آسمان کی وُسعتوں میں کروڑوں اربوں ستارے چہار دانگِ عالم میں صدیوں سے مسلسل ضوء پاشی کر رہے ہیں۔ اُن کے مُشاہدے کے دَوران ہم دراصل اُن کے ماضی کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہم فقط روشنی دیکھتے ہیں اور وہ روشنی جو آج سے لاکھوں سال قبل وہاں سے چلی تھی آج ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اُن ستاروں کو دیکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح آج اگر کسی ستارے پر کوئی حادثہ پیش آ جائے یا ستارہ اپنی موت سے قبل سرخ ضخّام (red giant) میں تبدیل ہو جائے تو ہمیں لاکھوں سالوں بعد اُس وقت اِس حقیقت کی خبر ہو گی جب اُس سے خارج ہونے والی روشنی اتنی طویل مسافت طے کر کے ہم تک پہنچے گی۔ گویا آج کی حقیقت لاکھوں سال بعد دکھائی دے گی۔ اِسی طرح ’سورج‘، جو ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، اگر اچانک بجھ جائے تو کرۂ ارض پر آٹھ منٹ تک زندگی جوں کی توں رواں دواں رہے گی اور زمین کے باسیوں کو خبر تک نہ ہو گی کہ سورج پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ سورج کے بجھنے کے بعد مزید آٹھ منٹ تک زمین سورج سے نکلنے والی آخری کرنوں سے روشن رہے گی تآنکہ سورج کی آخری کرن آ کر یہ پیغام دے کہ میں روشنی کی آخری سفیر ہوں اور اَب میرے پیچھے اُجالوں کا سفر ختم ہو گیا ہے۔
مغربی سائنس کی تاریخ کی صدیوں پر محیط جدّوجہد میں ارسطو سے لے کر نیوٹن تک ہمیں مطلق زمان و مکان کا نظریہ چھایا دکھائی دیتا ہے۔ اُن دونوں کا یہ نظریہ تھا کہ کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش بغیر کسی خطاء کے ممکن ہے اور یہ وقفہ کسی بھی ماپنے والے کے لئے برابر ہو گا بشرطیکہ آلاتِ پیمائش معیاری ہوں۔ یہ وہ تصوّر ہے جسے قدیم یونانی فلاسفہ کے دَور سے لے کر بیسویں صدی کے اَوائل تک عقلِ انسانی کے بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
نیوٹن کے قوانینِ حرکت کے صدیوں بعد آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت سے ’مکان۔ زمان‘ (space-time) کے جدید نظریات کا آغاز ہوا اور مسلسل اِرتقاء سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی کے آخری سالوں تک یہ نظریات ’سٹیفن ہاکنگ‘ تک آ پہنچے۔ اگرچہ ’مکان - زمان‘ کے نئے نظریات کو متعارف ہوئے برس ہا برس گزر چکے ہیں مگر پھر بھی بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن سے فرسودہ نظریۂ جمودِ کائنات مکمل طور پر محو نہیں ہو سکا۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی شہرہ آفاق تصنیف A Brief History of Time میں لکھتا ہے کہ ’’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اُس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے ’مکان۔ زمان‘ (space-time) کہتے ہیں۔ ‘‘ چنانچہ ’مکان - زمان‘ کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سُکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہے، گویا اُس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کے رَو میں دُور کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ہر فرد اور شے کے لئے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہوتا ہے جس کا اِنحصار اِس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محوِ حرکت ہے۔ یہاں آ کر زمان و مکان کی اِنفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ باہم مل کر ’مکان - زمان‘ کو تشکیل دیتے ہیں۔
’مکان - زمان‘ (space-time) کا نظریہ یقینی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ زمان بھی مکان کی طرح حادِث ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ نہ تھے، پھر اُنہیں پیدا کیا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ دونوں موت سے ہمکنار ہوں گے۔
تقریباً 15 ارب سال عمر کی نوخیز کائنات جس کی 65 ارب سال عمر ابھی باقی ہے، خالقِ کائنات کے لئے اس کی تمام عمر (یعنی 80 ارب سال) پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت ہے۔ یہی وقت یا زمان جو اپنی سُست روِی کے باعث کسی کے لئے پھیل کر لامتناہی ہو جاتا ہے، جب کسی کے لئے سُکڑتا ہے تو تیز رفتاری کے ساتھ محض چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے چند ایسے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن میں اُس نے اپنی خالقیت اور قدرت کا نظارہ کروانے کے لئے کچھ اَفراد پر وقت کی رفتار نہایت تیز کر دی اور سالوں پر محیط وقت چند گھنٹوں میں گزر گیا۔ وقت کے یوں سُکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں ’’طئ زمانی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
زمان و مکان کے اِضافی ہونے کا تصوّر بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب شہرہ آفاق یہودئ النسل سائنسدان آئن سٹائن نے 1905ء میں نظریۂ اِضافیتِ مخصوصہ (Special Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس تھیوری میں آئن سٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیرپذیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ زمان و مکان (time & space) کی مطلق حیثیت کسی طور پر حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ دونوں محض ایک اِضافی حیثیت میں ہمارے اِدراک میں آتے ہیں۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ مادّہ (matter)، توانائی (energy)، کشش (gravity)، زمان (time) اور مکان (space) اِن سب میں ایک خاص ربط اور نسبت موجود ہے اور اُس نسبت کی بنا پر ہی اُن کی تشریح کرنا ممکن ہے۔ جب ہم اُن میں سے کسی ایک کو دُوسری سے الگ کر کے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتائج یکسر مختلف حاصل ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی وقت یا فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی (relative) حیثیت میں کرتے ہیں۔ گویا کائنات کے مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے اور مکان کے بدلنے سے زمان کے بہاؤ اور رفتار میں کمی و بیشی بھی ممکن ہے۔ چنانچہ اِس سے یہ حقیقت منظرِ عام پر آتی ہے کہ ’آلاتِ پیمائش کے معیاری ہونے کے باوُجود کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش میں عدم یکسانی کا اِمکان بہرطور باقی رہتا ہے‘۔ نظریۂ اِضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اُس کا حجم اور کمیّت بھی اُسی تناسب سے گھٹتے اور بڑھتے ہیں۔
نظریۂ اِضافیت کے اِس پہلو سے یہ نتیجہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اِنتہائی تیز رفتار متحرک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی 10 فیصد رفتار پر کسی شے کی کمیّت میں اُس کی عام کمیّت سے 0.5 فیصد اِضافہ ہو جائے گا، روشنی کی 90 فیصد رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دوگنا ہو جائے گی جبکہ اُس کا حجم نصف رہ جائے گا۔ جب کسی شے کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گی تو اُس کی کمیّت میں اِضافہ تیز تر ہو جائے گا جس کی وجہ سے رفتار میں مزید اِضافے کے لئے اُسے توانائی کی مزید ضرورت بڑھتی جائے گی۔ اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ کسی شے کو اپنی حرکت سے ملنے والی توانائی اُس کی کمیّت میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے جس کے سبب اُس کی رفتار میں اِضافہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔
اگر کوئی راکٹ 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی سے 90 فیصد) کی رفتار سے 10 سال سفر کرے تو اُس میں موجود خلانورد کی عمر میں وقت کی نصف رفتار کے پیشِ نظر محض 5 سال کا اِضافہ ہو گا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزر چکے ہوں گے اور خلانورد اُس سے 5 سال چھوٹا رہ جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِنسانی جسم کی اِس محیر العقول رفتار پر نہ صرف دِل کی دھڑکن اور دورانِ خون بلکہ اِنسان کا نظامِ اِنہضام اور تنفّس بھی سُست پڑ جائے گا، جس کا لازمی نتیجہ اُس خلانورد کی عمر میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔
روشنی کی رفتار کا 90 فیصد حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے وہاں جسم کا حجم بھی سُکڑ کر نصف رہ جاتا ہے اور اگر مادّی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کر لے تو اُس کے حجم اور اُس پر گزرنے والے وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔ اِس نظریئے میں سب سے دِلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی 100 فیصد رفتار حاصل کر لے تو اُس پر وقت کی رفتار لامحدود ہو جائے گی، اُس کی کمیّت بڑھتے بڑھتے لامحدُود ہو جائے گی اور اُس کا حجم سکڑ کر صفر ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنا پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔ یوں نظریۂ اِضافیت کے مطابق کوئی مادّی جسم کبھی روشنی کی رفتار کو نہیں چھو سکتا۔ صرف روشنی اور دُوسری لہریں جن کی حقیقی کمیّت کچھ نہیں ہوتی وُہی اِس محیر العقول رفتار سے سفر کر سکتی ہیں۔ نظریۂ اِضافیت میں مطلق وقت کا وُجود نہیں ہے بلکہ اُس کی جگہ ہر شے اور فرد کا اپنا اِضافی وقت ہوتا ہے جس کی پیمائش کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ وہ کہاں ہے اور کس رفتار سے حرکت میں ہے۔
مکان-زمان (space-time) سے متعلقہ جدید نظریات سے مکان اور زمان دونوں اِضافی قرار پاتے ہیں اور اُن کے مطلق ہونے کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے ’مکان - زمان‘ کی تشریح میں یہ بات بھی دوٹوک الفاظ میں بیان کی ہے کہ جس طرح ہم کائنات میں ہونے والے واقعات کا ذِکر ’مکان - زمان‘ سے ماورا ہو کر نہیں کر سکتے اِسی طرح ’آئن سٹائن‘ کے عمومی نظریۂ اِضافیت (General Theory of Relativity) کے مطابق ’مکان - زمان‘ کا ذِکر کائنات کی حدُود سے ماورا ہو کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ یہ چیز ہمیں اِسلامی نظریات کے کافی قریب لے آتی ہے اور خالقِ کائنات اور اُس کی غیرطبیعی نوری مخلوقات کے زمان-مکان کی حدُود سے ماورا ہونے کا اِعتقاد رکھنا عینِ عقل قرار پاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے تو مکان-زمان (space-time) کے جدید نظریات کو مستحکم کرتے ہوئے ایک اور نتیجہ بھی اَخذ کیا ہے۔ اُس نے مکان-زمان کی مطلق حیثیت کی نفی اور اِضافی حیثیت کے اِثبات سے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ کائنات غیرمتغیر اور قدیم نہیں ہے بلکہ یہ دراصل مسلسل وُسعت اِختیار کر رہی ہے۔ کائنات کی اِس وُسعت پذیری سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا آغاز ماضی میں ایک خاص نقطے سے ہوا تھا اور مستقبل میں کسی خاص ساعت میں اُس کا خاتمہ بھی یقینی ہے۔
یونانی فلاسفہ کے وہ فرسودہ نظریات جو کائنات کو ’قدیم‘ ثابت کرتے ہوئے تصورِ خدا کی نفی کرتے تھے اورجس کے خلاف اِسلامی عہد میں بے شمار کلامی بحثیں ہوئیں، جدید سائنس نے یوں چپکے سے اُس بے سروپا نظریئے کے پر کاٹ دیئے اور بنی نوعِ اِنسان کو کائنات کی اوّلین تخلیق اور آخرکار اُس کی عظیم تباہی (یعنی قیامت) پر بھرپور سائنسی دلائل مہیا کر دیئے۔ عقلِ انسانی کا یہ اِرتقاء اِنسان کو اِسلام کی آفاقی تعلیمات سے مزید قریب لے آیا ہے۔
وقت کا آغاز اِس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی وُجود میں آیا تھا اور اُس کا تمام تر بہاؤ فقط اِسی طبیعی کائنات کی حدوں تک محدُود ہے۔ طبیعی کائنات سے ماوراء ہو کر وقت کی اہمیت کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہِاس مادّی کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والے فرشتوں اور اللہ تعالی کی دِیگر نورانی مخلوقات کے لئے ہماری کائنات میں جاری و ساری وقت کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ ’ملک الموت‘ صرف اِسی کرۂ ارضی پر جہاں 5 ارب سے زائد اِنسانی آبادی زندگی بسر کر رہی ہے، ایک ہی وقت میں ہزاروں کلومیٹر کے بُعد میں واقع شہروں میں رہنے والے اِنسانوں کو موت سے ہمکنار کرتا ہے اور اُن کی اَرواح کو اُسی قلیل ساعت میں عالمِ اَرواح میں چھوڑ آتا ہے۔ ’ملک الموت‘ کا اِس سرعت سے سفر یقینا روشنی کی رفتار سے بھی لاکھوں گنا تیز ہے۔ ایک عام ذہن میں فوری یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے؟ ایسا صرف اِس لئے ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا چاہا اور اُس نے ایسے قوانین تخلیق کئے جن کی رُو سے اُس کی غیر مادّی نورانی مخلوق ’مکان - زمان‘ (space-time) کی قیود (resttrictions) سے بالا ہو کر ہزاروں لاکھوں نوری سال کی مسافت سے کائناتی وقت کا ایک لمحہ صرف کئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی سراِنجام دینے میں مصروف ہے۔
جس طرح اِس کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والی مخلوقات اِس کائنات کے جملہ طبیعی قوانین سے کلیتہً آزاد ہیں اور اُن کے لئے ’مکان - زمان‘ (space-time) کی اہمیت صفر ہو کر رہ جاتی ہے بالکل اُسی طرح کائنات کی پیدائش سے قبل اور اُس کے اِختتام کے بعد بھی وقت کا وُجود نہیں۔ زمانے کا آغاز تخلیقِ کائنات سے ہوا اور کائنات کی آخری تباہی (Big Crunch) پر وقت کا یہ طویل سلسلہ تھم جائے گا۔
اِس کائناتِ ارض و سما میں ’مطلق زمان‘ اور ’مطلق مکان‘ کے وُجود کی سائنسی دلائل کے ساتھ ثابت ہونے والی نفی نے ہر فرد اور ہر شے کے لئے وقت اور جگہ کے الگ الگ اِضافی پیمانے متعارف کروائے۔ ایسے ہی ’اِضافی مکان‘ اور ’اِضافی زمان‘ کا اللہ ربّ العزت نے اپنے کلام میں بھی ذِکر کیا ہے جو مختلف اَفراد کے لئے مختلف حالتوں میں اپنی رفتار تبدیل کر لیتا ہے۔
اللہ ربّ العزت کا آخری کلام ہونے کے ناطے جہاں قرآنِ مجید بنی نوع اِنسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے وہاں وہ ہمیں بے شمار سائنسی حقائق سے آشنا کرتے ہوئے اِس کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ سِرکاتا بھی دِکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف ہم اِکیسویں صدی کی سائنسی پیش رفت اور جدید سائنسی آلات کی معاونت سے کائنات میں چھپے رازوں سے آگہی حاصل کرتے ہیں اور عناصرِ تخلیق کی مختلف تراکیب سے طبیعی دُنیا میں نت نئے قوانین دریافت کرتے ہیں جس سے یہ کائنات نسلِ اِنسانی کے لئے مسخر ہوتی چلی جا رہی ہے تو دُوسری طرف کلامِ مجید اِس دُنیا میں ہمیں اللہ تعالی کی کچھ ایسی نشانیاں بھی دِکھاتا ہے جو عام طبیعی قوانین کے تحت ہماری حیطۂ اِدراک میں سما ہی نہیں سکتی تھیں۔
روشنی کی رفتار یا اُس کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والی مادّی اشیاء پر وقت کا اِنتہائی تیزی سے بہنا تو پچھلی چند دہائیوں کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے۔ قرآنِ مجید اِس کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں پڑے اَفراد پر بھی اللہ کی نشانی کے طور پر وقت کا نہایت تیزی سے گزر جانا بیان کرتا ہے، جس سے اللہ ربّ العزت کی قدرت کا ایک اور پہلو ہماری عقل کو چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ زمان و مکان کے اپنی اِضافی حیثیت کی بنا پر کسی خاص فرد کے لئے سکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں ’’طئ زمان‘‘ و ’’طئ مکان‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
آج سے چند ہزار برس قبل ’دقیانوس‘ بادشاہ کے ظلم سے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے اُس دَور کے چند اَفراد شہری آبادی سے ہجرت کر کے گھاٹیوں میں چلے گئے اور اُنہوں نے ایک غار میں قیام کیا، تھکن سے چور تھے اِس لئے جلد ہی آنکھ لگ گئی۔ قرآنِ مجید نے ’طئ زمانی‘ کے ضمن میں اُن کا واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لوگ اُس غار میں 309 سال تک آرام کرتے رہے۔ صدیوں بعد جب اُن کی آنکھ کھلی تو اُنہیں اِس حقیقت کا اِدراک نہ ہو سکا کہ اُن پر 309 سال گزر چکے ہیں بلکہ وہ اپنی نیند کو ایک آدھ دِن سمجھتے رہے۔
قرآنِ مجید اِس محیر العقول واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے :
قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ.
(الکهف، 18 : 19)
اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا : تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔
309 سال گزر جانے کے باوُجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ابھی ایک دِن بھی پورا گزرنے نہیں پایا اور اُن کے بدن پہلے کی طرح تروتازہ اور ہشاش بشاش رہے۔ ’طئ زمانی‘ کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اَصحابِ کہف اور اُن کا کتا ایک غار میں مقیم رہے اور مرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ حکیم میں اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ ہمیں اِس حقیقت سے رُوشناس کرتا ہے کہ اَصحابِ کہف 309 سال تک اپنے غار میں کھانے پینے اور دِیگر حوائجِ نفسانی سے بے نیاز ہو کر آرام فرما رہے اور اللہ کی رحمت نے طبیعی نظامِ کائنات کو اپنے محبوب بندوں کے لئے بالائے طاق رکھ کر اُن کے جسموں کو گردِشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا اور اُن کے اَجسام موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہے۔
309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کی 300 بہاریں اُن پر گزر گئیں مگر اُن کے اَجسام تروتازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیزرفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر اُس مدّت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ مطلقہ کا ظہور تھا جس سے کائنات کے طبیعی قوانین کے پیمانے سمٹ گئے۔
قرآن مجید فرماتا ہے :
وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ.
(الکهف، 18 : 17)
اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ تعالی کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اُس نے اَصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اُس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ ’دقیانوس‘ کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک تبدیل کر دیئے اور ’ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی 300 مکمل گردِشوں تک کے طوِیل عرصے کے لئے بدل دیا اور فطری ضابطوں کو معطّل کئے رکھا۔
صدیوں سے جاری اِنسانی عقل کے سفر میں ایک نہایت اہم سنگِ میل ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) کے نتیجے کے طور پر ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت سے بنی نوعِ اِنسان کا عقلی و سائنسی اِرتقاء ابھی اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ روشنی کی رفتار کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت اُس کی رفتار کے تناسب سے بڑھ جاتی ہے، حجم کم ہو جاتا ہے اور وقت اُس پر تیز رفتاری سے گزرتا ہے۔ جبکہ اِس کے برخلاف مذکورہ بالا قرآنی واقعہ میں اَصحابِ کہف سفر کی بجائے سکون کی حالت میں آرام فرما تھے کہ اُن کے جسم تروتازہ رہے، اُن کا حجم بھی برقرار رہا اور وقت اُن پر اِنتہائی تیزرفتاری سے گزر گیا۔ اَب یہ سب کیسے ہوا؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب موجودہ سائنسی تحقیقات و نظریات کی رُو سے تو ممکن نہیں۔ تاہم آنے والے وقتوں میں ’مکان - زمان‘ (space-time) پر ہونے والی مزید تحقیقات شاید اِس عُقدے کو وَا کر سکیں اور قدرتِ اِلہٰیہ کا یہ راز بھی عقلِ انسان کو حقائق کی ایک نئی کسوٹی عطا کرے۔
خدائے عزوجل نے اپنی خصوصی رحمت سے اَصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سُلا دِیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دِی، پھر اُنہیں ایسے مُشاہدۂ حق میں مگن کر دِیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہو گئیں۔
سیدنا عزیر علیہ السلام اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے تھے۔ ایک روز آپ ایک وِیران اور برباد بستی کے پاس سے گزرے جس کے مکانات منہدم ہو چکے تھے۔ اُس وِیرانے کے مُشاہدے کے دوران اُن کے دِل میں یہ خیال وارِد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اِس تباہ حال بستی کے مکینوں کو دوبارہ کس طرح زِندہ کرے گا جن کے جسم مٹی میں مٹی ہو چکے ہیں۔ اِس خیال پر اللہ ربّ العزت نے اُنہیں حیات بعد الموت کا نظارہ کروانے کے لئے ایک صدی کے لئے سلا دِیا۔ بطورِ مُشاہدہ اُن پر 100 سال کے لئے موت طاری کر دِی اور بعد اَزاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے اور ایک مکالمے میں اللہ تعالیٰ نے ساری حقیقت اُن پر آشکار کی۔
قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے :
فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ.
(البقره، 2 : 259)
سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اللہ نے اُسے سو برس تک مُردہ رکھا، پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد اَزاں) پوچھا : تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوئے رہنے کے بعد جب حضرت عزیر علیہ السلام کو دوبارہ زِندگی ملی اور اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ سوئے رہے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا :
لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ.
(البقره، 2 : 259)
میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔
سیدنا عزیر علیہ السلام کے اِس جواب پر اللہ تعالی نے تمام بات کھول کر اُن کے سامنے رکھ دی اور اپنی قدرت کا بھرپور نظارہ کروا دیا۔ فرمایا :
بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا.
(البقره، 2 : 259)
(نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے)، پس (اَب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں، اور (اَب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اِس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اَب اُن) ہڈیوں کی طرف دیکھ، ہم اُنہیں کیسے جنبش دیتے (اور اُٹھاتے) ہیں، پھر اُنہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں!
اِس آیتِ کریمہ میں جہاں اَصحابِ کہف کی طرز پر سیدنا عزیر علیہ السلام پر وقت کا اِنتہائی تیزرفتاری سے گزرنا بیان ہو رہا ہے کہ پوری صدی اُن کے محض ایک دِن میں گم ہو گئی، وہاں اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو صدی نے گزرنے میں ایک دِن کا وقفہ بھی نہ لگایا۔ اگر وہ صدی اُس خوراک پر حضرت عزیر علیہ السلام والی رفتار کے ساتھ محض ایک دِن میں گزرتی تب بھی کھلی فضا میں پڑا کھانا یقینا باسی ہو جاتا جبکہ یہاں اللہ تعالی نے اپنی نشانی کے طور پر اُس میں عفونت اور سڑاند تک پیدا نہ ہونے دی۔ یوں اِس ایک واقعہ میں وقت کی دو مختلف رفتاریں موجود ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ گدھے پر وقت اپنی اصل رفتار سے گزرا اور ایک صدی گزر جانے کے بعد یقینا اُسے ختم ہو جانا چاہئے تھے، سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مُشاہدہ کروانے کے لئے اُس گدھے کو آپ علیہ السلام کے سامنے زِندہ کیا، اُس کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیر علیہ السلام کی اِس مثال میں بھی ’طئ زمانی‘ کا ایک منفرد انداز ملتا ہے جس میں 100 سال کا عرصہ گزر جانے پر اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہے۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو گویا ایک لمحے میں گزر گیا اور اُن کی تروتازگی میں کوئی فرق نہ آیا لیکن وُہی صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اپنی عام رفتار کے ساتھ کچھ اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا، حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اِحیائے موتیٰ کا نظارہ کروانے کے لئے اُن کے گدھے پر تجلی کی تو 100 سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدَن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو ’’طئ زمانی‘‘ اور ’’اِحیائے موتیٰ‘‘ کے منظر دِکھلا دیئے۔
اَصحابِ کہف کے واقعے کی طرح یہاں حضرت عزیر علیہ السلام بھی حالتِ سکون میں تھے اور 100 سال کا وقت اُن پر محض ایک دِن میں گزر گیا۔ اِس مقام پر بھی ’مکان - زمان‘ (space-time) کے جدید سائنسی نظریات صامت و ساکت ہیں۔ اِن دونوں قرآنی واقعات میں کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں صدیوں پڑے رہنے پر بھی وقت کا صرف ایک آدھ دِن کی صورت میں تیزی سے گزر جانا، کم از کم موجودہ سائنسی نظریات کی وساطت سے اِس کی کماحقہ تشریح ممکن نہیں۔ آنے والا وقت سائنسی تحقیقات میں مزید فروغ کا باعث ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ تب ’مکان - زمان‘ (space-time) پر ہونے والی مزید تحقیقات ہمارے لئے اِن قرآنی واقعات کی سائنسی تشریح کو ممکن بنا دیں۔
قرآنِ مجید میں طئ مکانی کی ایک بڑی بہترین مثال موجود ہے، جس میں طئ زمانی کا ایک پہلو بھی شامل ہے۔ وقت کی ایک قلیل ساعت میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھنے والا ایک صحابی فقط آپ کے فیضِ صحبت اور علمِ کتاب کے بل بوتے پر کم و بیش 900 میل کی مسافت طے کر کے وہاں سے ملکۂ سبا ’’بلقیس‘‘ کا تخت اُٹھا لاتا ہے۔ مجلس جاری رہتی ہے اور وہ دورانِ مجلس پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں یہ کام مکمل کر دیتا ہے۔ سینکڑوں میل فاصلے پر پڑی ہوئی منوں وزنی چیز کو ایک قلیل سے لمحے میں لا حاضر کرنا زمان و مکان دونوں کو لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔
قرانِ مجید اِس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ سوال کیا :
يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO
(النمل، 27 : 38)
اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیںo
ملکۂ سبا ’’بلقیس‘‘ کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے وطن سے تقریباً 900 میل دُور پڑا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضری کے لئے اپنے پایۂ تخت سے چل پڑی ہے، اُس کا تخت اُس کے آمد سے پیشتر سرِدربار پیش کر دیا جائے۔
قرآنِ مجید کہتا ہے :
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO
(النمل، 27 : 39)
ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بیشک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوںo
قرآنِ مجید کی اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئ مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لا کر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اِس موقع پر آپ کا ایک اِنسان صحابی ’’آصف بن برخیا‘‘ جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اِس انداز کو قرآنِ مجید نے اِس طرح بیان فرمایا :
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي.
(النمل، 27 : 40)
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا : یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔
یوں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک برگزیدہ صحابی ’’آصف بن برخیا‘‘ نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں تختِ بلقیس 900 میل کی دُوری سے لا کر حاضر کر دیا۔ یہ طئ مکانی کی ایک بہترین قرآنی مثال ہے جس میں فاصلے سمٹ گئے اور دُوسری طرف یہ طئ زمانی کی بھی نہایت جاندار مثال ہے کہ پلک کا جھپکنا یقیناً وقت کا ایک قلیل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اُس قلیل ترین ساعت میں اِتنی مسافت طے کرنا اور اِتنا وزن اُٹھا کر واپس پہنچنا طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔
یہاں ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ طئ زمانی و مکانی پر مشتمل اِس محیرالعقول واقعہ کا صدُور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک مقرب اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمتِ مصطفوی کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی حد کیا ہو گی! مردِ مومن کے اِشارۂ ابرو سے ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِپا آ جاتے ہیں۔ بقول حکیمُ الامت علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ :
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
مذکورہ بالا قصصِ قرآنی میں جہاں اَصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کی مثالوں میں حالتِ سکون میں طئ زمانی کی ایک صورت سامنے آئی وہاں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی آصف بن برخیا کی مثال میں طئ مکانی کے ساتھ ساتھ حرکت کی حالت میں طئ زمانی کی ایک صورت بھی پائی گئی۔ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مسلّمات و نظریات کی رُو سے حالتِ سکون میں وقت کا اِنتہائی تیزی سے گزر جانا محال ہے، البتہ روشنی کے قریب قریب رفتار حاصل کر لینے والے مادّی جسم کے لئے ایسا ممکن ہے۔ چنانچہ جہاں پہلی دو مثالوں کی سائنسی توجیہ موجودہ نظریات کی رُو سے ناممکن قرار پاتی ہے وہاں تیسری مثال جس میں طئ زمانی ومکانی کسی قدر اِکٹھی ہو گئی ہیں وہاں بھی سائنسی نظریات کاملاً تفہیم دینے سے قاصر ہیں اور ’آصف بن برخیا‘ کا کرۂ ارضی پر ہی رہتے ہوئے روشنی کی سی رفتار سے سفر کرنا اور 900 میل سے زیادہ فاصلہ طے کرتے ہوئے منوں وزنی تخت اُٹھا لانا عقلاً محال نظر آتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ قوانینِ طبیعیات کی رُو سے زمین کے کرۂ ہوائی (atmosphere) میں اِتنی محیر العقول رفتار سے کیا جانے والا سفر یقینا اُس مادّی جسم (یعنی آصف بن برخیا) کو اُسی طرح جلا کر بھسم کر دیتا جیسے خلا سے زمینی حدود میں داخل ہونے والے سیارچے (asteroids) اپنی تیزرفتاری کی وجہ سے جونہی ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں، شہاب ثاقب (meteors) کے طور پر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ’آصف بن برخیا‘ کا اِن سائنسی قوانین کو شکست دینا اور نہ صرف اِس حیران کن رفتار پر اپنا جسم ہوا کی رگڑ کے باوُجود جلنے سے بچائے رکھنا بلکہ تختِ شاہی کو بھی آنچ نہ آنے دینا یقینا اُن کی بہت بڑی کرامت ہے جو فقط اِلہامی کتاب کے علم ہی کی بدولت اُنہیں میسر آئی تھی۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزۂ معراج اپنے اندر نوعِ اِنسانی کے لئے رہتی دُنیا تک کے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے۔ وقت کے ایک نہایت قلیل لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر اور اُسی قلیل ساعت میں کرۂ ارضی کی طرف واپسی عقلِ اِنسانی سے ماوراء ایک ایسا راز ہے جسے کسی دَور کی سائنس اِفشاء نہ کر سکی۔ معجزہ نام ہی اُس فعل کا ہے جو عقلی کسوٹی سے پرکھا نہ جا سکے۔ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت کی ایک قلیل جزئی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں موجود تمام انبیاء کی اَرواح نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ بالا کی طرف روانہ ہوئے اور مکان و لامکاں کی حدود کے اُس پار سدرۃُ المنتہیٰ سے بھی آگے ربِ ذوالجلال کی رحمتِ بے پایاں سے اُس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔
اربوں نوری سال سے زیادہ وسیع مادّی کائنات کی آخری حدود سے بھی پرے اِس محیر العقول رفتار کا سفر اور سکانِ ارضی کی طرف واپسی، یہ سب کچھ وقت کے محض ایک لمحے میں ہو گیا۔ وقت کا ایک لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یوں پھیلا کہ اُس میں یہ طویل عرصۂ دراز گم ہو گیا اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ اللہ ربُ العزت کی قدرت کا ایک نظارہ تھا اور تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایسا جامع معجزہ تھا جسے عقلی و سائنسی بنیادوں پر پرکھنا اور سمجھنا قیامت تک ممکن نہیں کیونکہ فزکس کے تمام قوانین اِسی طبیعی کائنات کی حدود سے متعلق ہیں۔ جب اللہ ربّ العزت کا کوئی فعل طبیعی کائنات کے عام ضابطوں سے ہٹ کر ظاہر ہوتا ہے تو اُسے ہماری دانش سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔
معجزۂ معراج طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔ اس کا صدور نظریۂ اِضافیت میں ملنے والے وقت کے ٹھہراؤ کی ممکنہ صورت کے برعکس ہوا۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق روشنی کے قریب قریب رفتار سے بھاگنے والے مادّی جسم پر وقت کرۂ ارضی پر معمول کی زندگی کی نسبت اِنتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی دو جڑواں بھائیوں والی مثال میں روشنی کی نصف رفتار سے محوِ سفر خلاباز پر زمینی دس سال دُگنی رفتار سے گزرے جس کی وجہ سے خلاباز کی عمر میں صرف پانچ سال کا اِضافہ ہوا جبکہ اُس کا زمینی بھائی اپنی دس سال عمر گزار چکا تھا، گویا وہ خلاباز بھائی سے پانچ سال بڑا ہو چکا تھا۔
نظریۂ اِضافیت اور مکان-زمان کے نئے نظریات کے مطابق ہم نے دیکھا کہ روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرنے پر وقت زیادہ تیزی سے گزر جاتا ہے اور ایسا سفر کرنے والا مادّی جسم وقت کی دَوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ معراج کے دوران تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کو پچھاڑ دیا۔ عام روشنی سے ہزاروں گنا تیز رفتار سے سفر کرنے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت کی رَو میں پیچھے رہ جانے کی بجائے آگے نکل گئے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے کہ عام سائنسی و عقلی قوانین کے برخلاف نہ صرف روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لی بلکہ صحیح سلامت سفر کے بعد وقت کے اُسی لمحے میں واپس بھی تشریف لے آئے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار تھا جس کی بدولت آپ سے یہ معجزہ صادِر ہوا، چنانچہ اللہ تعالی نے اِس فعل کی نسبت بھی اپنی ہی طرف کی اور فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.
(بني اسرائيل، 17 : 1)
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو لے گئی۔
سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔
مکان - زمان (space-time) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ طئ زمانی و مکانی کے ضمن میں آنے والی اَمثلہ کا تعلق بھی اِضافیتِ زماں ہی سے ہے۔ تاہم یہاں ہم ان کے علاوہ کچھ اور آیاتِ مبارکہ کا ذِکر بھی کریں گے جن میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ وقت اور اُس کے گزرنے کی رفتار کی حیثیت محض ہمارے اِدراک تک محدود ہے۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔
قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہو گی۔ وہ دن بعض لوگوں کے لئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طوِیل ہو جائے گا۔ دراصل وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کے لئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیت کا اِحساس غالب ہو گا، جس کی بدولت اُن کے لئے وہ دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہو گا۔
مادّی کائنات میں طبیعی قوانین کے تحت روشنی کی رفتار کے تناسب سے تیزرفتاری سے سفر کرنے والے اَجسام پر وقت نہایت تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ مشاہدۂ حق میں مصروف اللہ کے محبوب بندوں پر حالتِ سکون میں ہی وقت یوں گزرتا ہے کہ صدیاں لمحوں میں تبدیل ہوتی دِکھائی دیتی ہیں :
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
قرآنِ مجید میں روزِ قیامت کے مختلف رفتاروں سے گزرنے کا ذِکر آیا ہے۔ اللہ کے نیکوکاروں پر وہ دِن پلک جھپکنے میں ختم ہو جائے گا، اِرشاد فرمایا :
وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO
(النحل، 16 : 77)
اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo
اِسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِO
(القمر، 54 : 50)
اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا (کہ اُس میں دیر ہی نہیں لگتی)o
وُہی دِن جو اللہ کے نیکوکار اور اِطاعت گزار بندوں پر پلک جھپکنے میں گزر جائے گا دُوسرے لوگوں پر اُس کی طوالت ہزار برس ہو گی۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO
(الحج، 22 : 47)
(جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اُس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہوo
ایک اور مقام پر فرمایا :
ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO
(السجده، 32 : 5)
پھر امر اُس کے پاس پہنچ جائے گا ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کا ہو گاo
یومِ قیامت کسی پر پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے اور کسی پر وہ ہزار برس کے برابر ہو گا، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اُس دِن وقت کی رفتار اِنتہائی آہستہ ہو گی اور وہ اُس ایک دِن کو پچاس ہزار سال کے برابر خیال کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے نامۂ اعمال اُن کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عذاب کی وحشت سے اِس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ ایک ایک پل اُن پر اجیرن ہو جائے گا اور وہ ایک دِن اُن کے لئے پچاس ہزار برس کے مساوِی ہو گا۔
اِرشادِ ربُّ العالمین ہے :
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍO
(المعارج، 70 : 4)
(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دن (ہو گا) جس کا اندازہ (دنیا کے) پچاس ہزار سال ہےo
روزِ قیامت کی اِضافی حیثیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کچھ آیاتِ مبارکہ میں وقت کی اِضافی حیثیت کا ذِکر ہوا ہے۔ وقت کے اِحساس و اِدراکِ نفسی ہونے کے حوالے سے یہ آیات بیّن اور واضح ہیں۔
اِس دُنیا میں کسی شخص کی پوری زندگی جو اُسے 60، 70 سال کی طوِیل تاریخ کے طور پر دِکھائی دیتی ہے، بے حد مختصر ہے اور جب بندہ موت کے بعد دوبارہ زِندہ کیا جائے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس کی زندگی تو چند ساعتوں سے زیادہ نہیں تھی۔
اِرشادِ ربِ کریم ہے :
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ.
(يونس، 10 : 45)
اور جس دِن وہ اُنہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ (باہمی تعارف کے لئے) دن کی ایک گھڑی کے سوا دُنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے۔
موت سے لے کر روز آخر جی اُٹھنے تک کے طویل ترین دور کے بارے میں حیات اُخروی کی عطا کے موقع پر لوگ اپنی موت کے لاکھوں سال طویل دورانیئے کو بالکل اصحاب کہف اور سیدنا عزیر علیہ السلام ہی کی مثل بہت کم وقت خیال کریں گے۔
اِرشاد فرمایا :
يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاًO
(بني اسرائيل، 17 : 52)
جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اُس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہوo
قرآنِ مجید ہماری توجہ اِس طرف بھی دلاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی بے ثباتی اور اُخروی زندگی کے تناسب سے اس کی بے وقعتی اور محدودیت کو پہچانیں اور اُسے سدا کی زندگی سمجھ کر اپنے مولا کی یاد سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔ چند روزہ حیاتِ دُنیوی کو طوِیل سمجھ کر گناہ اور ظلم میں لت پت زندگی گزارنے والے لوگ بھی قیامت کے روز اپنی تمام زندگی کو محض قلیل سا وقت قرار دیں گے۔
سورۂ مومنون میں اِرشادِ ربُّ العزت ہے :
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَO قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَO قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَO
(المؤمنون، 23 : 112 - 114)
اِرشاد ہو گا کہ تم زمین میں برسوں کے شمار سے کتنی مدت ٹھہرے رہے (ہو)o وہ کہیں گے : ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے (ہوں گے)، آپ اَعداد و شمار کرنے والوں سے پوچھ لیںo اِرشاد ہو گا : تم (وہاں) نہیں ٹھہرے مگر بہت ہی تھوڑا عرصہ کاش تم (یہ بات وہیں) جانتے ہوتےo
مذکورہ بالا تمام آیات اور قرآنی قصص اِضافیتِ زمان و مکان کی تشریح کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ نیوٹن (1642ء تا 1727ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو ردّ کر دیا تھا مگر زمان کی اِضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کر سکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریۂ اِضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اِضافی قرار دیا اور یوں اِنسانی علوم کے سفرِ اِرتقاء میں اِس مادّی کائنات کا ہر ذرّہ اِضافی قرار پایا۔ مطلق ہونا مخلوق کی شان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ مطلق العنان وُہی ذاتِ لازوال ہے جو اِس کائنات کی خالق و مالک ہے اور ہم سب اُس کے بندے ہیں اور یہ جمیع اَفلاک اور کہکشائیں بھی اُسی کے اَمر سے ایک دن وُجود میں آئیں اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ سب کچھ نہ ہو گا۔ سو حادِث کو مطلق گرداننا کہاں کی دانائی ہے! یہی وجہ ہے کہ خود فزکس ہی کے قوانین اِس تمام عالمِ پست و بالا کو اِضافی اور حادِث ثابت کر چکے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved