نظم اور توازُن کے بغیر اِس معاشرے کی سب سے چھوٹی اِکائی یعنی خاندان کا نظام چلانا بھی ممکن نہیں ہوتا، ہرآن تغیر پذیر کائنات تو بڑی وسیع و عریض چیز ہے۔ اِنسانی عقل و شعور اِس کی حدبندی سے بھی قاصر ہے۔ نظم و توازن کے بغیر ماہ و نجوم اور سیارگانِ فلکی کی گردِش اور پھر مسلسل ربط، عظیم کائناتی ضوابط کی پابندی ہی سے ممکن ہے۔ یہ نظم توازُنِ کائنات کا حسن بھی ہے اور یہی نظم اور توازُن فرد کے اندر اور باہر کی دُنیا کو بھی رعنائیوں کا مرقع بنا دیتا ہے۔ اِسی طرح فطرت کے مقاصد کی نگہبانی اُسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب تمام جاندار اور غیرجاندار مخلوقات اپنے خالق و مالک کے اَحکامات کی پابندی کریں۔ اِس وسیع و عریض کائناتِ رنگ و بو کے سائنسی مطالعہ سے قدم قدم پر اِنکشافات کی نئی دُنیائیں آباد نظر آتی ہیں اور اَجرامِ فلکی سختی سے قوانینِ فطرت کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اِنکشاف ذِہنِ اِنسانی پر اَحکاماتِ خداوندی کی پابندی کے کئی بند دروازے کھولتا ہے کہ جب یہ غیرجاندار مخلوقات ستارے، سیارے، چاند، سورج اور کہکشائیں، سب اپنے خالق کے اَحکامات پر عمل پیرا ہیں تو پھر اِنسان کیوں نہ اپنے خالق کے اَحکامات بجا لائے۔ وہ تو اَشرفُ المخلوقات ہے اور اُسے تو اِس کائنات کی تسخیر کی ترغیب بھی خود خالقِ کائنات نے دی ہے۔ تسخیرِکائنات کے اِسی شعور سے جدید علوم جنم لیتے ہیں۔ ذِہنی اور فکری اِرتقاء کی منزلیں طے ہوتی ہیں اور قوانینِ فطرت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اِنسان کائنات میں جاری اُن قوانین اور ضابطوں کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اَخذ کردہ نتائج اور شعورِ نَو کی مدد سے معرفتِ اِلٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اِس عظیم نظام کے فہم و اِدراک اور اُس کی عملی زندگی میں توجیہات و تفہیمات کی بنیاد رکھتا ہے۔ چنانچہ قدرتی طور پر اُس کے ذِہن پر کشادہ راستے کھلتے جاتے ہیں اور یوں علومِ جدید کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اِنسانی قوّتِ مشاہدہ پر کامل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی بتاتی ہے کہ جدید تحقیق کے ساتھ ساتھ سابقہ نظریات کی بنیادیں تک بدلتی رہتی ہیں۔ اس کا طرزِ اِستدلال بھی بدلتا رہتا ہے۔ یہ اِنسانی علوم کا اپنا ایک انداز ہے جو اِنسانی عقل و دانش کے اُصولوں کے عین مطابق ہے۔ بہرحال علومِ اِنسانی کا دائرۂ کار اور اُس کی تمام تر تگ و دَو فطرت کے محض چند رُموز و اَسرار سے آگاہی تک ہی محدود ہے۔
سائنسی طرزِ فکر اِختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اِنسان فطرت سے متعلق علوم میں مقدور بھر دسترس رکھنے اور حقائق کو قوانینِ فطرت کی کسوٹی پر پرکھ کر کسی حد تک ضمنی نتائج اَخذ کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور فرسودگی کا زنگ رفتہ رفتہ اُس کے ذِہن سے اُترنے لگا ہے، لیکن اِس کے برعکس وہ مافوق الفطرت واقعات کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مافوق الفطرت واقعات کے پس منظر اور پیش منظر کی تفہیم اُس کے حیطۂ شعور سے باہر ہے۔ مثلاً عالمِ اَنفس سے متعلق علم ’حیاتیات‘ (boilogy) ہمیں جسم کی ساخت، اُس کے اندر پیدا ہونے والی اچھی یا بری تبدیلیوں، اُس کے لئے مفید اور ضرر رساں اشیاء اور اُس کی مکمل دیکھ بھال وغیرہ کا طریقہ بتاتا ہے اور اِنسان بیماری کی صورت میں اُس کے علاج معالجے کا شعور بھی رکھتا ہے، لیکن اِس کے برعکس یہ علم وجہِ تخلیقِ اِنسانی سے بے خبر ہے۔ اِنسان کی عاقبت کیا ہو گی؟ اِس سلسلے میں اُسے کچھ معلوم نہیں۔ اچھے یا برے اَعمال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ وہ اِس قسم کے دیگر سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اِسی طرح عالمِ آفاق کی تخلیق و توسیع سے متعلقہ علم ’تخلیقیات‘ (cosmology) ہمیں Minute Cosmic Egg سے لے کر Big Crunch تک جملہ معلومات فراہم کرتا ہے اور تخلیقِ کائنات کے تمام مراحل اور اِنجامِ کائنات کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کی بابت قیمتی معلومات کا ایک خزانہ بہم پہنچتا ہے، لیکن مذہب سے متعلقہ تمام معاملات مثلاً خود خالقِ کائنات، وجہِ تخلیقِ کائنات اور روزِ جزا کے قیام جیسے موضوعات کے بارے میں خاموشی اِختیار کرنے کے سِوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ جیسے ایک موٹر بوٹ سمندر کے پانیوں میں سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن خشکی پر ایک قدم آگے بڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، بالکل اِسی طرح سائنسی علوم بھی اپنے ایک محدود دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اللہ ربّ العزّت کی عادت کے نظام یعنی نظامِ فطرت کے رازہائے سربستہ کو پا لینے اور اُن کے اِدراک و شعور تک محدود ہیں۔ خالقِ کائنات کی قدرت کا اِظہار کیا شے ہے؟ اور مافوق الفطرت معاملات کیا ہوتے ہیں؟ اِس بارے میں جدید سائنسی علوم ہماری معلومات میں ایک لفظ کا بھی اِضافہ نہیں کر سکتے۔ سائنسی تحقیقات کے ذرِیعہ اِن اُمور کا سُراغ لگانا اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ مذہب کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اِس بات کی وضاحت ہم حصہ اوّل کے دُوسرے باب میں تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ’مذہب‘ اور ’سائنس‘ دونوں کے دائرۂ کار ہی جداگانہ ہیں، لہٰذا اِن میں سے کسی ایک سے صرفِ نظر اور دُوسرے پر کلی اِعتماد کرتے ہوئے فقط اُسی کے بل بوتے پر دُوسرے کے دائرۂ کار میں آنے والے حقائق سے آگہی کیونکر ممکن ہے!
عالمِ اسلام کے نامور سائنسدان ابوالبرکات بغدادی (1065ء تا 1155ء) کا وضع کردہ سائنسی طریقِ کار مسلمانوں پر حاوِی ہو جانے والی ناقابلِ بیان علمی پسماندگی کے بعد گزشتہ پانچ صدیوں سے عالمِ مغرب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سائنٹفک اَپروچ نے بنی نوعِ اِنسان کو اپنی اپنی فیلڈ میں اپنی تحقیقات کی بنیاد کے طور پر حقیقت پسندانہ طرزِعمل اپنانے کا شعور عطا کیا ہے۔ جدید مغربی سائنس کی تمام تحقیقات اُن طبعی اور حیاتیاتی علوم پر مشتمل ہیں جن کی کسی بھی حوالے سے بنی نوع اِنسان کو ضرورت ہے۔ وہ فطری علوم جو موجودہ سائنس کے زُمرے میں آتے ہیں، اُن کے دائرۂ کار کی بآسانی تفہیم کے لئے اُنہیں درج ذیل تین بنیادی اَقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
i۔ مادّی علوم physical sciences
ii۔ حیاتیاتی علوم biological sciences
iii۔نفسیاتی علوم psychological sciences
یہ کائناتِ ارض و سماء مادّے کی مختلف اَشکال اور مادّے کی رنگا رنگ صورت پذیری کا دِلکش اور دِلچسپ مرقع ہے۔ مادّے کی دُنیا سے تعلق رکھنے والے تمام علوم اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ اِنہیں ہم غیرنامیاتی اَشیاء کے علوم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ مادّی علوم میں علمِ طبیعیات (physics)، علمِ ہیئت (astronomy)، علمِ تخلیقیات (cosmology)، علمِ کونیات (cosmogony) علمِ جغرافیہ (geography)، علمِ کیمیاء (chemistry)، علم آثارِ قدیمہ (archaeology)، علمِ طبقاتُ الارض (geology)، علمِ موسمیات (meteorology)، علمِ ہندسہ (geometry)، فنِ تعمیر (architectonics)، علمِ برقیات (electronics)، اور کمپیوٹر سائنسز وغیرہ قابلِ ذِکر ہیں۔ اِن علوم کا دائرۂ کار زِندگی اور شعور دونوں سے قطع نظر محض غیرنامیاتی کائنات تک محدُود ہے۔
سائنسی علوم میں حیاتیاتی علوم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اِس شعبہ میں زِندگی اور اُس کی نشو و نما سے متعلق تمام علوم شامل ہیں۔ اِن علوم کے دائرۂ کار میں تمام جاندار اشیاء آ جاتی ہیں۔ اِنسانی اور حیوانی زندگی، حشرات الارض، سمندری مخلوقات اور نباتات وغیرہ اِن علوم کا موضوع ہیں۔ علمِ حیاتیات (biology)، علمُ الجنین (embryology)، علمِ حیوانات (zoology)، علمِ تشریحُ الاعضاء (anatomy)، علمُ الطب (medical science)، علمُ الجراحت (surgery) اور علمِ نباتات (botany) وغیرہ اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ حیاتیاتی علوم فقط دُنیوی زِندگی سے بحث کرتے ہیں۔ گویا جسمانی زِندگی کے مختلف اَدوار اور مختلف مراحل تو زیربحث آتے ہیں لیکن اِنسان کی رُوحانی زِندگی اِن علوم کا موضوع ہی نہیں۔ اِس لئے قبل اَز حیات اور بعدممات کی زِندگی سے اِن علوم کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ موضوعات اِن حیاتیاتی علوم کے موضوع سے خارج ہیں۔
وہ علوم جو حیاتِ اِنسانی کی شعوری رعایت سے تشکیل پاتے ہیں نفسیاتی علوم کہلاتے ہیں۔ اِنہیں مجموعی طور پر سوشل سائنسز کا نام بھی دِیا جاتا ہے۔ یہ اِنسانی رویوں سے بحث کرتے ہیں اور اس کی فکری اور نظری سمتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ نفسیاتی علوم کی مختلف شاخیں ہیں۔ مثلاً : فلسفہ (philosophy)، اَخلاقیات (ethics)، نفسیات (psychology)، صحافت (journalism)، قانون (law)، تعلیم (education)، زبان و اَدب (literature)، سیاسیات (political science)، معاشیات (economics)، تاریخ (histiography)، عمرانیات (sociology) اور تمام فنونِ لطیفہ (fine arts) اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تمام علوم و فنون شعورِ اِنسانی پر اور اِنسان کے جبلی طرزِعمل پر براہِ راست اَثرانداز ہو کر اُس کی شخصیت اور کردار کو صیقل یا زنگ آلود کرتے ہیں، تاہم مذہب کے زُمرے میں آنے والے تمام مافوق الفطرت علوم تک کامل رسائی اِن نفسیاتی علوم کے ذرِیعہ بھی ممکن نہیں۔
آج کا ترقی یافتہ اِنسان خواہ اُس کا تعلق کسی بھی برِاعظم سے ہو، وہ شدید ذِہنی اُلجھاؤ کا شکار ہے۔ اندرونی خلفشار نے اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اِمامتِ علم کا فریضہ سراِنجام دینے والے مغربی سکالرز نے اِعتدال اور توازُن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رکھا ہے۔ مادّی اور حیاتیاتی علوم کی اِنتہاؤں کو چھونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علوم پر کما حقہ توجہ نہیں دِی جا سکی۔ سائنسی علوم کے مذکورہ بالا تینوں شعبے اور اُن کی بیسیوں ذیلی شاخیں اِنسانی ماحول میں واقع فطرت کا محض بِالاَجزاء مطالعہ کرتی ہیں۔ اِس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تو اِنسان حیاتیاتی علوم میں درجۂ کمال تک پہنچنے کے باعث پیچیدہ تر بیماریوں کے خلاف مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور دُوسری طرف جدید سائنس مادّی علوم کی رِفعتوں کو چھو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سرجری میں بے پناہ ترقی کی گئی ہے اور نت نئی ادوِیات بیماریوں کے خلاف کمربستہ ہیں، وہاں دُوسری طرف آسمان کی وُُسعتوں میں سِتاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں اور تسخیرِ کائنات کے عزم سے نکلنے والا اِنسان چاند پر اُترنے کے بعد مریخ کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ایسے میں جب ہم اِس ترقی یافتہ دَور میں نفسیاتی علوم کی طرف ایک نگاہ دیکھتے ہیں تو مارے شرم کے نظر ٹِک نہیں پاتی کہ اکثر مغربی سائنس دانوں اور اَربابِ دانش کی مخصوص ذِہنیت کے سبب سے نفسیاتی علوم کا شعبہ پوری طرح پنپ نہیں سکا۔ سوشل سائنسز جو نفسِ اِنسانی سے متعلقہ علوم پر مشتمل ہیں اور جن کا تعلق براہِ راست اِنسان کی شعوری زِندگی کے ساتھ ہے، اُنہیں جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا گیا ہے اور اِس ضمن میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ حیران کن اَمر یہ ہے کہ موجودہ سائنس جس کی تمام تر ترقی شعورِ اِنسانی کی بیداری کی مرہونِ منت ہے، شعوری سائنسز سے اِس درجہ بے اِعتنائی برتنے کی مُرتکب ہو رہی ہے۔ یہ امر ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ محض مادّی اور حیاتیاتی علوم میں ترقی کے ذریعہ اِنسانیت کے جمیع مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ اِس کے ذِہنی سکون اور اِطمینانِ قلب کے لئے نفسیاتی سائنسز پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مغرب کا بے سکون معاشرہ گوشۂ عافیت کی تلاش میں ہے۔ آج کے اِنسان کی مضطرب رُوح سکون کی متلاشی ہے۔ وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہے۔ دجل، جھوٹ، فریب اُس کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اُس کے نفسیاتی مسائل نے اُسے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اَخلاقی طور پر وہ دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ مغرب میں اپنی مکمل تباہی کے بعد اب مشرق میں بھی معاشرے کی بنیادی اِکائی یعنی خاندان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو چکا ہے۔ اِنسانی معاشرے قوّتِ برداشت سے محروم ہو چکے ہیں، معاشرے معاشروں پر جنگیں مسلّط کر رہے ہیں اور اِس آفاقی معاشرے کا فرد بے جہت منزلوں کی طرف سفر رواں ہے۔ مقصدیت نام کی کسی چیز کا اُس کی زندگی میں عمل دخل نہیں رہا۔ وہ مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ثقافتی بحران کی سنگینی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی رِوایات سے اِنحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر مغربی سائنسدان اور اربابِ علم و دانش سوشل سائنسز پر بھی مناسب توجہ دیتے اور محض مادّی ترقی کو ہی اِنسانی معاشروں کی فلاح کا ضامن نہ ٹھہراتے تو آج اِنسان کی سوچوں کے اندر ایک ٹھہراؤ اور وقار ہوتا۔ اِنسانی معاشرہ یوں حیوانی معاشرے کے قریب تر ہو کر اپنی اعلیٰ اَخلاقی رِوایات سے یکسر محرومی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مادّی اور حیاتیاتی علوم کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کو بھی بھرپور توجہ کا مستحق سمجھا جائے اور اِنسان کو ذِہنی خلفشار اور فکری پراگندگی سے نجات دِلا کر اور اُسے مقصدِ زندگی کی بے اَنت لذّتوں سے ہمکنار کیا جائے۔ جب تک تمام مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم میں فکری روابط کو مضبوط نہیں بنایا جاتا اُسوقت تک معاشرے معاشروں کے خلاف جنگیں بپا کرتے رہیں گے اور نسلِ اِنسانی کی وحدت اور یگانگت کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ شعوری سائنسز یا نفسیاتی علوم ذہنِ اِنسانی سے براہِ راست تعلق کی وجہ سے رُوحانی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم سے کسی حد تک قریب چلے آتے ہیں اور اُن تک رسائی میں قدرے معاوِن ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب تک کی بحث سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اِنسانی سوچ کبھی بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ ذِہنی اِرتقاء، فکری بالیدگی، کائناتی سچائیوں کے اِدراک اور خلافِ عقل واقعات کے ظہور سے بشری علوم میں ترمیم، اِضافہ اور اِصلاح کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ اِنسانی علوم اور نظریات حالات و واقعات اور سائنسی اِنکشافات کی روشنی میں یکسر مُستردّ بھی ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے کہ علومِ بشری کی وحیء اِلٰہی سے مطابقت ناپید ہوتی ہے اور یہ مطابقت علومِ بشری کی بنیادی ضرورت ہے۔ اِنسانی اِستعداد پر اِنحصار کرنے والے تمام علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے وحیء اِلٰہی سے مطابقت۔ وحیء اِلٰہی کی آخری اور حتمی صورت اِسلام کے دامنِ رحمت میں موجود ہے اور صحیفۂ اِنقلاب کی صورت میں حرف بحرف محفوظ ہے۔ قرآنِ حکیم کو تمام علوم کی بنیاد قرار دے کر اور اِس کی ایک ایک آیت کو رہنما اُصول کا درجہ مان کر اگر تمام سائنسی علوم کا ڈھانچہ اُستوار کیا جائے تو یقینا تمام سائنسی علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط بھی پیدا ہو گا اور یہ ایک ہی اِکائی کو مکمل کرتے نظر آئیں گے۔ قرآنِ مجید کے اَنوار و تجلّیات سے اِکتساب نور کرنے والے یہ تمام علوم کامیاب حیاتِ اِنسانی کے لئے ایک ہی ضابطہ اور لائحۂ عمل مرتّب کرتے دِکھائی دیں گے۔
اِس ضمن میں خاص طور پر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مادّی علوم اور اُن کی مختلف شاخیں فقط تحقیق و جستجو کی بدولت خود بخود لاشعوری طور پر قرآنی علوم سے مطابقت اِختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور قدم قدم پر آسمانی ہدایت کے ایک ایک لفظ کی توثیق ہو رہی ہے، لہٰذا شعوری سائنسز کو بھی وحدتِ نتائج کے گوہرِ مُراد کے حصول کیلئے مادّی علوم کی اِتباع میں قرآنی علوم کی مطابقت اِختیار کرنا ہو گی۔ اگر دورِ حاضر کے فلاسفرز اور دانشورانِ عالم شعوری سائنسز کو بھی باقی علوم کی طرح جگر سوزی کے ساتھ پروان چڑھائیں توکچھ بعید نہیں کہ شعوری سائنسز بھی مادّی و حیاتیاتی علوم کی طرح بنی نوع اِنسان کو اِلہامی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم کی صداقت کی طرف لے آئیں۔
قرآن کے لفظ لفظ سے سچائی کی قندیلیں روشن ہیں۔ خلاء کی وُسعتوں میں بھی اللہ ربّ العزّت کی عظمتوں اور اُس کی آخری کتابِ ہدایت کے سورج چمک رہے ہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اَقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ کائناتی سچائیوں کا اَمین بن کر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلنے کے لئے پیکرِ دعوتِ عمل بنا ہوا ہے۔ اگرچہ دُشمنانِ اِسلام کی آنکھوں پر تعصّب کی پٹی بندھی ہوئی ہے لیکن اُن کی اپنی سائنسی تحقیقات اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقّانیت کے پرچم بلند کر رہی ہیں اور تہذیبِ مغرب اِس بات کا دبے لفظوں میں اِعتراف کر رہی ہے کہ قرآن ایک اِلہامی کتاب ہے اور تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہیں۔
مغرب کی کھوکھلی تہذیب کے پاس اِن کائناتی سچائیوں کا اِعتراف کرنے کے سِوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اگر مغرب وحیء اِلٰہی کی حتمی صورت (قرآن حکیم) سے مطابقت نہ سہی فقط اپنی اِستعداد کے زائیدہ علوم میں ہی باہم اِفتراق پیدا نہ ہونے دیتا اور تمام علوم پر یکساں توجہ دے کر اُنہیں ایک ہی مقصد اور آفاقی سچائی کے حصول کے لئے ایک ساتھ پروان چڑھاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ خود اپنے تمام علوم کی قرآن سے یگانگت اور مطابقت کی بنا پر اِسلام کی طرف مائل ہو جاتا بلکہ اُسے ترقی کے بامِ عروج کو چھو لینے کے بعد زوال اور اِنحطاط کے موسموں کو اپنے گلے کا ہار بھی نہ بنانا پڑتا اور دانائی کی فضیلت کا تاج بدستور اُس کے وقار اور تمکنت کو برقرار رکھتا، لیکن اِس وقت صورتحال بالکل اِس کے برعکس ہے۔ تہذیب مغرب اِجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اِنسانی معاشرے حیوانی معاشروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِنٹرنیٹ اور جدید ذرائع اِبلاغ و مواصلات کے ذریعے زمینی فاصلوں کے سمٹنے کے باوجود ذہنی، فکری اور رُوحانی فاصلوں کی خلیج کا پاٹ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ اِنسانوں کے گلوبل وِیلج نامی ہجوم میں رہتے ہوئے بھی آج کا اِنسان تنہائی کا شکار ہے۔ وہ اِس لئے کہ مادّی ترقی نے اُس کی رُوحانی دُنیا کے ہر ہر نقش کو مِٹا دیا ہے اور اُس سے سکونِ قلب کی دولت چھین کر اُسے محض اپنے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اِس وقت عالمِ مغرب کی حالت اُس خیمے کی سی ہے جس کی چوبیں جل چکی ہوں اور طنابیں ٹوٹ رہی ہوں۔ ایسے خیمے کو زیادہ دیر تک کس طرح کھڑا رکھا جا سکتا ہے؟ وہ عمارت جس کی دیواروں کو دیمک چاٹ رہی ہو اور جس کی بنیادوں میں پانی بھرا جا رہا ہو اُسے زمین بوس ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور وہ اپنے ہی قدموں پر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی حالت یورپ کی تہذیب کی ہے۔ ثقافتی اور رُوحانی بحران نے اُسے اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اُس کی ساری تابندگی مصنوعی روشنیوں کا کرِشمہ ہے جو ایک روز آن کی آن میں بجھ جائیں گی۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
فکرِ مغرب اِنسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ مادّی علوم کی روشنی میں ضوابطِ حیات ترتیب دینے والے معاشرے اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہو کر رُوح کی طمانیت اور قلب کی آسودگی سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ مادّی سائنسز کی ہر نازک شاخ فطرتِ اِنسانی کا جمیع بوجھ اُٹھائے رکھنے کے ہرگز ہرگز قابل نہیں۔ زوال لمحوں کے حصارِ بے اَماں میں اُلجھا عالمِ مغرب اپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ آنے والا وقت اُس کی رُوحانی اور فِکری محرومیوں اور ناآسودگیوں میں مزید اِضافہ کر دے گا۔ نفسیاتی یا شعوری سائنسز کو پسِ پشت ڈال کر صرف مادّی ترقی سے اپنا ناطہ جوڑنے کا خمیازہ مغربی دُنیا کے ساتھ ساتھ پورے عالمِ اِنسانی کو بھگتنا پڑے گا، بلکہ اِس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ جب ثقافتی رِشتے ٹوٹتے ہیں اور فطری اَقدار سے عدم اِطمینان کا جذبہ اُبھرتا ہے تو اِنسان عملاً زِندہ لاش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ رُوح کی موت جسم کی موت سے بھیانک منظر پیش کرتی ہے۔ اندر کا آدمی مر جائے اور اپنی رِوایات سے اُس کا رشتہ کٹ جائے تو اِنسان اور حیوان میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ درندگی اور وحشت کے پیرہن میں اِنسان شیطان کے بھی پر کاٹنے لگتا ہے۔
مغرب اپنی تمام تر مادّی ترقی اور خوشحالی کے باوجود ناآسودگی کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ مسلم دانش کے لئے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ آگ مسلم اُمّہ کے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ۔ ۔ بلکہ عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے حمیتی کے مختلف ذرائع سے یہ آگ ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے۔ جب کوئی بڑا محل گرتا ہے تو اُس کے پہلو میں بنی آس پاس کی جھونپڑیاں بھی اُس کے ملبے تلے دب جاتی ہیں۔ عالمِ اِسلام کے اَربابِ دانش و بصیرت کو اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ابھی سے اِجتماعی سطح پر مؤثر اور ٹھوس اِقدامات کرنا ہوں گے۔ اپنے ثقافتی اَثاثوں کو بچانے کے لئے ابھی سے بے عملی اور نظری حوالوں سے پیش بندی کرنا ہو گی۔ مسلم اُمّہ اگر اَب بھی خوابِ غفلت کا شکار رہی تو وقت اُس کے بیدار ہونے کا اِنتظار نہیں کرے گا۔ ہمیں آج ہی اپنے مقام کا تعین کرنا ہو گا اور قرآنی علوم کی مطابقت میں جدید اِسلامی سائنس کے دور کا سنگِ بنیاد رکھنا ہو گا ورنہ آنے والا علمی و ثقافتی بحران ہمارے ملّی اَثاثوں کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور طوفان گزر جانے کے بعد ساحلِ سمندر پر اپنے گھروندوں کے نشان ڈھونڈنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔
اِنسان کی مادّی اور رُوحانی زِندگی میں اِعتدال اور توازُن برقرار نہ رہے تو ذہنِ اِنسانی جسمانی آسودگی اور مادّی خوشحالی کے باوجود رُوحانی ناآسودگی کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور نظری غربت و اِفلاس کا اِحساس ہر لمحہ اُس کی رُوح کو ڈستا رہتا ہے، اِس لئے کہ مادّی آسودگی کا حصول ہی سب کچھ نہیں۔ اِطمینانِ قلب کے بغیر خوشحالی اور آسودگی کا مادّی تصوّر بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ بے پناہ مادّی ترقی اور ہر طرح کی خوشحالی کے باوُجود مغرب میں خودکشی کی شرح میں خوفناک حد تک اِضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ آج مغرب کے مفکرین اِس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اُنہیں اِس سنگین مسئلہ کا ایک ہی حل نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ مادّی ترقی کو ہدفِ تنقید بنائے بغیر رُوحانی اَقدار کے اِحیاء کے ذریعے خدا خوفی کے جذبے کو اِنسانی سوچ کا مرکز و محور بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اِسلام اِنفرادی طور پر تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ مغربی دُنیا میں یہ اِحساس تیزی سے اُبھر رہا ہے کہ اگر آج کے جدید اِنسان کو اَمن، سکون اور عافیت کی تلاش ہے تو اُسے اُس پیغمبرِاَعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر جھک جانا ہو گا، جس نبئ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اُفقِ عالم پر دائمی اَمن کی بشارتیں تحریر کر کے اِنسان کو ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ جس رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حِکمت اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا تھا، اُس رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے بغیر اِنسان اپنی تخلیق کے حقیقی مقاصد کو پورا نہیں کر سکتا۔ اِکیسویں صدی ہی نہیں آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہو گی اور پیغمبرِ اِسلام کی عظمت کا پرچم بلادِ عرب سے بلادِ مغرب تک ہر اُفق پر پوری آب و تاب کے ساتھ لہرائے گا۔ اِس لئے کہ ہر زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ہے اور ہر صدی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدی ہے۔ دامنِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی ہی اِنسان کی مادّی اور رُوحانی فلاح کی ضامن ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اَب مغرب میں بھی نفسیاتی علوم سے بے اِعتنائی اِختیار کرنے کے منفی رویئے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
سوشل سائنسز شعورِ اِنسانی کے اِنتہائی قریب ہونے کی وجہ سے مافوق الفطرت علوم سے تھوڑا بہت قرب ضرور رکھتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ تہذیبِ اِنسانی ہر قسم کے سائنسی علوم کے ذرِیعہ اگرچہ مافوق الفطرت نظام اور اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کے مختلف مظاہر کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہے، تاہم نفسیاتی علوم کی مدد سے اُس کا اِقرار اور اُس کی عظمتوں کا اِعتراف کرنے کے قابل ضرور ہو سکتی ہے۔ مثلاً خالقِ کائنات کے وُجود اور اللہ ربّ العزّت کی ربوبیت کا اِقرار، روزِ محشر کے قیام پر اِیمان وغیرہ، لیکن سولہویں صدی عیسوی میں کلیسا کے ڈسے ہوئے مغربی سائنسدان اِن حوالوں سے اِجتناب برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن علوم کے اِرتقاء کے سفر میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ موضوعات مادّی سائنس کے دائرۂ کار میں نہیں آتے۔ چونکہ اِنسانی فہم کے زائیدہ سائنسی علوم صرف نظامِ فطرت اور عادتِ خداوندی تک رسائی کے حامل ہیں اِس لئے حیاتِ انسانی کے بامقصد کمال اور اللہکی وحی کے تقاضوں کی تکمیل محض اِنسانی سائنسی علوم کے بل بوتے پر ممکن نہیں۔ انسان کی دائمی فلاح اور اُخروِی سعادت کا حصول صرف اور صرف اِسلام کے دامن سے متمسک ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اِنسان کے تمام تر خودساختہ مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم اللہ رب العزت کی وحدانیت اور حقیقتِ کائنات کے اِدراک سے قاصر ہیں۔ اِن تینوں شعبوں میں شامل علوم غیرنامیاتی اشیاء، نامیاتی و حیاتیاتی مخلوقات اور شعوری سطح کے حامل اِنسانی رویّوں تک آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مافوق الفطرت علوم کا مطالعہ سائنس کی کسی بھی شاخ کا موضوع نہیں، اِس لئے’’حقیقت‘‘ تک رسائی سائنسی علوم کے بس کی بات نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved