جواب : چار مذاہب جو حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی کے نام سے موسوم ہیں مذاہب اربعہ کہلاتے ہیں۔ حنفی مذہب امام اعظم ابو حنیفہ کے نام سے موسوم ہے، شافعی مذہب کے بانی امام شافعی ہیں، مالکی مذہب کے بانی امام مالک اور حنبلی مذہب کے بانی امام احمد بن حنبل ہیں، ان مذاہب کے امام ائمہ اربعہ کہلاتے ہیں۔
جواب : جیسا کہ آپ کے لقب سے ظاہر ہے کہ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ کا اصل نام نعمان بن ثابت بن زوطا رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ 80 ہجری بمطابق 699ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔
آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا۔
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لئے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔
دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
ایک دفعہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا : پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا : اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
1۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ
2۔ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ
3۔ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
4۔ امام زفر بن ہذیل رحمۃ اللہ علیہ
5۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ
6۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ
7۔ امام داؤد بن نصیر رحمۃ اللہ علیہ
آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں :
الفقه الأکبر، الفقه الأبسط، العالم والمتعلم، رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی، وصية الامام أبي حنيفة.
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اللہ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں :
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے۔
بغداد شریف میں 150 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا، اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔
جواب : امام شافعی کے فقہی مسلک کو مذہب شافعی کہتے ہیں۔ آپ کا نام محمد بن ادریس الشافعی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سال وفات اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا سال ولادت ایک ہے یعنی آپ 150ھ میں فلسطین کے ایک گاؤں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زمانہ بڑی تنگدستی میں گزرا، آپ کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 7 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، 15 برس کی عمر میں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی تھی۔ آپ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر مسائل حل کرنے کے لئے اور برکت حاصل کرنے کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔ آپ امام مالک کی شاگردی میں رہے اور ان کی وفات تک ان سے علم حاصل کیا۔ آپ نے اصولِ فقہ پر سب سے پہلی کتاب ’’الرسالہ‘‘ لکھی ’’الام‘‘ آپ کی دوسری اہم کتاب ہے۔ آپ نے مختلف مکاتیب کے افکار و مسائل کو اچھی طرح سمجھا اور پرکھا پھر ان میں سے جو چیز قرآن و سنت کے مطابق پائی اسے قبول کر لیا۔ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا تھا اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل بحث کرتے۔ آپ صحیح احادیث کے مل جانے سے قیاس و اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔ آج بھی مصر، لبنان، شام اور فلسطین میں شافعی مسلک کے پیروکار موجود ہیں۔ آپ کے مقلد شافعی کہلاتے ہیں۔ آپ نے 204ھ میں مصر میں وفات پائی۔
جواب : امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی مسلک کو حنبلی مذہب کہتے ہیں۔ آپ کا نام احمد اور لقب ’’امامِ بغداد‘‘ ہے۔ آپ بغداد میں 164ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ عربی النسل تھے۔ اپنے آبائی شہر میں لغت، فقہ اور حدیث کا ابتدائی علم حاصل کیا۔ بعد ازاں خود کو علم حدیث کے لئے وقف کردیا۔ حصولِ علم کے لئے آپ نے عراق، حجاز، یمن اور شام کا سفر کیا اور پانچ حج کیے۔
عسقلانی، تهذيب التهذيب، 1 : 73
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ فقیہہ سے زیادہ محدث تھے۔ مسند احمد آپ کا سب سے مشہور مجموعہ احادیث ہے۔ فقۂ حنبلی میں احادیثِ نبوی اور آثار و اقوالِ صحابہ کا بہت گہرا اثر ہے۔ آپ کے مقلد حنبلی کہلاتے ہیں۔ آپ نے بغداد شریف 241ھ میں وفات پائی۔
جواب : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی مسلک کو مالکی مذہب کہتے ہیں۔ آپ کا نام مالک بن انس ہے۔ آپ امامِ مدینہ، امام اہلِ حجاز اور امام دار الہجرت کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ 93ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار مجتہدین، فقہاء اور عظیم محدثین میں ہوتا ہے۔
آپ نے حدیث و فقہ کا علم پہلے ربیعہ رائی، پھر ابن ہرمز سے حاصل کیا۔ ان کے اساتذہ میں امام ابن شہاب زہری اور دیگر ستر اساتذہ شامل ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سترہ برس کی عمر میں مدینے میں درس و تدریس کی مسند سنبھالی۔ آپ حدیث کا درس بڑے ادب و احترام سے دیا کرتے تھے، غسل کرتے، صاف ستھرا لباس پہنتے، خوشبو لگاتے اور پھر درس کی مسند پر تشریف فرما ہوتے۔ امام مالک بیک وقت حدیث اور فقہ کے امام تھے۔ آپ کے طرزِ فکر میں حدیث اور فقہ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
محمد ابوزهره، مالک، 33 : 34
امام نسائی آپ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میرے نزدیک تبع تابعین کی جماعت میں امام مالک سے زیادہ عظیم اور کوئی شخص نہیں اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی اور شخص حدیث میں مامون و معتبر تھا۔‘‘
عسقلانی، تهذيب التهذيب، 10 : 9
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا سب سے بڑا تصنیفی کارنامہ ’’الموطا‘‘ ہے جو علم حدیث پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، عبد اللہ بن سلمی، عبد اللہ بن رب آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ امام مالک کی وفات مدینہ طیبہ میں سن 179ھ میں ہوئی۔ آپ کے مقلد مالکی کہلاتے ہیں۔
عسقلانی، تهذيب التهذيب، 10 : 8
جواب : جیسا کہ اوپر ذکرہو چکا ہے کہ اہل سنت وجماعت کے چار ائمہ ہیں۔
1۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م 150 ھ)
2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ( م 189 ھ)
3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 204 ھ)
4۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (م 241 ھ)
ان ائمہ کرام نے اپنی خداد داد علمی فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسبِ ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہہ مرتب کئے یوں ان ائمہ کے زیر اثر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔
چنانچہ ان چاروں ائمہ کرام میں سے کسی بھی فقہی مکتب فکر کی پیروی کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں۔ جیسے امام اعظم کے مقلدین کو حنفی، امام مالک کے مقلدین کو مالکی اور امام شافعی کے مقلدین کو شوافع اور امام احمد بن حنبل کے مقلدین کو حنبلی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کا پیروکار نہ ہو تو وہ غیر مقلد ہے۔
جواب : ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لاناتقلیدِ شخصی کہلاتاہے، مثلاً امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے کسی کے طریقے پر عمل کرنا۔
تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔‘‘
شاه ولی اللہ، عقد الجيد، 1 : 31
اسی طرح تقلید شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4 : 1908، رقم : 4702
جواب : چونکہ عام مسلمان قرآن و حدیث سے احکامِ شرع کے قواعد و ضوابط کو سمجھ کر مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے جمہور اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرعی احکام و مسائل میں مذکورہ ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ جن ائمہ نے ان مسالک کی بنیاد ڈالی وہ اپنے تقویٰ، زہد و ورع، ثقاہت و دیانت، علم و فکر اور کردار کے حوالے سے اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ کی حامل قرون اولیٰ کی معروف ہستیاں ہیں۔ لہٰذا وقت کی سہولت کی خاطر انہوں نے نہایت جانفشانی اور دیانت و لیاقت سے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا۔ شریعت اسلامی کے ایسے اصول و قواعد و ضع کئے جس سے عام مسلمانوں کو دین فہمی اور اس پرعمل پیرا ہونے میں فائدہ ہوا۔
جواب : اسلام کے وہ احکام جو مسلمانوں کے افعال و اعمال سے متعلق ہیں، احکامِ شرعیہ کہلاتے ہیں۔ جیسے فرض، واجب، سنت، مستحب، حلال، حرام، مکروہ اور مباح۔
جواب : فرض وہ حکمِ شرعی ہے جو دلیل قطعی (قرآنی حکم اور حدیث متواتر) سے ثابت ہو یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ یہ وہ بنیادی ارکان ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے اور ادا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ان کو بغیر عُذر ترک کرنے والا فاسق اور سزا کا حقدار ہوتا ہے۔
جواب : واجب وہ حکم شرعی ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو، اور جسے ادا کرنے کا شرع نے لازمی مطالبہ کیا ہو اس کے بجا لانے پر ثواب اور چھوڑنے پر سزا ملتی ہے البتہ فرض کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور واجب کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔
جواب : سنت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا طریقۂ جاریہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول یا فعل سے ثابت ہو جیسے وضو میں بِسم اللہ پڑھنا اور تمام اعضاء کو تین مرتبہ دھونا، اس کے کرنے پر اجر اور نہ کرنے پر ملامت ہے۔
جواب : سنت کی دو اقسام ہیں :
سنتِ مؤکدہ، سنتِ غیر مؤکدہ
جواب : سنتِ مؤکدہ وہ عمل ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دو مرتبہ کے علاوہ ہمیشہ بطورِ عبادت اپنایا ہو اور اس کی اقامت، تکمیلِ دین کی خاطر ہو جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت وغیرہ سنتِ مؤکدہ ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کو ادا کرنے کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔ اس کے ادا کرنے پر اجر ملتا ہے اور بغیر عذر چھوڑ دینے کی عادت قابلِ ملامت و مذمت ہے۔
جواب : سنتِ غیر مؤکدہ سے مراد ایسے امور ہیں جن کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندی نہ کی ہو یعنی کبھی کیا ہو اور کبھی نہ کیا ہو جیسے عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت، ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات کے روزے، وغیرہ۔ سنتِ غیر مؤکدہ کو سنتِ زائدہ بھی کہتے ہیں۔
جواب : مستحب ایسا فعل ہے جس کے کرنے والے کو ثواب ہو گا اور نہ کرنے والے کو گناہ اور عذاب نہیں ہو گا۔ جیسے وضو کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا مستحب ہے۔
جواب : وہ کام جو شرعاً حلال ہو نہ حرام۔ اس فعل کو اپنی مرضی سے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب ہے نہ ثواب اور یہی مباح ہے۔ مثلاً لذیذ کھانے کھانا اور نفیس کپڑے پہننا۔
جواب : حرام وہ شے یا فعل ہے جس سے لازمی طور پر رک جانے کا مطالبہ کیا جائے یا یوں سمجھ لیں کہ جس طرح فرض کا کرنا ضروری ہے اسی طرح حرام کا چھوڑنا ضروری ہے۔ جیسے مردار، خون، خنزیر کا کھانا اور نا حق قتل، بدکاری، سود، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی کرنا، غیبت کرنا اور جھوٹ بولنا وغیرہ سب حرام ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ان کی حرمت دلیلِ قطعی سے ثابت ہے۔ حرام کا چھوڑنا لازمی ہے اور اس کا مرتکب سزا کا مستحق ہوتا ہے جبکہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے اور حرام جانتے ہوئے جو اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق وفاجر ہے۔
جواب : مکروہ وہ شے یا فعل ہے جس کے ترک کرنے کا مطالبہ حتمی اور لازمی طور پر نہ کیا گیا ہو۔ مکروہ کی دو قسمیں ہیں :
1۔ مکروہِ تحریمی
2۔ مکروہِ تنزیہی
جواب : 1) مکروہِ تحریمی : وہ فعل ہے جس سے لازمی طور پر رک جانے کا مطالبہ ہو اور وہ مطالبہ دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ (یہ واجب کے مقابل ہے اور اس کو اپنانے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے)۔ مثلاً نماز وتر کا چھوڑنا، نمازِ وتر چونکہ واجب ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس کو کبھی ترک نہ فرمایا اور اس کے چھوڑنے پر وعید سنائی ہے۔
ألْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوْتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقُّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا.
’’وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
أبوداؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب فيمن لم يوتر، 1 : 527، رقم : 1419
2) مکروہِ تنزیہی : وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے مثلاً محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا، عورت کا بلا اجازتِ خاوند نفلی روزہ رکھنا۔
جواب : عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔
امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں :
العبادةُ أَبْلَغُ مِنْهَا لِأَنَّهَا غَايَةُ التَّذُلَّلِ.
’’عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے۔‘‘
راغب اصفهانی، المفردات : 319
عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے آخری حد کی تعظیم کا اظہار صرف اُسی ہستی کے لئے رَوا ہے جو معبودِ برحق ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تفسیر منہاج القرآن میں عبادت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عبادت، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو۔‘‘
جواب : اسلام کا حقیقی تصور عبادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو برضا و رغبت اس طرح بجا لایا جائے کہ انکار کی مجال نہ رہے۔ عبادت کی اصل روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو حکم بھی دے، اس پر بلاچون و چرا عمل کیا جائے اور یہ حالت پختہ اعتماد اور یقین کے بغیر ممکن نہیں۔
لہٰذا اطاعت و عبادتِ الٰہی کو صرف نماز، روزہ اور دیگر فرائض تک محدود سمجھنا غلط ہے۔ اس کے برعکس حقیقی اور صحیح تصورِ عبادت یہ ہے کہ بندہ جس دن سن بلوغ کو پہنچے اس دن سے لے کر زندگی کے آخری دن تک اس طرح اپنی زندگی گزارے کہ اس کا کوئی کام بھی خلافِ شرع نہ ہو۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کا اپنے بیوی بچوں سے سلوک، اپنے پڑوسیوں، اپنے ماتحتوں، افسروں، مزدوروں اور اپنے سے چھوٹوں اور بڑوں الغرض ہر ذی قرابت اور ذی حق کے ساتھ اس کا سلوک اور معاملہ خدا کے حکم کے مطابق ہو۔ لہٰذا اگر کوئی انسان ذوی الحقوق کے حقوق پورے کرتا ہے تو اس کی زندگی کے شب و روز اور اس کی حیات کا ایک ایک سانس مصروف عبادت ہے۔ اگر کوئی معالج پوری رات یا اس کا کچھ حصہ کسی کراہتے ہوئے مریض کے علاج معالجے کی غرض سے اس کے سرہانے گزار دیتا ہے، تو اس کا یہ عمل بھی عبادت ہے۔
قرآن حکیم نے عبادت کے اس جامع تصور کو یوں بیان کیا ہے :
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَO
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo‘‘
البقرة، 2 : 177
اس آیتِ کریمہ میں پیش کردہ عبادت کا تصور انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا معیشت سے، معاشرت سے ہو یا سیاست سے، حالت جنگ سے ہو یا حالت امن سے، گویا عبادت اطاعتِ الٰہی کی اس کیفیت کا نام ہے جو پوری زندگی کے احوال کو محیط ہوتی ہے۔
جواب : لفظ صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا و استغفار اور رحمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ابن منظور، لسان العرب، 14 : 465، 466
وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ.
’’اور (آپ) ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے۔‘‘
التوبة، 9 : 103
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔‘‘
الأحزاب، 33 : 43
اصطلاحِ شریعت میں صلوٰۃ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بندگی کا وہ پاکیزہ طریقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بامرِ الٰہی جن مخصوص افعال کو مخصوص اوقات میں ادا کرنے کی تلقین کی اسے عام الفاظ میں نماز کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO
’’بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
النساء، 4 : 103
علامہ جزیری صلوٰۃ کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اصطلاح فقہ میں صلوٰۃ ان اقوال و افعال کا مجموعہ ہے جو تکبیرِ تحریمہ سے شروع اور سلام پر ختم ہوتا ہے۔‘‘
جزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 279
جواب : نماز ہر مسلمان، عاقل، بالغ پر خواہ مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، تندرست ہو یا مریض، مقیم ہو یا مسافر، دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔
جواب : نماز کی چار اقسام ہیں :
1۔ فرض 2۔ واجب 3۔ سنت 4۔ نفل
1۔ فرض : دن میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں : فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء، یہ نمازیں ہجرت سے پہلے معراج کی رات مسلمانوں پر فرض ہوئیں۔ ان کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے جو شخص ان کی فرضیت کا انکار کرے وہ بالاتفاق مرتد ہے، علاوہ ازیں جمعہ کی نماز مردوں پر فرض ہے جبکہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔
2۔ واجب : عیدین کی نمازیں واجب ہیں۔ علاوہ ازیں عشاء کے وقت تین وتر واجب ہیں۔
3۔ سنت : سنت نمازوں میں نمازِ تراویح اور دن میں فرض نمازِ پنجگانہ کے ساتھ ادا کی جانے والی سنن شامل ہیں۔
4۔ نفل نماز : تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح، صلوٰۃ الخوف، صلوٰۃ الحاجۃ وغیرہ نفل نمازیں ہیں۔
جواب : حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق دس سال کی عمر میں نماز فرض ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو انہیں سختی سے نماز پڑھاؤ اور سونے کے لئے ان کے بستر علیحدہ کر دو۔‘‘
أبو داؤد، السنن، کتاب الصّلوٰة، باب متی يؤمر الغلام بالصلاة، 1 : 197، رقم : 495
جواب : ادائیگی نماز میں خواتین کے مخصوص مسائل درج ذیل ہیں :
i۔ حیض و نفاس کی حالت میں خواتین کا نماز پڑھنا حرام ہے۔ ان دنوں کی نمازیں معاف ہیں اور ان کی قضا بھی نہیں (فتاویٰ عالمگیری)
ii۔ استحاضہ کی حالت میں خواتین کو نماز اور روزہ معاف نہیں (استحاضہ سے مراد وہ خون ہے جو حیض و نفاس کے علاوہ بوجہ بیماری ہو)۔
iii۔ استحاضہ اگر اس حد تک پہنچ جائے کہ اتنی مہلت نہیں ملتی کہ وضو کرکے فرض نمازادا کرسکے تو نماز کے پورے ایک وقت شروع ہونے سے آخر تک اسی حالت میں گزر جانے پر اس کو معذور سمجھا جائے گا، اسی حالت میں وضو کر کے ایک وقت کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور دوسری نماز کا وقت شروع ہو جائے تو پھر دوبارہ وضو کر لینا چاہیے۔
iv۔ اگر عورت نے اتنا باریک دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھی جس سے بالوں کی سیاہی چمکے تو اس حالت میں بھی اس کی نماز نہیں ہو گی۔
v۔ اکثر خواتین شبِ قدر یا رمضان کے آخری عشرے میں قضائے عمری کے نام سے دو یا چار نفل ادا کرتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ عمر بھر کی نمازوں کی قضا کے لئے کافی ہے تو یہ بالکل غلط اور باطل خیال ہے۔
vi۔ اکثر عورتیں بلا عذر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی بجائے فرض و واجب اور سنت و نفل تمام نمازیں بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے نفل کے سوا کوئی نماز بھی بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں۔
جواب : نماز پڑھنے اور قائم کرنے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن حکیم میں صرف نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ بالتاکید نماز قائم کرنے پر اصرار ہے کیونکہ اگر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی میں ایک آدھ بار نماز کا ادا کر لینا ہی کافی ہوتا جبکہ قرآن حکیم میں متعدد حکمتوں کی بناء پر نماز قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے مثلاً
اولاً : اقامت صلوٰۃ کے حکم میں مداومت کا پہلو مضمر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس طرح ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی باقی نہ رہے۔ قرآن حکیم اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَo
’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اللہ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کروo‘‘
البقرة، 2 : 238
نماز کی مداومت اور محافظت سے مراد یہ ہے کہ نماز اس طرح پوری زندگی کا مستقل وظیفہ اور شعار بن جائے جس طرح شبانہ روز مصروفیات میں آرام نہ کرنے اور کھانا نہ کھانے کا تصور محال ہے اس طرح ترکِ نماز کا تصور بھی خارج از امکان ہو جائے۔
ثانیاً : اقامت صلوٰۃ کے حکم کا معنی یہ ہے کہ نماز کو تمام تر ظاہری اور باطنی آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کیا جائے کیونکہ صرف ظاہری آداب سے نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن باطنی آداب کی عدم موجودگی سے نماز کے مطلوبہ اثرات انسانی زندگی پر مرتب نہیں ہو پائیں گے۔
ثالثاً : نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ پورے معاشرے میں نظام صلوٰۃ برپا ہو جائے اور اس کے ذریعے ہر شعبہ زندگی کو ایسے ہمہ گیر انقلاب سے آشنا کیا جائے کہ معاشرے کی ہمہ جہت ترقی، اصلاح احوال اور فلاح دارین کے مقاصد پورے ہوتے رہیں۔
جواب : نماز کو مومن کی معراج اس لیے کہا جاتا ہے کہ حقیقی کیف و سرور اور روحانی لذت کے حصول اور قربِ الٰہی پانے کا نماز سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ جملہ عبادات میں تنہا نماز ہی ایسا عمل ہے جسے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ ایمان کی معراج قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الصَّلٰوةُ هِيَ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ.
’’نماز ہی مومن کی معراج ہے۔‘‘
سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 313، رقم : 4239
جواب : نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔
إبراهيم انيس، المعجم الوسيط، 1 : 396
زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o‘‘
الشمس، 91 : 9
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔
اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
التوبه، 9 : 103
جواب : زکوٰۃ کے نصاب کی کم از کم مقدار ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر ہے جو سال کے جمع شدہ مال پر اڑھائی فیصد کی شرح سے مقرر کی گئی ہے۔ یہ مال کی کم سے کم مقدار ہے جس پر زکوٰۃ کی فرضیت عائد ہوتی ہے۔ اس سے انکار انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے اور اس سے پہلو تہی مسلمان کے ایمان و اسلام کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔
1. شرنبلالی، نور الإيضاح، 1 : 147
2. زحيلی، الفقه الاسلامی و ادلته، 2 : 733
3. جزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 1 : 958
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَاٰتُوا الزَّکٰوة.
’’اور زکوٰۃ دیا کرو۔‘‘
البقره، 2 : 43
وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُ الزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ.
’’اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 277
جواب : مصارف مصرف کی جمع ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ سے مراد وہ مدّات ہیں جن پر مالِ زکوٰۃ خرچ کیا جاسکتا ہے، جیسے فقیر، مسکین، قرضدار اور مسافر طالب علم وغیرہ۔ قرآن حکیم میں درج ذیل آٹھ مصارفِ زکوٰۃ بیان ہوئے ہیں :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
’’بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)، یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo‘‘
التوبه، 9 : 60
جواب : زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ مسلمان ہونا : زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے، کافر اور مرتد پر نہیں۔
2۔ بالغ ہونا : زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔
3۔ عاقل ہونا : زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
4۔ آزاد ہونا : زکوٰۃ آزاد و خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔
5۔ مالک نصاب ہونا : شریعت کے مقرر کردہ نصاب سے کم مال کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
6۔ مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا : مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا اور پھر برسوں بعد وہ جگہ یاد آئی اور مال مل گیا، تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ وہ اس عرصہ میں نصاب کا مالک تو تھا مگر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے پورے طور پر مالک نہ تھا۔
7۔ صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا : مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
8۔ نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا : حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن، وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔
9۔ مالِ نامی ہونا : یعنی مال بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا مال ہو جیسے مال تجارت اور چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی۔ یہ ایسا مال ہے جس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے بدلے دیگر اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو خواہ زیورات اور برتنوں کی شکل میں ہو یا زمین میں دفن ہو ہر حال میں یہ مالِ نامی یعنی بڑھنے والا مال ہے اور ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔
10۔ مالِ نصاب کی مدت : نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالی جائے گی۔
1. شرنبلالی، نورالايضاح، 146
2. سرخسی، المبسوط، 2 : 172
جواب : جب سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون (52) تولے ہو تو سونا اور چاندی میں چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد کے حساب سے نکال کر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہو جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سونے کی زکوٰۃ میں سونا اور چاندی کی زکوٰۃ میں چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ سونے چاندی کی قیمت لگا کر اتنی رقم زکوٰۃ کے طور پر دے دی جائے۔
1. مرغينانی، بداية المبتدی، 1 : 25
2. زحيلی، الفقه الاسلامی وادلته، 2 : 767
3. حصکفی، الدرالمختار، 1 : 134
جواب : جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکہ سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اُسے ان کا مالک بنا دیا ہو۔ تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کے لئے تو دیا ہو لیکن مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں ہے۔
فتاویٰ رضويه، جلد : 4
جواب : انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے : ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو۔ سورۃ الحدید میں بالخصوص انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌO
’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔‘‘
الحديد، 57 : 7
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو زمین و آسمان کی میراث کا مالک قرار دے کر بڑے عمدہ انداز میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلِلّٰهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔‘‘
الحديد، 57 : 10
بعض لوگ اپنے مال میں کمی کے اندیشہ کے پیش نظر خرچ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی اچھی تمثیل کے ذریعے انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی بارگاہ میں قرض حسنہ قرار دیا ہے۔
کہ جو مجھے قرض دے گا میں اس کی بہترین جزا دیتا ہوں، ارشاد فرمایا :
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَO
’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگےo‘‘
البقره، 2 : 245
لہٰذا رضا الٰہی کی خاطر اس کے ضرورتمند بندوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔ جو بڑے اجر کا باعث عمل خیر ہے۔
جواب : وجوب اور عدم وجوب کے لحاظ سے صدقہ کی دو قسمیں ہیں :
1۔ صدقہ واجبہ
2۔ صدقہ نافلہ
صدقہ واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جن کا ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر بطورِ فرض لازم ہے مثلاً زکوٰۃ، صدقہ فطر، عشر وغیرہ۔
1۔ قرآن حکیم میں زکوٰۃ کی اہمیت ان الفاظ سے بیان کی گئی ہے۔
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَO
’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo‘‘
اعراف، 7 : 156
2۔ زکوۃ کی طرح صدقہ فطر بھی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے جس کی اہمیت احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
أنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَرَضَ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، أَوْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، صَغِيْرٍ أَوْ کَبِيْرٍ، صَاعًا مِنْ تَمَرٍ، اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب : زکوة الفطر علی المسلمين من التمر والشعيرِ، 2 : 678، رقم : 984
زکوۃ کی ادائیگی کے لئے سال بھر نصاب کا باقی رہنا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن نصاب زکوۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔
3۔ اسی طرح زمین سے جو بھی پیداوار ہو گیہوں، جو، چنا، باجرا، دھان وغیرہ ہر قسم کے اناج، گنا، روئی ہر قسم کی ترکاریاں، پھول، پھل میوے سب پر عشر واجب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس زمین کو آسمان یا چشموں نے سیراب کیا یا زمین عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کیا جاتا ہو اس پر عشر (یعنی پیداوار کا دسواں حصہ) اور جس زمین کو سیراب کرنے کے لئے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہیں۔ اس میں نصف عشر (یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ) ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرے وہ نفلی صدقہ میں شمار ہو گا۔ پس جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا آخرت میں اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
البقرة، 2 : 261
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، 2 : 514، رقم : 1351
قرآن حکیم اور احادیث میں صدقات واجبہ کے علاوہ بھی بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
جواب : اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
الاعراف، 7 : 31
فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا :
وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًاO
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑےo‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 29
علاوہ ازیں کھانے کے لیے سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، مردوں کیلئے ریشمی کپڑے، شادی بیاہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں اور جن کی مذمت ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔
جواب : عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔ خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ جبکہ شکر کے معانی عربی لغت میں اظہارِ احسان مندی، جذبہ سپاس گزاری کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر کا تانا بانا استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے۔ اس وصف کو قائم رکھنا ہی صبر ہے۔ مسلمان کی پوری زندگی صبر و شکر سے عبارت ہے۔ دین اسلام کی ہر بات صبر و شکر کے دائرے میں آجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَO
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔‘‘
القصص، 28 : 54
اللہ تعالیٰ نے دیگر نیک اعمال کے مقابلہ میں صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍO
’’(محبوب میری طرف سے) فرما دیجئے : اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گاo‘‘
الزمر، 39 : 10
شکر اخلاق، اعمال اور عبادات کا بنیادی جزو ہے۔ جذبۂ شکر کے بغیر تمام اعمال و عبادات بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
مَّا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِيمًاO
’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہےo‘‘
النساء، 4 : 147
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ شکر کو ملا کر ذکر کیا اور ان دونوں کو رفع عذاب کا باعث قرار دیا۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘
البقره، 2 : 152
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا.
’’کہا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب صفة القيامة و الجنة و النار، باب : اکثار الاعمال و الاجتهاد فی العبادة، 4 : 2172، رقم : 2825
گویا پتہ چلا کہ صبر و شکر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ملا دیا اور قرآن حکیم میں دونوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍO
’’تو وہ کہنے لگے : اے ہمارے رب! ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں(عِبرت کے) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے منتشر کر دیا۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیںo‘‘
السباء، 34 : 19
حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الشکر نصف الايمان والصبر نصف الايمان و اليقين الايمان کله.
’’صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 4 : 109، رقم : 4448
یعنی یقین دونوں کی اصل ہے اور یہ دونوں اس کے پھل ہیں۔
جواب : صوم کا لغوی معنی کسی چیز سے رُکنا اور کسی چیز کو چھوڑ دینا ہے اور روزہ دار وہ ہے جو اپنے آپ کو کھانے، پینے اور عمل مباشرت سے روکے۔
لسان العرب، 12 : 351
جبکہ اصطلاحِ شریعت میں مسلمان کا بہ نیتِ عبادت طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرنا اور عملِ مباشرت سے رکے رہنا روزہ کہلاتا ہے۔
جواب : روزہ کی فرضیت کی شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ مسلمان ہونا
2۔ بالغ ہونا
3۔ مقیم ہونا
4۔ عاقل ہونا
5۔ تندرست ہونا
6۔ عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا
جواب : روزے کی فضیلت و اہمیت دیگر عبادات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور بے حساب ہے اس طرح ہے کہ انسان کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے جبکہ روزہ کا اجر خود اللہتعالیٰ عطا کرے گا۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ.
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول انی صائم اذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805.
روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ کئی خوشیاں بھی ملیں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم،
2 : 673، رقم : 1805
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب : فضل الصيام، 2 : 807، رقم : 1151
جواب : بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ رکھنا یا رکھ کر توڑ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کی قضا بہر صورت واجب ہے۔ قصدًا بلاوجہ روزہ رکھ کر توڑنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ بطورِ کفارہ ایک روزہ کے بدلے میں مسلسل دو ماہ یعنی 60 دن کے روزے رکھنا ضروری ہیں، جیسا کہ حدیث نبوی میں مذکور ہے۔ جبکہ بلا عذر شرعی رمضان شریف کا ایک روزہ اگر چھوڑ دیا جائے تو یہ بہت بڑے اجر سے محرومی کا باعث ہے جس کا ازالہ عمر بھر کے روزے بھی نہیں کرسکتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مِن أفطَرَ يَوْمًا من رَمَضانَ، من غَيْرِ رُخْصَة وَلا مَرضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّهِ، وَ إنْ صَامهُ.
’’جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصوم عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب ماجاء في الإفطَارِ مُتَعَمِّدًا 2 : 93، رقم : 723
جواب : کتب فقہ میں روزہ کی 8 اَقسام بیان ہوئی ہیں :
1۔ فرضِ معیّن (ماہ رمضان کے روزے)
2۔ فرضِ غیر معیّن (ماہ رمضان کے قضا شدہ روزے)
3۔ واجب معیّن (کسی خاص دن یا تاریخ میں روزہ رکھنے کی منت مانیں تو اسی دن یا تاریخ کو روزہ رکھنا واجب ہے)
4۔ واجب غیر معیّن (کفارے کے روزے، نذرِ غیر معین کے روزے اور توڑے ہوئے نفلی روزوں کی قضا)
5۔ سنت (محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کے روزے، عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ اور ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے)
6۔ نفل (ماہ شوال کے چھ روزے، ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا روزہ، سوموار، جمعرات اور جمعہ کا روزہ)
7۔ مکروہ تنزیہی (محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ، صرف ہفتہ کے دن کا روزہ رکھنا، عورت کا بلااجازتِ خاوند نفلی روزہ) رکھنا
8۔ مکروہ تحریمی (عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے دو روزے اور ایّامِ تشریق یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کے روزے)۔
1. شرنبلالی، نور الإيضاح، 129
2. زحيلی، الفقه الإسلامی و ادلته، 2 : 578
3. زين بن ابراهيم، البحر الرائق، 2 : 277
جواب : درج ذیل صورتوں میں رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے :
بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے، ہلاک ہونے کا ڈر، ایامِ حمل میں اور بچے کو دودھ پلانے کی حالت میں، دیوانگی کی حالت میں اور جہاد کے دوران۔ یہ سب ایسے عذر ہیں کہ اگر ان کی وجہ سے کوئی روزہ نہ رکھے تو گنہگار نہیں لیکن بعد میں جب بھی یہ عذر ختم ہو جائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرنا لازم ہے۔
جواب : رمضان المبارک میں خواتین کے مسائل درج ذیل ہیں :
i۔ اگر کوئی عورت حالتِ حیض یا نفاس میں ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا منع ہے۔
ii۔ حمل والی خواتین کو اگر اپنی جان یا بچے کے ہلاک ہونے کا ڈر ہو تو ایسی صورت میں بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔
iii۔ اگر دودھ پلانے والی عورت کو دودھ کے سوکھ جانے کا ڈر ہو تو ایسی حالت میں بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ خواہ دودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی اگرچہ رمضان میں معاوضہ لے کر کسی بچے کو پلاتی ہو۔
نوٹ : مذکورہ بالا تین حالتوں میں روزہ نہ رکھنے سے خواتین گناہگار نہیں ہوں گی بلکہ عذر ختم ہو جانے کے بعد صرف ان چھوڑے ہوئے روزوں کا رکھنا ان پر فرض ہے۔
جواب : لغوی رُو سے حج کا معنی قصد کرنا، زیارت کا ارادہ کرنا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں مخصوص اوقات میں خاص طریقوں سے ضروری عبادات اور مناسک کی بجاآوری کے لئے بیت اللہ کا قصد کرنا، کعبہ اللہ کا طواف کرنا اور میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کہلاتا ہے۔
جواب : ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر خواہ مرد ہو یا عورت، زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَِللهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلاً.
’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
آل عمران، 3 : 97
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
أيُّهَا النَّاسُ! قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا.
’’اے لوگو! تم پر حج فرض قرار دیا گیا ہے لہٰذا حج کیا کرو۔‘‘
اس پر ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر خاموش رہے یہاں تک کہ اس صحابی نے یہ سوال تین بار دہرایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ.
’’اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا اور تم سے یہ نہ ہو سکتا۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة فی العمر، 2 : 975، رقم : 1337
لہٰذا حج، عمر بھر میں ایک بار فرض ہے۔
جواب : حج کے چھ فرائض ہیں جو درج ذیل ہیں :
1۔ اِحرام باندھنا : یہ شرط ہے۔
2۔ وقوفِ عرفہ : یعنی نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے کسی وقت مقامِ ’’عرفات‘‘ میں ٹھہرنا۔
3۔ طوافِ زیارت : طواف کے سات پھیروں میں سے کم از کم چار پھیرے مکمل کرنا۔ یہ دونوں چیزیں یعنی وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت حج کے رکن ہیں۔
4۔ نیت : حج کے لیے نیت کرنا ضروری ہے۔
5۔ ترتیب : یعنی پہلے احرام باندھنا پھر عرفہ میں ٹھہرنا پھر طواف زیارت، ہر فرض کا بالترتیب اپنے وقت پر ادا کرنا۔
6۔ مکان : یعنی وقوف عرفہ، میدانِ عرفات میں نویں ذی الحجہ کو ٹھہرنا سوائے بطنِ عرفہ کے (یہ عرفات میں حرم کے نالوں میں سے ایک نالہ ہے جو مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف واقع ہے۔ یہاں وقوف جائز نہیں) اور مسجد الحرام کا طواف کرنا۔
جواب : حج کے واجب ہونے کی شرائط مقرر ہیں۔ اگر وہ شرائط پائی جائیں توحج واجب ہوگا، بصورت دیگر نہیں۔ وجوبِ حج کی شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ مسلمان ہونا
2۔ بالغ ہونا
3۔ عقلمند ہونا
4۔ آزاد ہونا
5۔ تندرست ہونا
6۔ دورانِ سفر اخراجات کرنے کی قوت میسر ہونا
7۔ راستے میں امن و امان ہونا
8۔ جان کا خوف نہ ہونا
9۔ عورت کا حالت عدت میں نہ ہونا
10۔ عورت کے لئے شوہر یا محرم کا ساتھ ہونا۔
1. کاسانی، بداء الصنائع فی ترتيب
الشرائع، 2 : 125
2. محمد امين، حاشيه ابن عابدين، 2 : 153
3. فتاوی عالمگيری، 2 : 44
جواب : حج کے مقررہ دنوں کے علاوہ احرام باندھ کر کعبہ کے طواف اور صفا مروہ میں سعی کرنے کو عمرہ کہتے ہیں۔ اس کے ادا کرنے کے بعد سر منڈوا کر یا بال کتروا کر احرام کھول دیا جاتا ہے۔ عمرہ سنت ہے، واجب نہیں اور سال میں کئی بار ہو سکتا ہے۔
جواب : عمرہ کے دو فرائض ہیں :
1۔ احرام
2۔ کعبہ کاطواف
جبکہ واجبات بھی دو ہی ہیں :
1۔ صفا و مروہ کا طواف کرنا
2۔ سر منڈوانا یا بال کترانا
جواب : ’’بالکل نہیں حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے عورت کے ہمراہ شوہر یا محرم کا ہونا شرط ہے خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَحِلُّ لِامْرَة، تُؤْمِنُ بِاللهِ والْيَوْمِ الآخِرِ، أنْ تُسَافِرَ مَسِيْرَة يَوْمٍ وَ لَيْلَة لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَة.
بخاری، الصحيح، أبواب تقصير الصلة، 1، 369، رقم : 1038
’’کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتی ہو کہ ایک دن کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو۔‘‘
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لئے اس عورت کا نکاح حرام ہے خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو جیسے باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو جیسے رضاعی بھائی، باپ، بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی جیسے خسر، شوہر کا بیٹا، شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کرسکتی ہے لیکن اس کا عاقل بالغ اور غیر فاسق ہونا شرط ہے۔ مجنون یا نابالغ یا فاسق کے ساتھ بھی عورت سفر پر نہیں جاسکتی۔
جواب : اسلام میں دعوت و تبلیغ فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لئے لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا فرض قرار دیا ہے :
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ.
’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں کی (رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آل عمران، 3 : 110
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی تبلیغ اور دعوتِ اسلام میں گزری۔ قرآنِ حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ کے عملی مراحل اور اصول سکھاتے ہوئے فرمایا :
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَة وَالْمَوْعِظَة الْحَسَنَة وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ.
’’(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
النحل، 16 : 125
جواب : دین اسلام میں کسی قسم کے جبر، سختی اور تنگی کا کوئی تصور نہیں کیونکہ ہر شخص کو شعور کی دولت سے نواز کر یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھتے ہوئے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کرے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘
البقره، 2 : 256
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا :
وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِo
’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئےo‘‘
البلد، 90 : 10
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی زندگی کا راستہ منتخب کرنے کے لئے واضح رہنمائی عطا کر دی ہے۔ لہٰذا کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ جبر و زیادتی سے اپنا راستہ اور طریقِ زندگی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرے، ہاں البتہ حکمت، تبلیغ اور تلقین سے کسی کو قائل کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
جواب : اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابی ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا :
أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟
’’تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا؟‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن
قال لا إله إلا اللہ، 1 : 96، رقم : 96
2. ابو داؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب علی ما يقاتل المشرکون، 3 : 393، رقم : 2643
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
جواب : جو شخص کفر و شرک چھوڑ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے حالتِ کفر میں سرزد ہونے والے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ علامہ یحییٰ بن شرف نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’قرآنِ مجید اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ جو شخص مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
نووی، شرح صحيح مسلم، 2 : 136
اس کی وضاحت اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
’’اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے تمام گناہ مٹا دیتا ہے؟‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الاسلام يهدم ما قبله، 1 : 112، رقم : 121
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین میں سے بعض لوگ کثرت سے بدکاری و شراب نوشی اور دیگر کبیرہ گناہوں میں ملوث تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : آپ ہمیں جس دین کی دعوت دیتے ہیں وہ بہترین دین ہے لیکن کیا اسلام قبول کرنے سے ہمارے (سابقہ) گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُO
’’آپ فرما دیجئے : اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الزمر، 39 : 53
مذکورہ حدیث میں صراحت کے ساتھ قبولِ اسلام سے پہلے کیے گئے برے اعمال کی معافی کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف حالتِ کفر میں کیے گئے نیک اعمال کی وضاحت یوں کرتی ہے :
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : کیا مجھے ان نیکیوں پر اجر ملے گا جو میں نے زمانۂ جاہلیت میں کی تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’زمانہ جاہلیت میں جن نیکیوں کی تم نے عادت ڈالی تھی، وہ عادت اسلام میں بھی باقی رہے گی۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعده، 1 : 113، رقم : 123
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے اسی سوال پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’سابقہ نیکیوں ہی کی بدولت تم کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الزکة، باب من تصدق فی الشرک ثم اسلم،
2 : 521، رقم : 1369
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر اذا أسلم بعده، 1 : 114، رقم
: 123
ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص ظاہراً اور باطناً مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے برے کاموں پر مواخذہ نہیں ہو گا اور سابقہ نیک کاموں کی بدولت وہ آئندہ زندگی میں بھی اچھے اعمال جاری رکھے گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved