اس لانگ مارچ کے متعدد ثمرات و نتائج میں ایک بڑا تاریخی اور قابلِ تحسین ثمر۔ جو اس قوم کو ملا وہ۔ اس لانگ مارچ کے اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے نمائندوںکے ساتھ حکومتی سطح پہ ہونے والامعاہدہ ہے جسے ’اسلام آبادلانگ مارچ ڈکلیریشن‘ کا نام دیا گیا۔
ذیل میں ’اسلام آبادلانگ مارچ ڈکلیریشن‘ کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے، تاکہ بعد ازاں اس کے مشتملات کا نکات وار تجزیہ کیا جاسکے۔
a۔ آئین کی شق 62، 63 اور 218 (3)
b۔ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن 77 تا 82 اور دوسرے سیکشنز جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایمان دارانہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوان معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں۔
c۔ سپریم کورٹ کی 2011ء کی قانونی درخواست پر 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر اصل روح کے مطابق من و عن عمل درآمد کروایا جائے گا۔
اس اِعلامیے پر خوش اسلوبی اور مفاہمت کی رُو سے عمل درآمد کیا جائے گا۔‘‘
ذیل میں اس تاریخی اِعلامیہ کے مشتملات کا نکات وار جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد لانگ مارچ ڈکلیریشن میں طے کیے گئے نکات میں سے ایک اہم نکتہ یہ کہ اس اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر انتخابات کے انعقادکو ممکن بنایا جائے گا۔ اس سے قبل حکومتی اتحاد اور حزبِ اِختلاف میں اس بات پر مک مکا ہوچکا تھا کہ انتخابات کے لیے لگ بھگ 45 دن ہی دیے جائیں تاکہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے لیے کسی قسم کی اصلاحات کے نفاذ یا امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال ہی ممکن نہ ہو اور یہی لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے دوبارہ ایوان ہاے اِقتدار میں پہنچ جائیں۔ اب لانگ مارچ اعلامیہ کے نتیجے میں یہ طے پایا ہے کہ قومی اسمبلی کو مقررہ وقت سے قبل تحلیل کر دیا جائے گا تاکہ نگران حکومتوں کو 90 دن ملیں اور اصلاحات کے مؤثر نفاذ کے لیے مناسب وقت میسر آئے۔
ایک انقلابی اور اہم فیصلہ جو اس معاہدے کے مطابق کیا گیاوہ یہ ہے کہ کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے سات دن کی بجائے ایک ما ہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی اہلیت کا تعین کر سکے۔ کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اس وقت تک اجازت نہیں دی جائے گی جب تک اس کی مکمل چھان بین نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن اجازت نہیں دے دیتا۔ اِس طرح کسی بھی شخص کو باقاعدہ امیدوار بننے اور انتخابی مہم کے آغاز سے قبل الیکشن کمیشن سے clearance لینا پڑے گی۔ اس طرح کرپٹ، ٹیکس چور، نادہندگان اور دیگر ایسے عناصر کے امیدوار بننے کا راستہ رک جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے اس سے قبل کاغذات کی جانچ پڑتال اور امیدواروں کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے جو مدت قانون میں موجود تھی وہ اتنی کم تھی کہ اس میں تو کسی امیدوار کے بارے میں ابتدائی معلومات کی درستگی کا فیصلہ کرنا بھی ممکن نہیں تھا چہ جائیکہ عوامی سطح پہ اس کے بارے میں پیش کی جانے والی شکایات کا جائزہ لینے، ان کی صداقت معلوم کرنے اور امیدوار کے خلاف کسی بھی نوعیت کے الزامات موجود ہونے کی صورت میں ان الزامات کو جانچنے، پرکھنے اور اس کے نتیجے میں امیدوار کو ملزم، مجرم یا بے گناہ قرار دینے کا کوئی فیصلہ ہوسکے۔ مزید برآں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں جن بنیادی شرائط و ضوابط کا تذکرہ کیا گیا ہے کسی بھی امیدوار کے لیے الیکشن لڑنے سے پہلے انہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ان کے بارے میں اتنے کم وقت میں جبکہ ان دنوں میں الیکشن کمیشن پرکام کا بوجھ بھی حد سے بڑھا ہوا ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ اب اس ڈکلیریشن میں اس مدت کا اضافہ دنوں سے بڑھا کر ایک ماہ تک کر دیا گیا ہے۔ اب سول سوسائٹی اور معاشرے کے وہ طبقات جو حقیقتاً یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں شفاف انتخاب ہوں اور ان انتخابات کے نتیجے میں ایسے لوگ برسر اقتدار آئیں جو اہلیت کے حامل ہوں، باکردار ہوں، آئینی تقاضے پورے کرتے ہوں اور منتخب ہونے کے بعد عوامی امنگوں کے مطابق پارلیمان میں اپنا کردار ادا کر نے کے اہل بھی ہوں ان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اس وقت کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن، متعلقہ اداروں اور خود سیاسی جماعتوں کی معاونت کریں کہ کوئی بھی نااہل امیدوار آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی چھلنی سے گزرے بغیر انتخاب لڑنے کے لیے آگے نہ آسکے۔
یہ لانگ مارچ ڈکلیریشن کی کام یابی کا ثبوت ہے کہ مؤرّخہ 23 جنوری 2013ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے معاہدے کی پاس داری کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے لیے 30 روزہ اسکروٹنی کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جعلی ڈگری والے، ٹیکس چور، یوٹیلٹی بلز کے ڈیفالٹر اور جعل سازی میں ملوث افراد آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ اِسلام آباد لانگ مارچ ڈکلیریشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے یہ بھی طے کیا ہے کہ اس مقصد کے لیے مختلف سرکاری اداروں بشمول ایف بی آر (FBR)، ایف آئی اے (FIA)، نیب (NAB)، ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)، صوبائی پولیس اور انسداد بدعنوانی کے محکمے، بجلی اور گیس کے محکمے، اسٹیٹ بینک، ایکسائز، ٹیکس ڈپارٹمنٹ وغیرہ سے خط و کتابت کرکے ان سے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کی کلیئرنس لی جائے گی۔
اس ڈکلیریشن میں کچھ اور مزید اقدامات پر بھی اتفاق رائے کیا گیا جو انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے نہ صرف ممد و معاون ثابت ہوں گے بلکہ انتخابات کے شفاف ہونے کو یقینی بنائیں گے۔ انتخابی اصلاحات کے بارے میں اعلامیے میں اتفاق کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے آئین کی 62، 63 اور 218 (3) پر عمل درآمد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل 77 تا 82 اور دوسرے آرٹیکلز۔ جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایمان دارانہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوانانی کے معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں۔ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا ذکر بھی اس اعلامیے میں کیا گیاہے۔
وہ تمام اقدامات جنہیں اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کا حصہ بنایا گیا ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ آنے والے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنایا جاسکے اور ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان ایسے اراکین پر مشتمل ہو جو آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اور آئینی معیارات پر پورا اترنے والے ہوں۔ یہ لانگ مارچ کی تاریخی کامیابی ہے کہ لانگ مارچ اعلامیہ کے ان اقدامات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اہمیت دی اور اس کی شقوں پر مشتمل موجودہ قوانین کی تبدیلی کے لیے تیاریاں شروع کر دیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کے لیے ایک مسودہ بھی منظور کیا ہے جس میں عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء میں مختلف تبدیلیاں تجویز کی ہیں تاکہ الیکشن کا عمل شفاف طریقے سے انجام دینے کے لیے کمیشن کو بااختیار بنایا جاسکے۔ اس کے تحت الیکشن کمیشن نے یہ طے کیا ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسرز کو امیدواروں کی چھان بین کے لیے مختلف ایجنسیوں سے براہِ راست رابطے کا اختیار ہوگا کیونکہ اس سے پہلے ماضی میں ریٹرننگ افسران اسی وقت کسی بات کو چیک کرتے تھے جب اعتراضات سامنے آتے تھے۔ اس نئے قانون کے بعد امیدواروں کی ابتدائی فہرست مکمل ہونے کے بعد متعلقہ ریٹرننگ افسر کسی بھی طرح کا اعتراض اٹھائے جانے سے پہلے ہی تمام تر متعلقہ دستاویزات یعنی ٹیکس کی ادائیگی، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور پراپرٹی وغیرہ کی تفصیلات کے ہمراہ متعلقہ اداروں کو زیر التوا کیسز کی تصدیق کے لیے بجھوا دے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس مجوزہ مسودہ میں اسکروٹنی کا عرصہ بھی سات روز سے بڑھا کر تیس روز کرنے کی تجویز شامل کر لی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ کسی امیدوار نے گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی انکم ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کروایا تو وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔ ایک رپورٹ کی مطابق موجودہ پارلیمان کے ستر فیصد اراکین نے انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسی طرح 2008ء سے 2013ء کے درمیان جو امیدوار رکن اسمبلی رہے اور ان کی ڈگریاں جعلی پائی گئیں یا ان کی تصدیق نہ ہوسکی اس کی تفصیل ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) سے معلوم کی جائے گی؛ اور اسی طرح وہ امیدوار جو 2008ء سے 2013ء کے درمیان رکن رہے مگر انہوں نے دوہری شہریت کے حوالے سے جھوٹے بیانات دیے وہ بھی اس انتخاب کے لیے نااہل قرار پائیں گے۔
اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کے مطابق آزادانہ، غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل نمبر 77 تا 82 اور دیگر آرٹیکلز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا تاکہ انتخابات میں بدعنوان سرگرمیوں (corrupt practices) اور کرپٹ عناصر کا سدباب کیا جاسکے۔ عوامی نمائندی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل نمبر 78 کے مطابق اگر کوئی شخص رشوت ستانی، بہروپ بدلنے یا ناجائز اثر و رسوخ استعمال کرے؛ جھوٹا بیان دے یا شائع کرے یا کسی مخصوص مواد، مسوّدے یا دستاویز میں غلط یا جھوٹا بیان شامل کرے؛ کسی امیدوار یا اس کے کسی رشتہ دار کی کردارکشی کرے تاکہ اس کے انتخابی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں یا جس سے کسی اور امیدوار کی شہرت اور انتخاب میں کامیابی مقصود ہو؛ یا امیدوار کی تعلیمی قابلیت، اس کے اثاثہ جات اور مالی واجبات یا قرض کی ادائیگی کے بارے میں غلط بیانی کرے تو یہ بدعنوانی کا ارتکاب ہوگا۔
آرٹیکل نمبر 78 کے مطابق یہ بھی بدعنوانی کا ارتکاب ہوگا کہ اگر کسی امیدوار کے مذہب، صوبے، طبقے، قبیلے، نسل، ذات ، برادری یا مذہبی فرقے کی بنیاد پر کسی شخص کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے کے لیے کہے یا اسے قائل کرے؛ یا کسی امیدوار کی دانستہ حمایت یا مخالفت کرے، اپنی ذات یا اپنے بیوی بچوں کے سوا، کسی ووٹر کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے اور واپس لانے کے لیے ذرائع نقل و حرکت، کوئی موٹر گاڑی یا کشتی، کرائے پر دے یا لے یا اُجرتاً یا عاریتاً حاصل کرے؛ یا کسی بھی شخص کو پولنگ اسٹیشن سے بغیر اپنا ووٹ دیے چلے جانے کی وجہ بن جائے یا ایسی کوشش کرے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل نمبر 79 کے مطابق اگر کوئی شخص، بلاواسطہ یا بالواسطہ، خود یا اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے، امیدوار بننے یا امیدوار نہ بننے یا انتخابات میں حصہ نہ لینے کے لیے اپنے کاغذات واپس لینے کے عوض کوئی فائدہ، سہولت یا معاوضہ حاصل کرے یا لینے پر آمادگی ظاہر کرے، یا اس کے لیے معاہدہ کرے؛ یا کوئی فائدہ، سہولت یا معاوضہ فراہم کرے یا اس کی پیشکش کرے یا اس کا وعدہ کرے تو یہ رشوت ستانی کا ارتکاب ہوگا۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کا آرٹیکل نمبر 80 کسی فوت شدہ یا دوسرے شخص کا روپ دھارنے سے متعلق ہے اور یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کا آرٹیکل نمبر 81 ناجائز اثر و رسوخ کے استعمال سے متعلق ہے۔ اس کی رُو سے اگر کوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی کو حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے پر اکسانے یا مجبور کرنے کے لیے، یا اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش کرنے کے لیے، یا الیکشن میں حصہ نہ لینے کی غرض سے اپنے کاغذات واپس لینے کے لیے کہے تو یہ ناجائز اثر و رسوخ کے زمرے میں آئے گا۔ اسی طرح اگر وہ مزاحمت، تشدد یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دے؛ نقصان پہنچائے، زخمی کرے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے؛ اللہ کی لعنت بھیجے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے، یا کسی پیر یا روحانی پیشوا کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا سامان پیدا کرے، یا ایسا کرنے کی دھمکی دے؛ کوئی مذہبی سزا دے یا دینے کی دھمکی دے؛ حکومتی یا سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرے؛ پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرے تو یہ بھی ناجائز اثر و رسوخ کا استعمال ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی امیدوار اَغواء، حبسِ بے جا، یا جعل سازی، دھوکے اور فریب کے ذریعے کسی ووٹر کے حق رائے دہی کے استعمال میں رکاوٹ ڈالے، یا کسی ووٹر پر ووٹ دینے یا نہ دینے کے لیے اثر انداز ہو، اسے مجبور کرے یا اکسائے تو یہ بھی ناجائز اثر و رسوخ کا استعمال ہوگا۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل نمبر 82 کے مطابق ان تمام طرح کی بدعنوانیوں کے مرتکب شخص کو تین سال تک سزائے قید، پانچ ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل نمبر 82A کے مطابق اگر کوئی پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرلے، یا اس مقصد کے لیے متعین کی گئی جگہ پر قبضہ کرلے اور پولنگ حکام کو بیلٹ پیپرز اور بیلٹ بکس اس کے حوالے کرنے پر مجبور کر دے، یا ایسے اقدامات کرے جس سے انتخابات کے انعقاد میں خلل اندازی ہو؛ پولنگ سٹیشن یا پولنگ کے لیے متعین کردہ جگہ کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے حامی ووٹرز سے حق رائے دہی استعمال کرائے اور دوسروں کو اس سے محروم کر دے؛ کسی ووٹر پر بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر جبر کرے ، اسے ڈرائے اور دھمکائے اور اسے پولنگ اسٹیشن یا اس کے لیے مختص کی گئی جگہ پر ووٹ ڈالنے کے لیے جانے سے روکے؛ سرکاری ملازم یا سرکاری اتھارٹی کے زیر اثر کام کرنے والے محکموں، اداروں اور کارپوریشنوں کا ملازم ہوتے ہوئے کسی امیدوار کے حق میں یا اس کے خلاف درج بالا اقدامات کا ارتکاب کرے تو ایسا شخص کم سے کم 3 سال قید۔ جسے پانچ سال تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اور 50 ہزار روپے جرمانہ۔ جسے ایک لاکھ روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ کی سزا کا مستحق ہوگا۔
مؤرّخہ 23 جنوری 2013ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لانگ مارچ ڈکلیریشن کے مطابق انتخابات کے دوران کرپشن کرنے، جعلی ووٹ ڈالنے، پولنگ اسٹیشنز پر قبضہ کرنے، انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے، بیلٹ باکس چرانے وغیرہ کی سزاؤں پر عمل درآمد یقینی بنانے کا اعادہ کیا ہے۔
لانگ مارچ اعلامیہ کی روح آئین پر عمل درآمد ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگرکوئی شخص درج ذیل اُمور کا مرتکب ہو تو وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا:
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 63 (1) میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا:
آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی کہ انتخابات کروانے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انتخابات دیانت دارانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں اور وہ قانون کے مطابق منعقد کیے جائیں اور ان انتخابات میں ہر طرح کی کرپٹ پریکٹسز کا مکمل طور پر سدباب کیا گیا ہو۔
لانگ مارچ اعلامیہ میں جو نکات شامل کیے گئے ہیں، ان کی اَہمیت اور مؤثریت کا اندازہ اس امر سے بھی ہو تا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے جون 2012ء کے فیصلے میں بھی آئین کی ان شقوں سے متعلق امور پر شد و مد کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ:
۔۔ ۔ ہم درجِ ذیل قرار دیتے اور حکم دیتے ہیں:
a۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت تمام الیکشن قوانین عوامی نمائندگی کے ایکٹ، عوامی نمائندگی اور دوسرے قوانین / قواعد وغیرہ پر سختی سے عمل کروائے۔
b۔ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نہ صرف الیکشن سے متعلق غیر قانونی کاموں پر نظر رکھے (انتخابی مہم میں مالی حدود کی خلاف ورزی وغیرہ) یا بد عنوانیاں (رشوت وغیرہ) بلکہ اُسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ الیکشن کی سرگرمیوں پر نظرِ ثانی کرے بشمول جلسے، جلوس، لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال وغیرہ؛ شفافیت کے معیار پر ان کے اثرات، انصاف اور دیانت داری پر الیکشن کو پورا کرانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ جمہوریت کی روح، شفافیت اور منصفانہ الیکشن کروانے کے لیے حفاظتی اقدامات کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے۔
c۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے دن سے ہی انتخابی اخراجات کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک امیدوار کو انتخابات کے اختتام کے فوری بعد اپنے اخراجات کا حساب دینا چاہیے۔ ڈکلیریشن فارم میں درج ذیل مندرجہ جات ہونے چاہیں:
(i) انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے میں نے اکاؤنٹ نمبر۔ ۔ ۔ بینک میں (جس میں شیڈولڈ بنک کا نام معہ برانچ ہوگا) کھلوایا ہے اور اس میں انتخابی اخراجات کے لیے مجوزہ رقم جمع کروا دی ہے۔
(ii) تمام انتخابی اخراجات مندرجہ بالا اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم سے کیے جائیں گے۔
(iii) انتخابی اخراجات کے لیے مندرجہ بالا اکاؤنٹ کے علاوہ کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ سے اخراجات نہیں کیے جائیں گے۔ (بینک سٹیٹمنٹ کی کاپی ریٹرن کے ساتھ منسلک کی جائے گی)۔
d۔ الیکشن کمیشن امیدواروں کے ساتھ میٹنگز کرے اور انہیں متعلقہ قوانین اور قواعد کے بارے میں آگاہ کرے اور انتخابی عملے کا تعین کرکے ان امیدواروں سے ہفتہ وار انتخابی اخراجات کی فہرست حاصل کرنے کا کہے اور وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں کا معائنہ بھی کرے۔ انتخابی اخراجات سے متعلق تمام امور جی ایس ٹی، رجسٹرڈ فرمز / اشخاص کے ساتھ ہونے چاہییں۔
e۔ رائے دہندگان کی سہولت کے لیے پورے ملک میں پولنگ اسٹیشنز کی تعداد کو مناسب حد تک بڑھایا جائے تاکہ پولنگ اسٹیشنز رائے دہندگان کی رہائش سے دو کلومیٹر سے زائد فاصلے پر نہ ہوں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو دی گئی تجاویز کو مد نظر رکھنا چاہیے جس میں رائے دہندگان کو سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں امیدواروں کو انتخابات کے دن کے لیے کرایہ کی یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی اجازت نہ دی جائے۔ جہاں ٹرانسپورٹ کے انتظامات الیکشن کمیشن نے کیے ہوں تو ان کے راستوں کی تشہیر عوام کی اطلاع کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر وسیع پیمانے پر کی جائے۔
f۔ جہاں تک رائے دہندگان کو پرچی حوالے کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کو مطلوبہ معلومات مہیا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کرے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ROPA (یعنی عوامی نمائندگی ایکٹ) کی دفعہ 84 پہ سختی سے عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز کے نزدیک انتخابی دفاتر کے قیام پر فی الفور پابندی لگائی جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کو ان کے ووٹ کا اقتباس ووٹر لسٹ سے الیکشن کے انعقاد سے کم از کم سات دن قبل بذریعہ ڈاک ایک گھر میں رہنے والے ایک یا زیادہ اشخاص کے نام روانہ کرنے کا انتظام کرے یا ڈاک کے اخراجات بچانے کے لیے وہ اقتباسات یوٹیلٹی بلوں کے ساتھ منسلک کرے۔
g۔ کس طرح کی انتخابی مہم کی سرگرمیوں کی اجازت دی جانی چاہیے جو کہ ایک طرف تو انتخابی مہم کا مقصد پورا کریں اور دوسری طرف عام آدمی کی پہنچ میں بھی ہوں؟ اس سلسلے میں درخواست دہندگان نے کچھ سرگرمیاں تجویز کی ہیں جیسا کہ گھر گھر جا کر campaign کرنا، منشور کی تشہیر، ریاستی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر راغب کرنا، امیدواروں اور ووٹرز کا بحث مباحثہ وغیرہ شامل ہیں۔ ROPA (Representation of People Act) اور دوسرے متعلقہ قوانین نے ان سرگرمیوں کی اجازت قانون کی نظر میں دی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان سرگرمیوں کی میرٹ کے مطابق حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
h۔ صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت کے ملازمین کی بجائے وفاقی حکومت، خود مختار تنظیموں/ اداروں کے ملازمین کو پولنگ اسٹیشنز پر تعینات کیا جائے۔
i۔ جہاں تک کمپیوٹرائزڈ بیلٹنگ (ballotting) کو متعارف کروانے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے سے ہی اس پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے ہم توقع کرتے ہیں کہ مناسب وقت پر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔
j۔ صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے مقصد کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن کو فی الفور قابلِ بھروسہ اور آزادنہ اداروں کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی درست تیاری اور نگرانی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکسان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ رائے دہندگان کی فہرستوں کا گھر گھر جاکر جانچ کرے اور اس تجدید اور نگرانی کے کام کی شفافیت سے تکمیل کے لیے، اگر ضروری ہو تو فوج اور فرنٹیر کور کو بھی تعینات کیا جاسکتا ہے۔
k۔ انتخابی تنازعات کو فی الفور حل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے لیے تصحیحی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی اخراجات پر الیکشن قوانین سے مکمل آگاہی رکھنے والے وکلاء کا پینل بنانے پر غور کرے جو کہ معاشرے کے مظلوم طبقہ کو مفت قانونی خدمات فراہم کرے۔
l۔ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام رائے دہندگان کی انتخابات میں شرکت ہو اور اس سلسلہ میں پاکستان میں ووٹ ڈالنے کو لازمی بنانے کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔
m۔ First past the post طریقہ انتخاب کے تحت ضروری نہیں کہ جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی مکمل اکثریت حاصل ہو اور اس طرح ایسا امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت کی حمایت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح FPTP (First past the post) طریقہ انتخاب اکثریت کے اصول کی نفی کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایسے طریقے اور ذرائع دریافت کرے اور انتخابات کا مناسب طریقہ سے تعارف کروائے جس میں Run off Election اور None of the above options جیسی تجاویز بھی شامل ہوں۔ درج بالا بحث کی روشنی میں لوگوں کی صحیح نمائندگی ہو اور اکثریت کا اصول اپنایا جائے۔
n۔ الیکشن کمیشن کو قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ الیکشن شفاف، دیانتدارانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور بدعنوانی کی حوصلہ شکنی ہو۔ درج بالا مختلف تجاویز پر نقطہ نظر میں اتفاق ہے۔ اس لیے ہم الیکشن کمیشن کو حکم دیتے ہیں کہ قوانین مرتب کرے اور ہدایات جاری کرے تاکہ ان اقدامات کو قانونی تحفظ ہوں، ان پر عمل در آمد ہو تاکہ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا حتمی مقصد حاصل ہوسکے۔
آئین کی بیسویں ترمیم کے ذریعے حکومتی اتحاد اور حزبِ اِختلاف نے نگران وزیر اعظم اور وزراے اَعلیٰ کے تقرر کے لیے ایک ایسے ضابطہ کو آئینی شکل دے دی تھی جس کے تحت دونوں جماعتوں کے مک مکا سے نگران سیٹ اپ قائم ہو اور جو ان دونوں جماعتوں کے مفادات کا ہی محافظ ہو۔ لانگ مارچ اِعلامیہ کے ذریعے اس مک مکا کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے اور اب نگران وزیر اعظم کے لیے ناموں کو تجویز کرنے میں حکومتی اتحاد کو پاکستان عوامی تحریک کے مکمل اتفاق رائے کا پابند بنا دیا گیا۔ لہٰذا اب غالب امکان یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ آزاد، خود مختار اور مکمل طور پر غیر جانب دار لایا جاسکے گا۔
اِن تمام اُمور کا اگر دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ اَمر کماحقہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان قوانین اور تجاویز پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں جو اسمبلی منتخب ہو کر آئے گی۔ چاہے اُس کے اراکین کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ وہ آئین کے مطابق سمجھ دار و باصلاحیت، پارسا، غیر فاسق و نیک اور صادق و امین (sagacious, righteous and non-profligate, honest and ameen) قیادت کے طور پر ملک کو deliver کرنے کے قابل ہوں گے؛ نیز وہ حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کر سکیں گے۔ ایسی قیادت ہی ملکی وسائل کو تلاش کرنے، بڑھانے اور صرف کرنے کے لیے مثبت پیش رفت کرسکے گی۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، کرپشن اور دیگر مسائل کا حل بھی تبھی ممکن ہوگا جب اہل، باصلاحیت اور دیانت دار لوگ اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کر رہے ہوں گے۔ ملک خداداد کو آج کڑے وقت میں ایسی ہی مخلص اور اہل قیادت کی ضرورت ہے جو اسے ترقی کی شاہ راہ پر گام زن کرسکے اور اَقوامِ عالم کی صف میں نمایاں اور باعزت مقام دلا سکے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved