140 / 1. عَنْ جَابِرٍ رضی اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ بِالشَّفَاعَةِ کَأَنَّهُمُ الثَّعَارِيْرُ. قُلْتُ : مَا الثَّعَارِيْرُ؟ قَالَ : الضَّغَابِيْسُ وَکَانَ قَدْ سَقَطَ فَمُه، فَقُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ : أَبَا مُحَمَّدٍ! سَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ يَقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَخْرُجُ بِالشَّفَاعَةِ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ : نَعَمْ!.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار، 5 / 2399، الرقم : 6190، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 178، الرقم : 191، والطيالسي في المسند، 1 / 236، الرقم : 1703، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 191.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شفاعت کے ذریعے کچھ لوگ دوزخ سے نکلیں گے گویا کہ وہ ثعاریر ہیں۔ میں (یعنی حماد راوی) نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ ثعاریر کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا : سفید ککڑیاں جن کے منہ جھڑ گئے ہوں۔ میں نے عمر و بن دینار سے پوچھا : ابو محمد! کیا آپ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : دوزخ سے لوگ شفاعت کے سبب نکلیں گے؟ انہوں نے کہا : ہاں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
141 / 2. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، يُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّيْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالرُّوْيَانِيُّ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار، 5 / 2401، الرقم : 6198، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الشفاعة، 4 / 236، الرقم : 4740، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 434، الرقم : 19897، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 405، الرقم : 841، والروياني في المسند، 1 / 109، الرقم : 90.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے جہنم سے نکلے گی، پس وہ جنت میں داخل ہوں گے تو (وہاں) انہیں جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔‘‘
اسے امام بخاری، ابوداؤد، احمد، ابنِ ابی عاصم اور رویانی نے روایت کیا ہے۔
142 / 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بَعْدَ مَا مَسَّهُمْ مِنْهَا سَفْعٌ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيُسَمِّيْهِمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ : الْجَهَنَّمِيِّيْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يَعْلَی وَابْنُ منده.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار، 5 / 2399، الرقم : 6191، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 134، الرقم : 12375، وأبو يعلی في المسند، 5 / 267، الرقم : 2886، وابن منده في الإيمان، 2 / 868، الرقم : 921.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم جہنم سے اس حال میں نکلے گی کہ عذاب جہنم کے باعث ان کی جلد سیاہ ہوگی، پس وہ جنت میں داخل ہوں گے تو اہلِ جنت انہیں جہنمی کہہ کر پکاریں گے۔‘‘
اسے امام بخاری، احمد، ابو یعلی اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے۔
143 / 4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِيْنَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا يَمُوْتُوْنَ فِيْهَا وَلَا يَحْيَوْنَ، وَلٰکِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوْبِهِمْ أَوْ قَالَ : بِخَطَيَاهُمْ، فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً. حَتَّی إِذَا کَانُوْا فَحْماً، أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ. فَجِيئَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ. فَبُثُّوْا عَلٰی أَنْهَارِ الْجَنَّةِ. ثُمَّ قِيْلَ : يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! اَفِيْضُوْا عَلَيْهِمْ. فَيَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَکُوْنُ فِي حَمِيْلِ السَّيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : کَأَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ کَانَ بِالْبَادِيَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو يَعْلَی.
4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إثبات الشفاعة وإخراج الموحّدين من النار، 1 / 172، الرقم : 185، وابن ماجة في السنن، أبواب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4309، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 11، الرقم : 11077، وابن حبان في الصحيح، 16 / 530، الرقم : 7485، وأبو يعلی في المسند، 2 / 348، 518، الرقم : 1097، 1370، وأبو عوانة في المسند، 1 / 186.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں رہنے والے دوزخی نہ اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنہیں دوزخ میں ان کے گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے ڈالا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کر دے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کی شفاعت کا حکم ہوگا۔ پس انہیں گروہ در گروہ نکال کر جنت کی نہروں پر پھیلا دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا : جنت والو! ان پر پانی ڈالو تو وہ اس پانی سے اس طرح تر و تازہ ہو کر اٹھیں گے جیسے پانی کے بہاؤ سے آنے والی مٹی میں دانہ سر سبز و شاداب ہو کر نکلتا ہے۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیہات میں بھی رہے ہیں۔‘‘
اسے امام مسلم، ابنِ ماجہ، احمد، ابنِ حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
144 / 5. عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا رضی اﷲ عنه يَقُوْلُ : سَمِعَه مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِأُذُنِه يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ يُخْرِجُ نَاسًا مِنَ النَّارِ فَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
5 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 178، الرقم : 191، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 308، الرقم : 14312، وابن حبان في الصحيح، 16 / 527، الرقم : 7483، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 404، الرقم : 840، وابن منده في الإيمان، 2 / 826، الرقم : 852، إسناده صحيح، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 191.
’’عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے کانوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : یقیناً اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
اسے امام مسلم، احمد، ابنِ حبان اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی اِسناد صحیح ہے۔
145 / 6. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَيَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَتِي، يُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيُّوْنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة جهنم، باب : ما جاء أن للنار نَفْسَيْن وما ذُکِرَ مَنْ يَخْرُجُ من النار من أهل التوحيد، 4 / 715، الرقم : 2600، وابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4315، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 137، الرقم : 287، والعسقلاني في فتح الباري بشرح صحيح البخاري، 11 / 429.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ضرور میری شفاعت کے سبب جہنم سے نکلے گی، پس انہیں جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
146 / 7. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ الْيْمَانِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ يَزِيْدُ : فَقُلْتُ إِنَّ اﷲَ يَقُوْلُ : وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ، قَالَ جَابِرٌ : إِقْرَأْ مَا قَبْلَهَا، (إِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا) [المائدة، 5 : 36]، إِنَّمَا هِيَ فِي الْکُفَّارِ.
رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ.
7 : أخرجه أبو نعيم الأصبهاني في مسند الإمام أبي حنيفة، 1 / 260، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 55، والآلوسي في روح المعاني، 6 / 131.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہلِ ایمان میں سے ایک قوم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کے ذریعے دوزخ سے نکلے گی۔ یزید (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں فرماتا ہے : (اور وہ آگ سے نہیں نکل سکیں گے) [البقرۃ، 2 : 167]، حضرت جابرص نے فرمایا : اس سے قبل تو پڑھ، (بے شک جو لوگ کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں) [المائدۃ، 5 : 36]، یہ آیت صرف کفار کے بارے میں ہے (کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ان کے لیے کوئی شفاعت کرنے والا نہ ہوگا)۔‘‘
اسے امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔
147 / 8. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : يُعَذِّبُ اﷲُ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْيْمَانِ ثُمَّ يُخْرِجُهُمْ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی لَا يَبْقِي إِلَّا مَنْ ذَکَرَهُ اﷲُ تَعَالَی (مَا سَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَ o قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَo) إِلَی قَوْلِهِ... فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِيْنَo) [المدثر، 74 : 42. 48]. رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ.
8 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 1 / 166.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان میں سے ایک قوم کو عذاب میں مبتلا کرے گا، پھر انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے نکالے گا حتی کہ جہنم میں کوئی بھی (مؤمنین میں سے) باقی نہ رہے گا مگر جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ((اور کہیں گے : ) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئیo وہ کہیں گے : ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھےo) یہاں تک فرمایا۔۔۔ سو (اب) شفاعت کرنے والوں کی شفاعت انہیں (یعنی کافروں کو) کوئی نفع نہیں پہنچائے گیo)‘‘
اسے امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔
148 / 9. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ، بَعْدَ مَا مَحَشَتْهُمُ النَّارُ، يُقَالُ لَهُمُ الْجَهَنَّمِيُّوْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. قَالَ الْأَلْبَانِيُّ فِي ’الظِّلَال‘ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، الرقم : 23323، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 402، الرقم : 835.
’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم اس حال میں جہنم سے نکلے گی کہ آگ نے ان کو جلایا ہوگا، پس انہیں جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔‘‘
اسے امام احمد اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے ’ظلال الجنۃ‘ میں کہا ہے : اس کی سند حسن ہے اور اس کے رِجال ثقہ ہیں۔
149 / 10. عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيْبٍ قَالَ : کُنْتُ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ تَکْذِيْباً بِالشَّفَاعَةِ، حَتَّی لَقِيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ کُلَّ يَةٍ ذَکَرَهَا اﷲُ عَزَّوَجَلَّ فِيْهَا خُلُوْدُ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَ : يَاَطلْقُ أَتُرَاکَ أَقْرَأَلکِتَابِ اﷲِ مِنِّي وَأَعْلَمَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاتُّضِعْتُ لَه؟ فَقُلْتُ : لَا وَاﷲِّ! بَلْ أَنْتَ أَقْرَأُ لِکِتَابِ اﷲِ مِنِّي وَأَعْلَمُ بِسُنَّتِه مِنِّي. قَالَ : فَإِنَّ الَّذِي قَرَأْتَ، أَهْلُهَا هُمُ الْمُشْرِکُوْنَ، وَلٰکِنْ قَوْمٌ أَصَابُوْا ذُنُوْبًا فَعُذِّبُوْا بِهَا، ثُمَّ أُخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ، صُمَّتَا، وَأَهْوٰی بِيَدَيْهِ إِلَی أُذُنَيْه. إِنْ لَمْ أَکُنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ. وَنَحْنُ نَقْرَأُ مَا تَقْرَأُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَمَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ وَابْنُ الْجَعْدِ.
10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 330، الرقم : 14534، ومعمر بن راشد في الجامع، 11 / 412، وابن الجعد في المسند، 1 / 486، الرقم : 3384، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 294، الرقم : 323، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 55.
’’طلق بن حبیب روایت کرتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخت شفاعت کو جھٹلانے والا تھا یہاں تک کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے ملا۔ میں نے انہیں ہر وہ آیت پڑھ کر سنائی جس میں اللہ رب العزت نے اہلِ جہنم کا (جہنم میں) ہمیشہ رہنے کا ذکر کیا ہے تو انہوں نے فرمایا : اے طلق! کیا تم مجھ سے زیادہ قرآن مجید پڑھے ہو اور مجھ سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت جانتے ہو کہ میں اس کے آگے سر تسلیمِ خم کروں؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم نہیں! بلکہ آپ مجھ سے زیادہ قرآن مجید پڑھے ہیں اور مجھ سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت جانتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : جن آیات کی تُو نے تلاوت کی ہیں ان کے اہل، مشرکین ہیں، البتہ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے گناہ کیا تو انہیں ان کے سبب عذاب دیا جائے گا پھر انہیں آگ سے نکال ليا جائے گا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ بہرے ہوجائیں اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہو کہ وہ آگ سے نکلیں گے۔ ہم وہی پڑھتے ہیں جو تم پڑھتے ہو۔‘‘
اسے امام احمد، معمر بن راشد اور ابن الجعد نے روایت کیا ہے۔
150 / 11. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وأُعْطِيَ لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ.
وَإِنِّي آتِي بَابَ الْجَنَّةِ، فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا، فَيَقُوْلُوْنَ : مَنْ هٰذَا؟ فَأَقُوْلُ : أَنَا مُحَمَّدٌ. فَيَفْتَحُوْنَ لِي، فَأَدْخُلُ، فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ : اِرْفَعْ رَأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ! وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُوْلَُ : أُمَّتِي، أُمَّتِي، يَارَبِّ! فَيَقُوْلُ : اِذْهَبْ إِلَی أُمَّتِکَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيْرٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ. فَأُقْبِلُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ ذٰلِکَ، فَأُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ.
فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ : اِرْفَعْ رأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ! وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُوْلَُ : أُمَّتِي، أُمَّتِي، أَيْ رَبِّ! فَيَقُوْلُ : اِذْهَبْ إِلَی أُمَّتِکَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ نِصْفَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيْرٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُمُ الْجَنَّةَ. فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذٰلِکَ أُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ.
فَإِذَا الْجَبَّارُ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَه، فَيَقُوْلُ : اِرْفَعْ رأْسَکَ يَا مُحَمَّدُ! وَتَکَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْکَ، وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْکَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُوْلَُ : أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيَقُوْلُ : اِذْهَبْ إِلَی أُمَّتِکَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ الْيْمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذٰلِکَ أَدْخَلْتُهُمُ الْجَنَّةَ.
وَفَرَغَ اﷲُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ، وَأَدْخَلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي النَّارَ مَعَ أَهْلِ النَّارِ، فَيَقُوْلُ أَهْلُ النَّارِ : مَا أَغْنٰی عَنْکُمْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اﷲَ لَا تُشْرِکُوْنَ بِه شَيْءًا؟ فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ : فَبِعِزَّتِي لَأُعْتِقَنَّهُمْ مِنَ النَّارِ. فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ، فَيَخْرُجُوْنَ وَقَدِ امْتَحَشُوْا، فَيَدْخُلُوْنَ فِي نَهْرِ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُوْنَ فِيْهِ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي غُثَائِ السَّيْلِ، وَيُکْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ : هٰؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ، فَيَذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيَقُوْلُ لَهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ : هٰؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُّوْنَ. فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ : بَلْ هٰؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ عَزَّوَجَلَّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْمَرْوَزِيُّ وَابْنُ منده. إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.
11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 144، الرقم : 12469، والدارمي في السنن، 1 / 41، الرقم : 52، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 276، الرقم : 268، وابن منده في الإيمان، 2 / 846، الرقم : 877، هذا حديث صحيح، مشهور عن ابن الهاد، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 323، الرقم : 2345.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن جملہ مخلوقات میں سب سے پہلے میری زمین شق ہو گی اور مجھے کوئی فخر نہیں، حمد کا جھنڈا مجھے تھمایا جائے گا اور مجھے فخر نہیں، قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور مجھے فخر نہیں اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا اور میں یہ بات بھی بطور فخر نہیں کہتا۔
’’میں جنت کے دروازے کے پاس آکر اس کی کنڈی پکڑ لوں گا تو فرشتے پوچھیں گے : یہ کون ہیں؟ میں کہوں گا : میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔ وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے تو میں اندر داخل ہوں گا۔ اللہ جبار میرا استقبال فرمائے گا تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھا لیجیے اور گفتگو کیجئے آپ سے سنا جائے گا، اور کہیے آپ کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں جَو کے دانہ برابر ایمان پائیں اس کو جنت میں داخل کیجئے۔ میں آ کر جس کے دل میں اس طرح ایمان پاؤں گا اس کو جنت میں داخل کروں گا۔
’’پھر اچانک دیکھوں گا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے جلوہ افروز ہیں تو میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھائیے اور گفتگو کیجئے آپ سے سنا جائے گا، اور کہیے آپ کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں آدھے جَو دانہ کے برابر ایمان پائیں اس کو جنت میں داخل کیجئے۔ پس میں جاؤں گا اور جس کے دل میں اتنی مقدار میں ایمان پاؤں گا ان کو جنت میں داخل کروں گا۔
’’پھر اچانک دیکھوں گا کہ اللہ رب العزت میرے سامنے جلوہ افروز ہیں تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھائیے اور گفتگو کیجئے آپ سے سنا جائے گا، اور کہیے آپ کی بات قبول کی جائے گی اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنی امت کے پاس چلے جائیے اور جس کے دل میں رائی کے دانہ برابر ایمان موجود ہو اس کو جنت میں داخل کیجئے، پس میں جاؤں گا اورجن کے دل میں ایمان کی اتنی مقدار پاؤں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا۔
’’اللہ تعالیٰ لوگوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا اور میری امت میں سے باقی جو لوگ بچ جائیں گے وہ دوزخیوں کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے۔ دوزخی لوگ انہیں طعنہ دیں گے : تمہیں اس چیز نے کوئی فائدہ نہیں دیا کہ تم اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے؟ اس پر اللہ رب العزت فرمائے گا : مجھے اپنی عزت کی قسم! میں ان کو ضرور جہنم کی آگ سے نجات دوں گا۔ پس ان کی طرف فرشتہ بھیجے گا تو وہ اس حال میں اس سے نکلیں گے کہ بری طرح جھلس گئے ہوں گے، پھر وہ نہر حیات میں داخل ہوں گے تو اس میں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح پانی کے کنارے دانہ اُگتا ہے۔ ان کے ماتھے کے درمیان لکھ دیا جائے گا یہ ’’عُتَقَاءُ اﷲ‘‘ اللہ کے آزاد کردہ ہیں۔ وہ فرشتہ ان کو لے جائے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔ اہلِ جنت ان کو کہیں گے : یہ لوگ جہنمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ ’’عُتَقَاءُ الْجَبَّار‘‘ اللہ تعالیٰ جبَّار کے آزاد کردہ ہیں۔‘‘
اسے امام احمد، دارمی، مروزی اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد جیّد ہے۔
151 / 12. عَنِ الْمُغِيْرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ، فَيُسَمَّوْنَ فِي الْجَنَّةِ : الْجَهَنَّمِيُّوْنَ، فَيَدْعُوْنَ اﷲَ أَنْ يُحَوِّلَ عَنْهُمْ ذٰلِکَ اْلإسْمَ فَيَمْحُو اﷲُ عَنْهُمْ، فَإِذَا خَرَجُوْا مِنَ النَّارِ نَبَتُوْا کَمَا يَنْبُتُ الرِّيْشُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْکَبِيْرِ.
12 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 346، الرقم : 5507، وأيضاً في المعجم الکبير، 20 / 425، الرقم : 1027، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 379.
’’حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم جہنم سے نکلے گی، پس انہیں جنت میں جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔ وہ اللہ سے عرض کریں گے کہ ان سے یہ نام مٹا دے تو اللہ ان سے (اس نام کو) مٹا دے گا۔ پس جب وہ دوزخ سے نکلیں گے تو (نہر حیات میں نہا کر) اس طرح تروتازہ ہو جائیں گے جیسے پرندے کے نئے پَر اُگتے ہیں۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
152 / 13. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَا تَزَالُ الشَّفَاعَةُ بِالنَّاسِ، وَهُمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ حَتَّی إِنَّ إِبْلِيْسَ الْأَبَالِسِ لَيَتَطَاوَلُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ تُصِيْبَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 215، الرقم : 10513، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 380، وأبو نعيم الأصبهاني في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 4 / 130.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : لوگوں کے ساتھ شفاعت کا معاملہ جاری رہے گا، اور وہ دوزخ سے نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ابلیسوں کا ابلیس بھی اس سے بہرہ ور ہونے کی خواہش کرے گا۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved