جواب : سالک کو چاہیے کہ ابتدا میں ذکر بالجہر یعنی بلند آواز کے ساتھ ذکر نفی و اثبات یعنی لا الہ الا اﷲ کا ورد کثرت سے کرے۔ اپنی آنکھیں بند کر کے دو زانو قبلہ رخ بیٹھ جائے ’’لا‘‘ کو اپنی ناف کے اوپر اور دل کے نیچے سے کھینچ لے حتیٰ کہ دائیں شانے تک لائے پھر ’’الہ‘‘ کے فوراً بعد ’’الا اﷲ‘‘ کی ضرب زور سے دل پر لگائے یہ ضرب اس قدر شدید ہو کہ دل پر لگنے کا احساس ہو۔ ذکر کا آغاز آہستہ آواز سے کرے پھر درجہ بدرجہ اپنی آواز میں شدت پیدا کرے، جس کے ساتھ سر کی گردش میں تیزی کرے یہاں تک کہ ایک مجنوں کی سی حالت ہو جائے اور لوگ دیکھیں تو اسے دیوانہ یا پاگل سمجھیں، دوران ذکر خود کو بیخود بناتے ہوئے اس قدر مست ہو جائے کہ اس کے دل میں ذکر کا نور پیدا ہو جائے۔ لا کی مد کا اور الا اﷲ کی شد کا خاص خیال رکھنا ہو گا، پھر الہ میں ل کو لمبا کرنا ہے اور ہ کو چھوٹا کرے لا الہ کا حصہ نفی پر مبنی ہے پس اسی سانس میں اثبات کا ذکر کرنا اور فوراً الا اﷲ کہنا ہو گا۔ لفظ اﷲ کی آخری ہ برکت والی ہے اسے بھی زور سے ادا کرے۔ اللہ ہو کا ذکر کرنا چاہے تو اللہ سانس اوپر کھینچتے وقت کہے اور ہو سانس کو نیچے لاتے وقت، الا ﷲ اور ھو سے دل پر ضرب لگائے یہاں تک کہ دل خود بخود ذکر کرنے لگے۔
جواب : تفکر یا غور و فکر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر توہمات اور خیالات کو جھٹک کر کسی ایک خیال، نکتہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
تمام الہامی کتابوں میں اورقرآن مجید میں بالخصوص تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے جگہ جگہ انسان کو تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر غور کرے۔
فرمان الٰہی ہے :
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِO
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (اﷲ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 190
دراصل فکر انسانی میں ایسی قوت ادراک اور روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے اس عمل ہی کو تفکر کہتے ہیں۔
جواب : تصوف کی ساری تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو یاد الٰہی اور حق کے معاملے میں کامل یکسوئی نصیب ہو جائے۔ طریقت کا آغاز اور اس کے مدارج و منازل کا اختتام بھی اسی کامل یکسوئی سے ہوتا ہے، نیز اسلام کا مقصود بھی یہی ہے کہ انسان کو کامل یکسوئی عطا کر کے ایک کامل انسان بنایا جائے جبکہ اللہ رب العزت اپنے ذکر میں یکسو ہو جانے کے بارے میں فرمایا :
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيْلًاO
’’اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو جاؤ۔‘‘
المزمل، 73 : 8
جواب : اہل تصوف و روحانیت کا وہ عمل جس میں غور و فکر اور تفکر کو ایک مشق کی صورت دی گئی اور اس کے لئے مختلف قاعدے اور آداب مقرر کیے گئے۔ اس کيفیت کا اصطلاحی نام مراقبہ ہو گیا، یہ علم فکر کی عملی شکل و صورت ہے۔ مراقبہ کے معنی غور کرنا یا کسی چیز پر concentrate کرنا ہے۔ مراقبہ ایک قلبی عمل ہے جو لفظ ’’رقیب‘‘ سے ماخوذ ہے۔ رقیب اسمائے الٰہی سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان، پاسبان کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ذہن کی اس طرح نگہبانی کی جائے کہ وہ منتشر خیالات اور افکارِ پریشاں سے یکسر بے نیاز ہو کر اللہ کی طرف یا اللہ کی کسی صفت کی طرف یا اس کی کسی نشانی کی طرف متوجہ ہو جائے، اس معنی میں مراقبہ کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ظاہری حواس کو ایک نقطے پر مرتکز کر کے اپنی روح یا باطن کی طرف متوجہ ہو جائے تاکہ اس کے اوپر روحانی دنیا کے معانی و اسرار روشن ہو جائیں، چنانچہ مراقبہ کے اصطلاحی معنی غور و فکر اور تصور کے ہیں۔
جواب : تفکر و مراقبہ صوفیائے کرام کے معمولات میں سے ایک معمول ہے۔ صوفیاء کے مراقبہ و فکر کا یہ معمول بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود غار حرا میں تشریف لے جا کر وہاں مراقبہ فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ جوں جوں اعلان نبوت کا وقت قریب آ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت پسند بنتے جا رہے تھے اور کثرت سے غار حرا میں قیام فرمانے لگے تھے۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں عبادت کرتے۔
بخاری، جامع الصحيح : 23، رقم : 3، کتاب بَدءِ الوحی باب : 3
جواب : ایک عام مسلمان اور صوفی میں فرق ایمان و معرفت کا ہے جس طرح ایمان فقط مان لینے کا نام ہے وہ چاہے اللہ کی ذات و صفات ہوں یا دیگر حقائق مگر ایک صوفی و عارف جس بات کو مانتا ہے اسے قلب کی نگاہ سے دیکھتا ہے پھر اسے مشاہدہ سے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور اس کا ایمان معرفت میں بدل جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے پرندوں کو زندہ کر کے دکھایا اور دیگر عجائبات قدرت دکھا کر فرمایا کہ ابراہیم اللہ کو ایک جانتا تو ہے مگر اس کی معرفت بھی حاصل کر تاکہ تیری زندگی ایمان و ایقان کی آئینہ دار بن جائے۔
پس ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَاعْلَمْ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲ.
’’پس خوب جان لو کہ بیشک وہ اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
پس صوفی اور عام مسلمان میں فرق ایمان و معرفت کا ہے۔
محمد، 47 : 19
جواب : ہر کام کسی خاص مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ روٹی اس لیے کھائی جاتی ہے کہ بھوک ختم ہو، دوا اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ انسان شفاء یاب ہو۔ کسی بھی کام کی اچھائی و برائی کو پرکھنے کے لیے اس کے مقاصد اور غرض و غایت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسی معیار پر’’ تصوف و احسان‘‘ کے مقاصد و نتائج کا جائزہ لینا مقصود ہے اگر مقاصد تصوف واحسان قرآن و سنت کی روشنی میں پسندیدہ ہیں تو مقبول اور اگر ناپسندیدہ ہیں تو مردود۔
طریقت وتصوف کے تین بنیادی مقاصد ہیں :
1۔ تزکیہ نفس
2۔ تصفیہ قلب
3۔ معرفت ربّانی
جواب : اللہ تعالیٰ نے انسانی قالب میں عقل، قلب اور روح کی طرح ’’نفس‘‘ کو بھی ایک مستقل جوہر کے طور پر پیدا فرمایا ہے حقیقت میں نفس ایک ہی ہے مگر اس کی صفات مختلف ہیں اس کی سات اقسام ہیں، ہر قسم کے نفس کے الگ خواص وصفات ہیں اور یہ الگ اثرات انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال سے ظاہر ہوتے ہیں نفس بذات خود بھی انسان کے احوال و اخلاق کی تشکیل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نفس کی چار جبلتیں ہیں اور اسکی خواہشات کی اصل جڑ اور اس کی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہیں۔
1۔ضعف : یہ خشک مٹی کی فطرت کا تقاضا ہے۔
2۔ بخل : یہ تر مٹی کی فطرت کا تقاضا ہے۔
3۔ شہوت : اس کا باعث کیچڑ ہے۔
4۔ جہالت : یہ خشک اور سوکھی مٹی کا تقاضا ہے۔
نفس کے تمام اخلاق و صفات کی دو بنیادیں ہیں اول غصہ اور جلد بازی دوئم طمع۔
اس کا غصہ جہالت کی وجہ سے ہے اور طمع حرص کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نفس دو قسم کے افعال سر انجام دیتا ہے ایک معصیت و نافرمانی اور دوسری کینہ خصلت جیسے تکبر، حسد، بخل، غصہ اور جو باتیں شرعاً اور عقلاً ناپسندیدہ اور بری ہیں۔
جواب : جب قلب سراپا نور بن جاتا ہے تو اس کے نور کا عکس نفس پر پڑتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ قلب کا ایک رخ نفس کی طرف اور دوسرا رخ روح کی طرف ہوتا ہے۔ اسی طرح نفس کے بھی دو رخ ہوتے ہیں، اس کا ایک رخ قلب کی طرف اور دوسرا رخ طبعیت اور جبلت کی طرف ہے جب قلب سراپا نور بن جاتا ہے تو اس وقت اس کی پوری توجہ روح کی طرف ہو جاتی ہے او روحانی امداد سے اس کے اشراق و نور میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس قدر قلب کی کشش روح کی طرف ہوتی جاتی ہے اسی قدر نفس کی کشش بھی قلب کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس کشش کی بدولت قلب کی توجہ سے اس کا وہ رخ نورانی بن جاتا ہے، جو قلب کے قریب ہوتا ہے اس کے نورانی ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اس وقت نفس کو سکون و اطمینان ہوتا ہے۔
جواب : نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :
1۔ نفس امارہ
2۔ نفس لوامہ
3۔ نفس ملھمہ
4۔ نفس مطمئنہ
5۔ نفس راضیہ
6۔ نفس مرضیہ
7۔ نفس کاملہ
نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
القيامة، 75 : 2
تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
الفجر، 89 : 27، 28
یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28
جواب : تزکیہ کا لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا، نشوونما دینا۔ اسی سے لفظ زکوٰۃ نکلا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیO
’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘
الاعلی، 87 : 14
لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفسِ انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو کہ روحانی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کیاری میں پودینہ بوئے پھر اس کے بعد وہاں غیر ضروری گھاس اگ آئے جو پودینہ کی نشوونما میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اسے اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے تاکہ زمین کی ساری تخلیقی قوت اس گھاس پھونس پر صرف ہونے کی بجائے صرف پودینے کی نشونما پر صرف ہو۔ صفائی کے اس عمل کا نام تزکیہ ہے۔
تزکیہ کے اسی عمل کو قرآن مجید نے فلاح (کا میابی) قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَاO وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَاO
’’یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے (اپنے) نفس کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملادیا۔‘‘
الشمس، 91 : 9، 10
جواب : تزکیہ نفس کی ضروت کو سمجھنے کے لیے پہلے فطرت انسان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔
انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت وبہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفسِ انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.
’’بے شک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔‘‘
يوسف، 12 : 53
لیکن دوسری طرف اﷲتعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَاO
’’پس (اﷲتعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی او ر اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کردیا ہے۔‘‘
الشمس، 91 : 8
اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
’’اور ہم نے (انسان کو نیکی اوربدی کے) دونوں راستے دکھا دیئے ہیں‘‘
البلد، 90 : 10
گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیرو شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔
ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے اس کی کشمکش سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس۔
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO
’’اور نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے۔‘‘
النازعات، 79 : 40
اس آیہ کریمہ سے پتا چلا کہ روح میں موجود خیرکے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کرلینے سے یہ تصادم ختم ہوجاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشونما پا کر طاقتور، اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور انسانی کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔
پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پاسکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکانہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کيفیت فان لم تکن تراہ فانہ یراک کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکی کے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔
جواب : تصوف کا دوسرا بنیادی مقصد صفائے قلب ہے۔ جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور برے اخلاق سے ناپاک ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات سے قلب انسانی پر سیاہی چھا جاتی اور اس کا باطن تاریک ہوجاتا ہے۔ اسلام اس امر کا متقاضی ہے کہ باطن کی صفائی کا اہتمام کیا جائے تاکہ قلب انسانی معرفتِ الٰہی کے نور کا گہوارہ بن سکے۔
قرآن حکیم میں ہے :
کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّاکَانُوْايَکْسِبُوْنَO
’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے کسب کی بناء پر ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘
المطففين، 83 : 14
اسی طرح حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فی الإِنسان مضغة إِذ اصلحت صَلُح له سائر جسده، و إِذا سقمت سقم له سائر جسده؛ وهي القلب.
’’تحقیق جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہوجائے تو تمام جسم کی اصلاح بھی خود بخود ہوجائے گی اور اگر وہ فاسد و خراب ہوجائے تو سارے جسم میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘
امام بيهقی، شعب الايمان، 1 : 475، رقم : 758
لیکن جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور رذائل اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات انسان کے قلب و باطن پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں جب انسان کی غیض و غضب کی قوت اس کی لطیف جذبۂ رحم اور عفوو درگزر سے مغلوب ہوجاتی ہے تو اس کی شخصیت کا جمالیاتی پہلو غالب آجاتا ہے، غرور و تکبر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان کے دل میں نرمی اور رقت پیدا ہوتی ہے جو قلب کی صفائی و چمک کا باعث بنتی ہے۔ اس طرح دین کا ایک اہم تقاضا پورا ہوجاتا ہے کیونکہ جب دل ہرقسم کی آلودگی سے پاک ہوجائے تو وہ قرآن کی نظر میں قلب کا درجہ پاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنْونَO اِلاَّ مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍO
’’جس دن انسان کے نہ مال کام آئے گا نہ اولاد، مگر جو اﷲ کے پاس پاک قلب لے کر آئے گا۔‘‘
الشعرا، 26 : 89 - 88
جواب : صفائے قلب کی ابتداء تزکیہ نفس ہے جس میں سب سے پہلا قدم گناہوں سے سچی توبہ و استغفار ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک بندہ جب غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، اگر وہ اس سے باز آجائے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا بار بار ارتکاب کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا دوبارہ ارتکاب کرے تو یہ سیاہی اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن : 724، رقم : 4244، کتاب الزهد، باب ذکر الذنوب
یہی وہ ’الران‘ زنگ لگنے کی کيفیت ہے جس کو قرآن میں اﷲ رب العزت نے یوں ذکر فرمایا :
کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَO
’’ہر گز نہیں بلکہ ان کے کسب کی بنا پر ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘
المطففين، 83 : 14
اصلاح قلب کا دوسرا طریقہ ذکرِ الٰہی ہے۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لکل شيئی صقالة وصقالةُ القلوب ذکر اﷲ.
’’ہرشے کو کوئی نہ کوئی چیز صاف کرنے والی ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والا اﷲ کا ذکر ہے۔‘‘
خطيب تبريزی، مشکوٰة، کتاب الدعوات : 17، رقم : 2286
جواب : معرفتِ ربانی تصوف و طریقت کا تیسرا بنیادی مقصد ہے۔ معرفتِ ربانی میں پہلا مرحلہ اطاعت الٰہی ہے کیونکہ بندہ صحيح معنوں میں اطاعتِ الٰہی کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب اسے اﷲ رب العزت کی معرفت حاصل ہو۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی ’’معرفت رب‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَO
’’اور میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریںo‘‘
الذريات، 51 : 54
مشہور تابعی ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت میں مذکور لفظ لِیَعْبُدُوْنَ کا مفہوم ہے :
’’أيْ يَعْرِفُوْنَ‘‘
’’تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔‘‘
قرآن حکیم میں مذکور ہے :
وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ.
’’اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا ہے تو تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 83
جواب : اللہ اور رسول کی اطاعت ایمان کا تقاضا ہے اور اس کی بجاآوری میں کمال حاصل کرنا مقصود ایمان ہے۔ ایمان اگر عقیدہ ہے تو اطاعت اس کے تقاضے پورے کرنے کی تصدیق، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ.
’’اے ایمان والو! اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو۔‘‘
النساء، 4 : 59
اطاعت حق کے کمال تک پہنچنے کی کيفیت یہ ہے کہ زندگی احکام الٰہی کی اس قدر پابند ہوجائے کہ اﷲ کے حکم کی نافرمانی کا تصور بھی کبھی دھیان میں نہ آنے پائے۔ جذبہ اطاعت رگ و ریشہ میں کچھ اس طرح سما جائے کہ بھول کر بھی ارادی و اختیاری یا بے خیالی و اضطراری حالت میں بھی بندہ کا قدم اطاعت حق کے خلاف نہ اٹھنے پائے۔
جواب : جی نہیں! ایسا ہر گز نہیں، اگرچہ کم علمی کی بنا پر عام لوگوں کے نزدیک تصوف کا مفہوم کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ محض جنگلوں اور غاروں میں چلے جانے اور کاروبار دنیا سے جان چھڑا کر کسی گوشۂ تنہائی میں اللہ اللہ کرنے کا نام ہے گویا ان کی نظر میں تصوف تعطل اور جمود کی تعلیم دیتا ہے۔ بعض جاہل لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تصوف کسی سلسلہ خانقاہی سے منسلک ہو کر شریعت کی پابندی سے آزاد ہونے کا نام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف نہ تو جمود و تعطل پر مبنی رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے، نہ تصوف محض کسی سلسلہ طریقت سے منسلک ہو جانے اور بزرگوں کے عرس منانے تک موقوف ہے۔ تصوف کو غاروں اور جنگلوں میں ذکر و فکر تک محدود کر دینا اس فلسفہ روحانیت کی غلط خود ساختہ تعبیر ہے۔
دراصل تصوف کی حقیقت ایک ایسے ہمہ گیر تصور حیات پر مشتمل ہے جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انسانی زندگی کی معراج ہے۔ یہ تصور جب کسی کی ذات میں عملی طور پر ڈھل جائے تو اسے عروج و کمال سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ خلوت نشینی، قلت طعام و کلام اور منام اگرچہ اس کے عناصر ہیں مگر یہ سب کچھ مقصود تصوف نہیں یہ منزل تک پہنچنے کے اسباب و ذرائع تو ہیں مگر اصل اور منزل نہیں، ان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جیسے دوران سفر کئی مناظر فطرت مسافر کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اگر کوئی ان مناظر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اور ان میں گم ہو کر اپنی اصل منزل کو بھول جائے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہو گی اور حرماں نصیبی نہ کہ منزل مقصود اور نصب العین کی خرابی اس کا باعث ہو گی۔
تصوف اور اس کی تعلیمات کسی انسان کی زندگی کو ایسے روحانی اور اخلاقی انقلاب سے آشنا کر دیتی ہیں جو اسے حقیقی معنوں میں ایک متحرک، با عمل اور سچا مسلمان بنا کر اللہ کے محبوب بندوں میں شامل کر دیتی ہے۔ اگر تصوف اپنی صحيح روح اور طریق نبوت کے مطابق ہو اور بندۂ صوفی میں یقین و محبت کا سوز پیدا کر دے تو اس سے قوت عمل، جذبہ جہاد، عالی ہمتی، جفاکشی اور شوق شہادت پیدا ہوتا ہے۔
جواب : تصوف کو بدعت کہنا سراسر غلط، بے بنیاد، کم فہمی اور سطحی علم کا نتیجہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تصوف اوائل اسلام ہی سے اسلامی معاشرے کا لازمی جزو ہے۔ یہ اسلام میں کوئی درآمد شدہ اضافہ یا بدعت نہیں ہے۔ اگرچہ لفظ تصوف یا صوفی عام طور پر پہلی صدی ہجری کے آخری دور میں یا دوسری صدی ہجری کے ابتدائی دور میں زاہدوں کے لئے مستعمل ہوا اور رفتہ رفتہ تصوف نے ایک مستقل معاشرتی تحریک کا روپ دھار لیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس سے پہلے تصوف و سلوک کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ تصوف کسی رسم کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک رویہ ہے۔ محبت الٰہی، اتباع سنت اور حسن اخلاق اس کے عناصر ہیں۔ حسن عبادت اور خدمت خلق اس کا راستہ، ذکر و فکر، تقویٰ و طہارت اور خلوت و مجاہدہ اس کے ذرائع ہیں۔ اخلاص اس کا معیار اور رضائے الٰہی اس کی غایت ہے، یہ کہنا غلط اور بے بنیاد ہے کہ تصوف کے یہ عناصر و اجزا، وسائل و ذرائع اور مظاہر و غایات دور نبوت اور عہد صحابہ میں عملاً موجود نہ تھے۔ یہ سب قرآن و سنت کے احکام اور دین کی ابدی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ اسلام ہی تصوف کا مبداء اور منتہا ہے۔ تصوف کا سرچشمہ قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ تصوف قرآن و سنت کا لب لباب اور روح دین ہے۔ تصوف کی دعوت اسلام کی دعوت ہے۔ اس کا فروغ اسلام کا فروغ ہے، اس لیے یہ بدعت نہیں بلکہ عین اسلام ہے اور روح اسلام ہے۔
جواب : تصوف و طریقت کے بھی دیگر علوم و فنون کی طرح مختلف مکاتب فکر ہیں جو مختلف شیوخ کے خانوادوں پر مشتمل ہیں، انہیں خاندانوں کے طریق کو ’’سلسلہ‘‘ کہتے ہیں۔
جواب : اس کے تین بنیادی اسباب ہیں۔
1۔ جب احوال و معارف اور نکات کی کثرت ہو گئی تو اب ایک عام آدمی، عام سالک کے لئے دشوار تھا کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ کو ترک کرے چنانچہ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک ایسے منظم طریقے کو اپنائے جس کو وہ زیادہ موزوں تصور کرتا ہے اور چونکہ انسانی طبائع میں اختلاف ہے، مثلاً ایک ذکر یا کوئی وظیفہ ایک شخص کو تو فائدہ پہنچاتا ہے مگر وہی ذکر دوسرے شخص کے لئے اتنا مفید نہیں ہوتا، اس لیے اولیاء کرام نے مختلف اوراد، وظائف کو مریدین و متوسلین کی فطری مناسبت کے لحاظ سے یکجا کر دیا کہ ایک جیسی فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے اگر ان اوراد کو اپنائیں تو اپنے احوال کو پا سکیں اور دوسری فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے ایسے وظائف کو اپنائیں تو اپنا راستہ تیزی سے طے کر لیں لہٰذا انسانی طبیعتوں کا اختلاف اور مختلف نفوس کے مزاج کا جدا جدا ہونا مختلف سلاسل طریقت کے وجود میں آنے کا ایک سبب بن گیا۔
2۔ راہِ طریقت و تصوف کا سفر کسی صاحب نظر کی صحبت اور کسی سلسلہ کے روحانی فیضان کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس روحانی ضرورت کی تکمیل کے لئے بھی بہت سے لوگ از خود روحانی منازل طے کرنے کے لئے مشائخ سے منسلک ہو کر سلسلے قائم کرتے رہے اور یوں مختلف سلاسل وجود میں آتے گئے۔
3۔ سلوک طریقت کی تشکیل کا تیسرا سبب یہ ہے کہ اکثر مشائخ اور بعض قوی روحانی قوت رکھنے والے بزرگوں کے دل پر خصوصی وظائف القاء ہوتے ہیں، قرآن و سنت میں بیان کردہ مفید اذکار یا صحابہ و تابعین کے اشغال میں سے بعض ان پر منکشف ہوئے وہ بطور خاص کسی ذکر یا ورد کو اس روحانی مرض کے ازالے کیلئے مفید پاتے ہیں تو یوں ان اذکار کی تعلیم پانے والے اور اجازت لینے والے اس راہ پر چلنے لگتے ہیں تو ایک تو ان کے لئے راستہ آسان ہوتا ہے اور روحانی الجھن ختم ہوتی ہے اور یوں ایک نیا خانوادہ یا سلسلہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جواب : یوں تو بہت سے بڑے بڑے روحانی سلاسل طریقت ہیں لیکن ان میں سے پاک و ہند میں زیادہ معروف خانوادہ ہائے سلاسل چار ہیں :
1۔ سلسلہ قادریہ
2۔ سلسلہ چشتیہ
3۔ سلسلہ سہروردیہ
4۔ سلسلہ نقشبندیہ
1۔ سلسلہ قادریہ : سلسلہ قادریہ کے بانی سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر محی الدین جیلانی رضی اللہ عنہ ہیں۔
2۔ سلسلہ چشتیہ : چشتیہ کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
3۔ سلسلہ سہروردیہ : سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
4۔ سلسلہ نقشبندیہ : سلسلہ نقشبندیہ کے بانی کا نام خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اﷲ علیہ ہے۔
جبکہ دنیائے عرب اور بلاد اسلام میں ان کے علاوہ شاذلیہ اور رفاعیہ وغیرہ ہیں دیگر سلاسل طریقت کو بھی بہت کثرت سے فروغ حاصل ہے۔
جواب : معجزہ و کرامت دونوں حقیقت میں ایک ہی آفتاب توحید و رسالت کی کرنیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر خلاف عقل و خرد اور خلاف عادت فعل کسی نبی سے فعل صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں اور کسی غیر نبی یا ولی سے ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں، ان دونوں کے پیچھے فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہی کار فرما ہے۔
جواب : جب بغیر کسی شعوری کوشش کے کسی کو غیب سے رہنمائی ملے تو اس کو کشف و الہام کہتے ہیں۔ کشف و الہام غیر نبی کو ہوتا ہے۔ یہ ایک مذہبی واردات یا مذہبی تجربہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والا علم ہے مگر یہ وحی کے علم کی طرح حتمی، قطعی اور قابل اعتماد ذریعہ علم نہیں ہے۔ نہ ہی اجتہاد کی طرح اس کے قواعد و ضوابط کا تعین کیا جا سکتا ہے، اس کے قابل قبول ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ قرآن و سنت اور شریعت کے مطابق ہو۔
جواب : جی نہیں طریقت و ولایت کا مقصد کرامت کو ظاہر کرنا نہیں بلکہ طریقت و تصوف کی راہ میں کرامات کے ظہور کا مقصد فقط بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہدایت کے راستے پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔ مردان حق ان کرامات کو اپنا کمال نہیں سمجھتے بلکہ ان کا کمال تو راہ حق میں استقامت اور کامل اتباع سنت ہے۔ کرامت کی حقیقت اس مثال اس حکایت سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے پاس مرید بننے کے لئے آیا، کچھ عرصے بعد مرید ہوئے بغیر واپس جانے لگا تو حضرت نے پوچھا کس لیے آئے تھے اور اب واپس کیوں جا رہے ہو؟ تو وہ کہنے لگا : ’’بیعت ہونے کے لئے آیا تھا کہ اب واپس جا رہا ہوں اس لیے میں نے آپ کا نام تو بہت سن رکھا تھا مگر آپ کی کرامت کوئی نہیں دیکھی۔‘‘ آپ نے فرمایا : کیا ان چالیس دنوں میں تو نے ہمارا کوئی عمل خلاف شریعت پایا؟ اس نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا اس سے بڑی کرامت ہمارے پاس اور کوئی نہیں۔
جواب : تصوف و سلوک جو ایک روحانی نظام تربیت کا نام ہے بدقسمتی سے آج اس میں بہت سے تضادات و اختلافات کی وجہ سے خرافات کی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ تصوف کی بنیاد جس اخلاص پر تھی آج نام نہاد صوفیاء نے اسے ریاکاری اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، جعلی پیروں نے تعویذ گنڈوں دم درود اور عرس منانے تک ہی ساری طریقت کو محدود کر دیا ہے۔ طریقت اور تصوف صرف اس بات سے عبارت ہو کر رہ گئے ہیں کہ بیعتِ شیخ کی جائے۔ اس عمل کے بعد نہ شیخ کو خبر کہ میرا مرید کس حال میں ہے اور نہ ہی مرید کو شیخ کے حال کی خبر بس تصوف اور بیعت محض رسمی سی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ سال بعد جملہ مریدین ایک جگہ جمع ہوں، سب عرس کی تقریب میں شریک ہوں اور پیر صاحب سالانہ دو چار دورے فرمائیں، نذر نیاز وصول کر کے واپس چلے جائیں اس طرح تصوف جو حب جاہ اور حب دنیا ترک کرنے کی تعلیم دیتا تھا کاروبار بن کر رہ گیا۔ تصوف و طریقت میں جانشینی اور وراثت کا تصور پیدا ہو گیا ہے اس طرح خانقاہی نظام میں بے پناہ قباحتیں اور خلاف شریعت امور در آئے ہیں سجادہ نشینی کا نسل در نسل نظام زوال پذیر ہوتے ہوئے عملاً یہ صورت اختیار کر گیا ہے :
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
(اقبال)
تصوف پر ایک ظلم یہ ہوا کہ علمائے دین تعلیم و تربیت کے پہلو سے بے توجہی برتنے لگے ہیں، تصوف کے لئے کوئی مقام دینی و شرعی علوم میں رہا نہ کسی خانقاہ میں۔ تصوف میں دوسرا بڑا فتنہ جو نام نہاد پیروں اور جھوٹے مفاد پرست دنیا دار صوفیوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے، شریعت کو مولویت کا نام دے کر بدنام کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مولویوں کا کام ہے اولیاء و صوفیاء کا نہیں۔ علوم شرعیہ کی اس طرح نفی کی جا رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید طریقت، روحانیت، معرفت، ولایت اور حقیقت کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
جواب : آج کے دورِ زوال میں بھی تصوف و روحانیت کا احیاء ممکن ہے اگر مندرجہ ذیل پانچ شرائط پوری کی جائیں اور ان اقدامات کو بروئے کار لایا جائے :
1۔ شریعت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا دو تقاضوں پر مشتمل ہے۔ علوم شریعت کی تحصیل، احکام اوامر و نواہی کا پختہ علم، قرآن و سنت اور فقہ اور ان کے مبادیات کی تعلیم دینا دوسرا شریعت اور سنت پر عزم بالجزم کے ساتھ عمل پیرا ہو۔
2۔ تمام دینی درسگاہوں میں تصوف کی تدریس کا آغاز کیا جائے تصوف کو باقاعدہ نصاب میں شامل کیا جائے تمام مکاتب اور مدارس میں بطور نصاب پڑھایا جائے۔
3۔ تصوف و طریقت کی تربیت کا عملی اہتمام بھی کیا جائے۔ خانقاہی نظام کی مخلصانہ بنیادوں پر ازسر نو تجدید کی جائے اور تمام بزرگوں کے مزارات یا خانقاہوں کو تصوف و سلوک کے تربیتی مراکز میں تبدیل کر دیا جائے۔ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ تصوف کی پہلی تربیت گاہ اور خانقاہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صُفّہ کے نام سے اصحاب صُفُّہ کے لئے قائم کی تھی۔
4۔ طریق نبوت کی طرف رجوع کیا جائے تصوف و طریقت کے نظام زندگی کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام و تابعین و تبع تابعین کے طریق کے مطابق چلایا جائے۔
5۔ ایثار و قربانی، نفع بخشی اور فیض رسانی میں نبوت کے مطابق عمل کو فروغ دیا جائے، سالکین راہ حق کی معاشی کفالت کرنا بھی طریق نبوت میں شامل ہے۔
جواب : تاریخ کے اس اہم موڑ پر جب امت مسلمہ تصوف اور اس کی تعلیمات کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے تجدید و احیائے تصوف کا بیڑہ اٹھایا ہے اور عملی تصوف کو روحانی تربیت کے ذریعے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے متعارف کروایا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے احیائے تصوف کے لئے دو سطحوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔
1۔ علمی سطح پر
2۔ عملی سطح پر
جواب : علمی سطح پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے دعوتی مرحلے کے آغاز میں جس طرح ارکان ایمان اور ارکان اسلام کے فلسفہ و حکمت پر خطبات و دروس کا سلسلہ شروع کیا اسی طرح شادمان میں درس قرآن کے ساتھ دروس تصوف کی کلاس کا بھی باقاعدہ اجرا فرمایا جس سے ہزاروں لاکھوں لوگ آڈیو ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے فیضیاب ہوئے۔ تصوف پر آپ کی کتب بھی چھپ چکی ہیں، چند ایک نام درج ذیل ہیں :
اور زیرمطالعہ کتاب الاحسان۔
اس کے علاوہ ابھی متعدد مسودات طباعت و اشاعت کے مرحلے میں ہیں۔
جواب : قائد تحریک پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عملی تصوف کو روحانی تربیت کے ذریعے جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے متعارف کرایا ہے تاکہ اس دور زوال میں امت مسلمہ کو پھر سے رازی، غزالی، رومی رحمۃ اللہ علیہ، جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمہم اﷲ علیہم اجمعین جیسے مردان حق کی تعلیمات سے بہرہ ور کیا جا سکے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے آپ نے درج ذیل اقدامات سے تصوف کو عملاً متعارف کرنے کی سعی فرمائی :
1۔ منہاج القرآن یونیورسٹی کے طلباء کو تصوف کی اعلیٰ کتب بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں اور تہجد و نوافل کی پابندی کروائی جاتی ہے۔
2۔ محافل نعت و ذکر اور شب بیداری کا اہتمام تمام تنظیمات ہفتہ وار کرتی ہیں۔ تحریک کے مرکز میں ماہانہ شب بیداری کی محفل منعقد ہوتی ہے۔ سالانہ عالمی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کا انعقاد بھی 11۔12 ربیع الاول کی درمیانی شب ہوتا ہے۔
3۔ سالانہ اجتماعی اعتکاف : اس اجتماعی اعتکاف کا اہتمام رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہر اعتکاف بغداد ٹاؤن (ٹاؤن شپ) میں ہوتا ہے۔ جس میں تزکیہ نفس کے ساتھ تزکیہ ماحول کے لئے مصطفوی انقلاب کی ضرورت پر قائد انقلاب درس قرآن و حدیث دیتے ہیں۔
4۔ تربیتی کیمپس کا انعقاد : تحریک کے پلیٹ فارم پر وابستگان تحریک اور طلباء و طالبات (منہاجینز) کی باقاعدہ روحانی تربیت کے لئے تربیتی کیمپ کا انعقاد بھی گاہے گاہے ہوتا رہتا ہے۔ جس میں فکری و انقلابی تربیت کے ساتھ روحانی و اخلاقی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
جواب : شیخ الاسلام پروفیسر علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح شریعت و طریقت کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تصوف، شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہٹ کر کوئی الگ نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ دین کی ظاہری شکل شریعت اور باطنی حقیقت کا نام طریقت یا تصوف ہے۔ آپ کے نزدیک شریعت کے بغیر باطن یعنی تصوف باطل و مردود ہے۔ نیز آپ کے بقول اسلام نہ غرق دنیا کا نام ہے نہ ترکِ دنیا کا۔
قائد تحریک عشق رسول کو تصوف و طریقت کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور اسے ہر سعادت کی اصل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب رسول ہی عین روحانیت کا سرچشمہ ہے۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بغیر اس کا حصول ممکن نہیں۔ تحریک منہاج القرآن دراصل ایک روحانی تحریک ہے، اس کی دعوت، دعوت اسلام اور دعوت تصوف و روحانیت ہے۔ بانی تحریک کی نظر میں تصوف ہی وہ واحد طریقۂ تعلیم و تربیت ہے جو عملی طور پر اس مادیت زدہ ماحول میں بندے کا تعلق اپنے رب سے قائم و دائم رکھ سکتا ہے یہی صوفیائے اسلام کا طریقہ ہے جو تمام شیطانی وسوسوں اور دنیاوی محبتوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
قائد تحریک کے نزدیک صرف روحانی الذھن افراد کی تیاری ہی سے معاشرے کو اعلیٰ اخلاقی قدروں، تہذیب نفس اور اصلاح احوال سے روشناس کروایا جا سکتا ہے۔ آپ کا قول ہے : ’’جوانوں کے ذہن تشدد سے نہیں بلکہ تصوف سے بدلتے ہیں‘‘۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved