جس طرح اِنسان کے جسمانی وُجود کی تکوِین و تکمیل کے لئے نظامِ ربوبیّت کے حسین و جمیل جلوے پوری آب وتاب کے ساتھ ہرجگہ اور ہر مرحلے پر کارفرما نظر آتے ہیں، یہی رنگ اور ڈھنگ اِنسان کے شعوری ارتقاء کے نظام میں بھی نظر آتا ہے۔ خلّاقِ عالم کے حسنِ ربوبیت نے اِنسان کی جسمانی ساخت اور پرورِش کی ذِمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اُس کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اُسے ایک مرحلہ وار نظامِ ہدایت سے بھی نوازا ہے، جس سے وہ اپنے ہر مرحلۂ حیات پر نہ صرف مختلف ضروریات و مقتضیات کو جانتا اور پہچانتا ہے بلکہ اُن کی تسکین و تکمیل کے لئے مختلف راستے اور وسائل بھی تلاش کرتا ہے۔ وہ جوں جوں عمر کے مختلف اَدوار طے کرتا چلا جاتا ہے اُس کی ضرورتیں بدلتی چلی جاتی ہیں، اُن میں تنوّع اور تسوّع کے ساتھ ساتھ مسلسل اِضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے سے موجود طبعی ذرائعِ ہدایت اُس کی نئی حاجات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ سو خود بخود اگلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں اور یوں اِنسان کا شعوری سفر اپنی منزل کی طرف جاری رہتا ہے۔ اِس شعوری پرورِش کی ذِمہ داری بھی ربِّ کائنات نے اپنے ذِمہ لے رکھی ہے اور وہ اُس کا آغاز بھی زمانۂ حمل سے کر دیتا ہے۔
جیسا کہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ رحمِ مادر میں اَعضائے جسمانی کی تشکیل و تکمیل کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائعِ ہدایت کی تکوِین کا سلسلہ بھی ایک خاص نظم و ترتیب سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ پیدائش کے بعد بھی ایک خاص نظم کے تحت مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جاری رہتا ہے۔
باری تعالیٰ نے اپنے نظامِ ربوبیت کا جلوۂ کمال اِنسانی زندگی کو مختلف قسم کی ہدایتوں سے سرفراز فرما کر دِکھایا ہے۔ اگر ماحولیاتی ضرورتیں، تقاضے اور حقائق کی نوعتیں جدا جدا ہوں مگر ذریعۂ ہدایت اور ماہیتِ ہدایت ایک ہی ہو تو صاف ظاہر ہے کہ یہ تقاضائے پرورِش ہے اور نہ روِشِ بندہ پروری۔
ربِّ کائنات نے اِنسان کو۔ ۔ ۔ بلکہ ہر ذِی رُوح کو۔ ۔ ۔ اُس کے حسبِ حال ذرائعِ ہدایت سے نوازا ہے۔ مطالعۂ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدایت بنیادی طور پر درج ذیل پانچ اَقسام پر مشتمل ہے، جبکہ آخری قسمِ ہدایت مزید تین صورتوں میں پائی جاتی ہے :
شبلی نعمانی اور ابوالکلام آزاد اِسے ہدایتِ وِجدانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بقول ابوالکلام وِجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی اِلہام موجودہے جو اُسے زندگی اور پرورِش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ خارجی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ بچہ اِنسان کا ہو یا حیوان کا، جونہی شکمِ مادر سے باہر آتا ہے خودبخود معلوم کر لیتا ہے کہ اُس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اُسے چوسنا چاہئے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، اُن کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں لیکن ماں جوشِ محبت میں اُنہیں چاٹ رہی ہے، وہ اُس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے اِس دُنیا میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے، جسے خارِج کے مؤثرات نے چُھوا تک نہیں، وہ کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اُسے پستان منہ میں لے لینا چاہئیں اور اُس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اُس وقت اُس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اِس طرح اپنی غذا حاصل کر لے؟ یقینا وہ فطری ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وہ فطری ہدایت ہے جو حواس و اِدراک کی روشنی نمودار ہونے سے بھی پہلے ہر مخلوق کو اُس کی پرورش و زِندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔
بلاشبہ یہ ربوبیتِ اِلٰہی کی فطری ہدایت ہے، جس کا اِلہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو اُن پر زندگی اور پرورِش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ذِی رُوح کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے :
رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىO
(طهٰ، 20 : 50)
ہمارا ربّ وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اُس کے لائق) وُجود بخشا، پھر (اُس کے حسبِ حال) اُس کی رہنمائی کیo
ہدایت کا دُوسرا مرتبہ حواس اور مدرِکاتِ حسّی کی ہدایت ہے اور وہ اِس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اُس جوہرِ دِماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم قدرت نے اُنہیں اِحساس و اِدراک کی وہ تمام قوّتیں دے رکھی ہیں جن کی زِندگی و معیشت کے لئے ضرورت تھی اور اُن کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، توالد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ اِنجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و اِدراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لئے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وُجود کو اُتنی ہی اور ویسی ہی اِستعداد دِی گئی ہے جتنی اور جیسی اِستعداد اُس کے اَحوال و ظروف کے لئے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوتِ شامّہ نہایت دُور رس ہوتی ہے، اِس لئے کہ اُسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر اُن کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اُڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔
یہ ہدایت جو حواسِ خمسہ کے ذرِیعے میسر آتی ہے، اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’سمع‘ و ’بصر‘ کے حوالے سے یوں کرتا ہے :
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاًO
بني اسرائيل، 17 : 36)
بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گیo
وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ.
(ملک، 67 : 23)
اور اُس نے تمہاری رہنمائی کے لئے کان، آنکھیں اور دِل و دماغ پیدا فرمائے۔
ہدایتِ عقلی عقل اور فہم و تدبّر سے میسر آتی ہے۔ اِس کا ذِکر قرآنِ مجید قلب، عقل، فؤاد اور تعقّل وتدبّر کے الفاظ میں کرتا ہے۔ چنانچہ جا بجا اِرشاد ہوتا ہے :
أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ؟
تم غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُوْنَ؟
وہ تدبر اور بصیرت سے کام کیوں نہیں لیتے؟
ہدایتِ قلبی تزکیۂ نفس کے ذریعے دِل کی صفائی اور باطنی روشنی سے میسر آتی ہے۔ اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’علمِ لدُنی‘ کے اَلفاظ میں کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے :
آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًاO
(الکهف، 18 : 65)
ہم نے اُسے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے اپنا علمِ لدُنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھاo
یہاں تک ہدایت اور رہنمائی کی جتنی صورتیں بھی بیان ہوئیں سب ظنّی تھیں اور اُن میں خطا کا اِحتمال باقی تھا۔ اُن سے حاصل ہونے والا علم یقینی اور قطعی نہیں ہو سکتا۔ اُس سے حاصل ہونے والے نتائج خواہ کتنے ہی صحیح کیوں نہ ہوں لیکن غلطی کا اِمکان پھر بھی باقی رہتا ہے کیونکہ اُن میں اِنسانی کسب کو دخل حاصل ہے۔
اس کی مزید تین قسمیں ہیں :
یہ وہ یقینی ہدایت ہے جو انبیائے کرام کو بصورتِ وحی عطا ہوتی ہے اور اُن کے ذریعے وہ عام اِنسانوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے :
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا.
(السجده، 32 : 24)
اور ہم نے ان میں سے پیشوا یعنی انبیاء مبعوث کر دیئے جو انہیں ہمارے حکم کی رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
اِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا :
قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
(البقره، 2 : 265)
بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔
فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
(الکهف، 18 : 29)
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے اِنکار کر دے۔
ایک اور مقام پر اِس ہدایت کا ذکر یوں کیا گیا :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًاO
(الدهر، 76 : 3)
بیشک ہم نے اُسے سیدھی راہ دِکھا دی ہے، اَب چاہے وہ مان لے یا اِنکار کر دےo
یہ ہدایت تمام بنی نوع اِنسان کے لئے ہوتی ہے۔ اِس میں کسی کو اِمتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ تمام انبیائے کرام کی دعوت اِسی ہدایت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے قرآن خود کو ’’ھُدیً لِّلنَّاسِ‘‘ کہتا ہے، کہ یہ قرآن تمام اِنسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی تمام اِنسانوں کو بلا اِمتیازِ رنگ و نسل نورِ ہدایت مہیا کرتا ہے اور ہر ایک کو جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کے اُجالوں کی طرف لے آتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ایک کو زِندگی کا مقصد اور منزل کا شعور عطا کرتی ہے۔ اسے ہدایتِ عامہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ ہدایتِ ربانی کا دُوسرا درجہ ہے، جو ہدایتِ عامہ کے بعد بالخصوص اہلِ ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ انبیاء کی دعوت پر اِیمان لانے کے بعد سعادتِ اُخروِی کی منزلِ مقصود کے حصول کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اُنہیں باری تعالیٰ اِس خاص ہدایت کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ ہدایت اُس راستے کی مفصل نشاندہی پر مبنی ہوتی ہے جو اصل منزل تک پہنچاتا ہے۔
اس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے :
وَمَن يُؤْمِن بِالله يَهْدِ قَلْبَهُ.
(التغابن، 64 : 11)
اور جو کوئی اللہ پر اِیمان لے آئے اُس کے دِل کو صحیح رہنمائی عطا کر دی جاتی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ.
(يونس، 10 : 9)
بیشک جو لوگ اِیمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّاُن کے اِیمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ ہدایت کا وہ مقام ہے جو صرف ایمان اور اَعمالِ صالحہ کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
مزید اِرشاد فرمایا گیا ہے :
فَهَدَى اللهُ الَّذِينَ آمَنُواْ.
(البقره، 2 : 213)
پھر اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کو ہدایت دی۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت، 29 : 69)
جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم یقیناً اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
یہ ہدایتِ عامہ سے بلند ہدایت ہے جو ہر شخص کے لئے مقرّر نہیں۔ یہ صرف اُنہی لوگوں کے لئے خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔
اِرشاد فرمایا گیا :
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى.
(محمد، 47 : 17)
اور جن لوگوں نے ہدایت پائی، اللہ نے اُن کی ہدایت میں مزید اِضافہ کر دیا۔
یہ وہ آخری اور حتمی ہدایت ہے جس میں منزلِ مقصود تک کامیابی و کامرانی کے ساتھ پہنچنے کی قطعی ضمانت عطا کی جاتی ہے۔ یہ ہدایت عام اہلِ اِیمان کے لئے بھی نہیں بلکہ صرف اُن مومنوں کے لئے ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ اِس میں نہ صرف منزلِ مقصود کی روشنی مہیا کی جاتی ہے اور اُس کے راستے کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ راہِ حق کے مسافروں کو خیر و عافیت کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ رہنمائی کی سب سے اعلیٰ صورت ہے جس کی ضمانت قرآنِ مجید کے علاوہ دُنیا کی کوئی اور کتاب مہیا نہیں کر سکتی۔
اِس کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کیا گیا ہے :
سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْO
(محمد، 47 : 5)
اللہ تعالیٰ عنقریب اُنہیں اپنی منزل تک پہنچائے گا اور اُن کا حال سنوار دے گاo
اِسی طرح اہلِ جنت اپنی منزل ’جنت‘ کو پاکر کہیں گے :
الْحَمْدُ ِللهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـذَا.
(الاعراف، 7 : 43)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔
قرآنِ حکیم اپنی رہنمائی کے اِس درجے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں بھی کرتا ہے :
إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ.
(بني اسرائيل، 17 : 9)
بیشک یہ قرآن اُس (منزل) کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درُست ہے۔
ہدایتِ اِیصال کے میسر آ جانے کے بعد گمراہی کا کوئی اِمکان باقی نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ نظامِ ربوبیت نے اِنسان کو اپنے گرد و پیش اور ماحول سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائعِ علم و ہدایت سے نوازا ہے۔ اُسے سوچنے کے لئے طاقتور دِماغ، دیکھنے کے لئے صاف شفاف آنکھیں، سُننے کے لئے حسّاس کان، چکھنے کے لئے زبان، سُونگھنے کے لئے ناک، چُھونے کے لئے ہاتھ اور اِحساسِ لمس کے لئے اَعصاب بخشے گئے ہیں۔ اِن ذرائعِ علم کو عقل اور حواس کہا جاتا ہے۔ یہ اُس ذاتِ برحق کی عنایت ہے کہ اُس نے اِن ذرائع کو بالعموم ہر اِنسان کے لئے کھلا رکھا ہے، اُنہیں محدُود اور مسدُود نہیں فرمایا۔
اِنسان کو ذرائعِ علم عطا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے کائنات میں زندگی بسر کر سکے مخلوقات اور اُن کے خواص و اَوصاف کو جانے، اُن کی حقیقتوں کا اِدراک کرے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مختلف زاویوں سے غوروفکر کر سکے۔
اِس مقصد کے لئے بلاتمیز رنگ ونسل، اِنسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں اُنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
حواس کی پہلی قسم حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتی ہے، جن کی تعداد پانچ ہے اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ تکمیلی مراحل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ پانچ ذرائعِ علم ہیں جن کی بدولت اِنسان اپنے گرد و پیش اور ماحول سے اپنا اِدراکی تعلق قائم کرتا ہے، مگر یہ حواس صرف ظاہری دُنیا (physical world) کی حقیقتوں کو جاننے اور اُن کا اِدراک کرنے تک محدُود رہتے ہیں۔ یہ حواس اِنسانی ذِہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے پر مامور ہیں۔ ’قوتِ لامسہ‘ کا کام کسی چیز کو چُھو کر یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے؟ نرم و گداز ہے یا سخت اور کھردری ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز غیر مادّی جسم رکھتی ہے تو ہاتھ کوشش کے باوُجود اُس کے وُجود کا سُراغ نہیں لگا سکتے۔ اِسی طرح ’قوتِ باصرہ‘ کا کام مرئی اشیاء کو دیکھنا اور اُن کے وُجود کا سراغ لگانا ہے۔ لیکن آنکھ اُسی وقت جسم کا سُراغ لگا سکتی ہے جب کوئی چیز دیکھے جانے کے قابل ہو۔ اگر کوئی چیز غیرمرئی ہے تو اُسے ’قوتِ باصرہ‘ معلوم نہیں کر سکتی۔ علیٰ ھٰذا القیاس ’قوتِ سامعہ‘ کا کام آواز کا پتہ لگانا ہے۔ خوشبو یا بدبو کو ’قوتِ شامہ‘ کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ مٹھاس یا کڑواہٹ کا اِحساس ’قوتِ ذائقہ‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
آنکھ کے دائرۂ بصارت میں آنے والی کوئی چیز کسی اور حسّ کے ذریعے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی قوّتِ سامعہ مفقود ہو جائے تو وہ بقیہ چاروں حواس کو آزمانے کے باوُجود آواز کا سُراغ لگانے سے قاصِر رہتا ہے۔ اگر زبان ذائقے کا پتہ نہ چلا سکے تو آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوُجود انسان مختلف ذائقوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ روزمرّہ زندگی میں عام مشاہدے میں آنے والی یہ حقیقت ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے۔
اَب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ اور حلقہ ہوتا ہے۔ جو اشیاء حواسِ ظاہری کے ذرِیعے معلوم کی جاتی ہیں اُنہیں ’اِدراکاتِ حسّی‘ کہتے ہیں۔ جو شئے جس حاسّے کے دائرہ کار میں آتی ہے اُسے ہمیشہ اُسی حاسّے کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اُس حاسّے کے بجائے اُس پر دُوسرے حواس آزمائے جائیں تو لاکھ کوشش کے باوُجود اُس چیز کی صحیح ماہیت اور ہیئت کا اِدراک ناممکن ہوتا ہے۔
آواز کو کان کے ذرِیعے معلوم کیا جائے تو وہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔ رنگوں کو آنکھوں کے ترازو میں تولا جائے تو اُن میں اِمتیاز کیا جا سکتا ہے۔ خوشبو کو قوتِ شامّہ کے ذرِیعے معلوم کیا جائے تو وہ اِنسانی اِدراک میں سما سکتی ہے، لیکن مذکورہ بالا حواس کے علاوہ اُسی چیز کو کسی دُوسرے حاسّے کی مدد سے جاننے کی کوشش بے کار ثابت ہو گی۔ طے یہ پایا کہ اگر کوئی وُجود دُنیا میں موجود ہے مگر اُسے معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہیں تو پھر باقی سارے حواس آزمانے کے باوُجود اُس وُجود کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِس بات کو ذِہن نشین کرانے کے لئے بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ پانچ اندھے تھے۔ اُنہوں نے ساری زندگی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ ہاتھی کو اُن کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا اور ہر ایک سے کہا گیا کہ باری باری ہاتھ سے چُھو کر بتاؤ کہ ہاتھی مجموعی طور پر کیسا ہوتا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اُس ہاتھی کو جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ اِس کوشش کے نتیجے میں ایک نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے پیٹ پر پڑا، اُس نے کہا ہاتھی تو دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نابینا نے اپنا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر رکھا تو اُس نے خیال کیا کہ ہاتھی تو ستونوں کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نے ہاتھی کے کان کو ٹٹولا تو اُس نے گمان کیا کہ ہاتھی تو پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک نے سُونڈ پر ہاتھ لگایا تو اُس نے کہا کہ ہاتھ تو رَسّے کی مانند ہوتا ہے۔
الغرض پانچوں نابینا اپنے تمام تر حواس آزمانے کے باوُجود اِتنے بڑے وُجود (ہاتھی) کے صحیح اِدراک سے قاصر رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ جس حاسّے کی مدد سے اُس وُجود کو جانا جا سکتا تھا، یہ لوگ اُس سے محروم تھے اور اُس کی عدم موجودگی میں دُوسرے تمام حواس آزمانے کے باوُجود اُنہیں ہاتھی کی شکل و صورت معلوم نہ ہو سکی۔
اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ :
اولاً : حواس خمسہ ظاہری صرف طبیعی دُنیا (physical world) کی اشیاء کا اِدراک کر سکتے ہیں، جس میں مادّہ اور توانائی دونوں شامل ہیں۔
ثانیاً : ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ جو چیز اُس دائرے میں آ جائے وہ حس فقط اُسی کو محسوس کر سکتی ہے، لیکن جو چیز اُس حس کے دائرے سے باہر ہو اُس شے کا صحیح اِدراک باقی تمام حواس مل کر بھی نہیں کر سکتے۔
ایک اور قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اگر حواس درُست اور سلامت ہوں لیکن اُنہیں عقل کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ پانچوں حواس کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرنے کے باوُجود اِنسان کو کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ اُن سے حاصل شدہ مواد خام مال (raw material) یا اِدراک (perception) تو کہہ سکتے ہیں، علم (knowledge) ہرگز نہیں قرار دے سکتے۔ یہ اِدراک اور اِحساس اُس وقت علم کا رُوپ اِختیار کرتا ہے جب آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت، ہاتھوں کے لمس اور زبان کے ذائقے کا تاثر عقل پر وارِد ہو اور عقل اُس اِدراک کو منظم کرتے ہوئے اُس سے صحیح نتائج اَخذ کر کے اِنسانی جستجو کو خاص نہج عطا کر دے۔
اِنسانی جسم کے جس حصے میں یہ عمل تکمیل پذیر ہوتا ہے، اُسے دِماغ کہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے بذاتِ خود عقل کو ایک بہت بڑا کارخانہ (factory) بنا دیا ہے۔ جس طرح حواسِ ظاہری کے پانچ الگ الگ حصے ہیں، اُسی طرح عقل کے بھی پانچ الگ الگ گوشے ہیں۔ عقل کے یہ تمام حصے نہایت نظم و ضبط اور باہمی اِفہام و تفہیم سے کام کرتے ہیں۔ حواسِ خمسہ ظاہری جو کچھ محسوس کرتے ہیں اُس کے تاثرات جوں کے توں دِماغ تک پہنچا دیتے ہیں۔ عقل اپنے پانچوں شعبوں کی مدد سے اُن تاثرات سے صحیح نتیجہ اَخذ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کان نے کیا سنا؟ ہاتھوں نے کیا چُھوا، زبان نے کون سا ذائقہ چکھا اور آنکھ نے کیا دیکھا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن حواس کا کام دِماغ کے لئے معلومات کا خام مواد تیار کرنا ہے، اُن محسوسات کو سمجھنا نہیں۔ کان بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ سُنے ہوئے الفاظ کا مطلب کیا ہے، آنکھ بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ سرخ اور سبز رنگ میں کیا فرق ہے، ہاتھ اور زبان خود یہ نہیں بتا سکتے کہ فلاں چیز نرم ہے یا سخت، میٹھی ہے یا کڑوی، آخری فیصلہ عقلِ انسانی صادِر کرتی ہے حواسِ خمسہ نہیں۔ گویا علم کی آخری صورت گری عقل سے ہوتی ہے حواسِ خمسہ ظاہری سے نہیں۔
حواسِ خمسہ ظاہری کا دائرۂ کار جہاں مادّی اور طبیعی دُنیا (physical world) تک محدُود ہے اور غیر مادّی اَشیاء کا اِدراک حواسِ ظاہری کے ذرِیعے ناممکن ہے وہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اِنسانی حواس کی معلوم کردہ اشیاء کو اگر عقلِ اِنسانی منظم اور مربوط نہ کرے تو حواسِ خمسہ کے کسی قسم کے تاثرات علم کا رُوپ نہیں دھار سکتے۔
جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے قدرت نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں، اِسی طرح عقلِ اِنسانی میں بھی پانچ مُدرِکات پیدا کئے گئے ہیں جنہیں ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے :
1۔ حسِ مشترک اِنسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تاثرات کو وصول کرتا ہے۔ حواس کے اوّلین تاثرات اِس حصۂ عقل میں پہنچ کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اِنسانی عقل کے اُس حصے پر اُس کی تصویر مرتسم ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے اِسے ’لوحُ النفس‘ بھی کہتے ہیں۔
2۔ حسِ خیال حسِ خیال کا کام یہ ہے کہ وہ حسِ مُشترک میں پہنچنے والی مُدرِکات اور محسوسات کی تصاوِیر اور شکلوں کی ظاہری صورت کو اپنے اندر محفوظ کرلیتی ہے۔ مثلاً جب ہم لفظ ’’میں‘‘ بولتے ہیں، تو اُس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’میم‘، ’ی‘ اور ’نون غنہ‘ ہے۔ چنانچہ اُس کے ظاہر کا یہ تاثر حسِ مشترک پر منعکس ہوتا ہے اور یہ تاثر بصورتِ تصویر ’حسِ خیال‘ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
3۔ حسِ واہمہ جس طرح محسوسات کی ظاہری شکل و صورت کو ’حسِ مشترک‘ نے حواسِ ظاہری سے وُصول کیا تھا اور ’حسِ خیال‘ نے اُسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا تھا، اُسی طرح ’حسِ واہمہ‘ مدرِکات حِسّی کے معنٰی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا اِدراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اپنے سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے، جسے ’حافظہ‘ کہتے ہیں۔
4۔ حسِ حافظہ یہاں محسوسات کے مفہوم یعنی معنوی وُجود کو اِس طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے جیسے اُن کی ظاہری شکل کو ’حسِ خیال‘ میں محفوظ کیا گیا تھا۔
5۔ حسِ متصرّفہ پانچویں اور آخری باطنی حس ’متصرّفہ‘ کہلاتی ہے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور ’حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ یوں اِنسان مختلف اَلفاظ سن کر اُن کا مفہوم سمجھنے، مختلف رنگ دیکھ کر اُن میں تمیز کرنے اور مختلف ذائقے چکھ کر اُن میں فرق معلوم کرنے پر قادِر ہو جاتا ہے۔
اِس طرح یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک خاص نقطے تک پہنچتے ہیں۔ جسے ’علم‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اِدراک ’علم‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر یہاں ’حسِ مشترک‘ موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس بے بس ہو کر رہ جائیں۔ اگر اُن میں ’حسِ واہمہ‘ صحیح نہ ہو، تو ہم سب کچھ دیکھیں گے لیکن جان کچھ نہ سکیں گے۔ آواز تو سنائی دے گی مگر اُس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکے گا۔ چیز کو ہاتھوں سے چُھوا تو جا رہا ہو گا مگر نرم اور سخت چیزوں میں کوئی اِمتیاز نہیں کیا جا سکے گا۔
اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرِکات اِن پانچوں حواسِ باطنی سے گزر کر ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں اُس وقت تک حواسِ ظاہری کے ذرِیعے محسوس کئے جانے والے تمام مادّی حقائق علم کی شکل اِختیار نہیں کر سکتے۔ گویا حواسِ خمسہ ظاہری کسی شئے کو محسوس تو کرتے ہیں، اُسے معلوم نہیں کر سکتے۔
دُوسری طرف عقل اور اُس کے پانچوں باطنی حواس مکمل طور پر ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔
اگر کسی بچے کی پرورش کا آغاز اُس کی پیدائش کے معاً بعد ایسے مقام پر کیا جائے جہاں کوئی آواز اُس کے کان میں نہ پڑنے پائے تو وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جانے پر بھی کچھ بول سکے گا اور نہ سمجھ سکے گا۔ وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں یہ دراصل اُن آوازوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظے میں محفوظ کر لیا۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اُس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اُس کا دِماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا اِسی طرح اُس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔
اَب یہ طے پا گیا کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ جو حقیقت ہماری باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ قوتوں کی دسترس سے باہر ہو اُس کا اِدراک عقل بھی نہیں کر سکتی۔ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اور عقل کے بغیر سارے کے سارے حواس عبث و بے کار ہیں۔ پس انسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں، وہ ایک دُوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لئے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ اور ’حواسِ خمسہ باطنی‘ (عقل) کی فعّالیت کے باوُجود اِنسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات تشنۂ طلب رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اِنسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اِنسان کو کس نے پیدا کیا؟ اِنسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آغازِ کائنات کیسے ہوا اور اُس کا اِختتام کیسے اور کب ہو گا؟ اِس کائنات سے اُس کا تعلق کیا ہے؟ اِس کائنات میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے قانون کی پاسداری کی جائے؟ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری؟ ظلم کیا ہے اور اِنصاف کیا؟ مرنے کے بعد اِنسان کہاں جاتا ہے؟ آیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے؟ اگر وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے تو اِس نظامِ زندگی کا مفہوم کیا ہوا اور اگر مرنے کے بعد نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی کیفیت کیا ہے؟ مزید یہ کہ مرنے کے بعد اُس سے کوئی جواب طلبی بھی ہو گی یا نہیں؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو اِنسانی ذِہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس اگر اِنسانی زندگی بامقصد ہے تو اِنسان کو اِن سوالوں کے تسلی بخش جواب چاہئیں۔ جب یہ تمام سوالات اِنسانی عقل پر دستک دیتے ہیں تو اِنسان اُن کے جواب کے لئے اپنی ’آنکھوں‘ کی طرف رُجوع کرتا ہے۔ وہ جواب دیتی ہیں کہ ہم تو خود تیرے باعث معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ ۔ ۔ ہم تیری تخلیق سے پہلے کا حال کیونکر جان سکتی ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنے ’کانوں‘ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔ کان گویا ہوتے ہیں کہ ہمارا وُجود خود تیری ہستی کا رہینِ منت ہے۔ ۔ ۔ جو اشیاء ہمارے دائرۂ اِدراک سے ماوراء ہیں، ہم اُن کا جواب کیسے دے سکتے ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ شامہ‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یہ حقائق سونگھنے سے معلوم نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ میں اِن سوالات کا جواب کس طرح دُوں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ ذائقہ‘ سے پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے کہِان ماورائی حقیقتوں کو چکھا نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔ میں بھی مجبور ہوں۔ ۔ ۔ پھر اِنسان اپنی ’قوتِ لامسہ‘ سے سوال کرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ میں اِن اَحوال کو چھو نہیں سکتی۔ ۔ ۔ اُن کی نسبت کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ !
الغرض اِنسان نے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دِی۔ ۔ ۔ اُن میں سے ہر ایک سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا خالق کون ہے۔ ۔ ۔ ؟ زِندگی کا مقصد کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مجھے مرنے کے بعد کہاں جانا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مگر اِنسانی حواس اِنتہائی درماندگی کا اِظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حقائق کوئی آواز نہیں کہ ہم سُن کر بتا سکیں، کوئی رنگ نہیں کہ دیکھ کر جواب دے سکیں، مادّی اَجسام نہیں کہ چُھو کر فیصلہ صادِر کر سکیں۔ یوں اِنسانی حواس کی بے بسی اور عاجزی پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے اِنسان کی اَخلاقی و رُوحانی اور اِعتقادی و نظریاتی زِندگی تشکیل پاتی ہے، وہ پانچوں حواس کی زد سے ماوراء ہیں، تب اِنسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُس کا دامن جھنجھوڑ کر کہتا ہے، اے میرے وُجود کے لئے سرمایۂ اِفتخار چیز!۔ ۔ ۔ میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق مجھے تمام حواس نے مایوس کر دیا۔ ۔ ۔ اَب تو ہی اِس سلسلے میں میری رہنمائی کر۔ ۔ ۔ مگر عقل بھی اپنے پانچوں حواسِ باطنی کی بے بسی کا اِظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اِنسان! میں تو خود تیرے ’حواسِ ظاہری‘ کی محتاج ہوں۔ ۔ ۔ جو چیز حواسِ خمسہ ظاہری کے اِدراک میں نہیں آ سکتی اُس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادِر کر سکتی ہوں!۔ ۔ ۔ اگر ظاہری حواس خاموش ہیں تو میرے باطنی حواس کو بھی بے بس و مجبور سمجھ۔ ۔ ۔ اور یوں اِنسان کے ظاہری و باطنی تمام حواس قطعی طور پر اپنی تنگ دامانی کا اِعتراف کر لیتے ہیں۔
اِن تمام حواسِ ظاہری و باطنی کے علاوہ بھی اللہ ربُّ العزت نے اِنسان کو ذریعۂ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کر رکھا ہے، جسے ’وِجدان‘ (intuition) کہتے ہیں۔ ’وِجدان‘ بعض ایسے حقائق کا اِدراک کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جن میں حواسِ ظاہری و باطنی ناکام رہ جاتے ہیں۔
وِجدان کے بھی پانچ ہی گوشے ہیں جنہیں ’لطائفِ خمسہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے :
اِن لطائف کے ذرِیعے اِنسان کے دِل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، رُوح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں اِنسانی قلب بعض اَیسی حقیقتوں کا اِدراک کرنے لگتا ہے جو حواس و عقل کی زد میں نہیں آ سکتے لیکن اِنسانی وِجدان کی پرواز بھی محض طبیعی کائنات تک ہی محدُود ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلے میں اِرشاد فرماتے ہیں :
وَ وراءُ العقل طورٌ أخر، تنفتح فيه عين أُخريٰ، فيبصربها الغيب و ما سيکون في المستقبل و أُموراً أخر، العقل معزول عنها.
(المنقذ من الضلال : 54)
اور عقل کے بعد ایک اور ذرِیعہ ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس کے ذرِیعے غیبی (اوجھل اور مخفی) حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جاسکتا ہے اور اُن دِیگر اُمور کو بھی جن کے اِدراک سے عقل قاصر رہتی ہے۔
وِجدان طبیعی کائنات کے مخفی حقائق کا اِدراک کرنے پر قادِر ہے لیکن وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی وُ سعتوں سے ماوراء ہیں، جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں اور اِنسانی تخلیق اور اُس کے مقصدِ تخلیق، نیز اُس کی موت اور مابعدالموت سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے بارے میں حتمی اور قطعی علم کے سلسلے میں وِجدان بھی ’حواس خمسہ ظاہری‘ اور ’عقل‘ کی طرح قاصر ہے۔ اِنسان نے یکے بعد دِیگرے تینوں ذرائعِ علم کے دروازوں پر دستک دی، اُن میں سے ایک ایک کو پکارا مگر ہر ایک نے اُسے مایوس کر دیا۔ کوئی بھی ذرِیعہ اُس کے علم کو حتمیت اور قطعیت نہ دے سکا۔ اب اِنسان خدا کی ذات کو پکارتا اُٹھتاہے :
اے ربِّ کائنات! میں خود اپنی ذات، اِس کائنات اور تیری ذات کو یقینی طور پر سمجھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذرِیعہ نہیں جو مجھے مطمئن کر سکے۔ اس لئے اس کائنات میں میرے لئے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، علم کا کوئی ایسا منبع تخلیق کر دے، جو مجھے اِن حقائق کے بارے میں حقیقی آگہی بخش سکے۔ جہاں تمام حواس ناکام ہوجائیں، وہاں اُسے پکارا جا سکے، جہاں اِنسانی عقل خیرہ ہو جائے وہاں اُس سے مدد کی درخواست کی جا سکے، جہاں اِنسانی وِجدان بھی نامراد لوٹ آئے وہاں اُس سرچشمۂ علم سے فیضان کی بھیک مانگی جائے۔
اِنسان جب پوری طرح اپنی علمی بے بسی اور فکری کم مائیگی کا اِعتراف کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ندا آتی ہے : اَے اِنسان!۔ ۔ ۔ تو نے اپنے علم اور اپنے ذرائع کی بے بسی کا اِعتراف کر لیا۔ ۔ ۔ ہم تجھے یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ تو کہیں اپنے حواس وعقل اور کشف و وجدان کی بدولت یہ تصوّر نہ کر بیٹھے کہ میرا علم درجۂ کمال کو پہنچ گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا علم ابھی کائنات کی حقیقتوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔ ۔ ۔ ۔ اِسی لئے قرآنِ مجید میں رُوح کی حقیقت پر بحث کے دوران میں اِرشاد فرمایا گیا :
وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاًO
(الاسراء، 17 : 85)
اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہےo
اے اِنسان! تُجھے جس سرچشمۂ علم کی تلاش تھی وہ ہم نے نظامِ نبوّت و رسالت کی صورت میں اِس کائنات میں قائم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ جا دروازۂ نبوّت پر دستک دے۔ ۔ ۔ اُسی چوکھٹ سے رہنمائی طلب کر۔ ۔ ۔ علمِ نبوّت کے فیضان سے یہ تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ علمِ نبوّت اور ہدایتِ ربانی نے بالآخر اِنسان پر وہ عظیم اِحسان کیا ہے کہ جس کی بدولت اُس کے شعوری، علمی اور فکری اِرتقاء کا سفر اپنی منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ یہ سب کچھ ربوبیتِ اِلٰہیہ کا پرتو تھا، جس نے اِنسان کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اُس کی شعوری اور فکری وعلمی نشو و نما کا بھی سامان مہیا کر دیا، ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے لاعلمی اور جہالت کا شکار رہتا۔ اُسی ربِّ کریم کی شانِ ربوبیت نے اُسے سنبھالا دیا اور اُس کا فکر و شعور اپنے ساحلِ مراد تک پہنچنے کے قابل ہوا۔ اِس آخری ہدایت کے بغیر اِنسانی فکر و شعور ’حسیت‘، ’عقلیت‘ اور ’تشکیک‘ کے بھنوروں سے نکل کر بالآخر ’لااَدریت‘ کے دامن میں اِعترافِ ناکامی کر کے سستانے لگا تھا اور اِس امر کا برملا اِعلان کر رہا تھا کہ انسان حقیقتِ علیا (ultimate reality) کو نہیں جان سکتا اور حسنِ مطلق (absolute reality) کی جلوہ ریزیوں سے شادکام نہیں ہو سکتا کہ اُسے یکایک ندا سنائی دی : ۔ ۔ ۔ ’’لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہ‘‘ (اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو)۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری جبلی، طبعی، حسی، عقلی اور قلبی و وِجدانی اِستعداد نے تمہیں جواب نہ دیا تو کیا ہوا، ربِّ کریم کی رحمت کا دروازہ تو بند نہیں ہوا۔ آ ہم تجھ پر اپنی ہدایت کا دروازہ کھولتے ہیں اور وہ ہے ’’بابِ نبوّت‘‘ جس کی دہلیز پر سرِ تسلیم خم کرنے سے تجھے وحئ اِلٰہی کے نورِ علم سے یوں سرفراز اور منوّر کیا جائے گا کہ تیرے فکر و شعور کی ساری منزلیں قیامت تک اُسی روشنی میں طے ہوتی رہیں گی۔ اِس فیضانِ نبوت کے ذرِیعے تیری تمام مایوسیاں ہمیشہ کے لئے ختم کر دِی جائیں گی۔ پھر تیرا فکری اِرتقاء اِس ’علم بالوحی‘ کی روشنی میں ہمیشہ صحیح سمت میں اِس طرح جاری رہے گا کہ اُس میں کبھی تعطل نہ آ سکے گا۔
اِنسانی زندگی کا فکری و شعوری اِرتقاء کے سلسلے میں اللہ ربّ العزت نے حواسِ خمسہ ظاہری، عقل کے حواسِ خمسہ باطنی اور وِجدان کے لطائفِ خمسہ کو پروان چڑھایا اور اُنہیں حقیقت تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بنایا۔ تاہم جو حقائق اُن کی حدود سے ماوراء ہیں اُن کے لئے علم بالوحی کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اُن حقائق سے آگہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے اِنسانیت کو ہدایت بخشی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved