قرآنِ مجید اِنسانیت کو جا بجا اُس کے اِردگرد پھیلی ہوئی بے عیب، عظیم اور بارُعب کائنات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ درس دیتا ہے کہ وہ اللہ ربُّ العزّت کی ہدایت کی پاسداری اور اِطاعت گزاری کرے۔ مطالعۂ قرآن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جملہ کائنات کی تشکیل و تعبیر کا سلسلہ چھ اَدوار سے گزرا ہے، جنہیں چھ اَدوارِ تخلیق (six periods of creation) کا نام دیا جاتا ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے :
1. إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ.
(يونس، 10 : 3)
یقیناً تمہارا ربّ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائنات) کو چھ مراحل میں (تدریجاً) پیدا فرمایا۔
2. اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ. . . يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO
(السجده، 32 : 4، 5)
اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، کو چھ مراحل میں پیدا کیا، پھر (اپنے) تخت پر قیام فرمایا۔ ۔ ۔ وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگاo
3. سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُO لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ.
(الحديد، 57 : 1 - 4)
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور وُہی زبردست حِکمت والا ہےo آسمانوں اور زمین میں اُسی کی حکومت ہے، وُہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر بڑا قادِر ہےo وُہی اوّل و آخر ہے اور ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شے سے بخوبی آگاہ ہےo وُہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ مراحل میں پیدا کیا۔
قرآنِ حکیم میں اِن کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مذکورہ بالا آیات سے ہم بآسانی مندرجہ ذیل نکات حاصل کر سکتے ہیں :
1۔ کائنات محض حادثاتی طور پر معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ یہ اللہ ربّ العزّت کے اِرادے اور اُس کی قدرتِ کاملہ کا نتیجہ ہے۔ اِس غیرمحدُود اور تعجب خیز کائنات میں پھیلا ہوا نظم و ضبط اور نظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا وُجود قدرتِ اِلٰہیہ کی کامل منصوبہ بندی کے تحت ہی قائم ہے۔
2۔ جملہ کائنات کی تخلیق و اِرتقاء ایسا مرحلہ وار عمل تھا جو بتدریج 6 اِرتقائی اَدوار میں مکمل ہوا۔
3۔ اِس دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے تمامتر حوادِث و واقعات اُس کے خالق کے بنائے ہوئے نظام اور حکم کے ساتھ مربوط ہیں۔ یہ ربانی منصوبہ بندی اور اِقتدار پوری کائنات کو کچھ اِس طرح سے منظم اور ہم آہنگ بنائے ہوئے ہے کہ کوئی شے اپنے طے شدہ ضوابط سے رُوگردانی نہیں کر سکتی۔
4۔ ’’یَوْم‘‘ محض 24گھنٹے کے دَورانیئے ہی کا نام نہیں بلکہ اِس کا اِطلاق ہزاروں زمینی سالوں کے دَورانیئے پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی چھ اَیام (چھ اَدوار) میں ہوئی۔ قرآن کا تصوّرِ یوم وہ دِن ہرگز نہیں جو عام طور پر طلوعِ شمس سے غروبِ آفتاب تک مُراد لیا جاتا ہے، کیونکہ خلقتِ کائنات کے دوران میں طلوع و غروبِ شمس کا محال ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے۔ قرآنِ مجید میں یَوْم کا لفظ کئی مقامات پر مختلف دورانیوں کے لئے اِستعمال ہوا ہے۔
قرآنِ مجید نے ’یوم‘ کا لفظ ’وقت کی ایک تغیر پذیر لمبائی‘ (variable length of time) کے لئے اِستعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃُ السجدہ میں اِرشاد فرمایا :
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO
(السجده، 32 : 5)
وُہی آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گاo
اِسی طرح ایک اور مقام پر ’یوم‘ کا لفظ 50 ہزار سال کے لئے بھی اِستعمال کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے :
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍO
(المعارج، 70 : 4)
(روزِقیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) 50 ہزار سال ہےo
مذکورۃُ الصدر آیتِ کریمہ میں ’سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘ کے اَلفاظ اُس مدّت کے لئے اِستعمال کئے گئے ہیں جس میں ہمارے سورج سمیت جملہ اَجرامِ سماوِی کی تخلیق عمل میں آئی۔ بظاہر نظر آنے والے شب و روز کا وُجود سورج اور زمین کے وُجود میں آنے سے قبل ناممکن تھا۔ لہٰذا یہ بات عیاں ہے کہ قرآنِ مجید کا بیان کردہ لفظِ ’یَوْم‘ وقت کی ایک ایسی تغیر پذیر مُعینہ مدّت ہے جو لاکھوں، اربوں سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی سے ہم درج ذیل نتائج اَخذ کر سکتے ہیں :
1۔ کائنات ازخود معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ اُسے باری تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے، یعنی اُس کی تخلیق محض اِتفاقیہ (accidental) نہیں بلکہ ایک خالق (Creator) کے اِرادے اور فعلِ خلق کا نتیجہ ہے۔
2۔ کائنات کی تخلیق کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : زیریں، بالائی اور وسطانی۔ ۔ ۔ یعنی زمینی، آسمانی اور خلائی۔
i. Earthly Creation
ii. Heavenly Creation
iii. Intermediary Creation
جیسا کہ سورۃُ السجدہ میں مذکور ہے ’’خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا‘‘ (اُس نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے تخلیق فرمایا)۔ یہی مضمون قرآنِ مجید میں سورہ نمبر 20 : 6، 25 : 59، 32 : 4، 50 : 38، 21 : 16، 44 : 7 اور 38، 78 : 37، 15 : 85، 46 : 3 اور 43 : 85 میں بھی بیان ہوا ہے۔ ارض وسما کے درمیان عالمِ خلق کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے دورِ جدید کی سائنسی تحقیقات کے مطابق cosmic extra galactic world کی طرف توجہ کرنا اشد ضروری ہے، جس میں کہکشائیں، ستارے اور سیارگانِ فلکی شامل ہیں۔
3۔ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی متعدد ہیں اگر سات کا عدد آسمانوں (بالائی طبقات) کے لئے محض تعدد اور کثرت (plurality) کے معنی میں تصور کیا جائے تو زمین کی طرح کے اور طبقات اور سیارگان بھی متعدد معلوم ہوتے ہیں اور اگر سات کے عدد کو خاص اور معین تصور کیا جائے تو زمین سے بالکل ملتے جلتے سات طبقے یا سیارے ثابت ہوتے ہیں۔ اِس دُوسرے مفہوم کے اِعتبار سے سائنس کو ابھی تحقیق واِکتشافات کے مزید کئی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا کیونکہ قرآنِ مجید نے یہ اِشارہ اِس آیتِ کریمہ میں فرما دیا ہے :
اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ.
(الطلاق، 65 : 12)
اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور ان ہی کی طرح (سات) زمینیں پیدا کیں۔
4۔ کائناتِ ارض وسماء کی تخلیق تدریجاً عمل میں آئی۔
5۔ کائنات کی تخلیق کا تدرِیجی عمل (evalutionery process of the creation) چھ ایام (اَدوار) پر مشتمل ہے۔
6۔ کائناتِ ارض وسماء کے جملہ اُمور ایک باقاعدہ نظام کے تابع ہیں جو باری تعالیٰ کے حکم اور قدرت سے قائم اور رواں دواں ہے۔
7۔ اُس کی تدبیر (divine planning) کائنات کے پورے نظام کو ایک مقصد اور نظم کے تحت مربوط اور منظم کرتی ہے جس کے نتیجے میں جملہ اُمور اِس طرح اِنجام پاتے ہیں کہ کوئی وُجود اُس ضابطۂ قدرت سے اِنحراف نہیں کر سکتا۔
8۔ کسی چیز کا زمینی حدود میں داخل ہونا، اُس میں سے خارج ہونا، کسی سیارے سے آسمان کی وُسعتوں کی سمت جانا، آسمانی وُسعتوں سے زمین کی طرف اُترنا، کسی کا باقی رہنا اور ختم ہو جانا، الغرض یہ سب کچھ اُسی کے قائم کردہ نظام اور اُس کے جاری کردہ قوانین کے مطابق ہے۔
اِن تمام نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں قرآنِ مجید ہی سے اِس اَمر کو متعین کرنا ہے کہ کائناتِ ارض وسماء کی تدرِیجی تخلیق کے ضمن میں جن چھ ایام کا ذِکر آیا ہے اُن سے مراد کیا ہے! اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہاں یوم سے مراد وہی دن ہے جو سورج کے طلوع وغروب کے ساتھ قائم ہے اور چھ ایام سے مراد ہفتہ سے جمعہ تک کے معروف دن ہی ہیں تو یہ درست نہیں، اِس لئے کہ بات زمین و آسمان اور اُن کے مابین ساری کائنات کی تخلیق سے متعلق ہو رہی ہے جس میں سورج، چاند اور زمین وغیرہ کی اپنی تخلیق بھی شامل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب ابھی سورج، چاند اور زمین کی تخلیق خود عمل میں نہیں آئی تھی تو اُس وقت طلوع وغروبِ آفتاب کا نظام کہاں موجود تھا اور جب سورج کے طلوع وغروب کا نظام اَبھی معرضِ عمل میں نہیں آیا تھا تو معروف معنوں میں دِنوں اور ہفتوں کی گنتی کا کوئی تصوّر ہی موجود نہ تھا۔ بنابریں جب کائناتِ ارض وسما کے اِس سلسلۂ تخلیق کی مدت کو معروف معنی میں 24 گھنٹوں پر مشتمل چھ دِنوں پر محمول نہیں کیا جا سکتا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چھ ایام سے مراد کیا ہے؟ جواب بالکل واضح ہے کہ یوم سے مراد ایک دَور (period/era) ہے جو ایک غیر معینہ طویل مدت (a long span of time) پر مبنی ہے اور ستہ ایام سے مراد چھ ادوارِ تخلیق (six periods of creation) ہیں۔
قرآنِ مجید نے بھی یَوْم کے لفظ کو مختلف طویل مدتوں کے بیان کے لئے اِستعمال کیا ہے۔
اِرشادِ ایزدی ہے :
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO
(السجده، 32 : 5)
وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگاo
اِس آیتِ کریمہ میں ہمارے نظامِ شمسی کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت کو ایک ’’یوم‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح دُوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کی مدّت کے لئے ’’یوم‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے :
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍO
(المعارج، 70 : 4)
(روزِقیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) 50 ہزار سال ہےo
جیسا کہ ہم نے پہلے ذِکر کیا کہ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ امر طے پا گیا کہ تخلیقِ ارض وسماء کے ذکر میں جن چھ ایام کا تذکرہ ہوا ہے اُن سے مراد چوبیس گھنٹوں کی مدت پر مشتمل ہمارے مروّجہ ایام نہیں بلکہ خود قرآنی تصورِ یوم کے تحت غیرمحدود طوالت پر مبنی مدت کا ایک دَور (period) ہے جو لاکھوں کروڑوں اربوں برس پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآنِ مجید نے اُس یوم کے لئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں فرمائی۔ جب ایک جگہ ہزار اور دوسری جگہ پچاس ہزار سال کو یوم قرار دیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ اِسی لفظِ یوم کا اِطلاق کئی لاکھ اور کروڑ برس پر بھی ہو سکتا ہے، بہرحال چھ ایام سے مراد تخلیقِ کائنات کے چھ ادوار (six periods of creation) ہیں۔
ہمارے اِس موقف کی تائید اِمام ابوالسعود العمادی رحمۃ اللہ علیہ (951ھ) نے بھی کی ہے۔ آپ سورہ یونس کی آیت نمبر 3 کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :
﴿فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ﴾ أي في ستة أوقات، فإن النفس اليوم الذي هو عبارةٌ عن زمان کون الشمس فوق الأرض مما لايتصوّر تحققه حين لا أرض و لا سمآء.
(تفسيرابي السعود، 2 : 118)
’’فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘‘ (چھ دِنوں میں) سے مراد ’چھ اَوقات و اَدوار‘ ہیں، کیونکہ وہ دِن جو سورج کے زمین پر طلوع ہونے سے عبارت ہے اُس کا تحقق ہی ممکن نہیں کیونکہ اُس وقت زمین و آسمان موجود ہی نہ تھے۔
صاف ظاہر ہے ایسی صورت میں یوم سے مراد کوئی مخصوص مدّت اور زمانہ ہی لیا جائے گا۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اِس کی تصریح کی ہے، فرماتے ہیں :
’’اَلْيوْمُ‘‘ يعبّر به عن وقتِ طلوعِ الشّمس إلي غروبها وقد يعبّر به عن مدة من الزمان أيّ مدة کانت.
(المفردات : 553)
یوم سے مراد ایک تو سورج کے طلوع سے غروب تک کا وقت ہے اور دُوسرے اُس سے مراد کسی بھی زمانے پر مشتمل مدت ہے خواہ وہ جتنی بھی ہو۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ یونس کی تفسیر میں ’’سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں :
و لا يمکن أن يراد باليوم اليوم المعروف، لأنه کما قيل عبارةٌ عن کون الشمس فوق الأرض و هو مما لايتصوّر تحققه حين لا أرض و لا سمآء.
(روح المعاني، 11 : 64)
یہاں یوم سے مراد معروف معنی میں دِن نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا اِستعمال زمین پر سورج کے طلوع ہونے سے عبارت ہے اور وہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اُس وقت نہ زمین تھی نہ آسمان (اور نہ طلوعِ آفتاب کا کوئی تصور)۔
اِس امر کی تصریح اِمام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ اَعراف کے تحت بھی کی ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی جلد : 5، جز 8، صفحہ 132۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اِس قول۔ ۔ ۔ کہ اُن ایام سے مراد ایامِ دُنیا نہیں بلکہ ایامِ آخرت کی مدّت ہے۔ ۔ ۔ سے بھی مذکورہ بالا تصور کی تائید ہوتی ہے۔
قرآنِ مجید کا تفصیلی مطالعہ ہمیں یہ حقیقت جاننے کے قابل بناتا ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی دو ایسے مراحل میں مکمل ہوئی جو چھ مکمل اَدوار میں منقسم ہیں :
یہ مرحلہ تخلیق کے 6 اَدوار میں سے پہلے 2 عہدوں پر مشتمل ہے۔ قرآنِ حکیم کی یہ آیتِ مُبارکہ اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتی ہے :
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِO
(فصلت، 41 : 12)
پھر اُن اُوپر کے طبقات کو دو اَدوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اُسی سے متعلق اَحکام بھیجے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور اُسے محفوظ بنایا۔ یہ زبردست اور علم رکھنے والے کا اِنتظام ہےo
یہ آیتِ کریمہ اِس تناظُر میں 8 مختلف اِنکشافات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آیتِ مُبارکہ کا ہر حصہ کائنات کے تخلیقی و اِرتقائی خدوخال ظاہر کرتا ہے۔
آیت کا پہلا حصہ سات آسمانوں یا سات کائناتوں کے وُجود کا اِنکشاف کرتا ہے۔
یہ حصہ اُس عرصے سے متعلق ہے جو تشکیلِ کائنات میں صرف ہوا۔
آیتِ کریمہ کے تیسرے حصے کے مطابق ہر آسمان یا ہر کائنات کو اُس کا مکمل نظام عطا کیا گیا ہے، ایک ایسا نظام یا عمل درآمد کا ایک ایسا اِنتظامی ڈھانچہ جو اُس کی تشکیل سے متعلقہ اَفعال کا حامل ہو۔
اِن حصوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارا قریب ترین آسمان یا کائنات، جو وُسعت پذیر اور غیرمحدُود ہے، ناقابلِ شمار ستاروں سے بھری پڑی ہے۔
کہکشائیں اور ستارے کائنات میں اِس قدر دُوری میں واقع ہیں کہ سات آسمانوں میں سے ہمارا نزدیک ترین آسمان اِس قدر پھیلاؤ اور غیرمحدُودِیت کے سبب اِنتہائی محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ بات اِنتہائی محیرالعقول ہے کہ روشنی (جو کائنات کا اپنا مادّی حصہ ہے) اور جو مجرّد مادّی ذرّات کے لئے سفر کا تیز ترین اور حتمی ذرِیعہ ہے، اُس کے لئے بھی کائنات اپنی بے پناہ توسیع کے سبب ناقابلِ فسخ ہے۔ واضح رہے کہ روشنی 1,86,282.397 میل یعنی 2,99,792.458 کلومیٹر فی سیکنڈ کی سمتی رفتار (velocity) سے اِس وُسعت پذیر کائنات میں سفر کرتی ہے۔ بنیادی سائنسی حقائق قرآنِ مجید کی مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے کس قدر حیرت انگیز حد تک مطابقت رکھتے ہیں! روشنی کی ’سمتی رفتار‘ میں ثبات کی حقیقت جو ’سمتی رفتار‘ کی شرح کو طے کرتی ہے، سائنس کی دریافت کردہ ایک زِندہ بنیادی حقیقت ہے اور یہ ایک بنیادی قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے کائنات کی وُسعت کے تناظُر میں اُس کے ناقابلِ فسخ ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ روشنی جو اِنتہائی چھوٹے مجرّد مادّی ذرّات سے بنی ہے، کائنات میں سفر کے لئے بہت ہی زیادہ ’سمتی رفتار‘ کی حامل ہے اور اُس سے تیز شے کبھی کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ کائنات میں مادّی ذرّات کی اِنتہا درجے کی رفتار ہے۔
یہ بھی قرآنی آیت کا ایک منطقی اور قطعی حصہ ہے جو ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ اگر کوئی اللہ ربّ العزّت کی قدرت کو ماپ تول کر جاننا چاہے یا اُس کی تخلیقی قوّت کا اِشارہ حاصل کرنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنے نزدیکی آسمان کے ناقابلِ شکست و ریخت ہونے پر غور کرے، اپنے دَور کی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قریبی کائنات کا قابلِ مُشاہدہ حصہ دیکھے جو سات آسمانوں میں سے محض ایک ہے، جس میں اربوں کہکشائیں ہیں، جن میں سے ہر ایک اربوں ستاروں پر مشتمل ہے اور اربوں سیارے اربوں نوری سال کی مسافت پر واقع ہیں۔ ایک نوری سال اُس فاصلے پر مشتمل ہوتا ہے جسے روشنی ایک لاکھ 86 ہزار 282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مابین فاصلہ اِس قدر زیادہ ہے کہ اگر اِس میں موجود ستاروں کی تِعداد کئی لاکھ گنا زیادہ ہوتی تب بھی ہماری کہکشاں (Milky Way) بہت زیادہ پُرہجوم نہ ہوتی۔
اِس آیتِ ربانی کے آٹھویں اور آخری حصے میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت ہر شے کا جاننے والا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وُہی سات آسمانوں اور ہماری ناقابلِ شکست و ریخت کائنات سمیت ہر شے کا خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے۔
کائنات کا ناقابلِ شکست و ریخت ہونا اُس قواسر (quasar) کی دریافت سے متحقق ہو سکتا ہے جسے ’PKS2000-300‘ کہا جاتا ہے۔ اُس قواسر کو آسٹریلوی اور برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا اور وہ ہم سے 18 ارب نوری سال کی مسافت پر واقع کائنات کا بعید ترین روشن جسم ہے اور 10 نیل (10,00,00,00,00,00,000) سورجوں کی توانائی خارج کرتا ہے۔ اِس قواسر کی دریافت نے پہلے سے موجود اِس تصوّر کو یکسر مُستردّ کر دیا کہ کائنات کے آخری کنارے دریافت ہو چکے ہیں۔ ماہرینِ تخلیقیات (cosmologists) کا کہنا ہے کہ صحیح معنوں میں جدید سائنسی تحقیق ہی ایک ناقابلِ تردِید حقیقت ہے جبکہ کائنات سے متعلق رِوایتی شعور میں خطاء کا بے حد اِمکان پایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ نئی دریافتیں تصویرِ عالم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved