اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر ناقابلِ شمار ہیں۔ اَجرامِ سماوِی اور ان مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص انداز میں متوازن رکھے ہوئے ہے۔ یہی توازن اِس کائنات کا حقیقی حسن ہے، جس کے باعث مادّہ (matter) اور ضدِمادّہ (antimatter) پر مشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے (clusters) بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکز کے گرد محوِ گردش ہیں۔ ان کلسٹرز میں کہکشاؤں کا ایک عظیم سلسلہ اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پر مشتمل سیاروں کا ایک گروہ لئے کُنْ فَیَکُوْن کی تفسیر کے طور پر خالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِ سفر ہیں۔
حرکت اِس کائنات کا سب سے پہلا اُصول ہے۔ حرکت میں برکت ہے اور برکت صرف حرکت میں ہے۔ حرکت کو ہی اِس کائنات میں حقیقی دوام اور ثبات حاصل ہے۔ حرکت زندگی ہے اور سکون موت ہے۔ کائنات کو اِس موجودہ حالت میں آئے 15 ارب سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج سے 15 ارب سال پہلے دراصل بگ بینگ (Big Bang) رُونما ہوا تھا جس سے کائنات کا اِبتدائی مادّہ ہر سُو بکھرا اور اُس کے نتیجے میں یہ سلسلۂ اَفلاک و اَجرام سماوِی وُجود میں آیا۔ تخلیقِ کائنات کا وہ عظیم لمحہ جب سے وقت کی دَوڑ شروع ہوئی نہایت عظیم لمحہ تھا۔ کُنْ فَیَکُوْن کا راز تخلیقِ کائنات کے سائنسی راز کے کھلنے پر ہی مُنکشف ہو سکتا ہے۔ مخلوق پر غور و فکر خالق تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے تبھی تو اپنے نیکوکاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایا کہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں مجھے یاد کرتے ہیںاور اُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق میں بھی غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرنے سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتا ہے اور بات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اِیقان تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO
(آل عمران، 3 : 190، 191)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں :) ’’اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘o
پہلی آیتِ کریمہ میں حاملینِ عقل و شعور کے لئے تخلیقِ ارض و سماوات اور اِختلافِ لیل و نہار میں بھی اللہ ربّ العزت کی بے شمار نشانیوں کا ذِکر کرنے کے بعد دُوسری آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کے اپنے حضور میں روز و شب کی طاعت گزاری اور تقویٰ کا ذِکر کیا اور اُس کے معاً بعد اُن کی دُوسری خوبی یہ بیان کی کہ وہ کائنات کی تخلیق و تشکیل میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ کی تخلیق کے رازوں پر سے پردہ اُٹھتے ہی اُس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کو پکار اُٹھتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
ایک طرف قرآنِ مجید میں تخلیقِ ارض و سماوات کے رازہائے سربستہ سے پردہ اُٹھانے کا اِس قدر واضح حکم اللہ ربّ العزت کے محبوب و مکرم بندوں کے لئے موجود ہے اور دُوسری طرف دورِ حاضر کی جملہ کائناتی تحقیقات کے علمبردار بالعموم مغربی ممالک کے غیرمسلم سائنسدان ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کی تو اُن کی علمی پسماندگی اِس نوبت کو جا پہنچی ہے کہ وہ اِس علم سے متعلقہ کوئی خبر بھی سن لیں تو اِس قرآنی علم کو غیروں کا علم قرار دے کر استغفرُاللہ / نعوذُباللہ پڑھتے ہوئے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کے محبوب بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لئے اپنے ہی اَسلاف کا پروان چڑھایا ہوا علم اَغیار سے سیکھنا اور اُسے دوبارہ سے حرزِ جاں بنانا خالقِ کائنات کی حقیقی معرفت کے حصول کے لئے ایک لابدّی امر ہے۔
سرِدست اِس باب میں ہم چند اہم اَجرامِ سماوِی کا مختصر طور پر سائنسی اور قرآنی حوالوں سے تذکرہ کریں گے تاکہ قارئین پر یہ واضح ہو سکے کہ قرآنِ مجید علمِ فلکیات (astronomy) کے کتنے اہم راز ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور ہم سے علمِ فلکیات کے سلسلے میں کیا توقعات رکھتا ہے۔
بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن (Hydrogen) اور ہیلئم (Helium) کے گولے جو ایک دُوسرے کے مابین لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے اندر ہونے والی خودکار ایٹمی تابکاری ہر طرف نور بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ستارے اپنے اندر جلنے والی گیسوں ہی کی بدولت اِس قدر روشن نظر آتے ہیں۔ جب کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تو بِگ بینگ کے نتیجے کے طور پر ہر سُو بکھرنے والے مواد سے گیسی مرغولوں نے جنم لیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کثافت بڑھتی چلی گئی اور وہ نسبتاً کثیف اَجسام کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے۔ گیس اور گَرد و غبار کے عظیم بادل کششِ ثقل سے اندرونی سمت سُکڑنا شروع ہو گئے جس سے ستاروں کو وُجود ملا۔ گیسی مرغولوں کے سُکڑنے کے اِس عمل میں ستاروں کے ایٹم باہم ٹکراتے اور رگڑ کھاتے رہے جس سے حرارت اور توانائی کا اِخراج شروع ہو گیا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا گیا توانائی کے اِخراج کا عمل اِسی قدر تیز ہوتا چلا گیا۔ مرکزی ایٹم شدید دباؤ کے تحت ایک دُوسرے کے قریب ہونے سے حرارت میں مزید اِضافہ ہوتا چلا گیا، یوں روشن و منوّر ستارے وُجود میں آ گئے۔
قرآنِ مجید میں ستاروں کے لئے ’’النُّجُوْم‘‘ اور ’’المَصَابِیْح‘‘ کا لفظ اِستعمال ہوا ہے۔ فرمایا :
وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ.
(الاعراف، 7 : 54)
اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔
سورج، چاند اور ستارے سب اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ نظامِ فطرت کے یکساں پابند ہیں اور اَحکامِ خداوندی سے سرِمُو سرتابی کی جرات نہیں کرتے۔ نظامِ فطرت ہی کی پابندی سے کائنات میں حسن ہے اور اگر یہ نظم نہ رہے تو کائنات درہم برہم ہو جائے اور قیامت چھا جائے۔ قیامت کا وُقوع بھی فی الحقیقت ایک ایسے ہی اَمر کا متقاضی ہے، جب ستارے باہمی فاصلہ برقرار رکھنے سے مُنحرف ہو جائیں گے اور اپنے مابین طے شدہ فاصلوں کو برقرار رکھنے کی بجائے منہدم ہوکر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔ کششِ ثقل کا یہ توازُن جو آج جمیع کائنات کے حسن و نظم کو تھامے ہوئے ہے، بگڑے گا تو سب نیست و نابود (annihilate) ہو جائے گا۔
قرآنِ مجید بھی وُقوعِ قیامت کے ضمن میں ستاروں کی کششِ ثقل کا توازُن بگڑنے اور باہمی تصادُم پیش آنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْO
(التکوير، 81 : 2)
اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےo
ستاروں میں موجود اِیندھن کے جل جل کر ختم ہو جانے پر اُن سے توانائی اور حرارت کا اِخراج ختم ہو جائے گا اور وہ بُجھ کر بے نور ہو جائیں گے۔
اِرشادِ ربانی ہے :
فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْO
(المرسلت، 77 : 8)
اور جب ستارے بے نور کر دیئے جائیں گےo
ستاروں کا بے نور ہونا دراصل اُن کی زِندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ یہاں ہمیں ایک ستارے کی شروع سے لے کر آخر تک مکمل زِندگی کا سمجھنا ضروری ہے۔ ستارے گیسوں سے مرکب ایسے گولے ہیں جو نیوکلیئر فیوژن سے پیدا شدہ توانائی کا اخراج کرتے ہیں۔ اُن کی پیدائش گرد اور گیس کے اُن بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبیولا (nebula) کہا جاتا ہے۔ نیبیولا یعنی سحابیہ دراصل کسی ستارے کی وہ اِبتدائی دُخانی حالت (gaseous stage) ہوتی ہے جس سے وہ تشکیل پاتا ہے۔ سحابیئے میں موجود گیس اور گرد و غبار کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکرا کر سکڑتے ہوئے پروٹوسٹار کو جنم دیتے ہیں۔ پروٹوسٹار کو ہم نیم ستارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی پروٹوسٹار اندرونی دباؤ کے تحت کثیف اور شدید گرم ہوتے چلے جاتے ہیں، بالآخر وہ اِتنے شدید گرم ہو جاتے ہیں کہ اُن کے اندر خودکار ایٹمی دھماکوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اَب ہم اُنہیں مکمل ستارہ کہہ سکتے ہیں۔
درمیانے درجے کے ایک ستارے کی زِندگی چند ارب سال کے قریب ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہائیڈروجن سے ہیلئم میں تبدیلی کے عمل کے ساتھ ساتھ ہیلئم بھی شدید درجۂ حرارت کی بناء پر جلنے لگتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل ستارے کو اور بھی زیادہ گرم کر دیتا ہے۔ ہیلئم کی راکھ (یعنی کاربن) ستارے کے مرکز میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب ہیلئم بڑی مِقدار میں کاربن میں تبدیل ہو جاتی ہے تو ستارہ اچانک ایک دھماکے کے ساتھ پھول جاتا ہے، وہ اپنی اصل جسامت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اُس کا رنگ بھی سرخ ہو جاتا ہے۔ اِس حالت میں اُسے ’’سرخ ضخام‘‘ (red giant) کہتے ہیں۔ اُس کے بعد ستارہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑھ ہو تو وہ مرنے سے قبل ایک بار پھر سپرنووا کے دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے مگر یہ مرحلہ کچھ زیادہ دیر باقی نہیں رہتا اور مرتے ہوئے ستارے کی آخری ہچکی ثابت ہوتا ہے۔ اَب وہ ستارہ جلد ہی سیاہ شگاف (black hole) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ستارے کی زِندگی کے دوران اُسے جن مراحل سے سابقہ پڑتا ہے اُن میں سب سے پراَسرار سیاہ شگاف (black hole) ہے۔ سیاہ شگاف اِتنی بے پناہ کشش کے حامل ہوتے ہیں کہ روشنی سمیت کوئی شے اُن کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ عام ستاروں کو ہم اِس لئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ روشنی کا اِخراج کرتے ہیں اور ’بلیک ہول‘ سے روشنی کے ہماری سمت نہ آ سکنے کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے مستقلاً اوجھل ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اُنہیں ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کا نام دیا گیا ہے۔ اِس وقت ہماری کائنات کا کافی زیادہ مادّہ پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں کھو چکا ہے۔
’بلیک ہول‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے خاتمے پر روشن سپرنووا کے پھٹنے کی صورت میں رُونما ہوتے ہیں۔ ایسے ستاروں کا کثیف مرکزہ (dense core) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں فنا ہو جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔ عظیم سائنسدان ’سٹیفن ہاکنگ‘ کے مطابق کچھ ماہرینِ تخلیقیات (cosmologists) کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور کائنات کی طرف جا نکلتا ہے۔ سیاہ شگاف فزکس کے قوانین پر عمل کرتے دِکھائی نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ اُنہیں سمجھنا نہایت دُشوار ہے۔
اوپن ہائمر (Oppenheimer) کی برس ہا برس کی تحقیقات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’بلیک ہول کا مقناطیسی میدان کسی بھی مکان-زمان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے اور روشنی کی کرنیں سیاہ شگاف کے قریب آہستگی سے اندر کو مڑ جاتی ہیں‘‘۔ سورج گرھن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس اَمر کا بخوبی مُشاہدہ کیا گیا ہے۔ جوں جوں مرتا ہوا ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے اُس کا مِقناطیسی میدان طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں، جس کے باعث روشنی کے لئے اُس سے فرار اِختیار کرنا دُشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مرتا ہوا ستارہ اپنی اصل جسامت سے لاکھوں گنا چھوٹا ہو جاتا ہے مگر اُس کی کمیّت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِنتہائی طاقتور ہو جاتا ہیں اور اُس کی قوتِ کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے۔ آخرکار جب ستارہ اپنے کم سے کم ممکنہ رداس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کے مِقناطیسی میدان میں اِتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ روشنی کے فرار کے تمام راستے مسدُود کر دیتا ہے۔ نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) کے مطابق کوئی مادّی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے روشنی کے سیاہ شگاف سے نہ بچ سکنے کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے اُس سے نہیں بچ سکے گی اور اُس کا مِقناطیسی میدان اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لیتا ہے۔
ہم زمین پر رہتے ہوئے یہ خیال کرنے سے قاصر ہیں کہ ہم میں سے کوئی اِنسان سیاہ شگاف کے مُشاہدے کے لئے خلائی گاڑی کی مدد سے اُڑ کر اُس کے قریب جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی آ جائے۔ یہی وہ مقام ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں اِس سے قبل کوئی بڑا ستارہ موجود تھا۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے مرے ہوئے ستارے کے اُس مقام کی اہمیت کے پیش نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِO وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌO
(الواقعه، 56 : 75 - 76)
پس میں ستاروں کے مقامات کی قسم کھاتا ہوںo اور اگر تم جان لو تو یہ بہت بڑی (چیز کی) قسم ہےo
ستاروں کے مقامات جو اُن کی موت کے بعد سیاہ شگافوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، سماوِی کائنات کے باب میں قواسرز (quasars) کے بعد سب سے زیادہ پُراسرار ہیں، کیونکہ وہ ایسے مقام ہیں جہاں سے روشنی سمیت کوئی شے فرار نہیں ہو سکتی اور اُن کی کیفیت و ماہیت فزکس کے قوانین کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے مسلمان قارئین کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں اور اُن میں گرنے والا مادّہ مکان-زمان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ دُوسری کائنات کون سی ہے؟ اور کہاں ہے؟ اُس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا بلیک ہول سے گزرے بغیر اُس کائنات تک پہنچا جا سکتا ہے؟ یہ اور اِن جیسے بے شمار سوالوں کا جواب فزکس کے موجودہ قوانین کی رُو سے محال ہے۔ اِسی لئے اللہ ربّ العزت نے ستاروں کے اُن مقامات ’سیاہ شگافوں‘ کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ اگر بنی نوع اِنسان کا شعور اِس قدر پختہ ہو کہ اُن بلیک ہولز کی حقیقت کو جان لے تب اُسے پتہ چلے گا کہ یہاں کتنی عظیم شے کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (بلیک ہولز کے بارے میں مزید مطالعہ کے لئے ’سیاہ شگاف کا نظریہ اور قرآنی صداقت‘ نامی باب کا مطالعہ کریں)
ہمارے نظامِ شمسی کے اندر 9 بڑے سیاروں، اُن کے چاندوں اور سیارچوں کے علاوہ کچھ ایسے اَجرام بھی پائے جاتے ہیں جو برس ہا برس ہماری آنکھوں سے اوجھل رہنے کے بعد اپنے مقررہ وقت پر چند روز کے لئے ظاہر ہوتے ہیں اور بعد ازاں پھر اپنے طوِیل مدار پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں دُمدار تاروں (comets) کا نام دیا جاتا ہے۔ سورج کے گرد اُن کا مدار اِنتہائی بیضوِی ہوتا ہے۔ وہ برف سے بنے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں، عام طور پر اُنہیں ’گرد آلود برف کے گولے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جوں جوں کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب آتا چلا جاتا ہے اُس کا مرکزہ بخارات پر مشتمل روشن دُم بنانے لگتا ہے، جو ہمیشہ سورج کی مخالف سمت میں چمکتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ بعض دفعہ چند کلومیٹر قطر کے دُمدار تارے کی دُم کئی لاکھ کلومیٹرز تک طوِیل ہوتی ہے۔
سورۂ تکویر میں اللہ ربّ العزت نے دُمدار تارے کی اِس اہمیت کے پیشِ نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِO الْجَوَارِ الْكُنَّسِO
(التکوير، 81 : 15، 16)
تو میں قسم کھاتا ہوں اُن (اَجرامِ فلکی) کی جو (ظاہر ہونے کے بعد) پیچھے ہٹ جاتے ہیںo جو بلا روک ٹوک چلتے رہتے ہیں، (پھر ظاہر ہو کر) چھپ جاتے ہیںo
سورج سے ڈیڑھ نوری سال کی مسافت پر بہت بڑا سحابیہ سورج کے گرد محوِگردش ہے، جسے اُوورٹ بادل (Oort Cloud) کہا جاتا ہے۔ سورج کی طرف آنے والے دُمدار تارے وہیں پیدا ہوتے ہیں۔ سورج سے متعلقہ سب سے معروف دُمدار تارہ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ ہے، جو اپنے بہت زیادہ بیضوی مدار کی وجہ سے ہر 76 سال بعد منظرِ عام پر آتا ہے۔
برطانوی ماہر فلکیات ’ایڈمنڈ ہیلے‘ (Edmund Halley) نے اُسے 1682ء میں دیکھا اور پیشنگوئی کی کہ یہ 76 سال بعد 1758ء میں دوبارہ نظر آئے گا، چنانچہ اُس کے اعدادوشمار صحیح نکلے اور وہ 1758ء میں ہی نظر آیا۔ آخری بار وہ 6 فروری 1986ء کو سورج کے قریب آیا تھا۔ اُن دنوں بہت سے خلائی جہاز (probs) ریسرچ کی غرض سے اُس کی طرف بھیجے گئے۔ یورپین سپیس ایجنسی (ESA) کے خلائی جہاز Giotto نے اُس کے اِنتہائی قریب جا کر اُس کی تصاویر بنائیں اور اہلِ زمین کو اِرسال کیں، جن کی بدولت ہم دُمدار تاروں اور بالخصوص ہیلے کے دُمدار تارے کی ساخت کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ اب دوبارہ اِن شاء اللہ 29 اپریل 2061ء کے روز سورج کے قریب سے گزرے گا۔
قرآنِ مجید میں دُمدار تاروں کو ’’اَلْخُنَّس‘‘ اور ’’اَلْجَوَارُ الْکُنَّس‘‘ کے لفظوں میں اِس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور پھر عرصۂ دراز کے لئے چھپ جاتے ہے۔
صاحبِ قاموس المحیط لکھتے ہیں :
الکنّس : هی الخنّس، لأنّها تکنس في المغيبِ.
(القاموس المحيط، 2 : 256)
’’الکنس‘‘ کا معنی چھپنا اور گم ہو جانا ہے۔ وجہِ تسمیہ اُس کی یہ ہے کہ وہ comet (طویل عرصے کے لئے) کسی نادِیدہ مقام میں کھو جاتا ہے۔
سورج۔ ۔ ۔ جو ہماری زمین کے لئے روشنی اور حرارت کا سب سے بڑا منبع ہے اور جس کے بغیر کرۂ ارضی پر نباتاتی، حیوانی یا اِنسانی کسی قسم کی زِندگی کا کوئی تصوّر ممکن ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ دراصل وہ معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے۔ سورج چونکہ باقی ستاروں کی نسبت ہم سے بہت زیادہ قریب واقع ہے اِس لئے وہ ہمیں بہت بڑا اور گرم دِکھائی دیتا ہے اور دِن کو اُس کی کرۂ ارضی پر چھا جانے والی روشنی میں دُور دراز کے ستارے نظر آنا بالکل بند کر دیتے ہیں۔
سورج کی روشنی ہمارے لئے زِندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِرشادِ باری تعالی ہے :
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً.
(يونس، 10 : 5)
وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاO
(نوح، 71 : 16)
اور سورج کو (ایک روشن) چراغ بنایا ہےo
سورج کی روشنی کا باعث اُس کے اندر ہونے والے شدید ایٹمی دھماکے ہیں۔ سورج عام طور پر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں نہایت لطیف گیسیں ہیں۔ سورج کے مرکز میں ایک بڑا نیو کلیائی ری ایکٹر ہے جس کا درجۂ حرارت کم از کم 1,40,00,000 سینٹی گریڈ (2,50,00,000 فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیئرفیوژن کے ذریعے توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ پیدا کرتا ہے۔ اُس نیوکلیائی عمل کے دوران اُس میں موجود ہائیڈروجن ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، جس سے روشنی اور حرارت کی صورت میں شدید توانائی کا اِخراج عمل میں آتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے نیوکلیئرفیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی اُس شدید حرارت کا ذِکر یوں فرمایا ہے :
وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًاO
(النباء، 78 : 13)
اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایاo
اِتنے عظیم درجۂ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے سورج 40,00,000 ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت میں اپنی کمیّت کا اِخراج کر رہا ہے۔
اِنسانی زندگی کی قدیم تاریخ میں سورج کو بالعموم زمین کے گرد محوِگردش خیال کیا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان ’زرقالی‘ نے بھی 1080ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کیا۔ سورج اور زمین کی گردِش کے بارے میں مختلف نظریات الگ باب ’’سائنسی طریقِ کار اور اِقدام و خطاء کا تصوّر‘‘ میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں یہ جھگڑا ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے یا زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے اور سورج بھی ساکن نہیں ہے جیسا کہ قدیم نظریات میں خیال کیا جاتا تھا۔
ہماری کہکشاں ملکی وے (Milky Way) دراصل ایک چکردار کہکشاں ہے۔ اُس کے چار بازو ہیں جن میں واقع کروڑوں ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردِش کر رہے ہیں۔ سورج بھی اپنے ساتھی ستاروں کی طرح کہکشاں کے مرکز سے 30,000 نوری سال کے فاصلے پر ’’اورِین آرم‘‘ (Orion Arm) میں واقع ہے اور کہکشاں کے مرکز کے گرد 22,00,00,000 سال میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔
سورج کی اِس گردِش کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے، فرمایا :
وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِO
(يسين، 36 : 38)
اور سورج اپنے لئے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے، یہ (راستہ) غالب علم والے (اللہ) کا مقرر کردہ ہےo
سورج ہمارے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ دِنوں اور سالوں کا تعین و شمار کرنا اُسی کے ذرِیعے ممکن ہے۔ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 47.4624 سیکنڈ میں پورا کرتی ہے۔ شمسی سال کی اصل طوالت بعینہ یہی ہے۔ عام سال چونکہ 365 دِنوں کا ہوتا ہے اِس لئے بچ رہنے والے گھنٹوں کو پورا کرنے کے لئے ہر چوتھے سال کو لیپ کا سال قرار دے کر اُس میں ایک دِن کا اِضافہ کر کے 366 دِن بنا لئے جاتے ہیں، جس سے ’معیاری سال‘ میں چند منٹوں کا اِضافہ ہو جاتا ہے جسے کامل دِنوں کی صورت میں پورا کرنے کے لئے 4,000 سال بعد تک بھی دِنوں میں کمی و بیشی کرنا پڑے گی۔ سال کی صورت میں وقت کی پیمائش کا ایک ہی بہترین ذرِیعہ ’سورج‘ ہے، جو ایک طرف ماہرینِ فلکیات کے لئے اَجرامِ فلکی کے ظہور و خفا کا تعین کرنے میں مُمِد ہوتا ہے تو دُوسری طرف ایک گنوار کسان کو موسموں کے تغیر و تبدل اور فصلوں کی بوائی و کٹائی کے موزوں وقت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
سورج کی طرح چاند بھی قمری تقوِیم کے تعین اور مہینوں کے شمار کا سادہ اور فطری ذریعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے سورج اور چاند دونوں کو وقت کی پیمائش کا ذرِیعہ بنایا۔
اِس سلسلے میں اِرشادِ ایزدی ہے :
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍO
(الرحمن، 55 : 5)
سورج اور چاند معلوم اور مقررّہ (فلکیاتی) حسابات کے مطابق (محوِ حرکت) ہیںo
سورج سمیت تمام ستاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلئم کی ایک بڑی مقدار موجود ہے، جو جلتے ہوئے روشنی اور حرارت خارِج کرتی ہے۔ کسی ستارے کا اِیندھن جل کر ختم ہو جاتا ہے تو وہ ’سرخ ضخام‘ (red giant) کی صورت میں پھول جاتا ہے، جس کے بعد وہ بتدرِیج سُکڑنے اور ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مکمل بے نور ہو جاتا ہے۔ سورج کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ سورج ستاروں کے جس قبیل سے تعلق رکھتا ہے اُس حساب سے اُس کی کل عمر 9 ارب سال کے لگ بھگ ہے، جس میں سے ساڑھے چار ارب سال وہ گزار چکا ہے، گویا وہ عہدِ شباب میں ہے۔ آج سے ساڑھے چار ارب سال بعد جب اُس کا اِیندھن جل جل کر مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو وہ بھی دُوسرے ستاروں کی طرح بُجھ کر بے نور ہو جائے گا۔
اَحوالِ قیامت کے ضمن میں سورج کے بُجھ کر بے نور ہو جانے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا :
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO
(التکوير، 81 : 1)
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاo
سورۂ تکویر میں علاماتِ قیامت کے ضمن میں سب سے پہلی علامت سورج ہی کے بے نور ہونے کو قرار دِیا گیا۔ کتنی بڑی سائنسی صداقت جس تک پہنچنے میں آج کے اِنسانی علوم کے پیچھے صدیوں کا شعور کارفرما ہے، قرآنِ مجید نے ایک ہی جملے میں بیان کر دی۔
کائنات کی اوّلین تشکیل کے وقت ’بگ بینگ‘ (Big Bang) کے بعد اِبتدائی مادّہ جو بالعموم گیسی صورت میں تھا، ہر سُو بکھر گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا درجۂ حرارت کم ہوتا چلا گیا اور اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھرنے والا وہ مادّہ کروڑوں اربوں مرکزوں پر مجتمع ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہر بڑے مرکز کے اندر بے شمار چھوٹے مراکز اور اُن چھوٹے مراکز کے قرب و جوار میں اُن سے بھی چھوٹے مرکزے نمو پانے لگے۔ بڑے مراکز کہکشائیں قرار پائیں اور اُن کے اندر واقع چھوٹے مراکز کا مادّہ سُکڑ کر آہستہ آہستہ ستاروں کی شکل اِختیار کرتا چلا گیا۔ یونہی اُس کے آس پاس موجود مادّے کے معمولی حصے اُن ’نیم ستاروں‘ (protostars) کے گرد گھومتے ہوئے سُکڑنے اور سیارے بننے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ اکثر ستاروں کے گرد اُن کے اپنے ’نظام ہائے شمسی‘ وُجود میں آ گئے۔ ہمارا سورج بھی دراصل اُنہی میں سے ایک ستارہ ہے۔ کائنات میں اِس جیسے بے شمار ستارے موجود ہیں، جن کے گرد اُن کے اپنے سیاروں کے نظام واقع ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ میں زِندگی بھی پائی جاتی ہو مگر اُن کی بے پناہ دُوری کی وجہ سے ابھی کچھ کہنا قبل اَز وقت ہو گا۔
نظامِ شمسی سورج سمیت بہت سے ایسے اَجسام پر مشتمل ہے جو اُس کی کششِ ثقل کے پابند ہو کر اُس کے ساتھ ایک مربوط نظام کی صورت میں بندھے ہوئے اُس کے گرد محوِ گردش ہیں۔ نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت دِیگر ستاروں کی طرح سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلیں عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے، جن سے بعد میں 9 سیارے اور کروڑوں اربوں سیارچے وُجود میں آئے۔
ہمارا نظامِ شمسی ایک سورج، 9 سیاروں، 61 چاندوں اور بے شمار دُمدار تاروں اور سیارچوں پر مشتمل ہے۔ سیاروں میں مشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون بہت بڑے ہیں، باقی سیارے اُن سے بہت چھوٹے ہیں۔ ہماری زمین بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی رُخ میں بیضوِی مدار میں سفر کر رہے ہیں۔ سورج سے فاصلے کی بنیاد پر اُن کی ترتیب یوں ہے :
اللہ ربّ العزت نے نظامِ شمسی کے لئے قرآنِ مجید میں ’’سماء الدنیا‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اِرشاد ہوتا ہے :
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِO
(الصافات، 37 : 6)
بیشک ہم نے آسمانِ دُنیا کو سیاروں کی زینت سے آراستہ کیاo
اِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے سورج کے گرد محوِ گردِش سیاروں کا ذِکر کرتے ہوئے نظامِ شمسی کو آسمانِ دُنیا (یعنی زمین سے قریب ترین آسمان) قرار دیا ہے۔ ’سات آسمانوں کا قرآنی تصوّر‘ متعلقہ باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
تمام سیاروں کے اپنے مدار میں محوِ گردش ہونے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا :
إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَO
(يٰسين، 36 : 40)
اور تمام (اَجرامِ فلکی) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںo
یہ آفتاب و ماہتاب اور یہ سیارگانِ فلکی کی ریل پیل ہمارے آسمان کو کتنا دِلکش و دِلنشیں بناتی ہے مگر یہ سب آرائش عارضی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی طرح نظامِ شمسی کے سیاروں کو بھی ایک روز فنا ہونا ہو گا۔ سورج کی موت اُنہیں بھی موت سے ہمکنار کر دے گی۔ اُن میں سے بعض قریبی سیارے سورج میں جا گریں گے تو بیرونی سیارے اِس نظام سے رُوگرداں ہو کر نظامِ شمسی کی حدوں سے اُس پار واقع کھلے آسمان کی وُسعتوں میں بھی کھو سکتے ہیں۔ سیاروں کی سورج کے گرد گردِش کا عارضی اور وقتی ہونا اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بھی بیان فرمایا ہے۔
اِرشادِ خالقِ کائنات ہے :
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى.
(الرعد، 13 : 2)
ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔
تمام سیارے اور ستارے، اِس کائناتِ ارض و سما کی ہر شے اور تمام اَجرامِ فلکی و سماوِی ایک معینہ مدّت تک کے لئے زِندگی کی دَوڑ میں محوِگردش ہیں۔ ہر سیارے ہر ستارے کی اپنی ایک پیدائش ہے، زِندگی ہے اور پھر موت بھی ہے۔ کسی سیارے کی موت ہی اُس کی قیامت قرار پاتی ہے اور تمام ستاروں اور سیاروں کی اِجتماعی موت جو محتاط سائنسی اندازوں کے مطابق ’بگ کرنچ‘ (Big Crunch) کی صورت میں آج سے کم و بیش 65,00,00,00,000 سال بعد رُونما ہو گی وہ دِن اِس کائنات کی اِجتماعی قیامت کا دِن ہو گا۔
اِس کائناتِ پست و بالا کی اِجتماعی قیامت تمام کہکشاؤں میں واقع ستاروں کے گرد گردِش کرنے والے سیاروں کو اُن کے نظام سے بہکا دے گی اور وہ بھٹک کر اپنے ہی ستارے (جس کے نظام کا وہ حصہ ہیں) یا کسی دُوسرے ستارے سے جا ٹکرائیں گے۔
سیاروں کے اپنے مداروں سے بھٹک نکلنے اور بہک کر کسی دُوسری طرف جا نکلنے کا ذِکر اللہ تعالی نے علاماتِ قیامت کے ضمن میں قرآنِ مجید میں اِن الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے :
وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْO
(الانفطار، 82 : 2)
اور جب سیارے گِر کر بکھر جائیں گےo
سیاروں کے اپنے مداروں سے باہر نکل جانے اور اپنی موت کی طرف چلے جانے کو اللہ ربّ العزت نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
سیاروں کا نظام جو سورج سمیت اکثر ستاروں کے گرد پایا جاتا ہے، اُس میں واقع کچھ سیاروں میں زِندگی کا اِمکان بھی موجود ہے۔ تاہم ہمارے نظامِ شمسی میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جو متنوّع قسم کی اَنواعِ حیات سے معمور ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے پائے جانے کے لئے اُسے بقائے حیات کے لئے قدرت کی طے کردہ بہت سی کڑی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ہماری زمین اپنے اُوپر بسنے والی لاکھوں کروڑوں اَقسامِ حیات کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کے باعث یہاں زِندگی پنپ سکی ہے۔ اگر یہ ماحول کسی دُوسرے ستارے کے گرد گردِش کرنے والا کوئی سیارہ بھی مہیا کر سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوں۔
اِس کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی واقع ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بنی نوع اِنسان کو شروع دِن سے ہی تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے اور موجودہ سائنسی ترقی کے باوُجود ہم اِس سوال کا جواب سائنسی بنیادوں پر دینے سے اُسی طرح قاصر ہیں جیسے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کا آدمی، تاہم اِس سائنسی ترقی نے ہمیں اِتنا پختہ فکر ضرور کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے وہ سارے لوازمات جو کسی سیارے میں نمو و بقائے حیات کے لئے ضروری ہوتے ہیں اُنہیں جان سکیں۔ نظامِ شمسی کی حد تک تو تمام سیاروں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں زِندگی کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ اندرونی سیارے بہت زیادہ گرم ہیں تو بیرونی سیارے بہت زیادہ ٹھنڈے۔ رہ سہ کر ہمسایہ سیارے مِرّیخ سے توقع تھی سو وہ بھی ختم ہو گئی ہے، جب 1976ء میں وائکنگ (Viking) نامی خلائی جہاز (probes) اُس کی سطح پر اُترے۔ اُن کی بھیجی گئی تصاویر اور رپورٹس نے تمام اُمیدوں کو ختم کر دیا اور یہ بات طے پا گئی کہ ’سرخ سیارہ‘ بھی نظامِ شمسی کے دِیگر سیاروں کی طرح زِندگی سے خالی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ آڑے ترچھے خطوط نظر آتے ہیں، جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اِنسانی شعور نے وہاں بسنے والی مخلوق کی کھودی ہوئی نہریں اور دریا قرار دیا، مگر وائکنگ (Viking) اور اُس جیسی دُوسری مہمّات نے یہ بات واضح کر دِی کہ نظامِ شمسی کے دِیگر سیّاروں کی طرح وہاں بھی زِندگی کا کوئی اِمکان نہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے کم و بیش ایک ارب سال پہلے وہاں پانی موجود تھا۔ اب صرف قطبین پر تھوڑی برف جمی رہتی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ ہوا بھی موجود ہے، جس میں ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘، ’آکسیجن‘ اور ’نائٹروجن‘ گیسیں شامل ہیں، جو زِندگی کے لئے ضروری ہیں، لیکن وہ زندگی کے بے شمار ایسے لوازمات سے عاری ہے جن کے بغیر کسی سیارے پر زِندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔
زمین اللہ ربّ العزت کی تخلیق کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں اُس کی اربوں نعمتیں وافر مقدار میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں زِندگی کے لئے ضروری گیسیں ایک خاص تناسب کے ساتھ موجود ہیں اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ زمین لاکھوں سالوں سے اپنے سینے پر کاروانِ حیات کو لئے سورج کے گرد محوِ سفر ہے۔ زمین پر زِندگی کے لئے سازگار ماحول میں اُس کی کمیّت، سورج سے فاصلہ، درجۂ حرارت اور ہوا کے دباؤ کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اور اِس جیسے بے شمار دُوسرے لوازمات مل کر زمین کو اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم یہاں سانس لے سکیں۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں جا بجا کرۂ ارضی کو عطا کردہ اپنی نعمتوں کا ذِکر کرتے ہوئے اِنسان کو اپنا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ رحمن تذکرۂ نِعم سے بھری پڑی ہے۔ ان میں وہ نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں اور روزانہ مُستفید ہوتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ نہیں۔ جوں جوں سائنسی ترقی اِرتقاء کی منازِل طے کر رہی ہے خالقِ کائنات کے بے پایاں اِحسان و کرم کے راز بنی نوع اِنسان پر عیاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کرۂ ارضی پر اللہ ربّ العزت کی عام عطا کردہ نعمتیں بے شمار ہیں۔ ایک مقام پر چند نعمتوں کا ذِکر یوں آیا ہے :
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاO قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّاO فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO
(المؤمنون، 23 : 19 - 22)
پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے درجہ بدرجہ (یعنی پہلے اِبتدائی نباتات، پھر بڑے پودے، پھر درخت وُجود میں لاتے ہوئے) کھجور اور انگور کے باغات بنا دیئے، (مزید برآں) تمہارے لئے زمین میں (اور بھی) بہت سے پھل اور میوے (پیدا کئے) اور (اب) تم اُن میں سے کھایا کرتے ہوo اور یہ درخت (زیتون بھی ہم نے پیدا کیا ہے) جو طورِ سینا سے نکلتا ہے، جو تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر اُگتا ہےo اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ اُن کے شِکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اُس میں سے (بعض اَجزاء کو دُودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے اُن میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم اُن میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہوo اور اُن پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کئے جاتے ہوo
آسٹرانومی کے نکتۂ نظر سے کرۂ ارضی پر جو نعمتیں موجود ہیں، اُن میں سورج سے مناسب فاصلہ (تاکہ زندگی کے لئے اوسط درجۂ حرارت اِعتدال سے تجاوُز نہ کر سکے) اور خلا کی عمیق وُسعتوں سے زمین کی طرف آنے والی مختلف اَقسام کی شعاع ریزی سے بچانے کو زمین کے اُوپر چڑھے اوزون (ozone) جیسے غلاف بھی نہایت اہم ہیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا خصوصی فضل ہے کہ اُس نے کرۂ ارضی کے گرد ہوا کا ایک خول چڑھا رکھا ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور اُس خول کے اُوپر کچھ ایسی فضائی تہیں موجود ہیں جو زندگی کے لئے مُضِر اثرات کی حامِل شعاع ریزی کو سطح زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ اگر اوزون جیسے منطقے زمین کو چاروں اور سے گھیرے نہ ہوتے تو نہ صرف بیرونی خلا سے آنے والی شعاع ریزی بلکہ نظامِ شمسی میں اُڑنے پھرنے والے زمین کے آس پاس واقع لاکھوں آوارہ شہابیئے بھی بھٹک کر زمین کی طرف آ جاتے اور سطحِ زمین پر تباہی پھیلاتے۔
زمین کی بالائی فضا کی جانب اللہ ربّ العزت نے اہلِ زمین کے تحفّظ کے لئے جو سات تہیں بنائی ہیں اُن کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے :
وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًاO
(النباء، 78 : 12)
اور (خلائی کائنات میں بھی غور کرو،) ہم نے تمہارے اُوپر سات مضبوط (طبقات) بنائے۔
اِسی طرح ایک اور مقام پر اپنی حکمتِ تخلیق کو عیاں کرنے کے لئے یہی بات اِن الفاظ میں بھی فرمائی :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَO
(المؤمنون، 23 : 17)
اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں اُس کی حفاظت کے لئے) سات (محفوظ) راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےo
یہ اُس ربِّ ذُوالجلال ہی کی حکمتِ تدبیر ہے کہ اُس نے مخلوق کی حفاظت کے لئے اُسے اِتنے پردوں میں محفوظ مقام پر رکھا۔ خالقِ کائنات کے خلیفہ ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے ہبوطِ ارضی کے لئے اربوں نوری سال کی وُسعتوں میں بِکھری کائنات کا کوئی سا بھی سیارہ چنا جا سکتا تھا، اللہ ربّ العزت نے اس کے لئے زمین کو چنا اور اُس کا ماحول ہر اِعتبار سے محفوظ و مامون کر دیا۔
سورۂ ملک میں کرۂ ارضی پر چڑھے حفاظتی غلافوں کا ذِکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع اِنسان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اُس کی تخلیق کردہ حفاظتی پٹیوں میں نقص نکالے۔ اِرشادِ ایزدی ہے :
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍO ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِأً وَهُوَ حَسِيرٌO
(الملک، 67 : 3 - 4)
(بابرکت ہے وہ اللہ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے، تو رحمن کی تخلیق میں کہیں تفاوُت نہیں دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی فطور نظر آیاo (اے رحمن کی خدائی میں نقص کے متلاشی!) پھر دُہرا کر بار بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل و عاجز ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گیo
زمین گیند کی طرح مکمل گول نہیں بلکہ ذرا سی پچکی ہوئی ہے۔ اُس کا قطبی قطر اِستوائی قطر کی نسبت چند کلومیٹر کم ہے۔ ایسا اُس کی محورِی گردِش میں تیزرفتاری کی وجہ سے ہے۔ زمین کا قطبی قطر 12,714 کلومیٹر جبکہ اِستوائی قطر 12,742 سے 12,756 کلومیٹر تک چلا گیا ہے۔ زمین کی شکل یوں دب کر خربوزے کی سی ہو گئی ہے۔ زمین کی کروِی حالت اور پھر اُس کا مکمل گول ہونے کی بجائے بیضوِی شکل میں ہونا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَاO
(النازعات، 79 : 30)
اور زمین کو اُس کے بعد بیضوِی شکل دے دیo
آج سے صدیوں قبل جب بالعموم دُنیا جہالت کے اٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی، اور جہاں کہیں علم کی روشنی تھی بھی تو دُھندلائی ہوئی یونانی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر سوچ کے تمام دروازوں کو مقفّل کر دیتی تھیں، ایسے میں پیغمبرِآخرُالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآنِ مجید کی صورت میں اِتنے عظیم سائنسی حقائق کا اِعلان کرنا بجائے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچا نبی اور اِسلام کے سچا دِین ہونے پر بہترین دلیل ہے۔
نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلین عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرنے لگے، جن سے بعد میں 9 سیارے، اُن کے چاند اور بے شمار سیارچے وُجود میں آئے۔ زمین بھی اپنی اوّلین تخلیق کے وقت گیسی حالت میں سورج کے گرد محوِ گردش تھی اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مائع حالت اِختیار کرتی چلی گئی۔ مائع اور گیسی حالت پر مشتمل اِبتدائی زمین کے بھاری عناصر اُس کے مرکز کی طرف سمٹ کر اِکٹھے ہونے لگے اور ہلکے گیسی عناصر لاوے کے اُوپر غلاف کی صورت میں چڑھ گئے۔ رفتہ رفتہ لاوے کے اُوپر جھاگ نما تہ چڑھنے لگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی چلی گئی۔ اُس ٹھوس تہ کے نیچے گرم لاوا اُسی طرح مائع حالت میں رہا۔
لاوے کے اُوپر ٹھوس سطح کو وُجود مل جانے کے باوُجود زمین کی سطح اِس قابل نہ تھی کہ زِندگی اُس پر کسی بھی صورت میں پروان چڑھ سکتی۔ ابھی اُس کا ٹمپریچر بے اِنتہا شدید تھا اور وہ پانی کی نعمت سے بھی محروم تھی۔ پھر اُس کے بعد کرۂ ہوائی میں موجود گیسی عناصر میں کیمیائی تعامل ہوا جس کے نتیجے میں پانی نے جنم لیا اور یوں پورے کرۂ ارضی پر تاریخ کی پہلی اور طوِیل ترین مُوسلادھار بارِش ہوئی۔ یہ بارِش سالہا سال جاری رہی جس سے شدید گرم زمین پر ہر طرف جل تھل ہو گیا اور اُس کا درجۂ حرارت بھی نسبتاً کم ہونے لگا۔
لاوے اور گیسی غلاف کے درمیان موجود ٹھوس تہ، جو کافی سخت ہو چکی تھی، جن مقامات سے باریک (یعنی گہری) تھی بارش کا پانی اُن سمتوں میں بہ کر اِکٹھا ہونے لگا۔ یوں وسیع و عریض سمندر پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے زمین کا بیشتر حصہ ڈھانپ لیا۔ اُس ٹھوس غلاف کے جو مقامات موٹے (یعنی بلند) تھے اُن کے اُوپر پانی نہ ٹھہر سکا اور وہ بتدرِیج براعظم اور سلسلہ ہائے کوہ بن گئے۔
زمین کو پیدا ہوئے 4,50,00,00,000 سال کا عرصہ گزر چکا مگر اُس کے باوُجود اُس کا مرکز اُسی لاوے پر مشتمل ہے اور شدید گرم ہے۔ 71 فیصد سطحِ ارضی پر پھیلے ہوئے سمندروں نے اُس کی حدّت کو کنٹرول کر کے ٹھوس خلاف کے اُوپر کے ماحول کا درجۂ حرارت اوسطاً 15 ڈگری سینٹی گریڈ کر رکھا ہے، جس سے وہ زندگی کے لئے سازگار ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اگر کسی کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سمندروں کا پانی ختم ہو جائے تو نہ صرف پانی کی قلت کی وجہ سے بلکہ اندرونی لاوے کی حدّت کے سبب بھی ہر طرح کی اَنواعِ حیات اِس طبقِ ارضی سے مفقود ہو جائیں۔
طوِیل ترین بارشوں کے نتیجے میں زمین کو قابلِ زندگی بنانے کے سلسلے میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَO
(المؤمنون، 23 : 18)
اور ہم ایک مقررّہ مقدار میں (عرصۂ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہو گئی تو) ہم نے اُس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے اِبتدائی سمندر وُجود میں آئے) اور بیشک ہم اُسے (بخارات بنا کر) اُڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیںo
سائنسی تحقیقات کی پیش رفت اور قرآنی بیانات میں کسی قدر ہم آہنگی ہے۔ ۔ ۔ بالکل یونہی جیسے قرآن آج کے دَور کی کتاب ہو۔ ۔ ۔ اور واقعی قرآن آج کے دَور کی کتاب ہے، قرآن ہر اُس دَور کی کتاب ہے جو علم و فن اور شعور و آگہی سے ہم آہنگ ہے۔ سائنس جوں جوں تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھاتی جائے گی ہمیشہ قرانِ مجید کو اپنے سے آگے اور آگے جاتا محسوس کرے گی اور یہ حقیقت علمی دُنیا کے فرزندوں کو ایک نہ ایک دِن ماننا پڑے گی کہ قرآن ہی صداقت کا آخری معیار ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور اُسی میں بنی نوعِ اِنسان کے جملہ مسائل کا حل ہے اور اُس کی تعلیمات سے مطابقت ہی صحیح معنوں میں آئیڈیل علمی معاشرے کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوِی سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناء پر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا :
كَلَّا وَالْقَمَرِO
(القمر، 74 : 32)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کیo
جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دِیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ دورانِ گردش وہ اپنا ایک ہی رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ اُس کی محورِی اور سالانہ دونوں گردشوں کا دورانیہ برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کا ایک دن اور ایک سال دونوں برابر ہوتے ہیں۔ جوں جوں اُس کا محور گردِش کرتا ہے اُس کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے گرد بھی اُسی تناسب سے گھومتا چلا جاتا ہے اور یوں وہ زمین کی طرف اپنا ایک ہی رُخ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لئے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں مگر اُس کے باوُجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 اکتوبر سے اگلا دِن 15 اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیئے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خودساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چونکہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا۔
ہم نے دیکھا کہ شمسی تقوِیم کی طرح قمری تقوِیم میں بھی گوناگوں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اُنہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں مگر اُن پیمائشوں میں پڑنے کی عام آدمی کو ضرورت ہی نہیں۔ چاند خود بخود فیصلہ کر دیتا ہے۔ شمسی تقوِیم کے برعکس اللہ ربّ العزت نے چاند کو تعینِ اَوقات کی ایسی ذِمہ داری سونپ دی ہے کہ فطری طریقے سے تقوِیم وضع ہونے لگتی ہے۔ یہ تقوِیم علم و فن سے عاری معاشروں کے لئے بھی وقت کے شمار کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کا پڑھا لکھا اِنسان بھی اُس سے خوب متمتع ہو سکتا ہے۔
چاند کو سونپے گئے فطری طریقِ تقوِیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں فرمایا :
وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَO
(يونس، 10 : 5)
اور اُس (چاند) کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقیقتوں کے ذرِیعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہےo
ہر اگلی رات چاند کی شکل تبدیل ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا سورج اور زمین کے حساب سے اُس کے زاویئے میں تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔ پہلی تاریخ کو وہ باریک ناخن کی طرح مغربی اُفق پر ظاہر ہوتا ہے اور جلد ہی غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد ہر اگلے دِن پہلے سے بڑا ہوتا ہے اور زیادہ دیر تک اُفق پر رہتا ہے۔ ساتویں تاریخ کو وہ وسط آسمان میں ظاہر ہوتا ہے اور چودھویں کو مکمل چاند کی صورت میں مشرق سے باقاعدہ طور پر طلوع ہوتا دِکھائی دیتا ہے اور صبح طلوعِ شمس سے پہلے غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد کے دِنوں میں اُس کی روشن سطح بتدرِیج کم ہونے لگتی ہے اور وہ رات کو دیر سے طلوع ہوتا ہے۔ آخری تارِیخوں میں وہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے۔ اُن دنوں اُس کی حالت بہت باریک ہو جاتی ہے۔ چاند کی اُس حالت کو اللہ تعالیٰ نے عرجونِ قدیم (پرانی بوسیدہ شاخ) سے تشبیہ دی ہے۔
اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِO
(يسين، 36 : 39)
اور ہم نے چاند کی منازِل طے کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ (اپنی پہلی حالت کو) پلٹ کر (کھجور کی) پرانی بوسیدہ ٹہنی جیسا ہو جاتا ہےo
چاند کی روشنی جو چاندنی راتوں میں اِنتہائی دِلفریب حُسن رکھتی ہے اُس کی اپنی نہیں ہوتی۔ چاند تو محض سورج کی طرف سے آنے والی روشنی کو منعکس کر کے چمکتا دِکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے زاویہ بدلنے پر اُس کی شکلیں بھی بدلنے لگتی ہیں۔ اگر ہم چاند پر جا کر زمین کی طرف دیکھیں تو زمین بھی ہمیں چاند ہی کی طرح روشنی منعکس کر کے چمکتی دِکھائی دے گی اور چاند ہی کی طرح شکلیں بدلتی بھی نظر آئے گی۔ فرق صرف اِتنا ہو گا کہ چاند شکلیں بدلنے کے ساتھ ساتھ زمین پر طلوع و غروب ہوتا بھی دِکھائی دیتا ہے مگر زمین چاند پر سے ایک ہی جگہ کھڑی نظر آئے گی اور وہیں کھڑے کھڑے شکلیں بدلتی رہے گی۔
چاند کی روشنی سورج کا مرہونِ منت ہے۔ جس طرح زمین سورج کی دُھوپ سے تمازت پاتی اور روشن ہوتی ہے اُسی طرح چاند بھی سورج ہی کی دُھوپ سے منوّر ہوتا ہے۔ یہ بات قدیم یونانی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی، مگر قرآنی صداقت اِس سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان سے عاری دَور کے متداول نظریات کے خلاف قرآنِ مجید میں سورج کے لئے ’’روشنی دینے والا‘‘ اور چاند کے لئے ’’روشن کیا جانے والا‘‘ کے الفاظ فرمائے۔
سورۂ یونس میں فرمایا :
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا.
(يونس، 10 : 5)
وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا)۔
اِسی طرح سورۂ نوح میں فرمایا :
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاO
(نوح، 71 : 16)
اور اُن میں سے چاند کو چمکنے والا اور سورج کو (ایک روشن) چراغ (روشنی دینے والا) بنایا ہےo
سورۂ فرقان میں اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بے نقاب کیا :
وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًاO
(الفرقان، 25 : 61)
اور اُس میں سورج کو (روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایاo
سورج کے ازخود روشن ہونے اور چاند کے مُستعار روشنی سے منوّر ہونے کی حقیقت اللہ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں پہلے قرآنِ مجید میں بیان کر دی تھی۔ یہ وہ دَور تھا جب دُنیا بھر کے علمی حلقوں میں فقط یونانی نظریات کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے ماحول میں آج کے دَور کی سائنس کے نظریات کا کماحقہ پیش کرنا فقط اللہ ربّ العزت ہی کی قدرت سے ممکن ہے۔ کلامِ الٰہی کے برحق ہونے اور پیغمبرِآخرُالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوّت کے ثبوت میں یہ اور اِس جیسی بے شمار آیات قرآنِ مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے سلیمُ العقل اِنسان اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اِسلام ہی دینِ حق ہے، جو آج کا بھی دین ہے اور آنے والے کل کا بھی، کہ اُسے روزِ قیامت تک کے لئے مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے۔
سماوِی کائنات کی حتیٰ المقدُور تسخیر اور اُس تسخیر کے ضمن میں اَسباب بہم پہنچانے کا حکم اللہ ربّ العزت نے اپنی دونوں مکلف مخلوقات بنی نوع اِنسان اور جنوں کو قرآنِ مجید میں دیا ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے :
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍO
(الرحمن، 55 : 33)
اے گروہِ جنات و اِنسان! اگر تم سماوِی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدُود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیت) کے بغیر تم (یقینا) نہیں نکل سکتےo
چاند جس کی چاندنی اِنتہائی دِلفریب ہوتی ہے اور شاعر مزاج دلوں کو پگھلا کر موم کر دیتی ہے، 1969ء میں تین امریکی خلابازوں کے قدموں نے اُسے سر کر لیا اور اِنسان کا جذبۂ تسخیر کرۂ ارضی پر واقع بڑے بڑے سلسلہ ہائے کوہ سے بڑھ کر پہلی بار کسی دُوسرے سیارے تک جا پہنچا۔ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے ’ناسا‘ (National Aeronautic Space Agency) کی طرف سے تسخیرِماہتاب کی اُس مہم میں ’نیل آرمسٹرانگ‘ (Neil Armstrong)، ’ایڈوِن بز‘ (Edwin Buzz) اور ’کولنز‘ (Collins) وہ پہلے اِنسان تھے جو 20 جولائی 1969ء کے تاریخی دِن Apollo-11 میں سوار ہو کر چاند تک پہنچے۔ اُس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع زمینی مرکز KSC (کینیڈی سپیس سنٹر) میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات بھی دیتے رہے اور دو دِن کے مختصر سفر کے بعد یہ مہم جُو قافلہ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر زمین کی طرف واپس پلٹ آیا۔ اُس مہم کے دَوران پورے خطۂ ارضی پر واقع اکثر ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز نے پل پل کی خبر دُنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا جو چاند کی تسخیر کے سلسلے میں رُونما ہوا۔
تسخیرِ ماہتاب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَO لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَO
(الانشقاق، 84 : 18 - 20)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہےo تم یقینا طبق دَر طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےo تو اُنہیں کیا ہو گیا کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےo
چاند کو سر کرنے کی اس مُہم کا تفصیلی اَحوال ’علومِ قرآنی کی وُسعت‘ نامی باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved