جواب: مسح کا معنی لغت کی رو سے ’’کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا‘‘ ہے اور شریعت کی اصطلاح میں مسح سے مراد ’’تَر ہاتھ کا کسی عضو یا موزوں پر پھیرنا‘‘ ہے۔
جواب: موزوں پر مسح کی مدت مقیم شخص (جو مسافر نہ ہو) کے لیے ایک دن اور ایک رات تک ہے جبکہ مسافر کے لیے مدت تین دن تین رات تک ہے، حضرت شریح بن ہانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں:
میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کرنے کی مدت پوچھی تو آپ نے فرمایا: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرو کیونکہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اکثر سفر میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔
مسلم، الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، 1: 232، رقم: 276
یہ حدیث مبارکہ جمہور فقہاء کے مذہب پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ موزوں پر مسح کی درج بالا مدت متعین ہے۔ اِس میں یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ طہارت کی حالت میں موزے پہنے، مثلاً ظہر کے وقت وضو کرکے موزے پہن لیے، پھر عصر کو حدث ہوا تو دوسرے دن عصر کے لیے موزے اتارنے ہوں گے؛ یعنی اِعتبار وقتِ حدث کا ہوگا۔
جواب:
جواب: سرپر مہندی یا خضاب کی تہہ جمی ہو، یا ٹوپی یا عمامہ یا دوپٹہ، رومال وغیرہ ہو تو مسح نہیں ہوگا کیونکہ قرآن حکیم میں سر پر مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ.
المائدۃ، 5: 6
’’اور اپنے سروں کا مسح کرو۔‘‘
لیکن اگر سر پر خضاب یا مہندی کی تہہ نہ جمی ہو بلکہ بالوں کو صرف رنگ لگا ہو تو مسح ہو جائے گا، مسح سر پر موجود بالوں یا اگر بال نہ ہوں تو جلد پر ہوتا ہے، اور جس آدمی کے سر پر ٹوپی یا عمامہ ہے وہ ہاتھوں کی تین تین انگلیوں اور ہتھیلیوں سے سر کا مسح کرے اور ٹوپی عمامہ وغیرہ پر گرفت بھی رکھے کہ گرِ نہ جائے۔
جواب: جی ہاں! جسم کے کسی بھی عضو پر چوٹ لگی ہو، زخم پر پٹی بندھی یا مرہم لگی ہو جسے پانی لگنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کا مسح کر لینا جائز ہے۔
جواب: موزوں پر مسح کرنا جائز امر ہے اور شریعتِ محمدیﷺ میں اس چیز کی اجازت دی گئی ہے کہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں یہ حکم دراصل ایک رخصت ہے جو شارع ں نے مکلف کو عطا کر رکھی ہے۔
موزوں پر مسح اس وقت واجب ہوجاتا ہے جب موزے اتارنے اور پاؤں دھونے میں نماز کے قضاء ہونے کا اندیشہ ہو۔ اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے پاؤں دھوئے جا سکیں تو واجب ہے کہ موزوں پر مسح کیا جائے، ان صورتوں کے علاوہ موزوں پر مسح کرنا محض رخصت یا امرِ جائز ہے بہرحال پاؤں کا دھونا مسح کرنے سے افضل ہے۔
موزوں پر مسح ان صورتوں میں فرض ہو جاتا ہے مثلاً وقوفِ (عرفہ) یعنی حج کے موقع پر قلتِ وقت کے باعث عرفات میں ٹھہرنے کا فریضہ ادا نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے میں واجب ہے کہ موزہ نہ اتارا جائے بلکہ اسی پر مسح کیا جائے۔
جواب: تین صورتوں میں جرابوں پر مسح جائز نہیں:
جواب: موزوں پر مسح کی درج ذیل شرائط ہیں:
جواب: موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پاؤں کا مسح دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے اور بائیں پاؤں کا مسح بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں سے کیا جائے گا انگلیوں کو پاؤں کی پشت سے شروع کر کے پنڈلی تک کھینچا جائے گا۔ مسح کرتے وقت انگلیوں کا تر ہونا ضروری ہے۔
جواب: مندرجہ ذیل چار چیزوں پر مسح جائز نہیں:
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved