’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking) دورِ حاضر میں طبیعیات (physics) کا عظیم سائنسدان ہے۔ اِنعقادِ قیامت کے حوالے سے اُس کی تحقیقات نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہیں۔ وہ سیاہ شگاف کو قیامت کی ایک ممکنہ شکل قرار دیتا ہے۔ ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کی اِصطلاح فزکس کی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں۔ اسے 1969ء میں ایک امریکی سائنسدان ’جان وِیلر‘ (John Wheeler) نے ایک ایسے تصوّر کی جدوَلی صراحت کے لئے وَضع کیا جو کم از کم 200 سال پرانا ہے۔ اُس وقت جبکہ روشنی کے بارے میں کوئی موجودہ نظریات نہیں پائے جاتے تھے۔ قدیم نظریات میں سے ایک نظریہ تو ’نیوٹن‘ کا تھا کہ روشنی ذرّات سے بنی ہے اور دُوسرے کے مطابق یہ لہروں پر مشتمل ہے۔ آج ہم اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دونوں نظریات اپنی جگہ درُست ہیں۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کی لہروں اور ذرّات کی ثنوِیت کی وجہ سے روشنی کو لہر اور ذرّہ دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
جب سورج سے 20 گنا بڑا کوئی ستارہ 3,50,00,00,000 سینٹی گریڈ کے حامل ’عظیم نوتارہ‘ (supernova) کی صورت میں پھٹتا ہے تو اُس کا باقی ماندہ ملبہ اِتنا بڑا قالب ہوتا ہے کہ جو عام طور پر ایک ’نیوٹران ستارے‘ کا آخری مرحلہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اُس کی کشش اِس قدر زیادہ ہو کہ وہ ناقابلِ تصوّر حد تک ہر شے کو اپنے اندر گِراتا چلا جائے۔ جوں جوں اُس کی کثافت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں اُس کی قوّتِ کشش میں اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ روشنی سمیت کوئی شے بھی اُس کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ اسی کو ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کہتے ہیں۔ سیاہ شگاف کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر لامحدُود کثافت کا حامل ہو جاتا ہے جبکہ اُس کا حجم صفر ہوتا ہے۔ اُسی نقطہ کو ’اِکائیت‘ (singularity) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’فلکی طبیعیات‘ (astrophysics) کے جدید نظریات کی رُو سے اِتنے کثیف ستارے کے قالب کو اپنی ہی کشش کے تحت ہونے والی غیرمتناہی اندرونی تباہی سے روکنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ سیاہ شگاف پائے جانے کا اِمکان ہے جو عظیمُ الجثہ ستاروں کے عظیم نوتارہ (supernova) دھماکوں سے معرضِ وُجود میں آئے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود اَجرامِ سماوِی میں اِعتدال و توازُن اِنہی سیاہ شگافوں کی بدولت قائم ہے۔
سیاہ شگاف بننے کے عمل کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں کسی بھی ستارے کی آغاز تا اِنجام زِندگی کا پورا چکر (life-cycle) سمجھنا ہو گا۔ سِتارہ اِبتدائی طور پر ایسی گیس۔ ۔ ۔ جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ کی ایک بہت بڑی مقدار کے کششِ ثقل کے باعث سُکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اُس گیس کے ایٹم آزادانہ اور تیز ترین رفتار کے ساتھ باہم ٹکراتے ہوئے گیس کو گرم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخرکار گیس اِتنی گرم ہو جاتی ہے کہ ’ہائیڈروجن‘ (Hydrojen) کے ایٹم جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ زیادہ دیر اِکٹھے اُچھل کُود بند نہیں کرتے بلکہ آپس میں ضم ہو کر ’ہیلئم‘ (Helium) تشکیل دیتے ہیں۔ اِس عمل سے بے پناہ حرارت خارج ہوتی ہے۔ ۔ ۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایک ’ہائیڈروجن بم‘ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔ اسی کی بدولت ستارے چمکتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ اِضافی حرارت گیس کا دباؤ اِس قدر بڑھا دیتی ہے جو کششِ ثقل میں توازُن برقرار رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے، اور یوں گیس مزید سکڑنا بند کر دیتی ہے۔
یہ کسی حد تک غبارے کی مِثل ہے جس کے اندر کی ہوا میں توازُن ہوتا ہے۔ ہوا غبارے کو مزید پھیلانا چاہتی ہے مگر غبارے کی ربڑ کا تناؤ اُسے چھوٹا کر دینا چاہتا ہے۔ یوں ہوا اور غبارے کی ربڑ کے مابین پائے جانے والے توازُن کے سبب غبارہ ایک خاص متوازن حد تک پُھلا رہتا ہے۔ سِتارے بھی اِسی طرح نیوکلیائی ردِعمل سے پیدا ہونے والی حرارت اور کششِ ثقل کے درمیان توازُن کی وجہ سے عرصۂ دراز تک سلامت رہتے ہیں۔ بالآخر ستارہ جل جل کر اپنی ہائیڈروجن اور نیوکلیائی اِیندھن ختم کر دیتا ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جتنے زیادہ اِیندھن کے ساتھ کوئی ستارہ اپنی زندگی کی دَوڑ کا آغاز کرے گا اُتنی ہی جلدی وہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہو گا اُسے اپنی کششِ ثقل کے ساتھ توازُن برقرار رکھنے کے لئے اُتنا ہی زیادہ گرم رہنا پڑے گا، اور جتنا زیادہ وہ گرم رہے گا اُسی تیزی سے وہ اپنا اِیندھن خرچ کرے گا۔ ہمارے سورج میں اِتنے اِیندھن کی موجودگی کا اِمکان ہے کہ وہ 5 ارب سال مزید گزار سکے، لیکن اُس سے بڑے سِتارے اپنا اِیندھن صرف 50 کروڑ سال میں ختم کرسکتے ہیں، جو اِس کائنات کی مجموعی عمر کی نسبت بہت کم مدّت ہے۔ جب کسی ستارے کا اِیندھن کم ہو جاتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ پھر اُس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ اِس بات کا پتہ سب سے پہلے 1920ء کے عشرے کے اَواخر میں چلایا گیا۔
’سیاہ شگاف‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے اِختتام پر رَوشن نوتارے (supernova) کے پھٹنے کی صورت میں رُونما ہوتے ہیں۔ ایسے ستارے کا کثیف مرکزہ (dense core) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں معدُوم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ کچھ ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح عمل پذیر ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور جگہ جا نکلتا ہے۔ یوں جدید سائنسی تحقیقات ہمیں اِسلام کے تصوّرِ آخرت سے خاصا قریب لے آتی ہیں۔ ایک لحاظ سے سیاہ شگاف ’قواسرز‘ (quasars) کی طرح پُراسرار ہیں۔ وہ فزکس کے قوانین پر عمل درآمد کرتے دِکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ناقابلِ دِید ہیں۔
جب ہمارے سورج سے 10 گنا بڑا کوئی ستارہ اپنی تمامتر توانائی خرچ کر بیٹھتا ہے تو اُس کی بیرونی تہہ مرکز کی طرف مُنہدم ہونا شروع کر دیتی ہے۔ تب ستارہ ’عظیم نوتارہ‘ (supernova) کے دھماکے کے ساتھ بیرونی تہہ کو دُور پھینکتے ہوئے پھٹتا ہے۔
اُس دھماکے کے بعد ستارے کا کثیف مرکزہ باقی بچ رہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی ’نیوٹران ستارے‘ کی طرح شدید دباؤ زدہ ہو۔ تیزی سے گھومتے ہوئے ستاروں کو دمکتے ہوئے ’شعاع اَفشاں ذرائع‘ یا ’ پلسر‘ (pulsar) کی صورت میں پایا گیا ہے۔ اگر ستارے کے باقی ماندہ مرکزے (core) کی اہمیت بہت زیادہ ہو تو وہ اپنی کششِ ثقل کے بل بوتے پر سکڑتے ہوئے سیاہ شگاف کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ اُس سوراخ میں مادّہ گِر تو سکتا ہے مگر کوئی بھی شے اُس سے فرار اِختیار نہیں کر سکتی۔
’اوپن ہائمر‘ (Oppenheimer) کی تحقیق سے حاصل ہونے والی تصویرکشی کے مطابق سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جانے والے اُس ستارے کا ’مقناطیسی میدان‘ کسی بھی زمان و مکان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے۔ روشنی کی وہ ’مخروطی شکلیں‘ (cones)۔ ۔ ۔ جو اپنے کناروں سے خارج ہونے والی روشنی کی چمک سے زمان و مکان میں اپنا راستہ نمایاں کرتی ہیں۔ ۔ ۔ اُس ستارے کی سطح کے قریب آہستگی سے اندر کو مُڑ جاتی ہیں۔ سورج گرہن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس امر کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے ثبوت کے طور پر کیا گیا تھا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے، اُس کی سطح کا مِقناطیسی میدان (magnetic field) طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں۔ یہ چیز روشنی کے اُس ستارے سے فرار کو مزید مشکل بنا دیتی ہے اور دُور سے نظارہ کرنے والے ناظر کے لئے روشنی نسبتاً ہلکی اور سرخ ہو جاتی ہے۔ آخرکار جب وہ ستارہ اپنے کم از کم ممکنہ رداس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کا مِقناطیسی میدان اِتنا طاقتور ہو جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں اُس کی طرف اِس قدر جھک جاتی ہیں کہ روشنی کے فرار کے تمام ممکنہ راستے مسدُود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق کوئی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے اگر روشنی بھی اُس سیاہ شگاف بن جانے والے مُردہ ستارے سے نہیں بچ سکتی تو صاف ظاہر ہے کہ اور بھی کوئی شے اُس سے نہیں بچ سکتی، اُس کا ’مِقناطیسی میدان‘ ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لے گا۔ کسی دُور بیٹھے ناظر کے لئے اُن مخصوص حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ وہ مُشاہدے کے لئے بلیک ہول کے زیرِ اثر مکان-زمان کے اُس مخصوص خطہ کی طرف جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی چلا آئے۔ یہی وہ جگہ ہے جسے ہم اب ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کا نام دیتے ہیں۔ اُس کی اصل حدُود کو’واقعاتی اُفُق‘ یا ’اِیونٹ ہورِیزن‘ (event horizon) کہا جاتا ہے اور یہ روشنی کی اُن لہروں کے راستے کے سِرے پر واقع ہوتا ہے جو سیاہ شگاف سے فرار اِختیار کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔
’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking) کہتا ہے کہ اُس کی اور ’راجرپینروز‘ (Roger Penrose) کی 1965ء سے 1975ء تک کی گئی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق سیاہ شگاف کے اندر ’لامحدُود کمیّت کی اِکائی‘ (singularity of infinite density) اور ’زمان و مکان کے اِنحناء‘ (space-time curvature) کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ کسی حد تک زمانے کے آغاز میں رُونما ہونے والے عظیم دھماکے کی طرح ہوتا ہے جو اِنہدام زدہ جسم اور اُس کی طرف سے خلا میں سفر کرنے والے خلانورد کے لئے وقت کا اِختتام ثابت ہو گا۔ اُس اِکائیت کے مقام پر سائنس کے قوانین اور ہمارے مستقبل کو جاننے کی صلاحیت دونوں جواب دے جائیں گے۔ تاہم ہر وہ ناظر جو اُس سیاہ شگاف سے دُور رہے گا، جہاں وہ پیش از وقت ممکنہ خدشات کے اَندازے کی صلاحیت سے محروم رہے گا وہاں وہ ہر قسم کے نقصان سے بھی محفوظ رہے گا، کیونکہ سیاہ شگاف میں واقع صفر جسامت کی حامل اُس ’اِکائیت‘ سے روشنی سمیت کوئی مضر شعاع اُسے نقصان پہنچانے کی غرض سے باہر نکل کر اُس تک نہیں پہنچ سکتی۔
’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ یہ اِنکشاف کرتا ہے کہ بڑے اَجرامِ فلکی کشش کی ایسی لہروں کے اِخراج کا باعث بن جائیں گے جو خلاء کے اِنحناء کی وجہ سے بنتی ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہ روشنی کی لہروں جیسی ہوتی ہیں جو ’برقی مِقناطیسی میدان‘ میں بنتی ہیں، لیکن اُنہیں پا سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ یہ جن اَجسام سے خارج ہوتی ہیں اُن سے روشنی کی طرح توانائی لئے جاتی ہیں۔ اِس بات کا اَندازہ ہر کوئی بآسانی کر سکتا ہے کہ اُن بڑے اَجسام کا نظام آخرکار ساکن حالت پر آ جائے گا کیونکہ کسی بھی حرکت میں پیدا ہونے والا کشش کی لہروں کا اِخراج توانائی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ مِثال کے طور پر زمین کی سورج کے گِرد اپنے مدار میں گردِش کشش کی لہریں پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے توانائی کے ضیاع کا اثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے مدار کو تبدیل کر دے گا اور یوں یہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور بالاخر اُس سے ٹکرا کر ساکن حالت اِختیار کر لے گی۔ زمین اور سورج کے معاملے میں ضائع ہونے والی توانائی کی شرح اِس قدر کم ہے کہ اُس سے ایک چھوٹا برقی چولھا بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ دُوسرے لفظوں میں زمین کو سورج میں گرنے میں تقریباً ایک ارب سنکھ (1,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,000) سال لگیں گے۔ سیاہ شگاف کی تشکیل کے لئے ایک ستارے کے ثِقلی اِنہدام کے دَوران حرکات اِس قدر تیز ہوں گی کہ توانائی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہو جائے گی۔ تاہم یہ اِتنا طوِیل نہیں ہو گا کہ ایک ساکن حالت کو پہنچ جائے۔
ہمیں اب تک اپنی کہکشاں (Milky Way) اور دو ہمسایہ کہکشاؤں (Magellanic Clounds) میں پائے جانے والے ’سیگنس ایکس ون‘ (Cygnus X-1) جیسے نظاموں میں موجود بہت سے سیاہ شگافوں کی شہادت میسر آ چکی ہے۔ تاہم حقیقت میں سیاہ شگافوں کی تِعداد بہت زیادہ ہے۔ کائنات کی طوِیل ترین تاریخ میں بہت سے ستارے اپنا اِیندھن جلا کر ختم کر چکے ہوں گے اور اُنہیں اندرونی اِنہدام کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ممکن ہے کہ سیاہ شگافوں کی تعداد قابلِ دید ستاروں سے بھی زیادہ ہو، جو تقریباً ایک کھرب کی تِعداد میں تو صرف ہماری کہکشاں میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنی کثیر تِعداد میں پائے جانے والے سیاہ شگافوں کی اِضافی کششِ ثقل کو شمار کرتے ہوئے ہی ہماری کہکشاں کی محورِی گردِش اور اُس کے توازُن کی موجودہ شرح کی وضاحت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ صرف قابلِ دِید ستاروں کی تِعداد اُس شرح کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہمیں اِس بات کی شہادت بھی میسر آ چکی ہے کہ ہماری کہکشاں کے وسط میں سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ کمیّت کا حامل عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف موجود ہے۔ کہکشاں میں پائے جانے والے وہ ستارے جو اُس سیاہ شگاف سے زیادہ قریب آ جاتے ہیں، اپنے قریبی اور بعیدی جہات میں پائی جانے والی قوّتِ کشش میں اِختلاف کی وجہ سے جدا ہو کر اُس سیاہ شگاف کے گرد گردش کرنے والے طوفان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اُسی جیسے۔ ۔ ۔ بلکہ جسامت میں اُس سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ کمیّت میں ہمارے سورج سے 10 کروڑ گنا بڑے۔ ۔ ۔ سیاہ شگاف ’قواسرز‘ کے وسط میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنے عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف میں مادّے کا مسلسل گرنا ہی قوّت کا وہ ذریعہ ہے جو اِتنا عظیم ہے کہ اُسے شمار کرنے سے اُن سیاہ شگافوں سے خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مادّہ جس سمت میں گھومتے ہوئے سیاہ شگاف میں گرتا ہے اُسی طرف کو سیاہ شگاف گھومنے لگ جاتا ہے، چنانچہ اسی سے اُس سیاہ شگاف کا ’میدانِ تجاذُب‘ پروان چڑھتا ہے۔ مادّے کے سیاہ شگاف میں گرنے سے اُس کے قریب بہت بڑی توانائی کے ذرّات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ گمان بھی بجا ہے کہ شاید ہمارے سورج سے کم کمیّت کے حامل سیاہ شگاف بھی پائے جاتے ہوں۔ تاہم ایسے سیاہ شگاف ’اندرونی کششی اِنہدام‘ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کی کمیّت ’چندرشیکر‘ کی ’کمیتی حدُود‘ (Chandrasekhar Mass Limit) سے کم ہوتی ہے۔ اِس قدر کم کمیّت کے حامل ستارے صرف اِسی صورت میں کششِ ثقل کے خلاف مزاحمت سے اپنے وُجود کو سہارا دے سکتے ہیں جب وہ اپنے نیوکلیائی اِیندھن کا مکمل طور پر اِخراج کر چکے ہوں۔ کم کمیّت کے سیاہ شگاف صرف اِسی صورت میں تشکیل پا سکتے ہیں جب مادّہ شدید ترین بیرونی دباؤ سے دب کر اِنتہا درجہ کثیف ہو جائے۔
جیسا کہ اِن کے نام سے ظاہر ہے سیاہ شگاف نظر نہیں آ سکتے کیونکہ وہ بالکل روشنی خارِج نہیں کرتے۔ ایک سیاہ شگاف اگرچہ خود تو نظر نہیں آ سکتا مگر اِس کے باوُجود جب وہ کسی ہمسایہ ستارے کو کھینچ رہا ہوتا ہے اور اُس کے مادّے کو ہڑپ کر کے نگل جاتا ہے تو ’ایکس ریز کے اِخراج‘ کی وجہ سے اُس کا سراغ لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔
سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ جو مادّہ سیاہ شگاف کی طرف جاتا ہے وہ زمان و مکان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہو، جس سے ہم بالکل آگاہ نہیں ہیں۔ جب ہماری تحقیق اِس مقام پر آن پہنچتی ہے تو ہمیں اِسلام کے عطا کردہ عقیدۂ آخرت پر مزید پختگی میسر آتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved