جواب : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ کے پاس سے آئے ہوئے احکام کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے۔
جواب : ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔
1. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 23
2. زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔
جواب : ایمان قلب و باطن کی یقینی حالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور اللہ کی محبت سے معمور ہوں۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے :
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : 30325
جواب : قرآن حکیم میں ’’ایمان‘‘ کا لفظ کم و بیش پینتالیس (45) بار آیا ہے۔
جواب : ایمان کا موضوع عقائد ہیں۔
جواب : عقیدہ ’عقد‘ سے ہے جس کے معنی گرہ باندھنے کے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم انیس، المعجم الوسیط، 2 : 614
اس سے مراد کسی شے کی ایسی تصدیق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔ عقیدہ کو ایمان کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے، اس سے مراد ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ رب العزت نے بواسطۂ رسالت ہمیں عطا فرمائی۔
جواب : عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہے جبکہ ایمان دین اسلام کی سب سے پہلی تعلیم ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے اور انہیں سچا جان کر ان پر یقین کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان کا دینِ اسلام کی تعلیمات کو سچا جاننا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے اور یہی اگر راسخ ہو جائے تو اس کا عقیدہ ہے کیونکہ ’’ایمان نمو پاتا ہے تو عقیدہ بنتا ہے‘‘
جواب : وہ علم جس میں عقائد سے متعلق بحث کی جائے اسے علم الکلام اور علم العقائد کہتے ہیں۔
جواب : نہیں، کسی چیز کا محض علم آ جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا، اگر ایمان علم ہی سے حاصل ہوتا تو کوئی ان پڑھ مومن نہ ہوتا اور نہ کوئی علم والا کافر ہوتا جیسا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے :
مِنَّا نَبِيٌّ يَأتِيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَتَی نَدْرُکُ هَذِهِ؟ وَاﷲ لَا نُوْمِنْ بِه اَبَداً وَلَا نُصَدِّقُهُ.
ابن کثير، تفسير ابن کثير، 2 : 131
’’(ہم مانتے ہیں کہ محمد) ہم میں سے ہی نبی ہیں اور اس کی طرف آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، پس ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے (مگر) اللہ کی قسم ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘
پس واضح ہوا کہ علم اور ایمان دو الگ حقیقتیں ہیں، کبھی علم کے باوجود ایمان نہیں ہوتا اور کبھی علم کے بغیر بھی ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
البقره، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بن دیکھے ماننے کا نام ہے جبکہ علم دیکھ کر ماننے کا نام ہے۔
جواب : ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے :
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں، جبکہ ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
جواب : ایمانِ مُجْمَل یہ ہے :
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌم بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌم بِالْقَلْبِ.
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
جواب : ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے :
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.
’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
جواب : ایمان کے بنیادی ارکان کی وضاحت درج ذیل آیات سے ہوتی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًاO
النساء، 4 : 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلَآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ.
البقره، 2 : 285
’’وہ رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہل ایمان بھی، سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘
علاوہ ازیں متفق علیہ حدیث میں جو ’’حدیث جبریل‘‘ کے نام سے مشہور ہے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے :
بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبرئيل، 1 : 27، رقم : 50
جواب : اللہ تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے، اس کے خالق و مالک حقیقی ہونے، اس کے حقیقی پروردگار اور حاجت روا ہونے کا زبان سے اقرار اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تصدیق کی جائے تو اس اقرار و تصدیق کے مجموعے کا نام ایمان باﷲ ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں۔ اس کی صفات اور کمالات نہ تو ہمارے شمار میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ صفات ہو سکتی ہیں جن کو ہم بیان کر سکیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے حد اور بے پایاں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے اجمالاً درج ذیل ہیں :
1. يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًاO
طه، 20 : 110
’’وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘
2. لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
الشوری، 42 : 11
’’اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتا دیکھتا ہے۔‘‘
3. لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُO
الانعام، 6 : 103
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔‘‘
4۔ اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء، وہی اول اور وہی آخر ہے، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے۔
5۔ اس کے سوا جو کچھ موجود ہے سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہی ہر ذی روح کو موت دے کر پھر دوبارہ قیامت میں زندہ کرنے والا ہے۔
6۔ وہ کسی کا محتاج نہیں، ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔
7۔ وہ جسم اور صفات جسم یعنی کھانے، پینے اور سونے وغیرہ سے پاک ہے۔
8۔ ہر چیز پر اس کی قدرت ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
9۔ وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، وہی بیمار کرتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے۔
10۔ وہی عزت و ذلت دیتا ہے، وہی نفع و نقصان پہنچاتا اور رزق دیتا ہے۔
11۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
12۔ وہ سب کا مالک و نگہبان اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
13۔ پرستش و عبادت کی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔
جواب : جی ہاں ! اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں :
صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی | صفات مجازی بمعنی صفات عطائی |
1. اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُO الإسراء، 17 : 1 ’’بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ |
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO الدهر، 76 : 2 ’’پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں۔‘‘ |
2. إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌO البقرة، 2 : 143 ’’بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘ |
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO التوبة، 9 : 128 ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘ |
3. إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌO الحج، 22 : 17 ’’بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے۔‘‘ |
3. وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا. البقرة، 2 : 143 ’’اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ |
4. کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًاO النساء، 4 : 164 ’’اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔‘‘ |
4۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ
سے کلام کیا۔
|
5. أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًاO النساء، 4 : 139 ’’کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے۔‘‘ |
5. وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ... O المنافقون، 63 : 8 ’’عزت اللہ کیلئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے۔‘‘ |
6. أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً. البقرة، 2 : 165 ’’ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے۔‘‘ |
6۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار
پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا :
نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ. النمل، 27 : 33 ’’ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں۔‘‘ |
7. بِيَدِكَ الْخَيْرُ. آل عمران، 3 : 26 ’’ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے۔‘‘ |
8. أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ. الاعراف، 7 : 54 ’’خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘ |
7. وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا. البقرة، 2 : 269 ’’جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی۔ |
8۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں
ارشاد ہے : أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ... O آل عمران، 3 : 49 ’’میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘ |
جواب : وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
ان افعال و صفات میں صرف اللہ خود مختار ہے، کسی غیر اللہ کو اختیار نہیں دیا گیا۔
جواب : صفات ذاتی سے مراد وہ صفات ہیں جو غیر کی عطا نہ ہوں اور نہ کوئی غیر اس میں کسی طرح سبب بنے۔ صفات ذاتی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور میں یہ صفات نہیں پائی جاتیں جبکہ صفاتِ عطائی کے ہونے میں کسی اور کا دخل ہوتا ہے یہ صفات اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں پائی جاتی ہیں۔ انبیاء کرام کی صفات بھی عطائی ہیں، انہیں یہ صفات بارگاہِ خداوندی سے عطا کی گئی ہیں لہٰذا صفات ذاتی اور صفات عطائی میں فرق یہ ہوا کہ صفات ذاتی صرف اللہ کے ساتھ خاص ہیں اور صفات عطائی مخلوق کے لئے خاص ہیں۔ صفات ذاتی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا کفر ہے۔ اسی طرح صفات عطائی کو مخلوق کی بجائے اللہ کے لئے ثابت کرنا کفر ہے۔
جواب : رسل رسول کی جمع ہے جس کا معنی ہے پیغمبر یعنی پیغام پہنچانے والا۔ ایمان بالرُّسل سے مراد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تک تمام انبیاء و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننا ہے کیونکہ ہر نبی اور رسول اپنی اپنی جگہ اللہ کا بھیجا ہوا حق و صداقت کا کامل و اکمل نمونہ رہا ہے اور ان سب نے ایک ہی مشن اور مقصد کی تکمیل کے لئے ایک ہی لائحہ عمل کے تحت کام کیا ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو ہدایت اور رہنمائی دینے کے لئے جن برگزیدہ بندوں کے ذریعے اپنا پیغام حق مخلوق تک پہنچایا انہیں نبی اور رسول کہتے ہیں۔
عام طور پر نبی اور رسول یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں، البتہ نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے وحی دے کر بھیجا ہو اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نئی شریعت دے کر مخلوق میں مبعوث کرتا رہا تاکہ وہ لوگوں کو اس کی طرف بلائے۔
1. قسطلاني، المواهب اللدنية، 2 : 47
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية، 4 : 286
جواب : سابقہ انبیاء کی رسالت مخصوص قوموں، علاقوں کے لئے اور ان کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تھی جبکہ نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق آدم سے قیامت تک کی ساری مخلوق کے لئے ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.
اعرف، 7 : 158
’’آپ فرما دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’مجھ سے پہلے ہر نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیا لیکن میں تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
صحيح بخاري، 1 : 128، رقم : 328
اس امر کی مزید وضاحت اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تخلیق آدم سے پہلے ہی خاتم النبیین کے وصف سے متصف تھا۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنِّی عِنْدَ اﷲِ فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فيْ طِيْنَتِه.
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 128
2. حاکم المستدرک، 2 : 656، رقم : 4175
’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں (اس وقت بھی) ام الکتاب میں خاتم النبیین تھا جب آدم ابھی خمیر سے پہلے مٹی میں تھے۔‘‘
پس واضح ہو گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف سب سے پہلے منصب نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت خاتم النبیین بنایا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی بھی تیار نہ ہوا تھا۔
جواب : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بعد ہوئی۔ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہو گئی اور سلسلہ نبوت و وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کے بعد منقطع ہو گیا۔ اب قیامت تک کی تمام انسانیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمہ نبوت سے فیض یاب ہوتی رہے گی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاO
الاحزاب، 33 : 40
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے آدمیوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور سے لے کر تمام محدثین مجتہدین، آئمہ دین و مفسرین نے خاتم النبیین سے مراد آخری نبی کے معنی بیان کیے ہیں اور اسی معنی کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بیان فرمایا ہے :
اَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.
ترمذی، 4 : 399، رقم : 2219
’’میں ہی آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد کوئی شخص کسی کو نبی مانے یا یہ عقیدہ رکھے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آئے گا وہ کافر ہے۔
جواب : خاتم النبیّین کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ نبوت ختم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.
ترمذی، 4 : 399، رقم : 2219
’’میں خاتم النبیّین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘
پس سلسلہ نبوت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے اس لیے جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبی مانے یا جائز جانے یا نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے۔
نوٹ: تمام انبیاء کرام اور رسل عظام معصوم ہوتے ہیں یعنی ہر قسم کے کبیرہ اور صغیرہ گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔ ہر نبی اور رسول اپنی اپنی امت سے ہر لحاظ سے بلند مرتبے والا ہوتا ہے اور ہمارے رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء کرام اور جمیع مخلوقات سے افضل ہیں۔
جواب : ہر شخص کو موت کے بعد قیامت کے دن زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے جس کے نتیجے میں وہ جہنم یا جنت (کی صورت میں سزا و جزا) سے ہمکنار ہو گا۔ اس زندگی کا نام اخروی زندگی ہے اور اس زندگی پر ایمان لانے کا نام ایمان بالآخرت ہے۔ آخرت کا منکر کافر ہوتا ہے۔
جواب : برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد موت سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسب مراتب برزخ میں رہیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِO لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO
المومنون، 23 : 98 - 100
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہو گا اور ان کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گےo‘‘
عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب میت کے ثواب کیلئے صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا.
غافر، 40 : 46
’’(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
جواب : جس دن اﷲ تعالیٰ تمام مردوں کو زندہ کرے گا اور ان سے ان کے تمام نیک و بد اعمال کا حساب لے گا، اس دن کا نام قیامت ہے۔
جواب : علامت قیامت سے مراد قیامت کی نشانیاں ہیں جن کا ظہور قیامت سے قبل ہوگا، مثلاً امام مہدی کاظہور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا، یاجوج ماجوج کا نکلنا اور اﷲ کے غضب سے ہلاک ہو جانا، سورج کا مغرب سے نکلنا، آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ یہ سب علامات قیامت ہیں۔ اس طرح جب قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر ہوں گی پھر حکم الٰہی سے حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے جس سے سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا دوبارہ صور پھونکا جائے گا، جس سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے۔
جواب : جنت عیش و آرام کی ایسی جگہ کا نام ہے جو ایمان والوں کو ان کے ایمان اور عمل کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ اس کی خوبیوں کو کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کی ماہیت کا خیال گزرا۔ اس کی دیوار سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہے۔ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے، زمین زعفران کی کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت سے بنی ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1185، کتاب بدء الخلق، رقم : 3072
جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُO
الرحمن، 55 : 58
’’گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا :
وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌO
الغاشية، 88 : 16
’’اور پھیلی ہوئی چاندیاں ہیں۔‘‘
جنت میں سو درجے ہیں، ہر درجے کی چوڑائی اتنی ہے جتنی زمین سے آسمان تک اور دروازے اتنے چوڑے ہیں کہ ایک بازو سے دوسرے بازو تک تیز گھوڑا ستر برس میں پہنچے۔ جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتیں۔ طرح طرح کے پھل، میوے، دودھ، شہد، شراب، اچھے کھانے جنتیوں کو دیئے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌO
الرحمن، 55 : 68
’’ان میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں۔‘‘
جنتی خوبصورت لباس میں ملبوس ہوں گے جو دنیا میں کسی کو نصیب نہ ہوئے ہوں گے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا :
مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍO
الرحمن، 55 : 76
’’تکیہ لگائے ہوئے (ہیں) سبز بچھونوں اور منقش خوبصورت چاندیوں پر۔‘‘
جنت اور اہل جنت کبھی فنا نہ ہوں گے۔
اس میں جنتیوں کو کسی قسم کی تکلیف یا غم نہ ہو گا بلکہ وہ ہمیشہ راحت و آرام میں رہیں گے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پکارنے والا پکار کر کہے گا (اے جنت والو!) تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور تم آرام سے رہو گے کبھی محنت و مشقت نہ اٹھاؤ گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2182، کتاب الجنة و صفة نعمها، رقم : 2837
جنت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو جنتیوں کو نصیب ہو گا جس کے مقابلے میں ساری نعمتیں ہیچ ہوں گی۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے مرتبے کا جنتی وہ شخص ہو گا جو صبح و شام دیدار الٰہی سے مشرف ہو گا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌO إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌO
القيامة، 75 : 22 - 23
’’یعنی اس روز بہت سے چہرے اپنے پروردگار کے دیدار سے تروتازہ اور خوش و خرم ہوں گے۔‘‘
ترمذي، السنن، 8 : 688، کتاب صفة الجنة، رقم : 2553.
جواب : دوزخ ایسی جگہ کا نام ہے جو بدکاروں اور کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور انہیں روز محشر ہونے والے حساب کے بعد اس میں پھینک دیا جائے گا۔ کافر اس میں ہمیشہ قید رکھے جائیں گے۔ اس میں تیز بھڑکتی ہوئی آگ ہے اور روشنی کا نام تک نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًاO خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاO
الأحزاب، 33 : 64، 65
’’بے شک اﷲ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے (دوزخ کی) دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہےo جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے (اور وہاں) نہ کوئی اپنا دوست پائیں گے نہ مددگار (کہ ان کو عذاب سے بچا سکے)o‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ يَعْصِ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ فَاِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خٰالِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًاO
الجن، 72 : 23
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہ مانے تو بیشک ان کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
جواب : حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض پر کتابیں اور بعض پر صحائف اتارے، ان تمام صحیفوں اور کتابوں (یعنی ان کے منزل من اﷲ ہونے) پر ایمان لانا ایمان بالکتب ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانے میں مختلف قوموں کی ہدایت کے لئے صحیفے اور کتابیں نازل کی ہیں، ان میں سے چار مشہور کتابیں یہ ہیں جو اللہ نے اپنے پیغمبروں پر نازل فرمائیں۔
توریت : حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
زبور : حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
انجیل : حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
قرآن حکیم : اللہ تعالیٰ کی آخری اور افضل و اکمل کتاب ہے جو اللہ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی۔
جواب : جی نہیں! آج روئے زمین پر قرآن حکیم کے علاوہ دوسری آسمانی کتابیں، تورات، انجیل، زبور وغیرہ میں سے کوئی بھی اصلی حالت میں موجود نہیں۔ پہلی قوموں کے لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق ان کتابوں کے احکامات میں تبدیلی کر دی، لیکن قرآن حکیم ایک ایسی بے مثل کتاب ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَO
الحجر، 15 : 9
’’بے شک اس ذکر (قرآن) کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
تو قرآن حکیم ہی وہ کتاب ہے جو قیامت تک بنی نوع انسانی کے لئے کامل ہدایت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔
جواب : قرآن حکیم کے نزول کے بعد سابقہ کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن ان کے احکامات پر عمل کرنے کا حکم باقی نہیں رہا کیونکہ قرآن حکیم سے پہلے کوئی بھی آسمانی کتاب عالمگیر اور آفاقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی، تمام سابقہ کتب ایک خاص قوم کی رہنمائی کے لئے آئی تھیں۔ نزول قرآن سے پہلے تمام مذاہب اختلافات کا شکار تھے اس وجہ سے ہر مذہب اپنے ہی عقیدے کو صحیح سمجھتے تھے، لہٰذا اس وقت کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی ایسی کتاب نوع انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہو جو تمام بنی نوع انسان کو متحد کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے۔ اس لیے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ :
إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَO
يوسف، 12 : 104
’’یہ کتاب تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔‘‘
لہٰذا قرآن حکیم قیامت تک آنے والے سب انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کی بے نظیر کتاب بن کر آئی۔
نوٹ: تمام کتابوں میں توحید کا ذکر قدرے مشترک رہا ہے۔
جواب : ملائکہ ’’مَلَک‘‘ سے مشتق ہے، اس کی جمع ملائکہ اور ملائک ہے، اس کے لغوی اور لفظی معانی مالک ہونا، فرشتہ، ملکیت اور اقتدار ہیں، اس کے علاوہ اس میں تصرف، قدرت اور امر کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ لفظ ملائکہ آسمانی ارواح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
راغب اصفهانی، المفردات : 472، 473
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر یا کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے، اس وجہ سے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ سب تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ فرشتے احکام الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے۔
جواب : فرشتے اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں، لہٰذا ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا غلط ہے کہ وہ انسانی روحیں یا صفات الٰہیہ ہیں یا نیکی اور بدی کی طاقتیں ہیں۔
ملائکہ کی حقیقت کے بارے میں کئی اقوال ہیں جن میں سے متفقہ اقوال یہ ہیں :
فَذَهَبَ أکْثَرُ الْمُسْلِمِيْنَ إِلٰی أنَّهَا أجْسَامٌ لَطِيْفَةٌ، قَادِرَةٌ عَلَی التَّشَکُّلِ بِأشْکَالٍ مُخْتَلِفَة.
بيضاوي، التفسير، 1 : 80، 81
’’پس جمہور مسلمانوں کے مطابق ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں (اپنی لطافت و نورانیت کے باعث) مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خُلِقَتِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ نُوْرٍ، وَ خُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَ خُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ.
1. مسلم، الصحيح، 4 : 2294، رقم : 2996
2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 153، 168
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 25، رقم : 6155
’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو شعلہ زن آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے جس کی صفت اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔‘‘
جواب : اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی سرشت میں کامل اطاعت کا پہلو رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کائنات کے مختلف امور سر انجام دیتے ہیں اور از خود کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَO
النحل، 16 : 50
’’وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے (اسے) بجا لاتے ہیںo‘‘
حضرت ابن سابط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب ’’اُمُّ الکتاب‘‘ میں موجود ہے۔ تین فرشتوں کو مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اس کی نگرانی کریں، پس حضرت جبرائیل علیہ السلام کو کتاب سپرد کی گئی ہے کہ وہ اسے رسولوں تک لے جائیں اور ان کو خدا کے عذاب کے معاملات بھی سپرد کیے گئے ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی ہلاکت کا ارادہ کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو (اپنے دشمنوں کے خلاف) جنگ میں مدد پر مقرر کر دیتے ہیں اور حفاظت، بارش اور زمین کے نباتات حضرت میکائیل کے سپرد ہیں۔ ملک الموت کے سپرد ارواح قبض کرنا ہے، پس جب دنیا ختم ہو گی تو لوگوں کے اعمال ناموں کو جمع کیا جائے گا اور
’’اُمُّ الکتاب‘‘ کے ساتھ تقابل کیا جائے گا تویہ مدبرین دنیا ان اعمال ناموں کو ام الکتاب کے موافق پائیں گے۔
ابن حبان، کتاب العظمة، 3 : 973، رقم : 496
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ طَرْفَ صَاحِبِ الصُّورِ مُذْ وُکِّلَ بِه مُسْتَعِدٌّ يَنْظُرُنَحْوَ الْعَرْشِ مَخَافَةَ أنْ يُؤْمَرَ قَبْلَ أنْ يَرْتَدَ إِلَيْهِ طَرْفُه کَأنَّ عَيْنَيْهِ کَوْکَبَانِ دُرِّيَانِ.
حاکم، المستدرک، 4 : 603، کتاب الاهوال، رقم : 8676
’’بلاشبہ حضرت اسرافیل جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں۔ عرش کے اردگرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ انہیں نظر جھپکنے سے قبل حکم نہ دے دیا جائے، اس کی دونوں آنکھیں گویا کہ چمکدار ستارے ہیں۔‘‘
جواب : انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے کراماً کاتبین ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَO كِرَامًا كَاتِبِينَO يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَO
الإنفطار، 82 : 10 - 12
’’حالانکہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیںo (جو) بہت معزز ہیں، (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیںo وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہوo‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَO أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَO
الزخرف، 43 : 79، 80
’’کیا انہوں نے اپنے خیال میں کوئی کام پکا کر لیا ہے تو ہم اپنا کام کرنے والے ہیں۔ کیا اس گھمنڈ میں ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور انکی مشاورت نہیں سنتے ہاں! کیوں نہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھ رہے ہیں۔‘‘
حضرت ابن جریج رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
’’کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس (انسان) کی دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔‘‘
دائیں طرف والا فرشتہ اپنے ساتھی (فرشتہ) کی گواہی کے بغیر نیکی لکھ دیتا ہے مگر جو اس کے بائیں ہوتاہے۔ وہ اپنے ساتھی (فرشتہ) کی گواہی کے بغیر کوئی برائی نہیں لکھتا۔ اگر وہ آدمی بیٹھتا ہے تو ایک اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں ہوتا ہے اور اگر وہ چلتا ہے تو ایک ان میں سے ا س کے آگے ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پیچھے، اور اگر وہ سوتا ہے تو ایک ان میں سے اس کے سر کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پاؤں کی جانب ہوتا ہے۔
ابن حبان اصبهانی، العظمة، 3 : 1000، رقم : 519
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌO مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌO
ق، 50 : 17، 18
’’جب اس سے لیتے ہیں دو لینے والے ایک داہنے بیٹھا اور ایک بائیں کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔‘‘
"تمام فرشتے نفس اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہیں، اسی لیے انہیں معصوم کہا جاتا ہے۔"
جواب : ایمان بالقدر سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں انسانوں کے تمام احوال و کیفیات کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں اَزل سے لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی انفرادی اور شخصی زندگی کے حوالے سے اچھائی اور برائی تخلیق کر کے اسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرے، چاہے تو نیکی اختیار کرے اور چاہے تو بدی کو اپنائے۔ اس کا ذکر سورۃ البلد میں یوں کیا گیا ہے :
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِO وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِO وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
البلد، 90 : 8 - 10
’’کیا ہم نے اس (انسان) کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیںo اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائےo اور ہم نے اسے دونوں راہیں نمایاں دکھا دیںo‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ انسان محض مجبور نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہ سکے مگر یہ کہ جو کچھ اس کے ہاتھوں سرزد ہوا اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے سب اللہ کے علم میں ہے۔ اسی کا نام تقدیر ہے اور اس پر ایمان لانا ایمان بالقدر کہلاتا ہے۔
جواب : قضا کا لغوی معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا اور انجام دینا ہے۔
راغب اصفهانی، المفردات، 406، 407
اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کارخانہ قدرت اپنے اپنے وقت پر معرض وجود میں لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ اگر کوئی شحص نیکی کرے گا تو اسکے نتائج بھی نیک ہوں گے اور برائی کے ثمرات بھی ویسے ہی برے ہوں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ.
البقره، 2 : 286
’’اس نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔‘‘
قدر کا لغوی معنی اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے۔
راغب اصفهانی، المفردات، 395
اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے جواللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍO
يٰسين، 36، 12
’’ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہےo‘‘
بہت سی احادیث میں بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں جبکہ اسکا عرش پانی پر تھا۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2044، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ، رقم : 2653
جواب : نہیں، تقدیر قطعاً ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ ہو سکے۔ تقدیر کی درج ذیل تین اقسام ہیں :
پہلی قسم تقدیر مبرم حقیقی ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ خداوند میں عرض کے باوجود اﷲتعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :
يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍO
هود، 11 : 76
’’(فرشتوں نے کہا) اے ابراھیم! اس بات سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکم (عذاب) آ چکا ہے اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘
چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔
دوسری قسم تقدیر مبرم غیر حقیقی ہے جس تک خاص اکابر اولیاء کی رسائی ہو سکتی ہے۔ سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اسی بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں قضائے مبرم کو رد کر دیتا ہوں۔‘‘
بهار شريعت، 1 : 6
اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :
1. لَا يُرَدُّ الْقَضَاءِ إِلاَّ الدُّعَاءَ.
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139
’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘
2. اِنَّ الدُّعَا يَرُدُّ الْقَضَآءَ الْمُبْرَمَ.
ديلمي، الفردوس بما ثور الخطاب، 5 : 364، رقم : 8448
’’بے شک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘
تیسری اور آخری قسم قضائے معلق کی ہے جس تک اکثر اولیاء، صلحاء اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ہو یا اولیاء کرام کی دعاؤں سے، والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے ہو۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے، نیت اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِO
الرعد : 13، 39
’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تعظیم کا سجدہ نہ کیا اور اس وجہ سے وہ کافر ہو گیا لیکن اس بدبخت شیطان نے اللہ سے دعا کی :
قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO
الحجر، 15 : 36
’’اس نے کہا اے پروردگار! پس تو مجھے اس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔‘‘
اللہ نے اسے کھلی چھٹی دے دی اگر اللہ شیطان مردود کی دعا قبول کر کے اس کی تقدیر بدل سکتا ہے تو یقیناً اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے بھی تقدیر بدل سکتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ
’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا
أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283
’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طاعون جیسا مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔
لہٰذا آیت مبارکہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ خداوند تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے علم کے مطابق موقع بہ موقع تقدیر میں رد و بدل کرتا رہتا ہے اور یہ رد و بدل قضائے معلق کی صورت میں ہوتا ہے لیکن جو خدا کے علم میں آخری فیصلہ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔
جواب : جی نہیں! کیونکہ قضاء و قدر کے مسائل کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ اس میں زیادہ غور و فکر کرنا دین و ایمان کے تباہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلے پر بحث کرنے سے سخت منع فرمایا ہے۔
عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدْرِ، فَغَضَبَ حَتّٰي اِحْمَرَّ وَجْهُه حَتّٰي کَانَّمَا فُقِيَ فِيْ وَجْنَتَيْهِ حَبُّ الرُّمَّانِ، فَقَالَ : اَبِهٰذَا اُمِرْتُمْ اَمْ بِهٰذَا اُرْسِلْتُ اِلَيْکُمْ؟ اِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حِيْنَ تَنَازَعُوْا فِيْ هٰذَا الْاَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْکُمْ اَنْ لَّا تَنَازَعُوْا فِيْهِ.
ترمذي، السنن، کتاب القدر، 4 : 44، رقم : 2133
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم تقدیر کے مسئلہ میں بحث کر رہے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس شدتِ غضب سے سرخ ہو گیا کہ گویا انار کے دانے آپ کے عارضِ اقدس پر نچوڑ دیے گئے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم کو اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہاری طرف اسی چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلی قومیں اسی وقت ہلاک ہوئیں جب انہوں نے قضا و قدر کے مسئلہ میں مباحثہ کیا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ آئندہ اس مسئلہ میں بحث نہ کرنا۔‘‘
جواب : دینِ اسلام سے مراد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر مبنی وہ نظام حیات ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہو اور وہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کی ضروریات کو پوری کرتا ہو۔ اس میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور بین الاقوامی سطح تک کی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ.
آل عمران، 3 : 19
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک فقط اسلام ہی ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا.
المائده، 5 : 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
ان آیات سے اسلام کے ایک کامل اور مکمل دین ہونے کا تصور ابھرتا ہے۔
جواب : ایمان اور اسلام دراصل ایک حقیقت کے دو رخ ہیں، ان میں فرق صرف یہ ہے کہ جن حقائق کی تصدیق ایمان کے درجہ میں دل اور زبان سے کی جاتی ہے، اسلام کے درجہ میں ان کی تصدیق عملاً ہونی ضروری ہو جاتی ہے۔ گویا ایمان ضروریات دین کو دل سے سچا ماننے اور زبان سے ان کا اقرار کرنے کا نام ہے جبکہ اسلام اطاعت، فرمانبرداری اور عمل کرنے کا نام ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved