جواب : مسلمان کا مطلب ہے دین اسلام کا پیروکار ہونا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک صرف وہی شخص مسلمان ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے منبع امن و عافیت اور سر چشمہ امن و سکون ہو۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان کے جان و مال اور عزتیں محفوظ رہیں۔‘‘
بخاري، الصحيح، 1 : 13، کتاب الايمان، رقم : 10
جواب : مسلمان ہونے کی بنیادی شرط اِقرار بِاللّسان ہے یعنی زبان سے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اقرار و اعلان کرنا تاکہ دوسرے لوگ اسے مسلمان سمجھیں، اس کے ساتھ اہل اسلام کا سا سلوک کریں اور وہ بحیثیت مسلم اسلام کی طرف سے عطا ہونے والے حقوق سے متمتع ہو سکے۔
جواب : ’’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ ‘‘ کو کلمہ طیبہ کہتے ہیں۔ کلمہ طیبہ کا مطلب یہ ہے :
’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
جواب : جی ہاں! اگر کوئی شخص اپنی مادری زبان میں توحید و رسالت کا اقرار کر لے تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے گا۔
جواب : جی ہاں! وہ دوسرا کلمہ ہے جسے کلمہ شہادت کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے :
اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰه اِلَّا اﷲُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُهُ
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
جواب : کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت میں فرق یہ ہے کہ کلمہ طیبہ میں صرف توحید و رسالت کا اقرار اور اظہار ہے جبکہ کلمہ شہادت میں توحید و رسالت کی تصدیق بطور شہادت بیان کی گئی ہے۔
جواب : جو شخص اپنی زبان سے اقرار یا انکار نہیں کر سکتا اس کے مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اشارے سے ظاہر کر دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور اسلام میں جو کچھ ہے وہ صحیح اور برحق ہے۔
جواب : جو شخص ضروریاتِ دین مثلاً توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ، جنت، دوزخ اور آسمانی کتابوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
جواب : ہمارے ایمان کی کمزوری کا بڑا سبب منافقت، حسد اور اعتقادی اختلافات ہیں جس کی وجہ سے عمل کے ہر میدان میں مسلسل بگاڑ واقع ہو رہا ہے اور ہماری اعلیٰ اخلاقی قدریں کمزور پڑ رہی ہیں اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم مصلحت، ذاتی منفعت اور دنیاوی فائدے کی خاطر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم نے نفسانی خواہشات کو اپنا معبود اور دنیاوی نفع کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے، اگر ایک راہ ہدایت کی طرف جاتی ہے اور دوسری رسم و رواج کی طرف تو ہم دوسری راہ کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ظاہراً ہمارے چہروں سے زہد و ورع، پرہیزگاری اور تقویٰ نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اپنے باطن میں جھانکیں تو ہمیں اپنے سے بڑا کوئی جھوٹا، مکار اور منافق نظر نہیں آئے گا، اسی دوغلے پن اور دوہرے معیار کی وجہ سے مسلمان ہو کر بھی ہمارا ایمان کمزور ہے۔
جواب : اگر ہم اپنے اعمال کا مسلسل محاسبہ کرتے رہیں اور اسلام کا صرف نام لینے پر ہی اکتفاء نہ کریں بلکہ قرآن و سنت کے اتباع میں وہ حقیقی مومنانہ زندگی بسر کرنا اپنی عادت بنا لیں جس کا مکمل نمونہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے تو پھر ہمیں مضبوط اور قوی ایمان کی کیفیت نصیب ہو سکتی ہے۔
جواب : یقین کے تین درجے ہیں :
ان تینوں مدارج کو صوفیاء اپنی اصطلاح میں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے عنوانات سے تعبیر کرتے ہیں۔
جواب : یہ ایمان کا پہلا درجہ ہے جسے اصطلاحاً ایمان بالغیب یا علم الیقین کہلاتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں یوں آیا ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
البقرة، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
جو لوگ بن دیکھے غیب پر ایمان لاتے ہیں ان تک یہ بات اس ہستی کے ذریعے پہنچی ہے جس نے حقیقت کو بے نقاب دیکھا ہے، لہٰذا ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ بن دیکھے خدا کو اور دیگر مخفی حقائق کو صرف اور صرف اس بنا پر مان لیا جائے کہ مومن تک ان کا علم اس مُخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے پہنچا ہے جس نے خود خدا تعالیٰ کی ذات والا صفات کا مشاہدہ کیا ہے گویا جو کچھ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اس کو من و عن اور بلاکم و کاست مان لینا ہی ایمان بالغیب ہے۔ ایمان بالغیب کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ اگر کسی محلے میں ایک آدمی قتل ہو جاتا ہے اور کوئی شخص دوسروں کو بتاتا ہے کہ فلاں شخص اس گھر کے اندر قتل ہوا ہے اور فلاں آدمی قاتل ہے اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ قتل اس کے سامنے ہوا ہے تو اس شخص کے کہنے پر واقعہ قتل پر یقین کر لینا یقین کا پہلا درجہ ہے۔ اسی طرح بن دیکھے اللہ پر ایمان لانا ایمان بالغیب ہے۔
جواب : اس کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ آتا ہے جسے ’’عرفان‘‘ کہا جاتا ہے یعنی جس حقیقت کو بن دیکھے مانا جا رہا ہے اس حقیقت کے قرائن اور شواہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور ان قرائن و شواہد کی بنیاد پر اس ہستی پر اپنا یقین پختہ کرنا عرفان کہلاتا ہے، یہ ’’عرفان بالشواہد‘‘ ہے۔ یقین کے اس درجے کا ذکر قرآن حکیم میں یوں آتا ہے :
وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَO
الذاريات، 51 : 21
’’اور خود تمہارے نفوس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں، کیا تم نہیں دیکھتےo‘‘
اس آیۃ کریمہ میں انسانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے بے پایاں تصرفات اور اس کے کمالات پر ایمان لانے، سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کر کے صحیح نتائج اخذ کرنے کی استعداد اور صلاحیت سب کچھ تمہارے اندر مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تمام حقائق اور انکی علامات تمہارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اندر جھانک کر تو دیکھو، اپنی بشریت کے تاریک حجابات اٹھا کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش تو کرو، کس طرح حقائق تمہارے باطن سے جھلکتے نظر آتے ہیں۔
اسے مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص مکان سے دوڑتا ہوا باہر آئے جبکہ اس کے ہاتھ میں خون آلود چھری ہو، اس کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے ہوں اور وہ پریشان و ہراساں بھی ہو اور وہ اسی عالم میں دوڑتا ہوا نکل جائے، اس کیفیت میں کوئی شخص قتل کے قرائن اور شواہد کو دیکھے اور ان کی مدد سے قتل کا یقین کر لے تو یہ ایمان کا دوسرا مرحلہ یعنی عرفان ہے۔‘‘
جواب : ایمان کا تیسرا درجہ ایقان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں یہ درخواست پیش کی :
رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى.
البقره، 2 : 260
’’میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے سے نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس سے پہلے ان کا ایمان، ایمان بالغیب اور عرفان بالشواہد کے درجے میں تھا اور اب وہ مشاہدے کے ذریعے ایمان کے آخری درجے یعنی ایقان بالمشاہدہ تک پہنچنا چاہتے تھے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا :
أَوَلَمْ تُؤْمِن.
’’کیا تم یقین نہیں رکھتے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا :
بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي.
البقره، 2 : 260
’’کیوں نہیں! (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کس مقصد کے تحت یہ سوال کر رہے ہیں مگر یہ مکالمہ انسانوں کو تعلیم دینے کی غرض سے تھا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :
فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO
البقره، 2 : 260
’’سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقیناً اللہ بڑا غالب حکمت والا ہےo‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علم و عرفان تو پہلے سے تھا مگر وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر حق الیقین حاصل کرنا چاہتے تھے جو اللہ رب العزت نے ان کو عطا کر دیا۔ قدرت کی ان تمام نشانیوں کو دکھانے کا مقصد انہیں درجہ ایقان تک پہنچانا تھا جو ایمان اور یقین کا آخری درجہ ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک شخص کسی جانور کو ذبح کر کے آیا ہو اور دوسرا کسی انسان کو قتل کر کے آیا ہو، کسی راہگیر نے قتل ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دہشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تو حقیقت حال سے بے خبر لوگ جانور ذبح کرنے والے کو اس کے کپڑوں پر پڑے خون کے چھینٹے دیکھ کر قاتل سمجھ بیٹھے۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو عین موقع واردات پر موجود تھا اور جس نے دن کے اجالے میں اپنی آنکھوں سے قتل کا معاملہ دیکھا اور وہ قاتل و مقتول کو اچھی طرح جانتا اور پہچانتا بھی ہے یہ شخص اس معاملے میں صاحبِ ایقان ہے۔
جواب : حدیث جبریل میں احسان کے مفہوم میں ایمان کے ادنیٰ و اعلیٰ درجے کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ جب جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ احسان کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَنْ تَعْبُدَ اﷲِ کَأنَّکَ تَرَاه، فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَاِنَّه يَرَاکَ.
’’(ایمان کا اعلیٰ درجہ یعنی احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور (ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ) اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو (یہ یقین رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبرئيل عليه السلام، 1 : 27، رقم : 50
حدیث جبریل میں مذکور لفظ عبادت سے اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور انہی عبادات کا بجا لانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے تو یہ تصور غلط ہے۔ قرآنی تصورِ عبادت اور اسلامی مفہوم بِرّ اس قدر وسیع ہے کہ یہ انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ اسلام کا پیش کردہ تصورِ بندگی انسانی زندگی کو درج ذیل خصائص کا جامع دیکھنا چاہتا ہے۔
مذکورہ بالا خصائص، اجزائے دین کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام اجزاء کا مجموعہ ’’نیکی اور اصل عبادت‘‘ ہے۔ گویا اصل عبادت اور بندگی ایک اکائی کا نام ہے اور زندگی کے جملہ معاملات مذہبی ہوں یا دنیوی اس کُل کے مختلف اجزاء ہیں۔ جس طرح کسی اکائی سے کوئی ایک جز اگر الگ ہو جائے تو اسے کُل کا نام نہیں دیا جا سکتا اسی طرح عبادت الٰہیہ پر محیط زندگی کے کسی ایک پہلو کو دوسروں سے لا تعلق کر کے کامل بندگی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
لہٰذا ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔
ایمان کے اعلیٰ اور ادنیٰ مدراج کو درج ذیل حدیث مبارکہ بھی واضح کرتی ہے، جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ رَأي مِنْکُم مُنکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِه، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه، وَ ذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِيْمَان.
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الايمان، 1 : 69، رقم : 49
’’تم میں سے جو شخص خلافِ شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا ردّ کرے، اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث مبارکہ میں ایمان کے درجات کو بڑے ہی احسن پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
جواب : ایمان کی خوبی یہ ہے کہ یہ امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جو شخص صاحب ایمان ہو جاتا ہے وہ خود بھی امن پا لیتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی باعث امن بن جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمُؤْمِنُ مَنْ اَمِنَهُ النَّاسُ عَلَي دِمَائِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ.
سنن نسائي، کتاب الايمان و شرائعه، 8 : 76، رقم : 4995
’’مومن وہ ہے جس سے دوسروں کی جان اور مال امن میں رہیں۔‘‘
جواب : ایمان تجزی یعنی جزئیات کو قبول نہیں کرتا، اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی بلکہ اعمال صالحہ اور خیر و تقویٰ سے ایمان کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ اعمالِ بد اور شر و فساد سے ایمان ضعف یعنی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ درج ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے کہ مومنین کا ایمان اعمالِ صالحہ سے قوت پاتا ہے :
سورۃ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے :
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُO
آل عمران، 3 : 183
’’(یہ) وہ لوگ (ہیں) جن سے لوگوں نے کہا کہ مخالف لوگ تمہارے مقابلے کے لئے (بڑی کثرت سے) جمع ہو چکے ہیں۔ سو ان سے ڈرو۔ تو (اس بات نے) ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے، اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الانفال میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَO الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَO أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌO
انفال، 8 : 2 - 4
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (انکے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں۔ اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے) (یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا اقرار کرے اور اس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے دوزخ سے ضرور آزاد کیا جائے گا۔ اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو تو اسے بھی دوزخ سے نکالا جائے گا۔ اور جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ لیا اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی نیکی ہو تو اسے (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا، حتی کہ جس شخص نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو گا اسے بھی بالآخر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
بخاري، الصحيح، زيادة الايمان و نقصانه، 1 : 24، رقم : 44
جواب : اگر اہل ایمان درج ذیل تین نوع کے تعلق مضبوطی سے استوار کر لیں تو ان کے ایمان کی حفاظت ممکن ہے :
اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَن يَعْتَصِم بِاللّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO
آل عمران، 3 : 101
’’اور تم اب کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول موجود ہیں اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہےo‘‘
مذکورہ آیت میں اہل اسلام میں ہر ایک کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنے ایمان کی حفاظت اور کفر و گمراہی سے نجات چاہتا ہے تو ان تمسکات کا یہ استحکام قائم رہنا چاہیے کیونکہ اگر ایمان کے یہ تینوں تعلق سلامت رہیں تو مسلمان ایمان سے محروم نہیں ہو سکتا اور اگر ان میں سے کوئی ایک تعلق بھی ٹوٹ جائے تو انسان ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔
جواب : تعلق باﷲ سے مراد یہ ہے کہ بندہ مومن کے دل میں اللہ کے سوا کسی اور کی محبت جاگزین نہ ہو کیونکہ جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت سما جاتی ہے، اس دل میں کسی اور کے لئے محبت والا تعلق پیدا ہی نہیں ہو سکتا جب یہ کیفیت نصیب ہو جائے تو بیوی بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی محبتیں اس عظیم محبت کے تابع ہو جاتی ہیں پھر یہ محبت جس محبت کو باقی رکھنا چاہتی ہے وہ باقی رہتی ہے اور جس کو ختم کرنا چاہتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَی اﷲِ : اَلْحُبُّ فِی اﷲِ وَ الْبُغْضُ فِی اﷲِ.
1. احمد بن حنبل، 5 : 146
2. طيالسي، المسند : 101، رقم : 747
3. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 355، رقم : 1429
4. ديلمي، الفردوس بما ثور الخطاب، 2 : 155، رقم : 2786
’’اللہ تعالیٰ کے لئے محبت اور اللہ تعالیٰ کے لئے بغض رکھنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل ہے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَوْ ثَقُ عَرْيُ الْاِيْمَانِ الْحُبُّ فِی اﷲِ وَ الْبُغْضُ فِی اﷲِ.
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، 172، رقم : 30420، 30421،
30443
2. ايضاً، 7 : 80، رقم : 34338
’’اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ کے لئے بغض رکھنا ایمان کا مضبوط ترین گوشہ ہے۔‘‘
جواب : امت کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ پختہ تعلق قائم رکھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی دل و جان سے پیروی اور اتباع کرنا تعلق بالرسول کہلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے۔‘‘
محمد، 47 : 2
موجودہ معروضی حالات میں یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے بلند و بانگ دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر اس محبت کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تعلق بحال ہونے کا معنی یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا طوق ہم اس طرح زیب گلو کریں کہ دنیا کی ہر غلامی سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ وہ لوگ جو فقط حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم اور غلام بن جاتے ہیں وہ دنیا کے جاہ و منصب اور جھوٹی وفاداریوں کے بت پاش پاش کر دیتے ہیں اور سوائے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی اور سے آشنائی کا دم نہیں بھرتے۔ جس دن ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے اور سُچے خادم اور غلام بن گئے اس دن ہم محکومی غیر سے آزادی حاصل کر کے حریت کی منزل تک جا پہنچیں گے۔
جواب : تعلق بالقرآن، قرآن کی تعلیمات کے برحق ہونے، ان پر عمل کرنے اور ان کے عملی نتائج کے سو فی صد درست ہونے پر پختہ اور کامل یقین رکھنے کو کہتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ.
النحل، 16 : 89
’’(اے محبوب!) ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو ہر شے کا بیان کرنے والی ہے۔‘‘
اس آیۃ کریمہ میں بنی نوع انسان کو یہ نکتہ سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہو جائے تو ہمیں قرآن میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و حکمت کے سوا دنیا کے کسی فلسفے سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام افکار و نظریات، فلسفے اور نظام بے کار، ناقص اور فرسودہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری زندگیاں سر قرآن کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائیں کہ ہم قرآن کے دیئے گئے ہر حکم کو جو قرآن کہے وہی مانیں اور جس سے قرآن روک دے اس سے رک جائیں، تبھی ہمارا تعلق قرآن سے قائم ہو سکے گا۔
یہ تمسکات ایمان کی تین بنیادیں ہیں جن کی استواری پر قرآن مجید نے ایمان کی حفاظت کا دار و مدار رکھا ہے۔ ہمارے ایمان کی حفاظت اس وقت ہو گی جب قرآن سے، ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ سے ہمارا تعلقِ ہدایت، تعلقِ غلامی اور تعلقِ بندگی نہایت ہی احسن طریق سے بحال ہو جائے گا۔
جواب : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی حالت ایمان جانچنے کے لئے انہیں مختلف مراحل سے گزارتا ہے، اس کی وضاحت اس آیہ مبارکہ میں ہوتی ہے جس میں قرآن حکیم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پانچ مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کر ان کے ایمان پر استقامت پرکھتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَO
البقره، 2 : 155
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo‘‘
متذکرہ بالا آیہ کریمہ میں ابتلاء و آزمائش کی پانچ قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایمان کی استقامت کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ بندہ ان تمام آزمائشوں میں سراپا صبر رہے اور متزلزل ہونے کی بجائے پورے اخلاص سے اللہ کی طرف رجوع کرے۔
جواب : استقامت کی پہلی آزمائش ’’الْخَوف‘‘ ہے جو زندگی کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہے۔ زندگی میں طرح طرح کے خطرات، اندیشے اور خوف سر پر منڈلاتے رہتے ہیں جن کے ذریعے انسان کو پوری زندگی آزمائش اور امتحان کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ یہ خوف گوناگوں اندیشوں اور خدشات کی صورت میں انسانی زندگی کے دامن گیر رہتے ہیں مثلاً کبھی جان جانے کا خوف، کبھی مال و دولت چھن جانے کا خوف اور کبھی اولاد ہاتھوں سے نکل جانے کا خوف یا یہ کہ ان کے مستقبل کا کیا بنے گا، عزت و آبرو کیسے محفوظ رہے گی۔ خوف کی ان تمام صورتوں اور شکلوں میں یہ دیکھنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق اور لگاؤ کیسا ہے اور ہم آزمائش کی مشکل گھڑی میں بھی اپنے رب کو کس طرح مانتے ہیں۔ خوف کی ہر حالت میں اگر ہمارا تعلق باﷲ قائم و دائم رہا تو ہم بحمداﷲ اس امتحان میں پورے اترے۔
جواب : دوسری آزمائش ’’وَالْجُوْع‘‘ ہے یعنی مومنین کو بھوک، غربت اور افلاس سے دو چار کیا جائے گا اور باوجود محنت شاقہ اور تگ و دو کے وہ فاقہ مستی اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ اس لیے نہیں کہ معاذ اﷲ، اللہ تعالیٰ کو انسانی ضروریات کا علم نہیں یا اسے اپنے بندے سے کوئی عداوت ہے بلکہ اس کا مدعا تو صرف اپنے بندوں کو آزمانا ہے کہ وہ حالت خوف میں بھی اللہ کے ساتھ اپنا تعلق کس طرح استوار رکھتے ہیں۔
جواب : تیسری آزمائش ’’نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ‘‘ ہے، یعنی آزمائش اور امتحان کے طور پر مال و دولت، مادی آسائشوں اور نعمتوں سے نواز کر اس سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس کا مقصد اس امر کی آزمائش ہے کہ ثروت اور محرومی دونوں حالتوں میں مومنین کے ایمان کی کیفیت کیا رہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مال چھن جانے کے بعد وہ خدا کی ربوبیت کا انکار کر کے غیر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے خدائے وحدہ لا شریک سے اپنا تعلق ہی منقطع کر ڈالیں۔
جواب : چوتھی آزمائش ’’الْاَنْفُس‘‘ ہے جو زندگی کے کارزار میں کبھی جانیں ضائع ہونے اور اموات واقع ہونے کی صورت میں اور کبھی جان کو مختلف بیماریوں اور تکلیفوں کے مراحل سے انسان کو گزار کر آزمایا جائے گا۔ اس کو پرکھا جائے گا کہ موت سامنے دیکھ کر وہ زندگی کی تمنا کرتا ہے یا اپنے خالق و مولا کے حضور ملاقات کی آرزو رکھتا ہے۔ اسی طرح نزع اور جان کنی کی حالت بھی آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے۔
جواب : آخری آزمائش ’’الثَّمَرَاتِ‘‘ سے مراد ’’اولاد‘‘ ہے۔ اس کے ذریعے بھی انسان کا امتحان لیا جاتا ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ اولاد سے محروم رکھ کر اسے آزماتا ہے اور کبھی اولاد عطا کر کے آزماتا ہے کہ کہیں اولاد کی محبت نے اسے حبِ الٰہی اور اللہ کی یاد سے غافل تو نہیں کر دیا۔ یہ آزمائش کی مختلف صورتیں ہمارے روزمرہ مشاہدے کا حصہ ہیں کبھی اللہ تعالیٰ اولاد سے نواز کر اسے واپس لے لیتا ہے، کبھی صرف بیٹیاں عطا کر کے اور بیٹوں سے محروم رکھ کر اور کبھی صرف بیٹے عطا کر کے اور بیٹیوں سے محروم رکھ کر اللہ کے بندوں کو امتحان کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔
جواب : ایمان کی شاخوں سے مراد انسان کے مختلف اعمال ہیں۔ انسان زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے تو وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لیے ارشاد ربانی ہے :
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
العنکبوت، 29 : 69
’’جو لوگ بھی جدوجہد کر کے ہمارے قریب آنا چاہتے ہیں ہم انہیں اس مقصد سعید کے لئے کئی راستے دکھا دیتے ہیں۔‘‘
واضح ہو کہ اس آیت میں مجاہدہ کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہم انہیں ایک راستہ دکھاتے ہیں بلکہ کئی راستوں کا ذکر ہے جس سے ثابت ہوا کہ زندگی کی بے شمار راہیں ہیں اور ہر انسان اپنے لیے اپنے حسب حال کوئی راہِ عمل متعین کر سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’ایمان کی ستر (70) سے زائد شاخیں ہیں۔ اس کی سب سے افضل شاخ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (کانٹا، پتھر، نجاست وغیرہ) کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 : 63، رقم : 58
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر شاخ اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے برکت کے باعث اور قرب ربانی عطا کرنے کی موجب ہے۔
یہ ادب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مبارکہ کے آئینے میں نظر آنے والا ہر حکم اور عمل بلا روک ٹوک بشرح صدر ایمان سمجھ کر تسلیم کر لیا جائے اور جو بات قرآن و سنت کے خلاف ہو، اسے کفر جان کر رد کر دیا جائے۔ کفر اور ایمان کے رد و قبول کے اس معیار کو عملی زندگی میں اپنا لینا ہی ایمان کی بنیادی شرط ہے۔
جواب : آج کے دور میں ایمان کی تاثیر سے دوری کی بنیادی وجہ نوجوان نسل کا ایمان کے معنی و مفہوم سے نا واقف ہونا اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کا ایمان کی حفاظت، اس کے تقاضے اور شرائط کو پورا نہ کرنا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام دشمن طاقتوں کی نظریاتی، ثقافتی اور جذباتی سہ جہتی یلغار بھی امت مسلمہ کی بالعموم اور نوجوان نسل کی بالخصوص ایمان کی تاثیر سے محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ کیونکہ نظریہ کسی بھی قوم، مذہب، تحریک یا تنظیم کے لئے اساسی درجہ رکھتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقوام نظریے کی بنیاد پر بنتی اور قائم رہتی ہیں۔ جونہی نظریاتی اساس کمزور ہوئی، زوال و انتشار قوموں کا مقدر بن جاتا ہے۔
اس کی ایک سادہ اور عام فہم مثال یہ ہے کہ ایک درخت کی نشوونما کا دارومدار اس کی جڑ پر ہوتا ہے، اور جڑ ہی درخت کی زندگی اور تروتازگی کا ذریعہ ہے اگر جڑ میں نقص واقع ہو جائے تو درخت مرجھانا شروع ہو جائے گا پھر رفتہ رفتہ اس کے پتے، ٹہنیاں، پھل، پھول جس حالت میں ہوں گے بوسیدہ ہو کر زمین پر گر پڑیں گے۔ اگر جڑ مضبوط ہو تو پودا توانا اور پھلدار ہو گا، اس سے خوراک حاصل کرنا دوسروں کے لئے حیات بخشی کا سامان بنے گا۔ بات ساری تاثیر کی ہے، جس طرح درخت میں ساری تاثیر جڑ اور تنے کی ہوتی ہے، تاثیر اچھی ہو گی تو درخت پھل پھول بھی اچھے دے گا اور اگر تاثیر میں نقص واقع ہو جائے تو درخت خشک ہو جائے گا یہاں تک کہ لوگ اس کو کاٹ کر ختم کر دیں گے۔ اسی طرح نظریہ بھی قوموں کے ثقافتی، تہذیبی، مذہبی اور معاشرتی بقا اور سلامتی کی علامت ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر موجودہ دور میں امت مسلمہ ایمان کی حلاوت پانا اور بحیثیت مجموعی ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بنیادی نظریات اپنا کر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا وگرنہ گمراہی و پستی اور ذلت و غلامی اس کا مقدر بن جائے گی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ.
الرعد، 13 : 11
’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
جواب : نظریاتی حملہ عام مسلمانوں کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص ذہنی اور فکری طور پر اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ حملہ جھوٹے افکار و نظریات کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔ دینی تربیت سے بے بہرہ نوجوان جب کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ کر مغربی فلسفوں اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مادہ پرستانہ نظریات کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان بالغیب، آخرت، نبوت اور رسالت کے بارے میں ان کے عقائد کمزور پڑنے لگتے ہے۔ اس طرح نا پختہ ذہن رکھنے والے نوجوان نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر کان نہیں دھرتے بلکہ وہ اسلام کے تمام تصورات کو بھی نا قابل عمل سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس نظریاتی حملہ کے نتیجے میں رونما ہو رہا ہے جو اسلام دشمن قوتیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل اسلام کے قلب و باطن پر کر رہی ہیں۔
نظریاتی حملے کا واحد تدارک یہ ہے کہ اسلام کو روایتی انداز کی بجائے سائنسی انداز اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کر کے نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا جائے کہ فکری، نظریاتی اور استدلالی اعتبار سے اسلام سے بہتر دنیا کا کوئی نظام نہیں ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جدید فکر اور نظریے مادیت سے جنم لیتے ہیں جبکہ اسلامی نظریے اور فکر کا سر چشمہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ اور قرآن حکیم کی بنیادی و اساسی تعلیمات ہیں۔ لہٰذا موجودہ نسل کو محض فتوؤں کے زور پر دوزخ کی آگ کے خوف سے اسلام کی طرف بلانے کی بجائے ان کے سامنے ایمان اور اسلام کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ جان لیں کہ تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو پھر نوجوانوں کے عقائد کی بنیادیں متزلزل ہونے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی۔ کیونکہ بقول اقبال :
نہیں ہے نا امید اقبال (رح) اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اسلام کا حقیقت پسندانہ مطالعہ تعلیمات اسلام پر عمل ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اس حملے کے منفی اثرات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے جو انسانی شعور کے راستے سے امت مسلمہ کے ایمان پر وارد ہوتے ہیں۔
جواب : مغربی تہذیب و ثقافت کی صورت میں ہونے والے حملے سے مراد ثقافتی حملہ ہے، جس کے زیر اثر نوجوان نسل کے معاشی اور سماجی تصورات زندگی بدل رہے ہیں۔ اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہروی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں معاملہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ دادا اور بزرگوں کے سامنے سر ڈھانپنا تو درکنار بے حجاب گھومنے پھرنے میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتیں۔ مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار نے تمام معاشرتی قدروں کو خطرناک اور نام نہاد جدت پسندی کا رخ دے دیا ہے، نتیجتاً شریعت کی گرفت کمزور پڑنے کے باعث ہماری زندگی سے اسلامیت یوں رخصت ہوئی کہ ہم محض نام کے مسلمان رہ گئے اور ہمارا اسلامی تشخص ہماری مسلمانی پر بقول اقبال یوں آہ و زاری کر رہا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ثقافتی حملہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قدم کے طور پر امت مسلمہ کے اندر بالعموم اور نوجوان نسل کے اندر بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مطہرہ اور سنت طیبہ سے محبت اور قلبی وابستگی پیدا کی جائے اور عملی اسلام کا وہ چہرہ ان کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے لئے کشش کا باعث ہو اور جس سے یہ واضح ہو کہ پیغمبر انسانیت اور ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلیٰ، بامقصد زندگی اور تہذیب و ثقافت کے بہترین نمونے اور اخلاقی قدروں کا جو نظام عطا کیا وہ عملی سطح پر دنیا سے افضل ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت نئی نسل کو اسلام کے اصولوں اور تہذیبی و ثقافتی اقدار سے روشناس کرانا ہے۔ اسلامی اقدار کو کمزور کرنے میں جہاں اسلام دشمن طاقتیں بر سر عمل ہیں وہاں بعض والدین بھی منفی کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی ذہنی تربیت غیر اسلامی تہذیبی سانچوں میں ڈھال کر کرتے ہیں۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جب لوہا گرم ہو تو اسے جس طرح چاہے پگھلا کر موڑ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی غفلت کی وجہ سے لوہا ٹھنڈا ہو کر جم گیا تو پھر اس میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سب سے اہم ذمہ داری ہمارے علماء، ائمہ مساجد، ادیب، شعراء اور اہل قلم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت کریں جو اسلام کی نایاب ترین اقدار اور ثقافت میں پایا جاتا ہے ان پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے کلام، وعظ اور اپنے دیوان میں اسلام کی روایات و اقدار کو قرآن و سنت کی روشنی میں پروان چڑھائیں۔
جیسا کہ ارشاد گرامی ہے :
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤْلٌ عَنْ رَعْيتِه.
بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، 5 : 1988، رقم : 4892
’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
ہر شخص اپنے دائرہ کار کے اندر جوابدہ ہے۔ کوئی گھر کا سربراہ ہے تو اس سے گھر کے معاملات کے بارے میں اور اگر کسی شخص کا اختیار محلے، قصبے، شہر، صوبے اور ملکی سطح تک ہے تو اس کی جواب طلبی کا دائرہ ان تمام سطحوں تک پھیلا ہوا ہو گا اور۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے عملی نظام کو گھر کی سطح سے لے کر اجتماعی اور ملکی سطح پر نافذ کر دیا جائے تاکہ دور جدید کی تہذیب و ثقافت کی تند و تیز آندھیوں سے نوجوان نسل کے ایمان کی بجھتی ہوئی شمع کو محفوظ کیا جا سکے۔
جواب : عصر حاضر میں خطرناک ترین حملہ نفسانی راستوں سے کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل بد قسمتی سے نفس پرستی کے مشاغل میں بری طرح گرفتار ہے۔ اسلامی ممالک میں شراب نوشی اور رقص و سرور کی محفلیں معمول کی بات بن گئی ہیں۔ ہوٹلوں اور منی سینما کے علاوہ تمام سینما گھروں میں حیاء سوز فلموں نے عام لوگوں کی اخلاقیات پر کاری ضرب لگائی ہے۔ میڈیا (کیبل، انٹرنیٹ اور نائٹ کلب) کے ذریعے غیر اخلاقی پروگراموں کا سیلاب گھروں کے اندر بیٹوں اور بیٹیوں کی حیاء اور عفت و پاکیزگی کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لیے جا رہا ہے۔
الغرض جذباتی حملے نے ایمان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان نسل بلا تمیز مرد و زن بد اخلاقی کی نذر ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ زوال کا شکار ہے اور اسلامی تعلیمات سے دور نفرت زدگی کا شکار ہو کر فکری و سیاسی غلامی کی زندگی گزار رہی ہے۔
جب جذباتی سطح پر بگاڑ واقع ہو جائے تو اس کا علاج وعظ سننے اور کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوتا کیونکہ کتابیں تو محض شعور پر دستک دیتی ہیں لیکن جب ذہن میں انتشار ہو تو کتابیں، وعظ اور پند و نصیحت کب دل پر اثر کرتی ہیں۔ جب دل بے سکون اور روح بے چین ہو تو نماز روزہ اور اللہ کی یاد میں دل نہیں لگتا۔ ایسی صورتحال میں جذباتی حملہ کے تدارک کی واحد صورت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جذباتی و روحانی تعلق کی بحالی ہے جو تصوف، روحانیت اور صحبت صلحاء ہی سے ممکن ہے کیونکہ اولیاء کرام اور صالحین کا طریقہ تربیت عام علماء اور مبلغین سے مختلف ہوتا ہے وہ قریب آنے والوں پر پہلے دن ہی اعمال کا بوجھ نہیں ڈالتے اور ’’یہ کرو وہ نہ کرو‘‘ کی لمبی چوڑی فہرست اور مطالعہ کتب کے بوجھ تلے ان کا کچومر نہیں نکالتے بلکہ دل میں ایک چنگاری بھڑکا دیتے ہیں جس سے طبیعت میں بے قراری پیدا ہو جاتی ہے۔ دل خود بخود اللہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور ایمان کا نور انہیں نظر آنے لگتا ہے۔ جب دولت ایمان دل میں گھر کرنے لگے اور طبیعت رفتہ رفتہ ہدایت کی طرف مائل ہو جائے تو پھر آہستہ آہستہ انہیں مسائل و احکام شریعت سے روشناس اور اعمال کے لئے مکلف ٹھہرایا جاتا ہے۔ لہٰذا آج کے اس دور زوال میں اگر یہی روح ازسرنو دوبارہ زندہ ہو جائے تو امت مسلمہ کے دین و ایمان کی کھوئی ہوئی دولت کی باز یابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اور اجتماعی سطح پر پیدا ہوجانے والے بگاڑ کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
جواب : ایمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق استوار کر لینے ہی کا نام ہے اور اگر یہ تعلق استوار نہ ہو تو ایمان کے درجے کو نہیں پہنچا جا سکتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی ہے :
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘
بخاري، الصحيح، حب الرسول صلي الله عليه وآله وسلم من الايمان، 1 : 14، رقم : 14
یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کا معیار اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا و مافیہا کی ہر شے سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کی جائے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو کوئی شخص نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے مومن نہیں ہو سکتا۔
ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اے عمر! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ابھی مرحلۂ تربیت سے گزر رہے تھے عرض کرنے لگے : ’’حضور! مجھے سب سے بڑھ کر آپ کی ذات سے محبت ہے مگر گاہے بگاہے محسوس ہوتا ہے کہ اولاد کی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے۔‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے : ’’اے عمر! اگر یہ بات ہے تو تمہارا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘ اس فرمان کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل کی کایا پلٹ گئی، یہاں تک کہ ان کے دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب آ گئی اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے : رب ذوالجلال کی قسم! اب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور مرتے دم تک کبھی کم نہیں ہو گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرص کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، 6 : 2445، رقم : 6257
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ظاہر و باطن ایک تھا اور ان کے کردار میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر دل کی بات بتا دی۔
جواب : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا کوئی ایک عمل یا چند اعمال ایسے نہ تھے جنہوں نے انہیں ایمان کے بلند مرتبے پر فائز کیا بلکہ ان کا ہر عمل حتی الامکان سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے کامل نمونۂ ہدایت بن گئے تھے۔ صحابی ہونے کے شرف نے انہیں روئے زمین کے تمام انسانوں سے ممتاز بنا دیا اور یہ صحابیت ہی ان کے لئے وجہ امتیاز ٹھہری، یہ گویا اس بات کی دلیل بن گئی کہ انہوں نے اپنی ہر نسبت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت پر قربان کر دیا اور اپنے کردار کی ساری جہتیں اور فضیلتیں صحبت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار کر دیں۔
قرآن حکیم نے بھی فیض صحبت پانے والے ان جانثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہی تصور دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا.
الفتح، 48 : 29
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں۔ اور آپس میں نرم دل، تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے، سجدے میں گرتے، اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہوئے۔‘‘
یہ آیۃ کریمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سیرت و کردار کے اس گوشے کو اجاگر کر رہی ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع اور غلامی کے نتیجے میں ایک تابندہ مثال بن گیا۔
أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًاO
الکهف : 18 : 105
’’یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور (مرنے کے بعد) اس سے ملاقات کا انکار کر دیا ہے۔ سو ان کے سارے اعمال اکارت گئے، پس ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی وزن اور مشیت (ہی) قائم نہیں کریں گے o‘‘
یہ ارشاد ربانی عمل کے مقابلے میں ایمان کی فوقیت کا آئینہ دار ہے۔ ایمان سے محرومی انسان کی اخروی زندگی دائمی خسارے کا موجب بن جائے گی۔
جواب : اصل ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔ بدنی اعمال اصلاً ایمان کا جزو نہیں البتہ کمال ایمان کی شرط ضرور ہیں لیکن وہ اعمال جو بالکل ایمان کے منافی ہوں ان پر عمل کرنے والے کو کافر کہا جائے گا۔ جیسے بت، چاند، سورج وغیرہ کو سجدہ کرنا، اسی طرح کسی نبی یا قرآن کریم، کعبہ معظمہ یا کسی سنت کی توہین کرنا یقینا کفر ہیں۔ جس شخص سے یہ افعال صادر ہوں اسے ازسرنو اسلام لانے اور (اگر شادی شدہ ہو تو) اس کے بعد اپنی عورت سے دوبارہ نکاح کرنے کا حکم دیا جائے گا۔
جواب : مومن وہ ہے جس میں صفت ایمان پائی جائے اور اس کا قلب و باطن اللہ کے حضور اس طرح جھک جائے کہ اس کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق کوئی ادنی درجے کا وہم یا شک بھی موجود نہ ہو۔
جواب : مومن دو قسم کے ہیں : ایک مومن صالح اور دوسرا مومن فاسق۔ مومن صالح وہ ہے جو زبان سے ایمان کے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق کے ساتھ ساتھ احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہو، اور اس کا عمل شرع کے امر و نہی کے خلاف نہ ہو۔ جبکہ مومن فاسق وہ ہے جو احکام شریعت کی تصدیق اور اقرار تو کرتا ہو لیکن اس کا عمل ان احکام شرعی کے خلاف ہو، جیسے بعض مسلمان نماز، روزہ کو فرض تو جانتے ہیں مگر ادا نہیں کرتے۔ ایسے افراد مومن فاسق کہلائیں گے۔
جواب : مومن کے اوصاف جو مختلف احادیث سے اخذ کیے گئے ہیں درج ذیل ہیں :
1۔ مومن وہ ہے جس سے دوسرے اہل ایمان کی جانیں اور اموال محفوظ و مامون ہوں۔
نسائی، 2 : 230
2۔ مومن مومن کا بھائی ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے بھائی کی خریدی ہوئی چیز کو خریدے او رکسی دوسرے مومن کے سودے پر اس کے بعد سودا کرے، وہ خود چھوڑ دے تو الگ بات ہے۔
مسلم، الصحيح، 1 : 454
3۔ ایمان کے لحاظ سے کامل مومن وہ ہے جس کا خُلق سب سے بہتر ہے۔
مشکوٰة : 433
4۔ مومن پر مومن کے سات حقوق واجب ہیں جو اللہ کی طرف سے عائد کیے گئے ہیں۔
ابن بابويه بحواله منهاج الصالحين : 91
5۔ سچا مومن وہ ہے جو فقیر پر اپنا مال خرچ کرے اور لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئے۔
طحاوي، بحواله منهاج الصالحين : 91
6۔ مومن، مومن کا آئینہ ہے، اسے اس میں عیب نظر آئے تو اصلاح کرے۔
بخاري، بحواله منهاج الصالحين : 91
7۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! مومن کا قتل اللہ کے نزدیک دنیا کے زوال سے بھی بڑا ہے۔‘‘
8۔ اکیلا مومن جماعت کی طرح ہے۔
نسائی، 2 : 145
مومن کے جو اوصاف احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان ہوئے وہ یہ کہ مومن ایک دوسرے کے بھائی اور دست و بازو ہیں، انہیں چاہیے کہ آپس میں مل جل کر رہیں، دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ، اس کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں اور ان کی غیبت، عیب جوئی اور دیگر معاشرتی برائیوں سے بچیں۔
جواب : وہ مومن جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لاتا ہے، اس کے تمام تقاضے پورے کرتا اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نہ صرف درجہ صدیقیت پر فائز کرتا ہے بلکہ اسے بغیر گردن کٹائے درجہ شہادت بھی عطا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ ایمان کے اس درجے میں اللہ کی گواہی دینے والا اور اس پر شاہد بن جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ.
الحديد، 57 : 19
’’وہی (خوش نصیب) اللہ کی جناب میں صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لئے (خصوصی) اجر اور ان کا (مخصوص) نور ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے لیے تقوی اختیار کرنے والوں اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت کے دو حصے عطا کرتا ہے اور انہیں ایسے نور سے بہرہ مند فرماتا ہے جس کی برکت سے ان کے لئے گمراہی ہدایت میں بدلتی چلی جائے گی اور قیامت کے دن بھی وہ نور ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہو گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ.
الحديد، 57 : 28
’’اے ایمان والو! اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کر لو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آؤ تو (اللہ تعالیٰ) تمہیں اپنی رحمت کے دو حصے عطا کرے گا اور ان کو وہ نور عطا کرے گا جس میں وہ چلیں گے۔‘‘
مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO
النحل، 16 : 106
’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرح صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے، اور ان کے لئے زبردست عذاب ہےo‘‘
جواب : مومن ہونے کی بنیاد زبان سے کلمۂ حق کا اقرار اور دل سے اس کی تصدیق ہے، مسلم ہونے کا دار و مدار اعمال اور اطاعت و فرمانبرداری پر ہے۔ جبکہ منافق کا ظاہر باطن سے مختلف بلکہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔
اس سے فرق واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص جس کا ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا مسلم ہو گیا، جس کا قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گیا وہ مومن ہو گیا اور جس نے محض زبان سے اقرار کیا اور دل سے اس کی تصدیق نہ کی وہ منافق ہو گیا۔
جواب : اسلام کا کلمہ پڑھ کر جو مسلمان ہو جائے اور اس کے بعد کلمہ کفر کہے اور اس پر قائم رہے، ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں۔
مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لاَّ يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُواْ عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلاَلُ الْبَعِيدُO
ابراهيم، 14 : 18
’’جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کی مثال یہ ہے کہ ان کے اعمال (اس) راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز آندھی کے دن سخت ہوا کا جھونکا آ گیا، وہ ان (اعمال) میں سے جو انہوں نے کمائے تھے کسی چیز پر قابو نہیں پا سکیں گے، یہی بہت دور کی گمراہی ہےo‘‘
اس آیت کریمہ میں ایمان سے محروم لوگوں کے اچھے اعمال کی مثال یہ بیان فرمائی کہ جیسے راکھ کا ڈھیر ہو اور تیز آندھی چلے اور اس کو اڑا کر لے جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان کے بغیر کیے گئے اچھے اعمال کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔
اَيُّ الْخَلْقِ اَعْجَبُ اِلَيْکُمْ يْمَانًا؟
’’تمہارے نزدیک کس مخلوق کا ایمان عجیب ترین ہے؟ ‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
’’یا رسول اللہ! فرشتوں کا‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَمَالَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ؟
’’وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اللہ کی حضوری میں ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اس کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
’’(یا رسول اللہ!) انبیاء اکرام کا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَمَالَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ ؟
’’وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے جبکہ ان پر وحی اترتی ہے؟‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے (معصومیت بھرے انداز سے) عرض کیا :
’’(یا رسول اللہ!) پھر ہمارا ایمان عجیب تر ہو گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَمَالَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَ اَنَابَيْنَ اَظْهُرِکُمْ؟
’’کیا تم (اب بھی) ایمان نہ لاؤ گے جبکہ تمہارے سامنے ہر وقت میرا سراپا رہتا ہے؟‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلاَ! اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَيَ يْمَانًا لَقَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِيْ يَجِدُوْنَ صُحُفًا فِيْهَا کِتَابٌ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِيْهَا.
مشکوٰة المصابيح، باب ثواب هذه الامّه، 584
’’میرے نزدیک ساری کائنات میں سب سے عجیب (قابل رشک) ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمہارے بعد ہوں گے۔ وہ صرف اوراق پر لکھی ہوئی کتاب دیکھیں گے اور اس پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بن دیکھے ایمان لانے والے اور عشق کرنے والے ہر وقت حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دھیان ہی میں نہیں بلکہ محبوب کی نگاہوں میں رہتے ہیں اور اب نہیں بلکہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرما دیا کہ میرے وہ امتی جو بعد میں آئیں گے ان کا ایمان قابل رشک حد تک عجیب تر ہو گا۔
ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ.
يوسف، 12 : 102
’’یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ علم غیب وحی کے ذریعے عطا ہونے کے بعد بھی قرآنی اصطلاح میں ’’غیب‘‘ ہی کہلاتا ہے۔
’’میں ضرور ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔‘‘
الحجر، 15 : 40
اس لیے شیطان کامل ایمان والے لوگوں سے زیادہ کمزور ایمان والوں کو گمراہ کرنے میں جلد کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے قسم کھائی ہوئی ہے :
’’میں (بھی) ان (افراد بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راہ حق سے ہٹا دوں)۔‘‘
الاعراف، 7 :
16اعمال صالحہ کی کمی ایمان میں کمزوری کا سبب بنتی ہے۔ ایمان پختہ نہ ہونے کی وجہ سے شیطان دلوں میں وسوسے اور شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ مثلاً یہ وسوسے کہ وجود باری تعالیٰ کی حقیقت، کیا ہے، جنت و دوزخ کا وجود ہے یا نہیں۔ یہ شکوک و شبہات ایمان اور یقین کو کمزور کرتے چلتے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’بے شک وہ خود (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
الاعراف، 7 : 27
مسلم، الصحيح، 1 : 49، بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الايمان
جواب : صحت ایمان کی صحت کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ سے اپنی نسبت بندگی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ذریعے قائم کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ.
النساء، 4 : 80
’’جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
ایمان اگر جسم ہے تو اطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی روح ہے۔ جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے اسی طرح اطاعت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ایمان کے نام پر کی جانے والی ہر کوشش بے سود اور بے نتیجہ ہے مثلاً جب انسان پر موت وارد ہوتی ہے تو فقط س کی روح نکلتی ہے اور اس کے جسم سے آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں الگ نہیں ہو جاتے بلکہ سب کچھ قائم رہتا ہے لیکن روح نکل جانے سے انسان کو زندہ نہیں بلکہ مردہ کہتے ہیں بالکل اسی طرح کا حال ہمارے اعمال کا ہے، اگر سارے کے سارے اعمال قائم رہیں لیکن اندر سے محبت اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عنصر نکل جائے تو گویا ایمان جو سب ایمان کی روح ہے ختم ہو گئی۔ نمازیں، روزے، حج، زکوٰۃ، دعوت و تبلیغ اگر یہ سب کچھ ہے لیکن محبت اور ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہو تو پھر یہ بے روح عبادات اور اعمال مردہ لاشے ہیں جو ہم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
جواب : ایمان کا مرکز و محور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق اگر مضبوط و مستحکم ہو تو ایمان کامل ہے اور اگر کمزور ہو تو ناقص و نامکمل، اور اگر خدانخواستہ یہ تعلق ٹوٹ جائے تو ایمان کلیتاً ختم ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO
الاعراف، 7 : 157
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم وتوقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo ‘‘
دین، ایمان، علم، عمل، دعوت، تبلیغ الغرض پورے دین کا مرکز و محور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور مومن کی پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ کے گرد گھومتی ہے۔
تحریک منہاج القرآن امت مسلمہ کی اصلاح احوال اور تربیت کے لئے افراد امت کا تعلق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مضبوط و مستحکم کرنے کی خاطر تین سطحوں پر کام کر رہی ہے :
1۔ تعلق باﷲ : اس مادہ پرستانہ دور میں بندے کا تعلق بندگی اللہ سے بوجوہ کمزور پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے اعتقادی، اخلاقی اور روحانی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
اس طرح ایک فرد کے اندر پیدا ہونے والی خرابی پورے معاشرے کے ماحول کی خرابی پر منتج ہوتی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے یونٹ سے لے کر ضلع اور ضلع سے لے کر صوبے کی سطح تک محفل ذکر کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کو محبت الٰہی، عبادت الٰہی اور خشیت الٰہی کی ترغیب دی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں روحانی بیداری کے لئے اجتماعی اعتکاف کا وسیع سطح پر انتظام کیا جاتا ہے جس میں لوگ خشوع و خضوع سے عبادت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیراب ہو کر جاتے ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے یہ تقریباً اسلامی دنیا میں مدینہ منورہ کے بعد سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔
2۔ ربط رسالت : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق استوار کر لینے کا نام ایمان ہے۔ آج کے اس دور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمارا تعلق غلامی اس قدر کمزور پڑ گیا ہے کہ حقیقت میں ہم اپنی منزل سے بہت دور ہٹ چکے ہیں لہٰذا ہمارے ایمان کی پختگی صرف اس میں مضمر یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق غلامی کو پختہ سے پختہ تر کیا جائے اور اس کی یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی تاثیرات سے یہ تعلق محض قال نہیں بلکہ ہمارا حال بن جائے۔ اس کے لئے تحریک منہاج القرآن محافل نعت کا انعقاد کرتی ہے جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فروغ دینے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ تربیتی کیمپ بھی منعقد کیے جاتے ہیں اور 12 ربیع الاول کو عظیم الشان وسیع سطح پر پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس سے نوجوان نسل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔
3۔ رجوع الی القرآن : تحریک منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس امت کے ہر مرض کی تشخیص کر کے اس کا مناسب علاج تجویز کیا ہے۔ قرآن حکیم کی زندہ ہدایت سے انحراف ایسا مرض ہے جس نے امت کے تشخص و وقار کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے لئے تحریک منہاج القرآن ملک کے مختلف علاقوں میں درس قرآن کے ماہانہ اور ہفتہ وار حلقہ جات کا اہتمام کرتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved