈی یا کوئی اور چیز چکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب اغتسال الصائم، 2: 681، رقم: 1828
جواب: چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر ذائقہ پہچان لیں اور اسے تھوک دیں تاکہ ذائقہ حلق میں نہ جانے پائے چکھنے کے وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں یعنی کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کے لئے اس میں سے تھوڑا سا کھا لینا اور یہ سمجھنا کہ اس میں کراہت نہیں حالانکہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا بلکہ کفارہ کی شرائط پائی جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔
جواب: جی ہاں، روزہ کی حالت میں لپ اسٹک یا پٹرولیم جیلی (ویزلین) لگانا جائز ہے بشرطیکہ ان کا ذائقہ حلق میں نہ جائے۔
جواب: جی ہاں، روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا (یا رسول الله صلی الله علیک والک وسلم) میری آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ کیا میں روزہ کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہاں! (روزے کی حالت میں سرمہ لگا سکتے ہو)۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الکحل للصائم، 2: 97، رقم: 726
جواب: روزہ دار حالتِ روزہ میں کلی بھی کر سکتا ہے اور ناک میں پانی بھی ڈال سکتا ہے لیکن پانی ڈالنے اور کلی کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے جبکہ عام حالات میں اس میں مبالغہ کرنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
اَسْبِغِ الْوُضُوْئَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الاَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الإِسْتِنْشَاقِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا.
’’کامل وضو کرو، انگلیوں کا خلال کرو اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ماجاء فی کراهية مبالغة الإستنشاق للصّائم، 3: 155، رقم: 788
کلی میں مبالغہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منہ بھر کر پانی لے کر بار بار غرغرہ کرے جس سے حلق میں پانی جانے کا اندیشہ ہو اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ یہ ہے کہ جہاں تک ناک کی نرم ہڈی ہو وہاں تک پانی کا بار بار ڈالنا کہ پانی ناک کی جڑ تک پہنچ جائے۔
یاد رہے کہ اگر کلی کرتے وقت بلاقصد پانی حلق میں چلا گیا یا ناک میں خوب اچھی طرح سانس کھینچ کر پانی ڈالا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا جس کی بعد ازاں قضا واجب ہے لیکن اگر روزہ دار کو اپنا روزہ دار ہونا بھول گیا تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
جواب: جی ہاں! روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے بشرطیکہ ٹوتھ پیسٹ کے اجزاء حلق سے نیچے نہ جائیں البتہ مسواک سے دانت صاف کرنا سنت ہے۔ مسواک کے سوکھے یا تر ہونے یا خشک ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جواب: دانتوں سے خون نکل کر حلق میں داخل ہو جائے یا خود اسے نگل لیا جائے ایسی صورت میں خون اگر تھوک پر غالب ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اس صورت میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں اور اگر تھوک خون پر غالب ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
جواب: قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم ہو یا زیادہ لیکن اگر خود اپنے فعل اور کوشش سے قصدًا قے کی جائے اور منہ بھر کر ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَرَعَهُ القَيْئُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَائٌ، وَمَنِ اسْتقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ.
’’جس شخص کو (حالتِ روزہ میں) از خود قے آ جائے تو اس پر قضاء نہیں اور (اگر) جان بوجھ کر قے کی تو وہ (اس روزہ کی) قضاء کرے۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فيمن استقاء عمداً، 2: 90، رقم: 720
جواب: جی ہاں انجکشن، ڈرپ یا کوئی اور چیز جو غذاء یا دواء میں شامل ہو اور دماغ یا معدہ تک اثر انداز ہو اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا اگر شدید بیمار ہے تو اُسے ویسے ہی روزہ نہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم ہے۔ وہ لازمی طور پر افطار کرے اور دواء و غذاء جو معالج ماہر کہے اسے استعمال کرے۔ حتی کہ اگر بیماری کی شدت یا جان جانے کا خوف ہو تو روزہ رکھنا شرعًا ممنوع اور روزہ رکھنے کی صورت میں مریض گناہگار بھی ہوگا۔
جواب: Inhaler انہیلر صرف آکسیجن نہیں بلکہ اس میں دوائی ملی ہوتی ہے جو دل اور معدے تک بطور دوا اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے پرہیز کریں۔ اس کے بغیر اگر سانس کا مریض رہ نہیں سکتا اور سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا رہتا ہے تو روزہ افطار کرلے اور اگر روبصحت ہونے کی توقع نہ ہو تو فی روزہ فطرانے کی مقدار (دو کلو گندم، آٹا، یا اس کی قیمت) فقیر، مسکین کو فدیہ دے خواہ ہر دن خواہ یکمشت، خواہ ایک کو یا زیادہ کو دے۔
جواب: جسے خون دیا جاتا ہے اسے تو لازمی طور پر روزہ افطار کرنا ہے البتہ خون دینے والا اپنی صحت کا خیال کرے۔ خون دینے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس لئے خون دینے والے کو اپنی صحت کے مطابق ایسا قدم اٹھانا چاہئے جس سے اس کا روزہ بھی برقرار رہے اور شدید نقاہت بھی نہ ہو۔ ہاں اگر ایمرجنسی ہے تو ظاہرًا بات ہے کہ کسی انسان کی جان بچانا فرض ہے لہٰذا بایں صورت ضعف برداشت کرے۔
جواب: روزہ دار کے حلق میں غبار، عطر کی خوشبو، دھونی یا دھواں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر کسی روزہ دار نے اس کو قصدًا اپنے حلق میں داخل کیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ حتی کہ جس نے بخور کے ساتھ دھونی دی اور اس کا دھواں سونگھا اور روزہ یاد آنے کے باوجود حلق میں داخل کیا تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ فقہاء نے متعدد جگہ پر دخول (کسی چیز کا خودبخود معدہ میں چلے جانا) اور ادخال (مقصد کسی چیز کو نگلنا) میں فرق کیا ہے کیونکہ ادخال صائم کا اپنا عمل ہے جس سے بچنا ممکن ہے اس کی تائید صاحب نہایہ کا یہ قول کرتا ہے کہ جب مکھی پیٹ میں داخل ہو گئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ کیونکہ کوئی ایسا عمل نہیں پایا گیا جو روزہ کی ضد ہو۔ اور وہ خارج سے کسی شے کا باطن میں داخل کرنا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved