تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تاریخِ اِنسانیت میں علم و فن، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب کا آغاز ہوا اور دُنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)، اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور اَلَّذِیْنَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا ہوگی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذرِیعے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بِعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا اُس کی بنیاد سقراط (Socrates)، اَفلاطون (Plato) اور اَرسطو (Aristotle) کے دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یونان (Greece) اور اسکندریہ (Alexandria) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔ سرزمینِ عرب کا بھی یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان، اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات اِلٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا پیغام لے کر نازل ہوئیں۔
اِرشادِ ربانی ہوا :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO
(العلق، 96 : 1 - 5)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیاo پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذرِیعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo
تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت نے اِسلامی ’اِلٰہیات‘ و ’اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری آیت نے ’حیاتیات‘ اور ’جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔۔۔ جسے علم و سائنس کی راہ پر ڈالنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا فدیہ مقرر کر دِیا تھا۔۔۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔
کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات (universal phenomenon) میں اور اُن کے وُجودوں (human world) کے اند ر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس جاہل بدوِی قوم کو حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم (sciences) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی گئیں۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی ’’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے ’’قلم‘‘ کی تاریخی تحقیق کا بھی حق اَدا کردیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام ’’مباھجُ الاعلام فی مناھجِ الاقلام‘‘ رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے 150 سے زائد قلموں اور اُن کے اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے حوالہ ملاحظہ ہو :
Catalogue of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule 2 by J. J. Witkam, (Leiden University Press, Leiden, 1984)
اِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم (education & literacy) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی کہ صرف سسلی (Sicily) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں 600 پرائمری سکول موجود تھے اور اُن کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق 3,000 طلباء صرف اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیرتعلیم تھے۔ اِسی طرح دِمشق (Damascus)، حلب (Halab)، بغداد (Baghdad)، موصل (Mosul)، مصر (Egypt)، بیتُ المقدس (Jerusalem)، بعلبک، قرطبہ (Cordoba)، نیشاپور اور خراسان (Central Asia) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ’جامعہ نظامیہ بغداد‘۔۔۔ جو پانچویں صدی سے نوی صدی ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔۔۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تِعداد 6,000 رہتی تھی۔
دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، صرف شہر دِمشق میں فقہ و قانون (law and jurisprudence) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ 63 تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے تھے، 52 فقہ حنفی کے، 11 فقہ حنبلی کے اور 4 فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ الطب (medical sciences) کے سکول اور کالج الگ تھے۔
اِمام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ تاریخ پر اپنی کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں سن 631ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ’مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و قانونی مکاتبِ فکر کے 62، 62 ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدرِیس کے لئے تعینات تھے۔
اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموِی خلیفہ ’ولید بن عبدالملک‘ (86ھ تا 96ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہوگیا تھا۔ اُس سے قبل ڈسپنسریاں (dispensaries) موبائل میڈیکل یونٹ (mobile medical units) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز (medical aid centres) وغیرہ موجود تھے، جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔
اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات مستقل طور پر قائم ہوچکے تھے :
1- Department of Systematic Diseases
2- Ophthalmic department
3- Surgical department
4- Orthopaedic department
5- Department of mental diseases
اُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج (medical colleges) بھی متعلق کردیئے گئے تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دِمشق کا ’نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital) اور مصر کا ’ابنِ طولون ہسپتال‘ (Ibn-i-Tulun Hospital) اِس سلسلے میں بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دِمشق، بغداد، قاہرہ، بیتُ المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ’اَزدی ہسپتال‘ (Azdi Hospital) جو 371ھ میں تعمیر ہوا، دِمشق کا ’نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital)، مصر کا ’منصوری ہسپتال‘ (Mansuri Hospital) اور مراکش کا ’مراکو ہسپتال‘ (Moroccan Hospital) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔
اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، بغداد (Baghdad) اور طرابلس (Tarabulus) وغیرہ کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔
قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’قانونُ التاوِیل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد 77,450 ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذرِیعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں :
اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔
اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوِی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔
عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے :
Not only are most of the star۔۔۔ names in European languages of Arabic origins۔۔۔ but a numbers of technical terms۔۔۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe."
(History of the Arabs, pp.568-573)
ترجمہ : ’’یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں‘‘۔
اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد۔۔۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیرمعمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔ 918ء) اور البیرونی (973ء۔ 1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل اِنجام پذیر ہوئے۔
(History of the Arabs, pp.373-378)
پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقوِیم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقوِیم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعداَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقوِیمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِفلکیات ہوتا تھا۔
مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات (observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی رحمۃ اللہ علیہ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔۔۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔۔۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar & solar eclipses) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیرمسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے :
"Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began."
(The Legacy of Islam, pp. 474-482)
ترجمہ : ’’مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا‘‘۔
حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب ’’الجبر و المقابلہ‘‘ کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ’مساوات‘ (equation) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دِی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تاسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دِی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں، جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔
قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات (cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت (motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density, atmosphere, measurements, weight, space, time, velocities, gravitation, capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات (physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔
ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ (optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور godgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔
بصریات (optics) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیرمعمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب "On Optics" آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کردیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں (rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ (brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities, light, lenses, astronomical observations, meteorology اور camera وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔
اِس موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔
ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے :
"Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect."
(Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)
ترجمہ ’’الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کرلیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے‘‘۔
پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔
ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔
پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے :
"In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants)."
(Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)
ترجمہ : ’’قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں‘‘۔
اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba) میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کرلیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان ’’خَلَقَ اللهُ کُلَّ شَیْئٍ زَوْجًا‘‘ (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔
عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِنباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔
اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔
’’مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے (medical colleges) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ (pharmacy) اور علمُ الجراحت (surgery) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں‘‘۔
(Islamic Science, S.H. Nasr, pp.156)
ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘ (930ء) نے علمُ الطب (medical science) پر 200 سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لاطینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریباً 40 مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔
اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا (Avicenna) (1037ء) نے ’القانون‘ (Canon of Medicine) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دِیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب 1650ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔
ابو ریحان البیرونی (1048ء) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :
’’جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے‘‘۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں :
The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century۔۔۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around 1284 AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentry and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on.
(E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.101)
ترجمہ ’’اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادوِیہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادوِیہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دِمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentry) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا‘‘۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو :
"Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abu`l-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died 982 AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the wokrs of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died 1288 AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart.
(Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23 : 166, June, 1935)
ترجمہ : ’’اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التالیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات 982ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادِی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات 1288ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے‘‘۔
Seirton اور Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے سادہ ادوِیات کے مجموعے (collection of simple drugs) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ علمِ نباتات (botany) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس (Spain) سے لے کر شام (Syria) تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور 1,400 سے بھی زیادہ طبی ادوِیات کا اپنی کتاب میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل 150 دِیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی کیا :
Ibn al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than 1400 medicinal drugs, comparing them with the records of over 150 writers before him.
اُس دَور کے عظیم مسلمان ادوِیہ سازوں (pharmacologists) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے معروف ہیں۔
اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد (Ibn Rushd) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب (textbook) کا درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا، جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ (Islamic Science, p.181)
اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت پروفیسر Hitti لکھتا ہے :
Albucasis (1013 AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical departments. The ample description he has left of the surgical instruments employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta'alif (an aid to him who is not equal to the large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497 AD, at Basle in 1541 AD and at Oxford in 1778 AD. It held its own for centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early schools of medicine."
(Hitti, History of Arabs, pp.576-577)
ترجمہ ’’آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے اپنے زیراستعمال آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التالیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا (Cremona) کے Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن 1497ء میں وِینس سے اور 1541ء میں باسلے اور 1778ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے‘‘۔
سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے :
Al-Zahrawi's rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in the science of medicine (1091-1162 AD). Of the six medical works written by them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among the best of its kind dealing with the subject.
(Islamic Science, p.181)
ترجمہ : ’’ابنِ زہر کا مرتبہ ادوِیہ (medicine) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری (surgery) کے فن میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادوِیہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو ونما‘ ہے۔ گیلن کے بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے‘‘۔
مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دِیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔
Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject.
(Islamic Science, pp.166-167)
علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوِی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔
Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages.
(Islamic Science, p.178)
اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید رضی اللہ عنہ (704ء) اور امام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ (765ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (776ء) اِمام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر (hypothesis & speculation) کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت (objective experimentation) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی (Alchemy) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین (The Seventy Books) اور کتابُ المیزان (The Book of Balance) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes، ابنِ سینا کو Avicenna، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذرِیعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل (Arabic origin) ہیں۔
اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں :
1. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.578-579 (London, 1974).
2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival,
Urbana (Illinois, 1965).
3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971).
4. F.a.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964).
5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976).
6. George Sorton, An Introduction to the History of Science.
7. Briffault, The Making of Humanity.
8. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947).
9. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh).
10. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969).
جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ (calligraphy) کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ (architecture) اور ’فن تزئین و آرائش‘ (decorative art) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِنبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد (بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔
اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر تروِیج ملی اور وہاں خطّاطی (calligraphy)، موسیقی (music)، تعمیر و تزئین (architecture & decorative art)، مصوّری (painting)، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 150ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے باوُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔
1۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور oppeheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہی 30 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون (law) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔
2۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 120ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اِمام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ، اِمام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔
3۔ comparative case law، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔
4۔ علمِ دستور (constitutional law) پر دُنیا کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویز خود حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیارہ کردہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ (The Pact of Madina) ہے، جو 63 دفعات (articals) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سعد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ اَبی خثیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے ذرِیعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ (Magna Carta) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے 593 سال قبل ہجرت کے پہلے سال 622ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین (written constitution) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (500 ق م)، آرتھ شاستر (300 ق م) اور ارسطو (322ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘ (Athenian Constitution) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور 1891ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پندونصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الاحکام السلطانیہ‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ (legislature)، اِنتظامیہ (executive) اور عدلیہ (judiciary) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔
5۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات (juristic & legal codes) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب (parts & chapters) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات (religious laws)، مناکحات (family laws)، معاملات و معاہدات (civil & contractual laws)، عقوبات (penal laws)، مالیات (fiscal laws) اور قضا و شہادات (procedural & evidence laws) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوق انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔
اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’الموطا‘، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں ’’فقہ حنفی‘‘ میں سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المبسوط‘، مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الھدایہ‘، ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی ’فتح القدیر‘، کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، ’’فقہ مالکی‘‘ میں ابنِ سحنون رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون رحمۃ اللہ علیہ کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب رحمۃ اللہ علیہ اور خرشی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، ’’فقہ شافعی‘‘ میں نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المجموع‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الوجیز‘، بصیر رحمۃ اللہ علیہ کی ’النہایہ‘ وغیرہ، ’’فقہ حنبلی‘‘ میں ابنِ قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم رحمۃ اللہ علیہ کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ’المحلی‘ اور القرافی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الفروق‘ وغیرہ، ’’فقہ جعفریہ‘‘ میں الحلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات (judicial decisions) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووِی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔
6۔ fiscal & taxation law اور administrative law میں اِمام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔
اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے 5 لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دِیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے عہدِ حضرت آدم علیہ السلام سے عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، طبری رحمۃ اللہ علیہ، مسعودی رحمۃ اللہ علیہ، مسکویہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ، اندلسی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، دیار بکری رحمۃ اللہ علیہ، یعقوبی رحمۃ اللہ علیہ، بلاذری رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ الاثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ، سہیلی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سیدُالناس رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ political thought اور sociology میں غزالی رحمۃ اللہ علیہ، فارابی رحمۃ اللہ علیہ، ماوردی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ رُشد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ القیم رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔
اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ (Central Asia) سے ’مصر‘ (Egypt) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی (alphabetic order) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔
اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروِی شکل (circular shape) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم (mediterranian sea) کی حدُود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (1101ء۔ 1154ء) کے لئے آج سے 9 صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طوِیل ترین دریا ’دریائے نیل‘ (Nile) کے مصادر (sources) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے 6,670 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
’یاقوت حموِی رحمۃ اللہ علیہ ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم (dictionary) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب (alphabetic order) سے پیش کی ہیں۔
’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ (Image of the Earth) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔
’حمدانی‘ (945ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔
نامور مغربی مؤرِخ Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ :
"The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels."
(History of the Arabs, pp.383-387)
ترجمہ : ’’اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔۔۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوِی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔۔۔ اندلس (Spain) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی (Sicily) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا‘‘۔
علمِ جغرافیہ (geography) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ 1331ء میں چین (China) کا سرکاری نقشہ (official map) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔
(Islamic Culture, 8 : 514, Oct.1934)
وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا (Scandinavia)، فن لینڈ (Finland)، کازن (Kazan) اور رُوس (Russia) کے دِیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما (compass) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal, admiral, cable, monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوِی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل 10 سے 15 اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضانِ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔
ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے :
The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in 630 AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By 730 AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age۔۔۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis.
(J Bronowski, The Ascent of Man, London 1973, pp.165-166)
ترجمہ : ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 630ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی اِیران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ 730ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔
اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے :
It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation.
(Muhammad, The Educator)
ترجمہ : ’’اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے‘‘۔
پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے :
These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks.
(Muhammad, The Educator)
’’Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے‘‘۔
اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے :
It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that۔۔۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs.
(The Making of Humanity, pp.190-191)
رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشوونما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وِجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔
یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے :
There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture.
(Joseph Schacht & C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.426-427)
ترجمہ : ’’اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشاۃِ ثانیہ پر دِیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس (Spain) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا‘‘۔
ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے :
Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe.
(Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture)
Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔
اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟
Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے :
That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad?
(Muhammad, The Educator)
ترجمہ : ’’یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی‘‘۔
اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی، جس کے ذرِیعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجوکی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔
Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے :
No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism.
(The Life of Muhammad)
ترجمہ : ’’اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا‘‘۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved