جواب: باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتی کہ اگر دو آدمی بھی ہوـں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَھُمَا جَمَاعَةٌ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب الاثنان جماعۃ، 1: 522، رقم: 972
’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
صَـلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَـلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ دَرَجَةً.
بخاری، الصحیح، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، 1: 231، رقم: 219
’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں: اے الله! اس پر سلامتی بھیج، اے الله! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، 1: 232، رقم: 620
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جو الله کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصلاۃ، باب في فضل التکبیرۃ الاولٰی، 1:281، رقم: 241
4۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہما فرماتے ہیں:
’’جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) الله تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔‘‘
پھر حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہما نے فرمایا:
’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی، 1: 452، رقم: 654
جواب: بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّـلَاةِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَو یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ: أَنَّهُ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا، أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ، لَشَھِدَ الْعِشَاءَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ، 1: 231، رقم: 618
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جائوں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔‘‘
جواب: امام کے لیے درج ذیل چھ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
جواب: اگر امام کی قراء ت درست نہ ہو اور مقتدی امام سے بہتر قراء ت کر سکتا ہو تو مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ جماعت کی امامت کرائے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا کَانُوْا ثَـلَاثَةً فَلْیَؤُمَّھُمْ اَحَدُھُمْ. وَأَحَقُّھُمْ بِالإِمَامَةِ اَقْرَؤُھُمْ.
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ؟، 1: 464، رقم: 672
’’جب تین نمازی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرے، اور ان میں امام بننے کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جسے قرآن کا سب سے زیادہ علم ہو۔‘‘
اگر مقتدیوں میں سے کسی کی بھی قراء ت اتنی صحیح نہ ہو تو بلاتکلف ان میں سے کسی کو امام بنا لیا جائے اور اس کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے۔ ترک جماعت کسی طور جائز نہیں کیونکہ نماز باجماعت کی اتنی تاکید ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلَاةُ الْمَکْتُوْبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرَّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا اَوْ إِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب امامۃ البر و الفاجر، 1: 233، رقم: 594
’’تم پر فرض نماز لازمی ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد، خواہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔‘‘
جواب: باجماعت نماز کے لیے صف کی ترتیب اس طرح ہو کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے پھر دوسری پھر تیسری علی ہذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَتِمُّوا الصَّفَّ المُقَدَّمَ ثُمَّ الَّذِي یَلِیْهِ فَمَا کَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْیَکُنْ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف، 1:258۔259، رقم: 671
’’پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف پس اگر صفوں میں کوئی کمی کی رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو۔‘‘
اگر مردوں، بچوں، مخنثوں اور عورتوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ آگے مرد کھڑے ہوں، پیچھے بچے، پھر مخنث اور اس کے بعد عورتیں۔
جواب: جی نہیں! پہلی صف مکمل کرنے کے بعد مقتدی دوسری صف میں کھڑا ہو۔
جواب: باجماعت نماز کے وقت امام کے ساتھ اگر ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد امام کے دائیں جانب اور عورت ان دونوں کے پیچھے فاصلے پر یا پردے میں کھڑی ہو۔
جواب: جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد کی طرف دوڑ کر یا تیزی سے نہیں چلنا چاہیے بلکہ سکون سے باوقار طریقے سے چلنا چاہیے اس لیے کہ جب انسان نماز کے لیے نکلتا ہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا نُوْدِیَ بِالصَّلاَةِ فَأْتُوْھَا وَأَنْتُمْ تَمْشُوْنَ. وَعَلَیْکُمُ السَّکِیْنَةُ۔ فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا.
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب إتیان الصلاۃ بوقارِ و سکینۃ، 1: 421، رقم: 602
’’جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو نماز کے لیے چلتے ہوئے آؤ اور تم پر سکون و وقار لازم ہے جو (رکعات) تمہیں مل جائیں پڑھ لو اور جو رہ جائیں ان کو بعد میں پورا کر لو۔‘‘
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ ﷺ نے دوڑنے کی آواز سنی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا بات تھی؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم لوگ جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیزی سے دوڑتے ہوئے آرہے تھے۔ فرمایا:
’’ایسا نہ کیا کرو، جب تم نمازپڑھنے آؤ تو سکون اور وقار کے ساتھ آؤ اور جو (رکعات) تمہیں مل جائیں انہیں پڑھ لو اور جو رہ جائیں انہیں بعد میں پورا کر لو۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب إتیان الصلاۃ بوقار وسکینۃ، 1: 421، 422، رقم: 603
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص نماز ادا کرنے مسجد جا رہا ہوتا ہے وہ حکماً نماز ہی میں ہوتا ہے۔ اس لیے اسے چاہئیے کہ نمازکے لیے جاتے وقت کوئی ناشائستہ یا وقار سے گری ہوئی حرکت یا جلدبازی نہ کرے۔
جواب: شارع اسلام ں نے جہاں بلاجواز ترکِ جماعت پر وعید فرمائی ہے وہاں پرشفقت و رحمت فرماتے ہوئے بامرِ مجبوری ترکِ جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔ وہ خاص حالات یا عذر جن کی بناء پر نماز کو باجماعت چھوڑ کر انفرادی طور پر ادا کیا جاسکتا ہے یہ ہیں:
غرضیکہ مندرجہ بالا صورتوں میںکسی عذر یا مجبوری کی بنا پر جماعت کا ترک کرنا جائز ہے جبکہ بلا عذر جماعت چھوڑنے پر وعید ہے۔
جواب: اگر کسی شخص نے تنہا فرض نماز شروع کی تھی کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو نماز کو توڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے۔
جواب: اگر کسی نمازی نے مسجد میں آکر کسی بھی نماز کی سنتیں یا نوافل ادا کرنا شروع کیے ہی تھے کہ نماز باجماعت شروع ہوگئی تو وہ اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شریک ہو گا۔ اگر اس نے سنن یا نوافل کی ایک رکعت پڑھ لی ہو تو پھر دوسری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے گا اور اگر تین رکعات ادا کر چکا ہو تو چوتھی رکعت مکمل کر کے جماعت میں شریک ہو گا۔
جواب: بہتر یہی ہے کہ سنتیں نمازِ فجر شروع ہونے سے قبل ادا کر لی جائیں۔ اگر باَمر مجبوری کوئی نمازی باجماعت نماز سے قبل سنتیں ادا نہ کر سکے اور اسے یقین ہو کہ امام کے نماز مکمل کرنے سے پہلے وہ جماعت میں شریک ہو جائے گا تو پھر وہ سنتیں الگ جگہ پر ادا کر کے شاملِ جماعت ہو۔
امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں نقل کرتے ہیں کہ صحابی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ اگر نمازِ فجر باجماعت شروع ہو جاتی اور انہوں نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو وہ پہلے مسجد کے کسی گوشے میں سنتیں ادا کرتے، پھر باجماعت نماز میں شریک ہو جاتے۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
أنہ کان یدخل المسجد وَالنَّاس صفوف فِي صلٰوةِ الفجرِ، فیصلی الرکعتین في ناحیۃ المسجد، ثُمَّ یدخل مع القوم في الصلاة.
طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب الرجل یدخل المسجد والإمام في صلاۃ الفجر، 1: 487، رقم: 2164
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور لوگ (باجماعت) نمازِ فجر میں صف بستہ ہوتے تو یہ پہلے مسجد کے گوشے میں دو رکعت (سنتیں) پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے۔‘‘
لیکن ہمارے ہاں یہ انتہائی غلط طریقہ رائج ہے۔ جیسے بعض لوگوں کا معمول ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور وہ جماعت کی صفوں میں متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ایک نقصان یہ ہے کہ امام بآواز بلند قرآن حکیم کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات سنتوں میں مشغولیت کی وجہ سے فرض نماز کی جماعت چھوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں جہاں فجر کی سنتیں پڑھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے وہاں فقہاء نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ نمازی کو اگر فجر کی سنتیں پڑھنے کی وجہ سے جماعت سے محروم ہونے کا خدشہ ہو تو پھر سنتیں ترک کر کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد استواء (وقتِ مکروہ) سے پہلے سنتوں کی قضا کرے۔
جواب: بعض احادیث کی رُو سے عورتوں کا باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جانا ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے عہدِ مبارک میں خواتین بھی آپ ﷺ کے ساتھ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو کر باجماعت نماز میں شریک ہوتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا:
کُنَّ نِسَأءُ الْمُؤمِنَاتِ، یَشْهَدْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِﷺ صَـلَاۃَ الْفَجْرِ، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِهِنَّ، ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ إلٰی بُیُوتِهِنَّ حِیْنَ یَقْضِیْنَ الصَّـلَاۃَ، لَا یَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ.
بخاری، الصحیح، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر، 1: 210، 211، رقم: 553
’’مسلمان عورتیں حضور نبی اکرمﷺ کے ساتھ نمازِ فجر میں شامل ہونے کی خاطر چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوا کرتی تھیں۔ جب نماز سے فارغ ہو جاتیں تو اپنے گھروں کو واپس آ جاتیں اور اندھیرے کے باعث کوئی بھی انہیں پہچان نہیں سکتا تھا۔‘‘
مگر اس کے ساتھ ہی ایسی احادیث بھی تواتر کے ساتھ موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کا اپنے گھر کے کسی کونے میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے اگرچہ بعض احادیث میں خواتین کو خاص مواقع پر نمازِ باجماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ عورت کی بہترین نماز وہی ہے جو مسجد کی بجائے گھر میں ادا کی جائے۔ اس حوالے سے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
لَا تَمْنَعُوا نِسَائَکُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُیُوتُھُنَّ خَیْرٌ لَھُنَّ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی خروج النساء إلی المسجد، 1: 224، رقم: 567
’’اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو لیکن ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
گویا مردوں اور عورتوں کے لیے جس طرح دیگر بہت سے معاملات میں الگ الگ احکام ہیں اسی طرح باجماعت نماز کے متعلق بھی دونوں کے لیے علیحدہ حکم ہے۔ مرد اگر جماعت چھوڑ کر انفرادی طور پر اپنے گھر ہی نماز پڑھنے کو اپنا معمول بنائے تو یہ اس کے لیے جائز نہیں بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے والوں پر اس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ان کے گھروں کو جلا دینے کی بات کی مگر فرمایا کہ ایسا کرنے میں عورتوں اور بچوں کی موجودگی مانع ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ ایسے شخص کی انفرادی نماز صرف ایک درجہ ثواب کے برابر ہے جبکہ باجماعت نماز ادا کرنے والے کا ثواب ستائیس (27) گنا زیادہ ہے۔
امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا۔
جواب: دو آدمیوں کی جماعت ہو سکتی ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِثْنَانِ فَمَا فَوْقَھُمَا جَمَاعَةٌ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب الاثنان جماعۃ، 1: 522، رقم: 972
’’دو یا دو سے زیادہ (مردوں) پر جماعت ہے۔‘‘
اس صورت میں امام، مقتدی کو اپنے دائیں جانب کھڑا کرے گا، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے:
حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے میرے سر کو پیچھے کی طرف سے پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔
بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب اذ قام الرجل عن یسار الإمام، 1: 255، رقم: 693
جواب: جس مسجد میں اذان اور اقامت نہ پڑھی جائے وہاں جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
جواب: امامت کا حق دراصل مرد کے لیے ہے۔ لیکن اگر نماز میں صرف عورتیں ہی ہوں تو اس صورت میں عورت ان کی امامت کرواسکتی ہے، تاہم عورتوں کا مردوں کے علاوہ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض فقہا مکروہ کے قائل ہیں۔ صاحبِ ہدایہ نے لکھا ہے:
ویکره للنساء أن یصلین وحدھن الجماعۃ … فإن فعلن قامت الإمامۃ وسطھن.
مرغینانی، الھدایۃ، 1: 56
’’اکیلی عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔‘‘
احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے:
انها کانت تؤذن وتقیم وتؤم النساء، فتقوم وسطھن.
حاکم، المستدرک، 1: 320، رقم: 731
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اذان دیتی تھیں، نماز کے لئے اقامت کہتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہوکر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔‘‘
اس روایت کی رُو سے ثابت ہے کہ دینی تربیت اور عبادت الہٰی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اگر عورتیں جمع ہوکر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوں گی۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھے گی کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے۔
فقہا کرام نے لکھا ہے کہ عورت عورتوں کی اور نابالغ نابالغوں کا امام ہوسکتا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری، 1: 84
جواب: نمازِ پنجگانہ مسجد میں باجماعت ادا کرنے کی درج ذیل حکمتیں ہیں:
جواب: نماز باجماعت کے فلسفے کے درج ذیل پانچ اصول ہیں جن کو اپنانے سے معاشرے کی اصلاح احسن طریقے سے ہو سکتی ہے:
1۔ خاتمہ انتشار
اسلام میں اجتماعیت کا تصور ملت کو ہر قسم کے انتشار اور بدنظمی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کا حوالہ دینا خالی از فائدہ نہ ہو گا۔
ایک دفعہ حضور نبی اکرمﷺ مسجد میں تشریف لائے تو لوگوں کو ٹولیوں کی صورت میں ادھر اُدھر بیٹھے دیکھا۔ آپ ﷺ نے انہیں سرزنش کی اور متنبہ فرمایا کہ اگر تم اس طرح منتشر ہوگے تو تمہارے دل کبھی ایک دوسرے سے نہ مل سکیں گے۔
ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب من یستحب أن یلي الإمام فی الصف وکراھیۃ التاخر، 1:260، رقم: 675
اس ارشادِ رسولﷺ سے امتِ مسلمہ کو تعلیم ملتی ہے کہ وہ اپنی صفوں کو انتشار کی لعنت سے پاک رکھیں۔
2۔ فروغِ وحدت و استحکامِ ملت
اجتماعیت کا دوسرا اصول امت میں وحدتِ فکر و عمل اور اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کا متقاضی ہے۔ مسجد میں صف بندی اور قبلہ رو ہونے سے یہی تعلیم ملتی ہے جس کے سانچے میں زندگی کو من حیث المجموع ڈھال لینے سے ملتِ اسلامیہ قوت و استحکام سے بہرہ ور ہو سکے گی۔
3۔ نظم و نسق کا لحاظ
اجتماعیت کا تیسرا اصول صرف اس پر موقوف نہیں کہ صف بندی کر کے بیٹھے رہیں بلکہ اس کی نتیجہ خیزی کے لیے لازمی و لابدی ہے کہ صفوں میں ترتیب و قرینہ کو ملحوظ رکھا جائے۔ حضورنبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے:
’’تم ایسی صفیں کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے الله تعالیٰ کے سامنے بناتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول الله! فرشتے الله تعالیٰ کے سامنے کیسے صفیں بناتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’پہلی صف مکمل کرنے کے بعد دوسری صف بناتے ہیں اور درمیان میں جگہ نہیں چھوڑتے۔‘‘
ابن ماجہ، السنن، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب إقامۃ الصفوف، 1: 532، 533، رقم: 992
مسجد کے اندر اور مسجد سے باہر نظم ونسق (discipline) کے اصول کا اطلاق امت کو متحد و منظم رکھنے اور اس کی شیرازہ بندی کے لیے اَز بس ضروری ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل ارشادِ ربانی:
وَاعْتَصِمُوْا بِجَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.
آل عمران، 3: 103
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
حرزِ جاں بنانے کے قابل ہے تاکہ باطل کے مقابلے میں اہلِ اسلام کی ہوا نہ اکھڑے اور اقوامِ عالم میں انہیں ننگ و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
4۔ تنظیم سازی
اجتماعیت کا چوتھا اصول تنظیم سازی ہے۔ جس طرح باجماعت نماز میں حکم ہے کہ جب تک صفِ اوّل مکمل نہ ہو دوسری صف نہ بنائی جائے اور صفوں میں حفظ مراتب کاخیال رکھا جائے یعنی پہلی صف میں عمر اور علمی مرتبہ کے اعتبار سے بڑے بڑے لوگ کھڑے ہوں اور دوسری صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو درجے میں ان سے کم تر ہوں۔ آخری صف میں بچے اور اگر عورتیں بھی شاملِ جماعت ہو تو وہ سب پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔ اس اصول کا اطلاق نماز سے باہر عملی زندگی میں بھی بہمہ وجوہ ہوتا ہے۔ جس میں تنظیم کی اہمیت و افادیت ایک مسلمہ امر ہے۔
5۔ قیادت کی اہلیت
اجتماعیت کا پانچواں اصول قیادت کا چناؤ ہے۔ جس طرح نماز باجماعت کی امامت کے لیے شریعتِ مطہرہ نے کسی ایسے شخص کو امام مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جو ان شرائط پر امکانی حد تک پورا اترتا ہو جنہیں کتب فقہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
امام چونکہ مفروض الاطاعت ہے اور اس کی تقلید لازم قرار دی گئی ہے لہٰذا بحیثیت امام اس شخص کی تقرری عمل میں لائی جائے جسے اپنے مقتدیوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہو۔ امام کی اہلیت کا معیار اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُھُمْ لِکِتَابِ اللهِ تَعَالی، فَإِنْ کَانُوْا فِی الْقِرَأةِ سَوَاءً َأَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ کَانُوْا فِی السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُھُمْ ھِجْرَةً، فَإِنْ کَانُوْا فِی الْھِجْرَةِ سَوَاءً فَأَکَبَرُهُمْ سِنًّا.
ترمذی، السنن، ابواب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ، 1: 274، رقم: 235
’’قوم کی امامت وہ کرے گا جو ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہے اگر قراء تِ قرآن میں سب برابری کا درجہ رکھتے ہوں تو پھر جو سب سے زیادہ عالمِ سنت ہو وہ امامت کرے۔ اس میں بھی سب برابر ہوں تو جو ہجرت میں سب سے مقدم ہو (وہ امامت کرے)، اس میں بھی سب برابر ہو ں تو جو عمر میں سب سے زیادہ ہو (وہ امامت کرے)۔‘‘
اس اصول سے بغیر کسی ابہام کے امتِ مسلمہ کے لیے یہ ضابطہ وضع کیا گیا ہے کہ اسے اپنا قائد کسی ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہیے جو ہر لحاظ سے قیادت کا اہل اور مستحق ہو۔ ملت کے تشخص اور وجود کی بقا کا انحصار لازمی طور پر ایسے امیر اور قائد پر ہے جو مطلوبہ معیار پر پورا ترتا ہو۔ اس ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد گرامی خصوصی توجہ چاہتا ہے:
لَا إِسْـلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَۃَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَۃَ إِلَّا بِطَاعَةٍ.
دارمی، السنن، 1: 91، رقم: 251
’’جماعت کے بغیر اسلام کا کوئی وجود نہیں، اور بغیر کسی امیر کے جماعت کا کوئی وجود برقرار نہیں رہ سکتا، اور بغیر اطاعت اور حکم ماننے کے قائد کا کوئی وجود نہیں۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved