جواب : تصوف فقہ الباطن (یعنی احوال باطنی کی فقہ) ہے اور یہ درجہ احسان کی تعلیمات و ہدایات پر مشتمل علم کا اصطلاحی نام ہے۔ اصطلاحات کے بدلنے سے نفس مضمون نہیں بدلا کرتا پوری تاریخ اسلام اس پر شاہد ہے کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً علم التفسیر، علم القرات، علم الحدیث، علم الفقہ، علم الکلام وغیرہ تمام علوم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور میں عملی طور پر موجود تھے لیکن انہیں باقاعدہ ایک علم کے طور پر مدون کیا گیا نہ فن کی شکل دی گئی تھی اور نہ ہی ان کے یہ نام وضع کیے گئے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلاوتِ قرآن فرماتے اور اپنے قول و عمل سے آیات کی تشریح بھی فرما دیتے، لیکن اس تشریح کو باقاعدہ اصطلاحی طور پر علم تفسیر نہیں کہا جاتا تھا۔
اسی طرح قرآن و حدیث کے ذریعے احکام شرعیت بیان کیے جاتے تھے مگر عہد صحابہ میں اسے ’’علم الفقہ‘‘ کا باقاعدہ نام نہیں دیا گیا تھا۔ عقائد اسلامی بھی قرآن و حدیث کی شکل میں بیان کیے جاتے تھے مگر انہیں ’’علم العقائد‘‘ کا عنوان نہیں دیا گیا تھا۔ احوال سیرت اور اخلاق نبوی کو بیان کیا جاتا تھا مگر باقاعدہ ’’علم سیرت‘‘ کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح اخلاص، نیت، توبہ، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت اور اصلاح باطن کے احوال بیان کیے جاتے تھے اور صحابہ و تابعین کے ادوار میں ان پر محنت بھی کی جاتی تھی مگر دوسرے مضامین کی طرح اسے بھی الگ سے کوئی نام یا اصطلاح نہیں دی گئی تھی۔ اسے تزکیہ، احسان یا زہد سے ہی بیان کر لیا جاتا تھا۔ بعد ازاں جب ہر موضوع اور مضمون کو الگ الگ عنوانات اور اصطلاحات سے یاد کیا جانے لگا تو اسے بھی ’’تصوف‘‘ کا نام دے دیا گیا۔
جواب : لفظ ’’تصوف‘‘ کے مادہ اشتقاق کے باب میں مختلف اقوال ہیں، تاہم مندرجہ ذیل مادہ ہائے اشتقاق بیان کیے جاتے ہیں :
1۔ الصوف : ’’اونی لباس‘‘ تصوف کو الصوف کا مصدر مانا جائے تو اس لحاظ سے اس کے معنی ہوئے وہ لوگ جو اونی لباس پہنتے ہیں۔
2۔ الصفو : ’’محبت، خلوص، دوستی کے معنی ہیں‘‘ اس مادہ کے اعتبار سے صوفی سے مراد وہ شخص ہے جس نے دنیا و آخرت کے اجر و جزا سے بے نیاز ہو کر محبوب حقیقی سے بے لوث محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کر لیا۔
3۔ التصوف : ’’یکسو ہونا، پوری یکسوئی سے متوجہ ہونا ہے۔‘‘
4۔ الصفا : ’’صاف ہونا۔‘‘ اس کی رو سے کسی شے کو ہر طرح کی ظاہری و باطنی آلودگی سے پاک صاف کر کے اجلا اور شفاف بنا دینا تصوف ہے۔
5۔ الصفہ : اس طبقہ کو صوفیاء اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اوصاف اصحاب صفہ سے ملتے جلتے ہیں۔
6۔ الصف : ’’قطار، سلسلہ۔‘‘ گویا صوفیہ کے دل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضوری کے اعتبار سے اگلی صف میں ہوتے ہیں۔
جواب : تصوف کے جتنے بھی لغوی اعتبار سے معنی و مطالب اوپر بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ تصوف اللہ رب العزت سے ایسی بے لوث اور بے غرض دوستی اور محبت کا نام ہے جو نہ صرف دنیاوی لالچ، اخروی طمع سے یکسر پاک ہو بلکہ اس راہ پر چلنے والے (سالک ) کا قلب تعلق باﷲ میں دنیا و آخرت کے تمام نفع و نقصان کے اندیشوں سے بالکل بے نیاز ہو جائے اور اخلاص کا جذبہ ظاہر و باطن میں اس قدر رچ بس جائے کہ انسان کی بندگی محض لوجہ اﷲ ہوجائے، بندے کی عبادت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے مکھڑے کا دیدار ہو جائے اس کی عبادت نہ مال و دولت، عزت و شہرت کے لئے ہو نہ جنت کے لالچ کے لئے اور نہ ہی دوزخ کے خوف سے۔ الغرض تعلق باﷲ کی لذت و حلاوت اور محبت الٰہی کی چاشنی و شرینی بندے کو اس طرح محبوب تر ہو جائے کہ بارگاہ الٰہی میں حاضری کے وقت اس کے دل میں کسی غیر کا خیال تک بھی نہ گزرنے پائے اور وہ ہر وقت بندگی کی اسی کيفیت میں رہے۔ حقیقت تصوف تمام تر حسن نیت، حسن احوال، حسن اخلاق، حسن اعمال سے عبارت ہے۔
جواب : کسی کام کو کرنے سے پہلے جب ہم اس کا ارادہ کر کے اس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور جب دل و دماغ دونوں میں اس کام کو کرنے کا ارادہ پختہ ہو جائے تو اسے ’’نیت‘‘ کہتے ہیں۔ اگر کسی کام کو اچھے خیال سے نیک ارادے سے کیا جائے تو اسے ’’حسن نیت‘‘ اور برا ارادہ کارفرما ہو تو اسے ’’نیت بد‘‘ کہتے ہیں۔
جواب : انسان کے ہر عمل کے پیچھے ا سکی نیت کارفرما ہوتی ہے۔ جیسی نیت ہو گی ویسا ہی عمل ہو گا جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان فرمایا گیا ہے :
انما الاعمال بالنيات.
’’بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘
بخاری، صحيح : 23، رقم : 1، کتاب بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحي الی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم
لہٰذا اگر نیت کی بنیاد اچھائی پر ہو گی تو عمل بھی اچھا ہو گا اور اگر نیت بری ہو گی تو انسان کا عمل بھی برا ہی ہو گا۔ گویا اعمال کے حسن اور قبولیت کا انحصار نیت پر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا.
’’(اور جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس کے بدلے میں) دنیا کا اجر چاہتا ہے تو اسے دنیا کا اجر دیں گے اور جو کوئی آخرت کا اجر چاہتا ہے تو اس کو آخرت کا اجر دیں گے۔‘‘
آل عمران، 3 : 145
جواب : جی ہاں! نیت کو عمل پر برتری حاصل ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر اور منافق کا عمل اسکی نیت سے بہتر ہے اور ہر ایک اپنی نیت پر عمل کرتا ہے۔ سو جب مومن کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے دل میں نور پھوٹ پڑتا ہے۔‘‘
الهيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 61
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی نیت سے ہے۔ ظاہری طور پر اگرچہ عمل درست بھی ہو مگر اس کے پیچھے نیت حسین نہ ہو تو اس کا وہ عمل اجر سے خالی ہو گا۔ بلکہ اس کے لئے آخرت کے عذاب کا باعث بن جائے گا، لہٰذا معلوم ہوا کہ نیت عمل پر فوقیت رکھتی ہے۔
جواب : اگر انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ذہن نشین کر لے تو اس کی نیت کو بھی حسن مل جائے گا اور اس کے عمل بھی قبولیت کے درجہ پر فائز ہو جائیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَی اﷲُ عَمَلَکُم ْ وَ رَسُولُه.
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے! تم عمل کیے جاؤ بیشک تمہارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول دیکھ لیں گے۔‘‘
التوبه، 9 : 105
اس آیت مبارکہ میں یہ نفسیاتی حکمت کار فرما ہے کہ انسان اگر اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لے کہ میرے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی، تو اس کے ہر عمل کی بنیاد نیکی پر ہو گی مثلاً جب کمرہ جماعت میں شاگرد کو معلوم ہو کہ میرا استاد میرے کام کو دیکھ رہا ہے یا بیٹے کو معلوم ہو کہ میرا باپ میری کاوشوں پر نظر رکھے ہوئے ہے تو خود بخود اس کے کام میں سلیقہ آ جائے گا اور یہ خواہش اس پر غالب آ جائے گی کہ میں کام کو بہترین طریقے سے انجام دوں۔ نیت میں بھی یہی چیز قابل ذکر ہے کہ انسان یہ سوچ لے کہ میرے ہر عمل پر جزا و سزا کا مالک نظر رکھے ہوئے ہے تو اس سوچ سے اس کا ہر عمل بھی حسین ہو جائے گا اور اس کی نیت میں بھی حسن آ جائے گا۔ یہی حسن نیت تصوف و روحانیت کے راستے پر چلنے کی پہلی شرط ہے۔ حسن نیت کا کمال ہی اللہ کی رضا ہے۔
جواب : عمل کی قبولیت حسن نیت پر ہے اور حسن نیت کا نکھار اور کمال اللہ کی رضا سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے راضی ہو جانا دراصل دنیا و آخرت کی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑا انعام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اﷲِ وَ رِضْوَانًا.
’’اے دیکھنے والے تو دیکھتا ہے کہ وہ کبھی رکوع کبھی سجود میں ہیں (غرض ہر طرح) اللہ سے اس کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلبگار ہیں۔‘‘
الفتح، 48 : 29
یعنی رضائے الٰہی کے طلبگاروں کو کسی چیز کی پروا نہیں وہ صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَرِضْوَانٌ مِّنَ اﷲِ اَکْبَرُO
’’اور اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘
التوبه، 9 : 72
اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے، ہر کوئی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے مگر اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ شان صمدیت کا مالک اور منتہائے رضا کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے مخلوق کے لئے اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر بندہ خود کو غلام اور اللہ تعالیٰ کو اپنا رب، خالق اور مالک حقیقی سمجھتا ہے تو پھر کونسا غلام ہو گا جسے اپنے مالک کی خوشنودی مطلوب نہ ہو اور پھر نیک اعمال کی انجام دہی یہی جذبہ رضائے الٰہی کے لئے ایک محرک کا کام دیتا ہے۔ یہ ایسا بہترین محرک ہے کہ اگر بندے کے دل کا مرکز و محور صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو تو دلوں کو ہر طرح کی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ہر طرح کے خوف، لالچ، حرص و ہوس، غرور و تکبر اور حسد و منافقت وغیرہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں اور دل پاک صاف ہو کر اللہ کی محبت کا ٹھکانہ بن جاتے ہیں اس حالت میں جو بھی عمل کرے گا وہ خواہ ادنیٰ سا ہی کیوں نہ ہو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پا کر حسین ہو جائے گا۔ اس پر اللہ کی رضا و خوشنودی کی چھاپ لگ جائے گی اور یوں بندہ درجہ احسان پر فائز ہو جائے گا۔ اس لیے رضائے الٰہی کا حصول ضروری ہے۔
جواب : انسان کے لئے سب سے بڑی دولت رضائے الٰہی کا حصول ہے اور اس دولت کے حصول کے لئے انسان کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو جیسی قیمتی چیزوں کو قربان کرنا پڑے تو وہ ایسا کر گزرتا ہے تب جا کر انسان رضائے الٰہی کے مرتبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں یہ ہیں :
جان مال عزت و آبرو
جان کی قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِ.
’’اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔‘‘
البقره، 2 : 207
پھر مال کی قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرضَاتِ اﷲِ.
’’اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔‘‘
البقره، 2 : 265
فرمایا :
وَ لاَ يَخَافُوْنَ لَوْمَة لَآئِمٍ.
’’اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
المائده، 5 : 54
لوگوں کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پرواہ کیے بغیر اگر انسان اپنی یہ تینوں چیزیں راہ خدا میں قربان کر دے تو پھر کوئی سبب نہیں کہ وہ دولت رضائے الٰہی سے محروم رہے۔
جواب : سلوک و احسان کے پانچ ابتدائی تقاضے اور آداب ہیں جن کے بغیر کسی سالک کا سفر طریقت و احسان نہ جاری ہوتا ہے نہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ ابتدائی زاد سفر ہے جسے ہر مسافر کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہونا ہے، وہ یہ ہیں :
1۔ حصول علم و اطاعت حق
2۔ ارادتِ شیخ یا مرشدِ کامل کی ارادت و تربیت
3۔ مجاہدۂ نفس (کم کھانا، کم سونا، کم بولنا)
4۔ کثرت ذکر و عبادت
5۔ تفکر و مراقبہ
تصوف و احسان کے ان بنیادی تقاضوں پر عمل کیے بغیر کوئی سالک منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔
جواب : صوفیائے کرام کے نزدیک یہ آداب تصوف و احسان اس قرآنی آیت سے ماخوذ ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
المآئدة، 5 : 35
اس آیت کریمہ میں چار چیزوں کا بیان ہے :
ایمان، تقویٰ، وسیلہ اور جہاد۔ ان کا نتیجہ فلاح و کامیابی ہے۔
1۔ ایمان میں حصول علم اور اطاعت حق کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
2۔ تقویٰ میں احکام الٰہی کی پابندی میں محنت و ریاضت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
3۔ ابتغائے وسیلہ میں شیخ کی بیعت و ارادت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
4۔ اور جہاد آخری تین آداب پر مشتمل ہے جسے حدیث نے جہاد بالنفس اور جہاد اکبر سے تعبیر کیا ہے۔
لعلکم تفلحون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان آداب و ضوابط کے بغیر سالک کے لئے فلاح کا دوسرا راستہ نہیں ہے۔
جواب : تصوف کا پہلا قدم علم ہے اور اس علم کے لئے لازم ہے کہ دو چیزوں کا علم راسخ کیا جائے، ایک علم حقیقت اور ایک علم شریعت۔ ان دونوں کے مضبوط اور صحيح ہونے سے تصوف و احسان کو فروغ ملتا ہے، اگر دونوں علم درست نہیں تو تصوف و احسان دجل و فریب اور مکاری کے سوا کچھ نہیں۔
طریقت کی بنیاد شریعت ہے اور شریعت میں سب سے پہلا درجہ ایمان اور عمل کا ہے۔ شریعت آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ ایمان و عمل کو سمجھتی ہے۔ جا بجا قرآن حکیم میں دونوں کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔
إِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ.
’’مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے۔‘‘
العصر 103 : 3
کہیں بھی ایمان کو عمل سے یا عمل کو ایمان سے الگ نہیں کیا گیا۔ ایمان سراسر علم ہے اور عمل سراسر اطاعت ہے۔ ارکان ایمان اور ارکان اسلام، اوامر و نواہی ان تمام احکامات پر یقین رکھنا ایمان ہے۔ یہ دولت ایمان علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے صرف اس قدر علم کا حصول انسان پر فرض ہے جس کے مطابق وہ دین کی بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہو سکے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
طلب العلم فريضة علی کل مسلم.
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن : 47، رقم : 224، باب فضل العلماء والعث علی طلب العلم
علم شریعت کے بغیر راہ احسان و طریقت میں حصول معرفت ممکن نہیں۔ جب انسان علم شریعت حاصل کر لے تو پھر اپنی زندگی کے ظاہر و باطن، خلوت وجلوت، اور شب و روز پر اطاعت حق کی چھاپ لگائے اور عبادت و معاملات میں اتباع سنت کا رنگ غالب کرے۔
جواب : علم اور عمل دونوں اپنی جگہ اہم ہیں۔ بعض لوگ علم کو عمل پر فوقیت دیتے ہیں اور بعض عمل کو علم پر۔ تصوف اور فقر کی بات کرنے والے عمل کو علم پر فوقیت دیتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
علم اور عمل کو ایک دوسرے پر فوقیت دینے والے دونوں نظریات باطل ہیں اور حق یہ ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت اس لیے نہیں دی جا سکتی کہ علم عمل کے بغیر بے کار ہے اور عمل بغیر علم کے ناقص، کیونکہ عمل تبھی ہو گا جب اس کے پیچھے علم کارفرما ہو۔ عمل کرنے والے کو علم سے پتا چلتا ہے کہ اس عمل سے یہ ثواب یا درجہ ملے گا اسی طرح نماز اور اس کی صحت کو اس وقت تک جاننا نا ممکن ہے جب تک کہ نماز پڑھنے والا احکامِ طہارت کا علم نہ حاصل کرے۔ جب تک پانی کے پاک ہونے کا علم نہ ہو، وضو صحيح نہیں ہو سکتا۔ قبلہ کی سمت کا اگر علم نہ ہو نماز بے کار ہے، اسی طرح اگر ارکان نماز کا علم نہیں تو نماز کہاں درست ہو سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عمل علم سے قریب ہوتا ہے، علم کو عمل سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم کا وجود بغیر عمل اور عمل کا وجود بغیر علم کے لغو اور باطل ہے۔
داتا علی هجويری رحمة الله عليه، کشف المحجوب : 14
جواب : علم کی دو قسمیں ہیں۔
علم نافع
علم غیر نافع
علم نافع : علم نافع سے مراد وہ علم ہے جو محض معلومات کا ذخیرہ ہی نہ ہو بلکہ اس علم کے ذریعہ سے قلب نور الٰہی سے منور ہو جائے ایسے علم کو علم نافع کہتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے علم سیکھا مگر اس سے اللہ کی رضا حاصل نہ کی نہ اسے سکھایا مگر دنیا سے عزت حاصل کرنے کے لئے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔
ابی داؤد، السنن : 620، رقم : 3661، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغير اﷲ تعالی
علم غیر نافع : وہ علم جو بندے کو اپنے مالک حقیقی تک نہ پہنچائے جس سے انسان کو معرفت حق حاصل نہ ہو۔ ایسا علم جس سے انسان کو حقیقی فائدہ نہ ہو وہ علم غیر نافع ہے۔ جس سے معلومات کا ذخیرہ تو ہوتا ہے لیکن قلوب کے لئے نفع نہیں ہوتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے :
اللهم انی اعوذبک من علم لا ينفع.
’’اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو۔‘‘
ابن ماجه، السنن : 52، رقم : 250، کتاب العلم، باب الانتفاع بالعلم و العمل به
جواب : اہل معرفت اور اہل ولایت نے علم کی تین اقسام بیان کی ہیں :
1۔ العلم من اﷲ
2۔ العلم مع اللہ
3۔ العلم بااللہ
1۔ علم من اللہ : یعنی وہ علم جو اللہ کی طرف سے ہو اس سے مراد علم شریعت ہے اور وہ شخص جو شریعت کا علم حاصل کرے اسے عالم کہا جاتا ہے۔
2۔ العلم مع اللہ : اس سے مراد طریقت و حقیقت کا وہ علم ہے جو فضل الٰہی کی معیت میں حاصل ہوتا ہے، اس کے ذریعے مقام ولایت و طریقت حاصل ہوتا ہے۔
3۔ العلم باﷲ : معرفت کا علم عرفاء کی اصطلاح میں علم باﷲ کہلاتا ہے جو حقیقت کے تقاضے پورے کرتا ہے اور جو اس کے آداب اور تقاضے بجا لائے اسے ’’محقق‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور جو معرفت کے آداب اور اس کی شرائط و تقاضے پورے کرتا ہے اسے ’’عارف‘‘ کہا جاتا ہے۔
جواب : علم وہی معتبر ہے جس سے قلب و باطن میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا ہو اور علم کا نفع وہی متحقق ہے جس علم پر عمل کرنے سے دلوں میں تقوی اور اللہ کا خوف پیدا ہو، باطن کو پرہیزگاری اور خشیت الٰہی نصیب ہو، وہ علم جس سے دنیا کی مال و دولت اور دیگر مفاد حاصل ہوتا ہے مگر اس سے باطن صاف نہیں ہوتا اور اس کا دل اللہ کی خشیت و محبت کا مرکز نہیں بنتا اور انسان کو حقیقی فائدہ نہیں پہنچتا تو وہ علم غیر نافع ہے۔
جواب : بے شک یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ایمان کے اجزاء اور اسلام کے ارکان، ایمان و عمل کے ظاہری و خارجی پہلو تو کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ قلب کو مرتبۂ احسان تک کیسے پہنچایا جائے۔ تزکیہ نفس، نور باطن اور اخلاق کی پاکیزگی جیسے اعلیٰ اوصاف بندہ اپنے اندر کیسے پیدا کرے کیونکہ احسان جس کيفیت کی معراج کا نام ہے اس تک رسائی کا کوئی ذریعہ بھی تو ہو گا۔ ’’احسان‘‘ ایک عمل، ایک کيفیت ہے اصول و ضوابط اور جو قانون کتابوں میں لکھے جاتے ہیں وہ حدیث و آثار کی کتابوں میں مل جاتے ہیں لیکن جن چیزوں کا تعلق وجدان و کيفیات سے ہے وہ کیسے حیطۂ تحریر و بیان میں آ سکتی ہیں وہ تو صرف ایک قلب سے دوسرے قلب پر اپنا عکس ڈال سکتی ہیں۔ مرتبہ احسان تک رسائی کا ذریعہ مرشد کامل یا مربی کی ذات گرامی ہے۔
جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
المائده، 5 : 35
بعض لوگوں کے نزدیک وسیلے سے مراد نیک اعمال ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا خطاب ایمانداروں سے ہے کہ وہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کریں اور اس کی راہ میں مجاہدہ اور ریاضت کو اپنا شعار بنائیں۔ اس کے ساتھ تقرب الی اﷲ کے لئے وسیلہ پکڑنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہاں وسیلہ سے مراد نہ علم ہے نہ ایمان اور نہ ہی نیکی اور تقویٰ بلکہ اس سے مراد مرشد کامل اور شیخ طریقت ہے۔
جواب : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بیعت کا موجودہ طریقہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ یہ عمل بدعت اور کوئی خلاف شرع بات نہیں ہے بلکہ سراسر سنت کے مطابق ہے تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کی۔ اس دور میں بیعت کی کئی اقسام تھیں۔ قبول اسلام کی بیعت، خلافت کی بیعت، اقامت ارکان دین کی بیعت، سنت و تقویٰ اختیار کرنے کی بیعت، ہجرت، جہاد، اطاعت وغیرہ مختلف بیعتیں رواج پذیر تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف ذکر فرمایا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ پر کی گئی بیعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بیعت قرار دیا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.
’’(اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بلا شبہ جو لوگ آپ سے (آپ کے ہاتھ پر) بیعت کرتے ہیں فی الحقیقت وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں (گویا) اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔‘‘
الفتح، 48 : 10
جواب : قرآن و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ روئے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام اللہ کے خلیفہ رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اللہ کے خلیفہ ہیں۔ خلیفہ نائب ہوتا ہے اور خلیفہ یا نائب کی بات ماننا اسی طرح ہے جیسے اصل مالک و مختار کی بات ماننا، یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور غلامی کو اللہ کی اطاعت اور غلامی تسلیم کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَO
’’جس نے رسول کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
النساء، 4 : 80
تو جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے پس اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔
جواب : یہ مرشد کامل یا مربی کوئی خود بخود بنی ہوئی شخصیت کا نام نہیں بلکہ جس طرح آپ قرآن کی ساری عبارت کو صرف سند متصل کی وجہ سے اللہ کا کلام جانتے چلے آتے ہیں جس طرح آپ بخاری و مسلم کی کسی روایت کو محض اس لیے حدیث یعنی کلام رسول تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ معتبر اور مسلسل اسناد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس مرشد کامل کا قلب بھی ایسے ہی مضبوط واسطوں کے ساتھ قلب رسول سے ملا ہوا ہوتا ہے، اس کا رابطۂ روحانی بھی ایسی ہی زنجیر کی مضبوط کڑیوں کی طرح سر چشمۂ روحانیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور اقوال کو اپنی کتابوں میں ضبط و نظم کے ساتھ محفوظ کرتے رہے اسی طرح حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ انوار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم سے اپنے سینوں کو منور کرتے رہے، ادھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول بذریعہ حدیث ایک سینے سے دوسرے سینے میں نقل ہوتا رہا ادھر رسول کا حال ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتا رہا دونوں شعبوں کی تکمیل صحابہ کے زمانے میں بھی کئی شخصیات کے حصے میں آئی ہیں جن میں ابو بکر صدیق، عمر، عثمان، علی المرتضیٰ، ابوذر، سلمان فارسی، ابو عبیدہ، ابودرداء، ابوہریرہ رضی اللہ عنھم وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
ان کی محبت سے تابعین کی جماعت تیار ہوئی، تابعین سے تبع تابعین نے فیض حاصل کیا اور اسی طرح سینہ بہ سینہ یہ روحانیت اور مرتبہ احسان کی کيفیت منتقل ہوتی رہی، لہٰذا آج بھی اگر کوئی مرتبہ احسان تک پہنچنا چاہے تو یہ کسی کامل شخصیت سے وابستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
جواب : روحانی تربیت وہی شخصیت کر سکتی ہے جس کے اندر ضروری شرائط اور اوصاف بدرجہ کمال پائے جائیں۔
اگر یہ اوصاف و شرائط کسی ہستی میں نہ پائے جائیں تو اس سے روحانی تعلق قائم کرنا سرے سے جائز ہی نہیں بلکہ حرام ہے یا دوسری صورت میں اگر شیخ اور مربی میں بعض شرائط پائی جائیں تو بیعت جائز تو ہو جائے گی لیکن اس بیعت سے کچھ فائدہ میسر نہیں آئے گا، بیعت اصل میں وہی ہے جو شرعاً جائز اور روحانی اعتبار سے فائدے اور ترقی کا باعث بھی ہو۔ روحانی تربیت کرنے والے میں درج ذیل گیارہ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
پہلی شرط : شیخ صاحبِ علم و معرفت ہو۔
دوسری شرط : وہ صاحبِ ورع اور صاحبِ تقویٰ ہو۔
تیسری شرط : وہ منکرات اور شبہات سے سختی سے بچنے والا، عبادت گزار اور صاحبِ مجاہدہ ہو۔
چوتھی شرط : وہ صاحبِ حسن خلق اور نہایت خوش اخلاق ہو۔
پانچویں شرط : وہ صاحبِ اخلاص اور صاحبِ استغناء ہو یعنی اس کا دل دنیاوی مفاد سے بے نیاز ہو۔
چھٹی شرط : وہ اپنے مریدین پر حد درجہ مہربان اور شفیق ہو اور ان سے اولاد جیسا برتاؤ کرے۔
ساتویں شرط : وہ صاحبِ حکمت و بصیرت ہو، مریدوں کو ان کے حسب حال ان کے ظرف، ان کے ظاہر و باطن کے احوال اور ان کی تربیت کے تقاضوں کے پیش نظر ملتا ہو۔
آٹھویں شرط : وہ صاحب ہدایت، صاحبِ ارشاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پابند ہو جو مریدوں کو اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔
نویں شرط : وہ کامل النّسبت ہو۔
دسویں شرط : وہ کامل الطریقت ہو۔
گیارہویں شرط : وہ کامل التوجہ ہو۔
جواب : لفظ مرید ’’ارادہ‘‘ سے بنا ہے، عادت کو چھوڑ دینے کا نام ارادہ ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تلاش، جستجو کا جذبہ دل میں سما جائے اور اس کے سوا بندہ ہر شے سے اپنی نگاہیں ہٹا لے۔ مرید وہ ہے جس میں صفت ارادہ پائی جائے، سچا مرید وہی ہے جو ہمیشہ حق تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف متوجہ رہے اور ہر غیر اللہ سے منہ پھیر کر صرف حق تعالیٰ کی ذات میں گم ہو جائے۔ مرید کتاب و سنت کے سوا ہر چیز سے بے تعلق ہو جائے۔ لہٰذا کوئی مرید ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ محبوب سے محبت نہیں کرتا اور ارادہ نہیں کر لیتا اور ارادہ اس وقت تک ہوتا ہی نہیں جب تک ارادہ کو خالص نہ کر لیا جائے۔
جواب : تصوف سراسر ادب کا نام ہے، بغیر ادب کے اس راہ میں کچھ نہیں ملتا جو سالک ادب سے محروم رہتا ہے وہ مقام قرب سے دور اور مقام قبولیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
شهاب الدين سهروردی رحمة الله عليه، عوارف المعارف : 562
پس مربی اور روحانی استاد کے سامنے سالک کا دستور اور طرز عمل ایسا ہونا چاہیے کہ وہ نہ بلند آواز میں گفتگو کرے نہ بہت زیادہ ہنسے، زبان کو خاموش رکھے، شیخ سے زیادہ سوالات نہ کرے، شیخ کی اتباع اپنے اوپر لازم کرے، کھانے پینے، سونے بلکہ ہر نیک کام کو جو شیخ و مربی سے صادر ہو درست سمجھے اگرچہ وہ بظاہر درست نظر نہ آئے۔ شیخ و مربی کی حرکات و سکنات پر نکتہ چینی اور اعتراض نہ کرے کیونکہ رائی برابر اعتراض بھی محرومی کے سوا کچھ نہیں دیتا جو بھی اور جہاں سے بھی کچھ فیض ملے اسے اپنے پیر کی طرف سے جانے، اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے شیخ کے سپرد کر دے۔ شیخ کی طر ف ہمہ وقت اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ شیخ سے کبھی غلط بیانی نہ کرے کبھی خیانت کا برتاؤ نہ کرے جو کچھ اپنی ذات کے لئے محبوب جانتا ہے شیخ کے لئے بھی محبوب جانے۔ چلنے، بولنے، کھانے غرض ہر کام میں شیخ سے پہل نہ کرے کبھی اپنے شیخ کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھے، کبھی اپنی پشت نہ کرے۔ شیخ کی موجودگی میں دوسری عبادات میں مشغول نہ ہو بلکہ تصور شیخ میں گم رہے اور ان کی زیارت سے دل و نگاہ کو محظوظ کرے الغرض اپنی ہستی کو تلاش حق میں گم کر دینا ہی اصل سلوک ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے اپنے ان ذاکرین و شاکرین بندوں کی صحبت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو صبح و شام اس کی یاد میں مست ومگن رہتے ہیں اور اس کے مکھڑے کے طلبگار رہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.
’’(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں تیری (محبت اور توجہ) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دینوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے۔‘‘
الکهف، 18 : 28
یہ لوگ خدا شناس ہیں وہ بے شک خدا نہیں مگر اس کے ہمنشیں ہیں، اس لیے جو ان سے دور ہوا وہ اللہ سے دور ہو گیا اور جو ان کے قریب ہوا وہ اللہ کے قریب ہو گیا۔
یہ اللہ کے وہ مقرب اور عاشق بندے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز کر کے مولا کی یاد میں فنا کر دیتے ہیں۔ مولانا روم کے درج ذیل اشعار اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں :
مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد
(جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی اس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائے روم بنا دیا۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
(اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارئے ہوئے لمحات سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔)
الغرض اللہ تعالیٰ کے قرب کی دولت اولیاء و صوفیاء کی صحبت و معیت سے ملتی ہے، خشیت و محبت الٰہی کا سودا صوفیاء کے بازار میں ہی ملتا ہے۔ یہ سوغات محبت، صحبت صلحاء اختیار کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
جواب : صحبت بد کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اگر انسان کی شخصیت اچھی صحبت سے سنورتی ہے تو اس کے برعکس صحبت بد سے بگاڑ بھی زیادہ ہوتا ہے بلکہ اس کے نقصانات انتہائی زود اثر ہوتے ہیں۔ ایک خراب پھل ساری ٹوکری کے پھلوں کو خراب کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے جبکہ سارے صحيح پھل مل کر ایک خراب پھل کو درست نہیں کر سکتے۔ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے بالکل اسی طرح برے لوگوں کی سنگت اور صحبت اپنے اثرات بد سے دوسروں کو بگاڑتی ہے، اسی لیے ایسی صحبت سے بچنا چاہیے جو بندے کو خدا سے غافل کر دے اور دنیا کی محبت میں مبتلا کر دے۔
حضور داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔
جاہل صوفیاء
علمائے غافلین
فقراء مداہن
داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، کشب المحجوب : 23
جواب : اس سے مراد وہ علماء ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ مقصود بنا لیا ہے، شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کی بجائے حیلے بہانے تراش کر من گھڑت طریقے اپنائے ہیں، حکمرانوں کے پجاری بن گئے ہیں، ظالموں کی خوشامد کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے، تکبر و عناد، حسد و بغض اور دنیا پرستی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ وہ بندگان ہوا و ہوس اس قدر تصنع اور بناوٹ میں مبتلا ہیں کہ بزرگان دین کے مقابلہ میں اپنی علمی فوقیت دکھاتے ہیں، ان علمائے سوء نے انہی بری خصلتوں کی بنا پر مذہب و شریعت کو بدنام کیا ہے۔ چونکہ وہ دین کے ٹھیکیدار بن کر لوگوں کو دین سے دور کرنے والے ہیں، اس لیے ایسے علماء کے تعلق و محبت اور صحبت سے محفوظ رہنا ایمان کی سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔
جواب : ان سے مراد وہ فقرا ہیں جو بظاہر فقر و تقویٰ اور زہد و ورع اور ترک دنیا کی بات کرتے ہیں مگر ان کے قول و فعل میں واضح تضاد ہوتا ہے۔ لہٰذا مداھن فقرا منافقت کی راہ پر چلنے والے لوگ وہ ہیں جو بظاہر درویشی کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنا ضروری ہے۔
جواب : جاہل صوفیاء وہ ہیں جو خود تو معارف طریقت، آداب شریعت و تصوف سے ناآشنا ہوتے ہیں مگر مسند ولایت پر براجمان ہو کر بزعم خویش رشد و ہدایت کا فریضہ اپنا لیتے ہیں اور دوسروں کو نام نہاد معرفت و ولایت کی منازل کا درس دینے لگتے ہیں۔ یہ ایسے جاہل صوفیاء ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں، اس لیے عرفاء و صلحاء نے ایسے نام نہاد اور جاہل صوفیاء سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
جواب : زہد کا معنی ہے ’’رک جانا‘‘
حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ زہد میں صرف تین حروف ہیں حرف (ز) کا معنی زینتِ دنیا کو ترک کرنا ہے۔ حرف (ہ) سے ہوائے نفس یعنی اپنے دل کی خواہش کو چھوڑنا مراد ہے اور (د) سے تمام دنیا کو ترک کرنا مراد ہے پس جب تو ان چیزوں سے منہ موڑے تو اس وقت زاہد کہلانے کا حقدار ہو گا۔
پس زہد یہ ہے کہ شریعت جس چیز کی اجازت دے اسے اختیار کرے اور باقی سب چھوڑ دے۔
جواب : صاحب ورع کا مطلب یہ ہے کہ شیخ و مرشد ایسا ہو جو لوگوں کے عیب چھپانے والا ہو۔ وہ اپنے نفس کا بہت زیادہ محاسبہ کرنے والا ہو، اسے چاہیے کہ اور کسی کا عیب ظاہر نہ کرے، اگر مرید سے کوئی بے ادبی یا کوئی لغزش سر زد ہو بھی جائے تو اس سے در گزر فرما دے، اگر کسی شخص نے بے ادبی کی ہو یا اسے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ہو تو اس کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کا سلوک کرے اور اصلاح کی غرض سے بغیر اس کا نام لیے مجلس عام میں نصیحت کا وہ انداز اپنائے کہ جس سے اس کو پتا بھی چل جائے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ حقیقی ورع از روئے تعریف شبہات سے نکلنے اور ہر ہر قدم پر نفس کا محاسبہ کرنے کا نام ہے۔
جواب : اخلاص کے لغوی معنی پاک صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی اخلاص کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الاخلاص التَبَرِّی عَن کُلِّ مادُون اﷲ تعالی.
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے۔‘‘
امام راغب اصفهانی، المفردات القرآن : 155
اخلاص کا صحيح مفہوم یہ ہے کہ انسان زندگی میں جو بھی عمل کرے اور جس سطح کی اور جس شکل کی بھی عبادت کرے اس کا دل اس عبادت اور عمل میں صرف اور صرف اس بات پر مطمئن ہو کہ میں یہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر رہا ہوں۔ اپنے دل کو ہر قسم کی نفسانی، ظاہری و باطنی خواہشات سے پاک کرنے اور اپنی بندگی کو دنیا کے مفاد حتیٰ کہ اپنے ہر عمل و عبادت کو اپنی حرکات و سکنات کو بلکہ اپنی زندگی کی ساری جہتوں کو ہر طرف سے ہٹا کر صرف اللہ کی رضا میں خود کو گم کر دینا اخلاص کہلاتا ہے۔
جواب : اخلاص کو تمام عبادات اور نیک اعمال میں روح کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
فَاعْبُدِ اﷲَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَO اَلاَِﷲِ الدِّيْنُ الْخَالِصُO
الزمر، 39 : 2، 3
’’اللہ کی عبادت کرو، صرف اس کے بندے ہو کر، ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں انسان کو عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے اور عبادت تو ظاہر ہے اللہ ہی کے لئے ہوتی ہے لیکن اس میں جو بات اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ اس کی عبادت کس حال کے ساتھ کی جائے۔ یہاں دو بار اخلاص یعنی مخلص اور خالص ہونے کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندگی میں مخلص ہونا اور اللہ کے لئے اطاعت گزاری کو خالص کر لینا ہی اس کی عبادت میں اخلاص ہے اور عبادت جو انسانی زندگی کا مقصود ہے وہ اگر اخلاص سے خالی ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پا سکے گی۔ نیز انسان کے اعمال کی قبولیت اور رد کر دیئے جانے کا انحصار بھی اخلاص پرہے۔
جواب : ہر عمل کا ایک ظاہری اور ایک باطنی پہلو ہوتا ہے۔ ظاہری پہلو عمل اور عبادت کا وہ حصہ ہے جو ہماری حرکات و سکنات سے وجود پذیر ہوتا ہے۔ اگر ہم نے کوئی عمل کیا جو پہلو ہمیں نظر آ رہا ہے وہ اس عمل اور عبادت کا ظاہری پہلو ہے اور باطنی پہلو وہ ہے جو نظر نہیں آتا اور جس کی تشکیل دل میں ہوتی ہے۔ جس طرح ہمارے جسم کے ظاہری اعضاء سے عمل کو وجود ملتا ہے اسی طرح باطنی وجود دل کے کارخانے میں عمل کے لئے نیت کو تیار کرتا ہے۔ نیت کے بعد ارادہ تیار ہوتا ہے، یہی باطنی پہلو اگر ’’اخلاص‘‘ پر مبنی ہو تو یہ عمل میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر عمل میں ’’اخلاص‘‘ کی روح کار فرما نہ ہو تو دیکھنے میں تو وہ بھی ایک عمل ہو گا لیکن اس کی اہمیت ایک بے کار مردہ لاشے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اخلاص کا عمل اللہ کی بارگاہ تک لے جاتا ہے اور غیر مخلصانہ عمل انسان کو صرف دنیا تک محدود کر دیتا ہے۔
جواب : کسی بھی عمل کے لئے دل کو اللہ تعالیٰ کی خاطر پاک کر لینا اخلاص ہے۔ جب انسان اخلاص کو دل میں جاگزیں کر لیتا ہے تو پھر اس اخلاص کے نتیجے میں دل کو جو کيفیت نصیب ہوتی ہے اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔
جواب : جب بندہ اپنا ہر عمل صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہے تو پھر اللہ سے تعلق کی بنا پر جو کيفیت دل کو نصیب ہوتی ہے اس کيفیت کا نام تقویٰ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور ناراضگی سے بچنے کے لئے دل جس کيفیت میں مبتلا ہوتا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں تو تقویٰ حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے قلبی تعلق کا پیدا ہو جانا ہے جب دل نیکیوں کی طرف خودبخود مائل ہو جائے اور برائی سے نفرت کرے اسی کيفیت کو تقویٰ کہتے ہیں۔
جواب : خلق کی جمع اخلاق ہے، اس کے معنی پختہ عادت کے ہیں۔ اصطلاح میں خلق سے مراد انسان کی ایسی کيفیت اور پختہ عادت کا نام ہے جس کی وجہ سے بغیر کسی فکر و توجہ کے نفس سے اعمال سرزد ہوں۔
حسن خلق سے مراد نیک خو اور اچھی خصلت ہے۔ مسلمان کے لئے عمدہ اور حسین اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔ اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، توضع و انکساری، خلوص و محبت، جیسے اوصاف قابل ذکر ہیں۔ حُسن خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 134
جواب : احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کا اخلاق عام مسلمانوں سے حد درجہ افضل اور حسین ہوتا ہے۔ شیخ ابو بکر الکتانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
’’تصوف سراپا اخلاق ہے جس نے کسی خلق کا اضافہ کیا اس نے تصوف میں اضافہ کیا۔‘‘
صوفیاء کرام مجاہدات و ریاضت کے ذریعے اپنے نفوس کی اس طرح اصلاح کرتے کہ ان کے اخلاق بہتر ہو جاتے، عام مسلمان نیک کام کرنے میں اسلام کی روشنی میں چلتے ہیں زاہد لوگ بھی بعض اخلاق اختیار کرتے ہیں جبکہ صوفیاء کرام جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب ہوتے ہیں اور ان کے عمل احسان کے نور کے مطابق ڈھلے ہوتے ہیں جب اہل قر ب اور صوفیاء کرام کے باطن میں نور یقین سرایت کر جاتا ہے او روہ ان کے قلب و باطن میں رچ بس جاتا ہے تو قلب کا گوشہ گوشہ جگمگا اٹھتا ہے اس طرح قلب کا کوئی گوشہ نور اسلام سے اور کوئی نور ایمان سے منور ہو جاتا ہے۔ مگر نور احسان و ایقان سے قلب کے تمام گوشے روشن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صوفیائے کرام کے اخلاق ہی اصل میں خدائی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ اتباع رسول میں حسن اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں اس لیے صوفیاء کرام کی پہچان ان کا حسن خلق ہی ہے اور جس میں حسن خلق نہیں وہ کم از کم صوفی نہیں کہلا سکتا۔
جواب : روحانی بیماریوں کے علاج اور نفسانی خرابیوں کے ازالہ کے لئے تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور تطہیر باطن کے لئے محنت اور عبادت میں کثرت و ریاضت کرنا یہ مجاہدہ ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
المجاهد من جاهد نفسه.
’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘
ترمذی، الجامع : 469، رقم : 1621، کتاب فضائل الجهاد، باب ماجاء فی فضل من مات مُرابطاً
مجاہدہ کی حقیقت نفس و خواہش کی مخالفت ہے۔ نفس کو مرغوب چیزوں سے، من مانی باتوں سے اور تمام لذتوں سے چھڑایا جاتا ہے اور ہر وقت اسے اس کی خواہشوں کے خلاف آمادہ کیا جاتا ہے۔ نفس کی مثال سرکش گھوڑے کی مانند ہے، تو مجاہدہ اس سرکش گھوڑے کے منہ میں تقوی کی اور اللہ کے ڈر کی لگام ڈال دیتا ہے۔
جواب : صوفیاء کرام کا قول ہے کہ مجاہدہ نفس کے بغیر سالک کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا لہٰذا نفس کی مخالفت عبادت کی تمام قسموں کی بنیاد اور مجاہدے کے تمام درجوں کا کمال ہے۔ بندہ اس مقام تک رسائی کے بغیر راہ حق کو نہیں پا سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نفس کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ وہ جو نفس کی مخالفت کے لئے کوشاں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان بندگان حق کی تعریف و تحسین فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیO فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیO
’’اور جس نے اپنے نفس کو ہر بری خواہش سے روکا تو یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘
النزعٰت، 79 : 40، 41
ایک غزوہ سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : ’’اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جہاد اکبر کیا ہے؟ فرمایا ’’وہ نفس سے مجاہدہ ہے۔‘‘
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 13 :
جواب : نفس کے احوال و کيفیات اور روحانی خطرات کی ہمہ وقت نگرانی کرنا محاسبہ نفس ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا :
احْبِسْ نَفْسَکَ عَنِ الشَّرِّ فإنَّها صَدَقَة تَصَدَّقُ بها علٰی نَفْسِکَ.
’’اپنے نفس کو شر سے بچا کر رکھیں، پس بے شک یہ صدقہ ہے جو جو تمہاری جان پر صدقہ ہے۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 511
محاسبۂ نفس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.
الحشر، 59 : 18
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔‘‘
جواب : قلت کلام سے مراد کم بولنا ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور صوفیاء کرام کا معمول بھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت کم گفتگو فرماتے اور زیادہ تر خاموش رہنا پسند فرماتے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان رسول اﷲ طويل الصمت.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر خاموش رہنے والے تھے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
طبقات ابن سعد، جلد 1 : 372
الصمت ارفع العبادة.
’’خاموشی سب سے اونچی عبادت ہے۔‘‘
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
کنز العمال، 3 : 350، رقم : 6881
إن من حُسنِ اسلام المَرء ترکه مالا يعنيه.
’’بے شک انسان کے اسلام کی عمدگی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو ترک کر دیتا ہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح : 634، رقم : 2318، کتاب الزهد، باب : 11
زبان کا تقویٰ خاموشی سے حاصل ہوتا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
’’جو خاموش ہوا وہ نجات پا گیا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 159
جواب : قلت طعام سے مراد کم کھانا ہے۔ کم کھانا نہ صرف صحت کے لئے اچھا ہے بلکہ روحانی ترقی و تزکیہ نفس کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا بہت سادہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت کم مقدار میں کھانا تناول فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل خانہ پر ایسا مہینہ بھی آتا کہ آپ کے کسی ایک گھر سے بھی دھواں اٹھتا دکھائی نہ دیتا۔‘‘
ابن ماجه، السنن : 710رقم : 4145، کتاب الزهد، باب معيشة آل محمد صلی الله عليه وآله وسلم
اور آپ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے :
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی دو دن تک متواتر جو کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔‘‘
ترمذی، الجامع : 642، رقم : 2357، کتاب الزهد، باب ما جاء فی معيشة النبی صلی الله عليه وآله وسلم و أهله
صوفیا و صالحین کا مذہب فقر و فاقہ اختیار کرنا ہے، ترک طعام سے ضبط نفس اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔
جواب : قلت منام سے مراد کم سونا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ عبادت و ریاضت فرماتے تھے اور کم سونے کو پسند فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے طویل قیام اور رات بھر کی مشقت کے پیش نظر فرمایا :
طٰهٰO مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰیO
’’اے محبوب( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے تو نہیں اتارا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔‘‘
طهٰ، 20 : 1 - 2
امام بغوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری پوری رات نماز پڑھتے رہتے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنے نفس کے لئے کچھ آسانی کا سامان کریں۔
امام بغوی، معالم التنزيل، 3 : 211
صاحب تفسیر ’’کشاف‘‘ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت میں اس قدر طویل مجاہدہ فرمایا کرتے کہ نماز میں طویل قیام کے باعث آپ کے قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔
الکشفاف، 3 / 49
جواب : جب سالک حصول علم و طاعت حق اور مرشد کی بیعت حاصل کرنے کے بعد مجاہدہ نفس کی طرف پہلا قدم بڑھائے یعنی اپنے کھانے پینے، سونے اور بولنے میں کمی کر دے تو پھر اپنے شیخ و مربی کی اجازت سے ذکر و اذکار میں مشغول ہو جائے اگر اپنے اذکار اور دیگر عبادات میں پابندی وقت سے کام لے گا تو یہ اس کے حق میں بہت مفید ثابت ہو گی۔ تلاوت قرآن مجید کے لئے کوئی وقت مقرر کر کے باقاعدگی سے تلاوت کے ذریعے اپنے باطن کو منور کرے۔ نوافل کے معاملے میں سالک فرض نمازوں کی پابندی کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین ادا کرنے کا معمول بنائے۔ اسے چاہیے کہ نماز فجر اور اشراق کے درمیان اور مغرب و اوابین کے درمیان دنیوی گفتگو سے پرہیز کرے۔ اس کے علاوہ ہفتہ میں کم از کم ایک بار صلوٰۃ التسبیح ضرور پڑھے۔ اس کے لئے جمعہ کا دن موزوں ترین ہے۔
سالک کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ محفل نعت و ذکر کا اہتمام کرے، یا کم از کم ایسی مجالس ذکر و فکر میں شرکت اپنے اوپر ضرور لازم کرے۔ ان ذکر و اذکار کی پابندی کیے بغیر روحانی ترقی، تزکیہ نفس اور مرتبہ احسان تک رسائی ممکن نہیں۔
جواب : ذکر و اذکار میں چند آداب و شرائط ضروری ہیں، ان میں کم کھانا، فراغت، سکون، تنہائی، بند حجرہ، نیم تاریکی، پاکیزہ جگہ، اجلے اور پاک کپڑے، قبلہ رخ دو زانو یا چار زانو بیٹھنا اور اپنے شیخ کا تصور باندھے رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ ذکر شروع کرنے سے پہلے سچے دل سے توبہ و استغفار کی جائے دو نفل پڑھ کر درود و سلام اور قرآنی آیات کے ذریعے دنیاوی وسوسوں سے اپنے دل و دماغ کو پاک کرے تاکہ ذکر خفی سے نفع حاصل ہو۔ ذکر کرتے وقت اپنا دھیان دنیا کے جاہ و مال سے اس قدر ہٹا لیا جائے کہ دوران ذکر ان کا خیال تک نہ گزرے، صرف زبان سے نہیں بلکہ پوری دل جمعی، وجدان، قلبی توجہ اور محبت کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنا اپنا معمول بنا لے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved