Silsila Ta‘limat-e-Islam (5): Taharat awr Namaz (Fazail o Masail)

نماز

سوال نمبر 84: صلاۃ یعنی نماز کسے کہتے ہیں؟

جواب: لفظ صلوٰۃ اسم ہے جو فعل صَلَّی کا مصدر ہے۔ عربی لغت میں یہ لفظ کئی معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن محاورۂ عرب کی رُو سے اصطلاح کے قریب تر معنی دعا، نماز اور تسبیح کا ہے۔

ابن منظور، لسان العرب، 14: 464، 465

اس اعتبار سے بندہ ذات باری تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے کرم اور فضل و رحمت کی خیرات طلب کرنے کے لیے خشوع اور خضوع کے ساتھ سراپا التجا رہے۔ اس کے اسی حق بندگی بجا لانے کے عمل کو صلوٰۃ یعنی نماز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کائناتِ ارضی و سماوی کی ہر مخلوق اپنے اپنے حسبِ حال بارگاهِ خداوندی میں صلوٰۃ و تسبیح اور تحمید میں مصروف نظر آتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهُ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰـوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰٓـفّٰتٍ ط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِیْحَهٗ ط وَاللهُ عَلِیْمٌم بِمَا یَفْعَلُوْنَo

النور، 24: 41

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔‘‘

لفظ صلوٰۃ کے متعدد معانی میں سے ایک معنی کسی چیز کو آگ کی تپش میں رکھ کر سیدھا کرنا بھی ہے۔

ابن منظور، لسان العرب، 14:468

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا ہوتا ہے تو اسے آگ کے قریب لے جاتے ہیں اور وہ اس کی تپش سے نرم اور لچکدار ہو جاتی ہے جس کے بعد اسے سیدھا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ انسان میں بھی اس کے نفس امارہ کے سبب کجی ہوتی ہے اگر انسان دن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حضور عجز و نیاز بجا لاتا رہے تو اس کے نفس کی کجی آتش قرب الٰہی کی حدت سے دور ہو جاتی ہے اور قربت بندگی کی انتہاؤں کو پہنچ کر بندے کے لیے معراج بن جاتی ہے۔ جہاں انسان دنیا و مافیہا کو بھول کر مشاہدہ حق کی لذت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

پس نماز کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ زبان و دل اور ہاتھ پاؤں وغیرہ سے رب کائنات کی گوناگوں نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اس خدائے رحمن و رحیم کی یاد کو عملاً دل میں بسا لے اور حسنِ مطلق کی حمد و ثنائ، اسی کی یکتائی اور اسی کی بڑائی کا اقرار کرے۔

سوال نمبر 85: نماز کو دین کا ستون کیوں کہا گیا ہے؟

جواب: نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے، حدیثِ مبارکہ میں ہے:

اَلصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّیْنِ، فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ ھَدَمَ الدِّیْنَ.

عجلونی، کشف الخفائ، 2: 40

’’نماز دین کا ستون ہے جس نے اس کو ترک کیا پس اس نے پورے دین کو منہدم کیا۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز کو دین کا مرکزی ستون قرار دیا ہے جس طرح کوئی عمارت بغیر ستون کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح دین کی عمارت اقامتِ صلوۃ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ دین کی عمارت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ نماز قائم کرے۔

سوال نمبر 86: نماز ادا کرنے کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نماز ادا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں تقریبًا سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ درج ذیل آیاتِ مبارکہ میں نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے:

1۔ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَo

البقرۃ، 2: 43

’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔‘‘

2۔ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo

البقرۃ، 2: 153

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘

3۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُالزَّکٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo

البقرۃ، 2: 277

’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘

اِس کے علاوہ کثیر احادیث مبارکہ میں فضیلتِ نماز بیان کی گئی ہے اور نماز ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ نیز نماز کی جملہ تفصیلات بھی ہمیں احادیث میں ہی ملتی ہیں۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

1۔ خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللهُ تعالیٰ، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوْءَ ھُنَّ وَصَلاَّھُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَھُنَّ وَخُشُوْعَھُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اللهِ عَهْدُ أَنْ یَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ لَهُ عَلَی اللهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَلَهُ، وَ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.

أبوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب في المحافظۃ في وقت الصلوات، 1: 174، 175، رقم: 425

’’پانچ نمازیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ جس نے ان نمازوں کو بہترین وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور کامل خشوع سے ادا کیا تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔‘‘

2۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّﷺ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ یَتَهَافَتُ فَاَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ یَتَھَافَتُ، قَالَ: فَقَالَ: یَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّ الصَّلَاةَ یُرِیْدُ بِهَا وَجْهَ اللهِ فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ کَمَا یَتَهَافَتُ ھَذَا الْوَرَقُ عَنْ ھَذِهِ الشَّجَرَۃِ.

احمد بن حنبل، المسند، 5: 179، رقم: 21596

’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ موسمِ سرما میں جب پتے (درختوں سے) گر رہے تھے باہر نکلے، آپ ﷺ نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا، ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شاخ سے پتے گرنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے پکارا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللہ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: مسلمان بندہ جب نماز اس مقصد سے پڑھتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑتے جا رہے ہیں۔‘‘

3۔ عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلَاتِهِ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ.

نسائی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب المحاسبۃ علی الصلاۃ، 1: 232، رقم: 465

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اگر نماز شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کی گئی ہوئی تو وہ شخص نجات اور چھٹکارا پائے گا اور مقصد حاصل کرے گا۔‘‘

سوال نمبر 87: نماز کے طبی فوائد کیا ہیں؟

جواب: نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست ہمارا سوال طبی تحقیقات کے بارے میں نماز کا کردار ہے۔ کیونکہ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر (physiotherapists) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا ہے جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔

ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی.

النساء، 4: 142

’’اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔‘‘

تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول کی مقدار کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔

قرآنی اَحکامات کی مزید وضاحت حضور نبی اکرم ﷺ کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:

فَإنَّ فِی الصَّلَاةِ شِفَاءً.

احمد بن حنبل، المسند، 2: 390

’’بے شک نماز میں شفاء ہے۔‘‘

جدید سائنسی تحقیق کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار 150 سے 250 ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لیے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لیے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔

نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِ جدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے اِرشاد فرمایا:

أَذِیْبُوا طَعَامَکُمْ بِذِکْرِ اللهِ وَ الصَّلاۃِ.

طبرانی، المعجم الأوسط، 5: 500، رقم: 4949

’’اپنی خوراک (کے کولیسٹرول) کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔‘‘

اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کے اِرشاد اور عمل کے مطابق پانچ نمازیں ان کے مقررہ اوقات میں ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔

سوال نمبر 88: فرض نمازوں کی انفرادی فضیلت کیا ہے؟

جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے مختلف اوقات میں فرداً فرداً پانچوں نمازوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔

1۔ فجر اور عشاء کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَلَّی الْبَرْدَیْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ.

بخاری، الصحیح، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب فضل صلاۃ الفجر، 1:210، رقم: 548

’’جس شخص نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں ادا کیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

اولاً فجر کی نماز کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ اس وقت انسان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ ہوا کے خوشگوار جھونکے اسے تھپکیاں دے دے کر خواب شیریں کی آغوش میں لے جاتے ہیں اور شیطان ہر حربے سے اسے غفلت کی نیند پڑا رہنے پر اکساتا رہتا ہے۔ ایک بندئہ خدا میٹھی نیند اور آرام کو ترک کر کے بستر سے نماز کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو شیطان کی ساری محنت اکارت جاتی ہے۔

دوسرا عشاء کا وقت ہے جب انسان دن بھر کی تھکن سے چور، کھانا کھاتے ہی بستر راحت پر دراز ہونا چاہتا ہے اور شیطان حیلوں بہانوں سے اسے عشاء کی نماز پڑھنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بندئہ خدا نفسانی خواہشات اور شیطان کے حربوں کے باوجود بارگاهِ ایزدی میں نماز کے لیے حاضر ہو کر شیطان کے سارے عزائم خاک میں ملا دیتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کا ان دو اوقات کے عبادت گزار بندوں کو جنت کی بشارت دینا اس حکمت کی بناء پر ہے کہ جو شخص فجر اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کو اپنا معمول بنا لیتا ہے، اس کے لیے باقی تین نمازوں کو ادا کرنا گراں نہیں ہوتا۔

2۔ نمازِ عصر کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَن تَرَکَ صَـلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ.

بخاری، الصحیح، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب إثم من ترک العصر، 1: 203، رقم: 528

’’جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہو گئے۔‘‘

قرآن حکیم میں اس نماز کی محافظت کی خصوصی تلقین کی گئی ہے:

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی.

البقرۃ، 2: 238

’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی۔‘‘

3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل حدیثِ مبارکہ میں فجر اور عصر کی نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والوں کو نارِ دوزخ سے رہائی کی بشارت عطا فرمائی:

لَنْ یَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا یَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ.

مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلٰوۃ، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیھا، 1:440، رقم: 634

’’جس نے سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور اس کے غروب ہونے سے قبل یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کی وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘

4۔ اسی طرح پنجگانہ نماز کی فضیلت کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم گناہ کرتے رہتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ ظہر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ عصر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ مغرب پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو جب نمازِ عشاء پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو ڈالتی ہے، پھر تم سو جاتے ہو اور بیدار ہونے تک تمہارا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔‘‘

طبرانی، المعجم الصغیر، 1: 91، رقم: 121

سوال نمبر 89: قرآن حکیم کی کتنی آیات میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے؟

جواب: قرآن حکیم میں کم و بیش سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے جن میں سے 80 مقامات پر صریحاً نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن سے نماز پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے مگر اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جا رہا ہے:

1۔ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَo

البقرۃ، 2:43

’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔‘‘

2۔ فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللهُ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ج فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ج اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo

النساء، 4: 103

’’پھر (اے مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو نماز کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘

3۔ اِنَّنِیْٓ اَنَا اللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِی وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْo

طہ، 20: 14

’’بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘

4۔ وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ط لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا ط نَحْنُ نَرْزُقُکَ ط وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰیo

طه، 20: 132

’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے۔‘‘

5۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo

الحج، 22: 41

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘

6۔ مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo

الروم، 30: 31

’’اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔‘‘

سوال نمبر 90: ترکِ نماز پر قرآن وحدیث میں کیا حکم وارد ہے؟

جواب: نماز جہاں ہر عمل سے افضل ہے وہاں ترکِ نماز سب سے بڑا گناہ ہے، جس طرح نماز انسان کو نیکی اور سعادت کی انتہا بلندیوں پر لے جاتی ہے اسی طرح ترکِ نماز مسلمان کو مشرک تک بنا دیتی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo

الروم، 30: 31

’’اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔‘‘

یہ وعید سن کر ہر تارک الصلوٰۃ مسلمان کو لرز جانا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز ہی کو مسلمان اور کافر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا۔

حضرت بُریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَرَکَ الصَّلَاةَ فَقَدْ کَفَرَ.

ابن حبان، الصحیح، 4: 323، رقم: 1463

’’جس نے (جان بوجھ) کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کفر کیا۔‘‘

ایک اور مقام پر اسی مفہوم کی توضیح اس طرح فرمائی گئی ہے، حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الْعَھْدَ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ.

ابن حبان، الصحیح، 4: 305، رقم: 1454

’’یقینا ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے پس جس نے نماز کو ترک کیا (گویا) اس نے کفر کیا (عہد سے منہ موڑ لیا)۔‘‘

سوال نمبر 91: کیا نماز پنجگانہ پہلے انبیاء کرام اور ان کی اُمتوں پر بھی فرض کی گئی تھی؟

جواب: جی نہیں، نماز پنجگانہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نہ تو انبیاء کرام میں سے کسی نے ادا کی اور نہ ہی ان کی امت نے۔ البتہ ان پانچ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کسی نہ کسی نبی نے ضرور ادا کی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے خود نماز نہ پڑھائی ہو یا نماز کا حکم نہ دیا ہو۔

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo

ابراہیم، 14:40

’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے۔‘‘

2۔ قرآن حکیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا عمل مذکور ہے:

وَکَانَ یَاْمُرُ اَهْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّاo

مریم، 19: 55

’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضورمقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)۔‘‘

3۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کو نماز کا طعنہ دیا:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَـآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا ط اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُo

ھود، 11: 87

’’وہ بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بے شک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہو۔‘‘

4۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo

لقمٰن، 31: 17

’’اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘

امام حلبی، امام رافعی کی شرح مسند شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی، حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نماز پڑھی اور حضرت یونس علیہ السلام نے عشاء کی نماز پڑھی۔

طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطی اي الصلوات، 1: 226، رقم: 1014

عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی لیکن ان کی یا اور کسی نبی کی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ امتیوں میں صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کو اس نماز کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

امام ابوداؤد اپنی سند کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَعْتِمُوْا بِهَذِهِ الصَّلَاۃِ، فَاِنَّکُمْ قَدْ فَضِّلْتُمْ بِهَا عَلَی سَآئِرِ الْأُ مَمِ، وَلَمْ تُصَلِّهَا اُمَّۃٌ قَبْلَکُمْ.

ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب في وقت العشآء الاخرۃ، 1:173، رقم: 421

’’اس نماز (عشائ) کو تاخیر سے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں اس نماز کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘

سوال نمبر 92: انسان کے علاوہ کیا دیگر مخلوقات بھی نماز ادا کرتی ہیں؟

جواب: جی ہاں انسان کی طرح دیگر مخلوقات بھی نماز پڑھتی ہیں اس کائنات میں موجود ہر شے خالق کائنات کے نزدیک عبد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے کل جہانوں میں بسنے والی مختلف النوع مخلوق اپنے اپنے انداز سے خالق و مالک کے حضور مصروفِ عبادت ہے۔ قرآن حکیم میں ان کا ذکر ان الفاظ سے کیا جاتا ہے:

کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ.

النور، 24: 41

’’ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے۔‘‘

اس ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق ارضی و سماوی کائنات کا ہر وجود نماز اور تسبیح میں مصروف ہے۔ چونکہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے کامل وجود کا حامل ہے اسے عبادت کی وہ قسم عطا ہوئی جو تمام زمین اور آسمانی مخلوقات کی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ نماز کے اندر وہ تمام مظاہر کلی طور پر اکٹھے کر دیے گئے ہیں جو پوری کائنات میں ہر جگہ منتشر حالت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پرند چرند، حشرات الارض، جمادات، نباتات اورعالم بالا کی مخلوق کی جتنی بھی ممکنہ حالتیں ہو سکتی ہیں ان سب کو سمیٹ کر نماز میں رکھ دیا گیا ہے۔ فضا میں اڑتے ہوئے پرندے، زمین پر چلتے ہوئے حیوانات اور رینگتے ہوئے حشرات قیام اور رکوع، سجود کی حالتوں کے مظہر ہیں، درخت قیام کی حالت میں تو پہاڑ قعود کی صورت میں ایک ہی حالت میں ٹھہرے ہوئے ہیں، عالم بالا میں فرشتے نماز کی صورت میں صف باندھے ہمہ وقت مشغول عبادت ہیں۔ غرض کہ ارض و سماء کی ہر مخلوق اپنے جداگانہ احوال کی مناسبت سے کسی نہ کسی حالت میں مصروفِ عبادت ہے۔ یہاں تک کہ شمع کے گرد منڈلاتا ہوا ننھا پتنگا بھی بقول شاعر:

گرنا تیرے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذّتِ سوز و گداز ہے

کے مصداق مصروفِ نماز ہے۔

سوال نمبر 93: نماز جامع اوقات ہے یا نظام اوقات؟

جواب: نماز جامع اوقات بھی ہے اور نظام الاوقات بھی۔

نماز بطور جامع اوقات

تمام عبادات میں تنہا نماز ہی ایک ایسا منفرد عمل ہے جو شب و روز کی کسی نہ کسی ساعت سے متعلق ہونے کی بناء پر ایک باقاعدہ نظام الاوقات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوقات نماز دن اور رات کے تمام اوقات کے جامع ہیں اور ہر نماز فرضیت کے اعتبار سے مقررہ اوقات کی تابع کر دی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاo

النساء، 4: 103

’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘

نماز بطور نظام الاوقات

تمام نمازیں ایک باضابطہ اور مربوط نظام الاوقات کے تابع ہیں جس کی بدولت دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ہر نماز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جو نماز اس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ادا ہوگی وہی ’’ادا‘‘ نماز تصور ہوگی ورنہ اس کی ’’قضا‘‘ لازم آئے گی۔

دن اور رات کی ہر ساعت ایک خاص رنگ و آہنگ اور تاثیر لیے ہوئے ہے۔ جس کا پرتو اس ساعت کے اندر رکھی جانے والی نماز میں جھلکتا نظر آتا ہے مثلاً رات کے سکون و آرام کے بعد جب انسان صبح صادق کے وقت بیدار ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں تازگی، بشاشت اور شگفتگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے چنانچہ نماز فجر اپنے دامن میں سحر کی نشاط آگیں اور کیف و سرور کی کیفیات جذب کیے ہوتی ہے۔

نمازِ فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان کم وبیش آٹھ گھنٹے کا وقفہ حائل ہے یہ وقت کام کاج اور محنت و مشقت کا ہوتا ہے جس کے بعد قدرتی طور پر انسان کی طبیعت میں سستی اور تھکن پیدا ہو جاتی ہے اسے دور کرنے کے لیے وقت کے اس دامن میں نمازِ ظہر کو رکھ دیا گیا ہے تاکہ نماز کی ادائیگی کے بعد انسان کو کھانا کھانے اور سستانے کا موقع میسر آسکے۔

دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کرنے سے طبیعت میں جو کسالت اور سستی پیدا ہو جاتی ہے اس کا اثر زائل کرنے کے لیے سہ پہر کا وقت نماز عصر کے لیے مخصوص کردیا گیا۔

نمازِ عصر کے بعد جب سورج مغرب کی سمت اپنا سفر مکمل کرنے کے لیے سائے زمین پر پھیلادیتا ہے اور دن اپنے اجالے سمیٹ کر رخصت ہونے لگتا ہے تو انتقال وقت کے اس سنگم پر مغرب کی نماز رکھ دی گئی۔

پھر جب رات کی تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور انسان دن بھر کی تکان اور سستی کو دور کرنے کے لیے بستر خواب پر دراز ہونے کی تیاری کرنے لگتا ہے تو وقت کی اس ساعت کو نمازِ عشاء سے منسلک کردیا گیا۔ نمازِ عشاء کا وقت پوپھٹنے یعنی سپیدہ سحر نمودار ہونے سے قبل تک رہتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد فجر تک کے لیے وقت کو نیند اور راحت و آرام کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔ اس دوران اگرچہ شریعتِ اسلامیہ نے کسی کو شب بیداری کامکلف نہیں ٹھہرایا تاہم رات کے پچھلے پہر نیند اور آرام چھوڑ کر نماز تہجد کے لیے اٹھنا بے پایاں اجر و ثواب کا حامل ہے اس کی قدرو قیمت کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو یادِ الٰہی کی حلاوت اور لذت سے آشنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 94: نماز نمازی کے حق میں کیا دعا کرتی ہے؟

جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص وضو کر کے پورے آداب اور کمال یکسوئی کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو کر نماز ادا کرتا ہے تو نماز اس کے حق میں دعا کرتی ہے کہ جس طرح تو نے میری حفاظت کی اللہ تعالیٰ اسی طرح تیری حفاظت کرے پھر وہ دعا آسمانوں کی طرف پرواز کرتی ہوئی عرش الٰہی کے کنگرے تھام کر اس نمازی کی بخشش و مغفرت کے لیے اللہ رب العزت سے سفارش کرتی ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس حالت میں داخل نماز ہوتا ہے کہ اس کی زبان تو اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہے لیکن اس کا دل دنیاوی معاملات میں الجھا ہوا ہو تو وہ نماز زبان حال سے اس شخص کے لیے بددعا کرتی ہے کہ اے بندے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا اللہ تعالیٰ تجھے بھی اسی طرح ضائع کرے۔ پھر وہ نماز غلیظ کپڑے میں لپیٹ کر اس بندے کے منہ پر مار دی جاتی ہے اور اسے تاریکیوں میں پھینک دیا جاتا ہے جبکہ آداب کے ساتھ ادا کی ہوئی نماز نور ایزدی کے جلو میں عرش معلی کی طرف پرواز کرتی ہے۔

منذری، الترغیب والترہیب، 1: 258

سوال نمبر 95: نماز میں اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی کون سی چیزیں محبوب ہیں؟

جواب: نماز میں اللہ تعالیٰ کو اپنے عبادت گزار بندے کی تین چیزیں محبوب تر ہیں۔

  1. جسم کی نیاز مندی جو غایت درجہ تواضع، انکساری اور تذلیل کی پیداوار ہے۔
  2. قلب کی یکسوئی جس سے بندے کو عبادت میں استغراق و انہماک نصیب ہوتا ہے۔
  3. اللہ تعالیٰ کی یاد میں بہنے والے آنسو اور گریہ و زاری جس سے پہاڑوں جیسے گناہ بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ کر ناپید ہو جاتے ہیں۔

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انپے ایک پیغمبر سے فرمایا: میں اپنے عبادت گزار بندے سے نماز میں تین چیزوں کا طالب ہوں۔ جسم کی نیاز مندی، دل کی یکسوئی، اور آنکھوں سے بہنے والے آنسو۔ اگر بندہ یہ تینوں چیزیں میری نذر کر دے تو مجھے میری عزت کی قسم! میں اس کے اتنا قریب ہو جاتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور بہتر قرب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

سہروردی، عوارف المعارف: 476

سوال نمبر 96: نماز میں خشوع و خضوع سے کیا مراد ہے؟

جواب: ہر شے کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی اس باطنی حقیقت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں خشوع و خضوع ہے۔

نماز میں خشوع و خضوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو اور اس میں اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہے، اَعضاء و جوارِح پرسکون ہوں، پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُدَی اللهِ یَهْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَہٗ مِنْ هَادٍo

الزمر، 39: 23

’’اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) باربار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہوجاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کردیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لیے کوئی ہادی نہیں ہوتا۔

مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز میں خشوع اِختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اس کے بغیر اقامتِ صلوٰۃ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور اگر نماز میں خشوع نہ ہو تو اس کی مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو ہوں مگر سماعت نہ ہو۔ لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ اِبتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:

اِنَّنِیْٓ اَنَا اللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِی ط وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْo

 طٰہٰ، 20: 14

’’بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘

’’حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں:

رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِیْزٌ کَأَزِیْزِ الرَّحَی مِنَ الْبُکَاءِ.

أبوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب البکاء في الصلاۃ، 1: 238، رقم: 904

نسائي، السنن، کتاب السھو، باب البکاء في الصلاۃ، 3: 13، رقم: 1214

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کے سینہ اقدس سے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘

سوال نمبر 97: نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: نماز میں داخل ہوتے ہی نمازی کے دل و دماغ میں ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں کہ نماز میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ امام غزالی نے نماز میں شیطانی خیالات، وسوسوں سے بچنے اور خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل تدابیر بیان فرمائی ہیں:

  • انسان جب اذان کی آواز سنے تو دل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک اور غفور و رحیم کی بارگاہ سے حاضری کا بلاوا آیا ہے اب میں ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دیتا ہوں لہٰذا جس کام میں بھی مشغول ہو اسے چھوڑ کر نماز کی تیاری کرے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ لاَیَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُo

النور، 24:37

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘

  • نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موذن کی صدا سننے کے بعد نمازی کا دل بار بار اپنے مالک کی حاضری کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے یاد فرمایا ہے اور میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنی تمام روداد عرض کروں گا۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا۔ شوق و محبت سے قیام، رکوع اور سجود کے ذریعے دلی راحت اور سکون کے ذریعے اپنے تمام غموں اور صدماتِ ہجر و فراق کا ازالہ کروں گا۔ میں محبوب حقیقی کی حاضری کے لیے طہارت کرتا، اچھے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر حاضر ہوتا ہوں کیونکہ میرے مالک کا حکم ہے:

یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.

الاعراف، 7: 31

’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘

پس بندے کو چاہئے کہ بارگاهِ خداوندی کی عظمت کا بار بار تصور کرتے ہوئے سوچے کہ اتنی بڑی بارگاہ میں کیسے حاضری دوں گا۔

ظ نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے مکمل نماز کے معانی ذہن نشین کر لیے جائیں اور اس کا مفہوم لفظاً لفظًا ازبر کر لیا جائے مثلاً لفظ سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ زبان سے ادا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بڑائی، پاکیزگی اور تقدس کا تصور دل و دماغ میں گھر کر جائے اور نمازی پر یہ خیال حاوی ہو جائے کہ وہ سب سے بڑے بادشاہ کے دربار میں دست بستہ حاضر ہے جو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ وَبِحَمْدِکَ سے اس کی حمد و ثنا کی طرف نگاہ جائے کی وہی ذات ساری تعریفوں کے لائق ہے۔ علی ھذا القیاس ساری نماز کے ایک ایک لفظ پر نمازی کو آگاہی ہو تو نماز میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔

  • نمازی نماز میں یہ تصور کرے کہ یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے شاید اس کے بعد زندگی مہلت نہ دے، بس یہ سوچ نمازی کو باقی چیزوں سے ان شاء اللہ اجنبی و بیگانہ کر کے اپنے رب کریم کی طرف متوجہ کر دے گی۔

سوال نمبر 98: نماز بمع عربی و ترجمہ کیا ہے؟

جواب: مکمل نماز عربی اور ترجمہ سمیت ترتیب وار درج ذیل ہے:

ثناء

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَیْرُکَ.

ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الصلاۃ، باب ما یقول عند افتتاح الصلاۃ، 1: 283، رقم: 243

’’اے اللہ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

تعوذ

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔

’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا/مانگتی ہوں۔‘‘

تسمیہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.

’’اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

سورۃ الفاتحہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo

الفاتحۃ، 1: 1۔7

’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔‘‘

سورۃ الاخلاص

قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo

الاخلاص، 112: 1۔4

’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےoاور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘‘

رکوع

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ.

ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، 1: 300، رقم: 261

’’پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا۔‘‘

قومہ

سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ.

’’اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔‘‘

رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.

مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب إثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلاۃ، 1: 293، 294، رقم: 392

’’اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔‘‘

سجدہ

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب مقدار الرکوع و السجود، 1: 337، رقم:886

’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے۔‘‘

جلسہ

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان درج ذیل دعا مانگتے:

اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاھْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب الدعا بین السجدتین، 1: 322، رقم: 850

’’اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت پر قائم رکھ اور مجھے روزی عطا فرما۔‘‘

تشہد

التَّحِیَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللهِ الصّٰلِحِیْنَ. أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.

ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الدعوات، باب فی فضل لَا حَول ولا قوۃ إلَّا بِاللهِ، 5: 542، رقم: 3587

’’تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘

درودِ اِبراہیمی

حضور نبی اکرم ﷺ دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِیْمَ، إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِیْمَ، إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.

بخاری، الصحیح، کتاب الانبیائ، باب النسلان فی المشی، 3: 1233، رقم: 3190

’’اے اللہ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔

’’اے اللہ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘

دعاے ماثورہ

درود شریف کے بعد یہ دعا یا کوئی اور ماثورہ دعا پڑھیں:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo

ابراھیم، 14: 40، 41

’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘

سوال نمبر 99: کیا نماز تمام عبادات کی جامع ہے؟

جواب: جی ہاں! نماز میں شریعتِ اسلامیہ کی تمام فرض عبادتیں جمع کر دی گئی ہیں اور ان کی سب کیفیات اس میں اس طرح سمو دی گئی ہیں کہ ہر ایک کا رنگ اس میں جھلکتا ہوا نظر آتا ہے مثلاً:

روزہ

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے ممانعت ہے جبکہ نماز میں بھی بندہ ان امور سے دست کشا ہوتا ہے۔ صرف ایک فرق ضرور ہے کہ روزے میں بے نیازی اور شان استغناء جھلکتی ہے جو ایک خدائی صفت کا پرتو ہے اور نماز سر تا پا نیازمندی اور عجزو فروتنی کا آئینہ دار ہے۔

زکوٰۃ

ارکان اسلام میں زکوٰۃ انسان کو مال و دولت کی ہوس اور حب زر سے پاک کرکے اس کے اندر تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں بندے کا اللہ تعالیٰ سے محبت و وابستگی کا قلبی تعلق استوار ہوتا ہے۔ جبکہ نماز کی حالت میں اس سے بدرجہ اولیٰ انسان خدا کی ذات کو اپنی الفت و محبت کا محور و مرکز بنا لیتا ہے اور اس کے دل میں غیر اللہ کا ہر خیال یکسر نکل جاتا ہے۔

حج

حج میں شعائر اللہ کی تعظیم، اہل و عیال کی محبت اور دنیوی مشاغل سے کنارہ کشی اور ترکِ وطن کا سبق ملتا ہے تو نماز میں بھی استقبالِ قبلہ، کعبۃ اللہ کی تعظیم اور مکروہاتِ دنیا سے کنارہ کشی کا رنگ نمایاں ہے۔ نماز کے کئی افعال حج کی مماثل ہیں جیسے حج میں دورانِ طواف رفع یدین کیا جاتا ہے تونمازمیں بھی داخل ہونے کے لیے رفع یدین کرنا پڑتا ہے، اسی طرح حج کی طرح نماز بھی متعدد اوراد، اذکار اور وظائف کا مجموعہ ہے۔

پس نماز کے علاوہ جتنی عبادات ہیں ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ہر عبادت محض اس لیے عبادت قرار پائی ہے کہ اس میں حکم خداوندی کی تکمیل کا پہلو مضمر ہے لیکن نماز کا امتیازی اور منفردپہلو یہ ہے کہ وہ فی نفسہ عبادت ہے اور اس میں خدا کی عظمت و کبریائی کے آگے بندے کی بے مائیگیبے وقعتی اور تذلیل کا جو احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے وہ کسی اور عبادت میں نہیں ہے۔

سوال نمبر 100: قرآنِ حکیم نے کس نماز کی حفاظت کی خصوصی تلقین کی ہے؟

جواب: قرآن حکیم نے تمام نمازوں کی محافظت کے ساتھ درمیانی نماز یعنی نمازِ عصر کی حفاظت کی خصوصی تلقین فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰـنِتِیْنَo

البقرۃ، 2: 238

’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اللہ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔‘‘

نمازِ عصر کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ.

بخاری، الصحیح، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من ترک العصر، 1: 203، رقم: 528

’’جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہوگئے۔‘‘

سوال نمبر 101: وہ کون سی نمازیں ہیں جس میں جماعت شرط ہے؟

جواب: جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں جماعت شرط ہے۔

سوال نمبر 102: نماز جمعہ کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نمازِ جمعہ کو یہ خصوصیت اور فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں صرف نمازِ جمعہ کی اذان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جب جمعہ کی اذان دی جائے تو نماز کے لیے حاضر ہوں۔ ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

الجمعۃ، 62: 9

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘

آیتِ مبارکہ کے علاوہ درج ذیل احادیث مبارکہ میں بھی نمازِ جمعہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی سے خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وأنصت فی الخطبۃ، 2:587، رقم: 857

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے آنے والے کو لکھتے رہتے ہیں۔ جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں اور جب امام (خطبہ کے لیے) بیٹھ جاتا ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خطبہ سنتے ہیں۔ جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ کرتا ہے، اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتا ہے۔ اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جو مینڈھا صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو مرغی صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو انڈہ صدقہ کرے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، 2: 587، رقم: 856

3۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جلدی (مسجد) میں حاضر ہوا اور امام کے قریب ہو کر خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا تو اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے۔‘‘

ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الجمعۃ، باب ما جاء فی فضل الغسل یوم الجمعۃ، 1:505، رقم: 496

سوال نمبر 103: نماز جمعہ ترک کرنے پر کیا وعید ہے؟

جواب: جان بوجھ کر تین جمعہ ترک کر دینے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے، حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَرَکَ الْجُمْعَةَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللهُ عَلَی قَلْبِهِ.

ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الجمعۃ، باب ماجاء فی ترک الجمعۃ من غیر عذر، 1:510، رقم: 500

’’جو کاہلی کے باعث تین جمعہ ترک کر دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘

سوال نمبر 104: جمعۃ المبارک کے روز درود پاک پڑھنے کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: جمعۃ المبارک کے روز حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک پڑھنے کے بہت زیادہ فضیلت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خود جمعہ کے روز کثرت سے درود شریف پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت اَوس بن اَوس روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فِیْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیْهِ قُبِضَ وَفِیْهِ النَّفْخَةُ، وَفِیْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَيَّ.

’’بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہوگی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

اِس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہوگا؟‘‘

تو آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهُ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ.

ابوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، 1: 275، رقم: 1047

نسائی، السنن، کتاب الجمعۃ، باب بإکثار الصلاۃ علی النبی ﷺ یوم الجمعۃ، 3: 91، رقم: 1374

’’بے شک  اللہ تعالیٰ  نے زمین پر انبیاے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَکْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ یُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْهَا.

ابن ماجہ، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ و دفنہ ، 1: 524، رقم: 1637

’’جمہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے درود سے فارغ ہونے سے پہلے ہی اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’روشن رات اور روشن دن یعنی جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن اپنے نبی پر کثرت سے درود بھیجا کرو۔‘‘

طبرانی، المعجم الأوسط، 1: 83، رقم: 241

ہیثمی، مجمع الزوائد،2: 169

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved