جواب : اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ یہ کردار سے پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کردار کو پیش کیا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے :
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO
’’بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
يونس، 10 : 16
لوگوں میں عمر گزارنا سیرت و کردار کا پتا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین جانے جاتے تھے اور کفار و مشرکین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا اس حد تک اعتراف تھا کہ بت پرستی پر قائم رہنے کے عوض وہ وہ آپ کی ساری باتیں ماننے پر تیار تھے۔ جب وہ اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسلمان حاضر ہوتے تو کوئی زخمی حالت میں ہوتا، کسی کو کوڑوں سے مارا گیا ہوتا، تو کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا ہوتا۔ یہ درد ناک صورتحال دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے۔
تبيان القرآن، 5 : 762
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ روانہ فرمایا۔ ان کی دعوت اس قدر پر اثر ثابت ہوئی کہ اگلے سال حضرت مصعب رضی اللہ عنہ 75 مسلمانوں کو بیعت عقبہ ثانیہ کے لئے مکہ لے کر آئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ہمراہ 12 انصار صحابہ کو نقباء مقرر فرما کر مدینہ رخصت کیا اور جب ہجرت مدینہ ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کی غالب اکثریت اس حال میں مسلمان ہو چکی تھی کہ نہ تلوار اٹھائی گئی اور نہ ہی اذن قتال نازل ہوا تھا۔
قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63 سالہ انقلابی جدوجہد سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ان میں کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ضرورت کے وقت دفعِ شر اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے جنگ میں پہل کی گئی لیکن زیادہ تر معرکوں کی نوعیت دفاعی رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی مخالفین نے سرِ تسلیم خم کیا یا راہِ فرار اختیار کی، صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا یا ہتھیار ڈال دیئے تو پھر مسلمانوں نے بھی ان پر ہتھیار نہ اٹھائے۔ اسلام میں جنگ محض برائے جنگ نہیں بلکہ قیامِ امن کا ذریعہ ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ دار السلام بن گیا۔ یہ محض مسلمانوں کے کردار اور ان کے ثقافتی غلبہ کا اثر تھا کہ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے اور دنیا میں ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔
جواب : اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، یہ محض قتال، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں۔ یہ اس وقت ہر مومن پر فرض ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔ قرآنی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر اذنِ دفاع نازل ہوا۔
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌO
’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہےo (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اللہ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اللہ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)o‘‘
الحج، 22 : 39 - 40
اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کے لیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔
مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا۔
ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا.
’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو۔‘‘
البقره، 2 : 190
اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّٰهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَO
’’اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملاً) اللہ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیںo‘‘
البقره، 2 : 193
جواب : جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔ امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ.
’’دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘
راغب الصفهانی، المفردات : 101
جدید عصری تقاضوں، معروضی حالات، جہاد کی مختلف جہات، اقسام اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جہاد کی مختصر اور جامع تعریف یوں فرماتے ہیں :
’’دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصولِ رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘
جواب : جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درجِ ذیل اقسام ہیں :
1۔ جہاد بالعلم
3۔ جہاد بالمال
2۔ جہاد بالعمل
4۔ جہادبالنفس
5۔ جہاد بالقتال
یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔
جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔
اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
یہ جہاد میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘
البقره، 2 : 154
جواب : تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂِ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔
تصوف صرف روحانی، باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و اطوار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ علمی، فکری، عملی، معاشرتی اور تہذیبی و عمرانی تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا نام تصوف ہے۔
ائمہ تصوف نے اپنے تمام معتقدات، تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا ہے حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں۔
’’راہِ تصوف صرف وہی پاسکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن حکیم اور بائیں ہاتھ میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔‘‘
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں شیخ خضری کا یہ قول نقل کیا ہے :
التصوف صفاء السر من کدورة المخالفة.
’’باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک و صاف کردینے کا نام تصوف ہے۔‘‘
جواب : رہبانیت سے مراد، بے رغبتی اور کنارہ کشی ہے۔ اصطلاحاً نفسانی لذّات سے دستبردار ہونا اور دنیاوی فرائض سے کنارہ کشی کی راہ اپنانا، سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کرنا، بیوی، بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑ کر غاروں کی خلوتوں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں ڈیرہ لگانا اور وہیں رہ کر کثرتِ عبادت و مجاہدہ بلکہ نفس کشی کے ذریعے وصالِ حق کی جستجو کرنا رہبانیت ہے۔ قرآن کی رو سے یہ طرزِ زندگی، حق کے متلاشیوں نے خود اختیار کیا تھا، ان پر فرض نہیں کیا گیا تھا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللهِ.
’’اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی)۔‘‘
الحديد، 57 : 27
اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں، جیسا کہ ایک حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا رَهْبَانِيَةُ فِی الاِسْلَامِ.
’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔‘‘
1. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 87
2. فتح الباری، 9 : 111
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی زبانِ حال سے پکار پکار کر پوری امت کو یہ درس دے رہا ہے کہ اسلام جیسا مکمل اور جامع نظامِ حیات مل جانے کے بعد اس کے پیرو کاروں کو رہبانیت جیسی بے جا مشقتوں کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کتاب و سنت کی اتباع کے ذریعے اس دنیا میں رہ کر کاروبارِ زندگی کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قربِ الٰہی کی منزل پا سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُO
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گیo‘‘
النور، 24 : 37
جواب : ’’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔
ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :
البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق.
’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ تعالی ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘
البقره، 2 : 117
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اخلاقی اُمور، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنی لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا
’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253
مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو۔
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے، معروف غیر ُمقلد عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل.
’’بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117
جواب : ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی روشنی میں خاص علمی نظم سے بدعت کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں :
1۔ بدعتِ حسنہ
2۔ بدعتِ سیئہ
لفظ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو، مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا۔ اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ’’بدعتِ سیئہ‘‘ ہو گی۔
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
والتحقيق انها ان کانت مما تندرج تحت مُستحسن فی الشرع فهی حسنة وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة.
’’ثابت یہ ہوا کہ اگر بدعت شریعت میں کسی مُستحسن امر کے تحت داخل ہے تو وہ اچھی ہے اور اگر وہ شریعت کی نا پسندیدگی کے تحت آتی ہے تو وہ غیر پسندیدہ ہوگی۔‘‘
1. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
2. شوکانی، نيل الاوطار، 3 : 63
اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے :
مَنْ سَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّة حَسَنَةً، فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِيْ الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهِمْ شَيْئٌ
’’جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کرے اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه،
رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے۔
جواب : اسلامی معاشرہ قائم کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ شر کے خاتمے اور خیر کے فروغ کر یقینی بنایا جا سکے لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہر فرد معاشرہ کو اپنی اپنی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ اسلام انسانیت کی بقاء، فلاح و بہبود اور ارتقاء کے زریں اصولوں کا امین ہے۔ حق کی پاسداری، انسانی معاشرے میں باہمی حقوق کا احترام اور اعلیٰ اقدار کا قیام و فروغ اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
وَاعْبُدُواْ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہوo‘‘
النساء، 4 : 36
اسلامی معاشرہ کا قیام اسلام کا اجتماعی نصب العین ہے۔ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تمام تر ہدایت دو سرچشموں سے حاصل ہوتی ہے : علم رسالت اور عملِ رسالت۔ علم رسالت قرآن حکیم ہے اور عملِ رسالت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔ اسلامی معاشرے کا قیام اس لیے ضروری ہے تاکہ ہر شخص اپنے حق کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے فرض کی ادائیگی پر مامور ہو جائے یعنی معاشرتی زندگی کی بنیاد ’’مطالبہ حقوق‘‘ کے تصور کی بجائے ’’ادائیگی فرائض‘‘ کے تصورپر ہو تو ہر ایک کا حق ازخود ادا ہوتا رہے گا۔ مثال کے طورپر والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت کریں، اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی عزت وخدمت کریں، بیوی کا فرض ہے کہ خاوند کی اطاعت کرے، تو خاوند کا فرض ہے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور اس کا نان و نفقہ پورا کرے۔ اس طرح طاقتور کا فرض ہے کہ کمزور کی مدد کرے اور امیر کا فرض ہے کہ غریب کا معاشی تعطل دور کرے۔ جب لوگ دوسروں کے پاس اپنا حق مانگنے کی بجائے ان کے پاس چل کر ان کاحق ادا کرنے جائیں گے تو جو معاشرہ قائم ہو گا وہ اسلامی معاشرہ ہو گا اور اسلامی معاشرے کا قیام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اسلام کے نظامِ قانون میں کوئی ایسی روش پروان نہ چڑھے جس سے افراد معاشرہ کے حقوق پر زد پڑے بلکہ تحفظِ حقوق کی روایت کو فروغ ملے۔
جواب : پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ اس وقت وجود میں آئی جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ بصیرت و حکمت سے متضاد نظریات رکھنے والے طبقوں کو مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کی تاسیس و قیام کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ اس پیغام کے نتیجے میں مدینہ منورہ میں پہلی ریاست وجود میں آئی جس کا دستور میثاق مدینہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جواب : انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاًO
’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا o‘‘
بنی اسرئيل، 17 : 70
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا :
يا ايها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد ولا فضل لعربي علي عجمي ولا لعجمي علي عربي ولا لأحمر علي أسود ولا لأسود علي احمر الا بالتقويٰ.
’’اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عربی کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے۔ سوائے تقویٰ کے۔‘‘
1. طبرانی، المعجم الاوسط، 5 : 86، رقم : 4749
2. هيثمی، مجمع الزوائد، باب لا فضل لأحد علی احد إلا بالتقوی، 8 : 84
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہو یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطبہ حقوقِ انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو کسی وقتی سیاسی مصلحت یا عارضی مقصد کے حصول کے لئے نہیں بلکہ عالم ارضی میں اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے جاری کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کو حقوق انسانی سے متعلق دیگر تمام دستاویزات پر فوقیت اور اولیت حاصل ہے۔ جو آج تک انسانی شعور نے تشکیل دیں، خطبہ حجۃ الوداع انسان کے انفرادی، اجتماعی، قانونی، معاشی، قومی اور بین الاقوامی تمام حقوق کا احاطہ کرتا ہے۔
جواب : والدین سے حسن سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے ’’احسان‘‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔
ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے۔
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘
الاسراء، 17 : 23 - 24
والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔
جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔
مسلم، الصحيح، کتاب البر و الصلة، باب رعم أنف من أدرک أبويه، 4 : 1978، رقم : 2551
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔
بخاری الصحيح، 3 : 1094، رقم : 2842
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَسُبُّ الرَّجُلُ أبَا الرَّجُلِ فَيَسُبَّ أبَاهُ، وَيَسُبُّ أمُّهُ فَيَسُبُّ أمُّهُ.
’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا یہ اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : لايسب الرجل والديه،
5 : 2228، رقم : 5628
2. ابوداؤد، السنن، کتاب : الأدب، باب : فی بر الوالدين، 4 : 336، رقم : 5141
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے انتقال کے بعد بھی نیک اعمال کا ایصال ثواب اور ان کے دوستوں سے حسنِ سلوک کی صورت میں ان سے حسن سلوک جاری رکھنے کی تعلیم دی۔
جواب : اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورہ النحل میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘
النحل، 16 : 90
رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو حسبِ استطاعت ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں ہمیشہ شریک رہنا، صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : اثم القاطع، 5 : 2231، رقم : 5638
اسی طرح قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيمٌO
’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo‘‘
البقره، 2 : 215
علاوہ ازیں احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین فرمائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس انہوں نے وہ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد بھائی تھے)۔
بخاری، الصحيح، 3 : 1011، رقم : 2600
جواب : اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ہمسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ گئے جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کے لیے لازم اور ضروری قرار پایا۔
قرآن حکیم میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا :
وَاعْبُدُواْ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہوo‘‘
النساء، 4 : 36
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ کون؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من لا يؤمن جاه بَوَايِقَه، 5 : 2240، رقم : 5670
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : الوصاة بالجار، 5 : 2239، رقم : 5669
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا حکم فرمایا۔ ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ ہمسایہ کون ہے اور کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں۔ پس میں ان میں سے کس کے لئے تحفہ بھیجا کروں؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : حق الجوار فی قرب الأبواب، 5 : 2241، رقم : 5674
جواب : اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، فرمایا گیا :
لَآ اِکْرَاهَ فِيْ الدِّيْنِ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
البقره، 2 : 256
اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo‘‘
الممتحنة، 60 : 8
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے :
ألاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أو انْتَقَصَهُ أوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أوْ أخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
أبو داود، السنن، کتاب الخراج، باب فی تشعير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3 : 108، رقم : 3052
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :
اِنَّهُمْ کَانُوْا لأصحاب مکرمين، فإنی أحب أن أکافئهم.
’’یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 6 : 518، رقم : 9125
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
أنا أحق من وفی بالذمة.
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
ابن أبی شيبة، المصنف 5 : 408، رقم : 2745
اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اقلیتوں کی جان کی حرمت کے متعلق الشعبی کا قول ہے۔
دية اليهودی والنصرانی و کل ذمی مثل دية المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی مثل ہے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 10 : 97، 98
لہٰذا اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔
جواب : غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کے برے وصف کو اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کریں کہ اگر وہ سن لے تو برا مانے خواہ زبان سے بیان کرے یا بذریعہ اعضاء یا بذریعہ قلم یا کسی اور طریقے سے عیب جوئی کی جائے اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ تہمت اور بہتان ہے۔ اسلام میں غیبت کرنے کی سخت وعید آئی ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو بیشک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الحجرات، 49 : 12
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’غیبت گناہ میں بدکاری سے بڑھ کر ہے۔‘‘
غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ باوجود ندامت اور توبہ کے اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں غیبت کو تمام کبائر سے زیادہ مہلک اور سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک شخص غیبت کرتا ہے اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ غیبت نہ کرو تو وہ کہتا ہے میں تو اس شخص کا صحیح عیب بیان کر رہا ہوں یہ غیبت نہیں ہے۔ حالانکہ غیبت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے غیبت کیا چیز ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا بہتر علم ہے۔ ارشاد فرمایا : غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہے جو اسے بری لگے کسی نے عرض کیا اگر میرے بھائی میں وہ برائی موجود ہو تو کیا اس کو بھی غیبت کہا جائے گا؟ فرمایا جو کچھ تم کہتے ہو اگر اس میں موجود ہو تو جبھی تو غیبت ہے اور اگر تم ایسی بات کہو جو اس میں موجود نہ ہو تو یہ تو بہتان ہے۔
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب تحريم الغيبة، 4 : 2001، رقم : 2589
جواب : اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد ربانی ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
النساء، 4 : 1
2۔ اللہ تعالیٰ کے اجر کے استحقاق میں دونوں برابر قرار پائے۔ مرد اور عورت دونوں میں سے جو کوئی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے :
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.
’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو‘‘
آل عمران، 3 : 195
3۔ نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میں گڑھ جانے سے نجات ملی۔ یہ رسم نہ تھی بلکہ انسانیت کا قتل تھا۔
4۔ اسلام عورت کے لئے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔
5۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانہ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔
6۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاO
’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہےo‘‘
النساء، 4 : 7
7۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔
بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب من احق الناس بحسن الصحبة، 5 : 2227، رقم : 5626
8۔ وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ ارشاد ربانی ہے :
يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ.
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔‘‘
النساء، 4 : 11
9۔ قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی اور سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.
’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘
النساء، 4 : 12
10۔ قرآنِ حکیم ہی کی عملی تعلیمات کا اثر تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر چلے جاؤ۔‘‘
اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 : 1114، رقم : 2896
11۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے بھی اچھی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت نظر انداز کر دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
الرَّجُلُ تَکُوْنُ لَهُ الْأمَةُ فَيُعَلِّمُهَا فَيُحْسِنُ تَعْلِيْمَهَا، وَ يُؤَدِّ بُهَا فَيُحْسِنُ أدَبَهَا، ثُمَّ يُعْتِقُهَا، فَيَتَزَوَّجُهَا، فَلَهُ أجْرَانِ.
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم من اهل الکتابين، 3 : 1096، رقم : 2849
گویا مندرجہ بالا قرآنی آیات و احادیث نبوی سے پتہ چلا کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں نہ صرف باعزت مقام و مرتبہ عطا کیا بلکہ اس کے حقوق بھی متعین کردیئے جن کی بدولت وہ معاشرے میں پرسکون زندگی گزار سکتی ہے۔
جواب : اسلام کے معاشی نظام کی خصوصیات درج ذیل ہیں :
1۔ وہ تمام مسائل جن پر انسان کا معاشی انحصار ہے سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کی تخلیق ہیں۔
قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے :
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.
’’جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اللہ کے لئے ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 284
2۔ خالق کائنات، رازقِ کائنات بھی وہی ہے جو تمام مخلوقات کو رزق دیتا ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے :
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللهِ رِزْقُهَا.
’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔‘‘
هود، 11 : 6
3۔ اسلام کا معاشی نظام انفرادی حق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ اس میں کچھ حدود و قیود لگائی گئی ہیں لیکن انسان کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا گیا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ.
’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔‘‘
البقرة، 2 : 267
4۔ اسلام حق معیشت میں مساوات کا قائل ہے۔ اسباب معیشت میں ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا مساوی حق فراہم کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَO
’’اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo‘‘
الاعراف، 7 : 10
5۔ جس طرح اسلام حقِ معیشت میں مساوات کا داعی ہے اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسبابِ معشیت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درجاتِ معیشت میں تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی اسلام میں معاشی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ذی روح کو دنیا میں رہنے کا حق حاصل ہو، محنت اور ترقی کے راستے سب کے لئے ہوں اور وہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس کا فیصلہ اس کی محنت، قابلیت اور کام کرنے کی صلاحیت پر رکھا گیا ہے جتنا وہ کام کرے گا۔ اسی حساب سے معیشت میں اس کا درجہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ.
’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)۔‘‘
النحل، 16 : 71
اس کے پس منظر میں اس آیت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)o‘‘
النجم، 53 : 39
مذکورہ بالا اساسی تصورات کے ساتھ اسلام نے معاشیات کے میدان میں اخلاقی اقدار کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں تقویٰ، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات اہم ہیں۔ ان کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
جواب : اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو حصول علم پر زور دیتا ہے اور اس کا آغاز بھی حصول علم کے حکم سے ہوا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo‘‘
العلق، 96 : 1
جبکہ سائنس وہ شعبہ علم ہے جو تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے اب اسلام ہی وہ دین ہے جس نے انسانیت کو تجربے اور مشاہدہ سے متعارف کرایا۔
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo
’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo‘‘
آل عمران، 3 : 190
قرآن حکیم نے سائنسی شعور عطا کرتے ہوئے کائنات کی تسخیر کرنے کی تعلیم دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ.
’’اور اُس نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے۔‘‘
الجاثيه، 45 : 13
اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم فطرت کے اسرار کو سمجھیں اور اس کی تسخیر کریں۔ ایسے ہی بقیہ مذاہب کی طرح سائنس اور اسلام کے مابین کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے بلکہ اسلام ہی کا عطا کردہ ایک رویہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔
جواب : اسلام انسانی زندگی میں درج ذیل تین سطحوں پر انقلاب بپا کرنا چاہتا ہے اور اپنے پیروکاروں سے اِن تین سطحوں پر اطاعت و تسلیم کا اعلیٰ معیار چاہتا ہے :
1۔ انفرادی سطح
2۔ اجتماعی سطح
3۔ بین الاقوامی سطح
انفرادی سطح پر انقلاب یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے جدوجہد کی جائے، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o اور بے شک وہ شخص نامراد ہو گیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)o‘‘
الشمس، 91 : 9، 10
اجتماعی سطح پر انقلاب میں پوری قوم شامل ہے۔ قرآن حکیم اس سطح پر انقلاب بپا کرنے کے لئے بھی ہدایت دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکوo‘‘
آل عمران، 3 : 200
بین الاقوامی سطح پر انقلاب کی رہنمائی بھی قرآن حکیم سے میسر آتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَO
’’یہ تو صرف جہان والوں کیلئے نصیحت ہےo‘‘
الانعام، 6 : 90
بین الاقوامی زندگی میں عداوت اور عناد ہمہ وقت کسی نہ کسی سطح پر تضاد یا تصادم کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ اس صورتحال کا علاج تمام باطل اور طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں حق کی عالمگیر فتح کا نصب العین ہے۔
ان تمام قرآنی دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام انسانی زندگی کی انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی سطحوں پر مکمل تبدیلی اور ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔
جواب : اسلام میں فرقہ پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ.
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
مندرجہ بالا آیت دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ امر اور دوسرا نہی پر مبنی ہے۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، یہ مثبت حکم تھا لیکن اس کے بعد نہی کا حکم ہے کہ خبردار! تم باہمی تفرقہ اور انتشار کا شکار نہ ہونا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرقہ پرستی کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
يَدُ اللهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَ مَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ.
’’اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا وہ دوزخ میں جا گرے گا۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 39 - 40، رقم : 2167
اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے۔ اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا :
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ.
’’بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں۔‘‘
الانعام، 6 : 159
اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔ علاوہ ازیں ملی شیرازہ کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی سخت احکامات صادر فرمائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص بھی تمہاری جماعت کی وحدت اور شیرازہ بندی کو منتشر کرنے کے لئے قدم اٹھائے اس کا سر قلم کر دو۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الامارة، باب حکم من فرق امر المسلمين و هو مجتمع، 3 : 478، رقم : 1852
گویا مذکورہ بالا قرآنی آیت اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اسلام میں فرقہ بندی اور تفرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔
جواب : شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے غلبۂ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کی خاطر عالمگیر انقلاب محمدی کے لئے 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ تب سے تحریک کی جدو جہد کا دائرہ کار درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔
1۔ اصلاحِ احوالِ امت
2۔ تجدید و احیائے دین
3۔ فروغ تعلیم و بیداری شعور
4۔ عالمگیر اتحادِ امت
5۔ دعوت و افکار اسلامیہ کی تشکیل نو
6۔ بین المذاہب رواداری اور امنِ عالم کا قیام
7۔ فلاح و بہبود انسانی
ان مقاصد کے لئے تحریک پاکستان کے 15 کروڑ عوام تک دعوتی، تربیتی اور تنظیمی پروگراموں کے ساتھ شہر شہر، گاؤں گاؤں پیغام انقلاب پہنچانے میں مصروف ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیا بھر کے 80 سے زائد ممالک میں تحریک انہی جہتوں میں پوری طرح فعال ہے۔ ان ممالک میں براعظمی، ملکی اور شہری سطح کی تنظیمات کا باقاعدہ نیٹ ورک موجود ہے اور دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے شعبوں میں کام ہو رہا ہے۔
بانی تحریک کی ہزاروں موضوعات پر آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز ملک میں اور بیرون ممالک جہاں جہاں تنظیمات قائم ہیں پہنچانے کا وسیع نظام ہے اس کے علاوہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تین سو سے زائد کتب بھی منظر عام پر آچکی ہیں جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قارئین تک پہچائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی شخصیات دروس قرآن پر منظم کام کر رہی ہیں جبکہ تحریک کے مرکز پر گوشۂِ درود قائم کیا گیا ہے جہاں پر 24 گھنٹے روزہ دار رفقائے تحریک درود پاک پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں اور ملکی و غیر ملکی تنظیمات بھی درود پاک پڑھ کر مرکز پر ارسال کر دیتی ہیں۔ ماہانہ ختم درود کے موقع پر بارگاہ رسالت میں قبولیت کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح تزکیہ نفس اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہمہ گیر کام ہو رہا ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی و منہاج یونیورسٹی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بیداری شعور کے لئے 500 سے زائد ماڈل سکولز، کالجز، لائبریریز اور ایک چارٹرڈ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات میں تعلیم اور شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ ادارے علوم عصریہ و شریعہ کا حسین نمونہ ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کی نگرانی کے لئے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کام کر رہی ہے۔ منہاج یونیورسٹی میں 3500 طلبہ 4 ماڈل کالجز میں 5182 طلباء و طالبات 310 ماڈل سکولز میں 42000 اور 225 پبلک سکولوں میں 28000 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
فلاح و بہبود کے اہداف کے حصول کے لئے منہاج القرآن ویلفیئر سوسائٹی ایک فعال اور متحرک فورم ہے جو خدمت کے سفر میں قدم قدم ایثار و قربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مصروفِ جدوجہد ہے۔
سالانہ فری آئی کیمپ میں 800 سے زائد مریض شفا یاب ہو چکے ہیں جبکہ 100 سے زائد ڈسپنسریز اور بلڈ بینکس مصروفِ عمل ہیں۔ یتیم اور بے سہارا بچوں کی نگہداشت اور نشوونما کے لئے آغوش کے نام سے ادارہ زیرِ تکمیل ہے۔ منہاج ویلفیئر سوسائٹی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے وسیع بین الاقوامی سطح پر جدوجہد میں شب و روز مصروف ہے اور زلزلہ، قحط، سیلاب زدگان اور مہاجرین کی خدمت کے لئے اب تک افغانستان، بوسنیا، بام (ایران) اور حالیہ زلزلہ آزاد کشمیر و صوبہ سرحد میں کروڑوں روپے مالیت کی امداد سے مطلوبہ سہولیات فراہم کرکے دکھی انسانوں کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے چکی ہے جبکہ دور افتادہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لئے 250 پمپ نصب کرائے گئے۔ ساڑھے تین کروڑ سے زائد روپے اجتماعی شادیوں، جہیز فنڈ اور ناداروں کی امداد کے لئے خرچ کئے گئے۔ منہاج سٹوڈنٹ ویلفیئر بورڈ کے تحت منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرنے والے غریب مگر لائق اور مستحق ہزاروں طلبہ کے لئے لاکھوں روپے کے تعلیمی اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن میں ہر شعبۂ زندگی کی نمائندگی دینے کے لئے افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، ملک و ملت کو ان قابلیتوں سے استفادہ کرنے اور اجتماعی قوت ابھارنے کے لئے علماء کونسل، یوتھ لیگ، ویمن لیگ، ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور مصطفوی سٹوڈنٹ موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن ایسی تحریک ہے جس کے رفقاء، اراکین و وابستگان کی تعداد لاکھوں میں ہے او اس کے رفقاء و اراکین کے لئے عمر و جنس کی کوئی قید نہیں۔ ان میں مرد عورتیں بچے بوڑھے سب شامل ہیں جن کا تعلق نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے بھی ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا لائحہ عمل اور طریق کار بنیادی طور پر جمہوری نوعیت کا ہے جو باقاعدہ تنظیمی و انتظامی نظم کے تحت رُوبہ عمل ہے۔ اس کام کو سائنسی بنیادوں پر سرانجام دینے کے لئے مختلف نظامتیں کام کر رہی ہیں مثلاً نظامتِ تنظیمات، نظامتِ دعوت و تربیت، نظامتِ تعلیمات، نظامتِ تعمیرات، نظامتِ مالیات، نظامتِ تحقیق و تبلیغات، نظامتِ ابلاغیات، نظامتِ امور خارجہ، نظامتِ منصوبہ بندی و ترقیات اور نظامتِ شماریات وغیرہ۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved