اِسلام دینِ فطرت ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا لفظ لفظ حقائق پر مبنی ہے اور اپنے اندر معانی کی لاتعداد وُسعت رکھتا ہے۔ تاہم اُن کے مُشاہدے کے لئے علم اور دانش کی ضرورت ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِO
(آل عمران، 3 : 7)
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہےo
اِس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ حکیم میں دو طرح کی آیات نازِل کی ہیں۔ اوّل محکمات جو اَحکامِ قرانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا مطلب واضح اور مقصدِ نزول عیاں ہے، اُن میں کسی قسم کی تاوِیل کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ دُوم وہ آیات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متشابہات کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اِن آیات کا تعلق ماورائے عقل حقائق سے ہے اور اِنسان اپنے محدُود علم اور حواس کے ذریعے اُن کا کامل اِدراک نہیں کر سکتا۔ اُن کا صحیح مطلب اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یعنی دانشمند لوگ اُن آیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ سے وہ لوگ مُراد ہیں جو اپنے علم و فن میں پختہ اور اپنی فیلڈ میں ماہر و کامل اور اسپیشلسٹ ہیں۔ قرآنی علوم کا دائرہ اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علوم سے وسیع ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ کمال ہے کہ اَحکام و اُصول سے متعلق کوئی بات اُس نے تشنہ یا نامکمل نہیں رہنے دی، قرآنِ مجید بنی نوعِ اِنسان کے لئے ہر علم و فن کا سرچشمہ ہے۔ اِس سلسلے میں قرآنِ مجید کے الفاظ کس قدر واضح ہیں:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ.
(النحل، 16 : 89)
اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازِل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ قرآن اور احادیث کے عظیم مجموعے میں ہر علم و فن کے لئے اِشارے موجود ہیں مگر اُنہیں سمجھنے کے لئے عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اِسلام کی عمومی تعلیمات بنی نوعِ اِنسان کی فلاح کے لئے حفظانِ صحت کے اُصولوں کے عین مطابق ہیں جنہیں قرآنِ مجید اور پیغمبرِ اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے وضع فرمایا تھا۔ جدید سائنس اَب کہیں جا کر اُن زرّیں اُصولوں کی اِفادیت سے آگاہ ہوئی ہے جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالکل سادہ اور عام فہم زبان میں اپنی اُمت کو سمجھائے تھے۔
طبی نکتۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے:
ما أنزل الله مِن دآء إلا أنزل له شفآءٌ.
(صحيح البخاري، 2 : 847)
(جامع الترمذي، 2 : 25)
اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔
یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔
اِسلام علاج سے زیادہ حفظانِ صحت اور اِحتیاطی طبی تدابیر پر زور دیتا ہے۔ اِسلام کی جملہ تعلیمات کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا پہلا قدم اور پہلا اُصول بھی طہارت ہے۔ طہارت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
الطهورُ شطرُ الإيمانِ.
(الصحيح لمسلم، 1 : 118)
صفائی اِیمان کا لازمی جزو ہے۔
اِسلامی تعلیمات میں طہارت کا باب اُن مقامات کی طہارت سے شروع ہوتا ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ یہ طہارت کا پہلا اُصول ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر طہارت کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا۔
عن أنس بن مالک يقول : ’’کان النبي صلى الله عليه وآله وسلم إذا خرج لحاجته، أجئ أنا و غلام و أداوة من مآء يعني تستنجي به‘‘.
(صحيح البخاري، 1 : 27)
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفعِ حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن لے کر حاضرِ بارگاہ ہوتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے اِستنجاء فرما لیں۔
آج عالمِ مغرب میں پانی سے طہارت کے اس فطری طریقہ کو چھوڑ کر کاغذ وغیرہ کے استعمال کو رواج مل چکا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہ طریقہ پروان چڑھ رہا ہے حالانکہ اِس سے کئی خرابیاں اور قسم قسم کی بیماریاں بھی دَر آئی ہیں۔ عافیت درحقیقت اِسلام ہی کے بیان کردہ اُصولوں میں ہے۔ طبِ جدید کے مطابق جو لوگ رفعِ حاجت کے بعد طہارت کے لئے پانی کی بجائے فقط کاغذ استعمال کرتے ہیں اُنہیں مندرجہ ذیل بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
1۔ Pilonidal Sinus : یہ ایک بال دار پھوڑا ہے جو پاخانے کی جگہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کا علاج آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
2۔ Pyelonephritis : پیشاب کے راستوں اور گردوں میں پیپ کا پیدا ہو جانا، بالخصوص عورتوں میں پاخانے کے جراثیم پیشاب کی نالی میں آسانی سے داخل ہو کر سوزش اور پیپ پیدا کر دیتے ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ گردوں کی مہلک بیماری لاحق ہو جاتی ہے، جس کا پتہ بعض دفعہ اُس وقت چلتا ہے جب وہ اِنتہائی پیچیدہ صورت اِختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج صرف آپریشن رہ جاتا ہے۔
نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ.
(المائده، 5 : 6)
تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔
وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالی نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔
بیماری کے جراثیم کھانا کھاتے وقت بآسانی ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے۔ اس میں اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
برکةُ الطعامِ : الوضوءُ قبله و الوضوءُ بعده.
(جامع الترمذي، 2 : 7)
(سنن ابي داؤد، 2 : 172)
کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔
کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھو کر اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کر لیا جائے تو بھی اُس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ سے ہاتھوں پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُس تولئے پر پہلے سے کچھ جراثیم موجود ہوں اور ہمارے ہاتھ خشک کرنے کے عمل سے وہ ہمارے صاف ہاتھوں سے چمٹ جائیں اور کھانے کے دوران میں ہمارے جسم میں داخل ہو جائیں۔ اِس بارے میں بھی اِسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔، فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے :
وَ لا يمسح يده قبل الطعام بالمنديل ليکون أثر الغسل باقياً وقت الأکل.
(الفتاويٰ الهنديه، 16 : 32)
کھانے سے پہلے دھوئے ہاتھ کسی کپڑے سے مت خشک کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا أکل أحدکم فلا يمسح يده حتيٰ يَلعقها أو يُلعقها.
(صحيح البخاري، 2 : 820)
جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول بھی یہی تھا :
کان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يأکل بثلاثِ أصابعٍ و لا يمسح يده حتٰي يلعقها.
(سنن الدارمي، 2 : 24)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام تین اُنگلیوں سے کھاتے تھے اور (کھانے کے بعد) اُنگلیوں کو چاٹے بغیر ہاتھ صاف نہیں فرماتے تھے۔
کھانے کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھونا چاہئے مبادا خوراک کے ذرّات کسی اذیت کا باعث بنیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سو جانے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔
اِرشادِ نبوی ہے :
مَن نام في يده غمر و لم يغسله فأصابه شئ فلا يلومنّ إلا نفسه.
(سنن ابي داؤد، 2 : 182)
اگر کسی شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اُسی حال میں اُسے دھوئے بغیر سو جائے جس سے اُسے کچھ نقصان پہنچے تو وہ اپنے آپ کو ہی برا کہے (یعنی اپنا ہی قصور سمجھے کہ ہاتھ دھو کر نہ سویا تھا)۔
اِسی طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں :
إذا استيقظ أحدکم من نومه فلا يغمس يدَه في الإناءِ حتي يغسلها ثلاثًا، فإنّه لا يدري أين باتتْ يده.
(الصحيح لمسلم، 1 : 136)
جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری، (یعنی نیند کی حالت میں کہاں لگتے رہے)۔
حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اَشیائے خورد و نوش کو کامل اِحتیاط سے رکھنا چاہئے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو اُنہیں ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ اُن میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحتِ انسانی کے لئے مضر ہوں۔ اِسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔
تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے :
عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه، قال، قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ’’إذا شرب أحدُکم فلا تنفّس في الانآء‘‘.
(صحيح البخاري، 2 : 841)
عبداللہ بن ابی قتادہ، اپنے والد سے رِوایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔‘‘
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا :
عن ابن عباس، قال : ’’نهٰي رسولُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم أن يتنفّس في الإناء أو يُنفخ فيه.
(جامع الترمذي، 2 : 11)
(سنن أبي داؤد، 2 : 168)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن میں سانس لینے اور اُس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے۔
تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمولِ مبارک بھی یہی تھا کہ آپ کھانے پینے کی اَشیاء میں کبھی سانس لیتے اور نہ اُنہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے پھونک مارتے تاکہ اُمت کو بھی اِس کی تعلیم ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لم يکن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينفخ في طعام و لا شراب و لا يتنفّس في الإناءِ.
(سنن ابن ماجه : 244)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کھانے کی چیز میں پھونک مارتے تھے اور نہ پینے کی چیز میں اور برتن میں سانس بھی نہیں لیتے تھے۔
طبِ جدیدکے مطابق بھی کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارنی چاہئے کیونکہ اس سے بیماری کے جراثیم اَشیائے خورد و نوش میں منتقل ہو سکتے ہیں جو بعد ازاں کسی دُوسرے کھانے والے کو بیمار کر کرسکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت پہلے یہ باتیں فرما دی تھیں۔
وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ آج اگرچہ اُس پر قابو پایا جا چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک یہ شہروں کے شہر وِیران کر دیا کرتا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ بچتا جس میں صفِ ماتم نہ بچھتی تھی۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے تاجدارِ حکمت نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا سمعتم بالطاعونِ بأرضٍ فلا تدخلوها، و إذا وقع بأرضٍ و أنتم بها فلا تخرجوا منها.
(صحيح البخاري، 2 : 853)
جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہیں ہو تو اُس علاقے کو چھوڑ کر مت بھاگو۔
گویا آپ نے نہ صرف ایسے شہر سے باہر کے لوگوں کو طاعون سے بچانے کے لئے وہاں جانے سے منع فرمایا بلکہ اُس شہر کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کر کے آس پاس کے شہروں کو بھی طاعون سے محفوظ فرما دیا مبادا وہاں سے لوگ ہر طرف بھاگ نکلیں اور یہ مرض آس پاس کے تمام شہروں میں پھیل جائے۔
دانتوں کی صفائی کے بارے میں تاجدارِ حکمت و بصیرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ مبارکہ ہے :
طهّروا أفوَاهَکم.
(سلسة الأحاديث الصحية للألباني، 3 : 215)
اپنا منہ صاف رکھو۔
طبی نقطۂ نظر سے دانتوں کی صفائی جہاں دانتوں کو بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھتی ہے وہاں اَمراضِ معدہ کے سدِباب کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیا۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا :
لو لا أَن أشقّ عليٰ أمتي لأمرتُهم بالسّواک مع کلّ صلوةٍ.
(صحيح البخاري، 1 : 122)
(سنن النسائي، 1 : 6)
اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس میڈیکل کالج میں پڑھے، اللہ ربّ العزت تو خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی کہہ رہا ہے۔ تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ پاک کی تعلیم کا مبدا اور سرچشمہ اللہ کی ذات تھی۔ آقا علیہ الصلوۃُ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے وہ اُصول جو آج اپنے گوناگوں فوائد کے ساتھ منظرِعام پر آ رہے ہیں، آپ نے آج سے چودہ صدیاں قبل بغیر کسی کالج / یونیورسٹی کی تعلیم کے بیان فرما دیئے۔ ایسے میں ہماری نگاہیں اُس عظیم حق کے سامنے کیوں نہ جھکیں، ہم یہ کیوں نہ تسلیم کریں کہ سرکار کا ہر فرمان حق اور درُست ہے۔ دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام کا اِرشاد ہے :
مَن أکل فليتخلّل.
(سنن الدارمي، 2 : 35)
جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔
دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست چونکہ ہمارا موضوع طبی تحقیقات کے اِرتقاء میں اِسلام کا کردار ہے اِس لئے یہاں ہم اِسی موضوع کو زیرِبحث لائیں گے۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر (physiotherapists) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔
ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَةِ قَامُواْ كُسَالَى.
(النساء 4 : 142)
اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔
تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول لیول کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔
قرآنی اَحکامات کی مزید توضیح سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے :
فإنّ في الصلٰوةِ شِفاءٌ.
(سنن ابن ماجه : 225)
بیشک نماز میں شفاء ہے۔
جدید سائنسی پیش رفت کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار 150 سے 250 ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ جبکہ دُوسری طرف نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لئے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لئے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔
نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِجدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
أذِيبوا طعامَکم بذکرِ اللهِ وَ الصلٰوةِ
(المعجم ا لأوسط، 5 : 500، رقم : 4949)
(مجمع الزوائد، 5 : 30)
اپنی خوراک کے کولیسٹرول کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔
اگر ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد اور عمل کے مطابق صحیح طریق پر پنج وقتی نماز ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔ نماز کی مختلف حالتوں میں جو ورزش ہوتی ہے اُس کی تفصیل درج ذیل ہے :
تکبیرِ تحریمہ کے دوران نیت باندھتے وقت کہنی کے سامنے کے عضلات اور کندھے کے جوڑوں کے عضلات حصہ لیتے ہیں۔
ہاتھ باندھتے وقت کہنی کے آگے کھنچنے والے پٹھے اور کلائی کے آگے اور پیچھے کھنچنے والے پٹھے حصہ لیتے ہیں جبکہ جسم کے باقی پٹھے سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے اپنا معمول کا کام ادا کرتے ہیں۔
رکوع کی حالت میں جسم کے تمام پٹھے ورزش میں حصہ لیتے ہیں۔ اُس میں کولہے کے جوڑ پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ گھٹنے کے جوڑ سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ کہنیاں سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں اور کلائی بھی سیدھی ہوتی ہے جبکہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں۔
سجدے میں کولہوں، گھٹنوں، ٹخنوں اور کہنیوں پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ ٹانگوں و رانوں کے پیچھے کے پٹھے اور کمر و پیٹ کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور کندھے کے جوڑ کے پٹھے اس کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کلائی کے پیچھے کے عضلات بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سجدے میں مردوں کے برخلاف عورتوں کے لئے گھٹنوں کو چھاتی سے لگانا احسن ہے یہ بچہ دانی کے پیچھے گرنے کے عارضے کا بہترین علاج ہے۔ سجدہ دل و دماغ کو خون کی فراہمی کے لئے نہایت ہی موزوں عمل ہے۔
التحیات کی صورت میں گھنٹے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے، ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں، کمر اور گردن کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
سلام پھیرتے وقت گردن کے دائیں اور بائیں طرف کے پٹھے کام کرتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ سنتِ نبوی کی پیروِی میں درُست طریقے سے نماز ادا کرنے کی صورت میں اِنسانی بدن کا ہر عضو ایک قسم کی ہلکی پھلکی ورزش میں حصہ لیتا ہے جو اُس کی عمومی صحت کے لئے مفید ہے۔
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
(الاعراف، 7 : 31)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے :
إنّ المؤمنَ يأکلُ في معيٍ واحدٍ، وَ الکافر يأکلُ في سبعة أمعاء.
(صحيح البخاري، 2 : 812)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا :
إنّ اللهَ يبغض الأ کلَ فوق شبعه.
(کنزالعمال : 44029)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
أکثر الناسِ شبعاً في الدُّنيا أطولهم جوعاً يومَ القيامةِ.
(سنن ابن ماجه : 248)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید اِرشاد فرمایا :
حسب الآٰدمي لقيمات، يقمن صلبه، فإنْ غلبت الآٰدمي نفسه فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.
(سنن ابن ماجه : 248)
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلیے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی شے خوراک کی مقدار نہیں بلکہ ایسی خوراک کا چناؤ ہے جو متوازن ہو اور تمام جسمانی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکے۔ کھانا کھاتے وقت اگر ہم اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو بہت سے اَمراض سے بچ سکتے ہیں۔ حلال غذائیں یوں تو بے شمار ہیں مگر اُن میں چند ایک ہی ایسی ہیں جن کی ترغیب قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وُہی غذائیں اِنسانی جسم کے لئے حیرت انگیز حد تک مفید ہیں۔
عام آدمی کو روزانہ جتنی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے :
2900 کیلوریز عام اوسط مردوں کیلئے، 2200 کیلوریز اوسط خواتین کے لئے
400 گرام
سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، سلفر، فاسفورس، اور آیوڈین کی شکل میں۔
کم از کم 45 گرام
وٹامن A، وٹامن B1، B2، B6، B12، وٹامن C، وٹامن D اور وٹامن E
صرف اتنی مقدار جتنی توانائی کے لئے جلائی جا سکے
خالص اور جراثیم سے پاک، یہ جسم کے 66 فیصد حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویسے تو تمام حلال غذائیں اِستعمال کرنا جائز ہے مگر قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں بعض غذاؤں سے متعلق خاص ہدایات دیتی دِکھائی دیتی ہیں۔
گوشت اِنسانی خوراک کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ بعض جانوروں کا گوشت عام انسانی صحت کے لئے مفید ہے جبکہ دوسرے بعض جانوروں کا گوشت کچھ مضر ہے۔ دیگر جانوروں کا گوشت مکمل طور پر نقصان دہ بھی ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کسی طور پر انسان کے لئے مناسب نہیں شریعت نے اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔ جن کا گوشت قدرے غیرمفید ہے اُن کا اِستعمال اگرچہ روا رکھا ہے مگر اُسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ جو جانور اپنے گوشت میں مضرات نہیں رکھتے اور صحتِ اِنسانی کے لئے مفید ہیں اُن کا گوشت کھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ شریعتِ مطہرہ میں چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے گوشت کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن سفید گوشت (یعنی مچھلی اور پرندوں وغیرہ کے گوشت) کو ترجیح دی گئی ہے اُس میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے اور اِس طرح وہ دِل کے لئے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرخ گوشت کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے :
عليکم بألبانِ البقر فإنّها شفاءٌ، و سمنها دواءٌ و لحومها داءٌ.
(زاد المعاد، 4 : 324)
(المستدرک للحاکم، 4 : 104، 197)
گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔
گائے کا گوشت جسے سرخ گوشت بھی کہتے ہیں اُس میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد کی مزید تصدیق کر دی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
100گرام گائے کے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی یہ مقدار پائی جاتی ہے :
اِس میں بھی بہت زیادہ چکنائی ہوتی ہے، درج ذیل جدول میں دیکھئے کہ 100 گرام چھوٹے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی مقدار یوں ہے :
چھوٹے گوشت میں گردن ایک ایسا عضو ہے جس میں چکنائی کی مقدار باقی بدن کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں کچھ زیادہ کولیسٹرول نہیں ہوتا۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھوٹے گوشت میں سے گردن کے گوشت کو تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ ہو :
و کان أحبّ الشاةِ إلٰي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مقدّمها و کل ما علا منه سوي الرأس کان أخفّ و أجود مما سفل.
(زاد المعاد، 4 : 373)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بکری میں سب سے زیادہ اگلے حصے (گردن) کا گوشت پسند تھا اور جو کچھ سر کے علاوہ اگلے بدن میں ہے کیونکہ یہ حصہ خفیف (بوجھل پن سے پاک) ہوتا ہے اور پچھلے حصے کی نسبت عمدہ ہوتا ہے۔
ماہرینِ غذا نے بھی بغیر چربی کے گوشت (lean) کو بہترین قرار دیا ہے کیونکہ اُس میں سیرشدہ چکنائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔
مچھلی اور پرندوں کے گوشت میں چونکہ نسبتاً کم چکنائی ہوتی ہے اِس لئے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اُس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے پرندوں کے گوشت کو ’’جنت کی خوراک‘‘ قرار دیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَO
(الواقعه، 56 : 21)
اور اُنہیں پرندوں کا گوشت ملے گا، جتنا وہ چاہیں گےo
علاوہ ازیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گوناگوں غذائی اور طبی فوائد کی بنا پر ہی مچھلی کے گوشت کی خاص طور پر اِجازت عطا کی۔ سفید مچھلی میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے جبکہ تیل والی مچھلی میں غیرسیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ اِس لئے اُس کا اِستعمال بھی اِنسانی صحت کے لئے مفید ہے۔
قرآنِ مجید میں انجیر اور زیتون کی اہمیت کو اللہ ربّ العزت نے قسم کھا کر اُجاگر کیا ہے، فرمایا :
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِO
(التين، 95 : 1)
انجیر اور زیتون کی قسمo
انجیر سے کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے ضروری اجزاء کی بڑی مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن اُس کی زیادہ مقدار ریشے (fibre) میں پائی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں اور چھاتی کو طاقت بخشتا ہے اور ذہنی و قلبی امراض کے علاج میں مدد دیتا ہے۔ چونکہ اُس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اِس لئے غیرسیرشدہ چکنائی ہونے کے ناطے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا اِستعمال دل کے مریض کے لئے بہت مفید ہے۔
قرآنی پھل ہونے کے ناطے زیتون بہت سے اَمراض میں مفید ہے۔ جو لوگ اپنی روزانہ خوراک میں کولیسٹرول کی کمی کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے زیتون کا تیل گھی کا بہترین متبادل ہے۔
100 گرام زیتون ان اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے :
کیلوریز 82
پروٹین 0.7 گرام
سیرشدہ چکنائیاں 1.2 گرام
غیر سیرشدہ چکنائیاں 1.0 گرام
غذائی ریشہ 35 گرام
مکمل چکنائی 8.8 گرام
جبکہ اِس میں کولیسٹرول کی مقدار صفر ہوتی ہے۔
چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج کی جدید طب کی تحقیق یہ ہے کہ جمنے والی چیزوں بناسپتی گھی وغیرہ کو چھوڑ کر اُس کی جگہ تیل کو اِستعمال میں لایا جائے تاکہ اِنسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مقررّہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اُن محققین و ماہرینِ طب کی نظر سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات و اِرشادات کا یہ رُخ گزرے تو اُنہیں اِسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے چودہ سو سال قبل زیتون کی اِفادیت کا اِعلان فرما دیا تھا۔ آج زیتون کی یہ تحقیق ثابت ہو چکی کہ اَمراضِ قلب، انجائنا، بلڈپریشر اور اَمراضِ سینہ وغیرہ میں زیتون کا تیل نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں دل کے اَمراض باقی دُنیا کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے باشندے گھی اور مکھن جیسی چکنائیوں کی بجائے زیتون کا تیل کثرت سے اِستعمال کرتے ہیں۔
یہاں تاجدارِ رحمت و حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان خاص طور پر قابلِ توجہ ہے :
إنّ عمر بن الخطاب قال، قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ’’کلوا الزيت وَ ادّهنُوا به، فإنّه مِن شجرةٍ مبارکةٍ.
(جامع الترمذي، 2 : 6)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم روغنِ زیتون کو کھاؤ اور اُس کا بدن پر بیرونی اِستعمال بھی کرو کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے‘‘۔
شہد حفظانِ صحت کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ قدرت نے اُس میں اِنسانی جسم کی تمام ضروریات و مقتضیات کو یکجا کر دیا ہے۔ شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہے :
فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ.
(النحل، 16 : 69)
اُس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔
اِس ضمن میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِگرامی ہے :
عليکم بالشفائين، العسل و القرآن.
(سنن ابن ماجه : 255)
دو چیزیں شفا کے لئے بہت ضروری ہیں : (کتابوں میں) قرآن اور (اشیائے خوردنی میں) شہد۔
شہد نہ صرف حفظانِ صحت کے لئے مفید ہے بلکہ اُس میں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایک بیمار صحابی کا واقعہ بھی مذکور ہے جو نہایت موذی مرض میں مبتلا تھے اور اُنہیں شہد ہی سے اِفاقہ ہوا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں :
عن أبي سعيد، قال : جآء رجل إلي النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فقال : ’’إن أخي إستطلق بطنه‘‘، فقال : ’’اسقه عسلاً‘‘، فسقاه، ثمّ جآء، فقال : ’’يارسولَ الله! قد سقيتُه عسلاً فلم يزدْه إلا إستطلاقًا‘‘، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ’’اسقه عسلاً‘‘، قال فسقاه، ثم جآء، فقال : ’’يارسول الله! إني قد سقيتُه فلم يزده إلا إستطلاقا‘‘، قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ’’صدق الله و کذب بطن أخيک، اسقه عسلاً‘‘، فسقاهُ فبرأ.
(جامع الترمذي، 2 : 29)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اُس کے بھائی کو اِسہال لگے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ اُس شخص نے واپس آ کر بتایا کہ اِسہال زیادہ ہو گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اُسے پھر شہد دو‘‘۔ اِس طرح اُس بیمار کو تین مرتبہ شہد دیا گیا۔ چوتھی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ آرام نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خداوند تعالی نے شہد کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درُست ہے لیکن تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ چنانچہ بیمار کو پھر شہد دیا گیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔
امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ’ڈاکٹر سی اے براؤن‘ نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اَجزاء معلوم کئے ہیں :
شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشئم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک، ایلومینیم اور میگنیشئم بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے سائنسدان کھلاڑیوں پر تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہد کو عام قسم کی شکر پر مندرجہ ذیل فوقیتیں حاصل ہیں :
قرآن اسے ’’جنت کا پھل‘‘ کہتے ہوئے اس کے استعمال کی یوں ترغیب دیتا ہے :
حَدَائِقَ وَ أَعْنَابًاO
(النباء، 78 : 32)
(وہاں اُن کے لئے) باغات اور انگور (ہوں گے)o
حالیہ طبی تحقیق کے مطابق انگور کاربوہائیڈریٹس، فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم اور خاص طور پر وٹامن اے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے دل، جگر اور معدے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یہ خاص طور پر دل و دماغ کی مختلف بیماریوں اور انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت سودمند ہے۔
قرآنِ حکیم نے سورۂ بقرہ میں لہسن کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے :
وَ فُوْمِهَا.
(البقره، 2 : 61)
اور اُس (زمین) کا لہسن۔
لہسن ایک ایسا مصالحہ ہے جو دل، دماغ، آنکھوں اور جسم کے دُوسرے حصوں کو طاقت دیتا ہے اور خاص طور پر جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیموں کو مارنے کے لئے جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ جدید طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ لہسن فالج، دمہ، ٹی بی اور جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جراثیم کش (antiseptic) خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً خون کے بڑھے ہوئے دباؤ (hypertension) پر قابو پانے میں اس کے خصوصی عمل کی وجہ سے سقوطِ قلب سے بچنے کے لئے مفید ہے۔
قرآن نے سورۂ بقرہ کی اِسی آیت میں پیاز کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے :
وَ بَصَلِهَا.
(البقرة، 2 : 61)
اور اُس (زمین) کا پیاز۔
یہ پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، سلفر اور فولاد کا اہم ذریعہ ہے۔ 100 گرام پیاز درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے :
غذائی ریشہ (fiber 1.3 گرام)
حرارے (Calories 23 گرام)
لحمیات (proteines 0.9 گرام)
چینی (sugar 5.2گرام)
پیاز میں خاص طور پر B6 بھی پایا جاتا ہے، جو ٹی بی اور پھیپھڑوں کے ناسور کا سبب بننے والے جراثیموں اور مُضرِ صحت بیکٹیریا کے خاتمے میں بھی مفید ہے۔ اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ خون میں موجود کولیسٹرول کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اِس کے مستقل اِستعمال سے دِل کے دَورے کا خطرہ ممکنہ حد تک کم ہو جاتا ہے۔
قرآنِ مجید نے سؤر کے گوشت کے اِستعمال سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ.
(البقره، 2 : 173)
اُس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذِبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔
بنی نوعِ انسان کے لئے اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اِسلام نے اِنسانی جسم و رُوح کو نقصان پہنچانے والی تمام اشیاء کے اِستعمال سے اپنے ماننے والوں کو سختی سے منع فرما دیا تاکہ وہ اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی (epilepsy) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔
acute trichinosis کے مریض کو تیز جسمانی درجۂ حرارت سے سابقہ پیش آ سکتا ہے۔ اُس کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔
خنزیر کے گوشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ موٹاپا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اُس میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ 100 گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 284 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 496 کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ 21.1 فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ 44.8 فیصد ہوتی ہے۔
اِسلام میں خنزیر کے گوشت کی ممانعت کی حکمت اَب امریکہ اور یورپ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اور وہاں کے صحت شناس لوگ بالعموم اِسلام کی حلال کردہ اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں اور سؤر کا گوشت ترک کرتے چلے جا رہے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے شراب کو کلیتاً حرام قرار دیا ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
(المائده، 5 : 90)
اے ایمان والو! یقیناً شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم اُن سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دونوں اَحادیثِ مبارکہ اِس آیتِ کریمہ کے شراب کی حرمت سے متعلقہ حصے کی بہترین تفسیر کرتی نظر آتی ہیں :
اِرشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
کلّ مُسکرٍ خمرٌ و کل خمرٍ حرامٌ.
(الصحيح لمسلم، 2 : 168)
ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔
ما أسکرَ کثيرُه فقليلُه حرامٌ.
(جامع الترمذي، 2 : 9)
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اُس کی تھوڑی مقدار کا اِستعمال بھی حرام ہے۔
شراب جسم کو حرارے (کیلوریز) تو مہیا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسمانی نشوونما کے لئے ضروری وٹامنز اور امائنو ایسڈز (amino acids) مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ جسم میں خلیوں کی تخریب (metabolism) اور تعمیر کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور متعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے علاوہ یہ بالخصوص دل کے عضلات کی بیماری cardiomyopathy اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے تالو کی ہڈیوں میں توڑ پھوڑ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں شراب کا باقاعدہ استعمال خون کے دباؤ کے مسائل پیدا کرتا ہے اور نظامِ دورانِ خون (cardiovascular system) کو متاثر کرتا ہے۔
کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے سقوطِ قلب کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ شراب خون میں کولیسٹرول کی مجموعی سطح کو کم کئے بغیر ہائی ڈنسٹی لیپوپروٹینز (HDL Cholesterol) کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کولیسٹرول میں توازن بگڑ جاتا ہے اور اُس سے دِل کے دَورے کا مجموعی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صحت شناس لوگوں میں شراب نوشی کی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے اور اکثر ہارٹ ایسوسی ایشنز (heart associations) بھی اِسی بات پر بہت زور دے رہی ہیں کہ شراب کا اِستعمال نہ کیا جائے۔
اوّلاً اِسلام نے اِنسانیت کے لئے حفظانِ صحت کے ایسے اُصول مرتب کئے ہیں کہ بندہ زیادہ سے زیادہ بیماریوں سے قبل از وقت بچا رہے۔ تاہم اگر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اُس کا مناسب علاج بھی پیش کیا ہے۔ طب کو باقاعدہ ایک فن کے طور پر پروان چڑھانے اور اِس فن کے ماہرین پیدا کرنے میں سب سے زیادہ دخل اِسلام کو حاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے پہلے ہسپتال مسلمانوں ہی نے قائم کئے اور سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور سرجنوں کا ایک باقاعدہ نظام بھی اِنہی نے وضع کیا تاکہ مختلف بیماریوں کا صحیح طبی خطوط پر علاج کیا جا سکے۔
اِس سلسلے میں تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اِرشادِنبوی ہے :
و من تطبّب و لم يعلم منه الطب قبل ذٰلک فهو ضامنٌ.
(سنن ابنِ ماجه : 256)
جس شخص نے علمُ الطب سے ناآگہی کے باوُجود طب کا پیشہ اِختیار کیا تو اُس (کے غلط علاج۔ / مضر اثرات) کی ذمہ داری اُسی شخص پر عائد ہو گی۔
اِس فرمان نے جہاں لوگوں کو طب میں تخصیص کے لئے مہمیز دی وہاں اِسلام کی اوّلین صدیوں میں ہی جعل سازوں سے بچنے کے لئے میڈیکل کا ایک باقاعدہ اِمتحانی نظام وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے ماہرینِ طب اور سرجن پیدا ہوئے۔
دُنیا میں سب سے پہلے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے اِمتحانات اور رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام عباسی خلافت کے دور میں 931ء میں بغداد میں وضع ہوا جسے جلد ہی پورے عالم اِسلام میں نافذ کر دیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک جعلی حکیم کے ناقص علاج سے ایک مریض کی جان چلی گئی۔ اُس حادثے کی اِطلاع حکومت کو پہنچی تو تحقیقات کا حکم ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ اُس عطائی طبیب نے میڈیکل کی مروّجہ تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور چند ایک کتابوں کو پڑھ لینے بعد مطب (clinic) کھول کر بیٹھ گیا تھا۔
اُس حادثے کے فوری بعد حکومت کی طرف سے معالجین کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے ایک بورڈ بنایا گیا، جس کی سربراہی اپنے وقت کے عظیم طبیب ’سنان بن ثابت‘ کے ذمہ ہوئی۔ اُس بورڈ نے سب سے پہلے صرف بغداد شہر کے اطباء کو شمار کیا تو پتہ چلا کہ شہر بھر میں کل 1,000 طبیب ہیں۔ تمام اطباء کا باقاعدہ تحریری اِمتحان اور اِنٹرویو لیا گیا۔ ایک ہزار میں سے 700 معالج پاس ہوئے، چنانچہ رجسٹریشن کے بعد اُنہیں پریکٹس کی اِجازت دے دی گئی اور ناکام ہو جانے والے 300 اطباء کو پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔
عموماً انسانی جسم 105، 106 درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ٹمپریچر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر جسم انسانی کا درجۂ حرارت اِس سے بہت زیادہ تجاوز کر جائے تو فقط اُس کی حدت کی زیادتی کی وجہ سے بھی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں سب سے مفید علاج جلد از جلد درجۂ حرارت کو نیچے لانا ہے۔ طبِ جدید کی رُو سے ایسے مریض کے تمام جسم کو برف کے پانی سے بھگو دینا چاہئے، جسم پر گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھنی چاہئیں تاکہ اُن کی برودت سے جسم کا درجۂ حرارت نسبتاً کم ہو کر اِعتدال پر آ جائے۔
اس باب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی یاد رکھنے کے قابل ہے، اِرشادِ نبوی ہے :
الحمي من فيح جهنم، فابرودها بالماء.
(صحيح البخاري، 2 : 852)
بخار جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں :
إنّ شدة الحمي مِن فيحِ جهنم فابردُوها بالمآءِ.
(سنن ابن ماجه : 256)
(جامع الترمذي، 2 : 28)
بخار کی شدت جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
جب بیماری کی نوعیت بگڑ جائے اور عام علاج سے اِفاقے کی صورت ممکن نہ ہو تو ایسے میں بعض اَوقات آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قربان جائیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت پر کہ آپ نے چودہ سو سال قبل آپریشن کے ذریعے علاج کی بنیاد رکھی اور سرجری کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث جو سرجری کے باب میں مذکور ہیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أنّ النبي صلى الله عليه وآله وسلم احتجم ثلثاً في الاخدعين و الکاهل.
(سنن ابي داؤد، 2 : 184)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور اخدعین (گردن کے دونوں طرف کی رگوں) کے بیچ میں تین سنگی کھنچوائے۔
اِسی سلسلے میں ایک اور حدیثِ نبوی ہے :
عن ابن عباس قال : احتجم النبي صلى الله عليه وآله وسلم و هو صائم.
(صحيح البخاري، 2 : 849)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔
صحیح بخاری ہی میں مذکور ہے :
أنّ رسول الله احتجم و هو محرم في رأسه من شقيقة کانت به.
(صحيح البخاري، 2 : 850)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر میں دردِ شقیقہ کے علاج کے لئے حالتِ اِحرام میں پچھنے لگوائے۔
اِرشادِ نبوی ہے :
الشفاء في ثلاثةٍ : في شرطة محجمٍ، أو شربة عسلٍ، أو کيّة بنارٍ.
(صحيح البخاري، 2 : 848)
شفاء تین چیزوں میں ہے، پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ دلوانا۔
اگر اِسلامی طرزِ زندگی کو مکمل طور پر اپنایا جائے تو انسان بہت سی نفسیاتی بیماریوں پر بھی قابو پا سکتا ہے۔ اِسلامی طرزِ حیات اِنسان کو ذہنی تناؤ اور بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور اِنسان کو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِسلام نے انسان کو نفسیاتی دباؤ اور اُلجھنوں سے دُور رہنے اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنے پر بہت زور دیاہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.
(آل عمران، 3 : 134)
یہ وہ لوگ ہیں جو (معاشرے سے مفلسی کے خاتمے کے لئے) فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنّ الغضبَ من الشيطانِ، و إن الشيطان خُلِق من النار، و إنما تطفئ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلْيتوضّاء.
(ابوداؤد، 2 : 312)
غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے (تاکہ غصہ جاتا رہے)۔
غضب و غصہ پر قابو پانے سے اعصابی تناؤ اور ذہنی کھنچاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جو دِل کے امراض سے بچاؤ کی بھی ایک اہم صورت ہے۔ اِسی طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے اور دُوسروں کو معاف کر دینے کے عمل سے اِنسان کو رُوحانی خوشی و سرمستی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زندگی کی مسرّتیں اور رعنائیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔
حسد بہت سی ذہنی پریشانیوں کا منبع ہے، اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی سے حسد سے روکا ہے۔ تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے :
إياکم و الحسد، فإن الحسد يأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب.
(سنن ابي داؤد، 2 : 324)
اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، بیشک حسد تمام نیکیوں اور ثواب کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔
اِسی طرح لالچ اور خود غرضی بھی بہت سا ذِہنی تناؤ اور پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ اِن نفسانی آلائشوں سے بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے اور اُن کی بجائے اطمینان و سکون کی تلقین کی گئی ہے۔
اِسلام کی یہی تعلیم خوشگوار زندگی کی اَساس ہے جو پُرامن معاشرے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے لابدّی ہے۔ علاوہ ازیں زندگی کے ہر معاملے میں توازن پیدا کرنا چاہئے اور معمولاتِ حیات میں شدّت پیدا کرنے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے گریز بھی نہایت لازمی ہے۔
قرآنِ حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ.
(البقره، 2 : 185)
اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے دُشواری نہیں چاہتا۔
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
’’هلک المتنطّعون‘‘، قالها ثلاثاً.
(الصحيح لمسلم، 2 : 339)
’’مشکلات پر اِصرار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں‘‘۔ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔
اِسلام ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ بوجھ اپنے سر نہ لے۔ قرآن مجید میں ایک دعا کی صورت میں ارشاد ہوتا ہے :
رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَة لَنَا بِه.
(البقره، 2 : 286)
اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اِتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
اگرچہ اِسلام نے جسمانی محنت و مشقت کی بھرپور تائید کی ہے، تاہم اُس کی ساری تائید صرف اور صرف توازن اور میانہ روی کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہے۔ اسلامی طرز حیات میں سے یہ وہ چند مثالیں تھیں جو اِسلام کی تجویز کردہ، اَعصابی تناؤ سے آزاد اور متوازن زندگی کی تفصیل و توجیہہ بیان کرتی ہیں۔
دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering) کو خاص مقام حاصل ہے۔ کسی شخص کے جینز (genes) کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بے شمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid) کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلیے میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (Encyclopaedia Britannica) کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جاسکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جارہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن DNA کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اعمال طشت از بام کئے جاسکیں گے۔
یوں طبی میدان میں کی جانے والی سائنسی پیش رفت کا فرسِ تحقیق اِس رُخ پر گامزن ہے اور جس دن اِس ممکن نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا، دینِ اسلام کا ایک اور بنیادی ستون ’عقیدۂ آخرت‘ سائنسی توجیہ سے مزین ہو کر غیرمسلم محققین پر بھی اِسلام کی حقانیت آشکار کردے گا۔
روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیر اِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں! اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں جن کا جواب DNA تھیوری میں مل سکا ہے۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے :
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَO
(يٰسن، 36 : 65)
آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھےO
اِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
فيُختم علي فيه، و يُقال لفخذِه و لحمِه و عظامِه ’’انطقي‘‘، فتنطق فخذُه و لحمُه و عظامُه بعملِه.
(الصحيح لمسلم، 2 : 409)
پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی اِسی مضمون میں ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
إنّ أوّلَ عظم من الإنسان يتکلّم يومَ يختم علٰي الأفواه فخذُه من الرِّجل الشمالِ.
(الدرالمنثور، 5 : 62)
(جس روز منہ پر مہریں لگائی جائیں گی) اِنسان کے جسم کی سب سے پہلی ہڈی جو بولے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران کی (ہڈی) ہو گی۔
یہ مضمون متعدّد احادیثِ مبارکہ میں اِسی طرح درج ہے اور اِسے قرآنی تائید بھی حاصل ہے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسان کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔
آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی اُن جاہل کفار و مشرکین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بعض غیرمسلم اَقوام اور مغربی یلغار سے مرعوب بعض نام نہاد مسلمان اپنی کم عملی اور جہالت کی بناء پر بلاتحقیق اِسلام کے بنیادی عقیدے ’آخرت‘ کو مسلمانوں کی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر وہ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق و نظریات کا بخوبی مطالعہ کریں تو وہ اِس حقیقت پر پہنچیں گے کہ اِسلام ہی آفاقی سچائیوں سے معمور دین ہے۔ جو ہر شعبۂ زندگی میں اِنسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات جسمِ انسانی کے ہر خلیے میں اِتنی گنجائش ثابت کر چکی ہیں جہاں دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جاسکیں۔ بغیر خوردبین کے نظر نہ آسکنے والا معمولی خلیہ اپنے اندر اِتنی وسیع دُنیا لئے ہوئے ہے۔ روزِ آخر اللہ ربّ العزت کے حکم پر اِنسانی جسم کا ہر ہر خلیہ اپنی ساری سرنوشت زبانِ حال سے کہہ سنائے گا اور اِنسان کا سب کیا دھرا اُس کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر دے گا۔ یہ اِسلام کی تعلیم ہے اور اِسی طرف جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات پیش قدمی کر رہی ہیں۔
طبِ جدید کی اِن ساری تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشادات پر ایک نظر کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کے قول سے بڑھ کر حق کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ آج تک سائنس اور طب کی جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ بالآخر اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نبئ مختارِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات، خواہ وہ قرآن مجید ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ، مبنی برحق ہے اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے معاشروں کے لئے اُس سے رُوگردانی ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کا ہر لفظ رسولِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت پر دالّ ہے اور مُنکرینِ عظمتِ مصطفیٰ کے دِل و دِماغ پر ضربِ کاری ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved