طلوعِ اِسلام کے وقت یونانی فلسفے نے ذہنِ اِنسانی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یونانی سائنس اور فلسفہ کے دَور میں علم کا آغاز ذِہن سے خارِج کی طرف ہوا کرتا تھا۔ اُن کا طریقِ تحقیق اپنے ذِہن میں پہلے سے چند کلیوں کو طے کر لینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِستخراجی اندازِ فکر میں غور و فکر سے حاصل شدہ ایک قاعدہ کلیہ پہلے سے ذِہن میں رکھ لیا جاتا ہے، پھر ہر پیش آمدہ معاملے یا قضیئے کو اُسی پہلے قضیئے کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور یوں کسی عملی تجربے کے بغیر نتیجے تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے۔ منطقی اِصطلاحات کی رُو سے ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کو باہم ملا کر ’’حدِ اوسط‘‘ کو گرا دیا جاتا ہے اور ماحاصل کو ’’نتیجہ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یونانی فلسفیوں کے نزدیک یہی نتیجہ ’’حقیقت‘‘ کہلاتا ہے، جس کے بُطلان کا اِمکان ہی سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ طریقِ تحقیق کجی سے خالی نہیں۔ اِس طریقِ تحقیق میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نتیجے یا حقیقت تک رسائی کے اِس پورے عمل میں خارِج میں موجود حقائق کو کسوَٹی قرار نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نتیجہ اکثر و بیشتر خلافِ حقیقت نکلتا ہے۔ مگر اُن کے پاس چونکہ یہی طرزِ فکر تھا، اِس لئے وہ اِسی کو حقیقت سمجھتے رہے۔ یونانیوں کا سارا علم محض غیرسائنسی بنیادوں پر کئے جانے والے غوروفکر تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانیوں کی سائنس اور فلسفے کو جدا کرنا ناممکن کی حد تک محال ہے۔ یونانی زُعماء زیادہ تر ذِہنی قضیوں اور فکری مُوشگافیوں میں اُلجھے رہے اور عالمِ خارِج میں کسی قسم کی اِیجادات کے مُوجد ہونے کا اِعزاز حاصل نہ کر سکے۔ وہ کائناتِ رنگ و بو پر غوروخوض کر کے اِس کے راز ہائے سربستہ سے آگاہی حاصل کرنے کے شوقین ضرور تھے مگر اِس دُنیا میں کسی قسم کی تبدیلی یا عناصرِ حیات کے بہتر اِستعمال سے اُنہیں دورِ حاضر کے تناسب سے کوئی خاص دِلچسپی نہ تھی۔ بطلیموس (Ptolemy) کے اِنعطافِ نور کے تجربے اور فیثا غورث کے تار کی تھرتھراہٹ والے تجربے کے علاوہ موجودہ سائنس اُن کے کسی سائنسی اِنکشاف سے آگاہ نہیں۔
یونانی دَور دراصل سائنس کا نہیں فلسفے کا دَور تھا، جہاں فلسفے کی کسوَٹی پر ہی حقائق کو پرکھ کر نتائج اخذ کئے جاتے۔ یونانی سائنس کا دَور اِسی اُدھیڑبن کے ساتھ دُنیا سے رُخصت ہوا تو سوچ اور اِظہار کے نئے پیمانے دریافت ہونے لگے اور ذہنِ اِنسانی کا زنگ اُترنے لگا۔ ذِہنِ اِنسانی پر جمی صدیوں کی گرد بارشِ رحمت میں دُھل گئی۔ تفکر کی پگڈنڈی پر سوچ کے قافلے روانہ ہوئے تو نئے نئے راستے خود بخود اہلِ اِیمان کی قدم بوسی کے لئے بڑھنے لگے اور فکرِاِنسانی تسخیرِ کائنات اور نئے آفاق کی دریافت پر آمادہ ہوئی۔ اِسلامی تہذیب و تمدّن کا آغاز ہوا۔ لوحِ دِیدہ و دِل پر نئے نئے نقش و نگار بننے لگے۔ علم، تقویٰ اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا گیا۔ اِسلام سوچ پر پہرے نہیں بٹھاتا بلکہ نئے نئے زاویہ ہائے نگاہ سے اُمور و مسائل کے جملہ پہلوؤں پر اِظہارِ خیال کی دعوت دے کر اِمکانات کی وسیع و عریض دُنیاؤں کے دروازے کھولتا ہے۔
اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی بنیاد ہوائی مفروضوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اِس لئے قدرتی طور پر مسلمان اہلِ علم کی سوچ بھی سائنسی سوچ ٹھہری، جس سے تحقیق و جستجو کے ایک نئے درخشاں دَور کا آغاز ہوا۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے یونانی مُوشگافیوں سے جان چھڑا کر جدید سائنسی طریقِ کار سے تحقیق کرنے کی طرح ڈالی۔ اُن کے فکر کو قرآن و سنت کی اُن تعلیمات سے مہمیز ملی تھی جن میں خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذرِیعے اپنے بندوں کو کائنات کے اَسرار و رُموز پر غور و خوض کا جابجا حکم دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان سائنسدانوں نے تجربی توثیق کی بنیاد ڈالی۔ اُنہوں نے واردات (experience) اور تجربہ (experiment) میں اِمتیاز کیا اور اُن کے الگ الگ دائرہ ہائے کار متعین کئے۔ تحقیق میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ تجربہ کو بھی سائنسی تحقیقات کا جزوِ لاینفک قرار دیا۔ سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف مسلمان سائنسدان ’’ابوالبرکات صبغت اللہ بغدادی‘‘ ہیں جنہوں نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات اور اُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و فکر کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ آج بھی سائنسی تحقیقات میں اپنایا جانے والا طریقِ کار وُہی ہے جسے ابوالبرکات بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنایا تھا۔ سائنسی طریقِ کار کو فروغ ملا تو ہر آن بدلتی ہوئی کائنات میں اِمکانات کی اَن گنت دُنیائیں ذہنِ اِنسانی کو تسخیرِ کائنات کی دعوت دینے لگیں۔
سائنس مُشاہدے اور تجربے کا دُوسرا نام ہے۔ تجربہ ہی وہ کسوَٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذرِیعہ ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں ایک سائنسدان کو درج ذیل مراحل سے سابقہ پڑتا ہے :
1۔ تجربہ experiment
2۔ مُشاہدہ observation
3۔ نتیجہ inference
4۔ حقیقت (تنظیمِ نتائج) systemization of inference
کسی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض ہی اِنسان کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ طے شدہ اَمر ہے کہ کسی بھی موضوع پر تحقیق کے دوران سب سے پہلے بھرپور غور و فکر کو ہی اوّلیت حاصل ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں پیش آمدہ معاملات کی جزئیات تک کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ زیر غور معاملے یا مسئلے کے متعلق سابقہ تمام سائنسدانوں کی آراء اور تجربات کی روشنی میں اُسے ہر ممکن طریقے سے پرکھا جاتا ہے اور بعد ازاں اُسے لیبارٹری میں ’’تجربے‘‘ کی کسوَٹی پر جانچا جاتا ہے۔ تجربے سے ماحصل مواد کا ’’مُشاہدہ‘‘ کرنے کے بعد اُسے ’’نتیجہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی نتیجے تک پہنچ جانے پر تحقیق و جستجو کا سفر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ بار بار تجربات کے ذرِیعہ نتیجے کی صداقت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر بار وُہی نتیجہ اخذ ہونے کی صورت میں اُسے ’’نظریہ‘‘ قرار دے کر اُس کی وسیع پیمانے پر اِشاعت کا اِہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ہم عصر سائنسدان بھی اپنے اطمینانِ قلب کے لئے اُسے نقد و نظر کی کسوَٹی پر پرکھیں جس سے وہ نظریہ واضح اور روشن صورت میں سامنے آئے اور غلطی کا کوئی اِمکان ہی باقی نہ رہے۔ رفتہ رفتہ سائنسدان جانچنے اور پرکھنے کے بعد اُسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔
اگرچہ اِس طریقِ تحقیق میں ایک مفروضے کو بالآخر مسلّمہ نظریئے کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ کار میں کسی نظریہ کو حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاتا۔ نئے تجربات، نئے اِنکشافات کو جنم دیتے ہیں، اِس لئے سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا۔ ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں اُسے مکمل طور پر مُستردّ کر دیا جائے۔
جدید سائنس کی تمام تر تحقیقات اِقدام و خطا (trial & error) کے اُصول کے مطابق ہوتی ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کل تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل (rejected) قرار دے چکی ہے اور آج جو حقائق بنی نوع اِنسان کی نظر میں غیرمتبدّل (unchanging) اور مسلّمہ حیثیت کے حامل ہیں آنے والا کل اُنہیں بھی یکسر مُستردّ کر سکتا ہے۔ یہ روِشِ تحقیق عقلِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہ مقام قطعاً جائے حیرت نہیں کہ صدیوں کے مصدّقہ حقائق باطل قرار پاتے ہیں۔ یہی اُصولِ اِرتقائے علم ہے کہ جدید اِنکشافات کی روشنی میں مسلّمہ حقائق کا ازسرِنو جائزہ لے کر اِرتقائے علم کا عمل جاری رکھا جائے۔
اَب ہم سائنسی تحقیقات اور اُس کے طریقِ کار میں مضمر اِقدام و خطا اور اُس کے اَسباب کا تصوّر واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
اِس کرۂ ارضی پر اِنسانی زِندگی کے آغاز ہی سے نظامِ شمسی اِنسان کی نگاہوں کا مرکز و محور بنا رہا ہے اور اُس کے جذبۂ تحقیق و جستجو کو اِمکانات کی نِت نئی دُنیاؤں کی طرف راغب کرتا رہا ہے۔ تاریخِ اِرتقائے تہذیبِ نسلِ اِنسانی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم دَور کا اِنسان بھی آج کے ترقی یافتہ اِنسان کی طرح اَجرامِ سماوِی کی کرید میں خصوصی دِلچسپی لیتا رہا ہے۔ ذیل میں ہم نظامِ شمسی سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے مختلف اَدوار میں پنپنے والے اَفکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔
معلوم تاریخِ اِنسانی کے مطابق تہذیبِ اِنسانی اِبتداءً دجلہ و فرات کے دوآبے (Mesopotamia) اور مصر (Egypt) میں پروان چڑھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدیم اِنسانی معاشروں کے لوگ مظاہرِ فطرت کی پرستش کرتے تھے۔ اُن میں سمیری (Sumerians)، کلدانی، بابلی (Babylonians) اور مصری (Egyptians) اَقوام کا ذِکر ملتا ہے۔ وہ لوگ سورج اور چاند، ستاروں کی حرکات پر غور کرتے، اُن کے طلوع و غروب کا مُشاہدہ کرتے اور جب اُن کی عقل اِس سارے نظامِ فطرت کو سمجھنے سے عاجز آ جاتی تو وہ اُنہی مظاہرِ فطرت کو دیوتا کا درجہ دے کر اُن کی پوجا شروع کر دیتے۔
اُن قدیم اَقوام کا نظریہ تھا کہ زمین ساکن ہے جبکہ تمام اَجرامِ سماوِی زمین کے گرد گردِش کرتے ہیں۔ سورج کے طلوع و غروب سے سادہ ذِہن یہی نتیجہ اخذ کر سکتا تھا کہ سورج کی زمین کے گرد گردِش سے دِن رات پیدا ہوتے ہیں۔
فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اُس کے گرد حرکت کرتی ہے۔ یونان (Greece) میں اپنی قائم کردہ اکیڈمی میں وہ اپنے شاگردوں کو سکونِ شمس اور حرکتِ زمین کے اِسی نظریہ کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ تقریباً ایک سو سال تک اُس کے شاگرد اور پیروکار اِسی نظریئے پر کاربند رہے، جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نظریہ تاریخ کے جھروکوں میں کھو گیا۔
فیثاغورث کے بعد بطلیموس (Ptolemy) نے دوبارہ زمین کے ساکن ہونے اور اَجرامِ فلکی کے اُس کے محوِگردِش ہونے کا نظریہ پیش کیا، جسے پورے یونان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور زمین کے ساکن ہونے کے نظریئے کو مِن و عن تسلیم کر لیا گیا۔ درحقیقت یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا، بطلیموس نے ارسطو (Aristotle) ہی کے نظریئے کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے اِس نظریہ کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی اور زمین کے گرد سیارگانِ فلکی کی گردِش سے لوگوں کو عملی سطح پر رُوشناس کرایا، اِسی وجہ سے یہ نظریہ بطلیموس کے نام سے منسوب ہوتا چلا گیا۔ اُس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’المجسطی‘‘ (Almagest) میں قرائن و براہین کے ساتھ اِس نظریہ کی توضیح و تشریح کی۔ بطلیموس کا کہنا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور تمام سیارگانِ سماوِی اِس مرکزِ کائنات کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تاہم وہ اپنے مداروں (orbits) میں واقع کسی اَن دیکھی طاقت کے گرد بھی گھوم رہے ہیں۔
آج کے دَور میں ہم اِس نظریئے کی وضاحت یوں کر سکتے ہیں کہ بطلیموس کے نزدیک تمام سیاروں کا معاملہ چاند کی مِثل تھا، جو ایک لحاظ سے سورج کے گرد گردِش کر رہا ہے جبکہ اُس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مختصر سے دائرے کی صورت میں زمین کے گرد بھی محوِ گردش ہے۔ بالکل اِسی طرح بطلیموس کے خیال کے مطابق تمام سیارے زمین کے گرد گردش کے علاوہ اپنے اپنے مدار میں موجود کسی اَن دیکھی قوّت کے گرد بھی چھوٹے چھوٹے دائروں میں گردِش کر رہے ہیں۔
اِس نظریئے میں زمین کے گرد واقع بڑے مداروں، اَن دیکھی طاقت کے گرد چھوٹے مداروں اور سیاروں کی حرکات میں باہم نسبت کی صحیح پیمائش کے دوران بہت سی بے قاعدگیاں سامنے آئیں، تاہم یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔
اِسلام ہر شعبۂ زِندگی میں اِنقلاب آفریں تبدیلیوں کا پیامبر بنا۔ فاران کی چوٹیوں پر نورِ ہدایت چمکا تو فرسودگی کا ہر نشان مٹ گیا۔ سوچ اور اِظہار کے نئے نئے دروازے وَا ہوئے، فرد کے اندر کی کائنات (انفس) کے ساتھ فرد کے خارِج کی دُنیا (آفاق) کی تسخیر کا آغاز بھی ہوا۔ خود اللہ کی آخری کتاب سائنسی حوالوں کی معتبر ترین دستاویز ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے علومِ جدیدہ کی بنیاد رکھتے ہوئے سائنٹیفک سوچ کے دروازوں پر پڑے قُفل توڑے اور ذِہنِ جدید کو کشادگی اور وُسعت کے جواہر سے آراستہ کیا۔ اِسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اِسحق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی (Arzachel) نے بطلیموس کے مذکورہ بالا نظریئے کا مضبوط دلائل اور مصدّقہ شواہد کے ساتھ ردّ کر کے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظام تقریباً ایک ہزار سال سے مسلّمہ حقائق کے طور پر پوری دُنیا میں تسلیم کیا جا رہا تھا۔ صدیوں سے ذِہنوں میں راسخ غلط نظریات کو یکسر بدل کر رکھ دینا یقینا ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ زرقالی نے 1080ء میں سورج اور زمین دونوں کے محوِحرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اِس تھیوری کے مطابق سورج اور زمین دونوں میں سے کوئی بھی مرکزِ کائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس نظریئے میں بعد میں آنے والے کوپرنیکس (Copernicus) کے نظریہ کی طرح گنجلک پن بھی نہیں ہے۔ زرقالی کے نزدیک سورج کے گرد تمام سیارے بیضوِی مدار (elliptic orbits) میں گردِش کرتے ہیں۔
زرقالی کا یہ نظریہ فطرت سے قریب ترین ہے اور یہ سچائی کی دریافت کے سفر میں ایک خوشگوار پیش رفت تھی۔ اِقدام و خطاء کا سلسلہ یہاں بھی آ کر تھما نہیں اور تحقیق کا سفر جاری رہا۔ عالمِ اِسلام تو گیارہویں صدی عیسوی کے اَوائل ہی میں بطلیموس کے غیرفطری نظریئے کو مستردّ کر چکا تھا مگر یورپ۔ ۔ ۔ جسے آج اپنی روشن خیالی پر ناز ہے۔ ۔ ۔ نے سولہویں صدی تک اِس فرسودہ نظریئے کو اپنے مذہب کی اَساس بنائے رکھا اور اِس نظریئے کو عیسائی مذہب کے ایک بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی۔
کوپرنیکس (Copernicus) (1473ء تا 1543ء) زرخیز ذِہن کا مالک سائنسدان تھا۔ اُس نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس نظریئے کی خرافات پر سے پردہ اُٹھایا اور اہلِ یورپ کو اس نظریئے کی فرسودگی سے آگاہ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اِس کرۂ ارضی سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ کوپرنیکس کے اِن سائنسی اِنکشافات کے بعد اہلِ یورپ کی سوچ کے جامد سمندر میں اِرتعاش پیدا ہوا اور ذہنِ جدید کے قفل ٹوٹنے لگے اور مغربی دُنیا کو حقیقت تک رسائی کا راستہ دِکھائی دینے لگا۔ یہ ایک بہت بڑا اِنقلابی قدم تھا، عیسائی دُنیا اِسے آسانی سے اپنی سوچ کا محور نہیں بنا سکتی تھی۔ بطلیموسی نظریئے سے سرِمُو اِنحراف بھی عیسائی دُنیا کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اُسے اپنے مذہب کا لازمی جزو قرار دے چکے تھے اور مذہبی عقائد سے اِنحراف کا راستہ نکالنا اُس وقت ناممکن تھا۔
سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں ٹیکوبراہی (Tycho Brahe) نامی سائنسدان نے کو پرنیکس کے نظریئے کو مُسترد کرتے ہوئے ایک عجیب وغریب تھیوری پیش کی۔ اُس کے مطابق سورج اور چاند دونوں زمین کے گرد محوِگردش ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج اپنے گرد گھومنے والے پانچ سیاروں سمیت زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ اِس تھیوری نے سائنسدانوں کو ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار کر دیا۔ بہرحال کوپرنیکس کا نظریہ سائنس کی دُنیا میں اِن عجیب و غریب نئے اَفکار کی مٹی میں دفن ہو کر رہ گیا اور سولہویں صدی کے اِختتام تک مغربی سائنس کی تحقیقات ایک بار پھر خطا کی طرف پیش قدمی کرتے دِکھائی دینے لگیں۔
ٹیکوبراہی (Tycho Brahe) کے پیش کردہ اِس نظریئے میں بطلیموس (Ptolemy) اور کوپرنیکس (Copernicus) کے نظریات کا یہ بے تکا اِجتماع ناقابلِ یقین حد تک مبہم تھا، تاہم بعد میں آنے والوں کی سوچ کی راہیں تحقیق و جستجو کے چراغوں سے منوّر ہوتی رہیں اور کیپلر (Kepler) تک آتے آتے حقیقت تک رسائی آسان ہوتی گئی اور راستے کے پتھر خود بخود ہٹتے رہے۔
سائنسی حقائق کی تلاش کا سفر جاری رہا۔ جستجو اور تحقیق کے دروازے کھلے رہے۔ تازہ ہوائیں ذہنِ اِنسانی کو کشادگی اور تازگی عطا کرتی رہیں۔ اِٹلی کے مشہورِ زمانہ ہیئت دان گیلیلیو (Galileo) نے 1609ء میں دُوربین اِیجاد کرنے کے بعد جب کائنات کا مشاہدہ کیا تو اُسے کائنات میں عجائبات کی ایک دُنیا آباد نظر آئی۔ ماضی کے تمام نظریات ایک ایک کر کے باطل ہونے لگے۔ ٹیکوبراہی کا کیا دَھرا بھی غلط قرار پایا۔ گیلیلیو نے کوپرنیکس کے نظریئے کو قدرے درست پایا اور یوں کوپرنیکس کا نظریۂ حرکتِ زمین ایک بار پھر سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اِس حوالے سے تجربات و اِکتشافات کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔
گیلیلیو کی توثیق کے بعد جوہانزکیپلر (Johannes Kepler) نے ٹیکوبراہی کی دیگر دریافتوں اور رصدگاہی آلات (observatory) کی مدد سے نئے سِرے سے تحقیقات کے بعد کوپرنیکس کے نظریئے کو علمی اور تجرباتی سطح پر دوبارہ زِندہ کیا۔ واضح رہے کہ کوپرنیکس کے نظریئے میں سورج کے گرد تمام سیاروں کے مداروں کو گول (circular) دِکھایا گیا تھا۔ کیپلر نے اِس نظریئے کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدار بیضوِی (alliptic) ہیں اور یوں کوپرنیکس کی تھیوری میں واقع سُقم کو دُور کیا۔ اِسی سُقم کی وجہ سے یہ نظریہ ایک عرصہ تک نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔ اِس سُقم کے دُور ہوتے ہی اُسے دوبارہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ بالکل وُہی نظریہ ہے جو 1080ء میں قرطبہ (Cordoba) کے مسلمان سائنسدان زرقالی (Arzachel) نے پیش کیا تھا۔
اِنسان تسخیرِ کائنات کی راہوں پر گامزن رہا، قدم قدم پر نئے نئے اِنکشاف منظرِ عام پر آتے رہے، سترھویں صدی کے وسط میں سر آئزک نیوٹن (Sir Isaac Newton) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی مجموعی طور پر ناقابلِ تبدیل (unchanging) قرار دیا۔
اَفکار و نظریات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی رہیں۔ سفرِ اِرتقاء کے کئی مزید مراحل طے ہو چکے تھے۔ بیسویں صدی نت نئی اِیجادات کی صدی ہے۔ اِسی صدی کے مشہورِ زمانہ یہودی النسل سائنسدان البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) نے برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد اپنا نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) پیش کیا۔ اِس تھیوری کی رُو سے تمام اَجرامِ سماوی (خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے) گردش میں ہیں۔ علمی حلقوں نے اِس نظریئے کو سندِ قبولیت عطا کی اور یوں مسلم سائنسدان زرقالی رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ نظریاتی بنیادیں نکھر کر سامنے آگئیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت کے قریب ترین ہے اور اِسے كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یسین، 36 : 40) اور وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات، 51 : 47) کی صورت میں تائیدِ ایزدی بھی حاصل ہے۔ تاہم اِس نظریئے میں بھی جزوی طور پر کئی ایک اِصلاحات اور تبدیلیاں ممکن ہیں کیونکہ اِنسانی کاوِش حرفِ آخر نہیں ہوتی، اُس میں اِصلاح و ترمیم اور اِضافے کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔
ہم نے مختلف اَدوار میں سامنے آنے والے مختلف سائنسدانوں کے اَفکار و نظریات کی روشنی میں سائنسی تحقیقات میں پیش آمدہ اِقدام و خطاء (trial & error) کے تصوّر کو واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ زندگی کے ہر گوشے اور سائنس کے ہر شعبے میں مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اِقدام و خطاء کا تسلسل بھی جاری رہا اور ہے۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر کوئی سائنسدان اپنے تجربات اور جدید تحقیق کی روشنی میں دوبارہ خطاء کی طرف پیش قدمی کرے اور آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کو۔ ۔ ۔ جسے آج مستند اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کلیتاً مستردّ کر کے نئی تھیوری پیش کرے جو سابقہ تمام نظریات سے یکسر مختلف ہو۔
سائنسی علوم کا اندازِ تحقیق (یعنی تصوّرِ اِقدام و خطاء) کو جان لینے کے بعد قرآنی علوم کی حتمیت و قطعیت پر ہمارا اِیمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اِنسانی اِستعداد زائیدہ سائنسی علوم اللہ ربُّ العزت کی نازِل کردہ آخری وحی کے مقابلے میں ذرّہ بھی حیثیت نہیں رکھتے، اور اصل حقیقت اور ہمارے عقائد و نظریات کا منبع صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات ہی ہو سکتی ہیں، کیونکہ سائنسی علوم کسی بھی نئی پیش آمدہ تحقیق کے بعد اپنے بنیادی نظریات سے منحرف ہو سکتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved