180 / 1. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ وَخَطِيْبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرُ فَخْرٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 586، الرقم : 3613، وابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4314، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137، الرقم : 21245، والحاکم في المستدرک، 1 / 143، الرقم : 240.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن سب انبیاء کا امام ہوں گا اور ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو کرنے والا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا، یہ بات بطور فخر نہیں کہہ رہا۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابنِ ماجہ، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے، ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔
181 / 2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ : أَنَا فَاعِلٌ! قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! فَأَيْنَ أَطْلُبُکَ؟ قَالَ : اُطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَی الصِّرَاطِ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ؟ قَالَ : فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيْزَانِ، قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عِنْدَ الْمِيْزَانِ؟ قَالَ : فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ، فَإِنِّي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَلَاثَ الْمَوَاطِنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيْخِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب : ما جاء في شأن الصراط، 4 / 621، الرقم : 2433، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 12825، رجاله رجال الصحيح، والبخاری في التاريخ الکبير، 8 / 453، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 246، الرقم : 2691، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 230، الرقم : 5486.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ قیامت کے دن میری (خصوصی) شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا : اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا : اگر وہاں بھی نہ ملیں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم مجھ کو حوضِ کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ میں ان تین جگہوں کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور بخاری نے ’تاریخِ کبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔
182 / 3. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي فَقَرَأَ قِرَاءَ ةً أَنْکَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَاءَ ةً سِوَی قِرَاءَ ةِ صَاحِبِهِ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلٰوةَ دَخَلْنَا جَمِيْعًا عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ : إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَ ةً أَنْکَرْتُهَا عَلَيْهِ وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوَی قِرَاءَ ةِ صَاحِبِهِ، فَأَمَرَهُمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَرَأَ فَحَسَّنَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم شَأْنَهُمَا، فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّکْذِيْبِ وَلَا إِذْ کُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَةِ، فَلَمَّا رَأَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا قَدْ غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي فَفِضْتُ عَرَقًا، وَکَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَی اﷲِ عَزََّوَجَلَّ فَرَقًا، فَقَالَ لِي : يَا أُبَيُّ! أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَی أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِيَةَ اقْرَأْهُ عَلَی حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَی أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَةَ اقْرَأْهُ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَلَکَ بِکُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتُکَهَا مَسْأَلَةٌ تَسأَلُنِيْهَا، فَقُلْتُ : اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي! اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي! وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ کُلُّهُمْ حَتَّی إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : بيان أن القرآن علی سبعة أحرف وبيان معناه، 1 / 561، الرقم : 820، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 127، الرقم : 21171، وابن حبان في الصحيح، 3 / 15، الرقم : 740، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 83.
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص نے داخل ہو کر نماز میں ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا، پھر ایک دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی۔ پس ہم سب نماز سے فراغت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اس شخص نے ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا اور پھر ایک دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو قرات کرنے کا حکم فرمایا : انہوں نے قرات کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی، جس سے میرے دل میں اسلام کی ایسی تکذیب اتری کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں بھی ایسی نہ تھی۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اس (باطنی) حال کو ملاحظہ فرما کر میرے سینہ پر ہاتھ مارا جس سے میں پسینہ سے شرابور ہوگیا (اور مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی) گویا کہ میں خشیت سے اللہ کو دیکھ رہا ہوں تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے اُبیّ! مجھے حکم دیا گیا کہ قرآن ایک حرف (لغت) پر پڑھوں تو میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، پھر مجھے دو حرفوں پر پڑھنے کا حکم دیا گیا تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، پس مجھے تیسری بار سات حروف (لغات) پر قرآن پڑھنے کا حکم ہوا، (اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا) امت کے لیے ہر بار دعا کرنے کے عوض ہم سے کچھ طلب کرلو۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ! میری امت کی مغفرت فرما! اے اللہ! میری امت کی مغفرت فرما اور تیسری بار کی دعا میں نے اس دن کے لیے محفوظ کرلی ہے جس دن تمام مخلوق یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف متوجہ ہوں گے۔‘‘
اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
183 / 4. عَنْ خَادِمٍ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مِمَّا يَقُوْلُ لِلْخَادِمِ : أَلَکَ حَاجَةٌ؟ قَالَ : حَتَّی کَانَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! حَاجَتِي! قَالَ : وَمَا حَاجَتُکَ؟ قَالَ : حَاجَتِي أَنْ تَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : وَمَنْ دَلَّکَ عَلَی هَذَا؟ قَالَ : رَبِّي! قَالَ : إِمَّا لَا فَأَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ رِجَالُ الشَّيْخَيْنِ.
4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 500، الرقم : 16076، والهيثمی في مجمع الزوائد، 2 / 249، والسيوطی في الجامع الصغير : 237، الرقم : 397، قال الزين العراقي : رجاله رجال الصحيح.
’’بنو مخزوم کے مولیٰ زیاد بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک غلام مرد یا عورت سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خادم سے فرمایا کرتے تھے : کیا تمہیں کوئی حاجت درپیش ہے؟ وہ فرماتے ہیں : یہاں تک کہ ایک روز اس نے عرض کیا : یارسول اللہ! مجھے ایک حاجت ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری حاجت کیا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری حاجت یہ ہے کہ آپ روزِ قیامت میری شفاعتِ خاصہ فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہاری اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے رب نے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں! پس تو کثرتِ سجود سے میری مدد کر (کے اس کی حقدار بَن)۔‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد صحیح ہے، رجال ثقہ ہیں اور شیخین کے رجال ہیں.
184 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي، وَأَنَا المَاحِيُ الَّذِي يَمْحُو اﷲُ بِيَ الْکُفْرَ، فَإِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ لِوَاءُ الْحَمْدِ مَعِي، وَکُنْتُ إِمَامَ الْمُرْسَلِيْنَ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ والْکَبِيْرِ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
5 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم : 3570، والطبرانی في المعجم الکبير، 2 / 184، الرقم : 1750، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 284، وقال : فيه عروة بن عمران، قيل فيه : ليس بالقوي، وبقية رجاله وثقوا.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں احمد ہوں، محمد ہوں، میں حاشر ہوں کہ لوگ روزِ محشر میرے بعد اُٹھائے جائیں گے اور میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ پس جب روزِ قیامت ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں سب رسولوں کا امام ہوں گا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد حسن ہے۔
185 / 6. عَنْ مُصْعَبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : إِنْطَلَقَ غُلَامٌ مِنَّا فَأَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِنِّي سَائِلُکَ سُؤَالًا، قَالَ : وَمَا هُوَ؟ قَالَ : أَسْأَلُکَ أَنْ تَجْعَلَنِي مَنْ تَشْفَعُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : مَنْ أَمَرَکَ بِهَا، أَوْ مَنْ عَلَّمَکَ بِهَذَا، أَوْ مَنْ دَلَّکَ عَلَی هَذَا؟ قَالَ : مَا أَمَرَنِي بِهَذَا أَحَدٌ إِلَّا نَفْسِي، قَالَ : فَإِنَّکَ مِمَّنْ أَشْفَعُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَذَهَبَ الْغُلَامُ حَدْلَانِ لِيُخْبِرَ أَهْلَهُ فَلَمَّا وَلَّی، قَالَ : رُدُّوْا عَلَيَّ الْغُلَامَ، فَرَدُّوْهُ کَئِيْبًا مَخَافَةً أَنْ يَکُوْنَ قَدْ حَدَثَ فِيْهِ شَيئٌ، قَالَ : أَعِنِّي عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 365، الرقم : 851، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 369، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 6 / 125، الرقم : 8010.
’’حضرت مصعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے ایک غلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں آپ کی بارگاہ میں سوالی بن کر حاضر ہوا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا سوال ہے؟ اس نے عرض کیا : میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما لیں جن کی آپ یومِ قیامت شفاعت فرمائیں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے؟ یا (فرمایا) کس نے تمہیں یہ سکھلایا ہے؟ یا (فرمایا) کس نے تمہاری اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : صرف میرے دل نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس بے شک تو ان لوگوں میں سیہے جن کی روزِ قیامت میں شفاعت کروں گا تو وہ غلام (خوشی کے عالم میں) کندھے اُچک کر جانے لگا کہ اپنے گھر والوں کو یہ خبر سنائے، پس جب وہ مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس غلام کو میرے پاس واپس لاؤ، جب وہ اسے واپس لائے اس حال میں کہ وہ غمگین اور ڈر رہا تھا کہ شاید (حکم میں) کچھ ترمیم ہوچکی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنی جان پر کثرتِ سجود لازم کر کے میری مدد کر (تاکہ شفاعتِ خاصہ کا حقدار بن سکے)۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رُواۃ صحیح حدیث کے رجال ہیں.
186 / 7. عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبٍ رضی اﷲ عنه ذکرحديثا طويلا فيه أَنَّه أَنْشَدَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم :
فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ لَا رَبَّ غَيْرُهُ
وَأَنَّکَ مَأْمُوْنٌ عَلَی کُلِّ غَائِبٍ
وَأَنَّکَ أَدْنَی الْمُرْسَلِيْنَ وَسِيْلَةً
إِلَی اﷲِ يَاابْنَ الْأَکْرَمِيْنَ الْأَطَايِبِ
فَمُرْنَا بِمَا يَأْتِيْکَ يَاخَيْرَ مَنْ مَشَی
وَإِنْ کَانَ فِيْمَا جَائَ شَيْبُ الذَّوَائِبِ
وَکُنْ لِي شَفِيْعًا يَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ
سِوَاکَ بِمُغْنٍ عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبِ
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَأَبُو يَعْلَی.
7 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 705، الرقم : 6558، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 94، الرقم : 6475، وأبو يعلی في المعجم، 1 / 265، الرقم : 329، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 251، وابن عبد البر في الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 2 / 675، الرقم : 1109، والعسقلاني في فتح الباری، 7 / 180.
’’حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے : انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوکر درج ذیل اشعار عرض کیے :
(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی رب نہیں اور آپ ہر غائب (کی خبر پہنچانے میں) امانت دار ہیں. اور اے پاک بزرگ لوگوں کے بیٹے! بے شک آپ رسولوں میں سے وسیلہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں. اے چلنے والوں میں سے بہترین! پس آپ ہمیں ہر وہ حکم کیجیے جو آپ کے پاس آئے اگرچہ وہ (امور شدید ہوں جو ) پیشانیوں کو سفید کرنے والے ہوں. سو آپ اس دن میرے سفارشی ہوجائیں جس میں آپ کے سوا کوئی بھی ایسا شفاعت کرنے والا نہیں جو سواد بن قارب کو فائدہ دے۔)‘‘
اسے امام حاکم، طبرانی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
187 / 8. عَنْ مَازِنِ بْنِ الْغَضُوْبَةِ رضی اﷲ عنه فذکر حديثا طويلا وَفِيْهِ أَنَّهُ أَنْشَدَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم :
إِلَيْکَ رَسُوْلُ اﷲِ خَبَّتْ مَطِيَتِي
تَجُوْبُ الْفَيَافِي مِنْ عُمَانَ إِلَی الْعَرْجِ
لِتَشْفَعَ لِي يَاخَيْرَ مَنْ وَطِيئَ الْحَصَی
فَيَغْفِرَ لِي رَبِّي فَأَرْجِعُ بِالْفَلْجِ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 338، الرقم : 799، والهيثمی في مجمع الزوائد، 8 / 248، وابن عبد البر في الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 / 1344، الرقم : 2245، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 5 / 704، الرقم : 7591.
’’حضرت مازن بن غضوبہ رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوکر آئے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :
(یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اس حال میں کہ میری سواری عمان سے عرج تک کے صحرا و میدان قطع کرتی آئی ہے۔ تاکہ آپ میرے لئے شفاعت کریں، اے وہ بہترین ذات جو کنکریوں پر چلنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ سو میرا رب مجھے بخش دے تاکہ میں کامیاب واپس لوٹوں۔)‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
188 / 9. عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ رضی اﷲ عنهما أَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أُدْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِکَ؟ قَالَ : أَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ.
9 : أخرجه ابن المبارک في الزهد، 1 / 455، الرقم : 1287، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 329، الرقم : 319.
’’حضرت فاطمہ بنتِ حسین رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ مجھے آپ کی شفاعت کا اہل بنائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کثرتِ سجود سے میری مدد کر۔‘‘
اسے عبداللہ بن مبارک نے روایت کیا ہے۔
189 / 10. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَقَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ إِبْرَهِيْمَ لَيَرْغَبُ فِي شَفَاعَتِي.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
10 : أخرجه الديلمی في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 377، الرقم : 7096، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 261، والهندي في کنز العمال، 14 / 413، الرقم : 39112.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ مجھے گمان ہے کہ ابراہیمں ضرور میری شفاعت میں رغبت رکھیں گے۔‘‘
اسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
190 / 11. عَنْ أُبَيٍّ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَثَلِي فِي النَّبِيِّيْنَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَحْسَنَهَا وَأَکْمَلَهَا وَأَجْمَلَهَا وَتَرَکَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِالْبِنَاءِ وَيَتَعَجَّبُوْنَ مِنْهُ وَيَقُوْلُوْنَ : لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَةِ، فَأَنَا خَطِيْبُهُمْ وَصَاحِبُ شَفَاعَتِهِمْ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الْمَقْدِسِيُّ.
11 : أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 392، الرقم : 1191.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری نبیوں میں مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص نے ایک خوبصورت مکان تعمیر کیا اور اُسے مکمل زیب و زینت سے سجایا لیکن مکان کے کسی حصّے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کا مکان دیکھنے آتے اور اس کی خوبصورتی کی داد دیتے اور کہتے جاتے : کاش یہ اینٹ کی جگہ پُر کر دی جاتی؟ پس میں ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو کرنے والا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں اور یہ بات بطور فخر نہیں کہہ رہا۔‘‘
اسے امام مقدسی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved