جواب: رؤیت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی دیکھنا، جاننا اور معلوم کرنا کے ہیں۔ رؤیتِ ہلال سے مراد پہلی رات کے چاند (crescent) کو دیکھنا ہے تاکہ نہ صرف قمری تاریخ کا حساب رکھنا ممکن رہے بلکہ تقویم (کیلنڈر) کے ذریعے اہم ایام و لیالی مثلاً نصف شعبان کی رات، رمضان اور عیدین وغیرہ کا تعین بھی کیا جا سکے۔
جواب: رؤیت کا دار و مدار عموما مطلع و فضا صاف ہونے اور مشاہدہ کرنے والے کی نظر کمزور نہ ہونے کے علاوہ مقامی موسمی کیفیات پر بھی ہوتا ہے۔ دوربین کی مدد سے چاند دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمزور نظر والا شخص عینک کی مدد سے چاند دیکھے۔ لہٰذا دورِ جدید میں جہاں زندگی کے ہر شعبے میں سائنسی ترقی سے بھرپور استفادہ کیا جارہا ہے، رویتِ ہلال کے لیے بھی دوربین و دیگر سائنسی آلات استعمال کیے جانے چاہییں تاکہ قومی وحدت بھی پیدا ہو اور جگ ہنسائی بھی نہ ہو۔
جواب: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ چاند دیکھنے کے بعد یہ دعا مانگتے تھے:
اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالسَّلَامِ، وَالتَّوْفِيْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللهُ.
هيثمی، موارد الظمآن، 1: 589، رقم: 2374
’’اے اللہ! ہم پر یہ چاند امن، ایمان، سلامتی، اسلام اور اس توفیق کے ساتھ طلوع فرما جو تجھ کو پسند ہو اور جس پر تو راضی ہو، (اے چاند) ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔‘‘
جواب: اگر کوئی شخص کسی خاص دن کے روزے کا عادی ہو اور اس تاریخ (30 شعبان) کو وہ دن آجائے مثلاً ایک شخص ہر پیر کو روزہ رکھتا ہے اور 30 شعبان کو پیر ہو تو وہ اپنے اسی نفلی روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں جس آدمی کی عادت اس دن روزہ رکھنے کی ہو وہ رکھ سکتا ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب لا تقدموا رمضان بصوم يوم ولا يومين، 2: 762، رقم: 1082
جواب: اگر مطلع صاف ہو اور چاند دیکھنے والا آدمی باہر سے کسی بلند پہاڑی مقام سے بھی نہ آیا ہو بلکہ اس علاقے اور شہر کا ہو اگر وہ چاند دیکھنے کا دعویٰ کرے جس کو باوجود کوشش کے اس کے علاوہ اور کسی نے نہ دیکھا ہو تو ایسی صورت میں اس کی شہادت پر چاند ہو جانے کا فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ اس صورت میں دیکھنے والے آدمی ایک سے زیادہ اتنی تعداد میں ہونے چاہئیں جن کی شہادت پر اطمینان ہو جائے۔ البتہ عید کے چاند کے ثبوت کے لئے کم از کم دو دیندار اور قابلِ اعتبار مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے۔
جواب: اگر مطلع صاف نہ ہو یعنی آسمان پر بادل، دھواں، گرد و غبار کا اثر ہو تو رمضان المبارک کے چاند کے لئے ایک دیندار، پرہیزگار اور سچے آدمی کی گواہی معتبر ہے چاہے مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ اسی طرح جس شخص کا فاسق ہونا ظاہر نہیں اور ظاہر میں دیندار پرہیزگار معلوم ہوتا ہو اس کی گواہی بھی معتبر ہے۔ امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ کہتے ہیں: ایک بار لوگوں کو ہلالِ رمضان میں شک ہو گیا۔ ان کا ارادہ ہو گیا کہ تراویح پڑھیں گے نہ روزہ رکھیں گے کہ اچانک حرہ سے ایک اعرابی آیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ اس کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو الله کے وحدہ لاشریک ہونے اور میرے رسول الله ہونے کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ آپ ﷺ نے بلال کو اعلان کرنے کا حکم دیا۔ سو بلال نے یہ اعلان کیا کہ لوگ تراویح پڑھیں اور روزہ رکھیں۔
ابوداؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی شهادة الواحد علی رؤية هلال رمضان، 2: 289، رقم: 2341
جواب: تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے: ایک دفعہ آرام کرنا جبکہ تراویح کے معنی ہے: متعدد بار آرام کرنا۔ نمازِ تراویح کی تعداد بیس ہے اس لئے ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر ٹھہر کر اور سکون کرنے کے بعد نماز کا شروع کرنا مستحب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیا ہے۔ نماز تراویح کا پڑھنا مرد و عورت سب کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔
قیامِ رمضان کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کو رمضان کی راتوں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے:
’’جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب فی قيام رمضان وهو التراويح، 1: 523، رقم: 759
نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے ہوتاہے اور رات کے آخری حصے میں پڑھنا افضل ہے۔ مگر آج کے دور میں نمازیوں کی سہولت کی خاطر پہلے حصہ میں پڑھنا افضل ہے۔
جواب: صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس (20) رکعات ہیں اور یہی سوادِ اَعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ ہے۔
عسقلاني، تلخيص الحبير، 2: 21
بيهقی، السنن الکبری، 2: 699، رقم: 4617
مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔
جواب: ماہ رمضان المبارک میں تراویح کے دوران پورے قرآن حکیم کا پڑھنا سنت ہے بشرطیکہ مقتدیوں کو اس سے اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ افضل یہی ہے کہ صلاۃ التراویح کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت میں ان کے حالات کو ملحوظ رکھا جائے اور پڑھنے میں اتنی جلدی نہ کی جائے جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔
جواب: عصر حاضر میں ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے جو درحقیقت صریحاً سنت کے خلاف ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دورانِ ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ ﷺ نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور انہیں مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے۔ آپ ﷺ نے ان کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی:
فَاقْرَأْهُ فِي کُلِّ سَبْعٍ.
’’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حقاً…، 2: 813، رقم: 1159
مذکورہ بالا حدیث سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج صریحاً خلافِ سنت ہے لہٰذا اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ حضور ﷺ کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے۔ محافل شبینہ کے لئے چند باتوں کو پیش نظر ضرور رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کے الفاظ مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔ شبینہ یا کسی اور صورت میں قرآن کریم اتنا پڑھا جائے جس سے دل بوجھل نہ ہو جونہی اکتاہٹ محسوس ہو تلاوت ختم کر دی جائے۔ حضرت جندب بن عبد الله بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’قرآن پڑھتے رہو جب تک تمہارا دل زبان کی موافقت کرتا رہے (یعنی جب تک اکتاہٹ نہ ہو) اور جب دل اور زبان میں اختلاف ہو جائے تو اٹھ جاؤ۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب النهی عن اتباع متشابه القرآن، 4: 2054، رقم: 2667
شبینہ میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نامناسب ہے۔ اس لئے کہ تلاوت قرآن سننا واجب ہے اور نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا مناسب اور دانش مندانہ بات یہ ہے کہ شبینہ کے لئے اوّل تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے اندرونی نظام ہو تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔
جواب: عورتوں کا مردوں کے علاوہ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں علماء کا اختلاف ہے بعض فقہا مکروہ کے قائل ہیں۔ صاحبِ ہدایہ نے لکھا ہے:
ويکره للنساء أن يصلين وحدهن الجماعة … فإن فعلن قامت الإمامة وسطهن.
’’اکیلی عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔‘‘
مرغيناني، الهداية، 1: 84
احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔
حاکم، المستدرک، 1: 320، رقم: 731
اس روایت سے ثابت ہوا کہ دینی تربیت اور عبادت الٰہی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اگر عورتیں جمع ہوکر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھ سکتی ہے کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے۔ فقہا کرام نے لکھا ہے کہ عورت، عورتوں کی اور نابالغ، نابالغوں کا امام ہوسکتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved