اِس باب میں ہم کرۂ ارضی پر پائے جانے والے زِندگی کے موجودہ دَور اور تخلیقِ اِنسانی کے بارے میں فرسودہ ڈاروِنی مفروضے کا پر حاصل بحث کریں گے۔ یہاں ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقائے حیات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عام قارئین پر یہ حقیقت عیاں ہو سکے کہ یہ مفروضہ ہر قسم کی سائنسی صداقت سے مکمل طور پر خالی ہے۔
کرۂ ارضی پر پائے جانے والے اَدوارِ حیات میں سے اِس وقت ہم مرحلۂ حیاتِ جدید (Cenozoic Era) کے آخری حصے میں موجود ہیں، جسے سائنسی اِصطلاح میں ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ’ممالیہ گروپ‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے اِنسان کو جانوروں کے درج ذیل حصے میں شمار کیا ہے :
Phylum................................Chordata
Sub-Phylum.........................Vertebrata
Class..................................Mammalia
Order....................................Primate
Superfamily...........................Hominoid
Family.................................Hominoid
Genus......................................Homo
Species.............................Homosapien
جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ (ape) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جانے لگا ہے اور اِس ضمن میں اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم قرآنِ مجید نسلِ اِنسانی کو ’’خَلْقِ آخَر‘‘ (ممیز مخلوق) کہہ کر پکارتا ہے اور اُسے ’’أَحْسَنِ تَقْوِيم‘‘ (بہترین بناوَٹ) قرار دیتا ہے، لہٰذا اِس دور کو ’جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کا دَور‘ کہا جانا چاہیئے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہے کہ جانور، پرندے اور اِنسان، تینوں مخلوقات ایک ہی دَور میں ظہور پذیر ہوئیں۔
قرآنِ حکیم بھی ایک مقام پر اِسی مفہوم میں یوں فرماتا ہے :
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم.
(الانعام، 6 : 38)
اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔
لیمارک (Lamarck)، مالتھس (Malthas)، مینڈل (Mandle)، ڈاروِن (Darwin)، اوپرائن (Oparin)، مونوڈ (Monod)، وِلسن (Wilson)، اور دُوسرے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے لیمارکزم (Lamarchism)، ڈاروِنزم (Darwinism) اور نیوڈاروِنزم (Neo Darwinism) جیسے اِرتقائی نظریات پیش کئے اُن کے تمام کئے دَھرے کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے۔ جو حقیقت میں محض مماثلتیں ہی ہیں اور اُن سے وہ نتائج اَخذ کرنا جو اُنہوں نے کئے کسی طرح بھی درُست نہیں۔ وہ مماثلتیں مندرجہ ذیل ہیں :
یہ تمام مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں، قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں قبل اِن کا ذِکر سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 38 میں کر دیا تھا۔ ’’أَمْثَالُكُم‘‘ (تمہارے جیسی) کا لفظ جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کے مابین مختلف اَقسام کی مماثلتوں کی طرف واضح اِشارہ کر رہا ہے، جس سے کلامِ الٰہی کی صداقت اور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم اُن مماثلتوں سے لئے جانے والے بیہودہ ڈاروِنی اِستدلال سے ہرگز اِتفاق نہیں کرتا اور نہ تمام کے تمام سائنسدان اِس سے اِتفاق کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خود ساختہ نظریۂ اِرتقائے حیات کے حاملین اپنے اِس مَن گھڑت فرسودہ مفروضے کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں کر سکے۔ وہ اپنے مفروضے میں موجود تسلسل کے فقدان سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس عدم تسلسل کو وہ ’گمشدہ کڑیاں‘ (missing links) کہتے ہیں۔ اُن بہت سی گمشدہ کڑیوں کے باوصف مفروضۂ اِرتقاء کی بہت سی خلطِ مبحث اور متضاد تعبیرات کی جاتی ہیں اور کوئی بھی متفقہ نظریہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔
یہاں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی تحقیقات کے وہ گوشے جو قرآنی تصوّرات سے ہم آہنگ ہیں، وہ بالکل فطری انداز میں منتج ہوتے ہیں اور سائنس اُس منزل تک پہنچنے میں بآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ دُوسری طرف تمام وہ تصوّرات جو قرآنی تعلیمات سے متعارِض ہوں کبھی بھی تذبذُب اور شکوک و شبہات سے نہیں نکل سکتے اور اُن میں اِبہام و اِلتباس ہمیشہ برقرار رہے گا اور کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ بھی برآمد نہ ہو پائے گا۔ یہی حالت مفروضۂ ارتقاء کی بھی ہے۔
اب ہم یہاں ڈاروِن کے غیرمنطقی مفروضۂ اِرتقاء کے بارے میں ترکی کے نامور محقق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کی تحقیق پیش کرتے ہیں تاکہ اِرتقاء کا یہ مَن گھڑت اَفسانہ طشت اَز بام ہو سکے۔
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے بقول چارلس ڈاروِن (Charles Darwin) نے آج سے تقریباً ایک سو سال قبل کیمبرج یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج (Christ's Collage) سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اِس سے پہلے اُسے علمِ حیاتیات (biology) یا علمُ الطب (medical science) کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان ایک جانور تھا جس کا اِرتقاء ’یک خلوِی جسیمے‘ (unicellular organism) سے ہوا اور وہ بوزنہ (ape) سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سے سائنسدان بلا سوچے سمجھے اُس کی باتوں میں آگئے اور اُس کے ہم نوا بن بیٹھے، اور یوں جلد ہی اِرتقاء کا یہ اَفسانہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ مفروضہ کئی سال تک دُنیا بھر کے تمام تعلیمی اِداروں میں اِس طرح پڑھایا جاتا رہا جیسے یہ واقعی کوئی سائنسی حقیقت ہو، حالانکہ سائنسی تحقیقات سے اُس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء۔ ۔ ۔ اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا۔ ۔ ۔ محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ آر بی گولڈسمتھ (R. B. Goldschmidt) جو بیالوجی کا ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مفروضۂ اِرتقاء کا پُرزور حامی بھی ہے، اِس حد تک ضرور دیانتدار ہے کہ اُس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اِرتقاء کے حق میں تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر کوئی شہادت میسر نہیں آسکی اور یہ محض تصوّرات کا ایک تانہ بانہ ہے۔
سائنسی علوم سے نابلد لوگ اِس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم کے خلاف سائنسی شہادتوں کے اَنبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس قسم کے نظریات باطل اور فرسودہ سوچ کے حامل گمراہ لوگوں کے لئے ہمیشہ سے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں، جو محض شہرت کی خاطر بلاتحقیق ایسے ایشوز پیدا کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں سے اِس مفروضہ کے خلاف تنقید میں بڑے بڑے ماہرینِ حیاتیات کا بھرپور اِضافہ ہوا ہے۔ جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات (biology) اور علمِ حیوانات (zoology) کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen J. Gold) وغیرہ نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ جھوٹے سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔
پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے اُوٹ پٹانگ طریقوں سے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج اَخذ کئے ہیں۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔ اِن تمام اِبتدائی حقائق کے باوجود بھی ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حیاتیاتی معاملے سے متعلق اِس اَندرونی کہانی کا بالتفصیل ذِکر کر دیا جائے جسے اِرتقاء کے حامی اپنے نظریئے کی بنیاد تصوّر کرتے ہیں، تاکہ قرآنِ مجید اور اُس کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے قلوب و اَذہان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کے دروازے مکمل طور پر مقفّل ہو جائیں۔
اپنے اِبتدائی تصوّرات کے مطابق اِرتقاء کے حامی ابھی تک خلیوں کی دو اَقسام : ’بنیادی‘ اور ’اِرتقائی‘ پر اَڑے ہوئے ہیں، حالانکہ تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تقسیم غیر حقیقی ہے۔ 1955ء کے بعد اِس حقیقت کا انکشاف ہو گیا تھا کہ تمام خلیوں کا تانہ بانہ 99 فیصد تک ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور DNA (یعنی کیمیائی تعمیراتی بلاکوں) کے لئے یکسانی کی یہ شرح 100 فیصد تک پائی جاتی ہے۔ خلیوں کے مابین فرق محض اُن کے ریاضیاتی پروگراموں میں پایا جاتا ہے۔ جس سے کسی طور بھی اِرتقاء پسندوں کا اِستدلال درُست نہیں، جیسا کہ کسی پودے کے خلئے کا پروگرام آکسیجن کو عمل میں لانا ہے جبکہ جگر کے خلئے کے ذِمّہ صفراوِی مادّے کی پیدائش ہے۔ اِن کمپیوٹرائزڈ پروگراموں کے حامل خلیوں کو محض مختلفُ النوع کام سراِنجام دینے کی بناء پر ’قدیم‘ یا ’اِرتقائی‘ قرار نہیں دِیا جا سکتا۔ کیونکہ اُن میں یہ صلاحیتیں بتدریج نہیں آئیں بلکہ اُن کی تخلیق کے وقت سے ہی موجود تھیں۔ اِس لئے اُن سے متعلق اِرتقاء کا دعویٰ ہرگز درُست نہیں ہو سکتا۔ سو مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کو سب سے پہلے تو کسی خلئے اور اُس کے ریاضیاتی پروگرام سے متعلق اپنی معلومات کی اِصلاح کر لینی چاہیئے۔
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک کسی اِرتقاء پسند کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ ! قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے تو محض ایک سال میں وہاں اِتنی مخلوقات کیسے پیدا ہو گئیں؟
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے نزدِیک اِرتقائے حیات کا عمل جینیاتی خصوصیات میں تبدّل کے ذرِیعے وُقوع پذیر ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا حقیقت میں کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ جینیاتی خصوصیات کبھی بھی مثبت انداز میں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ اُن کی تبدیلی ہمیشہ تباہی کی طرف ہی جاتی ہے، جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں، جیسا کہ ملّر کے تجربات سے حاصل ہونے والی سبز آنکھوں والی مکھی کمزور جسیمے کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے مثبت تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تِعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تبدّل کے اَفسانے میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا۔
اِرتقاء کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ آدمی اور اُس کے قدیم وُجود میں ربط پیدا کرنے والا ڈھانچہ موجود ہے۔ اُن میں سے سب سے زیادہ مشہور ڈھانچہ پِلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) کا تھا، جس میں موجود دھوکے کا اِنکشاف ’ریڈیو ایکٹو تجربات‘ کے ذریعے ثابت ہو چکا ہے، جس کے بعد اُسے تمام تر بے ہودہ تحریروں سمیت ’برِٹش میوزیم‘ سے نکال باہر پھینکا گیا۔ مزید برآں قدیم مخلوق جس سے نوعِ اِنسانی کا ناطہ جوڑنے کی کوشش کی گئی، اُس کے دِماغ کا وزن 130 گرام ہے جبکہ اِنسان کے دِماغ کا وزن 1350 گرام ہے۔ ’مفروضۂ اِرتقاء‘ کے مطابق اِن دونوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے لئے کم از کم 10 جسیمے ہونے چاہیئں۔ اور یہ بات ناقابلِ تسلیم ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی زِندہ نہ بچ سکا ہو۔ ہم اِرتقاء کے حامی گروہ سے یہ سوال کریں گے کہ بوزنہ (ape) تو آج بھی اپنی تمام تر اَقسام سمیت زِندہ ہے مگر اُس کے اور اِنسان کے درمیان پائی جانے والی ممکنہ 10 اَقسام سب کی سب کدھر گئیں۔ ۔ ۔؟
اِرتقاء پسند تو اِس حد تک گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس (appendix) سلسلۂ اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اَپنڈکس جسم کے چند مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین (tonsils) کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام اور اُن کی تِعداد میں باقاعدگی لاتی ہے۔ اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے اَفعال سراِنجام دیتے ہیں۔
مفروضۂ اِرتقاء کے جنم لینے کا سبب یہ ہے کہ اِس مفروضہ کے حاملین مذہبِ عیسائیت سے شعوری و لاشعوری سطح پر بدلہ لینے کی غرض سے خالقِ کائنات کے وُجود سے اِنکاری ہیں، اِس لئے وہ اپنی خود ساختہ مقصدیت کی تلاش میں مفروضۂ اِرتقاء کے گِرد گھوم رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ دونوں مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ ’کمال‘ سے اُن کی مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں ’تتلی‘ سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ بجلی کے آلات کے حوالے سے ’چمگادڑ‘ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ’ڈولفن‘ سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے ’دِیمک‘ جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ 100 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ (ape) اِس حقیر دِیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے، پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟
مفروضۂ اِرتقاء کی حامیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘ (survival of the fittest) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ ڈائنوسار (dinosaur) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل ہزاروں سال پہلے کرۂ ارضی سے کلیتاً معدُوم ہو گئی تھی۔ لیکن اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں ہے کہ رُوئے زمین پر موجود 15 لاکھ اَقسام پر مشتمل زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد 100 سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات اپنے ماحول میں موجود مشکل ترین حالات کے باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں اور مفروضہ ارتقاء کے حامیوں کے نظریہ بقائے اَصلح کے مطابق اُن کا وُجود کرۂ ارضی سے ناپید نہیں ہو گیا۔
یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں دینا ضروری سمجھتے ہیں :
مچھلی کی ایک ایسی قسم جو بصارت کی صلاحیت سے محروم ہے اور سمندر کی تہہ میں رہتی ہے۔ اُس مختصر سے ماحول میں اُس کے ساتھ ریڈار کے نظام کی حامل اور برقی صلاحیت کی مدد سے دیکھنے والی مچھلیوں کی چند اَقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر اِرتقاء پسندوں کی تحقیق درُست ہوتی تو اَندھی مچھلی باقی دونوں اَقسام کی مچھلیوں کی غارت گری سے مفقود ہو چکی ہوتی، لیکن ہم اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مچھلی کی یہ تینوں اَقسام لاکھوں سالوں سے ایک ساتھ پُرامن طور پر زِندگی بسر کر رہی ہیں اور ایک دُوسرے کی نسل کی بقاء کے لئے خطرہ پیدا نہیں کر سکیں۔
یہ دَرحقیقت چھپکلی کی ایک قسم ہے جس کے ہاتھ پاؤں نہیں ہوتے اِس لئے اِس مخلوق کے لئے زِندگی اِنتہائی دُشوار ہوتی ہے، لیکن اِس کے باوُجود وہ لاکھوں سال سے کرۂ ارض پر موجود ہے۔ وہ اِس مرورِ اَیام سے معدُوم ہوا اور نہ اِرتقائی عمل سے گزر کر حقیقی چھپکلی ہی بن سکا۔ اِرتقاء کے بنیادی اُصولوں سے متعلق قصے کہانیاں کہاں گئیں۔ ۔ ۔؟
آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کا خار پُشت پایا جاتا ہے جو اپنے بچے کو کنگرو کی طرح اپنے پیٹ سے مُعلّق تھیلی میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ وہ ہزارہا سال کے اِرتقائی عمل کے تحت اپنے جسم میں ایسا تبدّل کیوں نہیں لاتا جس کی بدولت اِس تکلیف دِہ جھلی سے اُس کی جان چھوٹ جائے اور وہ بھی دُوسرے عام خارپُشتوں کی طرح آرام و سکون سے رہ سکے؟
اِس کی وجہ فقط یہ ہے کہ اللہ ربّ العزّت نے اُس کے لئے ایسا ہی چاہا ہے۔ وہ خارپُشت اپنی زِندگی سے مطمئن ہے اور اُسی طرح اللہ ربّ العزت کا تابع فرمان رہے گا۔ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی حامی اِس راز سے کبھی آگاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مذہب دُشمنی میں حد سے گزرتے ہوئے اَندھی منطق کے گرداب میں اُلجھا ہوا ہے۔
فطری چھانٹی یعنی بقائے اَصلح کے عجوبہ کی کوئی حیثیت نہیں، لاتعداد مخلوقات کی نمائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہی مختلف اَنواعِ حیات کو تخلیق کیا ہے۔
اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا (amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی۔ اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف پتنگوں کی 3 لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔ پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے۔ ۔ ۔؟
مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں۔ جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں۔ رنگوں کے 10,000 سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے۔ جیسا کہ :
چھپکلی............اور..........مگرمچھ
بلی.............اور...........شیر
امریکی چوہا........اور..........خنزیر
اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ صورتحال اِس کے برعکس ہے، کیونکہ اللہ ربُّ العزّت نے اپنی مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے۔
مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں مکمل طور پر ناممکن قرار پا گیا ہے۔
علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا۔ پُراَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے۔ اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے 2 یا 4 اَیٹموں کو ملا کر ہیلئم (helium) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو ’تھرمونیوکلیئربم‘ (thermonuclear bomb) ہی حاصل ہو گا جس کے سبب تمام ماحول ’کھمبی‘ (mushroom) کی شکل کے دُھویں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا۔
ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے۔ اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں 1020 * 39 تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے 100 کھرب سال۔ ۔ ۔ گویا موجودہ کائنات کی عمر سے 500 گنا زیادہ وقت۔ ۔ ۔ میں مکمل ہوسکتی ہیں۔ ایک بوزنہ (ape) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے 10520 * 3 تبدیلیوں کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِاِستعمال لائیں تو بھی اُسے پانے میں قاصر رہیں گے۔ مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے 10124 گنا سے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اِن سب حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء کا یہ تصوّر ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے۔
حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک ’سسٹرن‘ (cistron)۔ ۔ ۔ جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے ڈی این اے (deoxyribonucleic acid) کی لمبائی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ میں تبدیلی لا سکے۔ کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (genes)۔ ۔ ۔ جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی۔ چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا۔ جیسا کہ ’نِلسن ہیریبرٹ‘ (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کی نوعیت کچھ اَیسی ہے کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
’پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر‘ (Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلیاں، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’پروفیسر ویزمین‘ (Prof. Weismann) کے ہاں ’جاوا کے آدمی‘ (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے۔ اِسی طرح ’پروفیسر گِش‘ (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے ’نبراسکا کا آدمی‘ (Nebraska Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ مدِّ نظر رکھنی چاہیئے کہ مفروضۂ اِرتقاء ایک سوچا سمجھا ڈھونگ ہے، جو اَیسے پراگندہ خیالات کو جنم دیتا ہے جن کا اِنجام اِنسانی معاشرے کی تباہ حالی ہے۔ جو لوگ اِس سلسلے میں مزید حقائق سے آگہی میں دِلچسپی رکھتے ہیں وہ مزید مطالعہ کے لئے درج ذیل ذرائع سے اِستفادہ کر سکتے ہیں :
1. Jeremy Rifkin, Algeny, Middlesex : Penguin,1984.
2. Paul S. Moorhead and Mirtin M. Kaplan, eds. Mathematical Challenges to the Neo-Darwinian
Interpretations of Evolution, Philadelphia : Wistar Institute Press, 1967.
3. Norman Macbeth, Darwin Retried : An Appeal to Reason, Boston : Gambit, 1971.
4. Duane T. Gish, Evolution : The Fossils Say No!, San Diego : Creation Life Publishers,
1978.
5. John Moore, On Chromosomes, Mutations and Philogeny, Philadelphia, 1971.
6. Walter J. Bock, Book Review of Evolution, Orderly Law, Science, (146) 1969.
7. Harold Francis Blum, Time's Arrow and Evolution, Princeton University Press,
1968.
8. Nilson N. Heribert, Synthetische Artbildung, University of Lund, Sweden.
9. Pierre-Paul Grasse, Evolution of Living Organisms, New York : Academix Press,
1977.
10. David Raup. Conflicts Between Darwin and Paleontology, Field Museum of Natural
History Bulletin. January 1979.
اگرچہ دُنیا کے مشہور و معروف عیسائی اور یہودی سائنسدان مفروضۂ اِرتقاء کو برحق نہیں جانتے مگر اِس کے باوُجود وہ اِس گندے کھیل میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، کیونکہ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم کا بدلہ لینے کا تصوّر اُنہیں حقائق کو مسخ کرنے کا جواز بخشتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا میں کوئی جانور بھی اِرتقائی عمل کی پیداوار نہیں، یہ محض ایک تصوّراتی اور فلسفیانہ مفروضہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نام پر اِنسان کی اس خودساختہ اَصل سے متعلق جو دعوے کئے جاتے ہیں سب کے سب جھوٹے ہیں۔ اِنسان کی اَصل کے متعلق ہنوز کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں آ سکا۔ تب پھر اِنسان کی اَصل کیا ہے؟ ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی رَوشنی میں دیں گے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO
(التين، 95 : 4)
بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان ایک الگ مخلوق کے طور پر معرضِ وُجود میں آیا ہے اور یہ کسی دُوسری مخلوق سے اِرتقاء کے نتیجے میں ظاہر نہیں ہوا۔ اِنسان کی تخلیق ’’خلقِ آخر‘‘ ہونے کے ناطے تخلیقِ خاص (special creation) ہے، جسے اللہ ربُّ العزّت نے ایک مناسب وقت پر تخلیق کیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved