جواب : لفظِ احسان کا مادہ ’’حسن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور تیسرا یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پر کشش ہو۔
راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 119
اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا تھا۔
جواب : قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَO
’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 93
پھر فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَO
التوبه، 9 : 119
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ کیا ہے؟ یہ دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوف کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔‘‘
الفاتحه، 1 : 5، 6
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO
النساء، 4 : 69
’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
جواب : امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.
’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘
انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.
’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘
اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ.
1. بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام
والاحسان و وجوب الايمان
2. مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان
والاسلام ولإحسان و علم اشاعة
’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و السلام و الاحسان
جواب : مذکورہ بالا حدیث جبریل میں دین کی تین بنیادی ضروریات کا بیان ملتا ہے جن میں پہلی ضرورت ایمان ہے۔ ایمان کی تعریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو امور بیان فرمائے ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر عقائد و نظریات سے ہے اور عقائد سے تعلق رکھنے والے علم کو اصطلاحی طور پر علم العقائد کہتے ہیں۔
اسلام کی تعریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پانچ ارکان بتلائے ہیں ان سب کا تعلق ظاہری اعمال اور عبادات سے ہے۔ اس علم کو شریعت کی اصطلاح میں علم الاحکام یا علم الفقہ کہتے ہیں۔
حدیث مبارکہ کی رو سے دین کی تیسری ضرورت احسان ہے اور انسان کو یہ درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس میں ایمان اور اسلام دونوں جمع ہو جائیں۔ گویا اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زبان سے اقرار اور دل سے جو تصدیق کی، اس کا عملی اظہار اور پھر اپنے اعمال اور ظاہری عبادات کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے اس کمال سے آراستہ کیا کہ اس کے اعمال اور عبادات اس کی تصدیق بالقلب کا آئینہ دار بن گئے۔ اس مرحلہ پر انسان درجہ احسان پر فائز ہو جاتاہے اور اسے باطنی و روحانی کيفیات نصیب ہو جاتی ہیں۔ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ احسان کا موضوع باطنی اور روحانی کيفیات کے حصول سے متعلق ہے۔
جواب : ایمان، اسلام اور احسان تینوں باہم مربوط اور لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان وہ بنیاد ہے جس پر مسلمان کا عقیدہ استوار ہوتا ہے اور اسلام سے مسلمان کا ظاہر اور اس کا عمل درست ہوتا ہے جبکہ احسان سے مسلمان کا باطن اور حال سنورتا ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے اسلام کا ذکر پہلے کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی کے ذریعے دین کے دائرے میں داخل ہونا اسلام ہے اور اسلام کو دل میں بسالینے کا نام ایمان ہے۔
احسان کے ذریعے ایمان اور اسلام دونوں کے اثرات قلب و باطن پر وارد ہوتے ہیں۔ جب مسلمان کا ظاہر و باطن یکساں ہو جاتا ہے اور ظاہر و باطن میں کامل یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے تو اس سے دل نور پیدا ہوتا ہے اور نور سے اس کا باطن چمکنے لگتا ہے یعنی جب ایمان اور اسلام قلب کی حالت اور باطن کا نور بن جاتے ہیں تو دل کی دنیا روحانی کيفیات میں بدل جاتی ہے۔
درحقیقت ایمان، اسلام اور احسان یہ سب ایک ہی سرچشمے اور ایک ہی مرکز سے تعلق رکھتے ہیں یہ تینوں ایک دوسرے کی بقاء، ترقی اور نشوونما کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی نظر انداز ہو جائے تو دوسرے کا وجود بگاڑ کا شکار ہو کر کمال سے محروم ہو جاتا ہے گویا ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے۔ چنانچہ ایمان کے بغیر اسلام ناتمام ہے اور اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے جبکہ احسان کے بغیر ایمان اور اسلام دونوں ناقص رہ جاتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں کوئی شخص اسلام کی محض ظاہری تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایک مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ مومن بن کر ہی درجہ کمال کو پاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف ایمان کے تقاضے پامال نہ ہونے پائیں، دوسری طرف اسلام کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل میں سستی اور کوتاہی واقع نہ ہونے پائے۔ ضروری ہے کہ باطن اور حال کو سنوارنے کے لئے ایمان اور اسلام کی دونوں قوتوں کے ساتھ روحانی کمال کی منزلِ احسان کو حاصل کیا جائے۔
جواب : حدیث جبریل میں ہمیں احسان کی کيفیت کے اعتبار سے دو حالتوں کا بیان ملتا ہے، پہلی حالت کو حالتِ مشاہدہ کہتے ہیں دوسری کو حالتِ مراقبہ کہتے ہیں۔
أن تعبد اﷲ کأنک تَرَاه
’’ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہ کيفیت حالتِ مشاہدہ کہلاتی ہے۔ جب بندہ محبوب حقیقی کی یاد کو پورے دھیان کے ساتھ ہر وقت اپنے دل میں بسائے رکھے اور اسی کے تصور اور مشاہدہ کے سمندر میں غوطہ زن رہتے ہوئے اپنے آپ کو اس کی حضوری میں رکھے۔ جب دل کے تمام گوشے محبوب کی یاد اور تصور سے معمور ہو جائیں اور نس نس میں وہی سما جائے تو اس کے نتیجے میں وہ ظاہری دنیا میں جو کچھ دیکھے گا سب بے خیالی اور بے دھیانی کی نذر ہو جائے گا جب استغراق کی یہ حالت نصیب ہو جائے تو قلب و ذہن پر پڑے ہوئے پردے اٹھ جاتے ہیں اور وہ مقام حاصل ہو جاتا ہے جس میں بندہ اﷲ کے حسن اور تجلیات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے۔
فإن لم تکن تراه فإنه يراک
’’پس اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
کيفیت و حالت کے اعتبار سے یہ احسان کا دوسرا درجہ ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ غلام اپنے آقا کے احکام کی تعمیل اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اور اسے یقین ہو کہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔ مالک کی غیر موجودگی میں اس کے کام کا وہ حال نہیں ہوتا جو وہ مالک کے سامنے دھیان اور لگن کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اگر وہ خود نہ بھی دیکھے مگر اس کے اندر یہ احساس جاگزیں ہو جائے کہ اس کا آقا اسے دیکھ رہا ہے، تو یہ احساس اس کے کام میں حسن اور لگن پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ بندگی میں یہ مقام حالتِ مراقبہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وقت بندے کے دل و دماغ پر یہ کيفیت طاری رہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ میری ہر حرکت و سکون اس کے سامنے ہے یوں بندہ ہمہ وقت اپنے مولا کی نگرانی کے تصور سے بہت زیادہ ڈرتا رہے۔ اس حالت و کيفیت کو مراقبہ کہتے ہیں اور یہ احسان کا دوسرا مرتبہ ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں :
’’احسان کے پہلے مرتبہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کے دل پر معرفت الٰہیہ کا اس قدر غلبہ ہو اور وہ مشاہدہ حق میں اس طرح کھو جائے گویا اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے، یہ مقام فنا کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ معرفت الٰہیہ کے اس مقام پر تو اگرچہ نہ ہو لیکن اس کے ذہن میں ہر وقت یہ بات موجود رہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه، فتح الباری، 1 : 120
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احسان کا پہلا مرتبہ عارف کے احوال اور اس کے قلب پر ہونے والی واردات کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی سالک پر ایسا حال طاری ہو جائے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ احسان کے دوسرے مرتبہ میں عابد کی اس کيفیت کی طرف اشارہ ہے یعنی جس وقت وہ عبادت کرے تو اس علم اور یقین کے ساتھ کرے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات اسے دیکھ رہی ہے۔
ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 601
جواب : اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے پانچ فرائض بیان فرمائے ہیں جن میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْکُمْ رَسُوْلاً مِنْکُمْ يَتْلُوْا عَلَيْکُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَکِّيْکُمْ وَ يُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَة وَ يُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَO
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
البقره، 2 : 151
مذکورہ بالا آیات میں قرآن کی آیات کی تلاوت کرنا اور قرآن کی تعلیم دینا اور حکمت و دانائی سکھانا ایسے امور ہیں جن کا تعلق شریعت کے ظاہری احکام و اعمال کے ساتھ ہے اور تزکیہ نفس باطنی روحانی تربیت سے متعلق ہے جبکہ یعلمکم مالم تکونوا تعلمون ارشاد ربانی میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کی تعلیم و حکمت کے علاوہ بھی کچھ اسرار و رموز ہیں ان معارف کو علم لدنی، علم معرفت اور حقیقت کہتے ہیں اور یہ وہ علوم تھے جن کو کوئی نہیں جانتا تھا مگر نبوت و رسالت کا فریضہ منصبی یہ بھی قرار پایا کہ ان روحانی علوم و معرفت کو بھی عارفانِ حق پر منکشف کریں۔ اس علم کو جس سے بندہ اپنے رب کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اسے قرآن نے علم لدنی اور علم حقیقت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً.
’’اور ہم نے اسے اپنا علم لدنی (الہام و معارف کا علم) سکھایا۔‘‘
الکهف، 18 : 25
اس کے علاوہ تقوی، اخلاص اور حسن نیت کے مختلف عنوانات کے تحت بھی الاحسان کی اہمیت کا قرآن حکیم میں ذکر ملتا ہے۔
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ.
’’اور اللہ کو ہرگز اس کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تو (تمہارے دلوں) کا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
الحج، 22 : 37
تصوف و احسان جس مجاہدے اور ریاضت کا راستہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَO
’’اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے او ربے شک اللہ تعالیٰ ضرور احسان کی روش اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
العنکبوت، 29 : 69
جواب : علم التزکیہ و لاحسان جسے ’’فقہ باطن یا علم الباطن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’لوگوں سے وہ باتیں کرو جن کو وہ جانتے اور سمجھ سکتے ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔‘‘
بخاری، الصحيح : 50، رقم : 127، کتاب العلم، باب مَن خص بالعلم قوما دون قوم کراهية
ان لا يفهموا.
اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اس میں ہر ایک کے لئے ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور اس میں سے ہر ایک کے لئے ایک حد ہے جس پر بعض لوگوں ہی کو مطلع کیا جاتا ہے۔
خطيب تبريزی، مشکوٰة، 1 : 113، رقم : 238
سعید مقبری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو ظرف علم کے محفوظ رکھے ہیں ان میں سے ایک کو تو میں نے تم میں پھیلا دیا دوسرے کو اگر پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے۔
بخاری، الصحيح : 48، رقم : 120، کتاب العلم، باب حفظ العلم.
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ ہے۔ دین کے ظاہری پہلو، شریعت کی تعلیمات و احکامات کی بات ہو یا دین کے باطنی پہلو اور طریقت و احسان کی بات ہو یہ سب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت شدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ صفت تھی۔ یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ روٹی تب کھائی جاتی ہے جب بھوک ہو، دوا اس لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ شفاء یابی ہو لیکن اگر بھوک ہی نہ ہو تو کھانے کی طلب نہیں رہتی اور بیماری ہی نہ ہو تو دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے اگر انسان پہلے ہی سے نفس کی آلودگیوں اور باطن کی آلائشوں سے پاک و مبرا ہو تو اسے تزکیہ و تصفیہ کے لئے سالک طریقت بننے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی مقام کی ابتداء بھی طریقت و ولایت کے انتہائی مقام سے ماوراء تھی لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے لئے ہر پسندیدہ حکم کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلوک و احسان کے اصول وضع فرمائے اور اپنی عملی زندگی میں ان کو نافذ کر کے دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ خشوع و خضوع، زہد و ورع، خشیت الٰہی، محبت و معرفت الٰہی کی عظیم مثالی کيفیات سے بھری پڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اتنی کثیر عبادت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ اتنی کثیر عبادت کے باعث صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بخشش کا وعدہ فرما رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
1. بخاری، الصحيح : 207، رقم : 1130، کتاب التهجد، باب قيام النبی صلی الله عليه وآله وسلم حتی ترم قد ماه
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے اور فرمایا : دیکھو یہ مردار اس درجہ ذلیل و خوار ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس مردار سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ فرمایا : دنیا کی صحبت تمام گناہوں کی سردار ہے، دنیا برباد شدہ لوگوں کا گھر اور مفلسوں کا مال ہے۔
ترمذی، الجامع : 635 رقم : 2321، کتاب الزهد، باب ما جاء فی هوان الدنيا علی اﷲ عزوجل
جواب : اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ احسان و تصوف کے جملہ اصول و ضوابط صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی عملی زندگیوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ صحابہ کرام براہ راست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آداب طریقت سیکھتے تھے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خاص تربیت سے انہیں سلوک و طریقت کی تعلیم دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت صحابہ کرام کے لئے شیخ طریقت اور مرشد کامل کی تھی۔ تصوف و طریقت کا پہلا قدم نسبت ارادت کا قائم کرنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے کوئی صحابی بھی ایسا نہ تھا جس نے با ضابطہ طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت نہ کی ہو۔
حضرت عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سات بیعتیں کیں۔ پانچ بیعتیں اطاعت پر اور دو بیعتیں محبت پر۔‘‘
طریقت کی راہ میں شیخ طریقت اور مرید کے درمیان کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو بجا لائے بغیر کوئی مرید اپنے شیخ طریقت سے کسی قسم کا فیض حاصل نہیں کر سکتا۔
کنز الاعمال، 1 : 326، رقم : 1524
صحابہ کرام اپنے مرشد کامل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آدابِ محبت سے خوب واقف تھے۔ روایات میں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمال درجہ کے ادب اور تواضع و انکساری کا اظہار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی اپنے چہروں اور آنکھوں پر مل لیتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن نیچے نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے ہاتھوں اور چہرے پر مل لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے، حصول برکت کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دست بوسی اور قدم بوسی کرتے تھے۔ تصور شیخ باندھنا بھی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سنت تھا۔
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ کائنات کی تمام نعمتوں سے محبوب تر عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت و محبت کو گردانتے تھے۔ انہیں ہر قسم کی عبادت اور ریاضت سے بڑھ کر اگر کوئی عمل عزیز تھا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہنا تھا۔
عہد رسالت اور عہد صحابہ کرام میں ذکر و فکر کی مجالس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر لباس صوف پہننا، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا معمول تھا۔ اکثر صحابہ اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’بے شک میں نے ستر بدری صحابہ اکرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو صوف کا لباس پہنتے ہوئے دیکھا۔‘‘
شهاب الدين سهروردی، عوارف المعارف، 2 : 293
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول فاقہ کشی، قلت کلام، کثرت عبادت اور گریہ و زاری تھا۔ یہ تمام اوصاف ان کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام کثرت سے روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے، اس لیے صوفیاء کرام کے یہ تمام معمولات، عبادات و ریاضت و مجاہدات کے ذریعے روحانی مشقتیں کرنا، یہ سنت صحابہ کی اتباع کا نتیجہ تھا اس لیے یہ کہنا کہ ان کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے سرا سر غلط ہے۔
جواب : جی ہاں ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگیاں احسان و تصوف کا عملی نمونہ نظر آتی ہیں۔ تمام صحابہ کرام کے احوال تقویٰ و عبادت، زہد و ورع، ریاضت و مجاہدہ کے عملی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ رقتِ قلب، خشیت الٰہی، گریہ و زاری، خوف و رجاء، جود و سخا، کثرت عبادت و ریاضت، خوفِ آخرت، محبت الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شوقِ جہاد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کے نمایاں اوصاف تھے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رات بھر نمازیں پڑھتے اور دن کو اکثر روزہ رکھتے، خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت کھڑے نظر آتے، رقت قلبی اس حد تک تھی کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی تھی۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھا کہ ان کے چہرہ مبارک پر مسلسل رونے اور آنسوؤں کے جاری رہنے سے دو سیاہ خط بن گئے تھے۔
امام غزالی، مکاشفة القلوب : 28
صوفیائے کرام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات کو اپنے لیے نمونہ اور نشانِ راہ بنائے ہوئے تھے، وہ پیوند لگے کھردرے کپڑے پہنتے، ترک شہوات فرماتے، مشکوک چیزوں سے اجتناب فرماتے۔ زمین سے تنکا اٹھا کر کہتے کہ اے کاش میں یہ تنکا ہوتا، اے کاش میں پیدا نہ کیا جاتا، اے کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی، اے کاش میں کچھ نہ ہوتا۔ اے کاش میں بھلا دیا گیا ہوتا۔
امام شعرانی، الطبقات : 78
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے، رات کو قیام فرماتے اور تنہائی میں روتے، اور اکثر ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کرتے اور جب کسی قبر سے گزرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک بھیگ جاتی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :
ان کان ما عَلِمْتُ صواماً قواماً.
’’میں نے آپ سے بڑھ کر روزہ رکھنے والا اور (راتوں کو) قیام کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘
ترمذی، الجامع : 1008، رقم : 3883، کتاب المناقب، باب فضل فاطمة رضی الله عنها بنت محمد صلی الله عليه وآله وسلم
آپ رضی اللہ عنہ رات بھر نماز ادا فرماتے، بہت تھوڑا سستاتے، اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ لیتے اور سانپ کی طرح لوٹتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح گریہ و زاری کرتے رہتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی، آپ دنیا کو مخاطب کر کے فرماتے اے دنیاً میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے میں نے تجھے تین طلاقیں دے رکھی ہیں، تیری عمر تھوڑی ہم نشینی حقیر اور تیرا ذکر بہت برا ہے۔
امام شعرانی، الطبقات : 81
جواب : صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے زیر اثر تابعین میں بھی تصوف و احسان کے جملہ اصول و ضوابط بدرجہ اتم موجود تھے۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو ان کے بلند درجہ معمولاتِ احسان و تصوف کی بنا پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غائبانہ طو رپر خیر التابعین کا لقب عطا ہوا۔
مسلم، الصحيح : 1088 رقم : 224، کتاب الفضائل، باب فضائل اويس قرنی رضی الله عنه
آپ رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو کثرتِ عبادت کرتے۔ حلقہ ذکر میں شرکت فرماتے، زہد و ورع کا یہ عالم تھا کہ گھر بار، کھانے پینے بلکہ تمام دنیاوی چیزوں سے بے نیاز تھے۔ گرد آلود بال دیکھ کر بچے مذاق اڑاتے، پتھر مارتے مگر آپ کے عالم کيف و مستی اور بے خودی میں فرق نہ آتا۔
1. شيخ عبدالقادر جيلانی رضی الله عنه، عنية الطالبين : 907
2. فريد الدين عطار، تذکرة الاولياء : 8 - 9
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جو معتبر تابعی تھے۔ فرماتے ہیں :
’’کچھ لوگ اللہ کی عبادت خوف سے کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ لوگ لالچ سے عبادت کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم اللہ کی عبادت شکر کے طور پر کرتی ہے یہ آزاد بندوں کی عبادت ہے۔‘‘
ابن الجوزی، صفةالصفوة : 67
آپ رضی اللہ عنہ زہد و عبادت کا پیکر تھے۔ شبانہ روز ایک ہزار نوافل پڑھتے اور آخر دم تک اس معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ اسی عبادت و زہد کی بنا پر آپ کا لقب زین العابدین مشہور ہو گیا۔
ابن الجوزی، صفة الصفوة : 71
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے زہد و ورع کا عالم یہ تھا کہ ہر وقت چہرے سے رنج و غم کی کيفیت عیاں ہوتی، خشیت الٰہی کا غلبہ اس قدر تھا کہ ہر آن لرزہ براندام رہتے۔ یونس بن عبید رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ آتے تو معلوم ہوتا کہ اپنے کسی عزیز کو دفنا کر آ رہے ہیں۔ جب بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ایسے قیدی ہیں جن کی گردن مارے جانے کا حکم دیا جا چکا ہے اور جب دوزخ کا ذکر کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا کہ دوزخ صرف انہی کے لئے بنائی گئی ہے۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ’’جس قدر دنیا جمع ہو گی اسی قدر تیرے دل سے آخرت کا فکر نکل جائے گا‘‘۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں ’’بدن کے لئے غذا دنیا سے حاصل کرو اور دل کے لئے غذا آخرت سے لو‘‘۔
امام غزالی، مکاشفة القلوب : 238
مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے ایک آدمی نے پوچھا تباہی کس چیز میں ہے؟ فرمایا : مردہ دلی میں۔ عرض کیا : مردہ دلی کیا ہے؟ فرمایا دنیا کی رغبت۔
فريد الدين عطار رحمة الله عليه، تذکرة اولياء : 13
جواب : لفظ شریعت کامادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔
امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259
ابن منظور نے لسان العرب میں اس کے اصطلاحی معنی یہ بیان کیے ہیں :
من سَنَّ اﷲ من الدّين للعباد وامر به.
’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 8 : 175
لغت کی کتاب ’’مختار الصحاح‘‘ میں شریعت کے اصطلاحی معنی یہ درج ہیں :
’’شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطہ حیات جاری فرمائے ہیں۔‘‘
عبدالقادر الرازی، مختار الصحاح : 473
اس سے معلوم ہوا کہ شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطہ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔ شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔ شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں :
’’شریعت دراصل قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے عمل کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔‘‘
جواب : طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔
شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیبت و شہادت اور عدم و تکلف کا ہے۔‘‘
شيخ احمد سرهندی، مکتوبات امام ربانی، 2 : 255
اس کو ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھ لیجئے :
اگر کوئی شخص ظاہری شرائط و ارکان کے مطابق نماز ادا کرتا ہے تو فرضیت کے اعتبار سے اس کی نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں ہوں گے اس لیے کہ نماز میں جس طرح اس کا چہرہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے قلب و روح کا قبلہ بھی رب کعبہ کی طرف ہوا اور جسم کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اور روح بھی خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو یہ قلبی اور باطنی کيفیات ہیں جس سے بندے کو روحانی مشاہدہ نصیب ہو جاتا ہے اور ایمان اور اسلام دونوں کو جلا ملتی ہے۔ تصوف کا منشاء انہی روحانی کيفیات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس روحانی ترقی اور فروغ کے لئے جو طریقے اہل اﷲ نے وضع کیے ہیں انہیں طریقت کہتے ہیں۔ ان طریقوں کو اصطلاحاً علم التزکیہ و علم التصوف بھی کہتے ہیں وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے قلب و باطن کی تطہیر اور اصلاح و تصفیہ کی خیرات اخلاقی و روحانی تربیت سے امت مسلمہ میں تقسیم کی وہ صوفیاء کرام اور اولیاء اﷲ کہلاتے ہیں۔
جواب : نہیں ہرگز نہیں! شریعت کے بغیر طریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحد و زندیق ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی جھوٹا مبلغ، صوفی یا جعلی پیر جو لوگوں کو دعوت کے اس اصول پر بلاتا ہے وہ خود بھی جہنمی ہے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لے جا رہا ہے۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کے لئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابند ہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کيفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے۔ جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے۔ یہی اس عمل کا باطن ہے، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتا ہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا۔
اس نکتے کو پھلوں کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تو اس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیں رہا۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکار ہو گیا۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا۔
جواب : علم دین کا ظاہر ہو یا باطن یہ سارے چشمے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے اتباع سے پھوٹتے ہیں۔ جس علم کا ماخذ، منبع اور چشمہ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں پھوٹتا وہ باطل و مردود ہے۔ صرف وہی دین قابل قبول ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک سے صادر ہو۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکام کی عملی تفسیر ہے اور قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا نظام ہی تو شریعت کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر واضح طور پر بیان فرما دیا :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.
’’جو کچھ رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘
الحشر، 59 : 7
اس لیے ایسی طریقت جس میں شریعت کا اتباع نہ ہو یا جو شریعت سے ہٹ کر ہو وہ باطل، مردود اور ناقابل قبول ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فقيه اَشدّ علی الشيطان من ألف عابدٍ.
’’شریعت کا علم رکھنے والا شخص، شیطان کے مقابلے میں ایک ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے۔‘‘
ترمذی، الجامع : 722، رقم : 2681، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقه علی العبادة.
اور امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جس نے فقہ یعنی علم ظاہر حاصل کیا مگر تصوف کو چھوڑ دیا وہ فاسق ہوا جس نے علم باطن کو لے لیا او رفقہ و شریعت کے ظاہری علم کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا پس اس نے حق کو پا لیا۔‘‘
ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 1 : 313
اس سے ثابت ہوا کہ بغیر شریعت کے طریقت مردود اور ناقابل قبول ہے۔
جواب : احسان اور تصوف کا عقیدے سے تعلق ایسے ہی ہے جیسے عقیدے کا عمل سے یا جسم کا روح سے تعلق ہے۔ اسلام اگر ایک عقیدہ ہے تو احسان اس کی عملی صورت کا نام ہے۔ عقیدہ جب تک عمل کا روپ نہ دھارے وہ ایک بے جان لاشے کی مانند ہے۔ اس کی حقیقت وہم سے زیادہ نہیں۔ ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے، اگرچہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے لیکن اس کا بار بار اظہار کر کے بھی ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک یہ عقیدہ ہمیں عملاً اللہ کے سوا ہر چیز کے خوف سے بے نیاز نہ کر دے لیکن روزمرہ زندگی میں ہمارا عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ہم خدا کے سوا ہر چیز سے ڈرتے ہیں، ہم سرمایہ و دولت اور جاہ و منصب کے پجاری ہیں۔ ہمارے اندر سے خوف خدا رخصت ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم شرک کا انکار بھی کرتے ہیں ظاہر و باطن اور قول و فعل کے اس تضاد سے عقیدہ اور قوت عقیدہ محض خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں؟
دراصل عقیدہ یا ایمان صرف اسی وقت زندہ قوت بنتا ہے جب وہ عمل کے سانچے میں ڈھل جائے اور ایسا ہونا قوت یقین کے بغیر ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ یقین مشاہدے سے آتا ہے اور ایمان کو مشاہدہ حق کے مقام تک پہنچا دینا ’’مرتبہ احسان‘‘ کہلاتا ہے جس کے حصول کا ذریعہ تصوف و طریقت ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ صرف تصوف ہی مذہبی واردات کی وہ صورت ہے جو تعلیمات اسلامی اور کيفیات ایمانی کے عملی روحانی تجربہ سے نمو حاصل کرتی ہے، یہی مشاہدہ کا وہ نظام ہے جس سے عقائد کی کيفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے۔ تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے۔ جب تصوف کے ذریعے مشاہدہ عقیدے کی تصدیق کر دے تو عین الیقین کے نتیجے میں وہ عمل وجود میں آتا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مضمحل اور نابود نہیں کر سکتی۔
جواب : احسان کی دو قسمیں ہیں :
احسان مع الخالق (خالق کے ساتھ احسان کا تعلق)
احسان مع الخلق (مخلوق کے ساتھ احسان کا تعلق)
جواب : جب بندے کا اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق حسین ہو جائے اور وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات اور فرائض و حقوق کو بدرجہ احسن ادا کرے اس کا دل محبت الٰہی اور خشیت الٰہی سے اس طرح سرشار ہو کہ اس کی کيفیت ان تعبد اﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک کا مصداق ہو تو اسے احسان مع الخالق کہتے ہیں۔
جواب : جب بندہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے اپنا تعلق حسین بنا لے، اللہ کے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ حسن عمل پر مبنی ہو، وہ سراپا ایثار و قربانی بن کر ہمیشہ دوسروں کے کام آئے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے، وہ اپنے جان و مال، رزق و دولت، علم و عمل سب کچھ اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے وقف کر دے، اپنا سکھ چین قربان کر کے دکھی انسانیت میں سکھ بانٹے تو بندے کا اللہ کے بندوں کے ساتھ ایثار کا یہ عمل ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے اور اسے ہی احسان مع المخلوق کہتے ہیں۔
جواب : احسان کے فضیلت کے اعتبار سے دو درجے ہیں :
1۔ اعلیٰ درجہ
2۔ ادنیٰ درجہ
احسان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ جب بندہ اپنے خالق کے ساتھ اپنا تعلق بندگی حسین بنا لے اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو حسن تعلق اور حسن عمل پر استوار کر لے تو وہ احسان کے اونچے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس درجے کی بھی آگے دو قسمیں ہیں :
مرتبہ اولیٰ جس کو حدیث جبریل میں حالت مشاہدہ قرار دیا گیا ہے اور دوسرا مرتبہ حالت مراقبہ کا ہے۔
جب بندہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ اپنا تعلق حسین بنا لے تو وہ بھی صاحب احسان ہوتا ہے۔ یہ احسان کا ادنیٰ درجہ ہے۔
جواب : ’’احسان‘‘ وہ عظیم فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت زیادہ پسندیدہ اور محبوب ترین عمل ہے۔ احسان پر مبنی تعلق خواہ اللہ کے ساتھ ہو یا اس کی مخلوق کے ساتھ دونوں اعتبار سے ایک عظیم عمل ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا حسین عمل ہے جس میں حسن کی کوئی حد اور مقدار مقرر نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی احسان کرنے والوں کا اجر بھی بے حد اور بے اندازہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانِO
’’کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہے‘‘
الرحمن، 55 : 60
اس لیے اہل ایمان و اسلام کے لئے تو جنتِ نہار اور جنتِ عدن کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور کامل مومنوں کے لئے جنت رضوان کا لیکن احسان کی روش پر چلنے والوں کے باب میں قرآن مجید نے فرمایا :
وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلاَ يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّةٌ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَO
’’اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ ہے اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت و رسوائی، یہی اہل جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘
سوره يونس، 10 : 25، 26
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ احسان کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے اجر یعنی’’ الحسنیٰ‘‘ اور’’زیادۃٌ‘‘ کا وعدہ فرمایا ہے۔
جواب : تمام مفسرین قرآن اور ائمہ محدثین نے الحسنیٰ سے جنت قربت مراد لی ہے اور یہ دوسرے درجے پر فائز احسان والوں کا اجر ہے اور اعلیٰ درجہ کے احسان پر قائم لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے لئے اس سے اور بھی زیادہ ہے یعنی جنت تو ملے گی ہی مگر ایک نعمت اس جنت سے بھی بڑھ کر ملے گی اور وہ دیدار الٰہی ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور وہ صرف اللہ کا فضل و احسان ہے۔ اس کی تفسیر میں مذکورہ بالا آیت بیان کی جاتی ہے ﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلٰی رَبِّهَا نَّاظِرَةٌ﴾ یہ قول ابو بکر صدیق، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنھم کا ہے۔
رازی، تفسير الکبير، 17 : 76، ثناء اﷲ پانی پتی، تفسير مظهری، 5 : 498، مفتی اقتدار احمد خان، تفسير نعيمی، پاره 11 : 468
جواب : جی ہاں! احسان اور تصوف دراصل ایک ہی حقیقت کے دو رخ اور ایک ہی موضوع کے دو عنوان ہیں۔ احسان قلب و باطن کی وہ روحانی کيفیت ہے جو مقصود عبادت ہے اور اسے حاصل کرنے کا طریقۂ ’تصوف‘ کہلاتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ احسان جس کيفیت کا اجمالی ذکر ہے تصوف اس کی تفصیل ہے۔ تصوف کو ’سلوک‘ بھی کہتے ہیں اور اس راستے پر چلنے والے کو سالک کہا جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved